Friday 5 April 2013

حج و عمرہ اور قربانی و ذبح کرنے کا بیان

حج کی فرضیت


حج کی فرضیت قرآن وحدیث کی روشنی میں
اللہ تعالی نے فرمایا: جو لوگ بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان لوگوں پر اللہ کے واسطے حج کرنا ہے اور جو ناشکری کرے تو اللہ دونوں جہاں سے بے نیاز ہے۔ حوالہ
وَلِلّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاًوَمَن کَفَرَفَإِنَّ اللہ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْن(اٰل عمران:۹۸)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے واسطے حج کرے اس میں نہ رفث کرے (یعنی عورتوں سے خلط ملط نہ کرے) اور نہ گالی گلوج کرے ، وہ اس طرح لوٹے گا جس دن کہ اس کی ماں نے اس کو جنا ہے۔ حوالہ
مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُث وَلَمْ یَفْسُقْ َرجَعَ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ أُمُّہْ (بخاري بَاب فَضْلِ الْحَجِّ الْمَبْرُورِ ۱۴۲۴)

حج کی لغوی و شرعی تعریف
حج کے لغوی معنی:  مکہ معظمہ کا ارادہ کرنا ہے۔ حوالہ
 (التعريفات:۲۶/۱)
حج کے شرعی معنی: مخصوص جگہ کی مخصوص وقت میں مخصوص طریقے پر زیارت کرنا۔ حوالہ
  (التعريفات:۲۶/۱)
بند
حج کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے ، اس کی فرضیت کے سلسلے میں کسی مسلمان کا اختلاف نہیں ہے۔ حوالہ
  وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (ال عمران:۹۷) وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ (البقرة:۱۹۶)  عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ (بخاري بَاب قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ الخ ۷)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ الْحَجَّ فَحُجُّوا (مسلم، بَاب فَرْضِ الْحَجِّ مَرَّةً فِي الْعُمُرِ ۲۳۸۰)۔




حج فرض ہونے کے شرائط



جب مندرجہ ذیل شرطیں پائی جائیں تو ہر مرد وعورت پر عمر بھر میں ایک مرتبہ حجفرض ہوتا ہے۔ حوالہ
(۱) مسلمان ہونا: کافر پر حج فرض نہیں ۔ حوالہ
 عن أَبي هُرَيْرَةَ قَالَ بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ فِي تِلْكَ الْحَجَّةِ فِي مُؤَذِّنِينَ يَوْمَ النَّحْرِ نُؤَذِّنُ بِمِنًى أَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ (بخاري بَاب مَا يَسْتُرُ مِنْ الْعَوْرَةِ ۳۵۶)
(۲) بالغ ہونا: بچے پر حج فرض نہیں۔ حوالہ
 وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَاالخ ۳۱۵/۱۶) قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَيُّمَا غُلاَمٍ حَجَّ بِهِ أَهْلُهُ فَبَلَغَ مَبْلَغَ الرِّجَالِ فَعَلَيْهِ الْحَجُّ فَإِنْ مَاتَ فَقَدْ قَضَى حَجَّتَهُ (السنن الكبري للبيهقي باب حَجِّ الصَّبِىِّ يَبْلُغُ وَالْمَمْلُوكِ يُعْتَقُ وَالذِّمِّىِّ يُسْلِمُ. ۱۰۱۳۳)
(۳) عقل مند ہونا :  مجنون پر حج واجب نہیں ہے۔ حوالہ
 وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَاالخ ۳۱۵/۱۶)
(۴) آزاد ہونا:غلام پر حج واجب نہیں ہے۔ حوالہ
 وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (ال عمران:۹۷)  قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ  وَأَيُّمَا عَبْدٍ مَمْلُوكٍ حَجَّ بِهِ أَهْلُهُ فَيُعْتَقُ فَعَلَيْهِ الْحَجُّ وَإِنْ مَاتَ فَقَدْ قَضَى حَجَّتَهُ. (السنن الكبري للبيهقي باب حَجِّ الصَّبِىِّ يَبْلُغُ وَالْمَمْلُوكِ يُعْتَقُ وَالذِّمِّىِّ يُسْلِمُ. ۱۰۱۳۳)
(۵) صاحب استطاعت ہونا: غیر صاحب استطاعت پر حج واجب نہیں ۔ حوالہ
 وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (ال عمران:۹۷)
          اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی غیر موجودگی کی مدت میں اپنے اہل وعیال کے نان ونفقہ کے علاوہ توشہ اور سواری کا مالک ہو۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُوجِبُ الْحَجَّ قَالَ الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْحَجِّ بِالزَّادِ وَالرَّاحِلَةِ ۷۴۱)۔



حج کی ادائیگی کے واجب ہونے کی شرطیں



     جب تک مندرجہ ذیل شرائط نہ پائے جائیں ، حج کی ادئیگی واجب نہیں ہوتی۔
(۱) بدن کا صحیح وسالم ہونا، لہذا اپاہج، فالج شدہ اور ایسے بوڑھے پر جو سفر کی قدرت نہ رکھتا ہو حج واجب نہیں ہے۔ حوالہ
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (ال عمران:۹۷)، عَنْ أَبِى أُمَامَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِىِّ  صلى الله عليه وسلم  قَالَ :« مَنْ لَمْ يَحْبِسْهُ مَرَضٌ أَوْ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ وَلَمْ يَحُجَّ فَلْيَمُتْ إِنْ شَاءَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا )السنن الكبري للبيهقي باب إِمْكَانِ الْحَجِّ  ۸۹۲۲)۔
(۲) جانے کی رکاوٹوں کا ختم ہونا، لہذا قیدی اور ایسے بادشاہ سے ڈرنے والے پر جو حج سے روکتا ہو، حج کی ادائیگی ضروری نہیں ہے۔       حوالہ
 عَنْ أَبِى أُمَامَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِىِّ  صلى الله عليه وسلم  قَالَ :« مَنْ لَمْ يَحْبِسْهُ مَرَضٌ أَوْ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ وَلَمْ يَحُجَّ فَلْيَمُتْ إِنْ شَاءَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا )السنن الكبري للبيهقي باب إِمْكَانِ الْحَجِّ  ۸۹۲۲(

(۳) راستہ مامون ہو، لہذا اگر راستہ مامون نہ ہو تو حج کی ادائیگی ضروری نہیں ہے۔حوالہ
 عَنْ أَبِى أُمَامَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِىِّ  صلى الله عليه وسلم  قَالَ :« مَنْ لَمْ يَحْبِسْهُ مَرَضٌ أَوْ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ وَلَمْ يَحُجَّ فَلْيَمُتْ إِنْ شَاءَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا )السنن الكبري للبيهقي باب إِمْكَانِ الْحَجِّ  ۸۹۲۲(
(۴) عورت کے ساتھ شوہر یا اور کوئی محرم ہو، خواہ عورت نوجوان ہو یا بوڑھی ہو، لہذا اگر عورت کے ساتھ شوہر یا کوئی محرم نہ ہو تو حج کرنا واجب نہیں ہے۔حوالہ
 عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ
(بخاري بَاب فِي كَمْ يَقْصُرُ الصَّلَاةَ الخ ۱۰۲۴) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى الْمَدِينَةِ فَقَالَ النَّبِىُّ  صلى الله عليه وسلم  « أَيْنَ نَزَلْتَ ». قَالَ عَلَى فُلاَنَةٍ . قَالَ « أَغْلَقَتْ عَلَيْكَ بَابَهَا لاَ تَحُجَّنَّ امْرَأَةٌ إِلاَّ وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ » (دار قطني الحج ۲۴۶۷)
(۵) عورت عدت گزارنے کی حالت میں نہ ہو، لہذا اگر عورت معتدۂ طلاق یا معتدہ موت ہو تو اس پر حج کی ادائیگی ضروری نہیں ہے        ۔ حوالہ
لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ (الطلاق:۱)



حج کے صحیح ہونے کی شرطیں



          جب تک مندرجہ ذیل شرطیں نہ پائی جائیں حج کی ادائیگی صحیح نہ ہوگی۔
(۱)احرام:لہذا حج کی ادائیگی بغیر احرام کے صحیح نہ ہوگی۔ حوالہ
عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (بخاري بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ ۱)
احرام کا مطلب میقات سے تلبیہ کے ساتھ حج کی نیت کرنا، اور مرد کے لئے سلے ہوئے کپڑوں کا نکال لینا اور بغیر سلے کپڑے پہن لینا ہے۔ اور مستحب یہ ہے کہ ایک لنگی اور چادر ہو۔حوالہ
 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ (بخاري بَاب مَا يُنْهَى مِنْ الطِّيبِ لِلْمُحْرِمِ وَالْمُحْرِمَةِ ۱۷۰۷)۔
اور تلبیہ یوں کہے:لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ،لَبَّیْکْ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ،اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَتَ لَکَ وَالْمُلْکْ لاَشَرِیْکَ لَکْ۔    حوالہ:  (بخاري بَاب التَّلْبِيَةِ ۱۴۴۸)۔

(۲) مخصوص وقت کا ہونا: لہذا حج کے مہینہ سے پہلے یا اس کے بعد حج کی ادائیگی درست نہ ہوگی۔  حوالہ
 الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ (البقرة:۱۹۷)
مسئلہ: حج کے مہینے: شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں، لہذا جو شخص ان سے پہلے طواف کرے یا سعی کرے تو صحیح نہیں ہے۔ اَشہرِ حج سے پہلے کراہت کے ساتھ احرام صحیح ہوتا ہے۔ حوالہ
 وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَشْهُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مِنْ السُّنَّةِ أَنْ لَا يُحْرِمَ بِالْحَجِّ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ (بخاري بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى { الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ } ۴۶۱/۵)
(۳) مخصوص جگہ کا ہونا: وہ وقوف کیلئے عرفات کی جگہ اور طواف زیارت کیلئے مسجد حرام ہے۔
مسئلہ: اگر وقوف کے وقت میں عرفہ کا وقوف فوت ہو جائے تو حج کی ادائیگی صحیح نہیں ہوتی ، اسی طرح اگر وقوف عرفہ کے بعد طواف زیارت فوت ہو جائے تو حج کی ادائیگی صحیح نہیں ہوگی۔ حوالہ
 عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ قَالَ شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُ نَاسٌ فَسَأَلُوهُ عَنْ الْحَجِّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجُّ عَرَفَةُ (نسائي فَرْضُ الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ ۲۹۶۶) وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الحج:۲۹)



احرام کے میقات



میقات:یہ وہ جگہ ہے جہاں باہر سے حج کا ارادہ كركے آنے والوں کیلئے بلااحرام اس جگہ سے آگے بڑھنا جائزنہیں ہوتا۔ حوالہ
  وَالْمُرَاد بِالتَّوْقِيتِ هُنَا التَّحْدِيد وَيُحْتَمَل أَنْ يُرِيد بِهِ تَعْلِيق الْإِحْرَام بِوَقْتِ الْوُصُول إِلَى هَذِهِ الْأَمَاكِن بِالشَّرْطِ الْمُعْتَبَر (عون المعبود بَاب فِي الْمَوَاقِيتِ ۱۳۹/۴)
احرام کی جگہیں جہت کے مختلف ہونے سے مختلف ہوتی ہیں:چنانچہ اہل یمن اور ہندوستان والوں کا میقات یَلَمْلَمْ ہے، اہل مصر، شام اور مغرب والوں کا میقات جُحْفَۃ ہے، اہل عراق اور پورے مشرق والوں کا میقات ذُوْالْحُلَیْفَۃ ہے، اہل نجد کا میقات قَرْن ہے ، لہذا جو شخص بھی ان مواقع سے حج کے ارادہ سے گذرے یا ان جگہوں کے بالمقابل ہو جائے ا س کیلئے احرام ضروری ہے ، بلااحرام اس کیلئے ان جگہوں سے آگے بڑھنا جائز نہیں ہے۔ اہل مکہ کا میقات خود مکہ ہے چاہے وہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا وہ وہاں اقامت پذیر ہوں لہذا وہ حدودحرم سے پہلے پہلے اپنے گھر سے یا جس جگہ سے چاہے احرام باندھ سکتے ہیں۔ حوالہ
 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَّتَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ وَلِأَهْلِ الشَّأْمِ الْجُحْفَةَ وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ هُنَّ لَهُنَّ وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِهِنَّ مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ وَمَنْ كَانَ دُونَ ذَلِكَ فَمِنْ حَيْثُ أَنْشَأَ حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ مِنْ مَكَّةَ (بخاري بَاب مُهَلِّ أَهْلِ مَكَّةَ لِلْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ ۱۴۲۷)



حج کے فرائض



          حج کے صرف دو فرض ہیں:
(۱) ذی الحجہ کی نویں تاریخ کے زوال سے عیدالاضحی کی فجر تک سرزمین عرفہ کا وقوف کرنا۔ اور عرفہ میں ٹہرنے کی فرض مقدار ان دونوں وقتوں کے درمیان ذراسی دیر ٹہرنے سے بھی ادا ہوجاتی ہے۔ حوالہ
 عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِعَرَفَةَ فَسَأَلُوهُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى الْحَجُّ عَرَفَةُ مَنْ جَاءَ لَيْلَةَ جَمْعٍ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ أَدْرَكَ الْإِمَامَ بِجَمْعٍ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ ۸۱۴)
(۲) وقوف عرفہ کے بعد کعبہ کے ارد گرد سات چکر لگانا اس طواف کو طواف زیارت اور طواف افاضہ بھی کہتے ہیں۔ حوالہ
وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الحج:۲۹)عن أَبي سَلَمَةَ بْن عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ :حَجَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  فَأَفَضْنَا يَوْمَ النَّحْرِ وَحَاضَتْ صَفِيَّةُ فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم مِنْهَا مَا يُرِيدُ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِهِ فَقُلْتُ :يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا حَائِضٌ. فَقَالَ :« أَحَابِسَتِى هِىَ ». فَقَالُوا :يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَفَاضَتْ يَوْمَ النَّحْرِ. قَالَ :« أَخْرِجُوهَا » (السنن الكبري للبيهقي باب التَّحَلُّلِ بِالطَّوَافِ إِذَا كَانَ قَدْ سَعَى عُقَيْبِ طَوَافِ الْقُدُومِ ۹۹۲۸) فدل على أن هذا الطواف لا بد منه، وأنه حابس لمن لم يأت به، ولأن الحج أحد النسكين، فكان الطواف ركناً كالعمرة (الفقه الاسلامي وادلته طواف الإفاضة أوالزيارة ۵۱۸/۳)




حج کے واجبات




حج کے واجبات بہت سے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
(۱) میقات سے احرام باندھنا۔ حوالہ
 عَنْ أَبِى الشَّعْثَاءِ :أَنَّهُ رَأَى ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ يَرُدُّ مَنْ جَاوَزَ الْمَوَاقِيتَ غَيْرَ مُحْرِمٍ.
(السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ مَرَّ بِالْمِيقَاتِ يُرِيدُ حَجًّاالخ ۹۱۹۰) 
(۲)وقوف مزدلفہ، گرچہ تھوڑی ہی دیر کیوں نہ ہو، اس کا وقت دسویں ذی الحجہ کی فجر کے بعد سے طلوع آفتاب تک ہوتا ہے۔ حوالہ
فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ (البقرة:۱۹۸) عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ الطَّائِيِّ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُزْدَلِفَةِ حِينَ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي جِئْتُ مِنْ جَبَلَيْ طَيِّئٍ أَكْلَلْتُ رَاحِلَتِي وَأَتْعَبْتُ نَفْسِي وَاللَّهِ مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلَّا وَقَفْتُ عَلَيْهِ فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ شَهِدَ صَلَاتَنَا هَذِهِ وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّى نَدْفَعَ وَقَدْ وَقَفَ بِعَرَفَةَ قَبْلَ ذَلِكَ لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَقَدْ أَتَمَّ حَجَّهُ وَقَضَى تَفَثَهُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ أَدْرَكَ الْإِمَامَ بِجَمْعٍ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ ۸۱۵)
(۳)طواف زیارت کو ایام نحر(قربانی کے دنوں) میں کرنا۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَاضَ يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ رَجَعَ فَصَلَّى الظُّهْرَ بِمِنًى (مسلم، بَاب اسْتِحْبَابِ طَوَافِ الْإِفَاضَةِ يَوْمَ النَّحْرِ ۲۳۰۷) عن أَبي سَلَمَةَ بْن عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ :حَجَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  فَأَفَضْنَا يَوْمَ النَّحْرِ وَحَاضَتْ صَفِيَّةُ فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  مِنْهَا مَا يُرِيدُ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِهِ فَقُلْتُ :يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا حَائِضٌ. فَقَالَ :« أَحَابِسَتِى هِىَ ». فَقَالُوا :يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَفَاضَتْ يَوْمَ النَّحْرِ. قَالَ :« أَخْرِجُوهَا » (السنن الكبري للبيهقي باب التَّحَلُّلِ بِالطَّوَافِ إِذَا كَانَ قَدْ سَعَى عُقَيْبِ طَوَافِ الْقُدُومِ ۹۹۲۸) 
بند
(۴)صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگانا، چکر لگانے کی ابتداء صفا سے ہو اور اختتام مروہ پر ہو۔ حوالہ
عَنْ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِى تِجْرَاةَ قَالَتْ رَأَيْتُ النَّبِىَّ  صلى الله عليه وسلم  يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَيَقُولُ « اسْعَوْا فَإِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَيْكُمُ السَّعْىَ (دارقطني الحج ۲۶۱۵) ثُمَّ خَرَجَ مِنْ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا فَلَمَّا دَنَا مِنْ الصَّفَا قَرَأَ { إِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ } أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ (مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۲۱۳۷)
(۵)اہل مکہ کے علاوہ لوگوں کے لئے طواف صدر،کرنا اس کو طواف وداع بھی کہا جاتا ہے ۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَنْصَرِفُونَ فِي كُلِّ وَجْهٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنْفِرَنَّ أَحَدٌ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ (مسلم، بَاب وُجُوبِ طَوَافِ الْوَدَاعِ وَسُقُوطِهِ عَنْ الْحَائِضِ ۲۳۵۰)۔
(۶)ہر طواف کے بعد دورکعت نماز پڑھنا۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا طَافَ فِي الْحَجِّ أَوْ الْعُمْرَةِ أَوَّلَ مَا يَقْدَمُ سَعَى ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ وَمَشَى أَرْبَعَةً ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ يَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ (بخاري بَاب مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ إِذَا قَدِمَ مَكَّةَ قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّفَا۱۵۱۱)۔
(۷)قربانی کے دنوں میں تینوں جمرات کی رمی کرنا ۔ حوالہ
 عن جَابِر يَقُولُ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي عَلَى رَاحِلَتِهِ يَوْمَ النَّحْرِ وَيَقُولُ لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ(مسلم، بَاب اسْتِحْبَابِ رَمْيِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ رَاكِبًا وَبَيَانِ قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ ۲۲۸۶)
(۸)حرم میں قربانی کے دنوں میں سر کے بالوں کا منڈھوانا یا چھوٹے کرانا۔ حوالہ
 ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ (الحج:۲۹) قَالَ مَالِك التَّفَثُ حِلَاقُ الشَّعْرِ وَلُبْسُ الثِّيَابِ وَمَا يَتْبَعُ ذَلِكَ (موطا مالك كِتَاب  الْحَجِّ ۱۴۷۹)عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى مِنًى فَأَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا ثُمَّ أَتَى مَنْزِلَهُ بِمِنًى وَنَحَرَ ثُمَّ قَالَ لِلْحَلَّاقِ خُذْ وَأَشَارَ إِلَى جَانِبِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْأَيْسَرِ ثُمَّ جَعَلَ يُعْطِيهِ النَّاسَ (مسلم، بَاب بَيَانِ أَنَّ السُّنَّةَ يَوْمَ النَّحْرِ أَنْ يَرْمِيَ ثُمَّ يَنْحَرَ ثُمَّ يَحْلِقَ الخ ۲۲۹۸) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَلِلْمُقَصِّرِينَ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَلِلْمُقَصِّرِينَ قَالَهَا ثَلَاثًا قَالَ وَلِلْمُقَصِّرِينَ (بخاري بَاب الْحَلْقِ وَالتَّقْصِيرِ عِنْدَ الْإِحْلَالِ ۱۶۱۳)
(۹)طواف کی حالت میں حدث اصغر اور اکبر سے پاک صاف ہونا۔ حوالہ
عَنْ رَجُلٍ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ صَلَاةٌ فَأَقِلُّوا مِنْ الْكَلَامِ (نسائي إِبَاحَةُ الْكَلَامِ فِي الطَّوَافِ ۲۸۷۳) عن عَائِشَة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ أَنَّهُ تَوَضَّأَ ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْت (مسلم، بَاب مَا يَلْزَمُ مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى مِنْ الْبَقَاءِ عَلَى الْإِحْرَامِ وَتَرْكِ التَّحَلُّلِ ۲۱۷۳(

(۱۰)ممنوعہ چیزوں کو چھوڑ دینا جیسے سلے ہوئے کپڑے ، سر اور چہرے کا ڈھکنا ، شکار کا قتل کرنا جماع یا دواعی جماع کا اختیار کرنا ، گالی گلوج کرنا اور لڑنا جھگڑنا وغیرہ۔     حوالہ
 لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ (المائدة:۹۵) الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجّ (البقرة:۱۹۷)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ (بخاري بَاب مَا يُنْهَى مِنْ الطِّيبِ لِلْمُحْرِمِ وَالْمُحْرِمَةِ ۱۷۰۷)




حج کی سنتیں



حج کی بہت سی سنتیں ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں:
(۱)احرام کے وقت غسل یا وضو کرنا۔      حوالہ
 عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَجَرَّدَ لِإِهْلَالِهِ وَاغْتَسَلَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الِاغْتِسَالِ عِنْدَ الْإِحْرَامِ ۷۶۰)
(۲) نئی تہہ بند یا چادر کا پہننا یا سفید اور دھلے ہوئے چادروں کا پہننا۔    حوالہ
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا نَادَى فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ مِنْ الثِّيَابِ فَقَالَ لَا يَلْبَسُ السَّرَاوِيلَ وَلَا الْقَمِيصَ وَلَا الْبُرْنُسَ وَلَا الْعِمَامَةَ وَلَا ثَوْبًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا وَرْسٌ وَلْيُحْرِمْ أَحَدُكُمْ فِي إِزَارٍ وَرِدَاءٍ وَنَعْلَيْنِ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَكُونَا أَسْفَلَ مِنْ الْعَقِبَيْنِ (مسند احمد مسند عبد الله بن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما ۴۸۹۹) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمْ الْبَيَاضَ فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِكُمْ (ترمذي بَاب مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ الْأَكْفَانِ ۹۱۵) عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ قَال سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ جَوَادٌ يُحِبُّ الْجُودَ فَنَظِّفُوا أُرَاهُ قَالَ أَفْنِيَتَكُمْ وَلَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي النَّظَافَةِ  ۲۷۲۳)
(۳) احرام کی نیت کرنے کے بعد دورکعت نماز پڑھنا۔ حوالہ
 وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكَعُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ النَّاقَةُ قَائِمَةً عِنْدَ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ أَهَلَّ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ (مسلم، بَاب التَّلْبِيَةِ وَصِفَتِهَا وَوَقْتِهَا ۲۰۳۱)
بند
(۴)کثرت سےتلبیہ کہنا۔ حوالہ
 عَنْ الْفَضْلِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى بَلَغَ الْجَمْرَةَ (مسلم، بَاب اسْتِحْبَابِ إِدَامَةِ الْحَاجِّ التَّلْبِيَةَ الخ ۲۲۴۶)
 (۵) اہل مکہ کے علاوہ دیگر لوگوں کا طواف قدوم کرنا۔ حوالہ
 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ أَتَى الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ مَشَى عَلَى يَمِينِهِ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا(مسلم، بَاب مَا جَاءَ أَنَّ عَرَفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ ۲۱۳۹)
(۶) مکہ میں ٹہرنے کے زمانے میں بکثرت طواف کرنا۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ خَمْسِينَ مَرَّةً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الطَّوَافِ ۷۹۴)
(۷) اضطباع کرنا:وہ یہ ہے کہ طواف شروع کرنے سے پہلے اپنی چادر کے ایک کنارے کو اپنی داہنی بغل کے نیچے کرلے اور دوسرے کنارے کوا پنے بائیں کاندھے پر ڈال لے۔ حوالہ
 عَنْ يَعْلَى  أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ بِالْبَيْتِ مُضْطَبِعًا وَعَلَيْهِ بُرْدٌ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ مُضْطَبِعًا ۷۸۷) الِاضْطِبَاعُ أَنْ يَحْمِلَ وَسَطَ رِدَائِهِ تَحْتَ الْإِبْطِ الْأَيْمَنِ وَيُلْقِي طَرَفَيْهِ عَلَى كَتِفِهِ الْأَيْسَرِ مِنْ جِهَتَيْ صَدْرِهِ وَظَهْرِهِ (تحفة الاحوذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ مُضْطَبِعًا ۴۰۳/۲)
(۸) طواف میں رمل کرنا:رمل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ پہلے تین چکروں میں قدموں کو قریب قریب رکھتے ہوئے اور دونوں کاندھوں کو ہلاتے ہوئے چلے۔ حوالہ
 عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سَعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَشْوَاطٍ وَمَشَى أَرْبَعَةً فِي الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ (بخاري بَاب الرَّمَلِ فِي الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ ۱۵۰۱) الرمل هو أن يمشي في الطواف سريعاً ويهز في مشيته الكتفين، كالمبارز بين الصفين. (التعريفات:۳۶/۱)
(۹) سعی کرنے میں جلدی کرنا:اس طرح کہ ساتوں چکروں میں سے ہر چکر میں میلین اخضرین کے درمیان تیزی سے چلے۔ حوالہ
 فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَوَحَّدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ قَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي سَعَى حَتَّى إِذَا صَعِدَتَا مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ (مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  ۲۱۳۷)
(۱۰) طواف میں  ہر چکر کے ختم پر حجر اسود کو چومنا اور اس کا بوسہ لینا۔ حوالہ
  عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدَعُ أَنْ يَسْتَلِمَ الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ وَالْحَجَرَ فِي كُلِّ طَوْفَةٍ (ابوداود بَاب اسْتِلَامِ الْأَرْكَانِ ۱۶۰۰) عَنْ أَسْلَمَ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَبَّلَ الْحَجَرَ وَقَالَ لَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ،  عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ فَقَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ (بخاري بَاب تَقْبِيلِ الْحَجَرِ ۱۵۰۶،۱۵۰۷)
(۱۱) قربانی کے دنوں میں منیٰ میں رات گزارنا۔ حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مِنًى فَمَكَثَ بِهَا لَيَالِيَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ يَرْمِي الْجَمْرَةَ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ كُلُّ جَمْرَةٍ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ وَيَقِفُ عِنْدَ الْأُولَى وَالثَّانِيَةِ فَيُطِيلُ الْقِيَامَ وَيَتَضَرَّعُ وَيَرْمِي الثَّالِثَةَ وَلَا يَقِفُ عِنْدَهَا (ابوداود بَاب فِي رَمْيِ الْجِمَارِ  ۱۶۸۳)
(۱۲) حج افراد کرنے والے کا ہدی دینا۔حوالہ
ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ (مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  ۲۱۳۷) ثم يذبح تطوعاً إن أحب لأنه مفرد، ثم يحلق أو يقصر بمقدار الأنملة،(الفقه الاسلامي وادلته كيفية الإفراد: ۵۸۵/۳)ويستحب لمن قصد مكة حاجاً أو معتمراً أن يهدي إليها من بهيمة الأنعام، وينحره ويفرقه، لما روي « أن رسول الله صلّى الله عليه وسلم أهدى مئة بدنة »(الفقه الاسلامي وادلته أنواع الهدي وصفته: ۶۵۳/۳)۔





حج کے ممنوعات



مندرجہ ذیل چیزیں محرم کے لئے ناجائز ہیں ، محرم کا ان چیزوں سے بچنا ضروری ہے تاکہ حج ناقص یا فاسد نہ ہو جائے ۔
(۱) جماع اور دواعی جماع ارتکاب کرنا۔ حوالہ
فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ (البقرة:۱۹۷) أي لا جماع ، أو لا فحش من الكلام (روح المعاني ۱۶۴/۲)۔

(۲) حرام کام کا ارتکاب کرنا۔ حوالہ
فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ (البقرة:۱۹۷)۔<

(۳) گالی گلوج کرنا یا جھگڑا کرنا۔ حوالہ
فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ (البقرة:۱۹۷)۔

(۴) خوشبو استعمال کرنا۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ وَقَصَتْ بِرَجُلٍ مُحْرِمٍ نَاقَتُهُ فَقَتَلَتْهُ فَأُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اغْسِلُوهُ وَكَفِّنُوهُ وَلَا تُغَطُّوا رَأْسَهُ وَلَا تُقَرِّبُوهُ طِيبًا فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يُهِلُّ … عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ (بخاري بَاب مَا يُنْهَى مِنْ الطِّيبِ لِلْمُحْرِمِ وَالْمُحْرِمَةِ الخ : ۱۷۰۷’ ۱۷۰۸)عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ وَهُوَ بِالْجِعْرَانَةِ وَأَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ مُقَطَّعَاتٌ يَعْنِي جُبَّةً وَهُوَ مُتَضَمِّخٌ بِالْخَلُوقِ فَقَالَ إِنِّي أَحْرَمْتُ بِالْعُمْرَةِ وَعَلَيَّ هَذَا وَأَنَا مُتَضَمِّخٌ بِالْخَلُوقِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كُنْتَ صَانِعًا فِي حَجِّكَ قَالَ أَنْزِعُ عَنِّي هَذِهِ الثِّيَابَ وَأَغْسِلُ عَنِّي هَذَا الْخَلُوقَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كُنْتَ صَانِعًا فِي حَجِّكَ فَاصْنَعْهُ فِي عُمْرَتِكَ (مسلم بَاب مَا يُبَاحُ لِلْمُحْرِمِ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ وَمَا لَا يُبَاحُ وَبَيَانِ تَحْرِيمِ الطِّيبِ عَلَيْهِ: ۲۰۱۸)۔

(۵) ناخن کاٹنا۔ حوالہ
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الحج: ۲۹) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، قَالَ : التَّفَثُ : حَلْقُ الْعَانَةِ , وَنَتْف الإِبْطِ , وَالأَخْذُ مِنَ الشَّارِبِ , وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ(مصنف ابن ابي شيبة فِي قَوْلِهِ تَعَالَى : {لِيَقْضُوا تَفَثَهُمْ}: ۸۴/۴) وَأَمَّا قَلْمُ الظُّفْرِ فَنَقُولُ : لَا يَجُوزُ لِلْمُحْرِمِ قَلْمُ أَظْفَارِهِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى { ثُمَّ لِيَقْضُوا تَفَثَهُمْ } وَقَلْمُ الْأَظْفَارِ مِنْ قَضَاءِ التَّفَثِ ، رَتَّبَ اللَّهُ تَعَالَى قَضَاءَ التَّفَثِ عَلَى الذَّبْحِ ؛ لِأَنَّهُ ذَكَرَهُ بِكَلِمَةٍ مَوْضُوعَةٍ لِلتَّرْتِيبِ مَعَ التَّرَاخِي بِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ : { لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ثُمَّ لِيَقْضُوا تَفَثَهُمْ } ، فَلَا يَجُوزُ الذَّبْحُ ؛ وَلِأَنَّهُ ارْتِفَاقٌ بِمَرَافِقِ الْمُقِيمِينَ ، وَالْمُحْرِمُ مَمْنُوعٌ عَنْ ذَلِكَ ؛ وَلِأَنَّهُ نَوْعُ نَبَاتٍ اسْتَفَادَ الْأَمْنَ بِسَبَبِ الْإِحْرَامِ فَيَحْرُمُ التَّعَرُّضُ لَهُ كَالنَّوْعِ الْآخَرِ ، وَهُوَ النَّبَاتُ الَّذِي اسْتَفَادَ الْأَمْنَ بِسَبَبِ الْحَرَمِ (بدائع الصنائع فصل مايَجُوزُ لِلْمُحْرِمِ أَنْ يفعله في احرامه: ۱۵۹/۵)۔

(۶) مرد کا سلے ہوئے کپڑے پہننا جیسے کرتا، پائجامہ، جبہ اور موزے اسی طرح سر یا چہرے کو عموما ڈھانکنے میں استعمال کی جانے والی کسی چیز سے ڈھانکنا۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ (بخاري بَاب مَا يُنْهَى مِنْ الطِّيبِ لِلْمُحْرِمِ وَالْمُحْرِمَةِ الخ ۱۷۰۷)۔

(۷) حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ (بخاري بَاب مَا يُنْهَى مِنْ الطِّيبِ لِلْمُحْرِمِ وَالْمُحْرِمَةِ الخ ۱۷۰۷)۔

(۸) سر، یا ڈاڑھی یا بغل یا زیر ناف بالوں کا کاٹنا۔ حوالہ
وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ (البقرة:۱۹۶) وقيس سائر البدن على الرأس؛ لأنه في معناه، إذ حلقه يؤذن بالرفاهية، وهو ينافي الإحرام، والمحرم أشعث أغبر. وقيس النتف والقلع على الحلق؛ لأنهما في معناه، وإنما عبر النص بالحلق لأنه الغالب (الفقه الاسلامي وادلته محظورات الإحرام: ۶۰۳/۳)۔<

(۹) بالوں یا بدن میں تیل لگاناحوالہ
عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ الثَّلَاثَةَ قَالَتْ زَيْنَبُ دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ فَدَعَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ أَوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (بخاري بَاب تُحِدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا: ۴۹۱۸) وَلِأَبِي حَنِيفَةَ مَا رُوِيَ عَنْ أَمِّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهُ لَمَّا نُعِيَ إلَيْهَا وَفَاةُ أَخِيهَا قَعَدَتْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ، ثُمَّ اسْتَدْعَتْ بِزِنَةِ زَيْتٍ وَقَالَتْ : " مَا لِي إلَى الطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ لَكِنِّي سَمِعْت رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : { لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاَللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تَحُدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ إلَّا عَلَى زَوْجِهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا } سَمَّتْ الزَّيْتَ طِيبًا ؛ وَلِأَنَّهُ أَصْلُ الطِّيبِ بِدَلِيلِ أَنَّهُ يُطَيَّبُ بِإِلْقَاءِ الطَّيِّبِ فِيهِ ، فَإِذَا اسْتَعْمَلَهُ عَلَى وَجْهِ الطَّيِّبِ كَانَ كَسَائِرِ الْأَدْهَانِ الْمُطَيِّبَةِ ؛ وَلِأَنَّهُ يُزِيلُ الشَّعَثَ الَّذِي هُوَ عَلَمُ الْإِحْرَامِ وَشِعَارُهُ عَلَى مَا نَطَقَ بِهِ الْحَدِيثُ (بدائع الصنائع فصل تطيب المحرم: ۱۳۰/۵)۔

(۱۰) حرم کے درخت یا حرم کی گھاس کا کاٹنا۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا (بخاري بَاب فَضْلِ الْحَرَمِ الخ۱۴۸۴)۔

(۱۱) جنگل کے وحشی شکاری کو قتل کرنا خواہ اسے کھایا جاتا ہو یا نہ کھایا جاتا ہو۔ حوالہ
 فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ (البقرة:۱۹۷) أي لا جماع ، أو لا فحش من الكلام (روح المعاني ۱۶۴/۲) وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا (المائدة:۹۶) وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ (البقرة:۱۹۶) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَيْدُ الْبَرِّ لَكُمْ حَلَالٌ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ مَا لَمْ تَصِيدُوهُ أَوْ يُصَدْ لَكُمْ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ ۷۷۵)  عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ (بخاري بَاب مَا يُنْهَى مِنْ الطِّيبِ لِلْمُحْرِمِ وَالْمُحْرِمَةِ الخ ۱۷۰۷) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا (بخاري بَاب فَضْلِ الْحَرَمِ الخ۱۴۸۴)



حج کرنے کا طریقہ



      جو شخص حج کرنے کا ارادہ کرے وہ حج کے مہینوں میں مکہ جائے ،جب میقات پر پہنچے یا میقات کے بالمقابل ہو جائے تو غسل کرے، یا وضو کرے، سلے ہوئے کپڑوں کو اتاردے ، تہہ بند اور چادر پہن لے اور دورکعت نماز پڑھے ، حج کی نیت کرے اور اس طرح تلبیہ کہے۔ 
لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ،لَبَّیْکْ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ،اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَتَ لَکَ وَالْمُلْکْ لاَشَرِیْکَ لَکْ۔
         جب تلبیہ کہہ لے تو احرام کی پابندی کرے ، پھر حج کے ممنوعات سے بچے ، نمازوں کے بعد بکثرت تلبیہ کہے اور جب جب بھی بلند جگہ پر چڑھے یا پست جگہ اترے یا کسی قافلہ سے سامنا ہو جائے یا نیند سے بیدار ہو تو تلبیہ کہے ، جب مکہ پہونچ جائے تو مسجد حرام سے ابتداء کرے ، جب بیت اللہ کو دیکھے تو تکبیر اور تہلیل کہے پھر حجر اسود کی طرف سے شروعات کرے اور تکبیر اور تہلیل کہتے ہوئے اس کا سامنا کرے ، اگر ہو سکے تو حجر اسود کو چھوئے اور بوسہ لے ، ورنہ اشارہ سے اس کا استلام کرے، پھر حجر اسود کے دائیں جانب سے شروع کرے اور پھر بیت اللہ کے سات پھیروں (شوط) پر مشتمل طواف کرے ، پہلے تین چکروں میں رمل کرے اور باقی چکروں میں اطمینان وسکون سے چلے ، طواف کی ابتداء حطیم کے پیچھے سے کرے، جب جب بھی حجر اسود کے پاس سے گذرے اس کا استلام کرے اور طواف کو استلام کے ساتھ ختم کرے ، پھر دو رکعت نماز پڑھے ، اس طواف کو طواف قدوم کہا جاتا ہے اور یہ سنت ہے ، پھر صفا پہاڑی پر جائے اور اس کے اوپر چڑھے اور قبلہ  رخ ہو کر تکبیر و تہلیل کہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور اللہ سے دعا کرے ، پھر مروہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اترے ، پھر اس پر چڑھے اور اسی طرح کرے جس طرح صفا پر کیا ہے تو ایک چكر پورا ہوگیا، پھر صفا پرواپس آئے اور وہاں سے اسی طرح مروہ کی طرف چل دے، اسی طرح سات مرتبہ کرے، ساتوں چکروں میں سے ہر چکر میں میلین اخضرین کے درمیان تیزی سے چلے۔
          جب ذوالحجہ کا آٹھواں دن ہو تو فجر کی نماز مکہ میں پڑھے اور وہاں سے منی جائے اور وہاں قیام کرے اور یہ رات وہیں پر گذارے ، نویں تاريخ کے سورج نکلنے کے بعد وہ عرفہ کا دن ہے ۔ منی سے عرفات چلے جائے اور وہاں تکبیر اور تہلیل کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے ٹھہرے ، زوال کے بعد امام لوگوں کو ظہر اور عصر کی نماز ظہر کے وقت میں ایک اذان دو تکبیر کے ساتھ پڑھائے، سورج ڈوبنے تک عرفات میں ٹھہرے رہے پھر مکہ واپس آجائے اور مزدلفہ میں رکے، قربانی کی رات وہیں گذارے امام لوگوں کو مغرب اور عشاء کی نماز عشاء کے وقت میں ایک اذان اور اقامت کے ساتھ پڑھائے۔
          جب دسویں ذی الحجہ کی فجر ہو جائے  ( یہ قربانی کا دن ہے) تو امام لوگوں کو نماز فجر غلس(اندھیرے) میں پڑھائے ، پھر امام اور لوگ وہاں وقوف کریں گے اور دعا کریں گے پھر سورج نکلنے سے پہلے پہلے لوٹ جائیں گے ، جب جمرۂ عقبہ پر پہنچے تو اس کو سات کنکری مارے، پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ ختم کردے، پھر چاہے تو ذبح کرے ، پھر سر کو مونڈھوائے یا بالوں کو چھوٹا کرے، پھر قربانی کے تینوں دنوں کے درمیان مکہ جائے ؛ تاکہ وہاں طواف زیارت کرلے پھر منی واپس آجائے اور وہاں مقیم ہو جائے۔
          جب گیارہویں تاریخ کے دن کا سورج ڈھل جائے تو تینوں جمرات کی رمی کرے ، جمرۂ اولی سے شروعات کرے جو مسجد خیف کے قریب ہے ، اس پر سات کنکریاں مارے، ہر کنکری کے مارنے کے وقت تکبیر کہے ، پھر وہاں ٹھہرارہے اور دعا کرے ، پھر جمرۂ وسطی کی رمی کرے، اور وہاں کھڑا ہوپھر جمرۂ عقبہ کی رمی کرے اور وہاں کھڑا نہ ہو، جب بارہویں دن کا سورج ڈھل جائےتو تینوں جمرات کی اسی طرح رمی کرے جس طرح اس نے کل کیا تھا اور رمی کے دنوں میں منی میں رات گذارے پھر مکہ چلا جائے ، تھوڑی دیر محصب میں ٹھہرے ، پھر مکہ آجائے اور بغیر کسی رمل اور سعی کے بیت اللہ کے سات پھیرے لگائے اس طواف کو طواف وداع کہا جاتا ہے اور طواف صدر بھی کہا جاتا ہے ، طواف کے بعد دورکعت نماز پڑھے ، پھر زمزم کے پاس آئے اس کا پانی کھڑے ہو کر پئے ، پھر ملتزم کے پاس آئے اور اللہ کے سامنے گڑگڑائے اور جو چاہے دعا کرے، اور جب اپنے اہل کے پاس واپسی کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے وہاں سے بیت اللہ کی جدائی پر روتے ہوئے  اور حسرت وندامت کے ساتھ واپس ہو۔ حوالہ
 (مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  ۲۱۳۷، بَاب وُجُوبِ طَوَافِ الْوَدَاعِ وَسُقُوطِهِ عَنْ الْحَائِضِ ۲۳۵۰)




حجِّ قران


قران کی لغوی و اصطلاحی تعریف
قران کے لغوی معنی:دوچیزوں کو جمع کرنا،
قران کے اصطلاحی معنی:ميقات سے حج اور عمرہ دونوں كا ايك ساتھ احرام باندھنا حوالہ
(التعريفات:۵۵/۱)
بند
ہمارے یہاں قران تمتع سے افضل ہے ، اور تمتع افراد سے افضل ہے۔ حوالہ
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَةِ ثُمَّ لَا يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا (بخاري بَاب كَيْفَ تُهِلُّ الْحَائِضُ وَالنُّفَسَاءُ  الخ ۱۴۵۴)عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ شَهِدْتُ عُثْمَانَ وَعَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَعُثْمَانُ يَنْهَى عَنْ الْمُتْعَةِ وَأَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُمَا فَلَمَّا رَأَى عَلِيٌّ
أَهَلَّ بِهِمَا لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ قَالَ مَا كُنْتُ لِأَدَعَ سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِ أَحَدٍ (بخاري بَاب التَّمَتُّعِ وَالْإِقْرَانِ وَالْإِفْرَادِ بِالْحَجِّ وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ ۱۴۶۱) فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ (البقرة:۱۹۶)عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ حَجَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ سَاقَ الْبُدْنَ مَعَهُ وَقَدْ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ مُفْرَدًا فَقَالَ لَهُمْ أَحِلُّوا مِنْ إِحْرَامِكُمْ بِطَوَافِ الْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَقَصِّرُوا ثُمَّ أَقِيمُوا حَلَالًا حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ فَأَهِلُّوا بِالْحَجِّ وَاجْعَلُوا الَّتِي قَدِمْتُمْ بِهَا مُتْعَةً فَقَالُوا كَيْفَ نَجْعَلُهَا مُتْعَةً وَقَدْ سَمَّيْنَا الْحَجَّ فَقَالَ افْعَلُوا مَا أَمَرْتُكُمْ فَلَوْلَا أَنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ لَفَعَلْتُ مِثْلَ الَّذِي أَمَرْتُكُمْ وَلَكِنْ لَا يَحِلُّ مِنِّي حَرَامٌ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَفَعَلُوا (بخاري بَاب التَّمَتُّعِ وَالْإِقْرَانِ وَالْإِفْرَادِ بِالْحَجِّ وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ ۱۴۶۶) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لَمْ يَحِلُّوا حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ (بخاري بَاب التَّمَتُّعِ وَالْإِقْرَانِ وَالْإِفْرَادِ بِالْحَجِّ وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ ۱۴۶۰)
قارن کو اس طرح کے الفاظ کہنا مسنون ہے:اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أُرِیْدُالْعُمْرَۃَوَالْحَجَّ فَیَسِّرْھُمَالِیْ وَتَقَبَّلْھمامِنِّیْ
ترجمہ:اے اللہ میں حج اور عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں اور دونوں کو میرے لئے آسان فرما۔اور ان دونوں کو مجھ سے قبول فرما۔ پھر تلبیہ کہے۔ حوالہ
 عن أَنَس يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا (مسلم، بَاب إِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَدْيِهِ ۲۱۹۵)
حج قران کرنے کا طریقہ
جب قارن مکہ آئے تو عمرہ کے طواف مع سات چکروں سے شروعات کرے صرف پہلے تین چکروں میں رمل کرے، پھر طواف کی دو ركعت نماز پڑھے ، پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے اور میلین اخضرین کے درمیان تیزی سے چلے اور سات چکر پورے کرے ، یہ عمرہ کے افعال ہیں ، پھر اعمال حج کی شروعات کرے ، حج کے لئے طواف قدوم کرے، پھر حج کے اعمال پورے کرے جس طرح اس کی تفصیل گزرچکی ۔ حوالہ
حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ثُمَّ نَفَذَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَرَأَ { وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى } فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ فَكَانَ أَبِي يَقُولُ وَلَا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ إِلَّا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا … حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ فَقَالَ لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً الخ (مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۲۱۳۷)

مسئلہ:جب قربانی کے دن جمرۂ عقبہ کی رمی کرے تو اس کے ذمہ ایک بکری کا یا اونٹ کا ساتواں حصہ ذبح کرنا ضروری ہے، اگر ذبح کے لئے ھدی میسر نہ ہو تو قربانی کے دن سے پہلے تین دن روزہ رکھے اور افعال حج سے فراغت کے بعد سات دن روزہ رکھے، اس کو اختیار ہے چاہے تو مکہ میں ایام تشریق کے بعد روزہ رکھے اور اگر چاہے تو اپنے گھر واپس آنے کے بعد رکھے۔حوالہ
فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ (البقرة:۱۹۶)






حجِّ تمتّع



حج تمتع کا طریقہ
حج تمتع کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھے ، احرام کی دو رکعت نماز کے بعد یوں کہے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ فَیَسِّرْھالِیْ وَتَقَبَّلْھَامِنِّیْ

ترجمہ: اے اللہ میں عمرہ کرنا چاہتا ہوں اس کو میرے لئے آسان فرما اور اس کو میری جانب سے قبول فرما، پھر تلبیہ کہے ، پھر جب مکہ آئے تو عمرہ کا طواف کرے؛ اور اپنے پہلے طواف سے ہی تلبیہ کو ختم کردے؛ پہلے تین چکروں میں رمل کرے پھر طواف کی دورکعت نماز پڑھے ، پھر صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر سعی کرے اور سر کے بال مونڈھوائے یا بالوں کو چھوٹا کرے اور احرام سے حلال ہو جائے ، یہ اس وقت ہے جب کہ ہدی نہ لے گیا ہو، ہاں اگر ہدی لے گیا ہو تو وہ اپنے عمرہ سے حلال نہ ہوگا؛ پھر جب ذوالحجہ کا آٹھواں دن آجائے تو حرم سے حج کا احرام باندھے اور افعال حج کو بجالائے۔حوالہ
 عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ حَجَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ سَاقَ الْبُدْنَ مَعَهُ وَقَدْ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ مُفْرَدًا فَقَالَ لَهُمْ أَحِلُّوا مِنْ إِحْرَامِكُمْ بِطَوَافِ الْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَقَصِّرُوا ثُمَّ أَقِيمُوا حَلَالًا حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ فَأَهِلُّوا بِالْحَجِّ وَاجْعَلُوا الَّتِي قَدِمْتُمْ بِهَا مُتْعَةً فَقَالُوا كَيْفَ نَجْعَلُهَا مُتْعَةً وَقَدْ سَمَّيْنَا الْحَجَّ فَقَالَ افْعَلُوا مَا أَمَرْتُكُمْ فَلَوْلَا أَنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ لَفَعَلْتُ مِثْلَ الَّذِي أَمَرْتُكُمْ وَلَكِنْ لَا يَحِلُّ مِنِّي حَرَامٌ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَفَعَلُوا (بخاري بَاب التَّمَتُّعِ وَالْإِقْرَانِ وَالْإِفْرَادِ بِالْحَجِّ وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ ۱۴۶۶)
مسئلہ: جب قربانی کے دن جمرۂ عقبہ کی رمی کرچکے تو اس کو ایک بکری کا ذبح کرنا یا اونٹ کا ساتواں حصہ دینا لازم ہوگا، لہذااگر وہ شخص بکری ذبح نہ کرسکتا ہو تو قربانی سے پہلے تین دن روزہ رکھے اور افعال حج سے فراغت کے بعد سات دن ، اور اگر وہ تین دن روزہ نہ رکھے ، یہاں تک کہ قربانی کا دن آجائے تو اس پر بکری یا اونٹ کا ساتواں حصہ ذبح کرنا ضروری ہوگا، اس کا روزہ رکھنا اور صدقہ کرنا صحیح نہ ہوگا۔حوالہ
 فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ (البقرة:۱۹۶) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ :إذَا لَمْ يَصُمَ الْمُتَمَتِّعُ فَعَلَيْهِ الْهَدْيُ. … عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ :لاَ بُدَّ مِنْ دَمٍ ، وَلَوْ يَبِيعُ ثَوْبَهُ. (مصنف ابن ابي شيبة فِي الْمُتَمَتِّعِ إذَا فَاتَهُ الصَّوْمُ ۵۲۲،۵۲۳/۳)




عُمرہ



عمرہ:عمر میں ایک مرتبہ سنت مؤکدہ ہے ، جب کہ حج کی ادائیگی کو واجب کرنے والے شرائط پائے جاتے ہوں۔حوالہ
 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَنْ الْعُمْرَةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا وَأَنْ تَعْتَمِرَ خَيْرٌ لَكَ (مسند احمد مسند جابر بن عبد الله رضي الله عنه ۱۴۴۳۷)
عمرہ تمام سال میں صحیح ہوتا ہے البتہ عرفہ کے دن ، قربانی کے دن اور ایام تشریق میں عمرہ کا احرام باندھنا مکروہ ہے۔حوالہ
  عَنْ طَاوُوسٍ ؛ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْعُمْرَةِ ؟ فَقَالَ :إذَا مَضَتْ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ ، فَاعْتَمِرْ مَتَى شِئْتَ إلَى قَابِلٍ. (مصنف ابن ابي شيبة فِي الْعُمْرَةِ ، مَنْ قَال :فِي كُلِّ شَهْرٍ ، وَمَنْ قَالَ :مَتَى مَا شِئْتَ ۴۸۵/۳)۔




عمرہ کے افعال چار ہیں ۔



(۱) احرام باندھنا۔ حوالہ
 عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (بخاري بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ ۱) 
(۲) طواف کرنا۔    حوالہ
 عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ حَجَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ سَاقَ الْبُدْنَ مَعَهُ وَقَدْ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ مُفْرَدًا فَقَالَ لَهُمْ أَحِلُّوا مِنْ إِحْرَامِكُمْ بِطَوَافِ الْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَقَصِّرُوا ثُمَّ أَقِيمُوا حَلَالًا  (بخاري بَاب التَّمَتُّعِ وَالْإِقْرَانِ وَالْإِفْرَادِ بِالْحَجِّ وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ ۱۴۶۶)     
(۳) صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا۔ حوالہ
 عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ حَجَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ سَاقَ الْبُدْنَ مَعَهُ وَقَدْ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ مُفْرَدًا فَقَالَ لَهُمْ أَحِلُّوا مِنْ إِحْرَامِكُمْ بِطَوَافِ الْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَقَصِّرُوا ثُمَّ أَقِيمُوا حَلَالًا  (بخاري بَاب التَّمَتُّعِ وَالْإِقْرَانِ وَالْإِفْرَادِ بِالْحَجِّ وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ ۱۴۶۶)  
(۴) بال مونڈھوانا یا چھوٹے کرانا۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَلِلْمُقَصِّرِينَ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَلِلْمُقَصِّرِينَ قَالَهَا ثَلَاثًا قَالَ وَلِلْمُقَصِّرِينَ (بخاري بَاب الْحَلْقِ وَالتَّقْصِيرِ عِنْدَ الْإِحْلَالِ ۱۶۱۳)

عمرہ کرنے کا طریقہ
جو شخص عمرہ کا ارادہ کرے اگر وہ مکہ میں ر ہتا  ہو تو حِل چلا جائے خواہ مکہ کا باشندہ ہو یا وہاں مقیم ہو،جو شخص مکہ سے دور ہو اور مکہ میں داخل نہ ہو اگر وہ مکہ آنا چاہے تو میقات سے احرام باندھے پھر عمرہ کے لئے طواف اور سعی کرے پھر سر کے بال مونڈھوائے یا بال چھوٹے کروائے اور عمرہ سے حلال ہو جائے۔ حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  … قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَحِضْتُ فَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ وَأَرْجِعُ أَنَا بِحَجَّةٍ قَالَ وَمَا طُفْتِ لَيَالِيَ قَدِمْنَا مَكَّةَ قُلْتُ لَا قَالَ فَاذْهَبِي مَعَ أَخِيكِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي بِعُمْرَةٍ ثُمَّ مَوْعِدُكِ كَذَا وَكَذَا الخ (بخاري بَاب التَّمَتُّعِ وَالْإِقْرَانِ وَالْإِفْرَادِ بِالْحَجِّ وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ ۱۴۵۹)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ قَائِمَةً عِنْدَ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ أَهَلَّ فَقَالَ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ قَالُوا وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ هَذِهِ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مسلم، بَاب التَّلْبِيَةِ وَصِفَتِهَا وَوَقْتِهَا ۲۰۳۰)


==============================================================

جنایات اور ان کی سزا



جنایت کا معنی اور اس کی قسمیں



جنایت:حرم میں يا حالتِ احرام میں جس کام کے کرنے سے روکا گیا ہو اس کا ارتكاب  كرنا۔حوالہ
 (التعريفات:۲۵/۱)
جنایت کی دو قسمیں ہیں:(۱) حرم کی جنایت        (۲) احرام کی جنایت



حَرم کی جنایت



حرم کی جنایت یہ ہے کہ حرم کے کسی شکار کو قتل کردے، یا اس کی طرف اشارہ کرے، یا اس کی رہنمائی کرے، یا کوئی حرم کے درخت ، یا اس کی گھاس کو کاٹے یا اکھاڑے تو یہ حرم کی جنایت ہے خواہ اس کا مرتکب مُحْرِمْ ہو یا حلال ہو، ان دونوں میں سے ہر ایک پر جزاء ہے۔ حوالہ
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَيْدُ الْبَرِّ لَكُمْ حَلَالٌ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ مَا لَمْ تَصِيدُوهُ أَوْ يُصَدْ لَكُمْ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ ۷۷۵) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا (بخاري بَاب فَضْلِ الْحَرَمِ  الخ۱۴۸۴)۔
          مسئلہ: اگر کسی نے حرم کے وحشی جانور کا شکار کیا اور اس کو ذبح کیا تو اس کا کھانا جائز نہیں ، اس کو مردار شمار کیا جائے گاخواہ اس کو محرم نے شکار کیا ہو یا حلال نے کیا ہو۔ حوالہ
  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ(المائدة: ۹۵)وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا (المائدة: ۹۶) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا (بخاري بَاب فَضْلِ الْحَرَمِ  الخ۱۴۸۴)مذکورہ نصوص کی وجہ سے حرم میں محرم وحلال کے شکار اور ذبیحہ کو فقہاء کرام نے مردار قرار دیا اور مردار کا کھانا جائز نہیں۔   وَهَذَا يَتَنَاوَلُ صَيْدَ الْإِحْرَامِ وَالْحَرَمِ جَمِيعًا ؛ لِأَنَّهُ يُقَالُ أَحْرَمَ إذَا دَخَلَ فِي الْإِحْرَامِ ، وَأَحْرَمَ إذَا دَخَلَ فِي الْحَرَمِ (بدائع الصنائع فصل مَحْظُورَاتُ الْحَرَمِ منها الحرم: ۲۰۹/۵)( قَوْلُهُ : وَلَوْ ذَبَحَ مُحْرِمٌ صَيْدًا حَرُمَ ) أَيْ فَهُوَ مَيْتَةٌ ؛ لِأَنَّ الذَّكَاةَ فِعْلٌ مَشْرُوعٌ ، وَهَذَا فِعْلٌ حَرَامٌ فَلَا يَكُونُ ذَكَاةً كَذَبِيحَةِ الْمَجُوسِيِّ فَأَفَادَ أَنَّهُ يَحْرُمُ عَلَى الْمُحْرِمِ وَالْحَلَالِ ، وَأَشَارَ إلَى أَنَّ الْحَلَالَ لَوْ ذَبَحَ صَيْدَ الْحَرَمِ فَإِنَّهُ يَكُونُ مَيْتَةً أَيْضًا كَمَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ (البحر الرائق فَصْلٌ إنْ قَتَلَ مُحْرِمٌ صَيْدًا أَوْ دَلَّ عَلَيْهِ مَنْ قَتَلَهُ: ۲۷۷/۷)وَفِي اللُّبَابِ : إذَا ذَبَحَ مُحْرِمٌ أَوْ حَلَالٌ فِي الْحَرَمِ صَيْدًا فَذَبِيحَتُهُ مَيْتَةٌ عِنْدَنَا لَا يَحِلُّ أَكْلُهَا لَهُ وَلَا لِغَيْرِهِ مِنْ مُحْرَمٍ أَوْ حَلَالٍ سَوَاءٌ اصْطَادَهُ هُوَ أَيْ ذَابِحُهُ أَوْ غَيْرُهُ مُحْرِمٌ أَوْ حَلَالٌ وَلَوْ فِي الْحِلِّ ، فَلَوْ أَكَلَ الْمُحْرِمُ الذَّابِحُ مِنْهُ شَيْئًا قَبْلَ أَدَاءِ الضَّمَانِ أَوْ بَعْدَهُ فَعَلَيْهِ قِيمَةُ مَا أَكَلَ ، وَلَوْ أَكَلَ مِنْهُ غَيْرُ الذَّابِحِ فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ ، وَلَوْ أَكَلَ الْحَلَالُ مِمَّا ذَبَحَهُ فِي الْحَرَمِ بَعْدَ الضَّمَانِ لَا شَيْءَ عَلَيْهِ لِلْأَكْلِ ، وَلَوْ اصْطَادَ حَلَالٌ فَذَبَحَ لَهُ مُحْرِمٌ أَوْ اصْطَادَ مُحْرِمٌ فَذَبَحَ لَهُ حَلَالٌ فَهُوَ مَيْتَةٌ .ا هـ .وَقَالَ شَارِحُهُ الْقَارِي : اعْلَمْ أَنَّهُ صَرَّحَ غَيْرُ وَاحِدٍ كَصَاحِبِ الْإِيضَاحِ وَالْبَحْرِ الزَّاخِرِ وَالْبَدَائِعِ وَغَيْرِهِمْ بِأَنَّ ذَبْحَ الْحَلَالِ صَيْدَ الْحَرَمِ يَجْعَلُهُ مَيْتَةً لَا يَحِلُّ أَكْلُهُ وَإِنْ أَدَّى جَزَاءَهُ مِنْ غَيْرِ تَعَرُّضٍ لِخِلَافٍ .وَذَكَرَ قَاضِي خَانْ أَنَّهُ يُكْرَهُ أَكْلُهُ تَنْزِيهًا .وَفِي اخْتِلَافِ الْمَسَائِلِ : اخْتَلَفُوا فِيمَا إذَا ذَبَحَ الْحَلَالُ صَيْدًا فِي الْحَرَمِ ؛ فَقَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ : لَا يَحِلُّ أَكْلُهُ .وَاخْتَلَفَ أَصْحَابُ أَبِي حَنِيفَةَ ؛ فَقَالَ الْكَرْخِيُّ : هُوَ مَيْتَةٌ ، وَقَالَ غَيْرُهُ هُوَ مُبَاحٌ .(رد المحتار بَابُ الْجِنَايَاتِ: ۴۸۶/۸)۔
مسئلہ:جب حلال شخص حرم کے جانور کا شکار کرے تو اس کے ذمہ اس کی قیمت لازم ہوگی جسے وہ فقراء پر صدقہ کردے گا ، روزہ قیمت کے قائم مقام نہیں ہوسکتا حوالہ۔
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي بَيْضِ النَّعَامِ يُصِيبُهُ الْمُحْرِمُ ثَمَنُهُ(ابن ماجه بَاب جَزَاءِ الصَّيْدِ يُصِيبُهُ الْمُحْرِمُ۳۰۷۷ (

مسئلہ:اگر کوئی حرم کے درخت یا اس کے گھاس کو اکھاڑے تو اس کے ذمہ قیمت کی ادائیگی ضروری ہوگی ، خواہ وہ کاٹنے والا محرم ہو یا حلال ہو، ہاں ! اگرحرم کی گھاس خیمہ کھڑا کرنے یا چولہا کھودنے کے لئے کاٹے تو یہ جائز ہے ؛ اس لئے کہ اس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ حوالہ
  عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ يَوْمَ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ إِنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنْ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرًا (بخاري بَاب مَنْزِلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ  ۳۹۵۷) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَرَّمَ اللَّهُ مَكَّةَ فَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا لِأَحَدٍ بَعْدِي أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ فَقَالَ الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَّا الْإِذْخِرَ لِصَاغَتِنَا وَقُبُورِنَا فَقَالَ إِلَّا الْإِذْخِرَ (بخاري بَاب الْإِذْخِرِ وَالْحَشِيشِ فِي الْقَبْرِ  ۱۲۶۲)  الضرورات تبيح المحضورات  (القوائد والظوابط الفقهية المتضمنة  ۵۰/۱) فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ (المائدة:۹۵)۔




احرام کی جنایت




احرام کی جنایت یہ ہے کہ محرم احرام کی حالت میں ممنوعات حج میں سے کسی ممنوع چیز کا ارتکاب کرے ، یاحج کے واجبات میں سے کسی واجب کو چھوڑدے۔
احرام کی جنایت کی چھ قسمیں ہیں:
(۱) وہ جنایت ہے جس کے ارتکاب کرنے سے حج فاسد ہوتا ہے
اور دم دینے یا روزہ رکھنے یا صدقہ کرنے سے اس کی تلافی نہیں ہوسکتی ، وہ وقوف عرفہ سے پہلے جماع کرنا۔ لہذا جس شخص نے وقوف عرفہ سے پہلے جماع کیا اس کا حج فاسد ہوگیا، اس کے ذمہ بکری کا ذبح کرنا ہے اور اس پر آئندہ سال اس حج کی قضاء لازم ہے۔حوالہ
 عن يزيد بن نعيم أو زيد بن نعيم   شك أبو توبة   أن ، رجلا ، من جذام جامع امرأته وهما محرمان ، فسأل الرجل رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال :لهما :« اقضيا نسككما واهديا هديا (مراسيل ابي داود باب في الحج ۱۲۹)
(۲) وہ جنایت جس کے ارتکاب کرنے سے بَدَنہ واجب ہوتا ہے اور وہ دو ہیں۔
(الف) وقوف عرفہ کے بعد سر کے بال مونڈھوانے سے پہلے جماع کرنا۔ جس شخص نے وقوف عرفہ کے بعد سر کے بال مونڈھوانے سے پہلے جماع کیا اس پر ایک اونٹ یا ایک گائے کا ذبح کرنا واجب ہے۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ وَقَعَ بِأَهْلِهِ وَهُوَ بِمِنًى قَبْلَ أَنْ يُفِيضَ فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْحَرَ بَدَنَةً (موطا مالك بَاب هَدْيِ مَنْ أَصَابَ أَهْلَهُ قَبْلَ أَنْ يُفِيضَ ۷۶۴) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إِذَا جَامَعَ فَعَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بَدَنَةٌ (السنن الكبري للبيهقي باب مَا يُفْسِدُ الْحَجَّ: ۱۰۰۶۸)۔
(ب) جنابت کی حالت میں طواف زیارت کرنا۔حوالہ
عن عَائِشَةَ تَقُولُ خَرَجْنَا لَا نَرَى إِلَّا الْحَجَّ فَلَمَّا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي قَالَ مَا لَكِ أَنُفِسْتِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ فَاقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ (بخاري بَاب كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْحَيْضِ الخ ۲۸۵) ولكن إن طاف محدثا فعليه شاة وإن طاف جنبا فعليه بدنة  (عمدة القري شرح صحيح البخاري ۳۲۵/۱۴)وَإِنْ كَانَ جُنُبًا فَعَلَيْهِ بَدَنَةٌ ؛ لِأَنَّ الْحَدَثَ يُوجِبُ نُقْصَانًا يَسِيرًا فَتَكْفِيهِ الشَّاةُ لِجَبْرِهِ كَمَا لَوْ تَرَكَ شَوْطًا فَأَمَّا الْجَنَابَةُ فَإِنَّهَا تُوجِبُ نُقْصَانًا مُتَفَاحِشًا ؛ لِأَنَّهَا أَكْبَرُ الْحَدَثَيْنِ فَيَجِبُ لَهَا أَعْظَمُ الْجَابِرَيْنِ  وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ الْبَدَنَةُ : " تَجِبُ فِي الْحَجِّ فِي مَوْضِعَيْنِ أَحَدُهُمَا : إذَا طَافَ جُنُبًا ، وَالثَّانِي إذَا جَامَعَ بَعْدَ الْوُقُوفِ  (بدائع الصنائع فَصْلٌ شَرْطُ وَوَاجِبَاتُ طواف الزيارة: ۳۸۶/۴)۔
(۳) وہ جنایت جس کے ارتکاب کرنے سے دم واجب ہوتا ہے اور وہ چند چیزیں ہیں:
(الف) جب جماع کے اسباب میں سے کسی سبب کا ارتکاب کرے، جیسے بوس و کنار کرنا اور شہوت سے چھولینا۔ حوالہ
عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ :قبَّلْتُ امْرَأَتِي بَعْدَ مَا رَمَيْتُ الْجَمْرَةَ فَسَأَلْتُ عَطَاءً ؟ فَأَمَرَنِي أَنْ أَذْبَحَ شَاةً. (مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ إذَا رَمَى الْجَمْرَةَ ، مَا يَحِلُّ عَلَيْه ۶۵۲/۳)
(ب) جب مردايك دن  بغیر کسی عذر کے سلا ہو اکپڑا پہنے، اور عورت جو چاہے پہن سکتی ہے لیکن وہ اپنے چہرے کو کسی ایسی چیز سے جو مسلسل چہرے کے ساتھ چپکارہے چھپا نہیں سکتی۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ (بخاري بَاب مَا يُنْهَى مِنْ الطِّيبِ لِلْمُحْرِمِ وَالْمُحْرِمَةِ الخ ۱۷۰۷) وَبَيَانُ هَذِهِ الْجُمْلَةِ إذَا لَبِسَ الْمَخِيطَ : مِنْ قَمِيصٍ ، أَوْ جُبَّةٍ ، أَوْ سَرَاوِيلَ ، أَوْ عِمَامَةٍ ، أَوْ قَلَنْسُوَةٍ أَوْ خُفَّيْنِ ، أَوْ جَوْرَبَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ وَضَرُورَةٍ يَوْمًا كَامِلًا . فَعَلَيْهِ الدَّمُ لَا يَجُوزُ غَيْرُهُ ؛ لِأَنَّ لُبْسَ أَحَدِ هَذِهِ الْأَشْيَاءِ يَوْمًا كَامِلًا ارْتِفَاقٌ كَامِلٌ فَيُوجِبُ كَفَّارَةً كَامِلَةً وَهِيَ : الدَّمُ لَا يَجُوزُ غَيْرُهُ ؛ لِأَنَّهُ فَعَلَهُ مِنْ غَيْرِ ضَرُورَةٍ (بدائع الصنائع فصل محظورات الاحرام: ۱۱۵/۵)۔
(ج) جب اپنے سر یا اپنی داڑھی کے بال بغیر کسی عذر کے کٹوادے۔ حوالہ
وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ (البقرة:۱۹۶) فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ (البقرة:۱۹۶)
(د) جب محرم مکمل ایک دن اپنے چہرے کو ڈھکارہے۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا أَوْقَصَتْهُ رَاحِلَتُهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَمَاتَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ وَلَا وَجْهَهُ فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا (مسلم، بَاب مَا يُفْعَلُ بِالْمُحْرِمِ إِذَا مَاتَ ۲۰۹۵) وَبَيَانُ هَذِهِ الْجُمْلَةِ إذَا لَبِسَ الْمَخِيطَ : مِنْ قَمِيصٍ ، أَوْ جُبَّةٍ ، أَوْ سَرَاوِيلَ ، أَوْ عِمَامَةٍ ، أَوْ قَلَنْسُوَةٍ أَوْ خُفَّيْنِ ، أَوْ جَوْرَبَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ وَضَرُورَةٍ يَوْمًا كَامِلًا . فَعَلَيْهِ الدَّمُ لَا يَجُوزُ غَيْرُهُ ؛ لِأَنَّ لُبْسَ أَحَدِ هَذِهِ الْأَشْيَاءِ يَوْمًا كَامِلًا ارْتِفَاقٌ كَامِلٌ فَيُوجِبُ كَفَّارَةً كَامِلَةً وَهِيَ : الدَّمُ لَا يَجُوزُ غَيْرُهُ ؛ لِأَنَّهُ فَعَلَهُ مِنْ غَيْرِ ضَرُورَةٍ …  وَكَذَا لَوْ غَطَّى رُبْعَ رَأْسِهِ يَوْمًا فَصَاعِدًا فَعَلَيْهِ دَمٌ ، وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْ الرُّبْعِ فَعَلَيْهِ صَدَقَةٌ (بدائع الصنائع ۱۱۶/۵)۔
(ہ) جب محرم بغیر کسی عذر کے اپنی اعضاء میں سے کسی بڑے عضو کو کسی بھی قسم کی خوشبولگائے جیسے:ران، پنڈلی، ہاتھ ، چہرے اور سر، اسی طرح جب مکمل ایک دن خوشبودار کپڑے پہننے۔حوالہ

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ (بخاري بَاب مَا يُنْهَى مِنْ الطِّيبِ لِلْمُحْرِمِ وَالْمُحْرِمَةِ الخ ۱۷۰۷) مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حالتِ احرام کی کچھ ممنوعہ چیزوں کوبتلایا جس میں زعفران اور الورس کے ذریعہ خوشبودار اشیاء کے استعمال سے بھی منع فرمایا، اس کے علاوہ اور بھی احادیث کے پیش نظر فقہاء کرام نے خوشبو یاخوشبو دار اشیاء کے استعمال کوحالتِ احرام میں ناجائز قرار دیا۔عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّ رَجُلًا وَقَصَهُ بَعِيرُهُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُمِسُّوهُ طِيبًا وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا(بخاري بَاب كَيْفَ يُكَفَّنُ الْمُحْرِمُ ۱۱۸۸)   فَإِنْ  طَيَّبَ   عُضْوًا كَامِلًا :كَالرَّأْسِ ، وَالْفَخِذِ ، وَالسَّاقِ وَنَحْوِ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ دَمٌ ، وَإِنْ طَيَّبَ أَقَلَّ مِنْ عُضْوٍ فَعَلَيْهِ صَدَقَةٌ .(بدائع الصنائع فصل تطيب المحرم ۱۲۷/۵)۔


(و) جب ایک ہاتھ یا پیر کے ناخن کاٹے۔حوالہ
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الحج:۲۹) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، قَالَ : التَّفَثُ : حَلْقُ الْعَانَةِ , وَنَتْف الإِبْطِ , وَالأَخْذُ مِنَ الشَّارِبِ , وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ(مصنف ابن ابي شيبة فِي قَوْلِهِ تَعَالَى : {لِيَقْضُوا تَفَثَهُمْ}: ۸۴/۴) وَأَمَّا قَلْمُ الظُّفْرِ فَنَقُولُ : لَا يَجُوزُ لِلْمُحْرِمِ قَلْمُ أَظْفَارِهِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى { ثُمَّ لِيَقْضُوا تَفَثَهُمْ } وَقَلْمُ الْأَظْفَارِ مِنْ قَضَاءِ التَّفَثِ ، رَتَّبَ اللَّهُ تَعَالَى قَضَاءَ التَّفَثِ عَلَى الذَّبْحِ ؛ لِأَنَّهُ ذَكَرَهُ بِكَلِمَةٍ مَوْضُوعَةٍ لِلتَّرْتِيبِ مَعَ التَّرَاخِي بِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ : { لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ثُمَّ لِيَقْضُوا تَفَثَهُمْ } ، فَلَا يَجُوزُ الذَّبْحُ ؛ وَلِأَنَّهُ ارْتِفَاقٌ بِمَرَافِقِ الْمُقِيمِينَ ، وَالْمُحْرِمُ مَمْنُوعٌ عَنْ ذَلِكَ ؛ وَلِأَنَّهُ نَوْعُ نَبَاتٍ اسْتَفَادَ الْأَمْنَ بِسَبَبِ الْإِحْرَامِ فَيَحْرُمُ التَّعَرُّضُ لَهُ كَالنَّوْعِ الْآخَرِ ، وَهُوَ النَّبَاتُ الَّذِي اسْتَفَادَ الْأَمْنَ بِسَبَبِ الْحَرَمِ فَإِنْ قَلَمَ أَظَافِيرَ يَدٍ أَوْ رِجْلٍ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ وَضَرُورَةٍ فَعَلَيْهِ دَمٌ ؛ لِأَنَّهُ ارْتِفَاقٌ كَامِلٌ فَتَكَامَلَتْ الْجِنَايَةُ فَتَجِبُ كَفَّارَةٌ كَامِلَةٌ . (بدائع الصنائع ۱۵۹/۵)۔
(ز)جب طواف صدر کو چھوڑدے۔ حوالہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ « مَنْ نَسِىَ شَيْئًا مِنْ نُسُكِهِ أَوْ تَرَكَهُ فَلْيُهْرِقْ دَمًا » (دار قطني الحج ۲۵۶۵)

(۴)وہ جنایت جس کے ارتکاب کرنے سے صدقہ واجب ہوتا ہے۔
اس جنایت کے صدقہ کی مقدار گیہوں میں سے آدھا صاع یا اس کی قیمت ہے، وہ جنایتیں بھی اسی طرح چند چیزیں ہیں۔
(الف) جب محرم سر کے چوتھائی سے کم یا داڑھی کے چوتھائی سے کم کا حلق کرے۔ حوالہ
وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ (البقرة:۱۹۶) فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ (البقرة:۱۹۶)  وَأَمَّا الْكَلَامُ بَيْنَ أَصْحَابِنَا فَمَبْنِيٌّ عَلَى أَنَّ حَلْقَ الْكَثِيرِ يُوجِبُ الدَّمَ ، وَالْقَلِيلِ يُوجِبُ الصَّدَقَةَ ، وَاخْتَلَفُوا فِي الْحَدِّ الْفَاصِلِ بَيْنَ الْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ ، فَجَعَلَ أَبُو حَنِيفَةَ مَا دُونَ الرُّبُعِ قَلِيلًا ، وَالرُّبُعَ وَمَا فَوْقَهُ كَثِيرًا (بدائع الصنائع ۱۵۱/۵)
(ب)جب ایک ناخن یا دو ناخن کاٹے ، ہر ناخن کی طرف سے آدھا صاع۔حوالہ
 ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الحج:۲۹) وَإِنْ قَلَّمَ أَقَلَّ مِنْ يَدٍ أَوْ رِجْلٍ فَعَلَيْهِ صَدَقَةٌ لِكُلِّ ظُفْرٍ نِصْفُ صَاعٍ وَهَذَا قَوْلُ أَصْحَابِنَا الثَّلَاثَةِ … فَإِنْ قَلَمَ خَمْسَةَ أَظَافِيرَ مِنْ الْأَعْضَاءِ الْأَرْبَعَةِ مُتَفَرِّقَةَ الْيَدَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ فَعَلَيْهِ صَدَقَةٌ ، لِكُلِّ ظُفْرٍ نِصْفُ صَاعٍ (بدائع الصنائع ۱۵۹/۵)
(ج)جب ایک عضو سے کم كو خوشبو لگائے۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّ رَجُلًا وَقَصَهُ بَعِيرُهُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُمِسُّوهُ طِيبًا وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا(بخاري بَاب كَيْفَ يُكَفَّنُ الْمُحْرِمُ ۱۱۸۸)   عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ (بخاري بَاب مَا يُنْهَى مِنْ الطِّيبِ لِلْمُحْرِمِ وَالْمُحْرِمَةِ الخ ۱۷۰۷) فَإِنْ طَيَّبَ عُضْوًا كَامِلًا :كَالرَّأْسِ ، وَالْفَخِذِ ، وَالسَّاقِ وَنَحْوِ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ دَمٌ ، وَإِنْ طَيَّبَ أَقَلَّ مِنْ عُضْوٍ فَعَلَيْهِ صَدَقَةٌ .(بدائع الصنائع فصل تطيب المحرم ۱۲۷/۵ (

(د) جب ایک دن سے کم سلا ہوا یا خوشبولگایا ہوا کپڑا پہنے۔ حوالہ
 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّ رَجُلًا وَقَصَهُ بَعِيرُهُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُمِسُّوهُ طِيبًا وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا(بخاري بَاب كَيْفَ يُكَفَّنُ الْمُحْرِمُ ۱۱۸۸)   عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ (بخاري بَاب مَا يُنْهَى مِنْ الطِّيبِ لِلْمُحْرِمِ وَالْمُحْرِمَةِ الخ ۱۷۰۷) فَإِنْ طَيَّبَ عُضْوًا كَامِلًا :كَالرَّأْسِ ، وَالْفَخِذِ ، وَالسَّاقِ وَنَحْوِ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ دَمٌ ، وَإِنْ طَيَّبَ أَقَلَّ مِنْ عُضْوٍ فَعَلَيْهِ صَدَقَةٌ .(بدائع الصنائع فصل تطيب المحرم ۱۲۷/۵ أَمَّا الْأَوَّلُ : فَالْمُحْرِمُ لَا يَلْبَسُ الْمَخِيطَ جُمْلَةً ، وَلَا قَمِيصًا وَلَا قُبَاءَ ، وَلَا جُبَّةً ، وَلَا سَرَاوِيلَ ، وَلَا عِمَامَةً ، وَلَا قَلَنْسُوَةً ، وَلَا يَلْبَسُ خُفَّيْنِ إلَّا أَنْ يَجِدَ نَعْلَيْنِ ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَقْطَعُهُمَا أَسْفَلَ الْكَعْبَيْنِ فَيَلْبَسُهُمَا ، وَالْأَصْلُ فِيهِ مَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ : مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنْ الثِّيَابِ ؟ فَقَالَ : { لَا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ ، وَلَا الْعَمَائِمَ ، وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ ، وَلَا الْبَرَانِسَ ، وَلَا الْخِفَافَ إلَّا أَحَدٌ لَا يَجِدُ النَّعْلَيْنِ ، فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ ، وَلَا يَلْبَسْ مِنْ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ ، وَلَا الْوَرْسُ ، وَلَا تَنْتَقِبُ الْمَرْأَةُ ، وَلَا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ … وَلِأَنَّ لُبْسَ الْمَخِيطِ مِنْ بَابِ الِارْتِفَاقِ بِمَرَافِقِ الْمُقِيمِينَ ، وَالتَّرَفُّهِ فِي اللُّبْسِ ، وَحَالُ الْمُحْرِمِ يُنَافِيهِ ، وَلِأَنَّ الْحَاجَّ فِي حَالِ إحْرَامِهِ يُرِيدُ أَنْ يَتَوَسَّلَ بِسُوءِ حَالِهِ إلَى مَوْلَاهُ يَسْتَعْطِفُ نَظَرَهُ وَمَرْحَمَتَهُ ، بِمَنْزِلَةِ الْعَبْدِ الْمَسْخُوطِ عَلَيْهِ فِي الشَّاهِدِ أَنَّهُ يَتَعَرَّضُ بِسُوءِ حَالِهِ لِعَطْفِ سَيِّدِهِ وَلِهَذَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : { الْمُحْرِمُ الْأَشْعَثُ الْأَغْبَرُ } وَإِنَّمَا يُمْنَعُ الْمُحْرِمُ مِنْ لُبْسِ الْمَخِيطِ إذَا لَبِسَهُ عَلَى الْوَجْهِ الْمُعْتَادِ . (بدائع الصنائع فصل محضورات الاحرام: ۱۰۰’۱۰۲/۵)۔

(ہ)جب اپنے سر یا چہرے کو ایک دن سے کم ڈھانکے رکھے۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا أَوْقَصَتْهُ رَاحِلَتُهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَمَاتَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ وَلَا وَجْهَهُ فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا (مسلم، بَاب مَا يُفْعَلُ بِالْمُحْرِمِ إِذَا مَاتَ ۲۰۹۵)  وَكَذَا لَوْ غَطَّى رُبْعَ رَأْسِهِ يَوْمًا فَصَاعِدًا فَعَلَيْهِ دَمٌ ، وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْ الرُّبْعِ فَعَلَيْهِ صَدَقَةٌ (بدائع الصنائع ۱۱۶/۵)
(و) جب حدث اصغر کی حالت میں طواف قدوم کرے، اسی طرح جب طواف صدر حدث اصغر کی حالت میں کرے۔حوالہ
عن عَائِشَة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ أَنَّهُ تَوَضَّأَ ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْت (مسلم، بَاب مَا يَلْزَمُ مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى مِنْ الْبَقَاءِ عَلَى الْإِحْرَامِ وَتَرْكِ التَّحَلُّلِ  ۲۱۷۳( وَإِنْ كَانَ مُحْدِثًا فَفِيهِ رِوَايَتَانِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ : فِي رِوَايَةٍعَلَيْهِ صَدَقَةٌ ، وَهِيَ الرِّوَايَةُ الصَّحِيحَةُ ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ ؛ لِأَنَّ النَّقْصَ يَسِيرٌ فَصَارَ كَشَوْطٍ أَوْ شَوْطَيْنِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ شَرَائِطُ جَوَازِ طواف الصدر: ۴۴۷/۴)۔
(ز)جب تینوں جمرات کی رمی میں سے کسی رمی کو چھوڑدے۔حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مِنًى فَمَكَثَ بِهَا لَيَالِيَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ يَرْمِي الْجَمْرَةَ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ كُلُّ جَمْرَةٍ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ وَيَقِفُ عِنْدَ الْأُولَى وَالثَّانِيَةِ فَيُطِيلُ الْقِيَامَ وَيَتَضَرَّعُ وَيَرْمِي الثَّالِثَةَ وَلَا يَقِفُ عِنْدَهَا (ابوداود بَاب فِي رَمْيِ الْجِمَارِ ۱۶۸۳) أَمَّا لَوْ تَرَكَ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَخَّرَهُ فَعَلَيْهِ لِكُلِّ حَصَاةٍ صَدَقَةٌ إلَّا أَنْ يَبْلُغَ دَمًا فَيُنْقِصَ مَا شَاءَ لُبَاب (رد المحتار بَابُ الْجِنَايَاتِ في الحج ۴۲۳/۸)
(۵) وہ جنایت جس کے ارتکاب کرنے سے صدقہ واجب ہوتا ہے، لیکن اس کی مقدار آدھے صاع سے کم ہے۔
اور وہ اس صور ت میں ہے جبکہ کسی جوں یا ٹڈی کو قتل کردے تو جو چاہے صدقہ کرے، اور جب دو چیونٹیوں یا دو ٹڈیوں کو قتل کرے تو ایک ہتھیلی غلہ صدقہ کرے، اور جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو آدھا صاع گیہوں صدقہ کرے۔حوالہ
 عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِى عَمَّارٍ أَخْبَرَهُ :أَنَّهُ أَقْبَلَ مَعَ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَكَعْبِ الأَحْبَارِ فِى أُنَاسٍ مُحْرِمِينَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ بِعُمْرَةٍ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ وَكَعْبٌ عَلَى نَارٍ يَصْطَلِى مَرَّت بِهِ رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ فَأَخَذَ جَرَادَتَيْنِ فَمَلَّهُمَا وَنَسِىَ إِحْرَامَهُ ثُمَّ ذَكَرَ إِحْرَامَهُ فَأَلْقَاهَا فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ دَخَلَ الْقَوْمُ عَلَى عُمَرَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ وَدَخَلْتُ مَعَهُمْ فَقَصَّ كَعْبٌ قِصَّةَ الْجَرَادَتَيْنِ عَلَى عُمَرَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ :وَمَنْ بِذَلِكَ لَعَلَّكَ يَا كَعْبُ قَالَ :نَعَمْ قَالَ :إِنَّ حِمْيَرَ تُحِبُّ الْجَرَادَ مَا جَعَلْتَ فِى نَفْسِكَ؟ قَالَ :دِرْهَمَيْنِ قَالَ بَخٍ دِرْهَمَانِ خَيْرٌ مِنْ مِائَةِ جَرَادَةٍ اجْعَلْ مَا جَعَلْتَ فِى نَفْسِكَ. (السنن الكبري للبيهقي باب مَا وَرَدَ فِى جَزَاءِ مَا دُونَ الْحَمَامِ ۱۰۳۰۶)  عن الْقَاسِم يَعْنِى ابْن مُحَمَّدٍ يَقُولُ :كُنْت جَالِسًا عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ جَرَادَةٍ قَتَلَهَا وَهُوَ مُحْرِمٌ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ :فِيهَا قَبْضَةٌ مِنْ طَعَامٍ وَلَتَأْخُذَنَّ بِقَبْضَةِ جَرَادَاتٍ وَلَكِنْ وَلَوْ (السنن الكبري للبيهقي باب مَا وَرَدَ فِى جَزَاءِ مَا دُونَ الْحَمَامِ  ۱۰۳۰۷)
(۶)وہ جنایت جس کے ارتکاب کرنے سے قیمت واجب ہوتی ہے وہ جنگل کے وحشی جانور کا قتل کرنا۔
مسئلہ: جب مُحْرِمْ جنگل کے کسی وحشی جانور کا شکار کرے، یا اس کو ذبح کرے، یا اس کی طرف اشارہ کرے، یا شکاری کو شکار کی جگہ کی رہنمائی کرے تو اس پر قیمت لازم ہوگی ، چاہے شکار کیا ہوا جانور کھایا جاتا ہو یا نہ کھایا جاتا ہو۔ جس جگہ شکار کیا ہے اس کے قریبی جگہ میں دو عادل آدمی اس کی قیمت لگائیں گے۔حوالہ
 وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا (المائدة:۹۶) لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ (المائدة:۹۵) عن أَبِي قَتَادَةَ  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حَاجًّا… وَقَدْ كَانَ أَبُو قَتَادَةَ لَمْ يُحْرِمْ فَرَأَيْنَا حُمُرَ وَحْشٍ فَحَمَلَ عَلَيْهَا أَبُو قَتَادَةَ فَعَقَرَ مِنْهَا أَتَانًا فَنَزَلْنَا فَأَكَلْنَا مِنْ لَحْمِهَا ثُمَّ قُلْنَا أَنَأْكُلُ لَحْمَ صَيْدٍ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ فَحَمَلْنَا مَا بَقِيَ مِنْ لَحْمِهَا قَالَ أَمِنْكُمْ أَحَدٌ أَمَرَهُ أَنْ يَحْمِلَ عَلَيْهَا أَوْ أَشَارَ إِلَيْهَا قَالُوا لَا قَالَ فَكُلُوا مَا بَقِيَ مِنْ لَحْمِهَا (بخاري بَاب لَا يُشِيرُ الْمُحْرِمُ إِلَى الصَّيْدِ لِكَيْ يَصْطَادَهُ الْحَلَالُ ۱۶۹۵) فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ (المائدة:۹۵)
مسئلہ: اگر شکار کی قیمت ہدی کی قیمت کو پہونچ جاتی ہے تو محرم کو اختیار ہے چاہے تو ہدی خریدے اور اس کو حرم میں ذبح کرے اور اگر چاہے تو غلہ خریدے اور اسے فقراء پر صدقہ کرے ، ہر فقیر کو ادھا صاع دے اور اگر چاہے تو ہر آدھے صاع کے بدلے میں روزہ رکھے اور اگر شکار کی قیمت ہدی کی قیمت کو نہ پہنچی ہو تو اس کو اختیار ہے چاہے تو غلہ خریدے اور اس کو صدقہ کرے، اور اگرچاہے تو ہر آدھے صاع کے بدلے مکمل دن روزہ رکھے۔
مسئلہ: تکلیف دہ کیڑے مکوڑوں کے قتل کی وجہ سے مُحْرِم پر  کوئی چیز لازم نہ ہوگی جیسے بھڑ، بچھو، مکھی، چیونٹی اور پتنگے اسی طرح سانپ، چوہے، کوّے اور کاٹنے والے کتے کے قتل کے وجہ سے مُحْرَمْ کے ذمہ کوئی چیز لازم نہ ہوگی۔
حوالہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فِى الْحَمَامَةِ شَاةٌ لاَ يُؤْكَلُ مِنْهَا يُتَصَدَّقُ بِهَا. وَعَنِ ابْنِ أَبِى لَيْلَى عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِى الْخُضْرِىِّ وَالدُّبْسِىِّ وَالْقُمْرِىِّ وَالْقَطَاةِ وَالْحَجَلِ شَاةٌ شَاةٌ. (السنن الكبري للبيهقي باب مَا جَاءَ فِى جَزَاءِ الْحَمَامِ وَمَا فِى مَعْنَاهُ. ۱۰۳۰۰)عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ أَنَّ رَجُلًا أَوْطَأَ بَعِيرَهُ أُدْحِيَّ نَعَامٍ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَكَسَرَ بَيْضَهَا فَانْطَلَقَ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ عَلَيْكَ بِكُلِّ بَيْضَةٍ جَنِينُ نَاقَةٍ أَوْ ضِرَابُ نَاقَةٍ فَانْطَلَقَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ عَلِيٌّ بِمَا سَمِعْتَ وَلَكِنْ هَلُمَّ إِلَى الرُّخْصَةِ عَلَيْكَ بِكُلِّ بَيْضَةٍ صَوْمٌ أَوْ إِطْعَامُ مِسْكِينٍ (مسند احمد  حديث رجال من الأنصار رضي الله عنهم ۲۰۶۰۱) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَمْسٌ مِنْ الدَّوَابِّ مَنْ قَتَلَهُنَّ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ الْعَقْرَبُ وَالْفَأْرَةُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ وَالْغُرَابُ وَالْحِدَأَةُ (بخاري بَاب خَمْسٌ مِنْ الدَّوَابِّ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ ۳۰۶۸)عن الحسن في رجل أصاب صيدا فلم يجد جزاءه قال يقوم دراهم ثم تقوم الدراهم طعاما ثم يصوم لكل صاع يومين قال وقال عطاء لكل صاع أربعة أيام (مصنف عبد الرزاق باب بأي الكفارات شاء كفر ۳۹۶/۴)




ھَدی



ھدی کسے کہتے ہیں؟
ھدی وہ جانور ہیں جو حرم میں ذبح کرنے کیلئے لے جائے جاتے ہیں۔ حوالہ
 (التعريفات:۸۲/۱)
ھدی بکریوں ، گایوں اور اونٹوں میں سے ہوتا ہے، بکری ایک کی جانب سے صحیح ہے، اونٹ اور گائے سات لوگوں کی طرف سے صحیح ہے جب کہ اس میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔ حوالہ
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ (مسلم، بَاب الِاشْتِرَاكِ فِي الْهَدْيِ وَإِجْزَاءِ الْبَقَرَةِ وَالْبَدَنَةِ كُلٍّ مِنْهُمَا عَنْ سَبْعَةٍ ۲۳۲۲)
ھدی کے جانور کے وہی شرائط ہیں جو قربانی كے جانور کے شرائط ہیں کہ وہ عیوب سے صحیح سالم ہو۔ حوالہ
( وَلَا يَجُوزُ فِي الْهَدَايَا إلَّا مَا جَازَ فِي الضَّحَايَا ) لِأَنَّهُ قُرْبَةٌ تَعَلَّقَتْ بِإِرَاقَةِ الدَّمِ كَالْأُضْحِيَّةِ فَيَتَخَصَّصَانِ بِمَحَلٍّ وَاحِدٍ (الهداية  باب الهدي: ۱۸۰/۱)عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي (ترمذي بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الْأَضَاحِيِّ ۱۴۱۷)۔
مسئلہ: بکری میں سے وہی جائز ہے جس کا ایک سال مکمل ہوگیا اور دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو، اس سے دنبہ مستثنی ہے اگر وہ آدھے سال سے زیادہ کا ہو اور اس قدر موٹا ہو کہ مکمل سال والے اور اس کے درمیان موٹاپے کی وجہ سے فرق نہ کیا جاسکتا ہو تو یہ جائز ہے،گائے میں سے وہی جائز ہے جس کے دو سال مکمل ہوگئے ہوں اور تیسرے سال میں داخل ہوگئی ہو۔ حوالہ
( قَوْلُهُ : وَمَا جَازَ فِي الضَّحَايَا جَازَ فِي الْهَدَايَا ) يَعْنِي فَيَجُوزُ الثَّنِيُّ مِنْ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ ، وَلَا يَجُوزُ الْجَذَعُ إلَّا مِنْ الضَّأْنِ ؛ لِأَنَّهُ قُرْبَةٌ تَعَلَّقَتْ بِإِرَاقَةِ الدَّمِ كَالْأُضْحِيَّةِ فَيَتَخَصَّصَانِ بِمَحِلٍّ وَاحِدٍ وَالثَّنِيُّ مِنْ الْغَنَمِ مَا تَمَّ لَهُ سَنَةٌ ، وَمِنْ الْبَقَرِ مَا تَمَّ لَهُ سَنَتَانِ ،(البحر الرائق بَابُ الْهَدْيِ: ۴۲۴/۷)عَنْ أَبِي كِبَاشٍ قَالَ جَلَبْتُ غَنَمًا جُذْعَانًا إِلَى الْمَدِينَةِ فَكَسَدَتْ عَلَيَّ فَلَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ نِعْمَ أَوْ نِعْمَتِ الْأُضْحِيَّةُ الْجَذَعُ مِنْ الضَّأْنِ قَالَ فَانْتَهَبَهُ النَّاسُ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَذَعِ مِنْ الضَّأْنِ فِي الْأَضَاحِيِّ ۱۴۱۹) عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ (مسلم، بَاب سِنِّ الْأُضْحِيَّةِ ۳۶۳۱)۔

اور اونٹ میں سے وہی جائز ہے جس کے پانچ سال مکمل ہوگئے ہوں اور چھٹویں سال میں داخل ہوگیا ہو۔حوالہ
( قَوْلُهُ : وَمَا جَازَ فِي الضَّحَايَا جَازَ فِي الْهَدَايَا ) يَعْنِي فَيَجُوزُ الثَّنِيُّ مِنْ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ ، وَلَا يَجُوزُ الْجَذَعُ إلَّا مِنْ الضَّأْنِ ؛ لِأَنَّهُ قُرْبَةٌ تَعَلَّقَتْ بِإِرَاقَةِ الدَّمِ كَالْأُضْحِيَّةِ فَيَتَخَصَّصَانِ بِمَحِلٍّ وَاحِدٍ وَالثَّنِيُّ مِنْ الْغَنَمِ مَا تَمَّ لَهُ سَنَةٌ ، وَمِنْ الْبَقَرِ مَا تَمَّ لَهُ سَنَتَانِ ، وَمِنْ الْإِبِلِ مَا تَمَّ لَهُ خَمْسٌ  (البحر الرائق بَابُ الْهَدْيِ: ۴۲۴/۷)،عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ فِي الضَّحَايَا وَالْبُدْنِ الثَّنِيُّ فَمَا فَوْقَهُ(موطا مالك بَاب الْعَمَلِ فِي الْهَدْيِ حِينَ يُسَاقُ ۷۵۴) عَنْ كُلَيْبٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ مُجَاشِعٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ فَعَزَّتْ الْغَنَمُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ إِنَّ الْجَذَعَ يُوَفِّي مِمَّا يُوَفِّي مِنْهُ الثَّنِيُّ (ابوداود بَاب مَا يَجُوزُ مِنْ السِّنِّ فِي الضَّحَايَا ۲۴۱۷)۔
مسئلہ: نفل، قران اور تمتع کے ھدی کو قربانی کے دنوں میں جمرۂ عقبہ کی رمی کے بعد ذبح کریں گے بقیہ دوسرے ھدایا کا ذبح کرنا کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔حوالہ
ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تَخْرُجُ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا مِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ (مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۲۱۳۷) لا يجوز ذبح هدي المتعة والقران إلا في يوم النحر لأنه دم نسك، والصحيح أن يجوز ذبح دم التطوع قبل يوم النحر، وذبحه يوم النحر أفضل؛ لأن القربة في التطوعات باعتبار أنها هدايا، وذلك يتحقق ببلوغها إلى الحرم، فإذا وجد ذلك جاز ذبحها في غير يوم النحر، وفي أيام النحر أفضل؛ لأن معنى القربة في إراقة الدم فيه أظهر. ويجوز ذبح بقية الهدايا أيّ وقت شاء؛ لأنها دماء كفارات، فلا تختص بيوم النحر، لأنها وجبت لجبر النقصان (الفقه الاسلاني وادلته مكان ذبح الهدي وزمانه: ۶۶۲/۳)۔
مسئلہ:تمام کے تمام ھدایا حرم میں ذبح ہوں گے، ھدایاکو قربانی کے دنوں میں منیٰ میں ذبح کرنا مسنون ہے۔ حوالہ
 هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ (المائدة:۹۵) عَنْ جَابِرٍ فِي حَدِيثِهِ ذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَحَرْتُ هَاهُنَا وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ (مسلم، بَاب مَا جَاءَ أَنَّ عَرَفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ  ۲۱۳۸)  عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ طَرِيقٌ وَمَنْحَرٌ (ابوداود بَاب الصَّلَاةِ بِجَمْعٍ ۱۶۵۳) عَنِ الْحَسَنِ ، وَعَطَاءٍ قَالاَ :كُلُّ دَمٍ وَاجِبٍ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَذْبَحَهُ إِلاَّ بِمَكَّةَ. (مصنف عبد الرزاق فِي الْمُحْرِمِ تَجِبُ عَلَيْهِ الْكَفَّارَةُ أَيْنَ تَكُونُ ۵۷۰/۳)
مسئلہ: اگر ھدی نفلی ہو، یا قران یا تمتع کا ہو تو ھدی والے کو ھدی میں سے کھانا مستحب ہے، اسی طرح مالدار کو بھی نفلی ھدی،قران اور تمتع کے ھدی میں سے کھانا جائز ہے۔حوالہ
لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (الحج: ۲۸)ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ (مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۲۱۳۷)( قَوْلُهُ : وَيَأْكُلُ مِنْ هَدْيِ التَّطَوُّعِ وَالْمُتْعَةِ وَالْقِرَانِ فَقَطْ ) أَيْ يَجُوزُ لَهُ الْأَكْلُ وَيُسْتَحَبُّ لِلِاتِّبَاعِ الْفِعْلِيِّ الثَّابِتِ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ عَلَى مَا رَوَاهُ مُسْلِمٌ مِنْ أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ { نَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بَدَنَةً بِيَدِهِ وَنَحَرَ عَلِيٌّ مَا بَقِيَ مِنْ الْمِائَةِ ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبِضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا } ؛ وَلِأَنَّهُ دَمُ النُّسُكِ فَيَجُوزُ مِنْهُ الْأَكْلُ كَالْأُضْحِيَّةِ (البحر الرائق بَابُ الْهَدْيِ:۴۳۰/۷)۔
مسئلہ: اگر نفلی ھدی راستے میں ہلاک ہو جائے تو اس میں نہ خود ھدی والا اور نہ ہی کوئی دوسرا مالدارکھاسکتا ہے؛ اس کے گلے کے پٹے کو خون میں لت پت کرنے کے بعد ذبح کرکے چھوڑدینا لازم ہے۔   حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ذُؤَيْبًا أَبَا قَبِيصَةَ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَبْعَثُ مَعَهُ بِالْبُدْنِ ثُمَّ يَقُولُ إِنْ عَطِبَ مِنْهَا شَيْءٌ فَخَشِيتَ عَلَيْهِ مَوْتًا فَانْحَرْهَا ثُمَّ اغْمِسْ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا ثُمَّ اضْرِبْ بِهِ صَفْحَتَهَا وَلَا تَطْعَمْهَا أَنْتَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ رُفْقَتِكَ (مسلم، بَاب مَا يَفْعَلُ بِالْهَدْيِ إِذَا عَطِبَ فِي الطَّرِيقِ ۲۳۴۹)عَنْ نَاجِيَةَ الْأَسْلَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مَعَهُ بِهَدْيٍ فَقَالَ إِنْ عَطِبَ مِنْهَا شَيْءٌ فَانْحَرْهُ ثُمَّ اصْبُغْ نَعْلَهُ فِي دَمِهِ ثُمَّ خَلِّ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ (ابوداود بَاب فِي الْهَدْيِ إِذَا عَطِبَ قَبْلَ أَنْ يَبْلُغَ ۱۴۹۹)
مسئلہ:نذرکے ھدی سے نہ خود ھدی والے کا اور نہ کسی دوسرے مالدارکا کھانا جائز ہے، اس لئے کہ وہ صدقہ ہے اور صدقہ فقراء کا حق ہوتا ہے۔ حوالہ
 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ (التوبة:۶۰) عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ :قَالَ عَلِيٌّ :لاَ يُؤْكَلُ مِنَ النَّذْرِ ، وَلاَ مِنْ جَزَاءِ الصَّيْدِ ، وَلاَ مِمَّا جُعِلَ لِلْمَسَاكِينِ (مصنف ابن ابي شيبة فِي هَدْيِ الْكَفَّارَةِ ، وَجَزَاءِ الصَّيْدِ ۵۵۶/۳)
مسئلہ: جنایات کے ھدی کو خود ھدی والا اور کوئی دوسرا مالدار نہیں کھاسکتا، جنایات کا ھدی وہ ہوتا ہے جو حج میں واقع شدہ کمی کوتاہی کی تلافی کے طورپر واجب ہوتا ہے۔ حوالہ
 عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ :قَالَ عَلِيٌّ :لاَ يُؤْكَلُ مِنَ النَّذْرِ ، وَلاَ مِنْ جَزَاءِ الصَّيْدِ ، وَلاَ مِمَّا جُعِلَ لِلْمَسَاكِينِ (مصنف ابن ابي شيبة فِي هَدْيِ الْكَفَّارَةِ ، وَجَزَاءِ الصَّيْدِ ۵۵۶/۳)

===============================================================

زیارتِ مدینہ منورہ



حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میری قبر کی زیارت کرے اس کے لئے میری شفاعت لازم ہوگی۔ حوالہ
مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہٗ شَفَاعَتِیْ(دارقطني ، الحج ۲۷۲۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بیت اللہ کا حج کرے اور میری زیارت نہ کرے اس نے مجھ پر ظلم کیا حوالہ
مَنْ حَجَّ الْبَیْتَ، وَلَمْ یَزُرْنِیْ قَدْ جَفَانِیْ (الجامع الكبير ، حرف الميم ۲۲۶۲۹/۱)
مندوبات میں سب سے افضل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم كے قبر کی زیارت ہے لہذا جس كواللہ تعالی حج كی توفيق دے اس كو چاہئے كہ وہ حج سے فراغت کے بعد يا پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ جائے۔ حوالہ
 فزيارة قبره صلّى الله عليه وسلم من أفضل القربات (الفقه الاسلامي وادلته زيارة المسجد النبوي وقبر النبي صلّى الله عليه وسلم ۶۸۹/۳)
اور نبی کی زیارت کی نیت کرنے کے بعد بکثرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجے۔ حوالہ
ينبغي لمن قصد زيارة النبي صلى الله عليه وسلم أن يكثر من الصلاة عليه فإنه يسمعها أو تبلغ إليه وفضلها أشهر من أن نذكره (مراقي الفلاح فصل : في زيارة النبي صلى الله عليه وسلم على سبيل الاختصار تبعا لما قال في الاختيار: ۱۴۳/۲)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا(مسلم، بَاب الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ التَّشَهُّدِ  ۶۱۶) عن أَنَس بْن مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيئَاتٍ وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ (نسائي بَاب الْفَضْلِ فِي الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۱۲۸۰)۔
حضور اکرم کی زیارت کا طریقہ
جب مدینہ منورہ پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی تعظیم میں غسل کركے خوشبو لگائے اوربہترین کپڑے پہنے۔ حوالہ: عَنْ حَاطِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ زَارَنِى بَعْدَ مَوْتِى فَكَأَنَّمَا زَارَنِى فِى حَيَاتِى(دار قطني الحج: ۲۷۲۶) مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنا گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ملاقات کرنا ہوا توحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے غسل کرکے صاف ستھرا ہوکر جانا چاہیے؛ اس کے علاوہ مدینہ منورہ کی بھی بہت ساری فضیلتیں ہیں اس کی تعظیم کے لیے بھی غسل کرلینا چاہیے؛ جیسا کہ علامہ وھبۃ الزحیلی نے لکھا ہے: ويندب الغسل أيضاً لدخول المدينة تعظيماً لحرمتها، وقدومه على حضرة النبي صلّى الله عليه وسلم . (الفقه الاسلامي وادلته الأغسال المسنونة: ۴۷۸/۱) ويغتسل قبل الدخول أو بعده قبل التوجه للزيارة إن أمكنه ويتطيب ويلبس أحسن ثيابه تعظيما للقدوم على النبي صلى الله عليه وسلم(مراقي الفلاح فصل : في زيارة النبي صلى الله عليه وسلم على سبيل الاختصار تبعا لما قال في الاختيار: ۱۴۳/۲عن ثُمَامَة بْن عَبْدِ اللَّهِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَنَاوَلَنِي طِيبًا قَالَ كَانَ أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَا يَرُدُّ الطِّيبَ قَالَ وَزَعَمَ أَنَسٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَرُدُّ الطِّيبَ(بخاري بَاب مَا لَا يُرَدُّ مِنْ الْهَدِيَّةِ ۲۳۹۴)۔
 پہلے نہایت تواضع اور سکون وقار کے ساتھ مسجد نبوی میں داخل ہو اور دورکعت تحیۃ المسجد پڑھے پھر جو چاہے دعاکرے۔ حوالہ
 عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَادَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ۔ (بخاری، بَاب إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ، حدیث نمبر:۴۲۵)۔

پھر قبر شریف کے پاس جائے اور اس کے سامنے نہایت خشوع خضوع کے ساتھ ، حدود آداب کا لحاظ کرتے ہوئے کھڑا ہو، سلام کرے اور آپ پر درود بھیجے پھر ان لوگوں کا بھی سلام پہنچائے جنہوں نے اسے سلام پہنچانے کی تاکید کی ہے، پھر دوسری مرتبہ مسجد نبوی جائے اور جتنی چاہے نماز پڑھے، اپنے لئے اور اپنے والدین کے لئے اور مسلمانوں کیلئے اور جنہوں نے دعا کرنے کی تاکیدکی ہے ان کیلئے جتنی چاہے دعا کرے ، مدینہ منورہ میں ٹھہرنے کی مدت کو غنیمت سمجھے، شب بیداری کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا جب بھی موقع ہو،خوب کوشش کرے اورتسبیح تہلیل، استغفار اور توبہ کو بکثرت بجالائے۔حوالہ
 عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ إذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى ، ثُمَّ أَتَى قَبْرَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ، فَقَالَ :السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا أَبَا بَكْرٍ السَّلاَمُ عَلَيْك يَا أَبَتَاهُ ، ثُمَّ يكون وَجْهَهُ وَكَانَ إذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ أَتَى المسجد فَفَعَلَ ذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ مَنْزِلَهُ. (مصنف ابن ابي شيبة مَنْ كَانَ يَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَيُسَلِّمَ. ۳۴۱/۳) وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا (النساء:۶۴)۔
صحابہ ، تابعین اور نیک لوگوں کی قبروں کی زیارت کیلئے بقیع جانا مستحب ہے۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ آتِي أَهْلَ الْبَقِيعِ فَيُحْشَرُونَ مَعِي ثُمَّ أَنْتَظِرُ أَهْلَ مَكَّةَ حَتَّى أُحْشَرَ بَيْنَ الْحَرَمَيْنِ (ترمذي بَاب فِي مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ۳۶۲۵)عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ فَيَقُولُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ (مسلم، بَاب مَا يُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاءِ لِأَهْلِهَا ۱۶۱۸) صحابہ اور تابعین وغیرہ کی محنتوں اور قربانیوں کی وجہ سے ہم تک دین پہنچا ہے اور ان حضرات کی بہت ساری روایات میں فضیلتیں بھی آئی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات میں بقیع جایا کرتے تھے، جیسا کہ مذکورہ روایات سے بھی معلوم ہوا؛ اس لیے فقہاءِ کرام نے اسے مستحب قرار دیا۔
جب تک مدینہ منورہ میں رہے تمام کی تمام نمازیں مسجد نبوی میں پڑھے۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (بخاري بَاب فَضْلِ الصَّلَاةِ فِي مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ ۱۱۱۶)
اور جب وطن واپسی کا ارادہ ہو تو مسجد نبوی کو الوداع کہتے وقت دورکعت نماز پڑھے، جو چاہے دعا کرے، روضۂ اطہر پر آکر درودسلام بھیجے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائیگی پر روتے ہوئے واپس آئے۔ حوالہ

عن عبد الله بن دينار أن ابن عمر :كان إذا أراد سفرا  أو قدم من سفر جاء قبر النبي صلى الله عليه و سلم فصلى عليه ودعا ثم انصرف   قال محمد :هكذا ينبغي أن يفعله إذا قدم المدينة يأتي قبر النبي صلى الله عليه و سلم (موطا محمد باب قبر النبي صلى الله عليه و سلم وما يستحب من ذلك ۹۴۷)
 =========================================


قربانی کا بیان



قربانی کا حکم قرآن و حدیث کی  روشنی میں
اللہ تعالی نے فرمایا: اپنے رب کیلئے نماز پڑھیئے اور قربانی دیجیے۔ حوالہ
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(الکوثر:۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قربانی کے دن ابن آدم کے اعمال میں سے کوئی عمل اللہ کے یہاں قربانی کے خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے، قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، بے شک خون اللہ کے یہاں زمین پر گرنے سے پہلے قبول ہوجاتا ہے لہذا خوش دلی کے ساتھ قربانی دو۔ حوالہ
مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مَنْ عَمِلٍ یَوْمَ النَّحْرِأَحَبَّ اِلٰی اللہ مِنْ اهْرَاقِ الدَّمِ، اِنَّہا لَتَأتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَاوأَشْعَارِھَا، وَأَظْلاَفِھَا، وَاِنَّ الدَّمْ لَیَقَعُ بِمَکَان قَبْلَ أَنْ یَّقَعَ بِالْأَرْضِ، فَطِیْبُوْابِھَانَفْسًا (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْأُضْحِيَّةِ ۱۴۱۳)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس وسعت ہو اور قربانی نہ دے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ ہو۔ حوالہ
مَنْ کَانَ لَہٗ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلاَ یَقْرُبَنَّ مُصَلاَّنَا (ابن ماجه بَاب الْأَضَاحِيِّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لَا ۳۱۱۴)
اضحیہ کی لغوی و شرعی تعریف
اضحیہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے عیدالاضحیٰ کے دن ذبح کیا جاتا ہے۔ حوالہ
 (المصباح المنير:۳۱۹/۵)
اضحیہ کے شرعی معنی ہیں:مخصوص جانور کا مخصوص وقت میں عبادت کی نیت سے ذبح کرنا۔ حوالہ
 (التعريفات:۸/۱)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قربانی واجب ہے اور اسی پر فتوی ہے،اور صاحبين رحمہما اللہ کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ ہے حوالہ
 (بدائع الصنائع كتاب التضحية ۲۴۵/۱۰)



قربانی کن لوگوں پر واجب ہے؟



قربانی ان لوگوں پر واجب ہے جن میں مندرجہ ذیل شرطیں پائی جائیں۔
(۱) مسلمان ہو: کافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ حوالہ
مِنْهَا الْإِسْلَامُ فَلَا تَجِبُ عَلَى الْكَافِرِ لِأَنَّهَا قُرْبَةٌ وَالْكَافِرُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الْقُرَبِ (بدائع الصنائع فَصْل فِي شَرَائِطِ وُجُوبِ فِي الْأُضْحِيَّةَ: ۲۵۰/۱۰)عن أَنَس  أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ هَذَا الْكِتَابَ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْبَحْرَيْنِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمسلمينَ (بخاري بَاب زَكَاةِ الْغَنَمِ ۱۳۶۲)۔
(۲) آزاد ہو: غلام پر قربانی واجب نہیں۔ حوالہ
وَمِنْهَا الْحُرِّيَّةُ فَلَا تَجِبُ عَلَى الْعَبْدِ وَإِنْ كَانَ مَأْذُونًا فِي التِّجَارَةِ أَوْ مُكَاتَبًا ؛ لِأَنَّهُ حَقٌّ مَالِيٌّ مُتَعَلِّقٌ بِمِلْكِ الْمَالِ وَلِهَذَا لَا تَجِبُ عَلَيْهِ زَكَاةٌ وَلَا صَدَقَةُ الْفِطْرِ (بدائع الصنائع فَصْل فِي شَرَائِطِ وُجُوبِ فِي الْأُضْحِيَّةَ: ۲۵۱/۱۰)عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ :لَيْسَ فِي مَالِ الْعَبْدِ زَكَاةٌ. (مصنف ابن ابي شيبة فِي مَالِ الْعَبْدِ ، مَنْ قَالَ لَيْسَ فِيهِ زَكَاةٌ ۱۶۱/۳)  
(۳) مقیم ہو:مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ حوالہ
 عن إبراهيم قال رخص للحاج والمسافر في أن لا يضحي (مصنف عبد الرزاق باب الضحايا ۳۸۲/۴)
(۴) مالدار ہو: فقیر پر قربانی واجب نہیں ہے۔  حوالہ
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا(ابن ماجه بَاب الْأَضَاحِيِّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لَا ۳۱۱۴)
مسئلہ: قربانی کے واجب ہونے کے لئے نصاب پر مکمل سال کا گذرنا شرط نہیں ہے؛ بلکہ قربانی اس وقت واجب ہوتی ہے جبکہ مسلمان عیدالاضحی کے دن اپنی ضروریات اصلیہ کے علاوہ مقدار نصاب کا مالک ہو۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا (مسند احمد مسند أبي هريرة رضي الله عنه ۸۲۵۶)مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی گنجائش رکھتے ہوئے قربانی نہ کرنے والے پرغصہ ہوئے اور اس میں حولانِ حول کا کوئی تذکرہ نہ فرمایا؛ اسی وجہ سے فقہاء کرام اس کی شرط نہیں لگاتے ہیں۔  ( فَتَجِبُ ) التَّضْحِيَةُ : أَيْ إرَاقَةُ الدَّمِ مِنْ النَّعَمِ عَمَلًا لَا اعْتِقَادًا بِقُدْرَةٍ مُمْكِنَةٍ هِيَ مَا يَجِبُ بِمُجَرَّدِ التَّمَكُّنِ مِنْ الْفِعْلِ ؛ فَلَا يُشْتَرَطُ بَقَاؤُهَا لِبَقَاءِ الْوُجُوبِ لِأَنَّهَا شَرْطٌ مَحْضٌ لَا مُيَسَّرَةٌ ، هِيَ مَا يَجِبُ بَعْدَ التَّمَكُّنِ بِصِفَةِ الْيُسْر (رد المحتار كِتَابُ الْأُضْحِيَّةَ:۲۱۴/۲۶)۔




قربانی کا وقت



مسئلہ:قربانی کاوقت دسویں ذوالحجہ کے دن طلوع فجر کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور بارھویں ذوالحجہ کے دن غروب سے پہلے پہلے تک باقی رہتا ہے ، لیکن شہر اور بڑے دیہات والوں کو عید کی نماز سے پہلے ذبح کرنا جائزنہیں ہے۔ حوالہ
 عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَقَالَ إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ مِنْ يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا (بخاري بَاب سُنَّةِ الْعِيدَيْنِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ ۸۹۸)   عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى (موطا مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى ۹۲۳) عن جُنْدَبَ بْن سُفْيَانَ الْبَجَلِيَّ قَالَ شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَكَانَهَا أُخْرَى وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ فَلْيَذْبَحْ   (بخاري بَاب مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ أَعَادَ ۵۱۳۶)عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ ضَحَّى خَالِي أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً مِنْ الْمَعْزِ فَقَالَ ضَحِّ بِهَا وَلَا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ ثُمَّ قَالَ مَنْ ضَحَّى قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَالمسلمین(مسلم، بَاب وَقْتِهَا ۳۶۲۴) 
مسئلہ:چھوٹے گاؤں والوں کے لئے جہاں عید کی نماز واجب نہیں ہوتی،طلوع فجر کے بعد قربانی کا ذبح کرنا جائز ہے۔ حوالہ
 عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى(موطا مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى ۹۲۳)  
مسئلہ:قربانی کے دنوں میں سے پہلے دن قربانی کا ذبح کرناافضل ہے، پھر دوسرے دن، پھر تیسرے دن۔ حوالہ
  عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُمْ قَالُوا:أَيَّامُ النَّحْرِ ثَلَاثَةٌ، أَفْضَلُهَا أَوَّلُهَا (نصب الراية كِتَابُ الْأُضْحِيَّةِ ۲۱۳/۴)
مسئلہ:قربانی کو بذات خود ذبح کرنا مستحب ہے جبکہ وہ اچھی طرح ذبح کرسکتا ہو، ہاں! اگر وہ اچھی طرح ذبح نہ کرسکتا ہوتو بہتر یہ ہے کہ کسی سے مدد لے اس کو چاہئے کہ ذبح کے وقت موجود رہے ۔ حوالہ
 عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ (بخاري بَاب فِي أُضْحِيَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ  ۵۱۲۸)ٌ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  :« يَا فَاطِمَةُ قَوْمِى فَاشْهَدِى أُضْحِيَتَكِ فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ وَقُولِى إِنَّ صَلاَتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ المسلمین». قِيلَ :يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا لَكَ وَلأَهْلِ بَيْتِكَ خَاصَّةً فَأَهْلُ ذَلِكَ أَنْتُمْ أَمْ لِلْمسلمينَ عَامَّةً قَالَ :بَلْ لِلْمسلمينَ عَامَّةً (السنن الكبري للبيهقي باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ ذَبْحِ صَاحِبِ النَّسِيكَةِ نَسِيكَتَهُ بِيَدِهِ وَجَوَازُ الاِسْتِنَابَةِ فِيهِ الخ ۱۰۵۲۴)
مسئلہ: قربانی کا دن میں ذبح کرنا مستحب ہے، لیکن اگر اسے رات میں ذبح کرے تو کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ لیکن اس کراہت کی اصل وجہ یہ ہے کہ رات سکون اور راحت حاصل کرنے کا وقت ہے اور اس کی وجہ سے راحت میں خلل پڑھ سکتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ رات کی تاریکی کی وجہ سے ذابح وغیرہ کے ہاتھ وغیرہ کٹنے کا خدشہ ہوتا ہے، تیسری اہم بات یہ ہے کہ ذبح میں جن رگوں کا کٹنا ضروری ہوتا ہے، رات کی تاریکی کی وجہ سے یہ ظاہر نہیں ہوپاتا کہ ذبح صحیح ہوا یانہیں؛ رگیں مکمل کٹی یانہیں؛ لہٰذا اگریہ وجوہات نہ پائی جائیں توپھرکراہت باقی نہ رہے گی۔ حوالہ
عن ابن عباس :أن النبي صلى الله عليه و سلم نهى أن يضحى ليلا (المعجم الكبير أحاديث عبد الله بن العباس بن عبد المطلب بن هاشم ۱۱۴۵۸) وَأَمَّا مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ الذَّكَاةِ وَمَا يُكْرَهُ مِنْهَا ( فَمِنْهَا ) أَنَّ الْمُسْتَحَبَّ أَنْ يَكُونَ الذَّبْحُ بِالنَّهَارِ وَيُكْرَهُ بِاللَّيْلِ وَالْأَصْلُ فِيهِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { أَنَّهُ نَهَى عَنْ الْأَضْحَى لَيْلًا وَعَنْ الْحَصَادِ لَيْلًا } وَهُوَ كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ وَمَعْنَى الْكَرَاهَةِ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ لِوُجُوهٍ : أَحَدُهَا أَنَّ اللَّيْلَ وَقْتُ أَمْنٍ وَسُكُونٍ وَرَاحَةٍ فَإِيصَالُ الْأَلَمِ فِي وَقْتِ الرَّاحَةِ يَكُونُ أَشَدَّ ، وَالثَّانِي أَنَّهُ لَا يَأْمَنُ مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فَيَقْطَعُ يَدَهُ وَلِهَذَا كُرِهَ الْحَصَادُ بِاللَّيْلِ ، وَالثَّالِثُ أَنَّ الْعُرُوقَ الْمَشْرُوطَةَ فِي الذَّبْحِ لَا تَتَبَيَّنُ فِي اللَّيْلِ فَرُبَّمَا لَا يَسْتَوْفِي قَطْعَهَا (بدائع الصنائع فصل في بَيَان شَرْطِ حِلِّ الْأَكْلِ فِي الْحَيَوَانِ الْمَأْكُولِ: ۲۳۶/۱۰)۔
مسئلہ:اگر کسی وجہ سے عید کی نماز چھوٹ جائے تو زوال کے بعد قربانی کے جانور کا ذبح کرنا جائز ہے۔ حوالہ
 عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى(موطا مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى ۹۲۳)  
مسئلہ:اگر شہر میں کئی جگہ عید کی نماز کی جماعتیں ہوتی ہو ں تو شہر میں پڑھی جانے والی پہلی نماز کے بعد ذبح کرنا جائز ہے۔ حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ ضَحَّى خَالِي أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً مِنْ الْمَعْزِ فَقَالَ ضَحِّ بِهَا وَلَا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ ثُمَّ قَالَ مَنْ ضَحَّى قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَالمسلمین(مسلم، بَاب وَقْتِهَا ۳۶۲۴) ۔




قربانی کےجانور



قربانی میں کونسا جانور ذبح کرنا جائز ہے اور کونسا نہیں؟
مسئلہ:جانوروں میں سے صرف اونٹ ، گائے، بھینس اور بکری کی قربانی صحیح ہے۔حوالہ
 عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ(مسلم، بَاب سِنِّ الْأُضْحِيَّةِ ۳۶۳۱) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ (مسلم، بَاب الِاشْتِرَاكِ فِي الْهَدْيِ وَإِجْزَاءِ الْبَقَرَةِ وَالْبَدَنَةِ كُلٍّ مِنْهُمَا عَنْ سَبْعَةٍ ۲۳۲۲)
مسئلہ:قربانی میں وحشی جانور کا ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ حوالہ
 عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ (بخاري بَاب أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ ۵۱۰۴)
مسئلہ: بکری ایک شخص کی طرف سے کافی ہوگی، اونٹ، گائے اور بھینس سات لوگوں کی طرف سے اس وقت کافی ہوں گے جبکہ ان میں سے ہر ایک کا ساتواں حصہ ہو اگر ان میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوگیا تو قربانی توصحیح ہوجائے گی اس لیےکہ قربانی سے اصل مقصود اراقہ ہے اور وہ حاصل ہوگیا، ليكن گوشت تول کربرابر تقسیم کرنا چاہیے؛ اگرگوشت بلاتولے تقسیم کیا جائے اور کمی بیشی ہوجائے توجوزیادتی دوسرے کے پاس جاوے گی وہ سود کے حکم میں ہوگی؛ البتہ اس خرابی کوختم کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ تقسیم میں کسی کی طرف سری پاے اور کھال بھی لگادی جائے مثلاً کچھ گوشت اور کچھ حصہ پائے کا ایک حصہ میں اور کچھ گوشت اور پائے یاسری یاکھال ایک کے حصے میں آگئی توچونکہ ہرایک کے حصہ میں جوچیز آئی ہے وہ غیرجنس کے مقابل قرار دی جاسکتی ہے، اس لیے اس صورت میں سود نہ ہوگا۔ حوالہ
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ(مسلم، بَاب سِنِّ الْأُضْحِيَّةِ ۳۶۳۱) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ (مسلم، بَاب الِاشْتِرَاكِ فِي الْهَدْيِ وَإِجْزَاءِ الْبَقَرَةِ وَالْبَدَنَةِ كُلٍّ مِنْهُمَا عَنْ سَبْعَةٍ ۲۳۲۲)قَالَ : وَسَأَلْت أَبَا يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ الْبَقَرَةِ إذَا ذَبَحَهَا سَبْعَةٌ فِيالْأُضْحِيَّةَ أَيَقْتَسِمُونَ لَحْمَهَا جُزَافًا أَوْ وَزْنًا ؟ قَالَ : بَلْ وَزْنًا ، قَالَ : قُلْت فَإِنْ اقْتَسَمُوهَا مُجَازَفَةً وَحَلَّلَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا ؟ قَالَ : أَكْرَهُ ذَلِكَ ، قَالَ : قُلْت فَمَا تَقُولُ فِي رَجُلٍ بَاعَ دِرْهَمًا بِدِرْهَمٍ فَرَجَحَ أَحَدُهُمَا فَحَلَّلَ صَاحِبُهُ الرُّجْحَانَ ؟ قَالَ : هَذَا جَائِزٌ ؛ لِأَنَّهُ لَا يُقْسَمُ مَعْنَاهُ أَنَّهُ هِبَةُ الْمُشَاعِ فِيمَا لَا يَحْتَمِلُ الْقِسْمَةَ وَهُوَ الدِّرْهَمُ الصَّحِيحُ ، أَمَّا عَدَمُ جَوَازِ الْقِسْمَةِ مُجَازَفَةً فَلِأَنَّ فِيهَا مَعْنَى التَّمْلِيكِ ، وَاللَّحْمُ مِنْ الْأَمْوَالِ الرِّبَوِيَّةِ فَلَا يَجُوزُ تَمْلِيكُهُ مُجَازَفَةً كَسَائِرِ الْأَمْوَالِ الرِّبَوِيَّة (بدائع الصنائع فَصْلٌ في أَنْوَاع كَيْفِيَّة الْوُجُوبِ: ۲۶۷/۱۰) ويقسم اللحم وزنا لا جزافا إلا إذا ضم معه من الاكارع أو الجلد) صرفا للجنس لخلاف جنسه. (الدر المختار كتاب الاضحية: ۶۳۰/۵)۔
مسئلہ: گائے، اونٹ اوربھینس کی قربانی سات لوگوں کی طرف سے صحیح ہے جبکہ ان میں سےہر ایک قربانی کا ثواب چاہتا ہو، ہاں اگر ان میں کوئی صرف گوشت کا طالب ہو تو قربانی تمام لوگوں کی طرف سے صحیح نہ ہوگی۔ حوالہ
لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج:۳۷) عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (بخاري بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ ۱) عن حسن قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :من ضحى طيبة بها نفسه محتسبا لأضحيته كانت له حجابا من النار (المعجم الكبير حسن بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه يكنى أبا محمد  ۲۷۳۶،۸۴/۳)( وَهِيَ ) أَيْ الْأُضْحِيَّةُ ( شَاةٌ ) تَجُوزُ مِنْ فَرْدٍ فَقَطْ ( أَوْ بَدَنَةٌ ) تَجُوزُ مِنْ وَاحِدٍ أَيْضًا ( أَوْ سُبْعٌ ) بِضَمِّ السِّينِ بِمَعْنَى وَاحِدٍ مِنْ السَّبْعِ ( بَدَنَةٌ ) بَيَانٌ لِلْقَدْرِ الْوَاجِبِ وَالْقِيَاسُ أَنْ لَا تَجُوزَ الْبَدَنَةُ إلَّا عَنْ وَاحِدٍ ؛ لِأَنَّ الْإِرَاقَةَ وَاحِدَةٌ وَهِيَ الْقُرْبَةُ وَالْقُرْبَةُ لَا تَتَجَزَّأُ إلَّا أَنَّا تَرَكْنَاهُ بِالْأَثَرِ وَهُوَ مَا رُوِيَ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ { نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ } …  ( فَلَوْ أَرَادَ أَحَدُهُمْ بِنَصِيبِهِ اللَّحْمَ أَوْ كَانَ كَافِرًا أَوْ نَصِيبُهُ ) أَيْ نَصِيبُ أَحَدِهِمْ ( أَقَلُّ مِنْ سُبْعٍ لَا يَجُوزُ عَنْ وَاحِدٍ مِنْهُمْ ) لِمَا مَرَّ أَنَّ وَصْفَ الْقُرْبَةِ لَا يَتَجَزَّأُ (مجمع الانهر كِتَابُ الْأُضْحِيَّةِ: ۹۶/۸)۔
مسئلہ:اس بکری کی قربانی جائز ہے جس کا ایک سال مکمل ہوچکا ہو اور دوسرے سال میں وہ داخل ہوگئی ہو، دنبہ میں سے ایک سال سے کم کے بچے کو اگر اس پر سال کا اکثر حصہ گزرچکا ہو، اور اس کا موٹاپا اتنا ہو کہ وہ ایک سال کا دکھائی دیتا ہو تو اس کی قربانی دینا جائز ہے۔ حوالہ
 عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ فَبَقِيَ عَتُودٌ فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ضَحِّ بِهِ أَنْتَ (بخاري بَاب وَكَالَةُ الشَّرِيكِ الشَّرِيكَ فِي الْقِسْمَةِ وَغَيْرِهَا الخ ۲۱۳۶) عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ(مسلم، بَاب سِنِّ الْأُضْحِيَّةِ ۳۶۳۱)
مسئلہ:گائے اور بھینس میں سے اسی کی قربانی جائز ہے جس کے دوسال مکمل ہوچکے ہوں اور وہ تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو، اونٹ میں سے اسی کی قربانی جائز ہے جس کے پانچ سال مکمل ہوچکے ہوں اور چھٹے سال میں داخل ہوچکا ہو۔ حوالہ
 عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ(مسلم، بَاب سِنِّ الْأُضْحِيَّةِ ۳۶۳۱) عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ فِي الضَّحَايَا وَالْبُدْنِ الثَّنِيُّ فَمَا فَوْقَهُ(موطا مالك بَاب الْعَمَلِ فِي الْهَدْيِ حِينَ يُسَاقُ ۷۵۴) عَنْ كُلَيْبٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ مُجَاشِعٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ فَعَزَّتْ الْغَنَمُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ إِنَّ الْجَذَعَ يُوَفِّي مِمَّا يُوَفِّي مِنْهُ الثَّنِيُّ (ابوداود بَاب مَا يَجُوزُ مِنْ السِّنِّ فِي الضَّحَايَا ۲۴۱۷)
مسئلہ:قربانی میں ذبح کئے جانے والے جانور کا موٹااور تمام عیوب سے صحیح سالم ہونا افضل ہے، لیکن اگر ایسے جانور کی قربانی دی جائے جس کے پیدائشی طور پر سینگ نہ ہو تو قربانی جائز ہے، اسی طرح اگر ایسے جانور کو ذبح کرے جس کے سینگ کا کچھ حصہ ٹوٹ گیا ہوتو قربانی جائز ہے، ہاں اگر سینگ کی ٹوٹن کھوپڑی تک پہنچ جائے تو صحیح نہیں ہے۔ حوالہ
 عن أَبي الْأَشَدِّ السُّلَمِيّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ كُنْتُ سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَأَمَرَنَا نَجْمَعُ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنَّا دِرْهَمًا فَاشْتَرَيْنَا أُضْحِيَّةً بِسَبْعِ الدَّرَاهِمِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ أَغْلَيْنَا بِهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَفْضَلَ الضَّحَايَا أَغْلَاهَا وَأَسْمَنُهَا (مسند احمد حديث جد أبي الأشد السلمي رضي الله عنه ۱۵۵۳۳)عَنْ عَلِيٍّ قَالَ الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ قُلْتُ فَإِنْ وَلَدَتْ قَالَ اذْبَحْ وَلَدَهَا مَعَهَا قُلْتُ فَالْعَرْجَاءُ قَالَ إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسِكَ قُلْتُ فَمَكْسُورَةُ الْقَرْنِ قَالَ لَا بَأْسَ أُمِرْنَا أَوْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَيْنِ وَالْأُذُنَيْنِ (ترمذي بَاب فِي الضَّحِيَّةِ بِعَضْبَاءِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ ۱۴۲۳) عَنْ عَلِيٍّ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ قَالَ قَتَادَةُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ فَقَالَ الْعَضْبُ مَا بَلَغَ النِّصْفَ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ (ترمذي بَاب فِي الضَّحِيَّةِ بِعَضْبَاءِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ ۱۴۲۴)
مسئلہ: اگر خصی کیا ہو جانور ذبح کیا تو جائز ہے ، بلکہ وہ زیادہ بہتر ہے، اس لئے کہ اس کا گوشت زیادہ اچھا اور لذیذ ہوتا ہے۔ حوالہ
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (ابن ماجه بَاب أَضَاحِيِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۳۱۱۳)  وَرُوِّينَا فِى كِتَابِ الضَّحَايَا تَضْحِيَةَ النَّبِىِّ  صلى الله عليه وسلم بِكَبْشَيْنِ مَوْجُوئَيْنِ وَذَلِكَ لِمَا فِيهِ مِنْ تَطْيِيبِ اللَّحْمِ (السنن الكبري للبيهقي باب كَرَاهِيَةِ خِصَاءِ الْبَهَائِمِ ۲۰۲۹۳)
مسئلہ:اگر خارشی جانور ذبح کرے اگر وہ موٹا ہو تو جائز ہے۔ ہاں! اگر وہ خارشی جانور دبلا ہو تو پھر جائز نہیں۔ حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي (ترمذي بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الْأَضَاحِيِّ ۱۴۱۷) وَأَمَّا الْجَرْبَاءُ إنْ كَانَتْ سَمِينَةً جَازَ لِأَنَّ الْجَرَبَ إنَّمَا هُوَ فِي الْجِلْدِ وَلَا نُقْصَانَ فِي اللَّحْمِ (الجوهرة النيرة كِتَابُ الْأُضْحِيَّةِ: ۲۹۶/۵)(وَ) تذبح (الجَرْبَاءُ) إن كانت سمينة ولم يتلَف جلدها، لأنه لا يُخِلّ بالمقصود (شرح الوقاية كتاب الأُضْحِيَةِ: ۲۴۱/۵)۔
مسئلہ: کانے (یعنی جس کی ایک آنکھ خراب ہو)جانور کی قربانی بھی جائزنہیں ہے۔ حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي (ترمذي بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الْأَضَاحِيِّ ۱۴۱۷)
مسئلہ: ایسے لنگڑے جانورکی قربانی بھی جائز نہیں ہے جو مَذبَحْ (ذبح کی جانےوالی جگہ)تک نہ چل سکتا ہو، ہاں اگر لنگڑا اس قدر ہو کہ تین پیروں سے چلتا ہو اور چوتھے پیر کو چلنے کے لئے سہارے کے طور پر زمین پر رکھتا ہو تو جائز ہے۔ حوالہ
 عَنْ عَلِيٍّ قَالَ الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ قُلْتُ فَإِنْ وَلَدَتْ قَالَ اذْبَحْ وَلَدَهَا مَعَهَا قُلْتُ فَالْعَرْجَاءُ قَالَ إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسِكَ قُلْتُ فَمَكْسُورَةُ الْقَرْنِ قَالَ لَا بَأْسَ أُمِرْنَا أَوْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَيْنِ وَالْأُذُنَيْنِ (ترمذي بَاب فِي الضَّحِيَّةِ بِعَضْبَاءِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ ۱۴۲۳)
مسئلہ: اتنے دبلے جانورکا ذبح کرنا جائز نہیں ہے جس کا دبلا پن اس قدر زیادہ ہو کہ اس کی ہڈی میں گودا باقی نہ رہ گیا ہو۔ حوالہ
 عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي (ترمذي بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الْأَضَاحِيِّ ۱۴۱۷)
مسئلہ: ایسے جانور کا ذبح کرنا جس کا اکثر کان یا اکثر دم چلی گئی ہو جائز نہیں ہے، ہاں اگر اس کے کان کے دوتہائی باقی ہوں اور ایک تہائی چلا گیا ہو تو صحیح ہے۔ حوالہ
 عَنْ عَلِيٍّ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ قَالَ قَتَادَةُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ فَقَالَ الْعَضْبُ مَا بَلَغَ النِّصْفَ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ (ترمذي بَاب فِي الضَّحِيَّةِ بِعَضْبَاءِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ ۱۴۲۴) عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  :« لاَ بَأْسَ بِالأُضْحِيَّةِ الْمَقْطُوعَةِ الذَّنَبِ (السنن الكبري للبيهقي باب الرَّجُلِ يَشْتَرِى ضَحِيَّةً وَهِىَ تَامَّةٌ ثُمَّ عَرَضَ لَهَا نَقْصٌ وَبَلَغَتِ الْمَنْسَكَ ۱۹۶۶۷)
مسئلہ: ایسے جانور کا ذبح کرنا جس کے دانت ٹوٹ گئے ہوں جائز نہیں ہے، ہاں اگر زیادہ دانت باقی ہوں تو صحیح ہے۔ حوالہ
 عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي (ترمذي بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الْأَضَاحِيِّ ۱۴۱۷)
مسئلہ:ایسے جانور کا ذبح کرنا جس کے پیدائشی طورپر کان نہ ہو جائز نہیں۔ حوالہ
عن يَزِيد ذي مِصْرَ قَالَ :أَتَيْتُ عُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِىَّ فَقُلْتُ يَا أَبَا الْوَلِيدِ إِنِّى خَرَجْتُ أَلْتَمِسُ الضَّحَايَا فَلَمْ أَجِدْ شَيْئًا يُعْجِبُنِى غَيْرَ ثَرْمَاءَ فَكَرِهْتُهَا فَمَا تَقُولُ؟ قَالَ :أَفَلاَ جِئْتَنِى بِهَا. قُلْتُ :سُبْحَانَ اللَّهِ تَجُوزُ عَنْكَ وَلاَ تَجُوزُ عَنِّى. قَالَ :نَعَمْ إِنَّكَ تَشُكُّ وَلاَ أَشُكُّ إِنَّمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  عَنِ الْمُصْفَرَةِ وَالْمُسْتَأْصَلَةِ وَالْبَخْقَاءِ وَالْمُشَيِّعَةِ وَالْكَسْرَاءِ فَالْمُصْفَرَةُ الَّتِى تُسْتَأْصَلُ أُذُنُهَا حَتَّى يَبْدُوَ سِمَاخُهَا(السنن الكبري للبيهقي باب مَا وَرَدَ النَّهْىُّ عَنِ التَّضْحِيَةِ بِهِ ۱۹۵۷۴)
مسئلہ: ایسے جانور کی قربانی جس کے تھن کے سرے کٹے ہوئے ہوں صحیح نہیں ہے۔حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي (ترمذي بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الْأَضَاحِيِّ ۱۴۱۷) عن ابن عباس قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :« لا يجوز في البدن العوراء ، ولا العجفاء ، ولا الجرباء ، ولا المصطلمة أطباؤها (المعجم الاوسط للطبراني من اسمه دليل ۳۷۱۶)


قربانی کے گوشت اور کھال کا مصرف



قربانی دینے والے کو قربانی کا گوشت کھاناجائز ہے۔ حوالہ
 ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ (مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۲۱۳۷) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا ضَحَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَأْكُلْ مِنْ أُضْحِيَّتِهِ (مسند احمد مسند أبي هريرة رضي الله عنه ۹۰۶۷)
اسی طرح قربانی کا گوشت غریبوں اور مالداروں کو بھی کھلانا جائز ہے، بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں، تہائی کو صدقہ کرے ، تہائی اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے رکھ لے اور تہائی رشتہ داروں اور دوستوں کودے؛ اگر پورا گوشت اپنے اہل وعیال کے لئے رکھ لے تو جائزہے۔ حوالہ
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔ (الحج:۳۶) عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ ثُمَّ قَالَ بَعْدُ كُلُوا وَتَزَوَّدُوا وَادَّخِرُوا (مسلم، بَاب بَيَانِ مَا كَانَ مِنْ النَّهْيِ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ بَعْدَ ثَلَاثٍ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ وَبَيَانِ نَسْخِهِ وَإِبَاحَتِهِ إِلَى مَتَى شَاءَ ۳۶۴۴) ابن عباس مرفوعاً في الأضحية قال :ويطعم أهل بيته الثلث ، ويطعم فقراء جيرانه الثلث ، ويتصدق على السؤال بالثلث قال الحافظ ، وأبو موسى :هذا حديث حسن ، ولقوله تعالى :فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر (منار السبيل لابن ضويان، إبراهيم بن محمد بن سالم (المتوفى :1353هـ،باب الاضحية ۱۸۹/۱)
اگر قربانی نذر کی ہو تو قربانی دینے والے کا اس میں سے کھانا بالکل جائز نہیں ہے ، بلکہ تمام قربانی کو صدقہ کردے۔ حوالہ
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ۔      (التوبۃ:۶۰)
عَنِ الْحَكَمِ، قَالَ:قَالَ عَلِيٌّ:لاَيُؤْكَلُ مِنَ النَّذْرِ، وَلاَمِنْ جَزَاءِ الصَّيْدِ، وَلاَمِمَّا جُعِلَ لِلْمَسَاكِينِ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، فِي هَدْيِ الْكَفَّارَةِ، وَجَزَاءِ الصَّيْدِ:۳/۵۵۶)
بند
قربانی دینے والے کو قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں استعمال کرنا جائز ہے ، اسی طرح قربانی دینے والے کا قربانی کے کھال کو مالدار کو دینا بھی جائز ہے، لیکن اگر قربانی کی کھال کو بیچ دے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی قیمت کو صدقہ کردے۔ حوالہ
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  : مَنْ بَاعَ جِلْدَ أُضْحِيَّتِهِ فَلاَ أُضْحِيَّةَ لَهُ۔
(السنن الكبری للبيهقي، باب لاَ يَبِيعُ مِنْ أُضْحِيَّتِهِ شَيْئًا وَلاَ يُعْطِى أَجْرَ الْجَازِرِ مِنْهَا:۱۹۷۰۸)
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ وَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِلَحْمِهَا وَجُلُودِهَا وَأَجِلَّتِهَا وَأَنْ لَا أُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْهَا قَالَ نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا۔
(مسلم، بَاب فِي الصَّدَقَةِ بِلُحُومِ الْهَدْيِ وَجُلُودِهَا وَجِلَالِهَا:۲۳۲۰)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَلَمْ يَبْلُغْ أَبُو الزُّبَيْرِ هَذِهِ الْقِصَّةَ كُلَّهَا أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ أَتَى أَهْلَهُ فَوَجَدَ قَصْعَةَ ثَرِيدٍ مِنْ قَدِيدِ الْأَضْحَى فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَهُ فَأَتَى قَتَادَةَ بْنَ النُّعْمَانِ فَأَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِي حَجٍّ فَقَالَ إِنِّي كُنْتُ أَمَرْتُكُمْ أَنْ لَا تَأْكُلُوا الْأَضَاحِيَّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ لِتَسَعَكُمْ وَإِنِّي أُحِلُّهُ لَكُمْ فَكُلُوا مِنْهُ مَا شِئْتُمْ قَالَ وَلَا تَبِيعُوا لُحُومَ الْهَدْيِ وَالْأَضَاحِيِّ فَكُلُوا وَتَصَدَّقُوا وَاسْتَمْتِعُوا بِجُلُودِهَا وَإِنْ أُطْعِمْتُمْ مِنْ لُحُومِهَا شَيْئًا فَكُلُوهُ إِنْ شِئْتُمْ۔
(مسند احمد، حديث قتادة بن النعمان رضي الله تعالى عنه:۱۶۲۵۵)
قصاب کی اجرت نہ قربانی کے گوشت سے اور نہ اس کھال کی قیمت سے دی جاسکتی ہے۔حوالہ
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ وَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِلَحْمِهَا وَجُلُودِهَا وَأَجِلَّتِهَا وَأَنْ لَا أُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْهَا قَالَ نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا۔
(مسلم، بَاب فِي الصَّدَقَةِ بِلُحُومِ الْهَدْيِ وَجُلُودِهَا وَجِلَالِهَا:۲۳۲۰)


ذبح کرنے کا بیان

ذبح کی تعریف

ذبح کے لغوی معنی: شق کے ہیں یعنی پھاڑنا۔ حوالہ
 وَأَصْلُ الذَّبْحِ الشَّقُّ(المصباح المنير: ۲۹۲/۳) 

ذبح کی اصطلاحی معنی:جانور كے چار يا تين رگوں (حلقوم،مری،ودجان،) كا كاٹناہے۔حوالہ
 عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ : الذَّكَاةُ فِى الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ(السنن الكبري للبيهقي باب الذَّكَاةِ فِى الْمَقْدُورِ عَلَيْهِ مَا بَيْنَ اللَّبَّةِ وَالْحَلْقِ ۱۹۵۹۶) ثُمَّ الْأَوْدَاجُ أَرْبَعَةٌ : الْحُلْقُومُ ، وَالْمَرِيءُ ، وَالْعِرْقَانِ اللَّذَانِ بَيْنَهُمَا الْحُلْقُومُ وَالْمَرِيءُ ، فَإِذَا فَرَى ذَلِكَ كُلَّهُ فَقَدْ أَتَى بِالذَّكَاةِ بِكَمَالِهَا وَسُنَنِهَا وَإِنْ فَرَى الْبَعْضَ دُونَ الْبَعْضِ فَعِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إذَا قَطَعَ أَكْثَرَ الْأَوْدَاجِ وَهُوَ ثَلَاثَةٌ مِنْهَا أَيُّ ثَلَاثَةٍ كَانَتْ وَتَرَكَ وَاحِدًا يَحِلُّ(بدائع الصنائع فصل في بَيَان شَرْطِ حِلِّ الْأَكْلِ فِي الْحَيَوَانِ الْمَأْكُولِ ۱۴۸/۱۰) 

انسان کے لیے جو چیزیں مفید ہوتی ہیں اللہ تعالی نے اسی کو جائز وحلال قرار دیا ہے اور جو چیزیں فطرت سلیمہ کے ناموافق یا صحت انسانی کے لیے نقصان دہ ہوں ان کو ناجائز وحرام قرار دیا ہے اورجو چیزیں حلال وجائز قرار دی گئی ہیں اس کے استعمال کے جائز طریقے بھی بتلائے گئے چونکہ جانور کے اندر موجود ‘بہنے والا خون’ (دم سائل) انسان کے لیے نقصان دہ ہے اس سے جانور کو پاک وصاف بنانے کا جو طریقہ ہے اسے ذبح کہا جاتا ہے اگر بغیر ذبح کے وہ جانور استعمال کیا گیا تو  بہنے والا خون اس کے گوشت وغیرہ میں سرایت کرجاتا ہے  جس کی وجہ سے پاک چیز بھی ناپاک ہوجاتی ہے۔ حوالہ
 يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ(المائدة: ۳) وَلَا يَطِيبُ إلَّا بِخُرُوجِ الدَّمِ الْمَسْفُوحِ وَذَلِكَ بِالذَّبْحِ وَالنَّحْرِ وَلِهَذَا حُرِّمَتْ الْمَيْتَةُ ؛ لِأَنَّ الْمُحَرَّمَ وَهُوَ الدَّمُ الْمَسْفُوحُ فِيهَا قَائِمٌ وَلِذَا لَا يَطِيبُ مَعَ قِيَامِهِ(بدائع الصنائع فصل في بَيَان شَرْطِ حِلِّ الْأَكْلِ فِي الْحَيَوَانِ الْمَأْكُولِ ۱۴۵/۱۰) 

ذبح کی قسمیں

ذبح کی دو قسمیں ہیں:   (۱)ذبح اختیاری،   (۲)ذبح اضطراری۔
جو جانور قابو میں نہ آتا ہو،ایسے جانور کو ذبح کرنے کے لیے کسی خاص قسم کی رگ وغیرہ کا کاٹنا ضروری نہیں ہوتا، کسی بھی جگہ زخم لگادینا کافی ہوتا ہے،اگر زخم لگانے کے بعد جانور قابو میں آجائے تو اسے صحیح طریقہ کے مطابق ذبح کیا جائے گا اوراگر مرنے کے بعد ہی قابو میں آئے تو حلال ہوجائے گا اوراس طرح کرنے کو ذبح اضطراری کہتے ہیں۔
 عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لَاقُو الْعَدُوِّ غَدًا وَلَيْسَتْ مَعَنَا مُدًى فَقَالَ اعْجَلْ أَوْ أَرِنْ مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ فَكُلْ لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ وَسَأُحَدِّثُكَ أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ وَأَصَبْنَا نَهْبَ إِبِلٍ وَغَنَمٍ فَنَدَّ مِنْهَا بَعِيرٌ فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِهَذِهِ الْإِبِلِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَإِذَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا شَيْءٌ فَافْعَلُوا بِهِ هَكَذَا(بخاري بَاب مَا نَدَّ مِنْ الْبَهَائِمِ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْوَحْشِ ۵۰۸۵) ( وَأَمَّا ) الِاضْطِرَارِيَّةُ فَرُكْنُهَا الْعَقْرُ وَهُوَ الْجَرْحُ فِي أَيِّ مَوْضِعٍ كَانَ وَذَلِكَ فِي الصَّيْدِ(بدائع الصنائع فصل في بَيَان شَرْطِ حِلِّ الْأَكْلِ فِي الْحَيَوَانِ الْمَأْكُولِ ۱۵۷/۱۰) 

جو جانور قابو میں آجاتا ہے اسے ذبح کرنا ذبح اختیاری کہلاتا ہے،ذبح اختیاری کے لیے ضروری ہے کہ غذا،سانس اورخون کی دونالیوں میں سے کم از کم تین رگیں کٹ جائیں۔ حوالہ
 عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ : الذَّكَاةُ فِى الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ(السنن الكبري للبيهقي باب الذَّكَاةِ فِى الْمَقْدُورِ عَلَيْهِ مَا بَيْنَ اللَّبَّةِ وَالْحَلْقِ ۱۹۵۹۶) ثُمَّ الْأَوْدَاجُ أَرْبَعَةٌ : الْحُلْقُومُ ، وَالْمَرِيءُ ، وَالْعِرْقَانِ اللَّذَانِ بَيْنَهُمَا الْحُلْقُومُ وَالْمَرِيءُ ، فَإِذَا فَرَى ذَلِكَ كُلَّهُ فَقَدْ أَتَى بِالذَّكَاةِ بِكَمَالِهَا وَسُنَنِهَا وَإِنْ فَرَى الْبَعْضَ دُونَ الْبَعْضِ فَعِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إذَا قَطَعَ أَكْثَرَ الْأَوْدَاجِ وَهُوَ ثَلَاثَةٌ مِنْهَا أَيُّ ثَلَاثَةٍ كَانَتْ وَتَرَكَ وَاحِدًا يَحِلُّ(بدائع الصنائع فصل في بَيَان شَرْطِ حِلِّ الْأَكْلِ فِي الْحَيَوَانِ الْمَأْكُولِ ۱۴۸/۱۰) 

ذبح کا ایک طریقہ ‘نحر’ بھی ہے جو اونٹ کو ذبح کے لیے استعمال ہوتا ہے،وہ یہ ہے کہ گردن اور سینےکے درمیان اونٹ کی شہ رگ پر نیزہ مارا جائے۔ حوالہ
 فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الكوثر:۲) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَنَحَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ سَبْعَ بُدْنٍ قِيَامًا(بخاري بَاب نَحْرِ الْبُدْنِ قَائِمَةً ۱۵۹۹) 

ذبح كے شرائط

ذبح کرنے والا عاقل،بالغ یا ایسا بچہ ہوجو ذبح کرنے پر قدرت رکھتا ہو اوراسے سمجھتا ہو اور مسلمان ہو یا اہل کتاب میں سے یہودی یا عیسائی ہو بشرطيكہ وه اپنے مذهب كےاصول، پیغمبر اور كتب سماویہ كو مانتے ہوں،  نجوم پرست نہ ہوں، اور ذبح كرتے وقت الله كا نام جان بوجھ كرنہ چھوڑے۔ حوالہ
 وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ(بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ ۳۱۵/۱۶)عن علي عليه السلام قال: لا تأكلوا من ذبائح نصارى بني تغلب ، فإنهم لم يتمسكوا من النصرانية بشيء إلا بشربهم الخمر .(تنقيح التحقيق في احاديث التعليق،   مسائل الذبح  ۳۸۳/۳) وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ(الانعام: ۱۲۴) 

ذبح كےسنن وآداب


(۱) ذبح کرتے وقت ذبح کرنے والے كا اللہ کا نام  لینا البتہ اگر بھولے سے چھوٹ گیا تو جائز ہوگا ورنہ نہیں۔حوالہ
 وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ(الانعام: ۱۲۴) عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ(ابن ماجه بَاب طَلَاقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِي ۲۰۳۳) 

(۲) جس چیز سے ذبح کیا جارہا ہے وہ دھار رکھنے والا ہواورذبح میں کاٹی جانے والی رگوں اور نالیوں کو کاٹ سکتا ہو اس لیے کہ شریعت نے ذبح کا ایسا طریقہ مقرر کیا جس سے جانور کو کم سے کم تکلیف ہو ۔ حوالہ
عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ ثِنْتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ(مسلم بَاب الْأَمْرِ بِإِحْسَانِ الذَّبْحِ وَالْقَتْلِ وَتَحْدِيدِ الشَّفْرَةِ۳۶۱۵)وندب إحداد شفرته قبل الاضجاع(الدر المختاركتاب الذبائح ۶۰۶/۵) 

(۳) اونٹ  میں نحر افضل ہے اور باقی تمام جانوروں میں ذبح، پھر بھی اونٹ کو ذبح اورباقی جانوروں کو ‘نحر’ کرنے سے جانور حلال ہوجائے گا اس لیے کہ مقصود دم سائل (فاسد خون) کو جسم سے نکالدینا ہے اور وہ ‘نحروذبح’ دونوں میں سے کسی سے بھی ہوجائے گا۔ حوالہ
 عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَنَحَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ سَبْعَ بُدْنٍ قِيَامًا(بخاري بَاب نَحْرِ الْبُدْنِ قَائِمَةً ۱۵۹۹)عَنْ جَابِرٍ قَالَ ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَائِشَةَ بَقَرَةً يَوْمَ النَّحْرِ(مسلم بَاب الِاشْتِرَاكِ فِي الْهَدْيِ وَإِجْزَاءِ الْبَقَرَةِ وَالْبَدَنَةِ كُلٍّ مِنْهُمَا عَنْ سَبْعَةٍ ۲۳۲۸) عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ لَنَا مُدًى فَقَالَ مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ فَكُلْ(بخاري بَاب مَا أَنْهَرَ الدَّمَ مِنْ الْقَصَبِ وَالْمَرْوَةِ وَالْحَدِيدِ ۵۰۷۹) 

ذبح کےمکروہات

 (۱)ناخن اوردانت سے ذبح کرنا مکروہ ہے اور جسم سے  جڑے ہوئے ناخن اوردانت سے ذبح کرنا حرام ہے۔حوالہ
 عن رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ أَفَنَذْبَحُ بِالْقَصَبِ فَقَالَ مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلْ لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ(بخاري بَاب التَّسْمِيَةِ عَلَى الذَّبِيحَةِ وَمَنْ تَرَكَ مُتَعَمِّدًا۵۰۷۴) 

  (۲) جانور ذبح کرنے کے بعد جب تک اس کی جان مکمل طور پر نہ نکل جائے اس وقت تک اس کا چمڑا نکالنا یا اس کے جسم کے کسی حصہ کو کاٹنا مکروہ ہے اس سے جانور کو تکلیف ہوتی ہے۔حوالہ
 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ زَادَ ابْنُ عِيسَى وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَرِيطَةِ الشَّيْطَانِ زَادَ ابْنُ عِيسَى فِي حَدِيثِهِ وَهِيَ الَّتِي تُذْبَحُ فَيُقْطَعُ الْجِلْدُ وَلَا تُفْرَى الْأَوْدَاجُ ثُمَّ تُتْرَكُ حَتَّى تَمُوتَ (ابو داود بَاب فِي الْمُبَالَغَةِ فِي الذَّبْحِ۲۴۴۳)(و) كره كل تعذيب بلا فائدة مثل (قطع الرأس والسلخ قبل أن تبرد) أي تسكن عن الاضطراب(الدر المختار كتاب الذبائح ۶۰۷/۵) 

(۳) آج کل ذبح کے لیے جو مشین استعمال کی جارہی ہیں وہ اگر آلۂ ذبح کے اصول کو پورا کرتی ہو تو اس سے جانور کا ذبح کرنا درست ہے ورنہ نہیں۔حوالہ
عن رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ أَفَنَذْبَحُ بِالْقَصَبِ فَقَالَ مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلْ لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ
(بخاري بَاب التَّسْمِيَةِ عَلَى الذَّبِيحَةِ وَمَنْ تَرَكَ مُتَعَمِّدًا۵۰۷۴) 






حلال وحرام جانور

جانوروں كی دو قسمیں ہیں: (۱) بحری یعنی سمندر کے جانور، (۲) بری یعنی خشکی کے جانور۔
پھر ان میں سے بعض جانور وہ ہیں جن کا گوشت کھانا جائز ہے؛ اور بعض جانور وہ ہیں جن کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔حوالہ
ان كی تفصيل اس طرح ہے:
بحری(سمندری)جانور
بحری جانوروں میں مچھلی کے علاوہ تمام جانوروں کا کھانا ناجائز ہے اورمچھلی بھی اگر طبعی موت مرجائے (جسے طافی کہاجاتا ہے) اس طرح کہ پانی کے اوپر آجائے تو ایسی مچھلی کھانا بھی ناجائز ہے۔
 حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ(المائدة: ۳) وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ (الاعراف: ۱۵۷) عَنْ عِيسَى بْنِ نُمَيْلَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَسُئِلَ عَنْ أَكْلِ الْقُنْفُذِ فَتَلَا{ قُلْ لَا أَجِدُ فِيمَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا }الْآيَةَقَالَ قَالَ شَيْخٌ عِنْدَهُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ خَبِيثَةٌ مِنْ الْخَبَائِثِ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِنْ كَانَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا فَهُوَ كَمَا قَالَ مَا لَمْ نَدْرِ(ابوداود بَاب فِي أَكْلِ حَشَرَاتِ الْأَرْضِ ۳۳۰۵) وَالضُّفْدَعُ وَالسَّرَطَانُ وَالْحَيَّةُ وَنَحْوُهَا مِنْ الْخَبَائِثِ (بدائع الصنائع الْمَأْكُول وَغَيْر الْمَأْكُولِ مِنْ الْحَيَوَانَاتِ۱۲۳/۱۰)عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَلْقَى الْبَحْرُ أَوْ جَزَرَ عَنْهُ فَكُلُوهُ وَمَا مَاتَ فِيهِ وَطَفَا فَلَا تَأْكُلُوهُ(ابوداود بَاب فِي أَكْلِ الطَّافِي مَنْ السَّمَكِ ۳۳۱۹) أَمَّا الَّذِي يَعِيشُ فِي الْبَحْرِ فَجَمِيعُ مَا فِي الْبَحْرِ مِنْ الْحَيَوَانِ مُحَرَّمُ الْأَكْلِ إلَّا السَّمَكَ خَاصَّةً فَإِنَّهُ يَحِلُّ أَكْلُهُ إلَّا مَا طَفَا مِنْهُ(بدائع الصنائع الْمَأْكُول وَغَيْر الْمَأْكُولِ مِنْ الْحَيَوَانَاتِ۱۲۳/۱۰) 
بند
بری(خشکی کے)جانور
بری جانور )جو خشکی میں رہتے ہیں( تین طرح کے ہیں: (۱)جن میں خون بالکل نہ ہو جیسے مکھی مکڑی وغیرہ ایسے حیوانات میں جراد (ٹڈی) کے علاوہ سب حرام ہیں۔حوالہ
 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ الْحُوتُ وَالْجَرَادُ(ابن ماجه بَاب صَيْدِ الْحِيتَانِ وَالْجَرَادِ ۳۲۰۹)وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ(الاعراف:۱۵۷) مِثْلُ الْجَرَادِ وَالزُّنْبُورِ وَالذُّبَابِ وَالْعَنْكَبُوتِ وَالْعَضَّابَةِ وَالْخُنْفُسَاءِ وَالْبُغَاثَةِ وَالْعَقْرَبِ وَنَحْوِهَا لَا يَحِلُّ أَكْلُهُ إلَّا الْجَرَادَ خَاصَّةً ؛ لِأَنَّهَا مِنْ الْخَبَائِثِ لِاسْتِبْعَادِ الطِّبَاعِ السَّلِيمَةِ إيَّاهَا(بدائع الصنائع الْمَأْكُول وَغَيْر الْمَأْكُولِ مِنْ الْحَيَوَانَاتِ ۱۲۷/۱۰) 
بند
 (۲)جن جانور وں میں خون ہے لیکن دم مسفوح (بہتا ہوا خون ) نہیں ہے جیسے سانپ، چھپکلی اورپورے زمین پر چلنے والے(حشرات  الارض) سب کے سب حرام ہیں۔حوالہ
 وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ(الاعراف:۱۵۷) عن عائشة رضي الله عنها أنه أهدي لها ضب فسألت النبي صلى الله عليه وسلم عن أكله فقال: إني أكرهه، فجاءتها سائلة، فأرادت أن تطعمها إياه ، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم: أتطعمينها ما لا تأكلين (الاثار لابي يوسف: ۱۰۴۵) والمعروف عن أكثر الحنفية فيه كراهة التنزيه . وجنح بعضهم إلى التحريم  وقال اختلفت الأحاديث وتعذرت معرفة المتقدم فرجحنا جانب التحريم ودعوى التعذر ممنوعة بما تقدم(نيل الاوطار باب ما جاء في الضب ۱۹۳/۸) 
بند
(۳)جن میں بہتا ہوا خون موجود ہو یہ دو طرح کے ہیں:   (۱)پالتو جانور،   (۲)جنگلی اوروحشی جانور۔
پالتو جانوروں میں اونٹ،گائے،بیل،بکری؛ اوروحشی جانوروں میں ہرن، نیل گائے ،جنگلی اونٹ اورجنگلی گدھے کا کھانا جائز ہے۔
پالتو جانوروں میں کتا اوربلی حرام ہیں نیز وحشی جانوروں میں درندےمثلاً شیر،بھیڑیا،چیتا،جنگلی بلی، بندر ،گیدڑ اورلومڑی وغیرہ حرام ہیں؛ اور گھوڑا مكروه ہے،پالتو گدھے اورخچر کا کھانا حرام ہے؛ اورخرگوش کا کھانا حلال ہے؛ اور ایسے اونٹ جو نجاست خوری کے عادی ہوں ان کا کھانا مکروہ ہے۔
 وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ(النحل: ۵) أَمَّا الْمُسْتَأْنِسُ مِنْ الْبَهَائِمِ فَنَحْوُ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ بِالْإِجْمَاعِ وَاسْمُ الْأَنْعَامِ يَقَعُ عَلَى هَذِهِ الْحَيَوَانَاتِ بِلَا خِلَافٍ بَيْنَ أَهْلِ اللُّغَةِ (بدائع الصنائع الْمَأْكُول وَغَيْر الْمَأْكُولِ مِنْ الْحَيَوَانَاتِ ۱۳۰/۱۰) وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً (النحل: ۸) عَنْ ابْنِ عُمَرَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ(بخاري بَاب غَزْوَةِ خَيْبَرَ ۳۸۹۵) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَيْبَرَ أَصَبْنَا حُمُرًا خَارِجًا مِنَ الْقَرْيَةِ فَنَحَرْنَاهَا ، فَطَبَخْنَا مِنْهَا فَنَادَى مُنَادِى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: أَلاَ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَيَانِكُمْ عَنْهَا، فَإِنَّهَا رِجْزٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ. فَأُكْفِئَتِ الْقُدُورُ بِمَا فِيهَا وَإِنَّهَا لَتَفُورُ.(مسند حميدي مسند أنس بن مالك ۱۲۵۳) عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْخَيْلِ وَالْبِغَالِ وَالْحَمِيرِ زَادَ حَيْوَةُ وَكُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ(ابوداود بَاب فِي أَكْلِ لُحُومِ الْخَيْلِ ۳۲۹۶) عن أَبي هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْخَيْلُ قَالَ الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ هِيَ لِرَجُلٍ وِزْرٌ وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ وَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ(مسلم بَاب إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ ۱۶۴۷) صَلَحَتْ لِلْأَكْلِ لَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ : الْخَيْلُ لِأَرْبَعَةٍ لِرَجُلٍ سِتْرٌ ، وَلِرَجُلٍ أَجْرٌ ، وَلِرَجُلِ وِزْرٌ وَلِرَجُلٍ طَعَامٌ .( بدائع الصنائع الْمَأْكُول وَغَيْر الْمَأْكُولِ مِنْ الْحَيَوَانَاتِ ۱۳۵/۱۰ ) وَأَمَّا الْمُتَوَحِّشُ مِنْهَا نَحْوُ الظِّبَاءِ وَبَقَرِ الْوَحْشِ وَحُمُرِ الْوَحْشِ وَإِبِلِ الْوَحْشِ فَحَلَالٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ( بدائع الصنائع الْمَأْكُول وَغَيْر الْمَأْكُولِ مِنْ الْحَيَوَانَاتِ۱۳۷/۱۰) عَنْ الْبَهْزِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يُرِيدُ مَكَّةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالرَّوْحَاءِ إِذَا حِمَارُ وَحْشٍ عَقِيرٌ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ دَعُوهُ فَإِنَّهُ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ صَاحِبُهُ فَجَاءَ الْبَهْزِيُّ وَهُوَ صَاحِبُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ وَسَلَّمَ شَأْنَكُمْ بِهَذَا الْحِمَارِ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ فَقَسَّمَهُ بَيْنَ الرِّفَاقِ(نسائي  باب مَا جَاءَ فِى هِبَةِ الْمَشَاعِ ۱۲۳۱۰) وَالْحَدِيثُ وَإِنْ وَرَدَ فِي حِمَارِ الْوَحْشِ لَكِنَّ إحْلَالَ الْحِمَارِ الْوَحْشِيِّ إحْلَالٌ لِلظَّبْيِ وَالْبَقَرِ الْوَحْشِيِّ وَالْإِبِلِ الْوَحْشِيِّ مِنْ طَرِيقِ الْأَوْلَى ؛ لِأَنَّ الْحِمَارَ الْوَحْشِيَّ لَيْسَ مِنْ جِنْسِهِ مِنْ الْأَهْلِيِّ مَا هُوَ حَلَالٌ بَلْ هُوَ حَرَامٌ وَهَذِهِ الْأَشْيَاءُ مِنْ جِنْسِهَا مِنْ الْأَهْلِيِّ مَا هُوَ حَلَالٌ فَكَانَتْ أَوْلَى بِالْحِلِّ ( بدائع الصنائع الْمَأْكُول وَغَيْر الْمَأْكُولِ مِنْ الْحَيَوَانَاتِ۱۳۷/۱۰)عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ( بخاري بَاب أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ ۵۱۰۴)عن أَنَس يَقُولُ أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ فَسَعَى أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهَا فَأَدْرَكْتُهَا فَأَخَذْتُهَا فَأَتَيْتُ بِهَا أَبَا طَلْحَةَ فَذَبَحَهَا بِمَرْوَةٍ فَبَعَثَ مَعِي بِفَخِذِهَا أَوْ بِوَرِكِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَهُ قَالَ قُلْتُ أَكَلَهُ قَالَ قَبِلَهُ(ترمذيبَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الْأَرْنَبِ ۱۷۱۱)عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْجَلَّالَةِ فِي الْإِبِلِ أَنْ يُرْكَبَ عَلَيْهَا أَوْ يُشْرَبَ مِنْ أَلْبَانِهَا(ابوداود بَاب النَّهْيِ عَنْ أَكْلِ الْجَلَّالَةِ وَأَلْبَانِهَا ۳۲۹۳) 



پرندوں كا حكم


 پرندوں میں بھی درندے حرام ہیں، یعنی جو پنجوں سے شکار کرنے والے اور دوسروں پر حملہ کرنے والے ہیں؛ اور کوئل بھی حرام ہے؛ اسی طرح نجاست خور کوّا بھی حرام ہے؛لیکن وہ کوّا جو دانے اور کھیتوں سے کھاتا ہے جائز ہے جسے زاغ کہتے ہیں  اس کے علاوہ عام پرندے مرغی، بطخ، فاختہ، کبوتر،گورئیے،وغیرہ حلال ہیں۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنْ الطَّيْرِ(مسلم بَاب تَحْرِيمِ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ وَكُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنْ الطَّيْرِ ۳۵۷۴)عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَاأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَمْسٌ مِنْ الدَّوَابِّ كُلُّهُنَّ فَاسِقٌ يَقْتُلُهُنَّ فِي الْحَرَمِ الْغُرَابُ وَالْحِدَأَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْفَأْرَةُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ(بخاري بَاب مَا يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ مِنْ الدَّوَابِّ ۱۶۹۸)عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ مَنْ يَأْكُلُ الْغُرَابَ وَقَدْ سَمَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسِقًا وَاللَّهِ مَا هُوَ مِنْ الطَّيِّبَاتِ(ابن ماجه بَاب الْغُرَابِ۳۲۳۹)شُعْبَةُ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَكَمَ عَنْ أَكْلِ الْغِرْبَانِ فَقَالَ : أَمَّا هَذِهِ السُّودُّ الْكِبَارُ فَإِنِّى أَكْرَهُ أَكْلَهَا وَأَمَّا تِلْكَ الصِّغَارُ الَّتِى يُقَالُ لَهَا الزَّاغُ فَلاَ بَأْسَ بِأَكْلِهِ.
(السنن الكبري للبيهقي  باب مَا يَحْرُمُ مِنْ جِهَةِ مَا لاَ تَأْكُلُ ۱۹۸۵۴) 


جانوروں كےاحكام


(۱)جن جانوروں کا کھانا حلال ہے وہ طبعی موت مرجائیں یا ان کا گلا گھونٹ دیا گیا ہو یا چوٹ لگنے کی وجہ سے مرگیا ہو، یا کسی درندے کے حملہ کی وجہ سے مرگیا ہو الغرض وہ تمام جانور جن کی موت شرعی ذبح کے بغیر ہوئی ہو ان کا کھانا ناجائز  وحرام ہے۔حوالہ
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ(المائدة: ۳) 
بند
(۲)جانوروں کا بیچنا اس وقت درست ہے جبکہ وہ اس کی ملکیت میں ہو اور اپنے  قابو میں کرلیا ہو نيز وہ حلال ہوں یا اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھایا جاسکتا ہو۔حوالہ
 عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَأْتِينِي الرَّجُلُ يَسْأَلُنِي مِنْ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي أَبْتَاعُ لَهُ مِنْ السُّوقِ ثُمَّ أَبِيعُهُ قَالَ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ۱۱۵۳)عن ابْن عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ بَلَغَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَنَّ فُلَانًا بَاعَ خَمْرًا فَقَالَ قَاتَلَ اللَّهُ فُلَانًا أَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَجَمَلُوهَا فَبَاعُوهَا(بخاري بَاب لَا يُذَابُ شَحْمُ الْمَيْتَةِ وَلَا يُبَاعُ وَدَكُهُ ۲۰۷۱) أجمع العلماء على تحريم بيع الميتة ، لتحريم الله تعالى لها بقوله : ( حرمت عليكم الميتة والدم فالواجب أن يكون كل ما كان نجساُ حرام بيعه وشراؤه ، وأكل ثمنه ، وكل ما حرم أكله وهو طاهر ، فحلال بيعه وشراؤه ، والانتفاع به فيما لم يحظر الله  تعالى  الانتفاع به ، فبان الفرق بينهما(شرح صحيح البخاري لابن بطال  كِتَاب الْبُيُوعِ۳۴۶/۶) فكل ما لا ينتفع به بيقين فأكل المال عليه باطل(التمهيد لما في الموطا من المعاني والاسانيدالقرطبي (المتوفى : 463هـ)المحقق : مصطفى بن أحمد العلوى و محمد عبد الكبير البكرى،الحديث العاشر ۲۴۱/۶)