Friday 15 March 2013

زکوٰۃ کا بیان



زکوۃ کا حکم



زکوۃ کی فرضیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور اللہ کو بہترین قرض دو ، جو کچھ بھلائی میں سے تم آگے بھیج دو گے ، اس کو اللہ کے پاس بہتر اور اجر میں بڑھا ہوا پاؤ گے۔حوالہ
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ‘’ (المزمل:۲۰)
اور اللہ تعالی نے فرمایا: اور جولوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادیجئے ، جس دن اس دولت کو  جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، جس سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور پیٹھوں کو داغا جائے گا(اور ان سے کہا جائے گا) یہ وہ خزانہ ہے جسے تم اپنے لئے اکھٹا کر کے رکھتے تھے، اپنی جمع شدہ پونجی کا مزا چکھو۔حوالہ
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ،وَلاَیُنفِقُونَہَافِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ،یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْہَا فِیْ نَارِجَہَنَّمَ فَتُکْوَی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنوبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ، ہَـذَا مَا کَنَزْتُمْ لأَنفُسِکُمْ فَذُوقُواْ مَا کُنتُمْ تَکْنِزُونَ(التوبہ:۳۴،۳۵)
        اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جسے اللہ نے مال عطا کیا ہو اور وہ اس کی زکوۃ ادا نہیں کرتا ، اس کے مال کو قیامت کے دن گنجے سانپ کی شکل دی جائے گی ، جس کے آنکھوں پر دو نشانیاں ہوں گے ، اس کو قیامت کے دن اس کا طوق پہنادیا جائے گا، پھر وہ اس کے جبڑوں کو پکڑ لے گا، پھر وہ کہے گا میں تیرا خزانہ ہو ں، میں تیرا مال ہوں،پھر آپ  نے یہ آیت  تلاوت فرمائی:لاَیَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَااتَاھُمُ اللہ مِنْ فَضْلِہٖ۔۔۔۔ الایۃچکھو۔حوالہ
(بخاری، ، بَاب إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ ۱۳۱۵)
زکوۃ کی لغوی و شرعی تعریف
زکوۃ کے لغوی معنی :  پاکی و صفائی اور کسی چیز کے بڑھنے کے ہیں۔حوالہ
زکوٰۃ کے شرعی معنی : کسی مستحق کو مال مخصوص کا مخصوص شرائط کے ساتھ مالک بنانا۔ حوالہ
زکوۃ کے فوائد
(التعريفات:۳۷/۱)
          زکوٰۃ اسلام کے ارکان میں سے اہم رکن ہے، جس سے فقر وفاقہ کا خاتمہ ہوتا ، جس سے مالداروں اور غریبوں کے درمیان محبت اور بھائی چارگی کے راستے مضبوط ہوتے ہیں۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ(بخاري بَاب قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ ۷) عون للفقراء والمحتاجين، تأخذ بأيديهم لاستئناف العمل والنشاط إن كانوا قادرين، وتساعدهم على ظروف العيش الكريم إن كانوا عاجزين، فتحمي المجتمع من مرض الفقر، والدولة من الإرهاق والضعف. (الفقه الاسلامي وادلته حكمة الزكاة ۱۵۴/۳)



زکوٰۃ فرض ہونے کے شرائط



          جب مندرجہ ذیل شرطیں پائی جائیں تو زکوٰۃ فرض ہوگی۔
(۱) مسلمان ہو، کا فرپرزکوٰۃ فرض نہیں ہوگی خواہ وہ کافر اصلی ہو یا اسلام سے مرتد ہوگیا ہو۔حوالہ
 عن أَنَس  أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ هَذَا الْكِتَابَ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْبَحْرَيْنِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَىالمسلمین(بخاري بَاب زَكَاةِ الْغَنَمِ ۱۳۶۲)
(۲)آزاد ہو، غلام پر زکوٰۃ فرض نہ ہوگی۔حوالہ
 عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ :لَيْسَ فِي مَالِ الْعَبْدِ زَكَاةٌ. (مصنف ابن ابي شيبة فِي مَالِ الْعَبْدِ ، مَنْ قَالَ لَيْسَ فِيهِ زَكَاةٌ  ۱۶۱/۳)  عَنْ رَجُلٍ قَالَ :سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ :يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَعَلَى الْمَمْلُوكِ زَكَاةٌ فَقَالَ :لاَ. فَقُلْتُ :عَلَى مَنْ هِىَ فَقَالَ :عَلَى مَالِكِهِ (السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ قَالَ زَكَاةُ مَالِهِ عَلَى مَالِكِهِ وَأَنَّ الْعَبْدَ لاَ يَمْلِكُ ۷۶۰۱)
(۳) بالغ ہو، بچے پر زکوٰۃ فرض نہ ہوگی۔ حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَاالخ ۳۱۵/۱۶)
(۴)عقل مند ہو، مجنون پر زکوٰۃ فرض نہ ہوگی۔حوالہ
 وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَاالخ ۳۱۵/۱۶)
(۵) مکمل مالک ہونا ، مکمل ملکیت کا مطلب یہ ہے کہ ملکیت والی چیز اس کے قبضہ میں ہو، اگر کسی ایسی چیز کا مالک ہو جو اس کے قبضہ میں نہ ہو تو اس میں زکوۃ فرض نہ ہوگی ، جیسا کہ عورت کا مہر، قبضہ سے پہلےوہ اس کی مالک نہیں ہوتی ، لہذا عورت پر اس کے مہر کی زکوٰۃ قبضہ سے پہلے واجب نہیں ہوتی۔حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ ،قَالَتْ :لَيْسَ فِيهِ زَكَاةٌ حَتَّى يَقْبِضَهُ. (مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ لَيْسَ فِي الدَّيْنِ زَكَاةٌ حَتَّى يُقْبَضَ.۱۶۳/۳)
          اسی طرح اس شخص پر جس کے قبضے میں كچھ مال ہو لیکن اس کی ملکیت میں  نہ ہو تو زکوٰۃ نہیں جیسے مقروض کہ اس کے قبضہ میں دوسروں کا مال ہے۔حوالہ
 عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يَقُولُ :هَذَا شَهْرُ زَكَاتِكُمْ فَمَنْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَلْيُؤْدِّ دَيْنَهُ حَتَّى تَحْصُلَ أَمْوَالُكُمْ فَتُؤَدُّونَ مِنْهَا الزَّكَاةَ (السنن الكبري للبيهقي باب الدَّيْنِ مَعَ الصَّدَقَةِ ۷۸۵۶)
(۶)مال مملوک نصاب کی مقدار کو پہنچے، لہذا اس شخص پر جس کا مال نصاب کی مقدار کو نہیں پہنچا زکوٰۃ نہیں، مال کے اختلاف سے نصاب زکوۃ بھی مختلف ہوتا ہے۔حوالہ
 عن أَبي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ (بخاري بَاب مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ ۱۳۱۷) عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ ۵۶۳)
(۷)مال اپنی حاجت اصلیہ سے زیادہ ہو، لہذا رہائشی گھر، جسم کے کپڑے ، گھر کے سامان سواری کے جانور اور استعمال ہونے والے ہتھیار میں زکوۃ فرض نہیں ، اسی طرح اس سازوسامان میں جس سے وہ اپنے پیشے اور کام میں مدد لیتا ہو زکوٰۃ فرض نہیں، اسی طرح علمی کتابیں اگر تجارت کے لئے نہ ہوں تو اس میں زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ، اس لئے کہ یہ چیزیں حوائج اصلیہ میں داخل ہیں۔حوالہ
عن أَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ (بخاري بَاب لَا صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى ۱۳۳۷) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ عَلَى الْمسلم، صَدَقَةٌ فِي عَبْدِهِ وَلَا فِي فَرَسِهِ (بخاري بَاب لَيْسَ عَلَى الْمسلم، فِي عَبْدِهِ صَدَقَةٌ ۱۳۷۱) عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ :لَيْسَ فِي الْعُرُوضِ زَكَاةٌ ، إِلاَّ عُرْضٍ فِي تِجَارَةٍ ، فَإِنَّ فِيهِ زَكَاةٌ. (مصنف ابن ابي شيبة مَا قَالُوا فِي الْمَتَاعِ يَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ ، يَحُولُ عَلَيْهِ الْحَوْلُ ۱۸۳/۳)
 (۸) مال قرض سے خالی ہو، اگر کسی شخص پر اس قدر دین ہو کہ پورے نصاب کو گھیرلے یا اس کو کم کردے تو اس پر زکوۃ فرض نہیں۔حوالہ
 قَالَ ابْنُ عُمَرَ :يَبْدَأُ بِمَا اسْتَقْرَضَ فَيَقْضِيهِ وَيُزَكِّى مَا بَقِىَ. (السنن الكبري للبيهقي باب الدَّيْنِ مَعَ الصَّدَقَةِ ۷۸۵۸)
(۹)مال نامی ہو ، خواہ مال نامی (بڑھنے والا) حقیقتاً ہو جیسے چوپائے یا تقدیراً ہو جیسے سونا اور چاندی یہ دونوں مال نامی میں شمار ہوں گے خواہ یہ سونا چاندی ڈھلے ہوئے ہوں یا نہ ہوں، یا زیور کی شکل میں یا برتن کی شکل میں ہوں، اس میں زکوۃ فرض ہوگی۔ حوالہ
 عن أَبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ مِنْ الْإِبِلِ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ (بخاري بَاب زَكَاةِ الْوَرِقِ ۱۳۵۵) عن أَنَس أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ هَذَا الْكِتَابَ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْبَحْرَيْنِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المسلمین وَالَّتِي أَمَرَ اللَّهُ بِهَا رَسُولَهُ فَمَنْ سُئِلَهَا مِن ْالمسلمین عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَهَا فَلَا يُعْطِ فِي أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ الْإِبِلِ فَمَا دُونَهَا مِنْ الْغَنَمِ مِنْ كُلِّ خَمْسٍ شَاةٌ إِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا الخ (بخاري بَاب زَكَاةِ الْغَنَمِ ۱۳۶۲) عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بِمِثْلِهِ سَوَاءً قَالَتْ كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ (بخاري بَاب الزَّكَاةِ عَلَى الزَّوْجِ وَالْأَيْتَامِ فِي الْحَجْرِ ۱۳۷۳)عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ :لَيْسَ فِى حَجَرٍ زَكَاةٌ إِلاَّ مَا كَانَ لِتِجَارَةٍ مِنْ جَوْهَرٍ وَلاَ يَاقُوتٍ وَلاَ لُؤْلُؤٍ وَلاَ غَيْرِهِ إِلاَّ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ (السنن الكبري للبيهقي باب مَا لاَ زَكَاةَ فِيهِ مِنْ الْجَوَاهِرِ غَيْرِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ ۷۸۴۲)
(۱۰) جواہر میں زکوۃ فرض نہیں ہوتی جیسے موتی ، یاقوت، اور زبر جدجب کہ جواہر تجارت کے لئے نہ ہوں اس لئے کہ یہ نہ حقیقۃً مال نامی ہیں اور نہ حکماً۔حوالہ
 عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ :لَيْسَ فِى حَجَرٍ زَكَاةٌ إِلاَّ مَا كَانَ لِتِجَارَةٍ مِنْ جَوْهَرٍ وَلاَ يَاقُوتٍ وَلاَ لُؤْلُؤٍ وَلاَ غَيْرِهِ إِلاَّ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ (السنن الكبري للبيهقي باب مَا لاَ زَكَاةَ فِيهِ مِنْ الْجَوَاهِرِ غَيْرِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ ۷۸۴۲) 



زکوۃ کی ادائیگی کب واجب ہوگی؟



مسئلہ: زکوۃکی ادائیگی کے واجب ہونے کے لئے نصاب پر قمری سال کا گذرنا شرط ہے۔
   نصاب پر سال گزرنے کا مطلب      
نصاب پر سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ سال کے دو طرف (سال کے شروع اور سال کے اخیر) میں نصاب کامل ہو، خواہ درمیان میں کامل رہے یا نہ رہے۔
مسئلہ:اگر سال کے شروع میں کامل نصاب ہو اسی طرح سال کے گذرنے تک نصاب کامل رہے تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔(بشرطیکہ درمیان سال میں کم ہونے والی مقدار نصاب زکوٰۃ سے کم نہ ہوئی ہو)۔ حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا زَكَاةَ فِي مَالٍ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ (ابن ماجه بَاب مَنْ اسْتَفَادَ مَالًا ۱۷۸۲)
بند
مسئلہ:  اگر سال کے شروع میں نصاب کامل ہو، پھر سال کے درمیان کم ہوجائے؛لیکن نصاب سے کم نہ ہو، پھر سال کے اخیر میں نصاب کامل ہو تو اس میں بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ حوالہ
 عنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا زَكَاةَ فِي مَالٍ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ (ابن ماجه بَاب مَنْ اسْتَفَادَ مَالًا ۱۷۸۲)
مسئلہ: جو شخص سال کے شروع میں نصاب کا مالک ہو پھر سال کے درمیان اسی مال کے جنس سے مال حاصل ہو جائے تو اسے اصلی مال کے ساتھ ملایا جائے گا، پھر پورے مال میں زکوٰۃ واجب ہوگی ،خواہ وہ مال، تجارت سے، ہبہ سے، میراث سے یا کسی دوسرے طریقہ سے حاصل ہوا ہو۔حوالہ
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ زُهَيْرٌ أَحْسَبُهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّه قَالَ هَاتُوا رُبْعَ الْعُشُورِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ شَيْءٌ حَتَّى تَتِمَّ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ فَمَا زَادَ فَعَلَى حِسَابِ ذَلِكَ (ابوداود بَاب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ ۱۳۴۲) عن إبراهيم ، أنه قال :« إن كان لك مال تزكيه فأصبت مالا قبل أن يحول عليه الحول، فزكه معه إذا حال الحول ، فإن لم يكن لك مال ، فلا تزكه حتى يحول عليه الحول مذ يوم أصبته » (الاثار لابي يوسف باب الزكاة ۴۲۶)




زکوٰۃ کی ادائیگی کب صحیح ہوتی ہے؟



مسئلہ: زکوٰۃکی ادائیگی اسی وقت صحیح ہوتی ہے جب کہ فقیر کو مال دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرے یا اس وکیل کو مال  دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرے جو اس مال کو مستحقین زکوٰۃ کے درمیان تقسیم کرتا ہو، یا کل مال سے زکوٰۃ کو الگ کرتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرے، اور اگر مال فقیر کو بغیر نیت کے دے دے پھر اس میں زکوٰۃ کی نیت کرے تو اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ مال غیر کے پاس موجود ہو۔حوالہ
 عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (بخاري بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ ۱)
مسئلہ: زکوٰۃ کی ادائیگی کے صحیح ہونے کیلئے فقیر کو یہ معلوم ہونا شرط نہیں کہ جس مال کو اس نے لیا ہے وہ مال زکوۃ ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر فقیر کو مال دے دے اور اس سے یوں کہے کہ اس نے اسے ہبہ کے طور پر دیا ہے اوراس میں زکوۃ کی نیت کرلے تو زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہو جائے گی۔حوالہ
 وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُم (البقرة:۲۷۱) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمْ اللَّهُ تَعَالَى فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ … وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ (بخاري بَاب الصَّدَقَةِ بِالْيَمِينِ ۱۳۳۴)  عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (بخاري بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ ۱)
مسئلہ:جو شخص اپنے تمام مال کو صدقہ کردے اور اس میں زکوٰۃ کی نیت نہ کرے تو اس سے زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی۔حوالہ
 لِأَنَّ الْوَاجِبَ جُزْءٌ مِنْهُ فَكَانَ مُتَعَيِّنًا فِيهِ فَلَا حَاجَةَ إلَى التَّعْيِينِ (الهداية:۹۵/۱)
مسئلہ: اگر کچھ مال سال پورا ہونے کے بعد ضائع ہو جائے تو اسی حساب سے زکوٰۃ (کی اتنی مقدار) ساقط ہو جائے گی، اس طور پر کہ کسی کے پاس ایک ہزار درہم ہو تو اس میں پچیس درہم واجب ہوں گے، لیکن اگر سال مکمل ہونے کے بعد دوسودرہم ضائع ہو جائیں توزکوٰۃ میں سے پانچ درہم ساقط ہو جائیں گے۔حوالہ
 لِأَنَّ الْوَاجِبَ شَائِعٌ فِي الْكُلِّ فَصَارَ كَهَلَاكِ الْبَعْضِ فَسَقَطَ زَكَاتُهُ (الهداية مع فتح القدير كِتَابُ الزَّكَاةِ  ۴۹۹/۳)
 مسئلہ: اگر کسی شخص کا فقیر کے پاس قرض ہو اور وہ زکوٰۃ کی نیت سے اس کے ذمہ کو بری کردے تو زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح نہ ہوگی، اس لئے کہ مالک بنانا نہیں پایا گیا اور بغیر مالک بنائے زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح نہیں ہوتی۔حوالہ
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا الاية (التوبة:۶۰)




سونا چاندی کی زکوٰۃ



  مسئلہ:  اگر سونا چاندی نصاب کی مقدار کو پہنچ جائیں تو زکوٰۃ واجب ہوگی
سونے چاندی کا نصاب
سونے میں زکوٰۃ کا نصاب بیس مثقال ہے (جو تقریبا ساڑھے ستاسی گرام کے مساوی ہوتا ہے) چاندی میں زکوٰۃ کا نصاب دو سودرہم ہے (جو تقریباً چھ سو ساڑھے بارہ گرام کے مساوی ہوتے ہیں)۔ جو شخص سونا اور چاندی کے نصاب کا مالک ہو تو اس میں سے ربع عشر (یعنی دسویں حصہ کا چوتھائی) زکوۃ میں نکالا جائے گا، (مثلاً چالیس روپیہ میں ایک روپیہ)، اگر سونا ہو تو بیس مثقال میں آدھا مثقال سونا نکالا جائے گا، اور اگر چاندی ہو تو دوسو درہم میں سے پانچ درہم چاندی نکالی جائے گی۔حوالہ
 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِىِّ  صلى الله عليه وسلم  إِنَّ لاِمْرَأَتِى حُلِيًّا مِنْ عِشْرِينَ مِثْقَالاً. قَالَ « فَأَدِّ زَكَاتَهُ نِصْفَ مِثْقَالٍ ». (دارقطني باب « لَيْسَ فِى مَالِ الْمُكَاتَبِ زَكَاةٌ حَتَّى يَعْتِقَ ۱۹۸۵)  عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ ۵۶۳)
         مسئلہ: کھوٹا سونا خالص سونے کے حکم میں ہوتا ہے جب کہ اس میں غالب سونا ہی ہو، کھوٹی چاندی خالص چاندی کے حکم میں ہوتی ہے ، جب کہ اس میں چاندی ہی غالب ہو، ہاں اگر کھوٹ ہی غالب ہو تو کھوٹا سونا کھوٹی چاندی سامان کے حکم میں ہوگی۔ حوالہ
 للأكثر حكم الكل (التقرير والتحرير ۳۱۴/۳)
        نصاب سے کتنا زائد ہونے پر زکوۃ واجب ہوگی 
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نصاب سے زائد میں جب تک زائد نصاب کے پانچویں حصہ کو نہ پہنچ جائے زکوۃ واجب نہیں ہوتی ، امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:نصاب سے زائد میں ربع عشر (یعنی دسویں حصہ کا چوتھائی؛ مثلاً چالیس روپیہ میں ایک روپیہ) واجب ہوگا، خواہ زائد نصاب کے پانچویں حصہ کو پہنچے یا نہ پہنچے، ان ہی کے قول پر فتویٰ ہے۔حوالہ
  عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ زُهَيْرٌ أَحْسَبُهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّه قَالَ هَاتُوا رُبْعَ الْعُشُورِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ شَيْءٌ حَتَّى تَتِمَّ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ فَمَا زَادَ فَعَلَى حِسَابِ ذَلِكَ (ابوداود بَاب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ ۱۳۴۲) قَالَ عَطَاءٌ :لاَ يَكُونُ فِي مَالٍ صَدَقَةٌ حَتَّى يَبْلُغَ عِشْرِينَ دِينَارًا ، فَإِذَا بَلَغَتْ عِشْرِينَ دِينَارًا فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٌ ، وَفِي كُلِّ أَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ يَزِيدُهَا الْمَالُ دِرْهَمٌ ، حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعِينَ دِينَارًا ، وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ دِينَارًا دِينَارٌ ، وَفِي كُلِّ أَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ دِينَارًا نِصْفُ دِينَارٍ وَدِرْهَمٌ. (مصنف ابن ابي شيبة مَا قَالُوا فِي الدَّنَانِيرِ :مَا يُؤْخَذُ مِنْهَا فِي الزَّكَاةِ  ۱۲۰/۳)
        زکوۃ نکالنے میں اختیار
  مالک نصاب کو اختیار ہے چاہے تو سونا چاندی کی زکوٰۃ میں سونا اور چاندی کا ٹکڑا وزن سے نکالے، اگرچاہے تو رائج سکہ سے مقدار زکوٰۃ کی قیمت كا اندازہ كركے نکالے اور اسے شہر میں رائج سکے کی شکل میں نکالا جائے گا، اور اگر چاہے تو سونے اور چاندی کی زکوۃ کے بدلے سامان ، تولی جانے والی چیز یا وزن کی جانے والی چیز قیمت کے اعتبار سے دے۔ حوالہ
 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِىِّ  صلى الله عليه وسلم  إِنَّ لاِمْرَأَتِى حُلِيًّا مِنْ عِشْرِينَ مِثْقَالاً. قَالَ « فَأَدِّ زَكَاتَهُ نِصْفَ مِثْقَالٍ ». (دارقطني باب « لَيْسَ فِى مَالِ الْمُكَاتَبِ زَكَاةٌ حَتَّى يَعْتِقَ ۱۹۸۵) عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ زُهَيْرٌ أَحْسَبُهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّه قَالَ هَاتُوا رُبْعَ الْعُشُورِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ شَيْءٌ حَتَّى تَتِمَّ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ فَمَا زَادَ فَعَلَى حِسَابِ ذَلِكَ (ابوداود بَاب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ ۱۳۴۲) عَنْ طَاوُسٍ قَالَ قَالَ مُعَاذٌ يَعْنِى ابْنَ جَبَلٍ بِالْيَمَنِ :ائْتُونِى بِخَمِيسٍ أَوْ لَبِيسٍ آخُذْهُ مِنْكُمْ مَكَانَ الصَّدَقَةِ فَإِنَّهُ أَهْوَنُ عَلَيْكُمْ ، وَخَيْرٌ لِلْمُهَاجِرِينَ بِالْمَدِينَةِ. عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِى حَازِمٍ عَنِ النَّبِىِّ  صلى الله عليه وسلم  أَنَّهُ رَأَى فِى إِبِلِ الصَّدَقَةِ نَاقَةً كَوْمَاءَ فَسَأَلَ عَنْهَا فَقَالَ الْمُصَدِّقُ :إِنِّى أَخَذْتُهَا بِإِبِلٍ فَسَكَتَ.(السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ أَجَازَ أَخْذَ الْقِيَمِ فِى الزَكَوَاتِ ۷۶۲۲،۷۶۲۵)




سامان کی زکوٰۃ




سونا چاندی اور جانوروں کے علاوہ چیزیں سامان ہیں ، جسے عرض کہتے ہیں اس کی جمع عروض آتی ہے ، سامان میں مندرجہ ذیل شرطوں کے ساتھ زکوۃ واجب ہوتی ہے۔
(۱)سامان والا سامان میں تجارت کی نیت کرے۔حوالہ
 عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنْ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ (ابوداود بَاب الْعُرُوضِ إِذَا كَانَتْ لِلتِّجَارَةِ هَلْ فِيهَا مِنْ زَكَاةٍ ۱۳۳۵)
(۲)سامان تجارت کی قیمت سونا یا چاندی کے نصاب کو پہنچے۔حوالہ
 عَنْ زُرَيْقِ بْنِ حَيَّانَ وَكَانَ زُرَيْقٌ عَلَى جَوَازِ مِصْرَ فِي زَمَانِ الْوَلِيدِ وَسُلَيْمَانَ وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَذَكَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ انْظُرْ مَنْ مَرَّ بِكَ مِنْ المسلمین فَخُذْ مِمَّا ظَهَرَ مِنْ أَمْوَالِهِمْ مِمَّا يُدِيرُونَ مِنْ التِّجَارَاتِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِينَارًا دِينَارًا فَمَا نَقَصَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ حَتَّى يَبْلُغَ عِشْرِينَ دِينَارًا فَإِنْ نَقَصَتْ ثُلُثَ دِينَارٍ فَدَعْهَا وَلَا تَأْخُذْ مِنْهَا شَيْئًا (موطا مالك بَاب زَكَاةِ الْعُرُوضِ ۵۲۸)
مسئلہ: سامانِ تجارت کی زکوۃ نکالنے کے لئے مسلمان تاجر تجارتی  مملوکہ سامان تجارت کا اندازہ لگائے ، اگر اس کی قیمت بازار کی قیمت کے اعتبار سے نصاب کو پہنچ جائے تو اس کی زکوٰۃ ادا کرے ، بایں طور کہ ربع عشر (چالیسواں حصہ یا ڈھائی فیصد) نکالے، اگر سامان کی قیمت سونا اور چاندی کے نصاب کو نہ پہنچے تو اس میں زكوة واجب نہ ہوگی، واضح رہے کہ سامان تجارت کا اندازہ تاجر کے شہر میں رائج سکہ کے اعتبار سے ہوگا، اوراس قیمت میں دکان میں تجارت کیلئے رکھے ہوئے ضروری سازوسامان داخل نہ ہوں گے ۔حوالہ
 عَنْ أَبِى عَمْرِو بْنِ حِمَاسٍ أَنَّ أَبَاهُ قَالَ :مَرَرْتُ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ وَعَلَى عُنُقِى آدَمَةٌ أَحْمِلُهَا فَقَالَ عُمَرُ :أَلاَ تُؤَدِّى زَكَاتَكَ يَا حِمَاسُ فَقُلْتُ :يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا لِى غَيْرُ هَذِهِ الَّتِى عَلَى ظَهْرِى وَآهِبَةٌ فِى الْقَرَظِ فَقَالَ :ذَاكَ مَالٌ فَضَعْ قَالَ فَوَضَعْتُهَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَحَسَبَهَا فَوُجِدَتْ قَدْ وَجَبَتْ فِيهَا الزَّكَاةُ فَأَخَذَ مِنْهَا الزَّكَاةَ. (السنن الكبري للبيهقي باب زَكَاةِ التِّجَارَةِ  ۷۸۵۳) عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنْ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ (ابوداود بَاب الْعُرُوضِ إِذَا كَانَتْ لِلتِّجَارَةِ هَلْ فِيهَا مِنْ زَكَاةٍ ۱۳۳۵) عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِي رَجُلٍ اشْتَرَى مَتَاعًا فَحَلَّتْ فِيهِ الزَّكَاةُ ؟ فَقَالَ :يُزَكِّيه بِقِيمَتِهِ يَوْمَ حَلَّتْ (مصنف ابن ابي شيبة مَا قَالُوا فِي الْمَتَاعِ يَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ ، يَحُولُ عَلَيْهِ الْحَوْلُ ۱۸۳/۳)
مسئلہ: اگر کوئی شخص زمین یا جاگیر یا جانور کا مالک ہو پھر وہ اس میں تجار ت کی نیت کرے تو زکوۃ کا سال اس وقت سے شروع ہوگا جب وہ اس میں بالفعل تجارت شروع کرے۔حوالہ
 عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنْ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ (ابوداود بَاب الْعُرُوضِ إِذَا كَانَتْ لِلتِّجَارَةِ هَلْ فِيهَا مِنْ زَكَاةٍ ۱۳۳۵)، وَلَوْ اشْتَرَى عُرُوضًا لِلْبِذْلَةِ وَالْمِهْنَة ثُمَّ نَوَى أَنْ تَكُونَ لِلتِّجَارَةِ بَعْدَ ذَلِكَ لَا تَصِيرُ لِلتِّجَارَةِ مَا لَمْ يَبِعْهَا فَيَكُونُ بَدَلُهَا لِلتِّجَارَةِ ، فَرْقٌ بَيْنَ هَذَا وَبَيْنَ مَا إذَا كَانَ لَهُ مَالُ التِّجَارَةِ فَنَوَى أَنْ يَكُونَ لِلْبِذْلَةِ حَيْثُ يَخْرُجُ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِلتِّجَارَةِ وَإِنْ لَمْ يَسْتَعْمِلْهُ ؛ لِأَنَّ النِّيَّةَ لَا تُعْتَبَرُ مَا لَمْ تَتَّصِلْ بِالْفِعْلِ وَهُوَ لَيْسَ بِفَاعِلٍ فَعَلَ التِّجَارَةَ فَقَدْ عَزَبَتْ النِّيَّةُ عَنْ فِعْلِ التِّجَارَةِ فَلَا تُعْتَبَرُ لِلْحَالِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ الشَّرَائِطُ الَّتِي تَرْجِعُ إلَى الْمَالِ: ۴۱۰/۳)۔




زکوۃ کی ادائیگی کے اعتبار سے قرض کی قسمیں



 زکوۃ کی ادائیگی کے اعتبار سے قرض کی تین قسمیں ہیں:
(۱) دَین قوی،     (۲) دَین متوسط،     (۳) دَین ضعیف
(۱) دَین قوی: وہ قرض اور مال تجارت کا بدل ہوتا ہے ، جب کہ مقروض قرض کا اعتراف کرتا ہو، اگرچہ وہ مفلس ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح اگر قرضدار انکار کررہا ہو، لیکن قرض خواہ انکار کرنے والے قرضدار پر بینہ (دلیل) قائم کرسکتا ہو۔حوالہ
عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ : أَخَذَ الوَلِيدِ بن عَبْدِ الْمَلِكِ مَالَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الرَّقَّةِ يُقَالُ لَهُ : أَبُو عَائِشَةَ عِشْرِينَ أَلْفًا ، فَأَلقَاهَا فِي بَيْتِ الْمَالِ ، فَلَمَّا وَلِيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَتَاهُ وَلَدُهُ ، فَرَفَعُوا مَظْلِمَتَهُمْ إلَيْهِ ، فَكَتَبَ إلَى مَيْمُونٍ : ادْفَعُوا إلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ، وَخُذُوا زَكَاةَ عَامِهِ هَذَا ، فَلَوْلا أَنَّهُ كَانَ مَالاً ضِمَارًا أَخَذْنَا مِنْهُ زَكَاةَ مَا مَضَى (مصنف ابن ابي شيبة مَا قَالُوا فِي الرَّجُلِ يَذْهَبُ لَهُ الْمَالُ السِّنِينَ ثُمَّ يَجِدُهُ ، فَيُزَكِّيه ؟: ۲۰۲/۳)  ولو كان الدين على مقر ملئ أو معسر تجب الزكاة لإمكان الوصول إليه ابتداء أو بواسطة التحصيل وكذا لو كان على جاحد وعليه بنية أو علم به القاضي لما قلنا (الهداية  كتاب الزكاة: ۹۵/۱)فالقوي:هو بدل القرض ومال التجارة كثمن العروض التجارية، إذا كان على مقرٍّ به ولو مفلساً ، أو على جاحد عليه بينة، (الفقه الاسلامي وادلته زكاة الدين ۱۹۲/۳)۔
         مسئلہ: اگردَین قوی ہو تو قرض خواہ پر زکوۃ نکالنا اس وقت ضروری ہوگا کہ جب چالیس درہم پر قبضہ کرلے، پھر جب چالیس درہم پر قبضہ کرے تو زکوٰۃ میں ایک درہم نکالے ،امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اگر وہ چالیس درہم سے کم پر قبضہ کرے تو اس پر کچھ نکالنا واجب نہیں،امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبضہ شدہ کم ہو یا زیادہ زکوۃ واجب ہوگی۔حوالہ
 عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ :زَكُّوا مَا كَانَ فِى أَيْدِيكُمْ ، وَمَا كَانَ مِنْ دَيْنٍ فِى ثِقَةٍ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ مَا فِى أَيْدِيكُم (السنن الكبري للبيهقي باب زَكَاةِ الدَّيْنِ إِذَا كَانَ عَلَى مُعْسِرٍ أَوْ جَاحِدٍ  ۷۸۷۴)
         مسئلہ: دَین قوی میں سال کا اعتبار اس وقت سے ہوگا جس وقت وہ نصاب کا مالک ہواہو، اس وقت سے نہیں جس وقت وہ قرض پر قبضہ کرے ، چنانچہ گذشتہ سالوں کی بھی زکوٰۃ واجب ہوگی لیکن زکوٰۃ کی ادائیگی قبضہ کے بعد ہی لازم ہوگی۔ حوالہ
عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالاَ :مَنْ أَسْلَفَ مَالاً فَعَلَيْهِ زَكَاتُهُ فِى كُلِّ عَامٍ إِذَا كَانَ فِى ثِقَةٍ. (السنن الكبري للبيهقي باب زَكَاةِ الدَّيْنِ إِذَا كَانَ عَلَى مَلِىٍّ مُوَفِّى ۷۸۷۰) فَتَجِبُ الزَّكَاةُ فِيهِ إلَّا أَنَّهُ لَا يُخَاطَبُ بِالْأَدَاءِ لِلْحَالِ لِعَجْزِهِ عَنْ الْأَدَاءِ لِبُعْدِ يَدِهِ عَنْهُ وَهَذَا لَا يَنْفِي الْوُجُوبَ كَمَا فِي ابْنِ السَّبِيلِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ الشَّرَائِطُ الَّتِي تَرْجِعُ إلَى الْمَالِ: ۴۰۰/۳)۔
 (۲) دَین متوسط: وہ دَین تجارت تو نہیں ہوتا، بلکہ اپنے حوائج اصلیہ میں سے بیچی ہوئی چیز کی قیمت ہوتی ہے جیسے رہائش کا گھر، پہننے کے کپڑے ، غذائی چیزیں اور خریدار کے ذمہ باقی ماندہ قیمت۔حوالہ
  والمتوسط:هو بدل ما ليس للتجارة أي ما ليس دين تجارة كثمن دار السكنى وثمن الثياب المحتاج إليها،  (الفقه الاسلامي وادلته زكاة الدين ۱۹۲/۳)
مسئلہ:  دَین متوسط میں زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوتی جب کہ وہ اس پر مکمل قبضہ کرلے، اگر قرضدار کے ذمہ مثلا ہزار درہم ہوں اور وہ ان میں سے دو سو درہم پر قبضہ کرے تو پانچ درہم نکالنے واجب ہوں گے۔۔حوالہ
  عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ ۵۶۳)
         امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اگر نصاب سے کم مال پر قابض ہو تو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبضہ شدہ میں خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ زکوۃ واجب ہوگی، دَین متوسط میں سال کے گذرنے کا اعتبار اسی وقت سے ہوگا جس وقت وہ نصاب کا مالک ہوا ہو، نہ کہ قبضہ کے وقت، اور گذشتہ سالوں کی زکوۃ واجب ہوگی، لیکن اسکی ادائیگی قبضہ کے بعد ہی لازم ہوگی۔حوالہ
عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالاَ :مَنْ أَسْلَفَ مَالاً فَعَلَيْهِ زَكَاتُهُ فِى كُلِّ عَامٍ إِذَا كَانَ فِى ثِقَةٍ. (السنن الكبري للبيهقي باب زَكَاةِ الدَّيْنِ إِذَا كَانَ عَلَى مَلِىٍّ مُوَفِّى ۷۸۷۰) عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ ۵۶۳) فَتَجِبُ الزَّكَاةُ فِيهِ إلَّا أَنَّهُ لَا يُخَاطَبُ بِالْأَدَاءِ لِلْحَالِ لِعَجْزِهِ عَنْ الْأَدَاءِ لِبُعْدِ يَدِهِ عَنْهُ وَهَذَا لَا يَنْفِي الْوُجُوبَ كَمَا فِي ابْنِ السَّبِيلِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ الشَّرَائِطُ الَّتِي تَرْجِعُ إلَى الْمَالِ: ۴۰۰/۳)
(۳) دَین ضعیف:یہ مال کے علاوہ کسی دوسری چیز کے مقابلہ میں ہوتا ہے ، جیسے عورت کا مہر، اس لئے کہ مہر ايسے مال کے بدلہ میں نہیں ہوتا جسےشوہر نے بیوی سے ليا ہو، اس طرح دین خلع، دين وصيت ،دَین صلح عن دم العمد (جان بوجھ کر قتل کر کے مقتول کے وارثوں سے پیسوں کی ایک مقدار پر صلح کرنا) اور دَین ضعیف میں زکوٰۃ کی ادائیگی اسی وقت ضروری ہوتی ہے جبکہ مکمل نصاب کا مالک ہواور قبضہ کے بعد اس پر سال گذرا ہو ، دَین ضعیف میں گزشتہ سالوں کی زکوۃ واجب نہیں ہوتی ۔حوالہ
 عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ … وَمَا كَانَ مِنْ دَيْنٍ ظَنُونَ فَلاَ زَكَاةَ فِيهِ حَتَّى يَقْبِضَهُ (السنن الكبري للبيهقي باب زَكَاةِ الدَّيْنِ إِذَا كَانَ عَلَى مُعْسِرٍ أَوْ جَاحِدٍ ۷۸۷۴)  عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَوَّلِ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي الذَّهَبِ حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ (ابوداود بَاب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ ۱۳۴۲)والضعيف:هو بدل ما ليس بمال، كالمهر والميراث والوصية وبدل الخلع والصلح عن دم العمد، والدية، فإن المهر ليس بدلاً عن مال أخذه الزوج من زوجته، وكذا بدل الخلع ليس بدلاً عن مال تدفعه الزوجة لزوجها. ومثله دين الوصية، والدية وبدل الصلح، والميراث (الفقه الاسلامي وادلته زكاة الدين ۱۹۲/۳)



ناقابل وصول مال کی زکوٰۃ



 مال ضمار:وہ مال ہوتا ہے جو ملکیت میں تو ہوتا ہے، لیکن اس تک پہنچنا دشوار ہوتا ہے، بایں طورکہ کسی کو قرض دے اور اس پر دلیل قائم کرنے پر قادر نہ ہوسکے پھر ایک مدت کے بعد اس پر قبضہ کرے، اسی طرح کسی شخص نے دوسرے کے مال کو غصب کرلیا اور وہ غاصب پر دلیل قائم نہ کرسکتا ہو؛ پھر غاصب نے اس کو وہ مال ایک مدت کے بعد واپس کردیا، اسی طرح کوئی شخص اپنے مال کو کسی جگہ دفن کردے اور وہ جگہ بھول جائے پھر ایک مدت کے بعد وہ مل جائے ، اسی طرح کسی کے مال پر چھاپہ مارا گیا پھر وہ ایک زمانہ کے بعد اس پر قابض ہو جائے ۔ حوالہ
 وَتَفْسِيرُ مَالِ الضِّمَارِ هُوَ كُلُّ مَالٍ غَيْرُ مَقْدُورٍ الِانْتِفَاعُ بِهِ مَعَ قِيَامِ أَصْلِ الْمِلْكِ كَالْعَبْدِ الْآبِقِ وَالضَّالِّ ، وَالْمَالِ الْمَفْقُودِ ، وَالْمَالِ السَّاقِطِ فِي الْبَحْرِ ، وَالْمَالِ الَّذِي أَخَذَهُ السُّلْطَانُ مُصَادَرَةً ، وَالدَّيْنِ الْمَجْحُودِ إذَا لَمْ يَكُنْ لِلْمَالِكِ بَيِّنَةٌ وَحَالَ الْحَوْلُ ثُمَّ صَارَ لَهُ بَيِّنَةٌ بِأَنْ أَقَرَّ عِنْدَ النَّاسِ ، وَالْمَالِ الْمَدْفُونِ فِي الصَّحْرَاءِ إذَا خَفِيَ عَلَى الْمَالِكِ مَكَانُهُ (بدائع الصنائع فصل الشَّرَائِطُ الَّتِي تَرْجِعُ إلَى الْمَالِ ۴۰۰/۳) عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ رضي الله عنه، قَالَ:إذَا حَضَرَ الْوَقْتُ الَّذِي يُؤَدِّي فِيهِ الرَّجُلُ زَكَاتَهُ أَدَّى عَنْ كُلِّ مَالٍ، وَعَنْ كُلِّ دَيْنٍ، إلَّا مَا كَانَ مِنْهُ ضِمَارًا لَا يَرْجُوهُ (نصب الراية كِتَابُ الزكاة  ۳۳۴/۲)
         مسئلہ: ناقابل حصول مال میں(جو ایک مدت تک قبضہ سے باہر رہا ہے)، گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ حوالہ
 عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِى تَمِيمَةَ السَّخْتِيَانِىِّ :أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ فِى مَالٍ قَبَضَهُ بَعْضُ الْوُلاَةِ ظُلْمًا يَأْمُرُ بِرَدِّهِ إِلَى أَهْلِهِ وَتُؤْخَذُ زَكَاتُهُ لِمَا مَضَى مِنَ السِّنِينَ ، ثُمَّ أَعْقَبَ بَعْدَ ذَلِكَ بِكِتَابٍ أَنْ لاَ تُؤْخَذَ مِنْهُ إِلاَّ زَكَاةٌ وَاحِدَةٌ فَإِنَّهُ كَانَ ضِمَارًا (السنن الكبري للبيهقي باب زَكَاةِ الدَّيْنِ إِذَا كَانَ عَلَى مُعْسِرٍ أَوْ جَاحِدٍ  ۷۸۷۶)  




مصارفِ زکوٰۃ



اللہ تعالی نے قرآن کریم میں آٹھ قسم کے لوگوں کو زکوٰۃ کا مصرف قراردیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:صدقات تو دراصل حق ہے فقیروں کا ،مسکینوں کا اور اُن اہلکاروں کا جو صدقات کی وصولی پر مقرر ہوتے ہیں اور اُن کا جن کی دلداری مقصود ہے، نیز انہیں غلاموں کو آزاد کرنے میں اور قرض داروں کے قرضے اداکرنے میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافروں کی مدد میں خرچ کیا جائے، یہ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے!اور اللہ علم کا بھی مالک ہے،حکمت کا بھی مالک ہے۔  حوالہ
إِنَّمَاالصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ(التوبہ:۶۰)
لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مؤلفۃ قلوبھم کو زکوۃ دینے سے منع کیا ہے اس لئے کہ اسلام طاقتور ہوچکا ہے اور صحابہ میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا، اس قسم کا ساقط ہونا اجماع صحابہ سے ثابت ہوا۔
روي أن عيينة والأقرع جاءا يطلبان أرضاً من أبي بكر فكتب بذلك خطاً فمزقه عمر رضي الله تعالى عنه وقال :هذا شيء يعطيكموه رسول الله صلى الله عليه وسلم تأليفاً لكم فأما اليوم فقد أغز الله تعالى الإسلام وأغني عنكم فإن ثبتم على الإسلام وإلا فبيننا وبينكم السيف . فرجعوا إلى أبي بكر فقالوا :أنت الخليفة أم عمر؟ بذلت لنا الخط ومزقه عمر ، فقال رضي الله تعالى عنه :هو إن شاء ووافقه ، ولم ينكر عليه أحد من الصحابة رضي الله تعالى عنهم مع احتمال أن فيه مفسدة كارتداد بعض منهم وإثارة ثائرة(روح المعاني التوبة:۷۶۰/۲۶۸) عن حبان بن أبي جبلة قال:قال عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه:وأتاه عيينة بن حصن:( الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ )، [سورة الكهف:29]، أي:ليس اليوم مؤلفة.(جامع البيان للطبري ۳۱۵/۱۴)
سات قسم کے لوگ زکوۃ کے مصارف میں باقی رہ گئے ، ہم ہر قسم کی تعریف اور اس کے متعلق احکام نیچے ذکر کریں گے۔
(۱)فقیر:وہ شخص ہوتا ہے جو نصاب سے کم كا مالک ہوتا ہے۔ جو شخص نصاب سے کم کا مالک ہو، اگرچہ صحت مند ہو اور ذریعہ معاش بھی اس کے پاس ہو اس پر زکوۃ کے مال کو صرف کرنا جائز ہے۔ حوالہ
 والفقير على ما روي عن الإمام أبي حنيفة رضي الله تعالى عنه من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة (روح المعاني التوبة:۶۰ ۲۶۶/۷)
(۲)مسکین:جو بالکل کسی چیز کا مالک نہ ہو۔ حوالہ
 والمسكين من لا شيء له  (روح المعاني التوبة:۶۰ ۲۶۶/۷) 
(۳)عامل:وہ شخص ہوتا ہے جو زکوۃ اور عشر کو اکھٹا کرتا ہے ، اس لئے اس زکوۃ کے مال سے اس کی کاركردگی کے بقدر دیا جاتا ہے۔ حوالہ
 وَالْعَامِلُ يَدْفَعُ إلَيْهِ الْإِمَامُ إنْ عَمِلَ بِقَدْرِ عَمَلِهِ فَيُعْطِيهِ مَا يَسَعُهُ وَأَعْوَانُهُ غَيْرَ مُقَدَّرٍ بِالثَّمَنِ (الهداية:۱۱۰/۱) قال أبو جعفر:وأولى الأقوال في ذلك بالصواب، قولُ من قال:يعطى العامل عليها على قدر عُمالته وأجر مثله (جامع البيان للطبري ۳۱۲/۱۴)
(۴)غلام آزاد کرنے میں:وہ مکاتب غلام ہوتا ہے۔یہ قسم اس زمانہ میں نہیں پائی جاتی ، لیکن جب یہ قسم پائی جائے گی تو ان پر زکوۃ صرف کی جائے گی۔ حوالہ
  وفي الرقاب يعان المكاتبون منها في فك رقابهم (الهداية:۱۱۰/۱) عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي عَمَلًا يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ فَقَالَ لَئِنْ كُنْتَ أَقْصَرْتَ الْخُطْبَةَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَةَ أَعْتِقْ النَّسَمَةَ وَفُكَّ الرَّقَبَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَلَيْسَتَا بِوَاحِدَةٍ قَالَ لَا إِنَّ عِتْقَ النَّسَمَةِ أَنْ تَفَرَّدَ بِعِتْقِهَا وَفَكَّ الرَّقَبَةِ أَنْ تُعِينَ فِي عِتْقِهَا (مسند احمد حديث البراء بن عازب رضي الله عنه  ۱۸۶۷۰)
(۵)مقروض:یہ وہ شخص ہے جس کے ذمہ قرض ہو، اپنے قرض کی ادائیگی کے بعد نصاب کامل کا مالک نہ رہ جاتا ہو، مقروض پر قرض کی ادائیگی کے لئے زکوۃ کا صرف کرنا فقیر کو زکوۃ دینے سے بہتر ہے۔ حوالہ
 الْغَارِمُ الَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ أَكْثَرُ مِنْ الْمَالِ الَّذِي فِي يَدِهِ أَوْ مِثْلُهُ أَوْ أَقَلُّ مِنْهُ لَكِنْ مَا وَرَاءَهُ لَيْسَ بِنِصَابٍ . (بدائع الصنائع فَصْلٌ الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُؤَدَّى إلَيْه۲۶/۴)
(۶)اللہ کے راستے میں:یہ وہ محتاج ہوتے ہیں جو اللہ کے راستے میں لگے ہوئے ہیں یا حجاج ہوتے ہیں جو حج کیلئے نکلتے ہیں اور اپنی نقدی رقم کے ختم ہونے کی وجہ سے بیت اللہ کو پہنچ نہیں پاتے ۔ حوالہ
 عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ ابْنِ السَّبِيلِ أَوْ جَارٍ فَقِيرٍ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ فَيُهْدِي لَكَ أَوْ يَدْعُوكَ (ابوداود بَاب مَنْ يَجُوزُ لَهُ أَخْذُ الصَّدَقَةِ وَهُوَ غَنِيٌّ ۱۳۹۴)  عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنِي رَسُولُ مَرْوَانَ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَى أُمِّ مَعْقَلٍ قَالَتْ كَانَ أَبُو مَعْقَلٍ حَاجًّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَتْ أُمُّ مَعْقَلٍ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ عَلَيَّ حَجَّةً فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ حَتَّى دَخَلَا عَلَيْهِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَلَيَّ حَجَّةً وَإِنَّ لِأَبِي مَعْقَلٍ بَكْرًا قَالَ أَبُو مَعْقَلٍ صَدَقَتْ جَعَلْتُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطِهَا فَلْتَحُجَّ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَعْطَاهَا الْبَكْرَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي امْرَأَةٌ قَدْ كَبِرْتُ وَسَقِمْتُ فَهَلْ مِنْ عَمَلٍ يُجْزِئُ عَنِّي مِنْ حَجَّتِي قَالَ عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تُجْزِئُ حَجَّةً (ابوداود بَاب الْعُمْرَةِ ۱۶۹۷)عِبَارَةً عَنْ جَمِيعِ الْقُرَبِ فَيَدْخُلُ فِيهِ كُلُّ مَنْ سَعَى فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَسَبِيلِ الْخَيْرَاتِ إذَا كَانَ مُحْتَاجًا وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ الْمُرَادُ مِنْهُ فُقَرَاءُ الْغُزَاةِ ؛ لِأَنَّ سَبِيلَ اللَّهِ إذَا أُطْلِقَ فِي عُرْفِ الشَّرْعِ يُرَادُ بِهِ ذَلِكَ ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ :الْمُرَادُ مِنْهُ الْحَاجُّ الْمُنْقَطِعُ (بدائع الصنائع فَصْلٌ الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُؤَدَّى إلَيْه۲۶/۴)
(۷) وہ مسافر جس کا اپنے وطن میں مال ہو، لیکن اس کا مال سفر میں ختم ہوچکا ہو ، تو اس پر زکوٰۃ کی اتنی مقدار صر ف کی جائے گی کہ وہ اپنے وطن پہنچ سکے۔جن پر زکوۃ واجب ہے ان کو ان تمام قسموں پر زکوۃ صرف کرنا جائز ہے۔اسی طرح ان کا تمام قسموں کے ہوتے ہوئے صرف ایک قسم پر صرف کرنا بھی جائز ہے ۔ حوالہ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ ابْنِ السَّبِيلِ أَوْ جَارٍ فَقِيرٍ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ فَيُهْدِي لَكَ أَوْ يَدْعُوكَ (ابوداود بَاب مَنْ يَجُوزُ لَهُ أَخْذُ الصَّدَقَةِ وَهُوَ غَنِيٌّ ۱۳۹۴) فَهُوَ الْغَرِيبُ الْمُنْقَطِعُ عَنْ مَالِهِ وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا فِي وَطَنِهِ ؛ لِأَنَّهُ فَقِيرٌ فِي الْحَالِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُؤَدَّى إلَيْه۲۸/۴)




کس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں



(۱)کافر کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔حوالہ
 عن سعيد بن جبير قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :" لا تصدقوا إلا على أهل دينكم " فأنزل الله تعالى :* (ليس عليك هداهم) * إلى قوله :* (وما تفعلوا من خير يوف إليكم) * قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :" تصدقوا على أهل الاديان ". (مصنف ابن ابي شيبة مَا قَالُوا فِي الصَّدَقَةِ فِي غَيْرِ أَهْلِ الإِسْلاَمِ ۶۷/۳)
(۲)مالدار کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔حوالہ
 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ مَنْ لَا تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ  ۵۸۹)
(۳)مالداربچے پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ مَنْ لَا تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ  ۵۸۹)،مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی غنی کوصدقہ لینا جائز نہیں، مطلق کہنے کی وجہ سے صغیر غنی اور کبیر غنی دونوں داخل ہوگئے؛ لہٰذا غنی چاہے جوہو اسے زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔
(۴) بنی ہاشم اور ان کے غلاموں پر زکوۃ صرف کرنا جائز نہیں ہے۔حوالہ
 عن عَبْد الْمُطَّلِبِ بْن رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ اجْتَمَعَ رَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَا وَاللَّهِ لَوْ بَعَثْنَا هَذَيْنِ الْغُلَامَيْنِ قَالَا لِي وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … ثُمَّ قَالَ إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ (مسلم، بَاب تَرْكِ اسْتِعْمَالِ آلِ النَّبِيِّ عَلَى الصَّدَقَةِ ۱۷۸۴) عن أبي رافع، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:"إنا لا تحل لنا الصدقة ومولى القوم من أنفسهم (صحيح ابن حبان ذكر الزجر عن أكل الصدقة المفروضة لآل محمد صلى الله عليه وسلم ۳۲۹۳)
(۵)مالک نصاب کا زکوۃ کو اپنے اصول پر صرف کرنا جائز نہیں  جیسے باپ ، دادا ، اوپر تک۔حوالہ
 عن عَبْد اللَّهِ بْن الْمُخْتَارِ قَالَ قَالَ عَلِىُّ بْنُ أَبِى طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ :لَيْسَ لِوَلَدٍ وَلاَ لِوَالِدٍ حَقٌّ فِى صَدَقَةٍ مَفْرُوضَةٍ (السنن الكبري للبيهقي باب لاَ يُعْطِيهَا مَنْ تَلْزَمُهُ نَفَقَتُهُ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدَيْهِ مِنْ سَهْمِ الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ ۱۳۶۰۹) قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الزَّكَاةَ لَا يَجُوزُ دَفْعُهَا إلَى الْوَالِدَيْنِ لَا يُعْطِي الْوَالِدَيْنِ مِنْ الزَّكَاةِ ، وَلَا الْوَلَدَ وَلَا وَلَدَ الْوَلَدِ ، وَلَا الْجَدَّ وَلَا الْجَدَّةَ وَلَا وَلَدَ الْبِنْتِ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { إنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ } يَعْنِي الْحَسَنَ ، فَجَعَلَهُ ابْنَهُ وَلِأَنَّهُ مِنْ عَمُودَيْ نَسَبِهِ ، فَأَشْبَهَ الْوَارِثَ ، وَلِأَنَّ بَيْنَهُمَا قَرَابَةً جُزْئِيَّةً وَبَعْضِيَّةً ، بِخِلَافِ غَيْرِهَا (المغني باب صدقة الغنم ۲۰۸/۵)
(۶)مالک نصاب کا اپنے فروع پر زکوٰۃ کو صرف کرنا جائز نہیں جیسے ، بیٹا ،پوتا، نیچے تک۔حوالہ
 عن عَبْد اللَّهِ بْن الْمُخْتَارِ قَالَ قَالَ عَلِىُّ بْنُ أَبِى طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ :لَيْسَ لِوَلَدٍ وَلاَ لِوَالِدٍ حَقٌّ فِى صَدَقَةٍ مَفْرُوضَةٍ (السنن الكبري للبيهقي باب لاَ يُعْطِيهَا مَنْ تَلْزَمُهُ نَفَقَتُهُ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدَيْهِ مِنْ سَهْمِ الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ ۱۳۶۰۹) قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الزَّكَاةَ لَا يَجُوزُ دَفْعُهَا إلَى الْوَالِدَيْنِ لَا يُعْطِي الْوَالِدَيْنِ مِنْ الزَّكَاةِ ، وَلَا الْوَلَدَ وَلَا وَلَدَ الْوَلَدِ ، وَلَا الْجَدَّ وَلَا الْجَدَّةَ وَلَا وَلَدَ الْبِنْتِ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { إنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ } يَعْنِي الْحَسَنَ ، فَجَعَلَهُ ابْنَهُ وَلِأَنَّهُ مِنْ عَمُودَيْ نَسَبِهِ ، فَأَشْبَهَ الْوَارِثَ ، وَلِأَنَّ بَيْنَهُمَا قَرَابَةً جُزْئِيَّةً وَبَعْضِيَّةً ، بِخِلَافِ غَيْرِهَا (المغني باب صدقة الغنم ۲۰۸/۵)
(۷) مالک نصاب کا اپنی بیوی پر زکوۃ کے مال کو صرف کرنا جائز نہیں۔اسی طرح بیوی زکوٰۃ اپنے شوہر پر صرف نہیں کرے گی۔ رہے باقی رشتہ دار تو ان پر زکوٰۃ صرف کرنا بہتر ہے۔حوالہ
 وَلَا إلَى امْرَأَتِهِ لِلِاشْتِرَاكِ فِي الْمَنَافِعِ ) قَالَ اللَّهُ تَعَالَى { وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى } أَيْ بِمَالِ خَدِيجَةَ (فتح القدير بَابُ مَنْ يَجُوزُ دَفْعُ الصَّدَقَةِ إلَيْهِ وَمَنْ لَا يَجُوزُ ۲۰۲/۴) عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّدَقَةُ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ وَعَلَى ذِي الْقَرَابَةِ اثْنَتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ (ابن ماجه بَاب فَضْلِ الصَّدَقَةِ ۱۸۳۴) 
(۸)مسجد یا مدرسہ کی تعمیر یا راستہ یا پل کے درست کرنے میں زکوۃ صرف کرنا جائز نہیں۔ میت کو کفنانے یا میت کے قرض کو پورا کرنے میں زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں ، اس لئے کہ ان تمام صورتوں میں تملیک (مالک بنانا) نہیں پايا جاتا اور زکوٰۃ کی ادائیگی بغیر تملیک کے صحیح نہیں ہوتی۔حوالہ
إِنَّمَاالصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ(التوبہ:۶۰) ( قَوْلُهُ لِانْعِدَامِ التَّمْلِيكِ وَهُوَ الرُّكْنُ ) فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَمَّاهَا صَدَقَةً ، وَحَقِيقَةُ الصَّدَقَةِ تَمْلِيكُ الْمَالِ مِنْ الْفَقِيرِ ، (فتح القدير بَابُ مَنْ يَجُوزُ دَفْعُ الصَّدَقَةِ إلَيْهِ وَمَنْ لَا يَجُوزُ ۱۹۵/۴)
بہتریہ ہے کہ زکوۃ  پہلےرشتہ داروں پر پھر پڑوسیوں پر صرف کی جائے۔ حوالہ
         مسئلہ: مکمل نصاب کےبقدر زکوۃ ایک شخص کو دینا مکروہ ہے ، اس طرح کہ کسی شخص کو دو سو درہم یا بیس مثقال دے دے۔حوالہ
 عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ :كَانُوا يَكْرَهُونَ أَنْ يُعْطُوا مِنَ الزَّكَاةِ مَا يَكُونُ رَأْسَ المَالٍ … عَنِ الضَّحَّاكِ ، قَالَ :يُعْطَى مِنْهَا مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمِئَتَيْنِ. (مصنف ابن شيبة مَا قَالُوا فِي الزَّكَاةِ ، قَدْرُ مَا يُعْطِي مِنْهَا ۱۸۰/۳)
مسئلہ:مقروض پر اس کے قرضے کی ادائیگی کیلئے نصاب سے زیادہ صرف کرنا مکروہ نہیں،اس طرح کہ کسی شخص کو قرض پورا کرنے کیلئے ایک ہزار درہم دے تو یہ مکروہ نہیں ہے۔حوالہ
 عن إبراهيم قال :لا يعطي من الصدقة من كان له خمسون درهما ، ولا يعطي منها أحد أكثر من خمسين درهما ، إلا أن يكون غارما عليه دين (مصنف عبد الرزاق باب كم الكنز ؟ ولمن الزكاة ؟ ۱۱۰/۴)
        مسئلہ:  بغیر ضرورت کے ایک جگہ سے دوسری جگہ زکوٰۃ کو منتقل کرنا مکروہ ہے۔حوالہ
 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى الْيَمَنِ … فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ (بخاري بَاب وُجُوبِ الزَّكَاةِ الخ ۱۳۰۸)
         مسئلہ: اپنے رشتہ داروں کیلئے زکوۃ کا منتقل کرنا مکروہ نہیں ۔حوالہ
 عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّدَقَةُ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ وَعَلَى ذِي الْقَرَابَةِ اثْنَتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ (ابن ماجه بَاب فَضْلِ الصَّدَقَةِ ۱۸۳۴)
مسئلہ:ایسے لوگ جو اپنے شہروالوں سے زیادہ زکوٰۃ کے محتاج ہوں زکوۃ کا منتقل کرنا مکروہ نہیں ۔حوالہ
 عَنْ مَيْمُونٍ ، قَالَ :كَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُرْسِلَ بِالصَّدَقَةِ إلَى أَبْنَاءِ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ بِالْمَدِينَةِ (مصنف ابن ابي شيبة مَنْ رَخَّصَ أَنْ يُرْسِلَ بِهَا إلَى بَلَدٍ غَيْرِهِ ۱۶۸/۳)
مسئلہ:زکوٰۃ کو ایسے مصرف میں منتقل کرنا جو مسلمانوں کیلئے نفع بخش ہو مکروہ نہیں جیسے دینی مدارس ۔حوالہ
 عَنْ مَيْمُونٍ ، قَالَ :كَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُرْسِلَ بِالصَّدَقَةِ إلَى أَبْنَاءِ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ بِالْمَدِينَةِ (مصنف ابن ابي شيبة مَنْ رَخَّصَ أَنْ يُرْسِلَ بِهَا إلَى بَلَدٍ غَيْرِهِ ۱۶۸/۳)