Friday 17 May 2013

نکاح


فقہ کے دوحصے ہیں ایک عبادات دوسرامعاملات، عبادات:اس حصہ کو کہتے ہیں جس میں مکلف (انسان) کے ان افعال واعمال سے بحث کی جاتی ہے جو شریعت کی طرف سے عبدو معبود کے درمیان تعلق پیدا کرنے کے لیے دیےگئے ہوں جیسے نماز ، روزہ وغیرہ۔
معاملات:اس حصہ کو کہتے ہیں جس میں مکلف (انسان) کے ان افعال و اعمال سے بحث کی جاتی ہے  جو شریعت کی طرف سے بندوں کے آپسی تعلق پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہوں جیسے خرید و فروخت وغیرہ۔
ان دونوں کے علاوہ بعض امور ایسے ہیں جن میں مذکورہ دونوں پہلو ہیں یعنی ان میں عبادات کی بھی شان موجود ہے اور معاملات کی بھی، جیسے نکاح اس حیثیت سے کہ سرور انبیاء    کی سنت ہے اوراس کی ترغیب قرآن وحدیث  میں وارد ہوئی ہے اور اس کے ادا کرنے سے ثواب ملتا ہے جو عبد اور معبود کے تعلق کا نتیجہ ہے اس حیثیت سے یہ عبادات میں داخل ہے اور اس حیثیت سے کہ اس فعل کی وجہ سے دو بندوں یعنی میاں بیوی ؛بلکہ دو خاندانوں میں آپسی تعلق پیدا ہوجاتا ہے اس لحاظ سے وہ معاملات میں داخل ہے۔
لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عبادات کے بعد اورمعاملات سے پہلے ایسے دو پہلو والے افعال کا ذکر کیا جائے اورچونکہ ان تمام افعال میں نکاح کے مصالح اورفوائد دینی و دنیوی بہت زیادہ ہیں اس لیے اس کا ذکر سب  سے پہلے کیا جارہا ہے۔حوالہ
كِتَابُ النِّكَاحِ ذَكَرَهُ عَقِبَ الْعِبَادَاتِ الْأَرْبَعِ أَرْكَانِ الدِّينِ ؛ لِأَنَّهُ بِالنِّسْبَةِ إلَيْهَا كَالْبَسِيطِ إلَى الْمُرَكَّبِ ؛ لِأَنَّهُ عِبَادَةٌ مِنْ وَجْهٍ مُعَامَلَةٌ مِنْ وَجْهٍ(رد المحتار كتاب النكاح:۱۷۹/۹)

حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے اس آخری دین تک کوئی شریعت نکاح سے خالی نہیں رہی یعنی مرد و عورت کا ایک خاص معاہدہ آپسی جوڑ کے لیے ہر شریعت میں ہوتا تھا اور بغیر اس خاص معاہدہ کے مرد و عورت کا آپسی تعلق کسی شریعت نے جائز نہیں رکھا، البتہ اس معاہدہ کی صورتیں شریعتوں میں مختلف رہیں اوراس کے شرائط وغیرہ میں تبدیلی ہوتی رہی۔ حوالہ

 اعلم أن أصول فن تدبير المنازل مسلمة عند طوائف العرب والعجم  لهم اختلاف في أشباحها وصورها۔

 (حجۃ اللہ البالغۃ،باب تدبیر المنزل:۱/۶۸۰) 



نکاح کے لغوی واصطلاحی معنی


نکاح کے لغوی معنی:جماع کے ہیں حوالہ
جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْیہاں نکاح سے مراد جماع ہے ۔
(روح المعانی، النساء:۲۳،۳/۴۸۸)

نکاح کے اصطلاحی معنی:علمائے فقہ کی اصطلاح میں نکاح اس خاص معاہدہ کو کہتے ہیں جو عورت و مرد کے درمیان ہوتا ہے ،جس سے دونوں میں زوجیت کا تعلق قائم ہوتا ہے۔حوالہ
(التعریفات:۱/۸۱)



نکاح کے فوائد


نکاح کے فوائد ومصالح دینی و دنیوی بہت زیادہ اور عظیم الشان ہیں جن کا کچھ اندازہ صرف اس امر پر غور کرنے سے ہوسکتا ہے کہ تمام آسمانی شریعتیں اس کی خوبی پر متفق ہیں، گویا یہ بھی اصول ملت میں ایک اصل ہے، علماء نے بہت سے مصالح بیان کئے ہیں اور ہر عقل مند اپنی سمجھ کے مطابق جدید فوائد نکال سکتا ہے،یہاں کچھ فوائد بیان کئے جاتےہیں۔
(۱)اللہ تعالی کو ایک متعین وقت تک تمام حیوانات اورخاص کر بنی آدم کو باقی رکھنا مقصود ہے اوراس کےلیے تو الد وتناسل کا جاری ہونا ضروری ہے اور توالد و تناسل کا سبب تمام حیوانات میں نرومادہ کے اجتماعِ خاص کو قرار دیا گیا اورسب میں ایک قوت شہوانیہ رکھی گئی، اب شرافتِ انسانی کے لحاظ سے  اس امر میں بھی دیگر حیوانات سے امتیاز ضروری تھا جیسا کہ کھانے، پینے وغیرہ میں امتیاز ہے اس لیے  یہ حکم ہوا کہ آپسی رضا مندی سے کچھ شرائط واصول کے ساتھ یہ معاہدہ طئے ہو ۔
(۲)نکاح میں تو الد وتناسل عمدہ طریقہ پر ہوتا ہے، برخلاف بد کاری کے، اس لیے کہ اس(نکاح) میں ایک طرح کی خاص محبت ہوتی ہے اور دونوں مل کر بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے امید کی جاتی ہے کہ بچوں کی اعلی تربیت ہو جائے  ۔حوالہ
سَبَبِ شَرْعِيَّتِهِ تَعَلُّقُ الْبَقَاءِ الْمُقَدَّرِ فِي الْعِلْمِ الْأَزَلِيِّ عَلَى الْوَجْهِ الْأَكْمَلِ ، وَإِلَّا فَيُمْكِنُ بَقَاءُ النَّوْعِ بِالْوَطْءِ عَلَى غَيْرِ الْوَجْهِ الْمَشْرُوعِ لَكِنَّهُ مُسْتَلْزِمٌ لِلتَّظَالُمِ وَالسَّفْكِ وَضَيَاعِ الْأَنْسَابِ ، بِخِلَافِهِ عَلَى الْوَجْهِ الْمَشْرُوعِ۔
( فتح القدیر،کتاب النکاح:۶/۲۶۵،بحر الرائق،کتاب النکاح:۷/۵۴)

 (۳)سلسلۂ نسب باقی رہتا ہے اسی وجہ سے ایک مرد کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا دادا، کسی کا پوتا ،کسی کا ماموں ، کسی کا چچا یا کسی کا بھائی اورکسی کا بہنوئی ہوتا ہے اوراس تعلق کے ذریعہ ایک عورت کسی کی ماں، کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی پھوپھی، کسی کی چاچی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے۔
(۴)نکاح کے ذریعہ ایک اجنبی اپنا اورایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے ان ہی تعلقات کا نام خاندانی نظام ہے، ان ہی تعلقات سے آدمی مہر ومحبت ،الفت ومودت، لحاظ وپاس،ادب و تمیز، شرم وحیا،ہمدردی وغم گساری عفت وپاکیزگی سیکھتا ہے۔



نکاح کے كاركکان


نکاح کے دورکن ہیں (۱)ایجاب (۲)قبول، مجلس نکاح میں جس کی طرف سے پہلے نکاح کی پیش کش ہوگی وہ ایجاب ہے اوردوسرے کی جانب سے اس کوقبول کرلینا قبول کہلاتا ہے۔
مسئلہ: ایجاب وقبول عاقدین (لڑکا،لڑکی) خود بھی کرسکتےہیں یاعاقدین کے ولی وغیرہ بھی کرسکتے ہیں ۔حوالہ
وَأَمَّا رُكْنُ النِّكَاحِ فَهُوَ الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ(بدائع الصنائع ۳۱۴/۵)


نکاح کے شرائط



(۱) ایک ہی مجلس میں ایجاب وقبول کا ہونا۔
(۲) ایجاب وقبول میں مطابقت ہونا مثلاً لڑکی یا اس کا ولی  وغیرہ دس ہزار روپیے مہرپر نکاح کا ایجاب کرے اور مرد یااس کا وکیل وغیرہ پانچ ہزار پرنکاح قبول کرے تونکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(۳) ایجاب وقبول کرنے والے ایک دوسرے کی بات (ایجاب وقبول) کوسنیں۔
(۴) طرفین مجلس میں موجود ہوں اور بولنے پرقادر ہوں توایجاب وقبول کوزبان سے ادا کرے (فون وغیرہ کے ذریعہ نکاح کی بہترین صورت یہ ہے کہ جونکاح کرنا چاہے وہ کسی کووکیل بنادے اور وکیل مجلس عقد میں ایجاب کرے اور دوسرا فریق اس کوقبول کرے) اسی  طرح خط کے ذریعہ کسی نے نکاح کا ایجاب کیا توخط ملنے پر صرف قبول ہے کہنا کافی نہ ہوگا بلکہ وہ ایجاب بھی گواہوں کے سامنے پڑھ کرسنایا جائے اس کے بعد قبول کیا جائے اور لڑکی اگرباکرہ ہوتو اس کی خاموشی اور مسکراہٹ یارونا رضامندی سمجھی جائیگی اگر ثیبہ (عقدوالی) ہے توزبان سے رضامندی کا اظہار کرنا ہوگا اور سنت یہ ہے کہ ولی نکاح سے پہلے ہی لڑکی سے اجازت لے لے۔
(۵) مجلس عقد میں ایجاب وقبول کے وقت دوگواہوں کا ہونا اور وہ گواہان عاقل، بالغ اور آزاد ہو، ایجاب وقبول کوسنیں اور سمجھیں، دونوں مرد ہوں توبہتر ہے، ایک مرد دوعورتیں بھی کافی ہونگی ۔
حوالہ
(بدائع الصنائع ۳۲۵/۵)



نکاح كا حكم


نکاح پانچ طرح كا حكم ركهتا ہے۔  (۱)فرض،      (۲)واجب،      (۳)سنت،      (۴)مکروہ،      (۵)حرام۔
(۱) جب آدمی پر شہوت اتنی غالب ہوجائے کہ اسے گمان غالب ہوکہ وہ شادی نہیں کرےگا تو زنا میں مبتلا ہوجائے گا اورمہر ادا کرنے اور بیوی کے حقوق ادا کرنے پر قدرت ہو نیز اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی پوری امید ہو تو نکاح کرنا فرض ہے۔
(۲)جب آدمی پر شہوت اتنی غالب نہ ہو کہ بدکاری میں مبتلا ہونے کا ظن غالب ہو؛بلکہ اس میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو، مہر اور نفقہ پر بھی قادر ہو اورظلم کا خوف نہ ہو تو اس پر نکاح واجب ہے۔
(۳)جب آدمی پر شہوت غالب نہ ہو، عام حالت ہو اور بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرسکتا ہو تو نکاح کرنا سنت مؤکدہ ہے۔
(۴)اگر اسے یہ خوف ہو کہ نکاح کے بعد اپنی بیوی کے حقوق ادا نہ کرسکے گا اوراس کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرسکے گا تو نکاح کرنا مکروہ ہے۔
(۵)اگر اسے  ظن غالب یایقین ہو کہ نکاح کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کریگا اوراس کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوگی تو اس کے لیے نکاح کرنا حرام ہے۔حوالہ
وَهُوَ فِي حَالَةِ التَّوَقَانِ وَاجِبٌ ؛ لِأَنَّ التَّحَرُّزَ عَنْ الزِّنَا وَاجِبٌ وَهُوَ لَا يَتِمُّ إلَّا بِالنِّكَاحِ ، وَمَا لَا يَتِمُّ الْوَاجِبُ إلَّا بِهِ فَهُوَ وَاجِبٌ ، وَفِي حَالَةِ الِاعْتِدَالِ مُسْتَحَبٌّ ، وَفِي حَالَةِ خَوْفِ الْجَوْرِ مَكْرُوهٌ۔ (العنایۃ،کتاب النکاح:۴/۳۱۴ )
أَمَّا فِي حَالِ التَّوَقَانِ قَالَ بَعْضُهُمْ : هُوَ وَاجِبٌ بِالْإِجْمَاعِ لِأَنَّهُ يَغْلِبُ عَلَى الظَّنِّ أَوْ يَخَافُ الْوُقُوعَ فِي الْحَرَامِ ، وَفِي النِّهَايَةِ : إنْ كَانَ لَهُ خَوْفُ الْوُقُوعِ فِي الزِّنَا بِحَيْثُ لَا يَتَمَكَّنُ مِنْ التَّحَرُّزِ إلَّا بِهِ كَانَ فَرْضًا (فتح القدیر کتاب النکاح:۶/۲۶۵)

عورت میں یہ امور دیکھیں
(۱)باکره ہو، (۲)دیندارہو، (۳)حسب (فضل وکمال،عزت ووقار) اور نسب (خاندان)، (۴)حسن وجمال، (۵)نیک مزاجی،خوش خلقی میں لڑکے سے زیادہ ہو، (۶) مال و دولت ،زور وقوت،قد وقامت اور عمر میں لڑکے سے کم ہو ورنہ صحیح طور پر اطاعت نہ کریگی۔
جو دیندار ہو مگر شکل و صورت میں اچھی نہ ہو وہ ایسی عورت سے بہتر ہے جو شکل و صورت میں اچھی ہو مگر دیندار نہ ہو؛ اس لیے شکل وصورت کو نہ دیکھیں بلکہ دینداری کو ترجیح دیں ۔حوالہ
قالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْكُمْ بِالْأَبْكَارِ فَإِنَّهُنَّ أَعْذَبُ أَفْوَاهًا وَأَنْتَقُ أَرْحَامًا وَأَرْضَى بِالْيَسِيرِ
(ابن ماجه باب تزويج الابكار۱۸۵۱)
مَنْ أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ نُدِبَ لَهُ أَنْ يَسْتَدِينَ لَهُ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى ضَامِنٌ لَهُ الْأَدَاءَ فَلَا يَخَافُ الْفَقْرَ إذَا كَانَ مِنْ نِيَّتِهِ التَّحْصِينُ وَالتَّعَفُّفُ وَيَتَزَوَّجُ امْرَأَةً صَالِحَةً مَعْرُوفَةَ النَّسَبِ وَالْحَسَبِ وَالدِّيَانَةِ فَإِنَّ الْعِرْقَ نَزَّاعٌ وَيَجْتَنِبُ الْمَرْأَةَ الْحَسْنَاءَ فِي مَنْبَتِ السُّوءِ ، وَلَا يَتَزَوَّجُ امْرَأَةً لَحَسِبَهَا ، وَعِزِّهَا ، وَمَالِهَا وَجَمَالِهَا فَإِنْ تَزَوَّجَهَا لِذَلِكَ لَا يُزَادُ بِهِ إلَّا ذُلًّا ، وَفَقْرًا وَدَنَاءَةً وَيَتَزَوَّجُ مَنْ هِيَ فَوْقَهُ فِي الْخُلُقِ وَالْأَدَبِ وَالْوَرَعِ وَالْجَمَالِ وَدُونَهُ فِي الْعِزِّ وَالْحِرْفَةِ وَالْحَسَبِ وَالْمَالِ وَالسِّنِّ وَالْقَامَةِ فَإِنَّ ذَلِكَ أَيْسَرُ مِنْ الْحَقَارَةِ وَالْفِتْنَةِ ، وَيَخْتَارُ أَيْسَرَ النِّسَاءِ خُطْبَةً ، وَمُؤْنَةً وَنِكَاحُ الْبِكْرِ أَحْسَنُ لِلْحَدِيثِ  عَلَيْكُمْ بِالْأَبْكَارِ فَإِنَّهُنَّ أَعْذَبُ أَفْوَاهًا ، وَأَنْقَى أَرْحَامًا ، وَأَرْضَى بِالْيَسِيرِ، وَلَا يَتَزَوَّجُ طَوِيلَةً مَهْزُولَةً ، وَلَا قَصِيرَةً ذَمِيمَةً ، وَلَا مُكْثِرَةً ، وَلَا سَيِّئَةَ الْخُلُقِ ، وَلَا ذَاتَ الْوَلَدِ ، وَلَا مُسِنَّةً لِلْحَدِيثِ سَوْدَاءُ وَلُودٌ خَيْرٌ مِنْ حَسْنَاءَ عَقِيمٍ  ، وَلَا يَتَزَوَّجُ الْأَمَةَ مَعَ طَوْلِ الْحُرَّةِ ، وَلَا حُرَّةً بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا لِعَدَمِ الْجَوَازِ عِنْدَ الْبَعْضِ ، وَلَا زَانِيَةً
(البحر الرائق كتاب النكاح: ۷/۴۶۱،۴۶۲)

بانجھ عورت سے نکاح کا ارادہ نہ کرے اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے کہ بد صورت جو بانجھ نہ ہو خوبصورت بانجھ سے بہتر ہے۔  حوالہ
عن أبي موسى ، أن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال : يا رسول الله أتزوج بفلانة ؟ فلم يأمره ، ثم أعاد عليه الثانية ، فلم يأمره ، ثم أعاد عليه الثالثة فقال : سوداء ، ولود ، أحب إلي من عاقر جهينيا ، إني مكاثر  حتى أن السقط ليكون محتبطا على باب الجنة ، يقال له : ادخل الجنة فيقول : لا إلا ووالدي معي
(مسند ابي حنيفة، أبو حنيفة ، عن زياد بن علاقة:۱۳۴) 

مرد کے لیے مسنون ہے کہ جس عورت سے نکاح کرنا چاہے اس کو خود ہی دیکھ لے جب کہ کوئی اور صورت اس کے حالات دریافت کرنے کی ممکن نہ ہو، اگر اپنی ماں یا بہن یا پھوپھی  وغیرہ سمجھ دار ہوں تو ان میں سے ایک دو کا دیکھنا  بھی کافی ہے۔  حوالہ
عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَاَنَّهُ خَطَبَ امْرَأَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرْ إِلَيْهَا فَإِنَّهُ أَحْرَى أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا
(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي النَّظَرِ إِلَى الْمَخْطُوبَةِ:۱۰۰۷)
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ أُمَّ سُلَيْمٍ تَنْظُرُ إِلَى جَارِيَةٍ فَقَالَ شُمِّي عَوَارِضَهَا وَانْظُرِي إِلَى عُرْقُوبِهَا
(مسند احمد مسند انس،حدیث: ۱۳۴۴۸)

عورت کا ولی نہ ہو تو خود عورت مرد میں یہ بات دیکھے(۱)مرد کفو والا ہو (یعنی خاندان، پیشہ وغیرہ ميں موافقت ركهتا ہو) (۲)عمر میں بہت زیادہ نہ ہو ،جو مرد مال و دولت نسب وغیرہ میں کفو نہ رکھتا ہو مگر دینداری میں کفو ہو تو وہ اس مرد سے بہتر ہے جس میں یہ سب باتیں ہوں مگر دینداری نہ ہو۔  حوالہ
وَالْمَرْأَةُ تَخْتَارُ الزَّوْجَ الدَّيِّنَ الْحَسَنَ الْخُلُقِ الْجَوَادَ الْمُوسِرَ، وَلَا تَتَزَوَّجُ فَاسِقًا ، وَلَا يُزَوِّجُ ابْنَتَهُ الشَّابَّةَ شَيْخًا كَبِيرًا ، وَلَا رَجُلًا دَمِيمًا وَيُزَوِّجُهَا كُفُؤًا فَإِذَا خَطَبَهَا الْكُفُؤُ لَا يُؤَخِّرُهَا ، وَهُوَ كُلُّ مُسْلِمٍ تَقِيٍّ وَتَحْلِيَةُ الْبَنَاتِ بِالْحُلِيِّ وَالْحُلَلِ لِيُرَغِّبَ فِيهِنَّ الرِّجَالَ سُنَّۃ
(البحرالرائق، كتاب النكاح:۴۶۲/۷)



جن لوگو ں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کا بیان



حرمت کی صورتیں


جن مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے سے نکاح کرنا حرام ہے،ان کی دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت حرمت ابدیہ (ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے)۔
دوسری صورت؛حرمت وقتیہ (یعنی کسی وقتی اور عارضی سبب کی وجہ سے نکاح حرام ہو جب وہ سبب دور  ہوجائے تو پھر ان کا ا ٓپس میں نکاح صحیح ہوجائے گا)،مثلاً  ایک بہن کی موجودگی میں دوسری بہن سے نکاح کرنا،اسی طرح پھوپی کی موجودگی میں اس کی بھتیجی سے نکاح کرنا اور خالہ کی موجودگی میں اس کی بھانجی سے نکاح کرنا۔
پہلی صورت یعنی حرمت ابدیہ کی تین قسمیں ہیں:
(۱)نسب و قرابت کی وجہ سے حرمت،   (۲)سسرالی رشتہ کی وجہ سےحرمت،  (۳)رضاعت کی وجہ سےحرمت۔


نسب و قرابت کی وجہ سے حرمت



اپنی اولاد میں سے بیٹی، پوتی، پڑپوتی ایسے ہی نیچے تک اور نواسی پر نواسی وغیرہ نیچے تک، اور ماؤں میں سے اپنی حقیقی ماں، اور وہ عورت جس سے باپ نے نکاح کیا ،دادی،نانی ،پڑدادی ،پڑنانی وغیرہ اوپر تک اسی طرح رشتہ داروں میں اپنی حقیقی بہن اور سوتیلی وہ ساری بہنیں جو ایک ہی ماں باپ سے ہو ں یا باپ الگ ہوں تو ماں ایک ہوں یا ماں الگ ہو تو باپ ایک ہوں اور حقیقی پھوپھی یا حقیقی خالہ اور سوتیلی پھوپھی اور خالہ یعنی باپ کی سوتیلی بہن اسی طرح ماں کی سوتیلی بہن اور حقیقی بھتیجی اور حقیقی بھانجی اوران کی لڑکیاں اور پوتیاں نیچے تک اسی طرح حقیقی چچا اور حقیقی ماموں ان سب سے نکاح کرنا ہمیشہ ہمیش کے لیے حرام ہے۔ حوالہ
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (النساء: ۲۳)۔


سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرمت


سسرالی رشتہ سے حرمت  مصاہرت ثابت ہونے کی تین شکلیں ہیں:
(۱)کسی عورت سے نکاح کیا اوراس سے صحبت بھی کرلی۔
(۲)کسی عورت سے نکاح کیا لیکن اس سے صحبت نہیں کی البتہ اس کو نفسانی خواہش سے ہاتھ لگایا یا بوسہ دیا پھر اس کے بعد طلاق دیا ہو یا اسی کے نکاح میں باقی ہو۔
(۳)کسی اجنبی عورت سے بدکاری کی یا اس کو شہوت سے ہاتھ لگایا یا بوسہ دیا خواہ یہ جان بوجھ کر کیا ہو یا غلطی سے کیا ہو ۔
مذکورہ تمام صورتوں میں اس منکوحہ اور غیر منکوحہ عورت (بشرطیکہ یہ عورت اتنی بڑی ہو جس میں خواہش نفسانی پیدا ہو گئی ہو) کے اصول ماں ،دادی ،نانی وغیرہ اور فروع بیٹی، پوتی ،نواسی اور اس کے لڑکوں پوتوں، نواسوں کی بیویاں  یہ سب اس مرد پر حرام ہوجائیں گی۔حوالہ
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ (النساء: ۲۳)
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيُّمَا رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً فَدَخَلَ بِهَا فَلَا يَحِلُّ لَهُ نِكَاحُ ابْنَتِهَا وَإِنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ بِهَا فَلْيَنْكِحْ ابْنَتَهَا وَأَيُّمَا رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً فَدَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا فَلَا يَحِلُّ لَهُ نِكَاحُ أُمِّهَا
(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ ثُمَّ يُطَلِّقُهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا هَلْ يَتَزَوَّجُ ابْنَتَهَا أَمْ لَا،حدیث نمبر:۱۰۳۶)
عَنِ النَّبِىِّ   إِذَا نَظَرَ الرَّجُلُ إِلَى فَرْجِ الْمَرْأَةِ حَرُمَتْ عَلَيْهِ أُمُّهَا وَابْنَتُهَا
(السنن الكبري باب الزِّنَا لاَ يُحَرِّمُ الْحَلاَلَ،حدیث نمبر:۱۴۳۴)
عن القعقاع بن يزيد الضبي قال سالت الحسن البصري عن رجل ضم اليه صبية بشهوة ايتزوج امها قال لا
( الحجة على أهل المدينة باب ما لا يجمع بينه في النكاح من الامهات والبنات:۳۶۷/۳)


رضاعت یعنی دودھ پلانے کی وجہ سے حرمت


عربی زبان میں دودھ پلانے کو رضاعت کہتے ہیں جو عورتیں کسی بچہ کو دودھ پلادیں تو وہ عورتیں اسلام کی نظر میں ماں کا درجہ رکھتی ہیں اور اس کا شوہر باپ کا درجہ ركهتا ہے لهذا جس طرح نسب كی وجہ سے ماں باپ پر بچے اور بچوں پر ماں باپ اور ایک دوسرے پراُن کے اصولی اور فروعی رشتہ دار حرام ہوتے ہیں؛ اِسی طرح رضاعت سے بھی یہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں؛ البتہ اِس سے بعض صورتیں مستثنیٰ ہیں،جن کی تفصیل فقہ کی بڑی کتابوں مثلاً درمختار اور شامی وغیرہ میں ہے۔حوالہ
 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بِنْتِ حَمْزَةَ لَا تَحِلُّ لِي يَحْرُمُ مِنْ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنْ النَّسَبِ هِيَ بِنْتُ أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ (بخاري بَاب الشَّهَادَةِ عَلَى الْأَنْسَابِ وَالرَّضَاعِ الْمُسْتَفِيضِ وَالْمَوْتِ الْقَدِيمِ،حدیث نمبر:۲۴۵۱)۔


ولی كکا بیان




ولی کی تعریف اور اس کی صورتیں


عاقل بالغ شخص جس کی بات یا جس کا حکم دوسرے پر لاگو کیا جائے وہ ولی ہے،خواہ دوسرا آدمی جس پر یہ حکم لاگو کیا جارہا ہے وہ اس حکم کو پسند کرے یا نہ کرے، کوئی نابالغ یا پاگل آدمی کسی کا ولی نہیں بن سکتا۔
ولایت کا حق دو طرح کا ہوتا ہے:
(۱) ولایت اجبار۔ اس صورت میں ولی کا حکم ماننا ضروری ہوتا ہے اگر اس کا حکم نہ مانا جائے تب بھی وہ حکم جاری ہوجائے گا
(۲) ولایت ندب۔ اس صورت میں ولی کا حکم ماننا ضروری نہیں ہوتا، مان لے تو بہتر ہے، اوراگر اس کا حکم نہ مانا جائے تو وہ ختم ہوجائے گا۔حوالہ
الْوِلَايَةُ بِالنِّسْبَةِ إلَى الْمُوَلَّى عَلَيْهِ نَوْعَانِ :وِلَايَةُ حَتْمٍ وَإِيجَابٍ ، وَوِلَايَةُ نَدْبٍ وَاسْتِحْبَابٍ وَهَذَا عَلَى أَصْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُف... وَأَمَّا وِلَايَةُ الْحَتْمِ وَالْإِيجَابِ وَالِاسْتِبْدَادِ فَشَرْطُ ثُبُوتِهَا عَلَى أَصْلِ أَصْحَابِنَا كَوْنُ الْمُوَلَّى عَلَيْهِ صَغِيرًا أَوْ صَغِيرَةً أَوْ مَجْنُونًا كَبِيرًا أَوْ مَجْنُونَةً كَبِيرَةً سَوَاءً كَانَتْ الصَّغِيرَةُ بِكْرًا أَوْ ثَيِّبًا فَلَا تَثْبُتُ هَذِهِ الْوِلَايَةُ عَلَى الْبَالِغِ الْعَاقِلِ وَلَا عَلَى الْعَاقِلَةِ الْبَالِغَةِ۔(بدائع الصنائع فَصْلٌ: وَأَمَّا الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُوَلَّى عَلَيْهِ:۵/۳۵۷) ۔

بالغ لڑکے اور لڑکی پر ولایت اجبار نہیں ہوتا ہے اور نابالغ لڑکے اور لڑکی پر ولایت اجبار حاصل ہوتا ہے۔  حوالہ
ولی کون ہوگا
لڑکے اور لڑکی کا ولی سب سے پہلے اس کا باپ ہے اگر باپ نہ ہو تو دادا اگر دادانہ ہو تو پرداد ا اگر کوئی نہ ہو تو پھر اس کا حقیقی بھائی اگر حقیقی نہ ہو تو سوتیلا علاتی بھائی (باپ شریک بھائی) اگر یہ نہ ہو تو بھتیجا پھر بھتیجے کا لڑکا ولی ہوگا اگر یہ سب بالغ عاقل نہ ہوں تو پھر حقیقی چچا وہ نہ ہو تو سوتیلا چچا اگر یہ نہ ہو تو پھر حقیقی چچا کا لڑکا پھر سوتیلے چچا کا لڑکا، پھر اگر باپ دادا کا حقیقی یا سوتیلا چچا ہے تو وہ ولی ہوگا، اگر یہ نہ ہوں تو ان کے لڑکے یعنی باپ کے چچا زاد بھائی ولی ہونگے اگر مذکورہ بالا لوگوں میں سے کوئی نہ ہو تو پھر ماں ولی ہوگی، ماں نہ ہو تو پھر نانی، پھر دادی، پھر نانا، پھر حقیقی بہن پھر سوتیلی بہن (باپ شریک بہن) پھر ماں شریک بھائی بہن (جن کی ماں ایک، باپ الگ الگ ہوں)، پھر پھوپھی، پھر ماموں، پھر خالہ وغیرہ پھر پھوپھی زاد بھائی، ماموں زاد بھائی، پھر خالہ زاد بھائی وغیرہ۔ 
حوالہ
قَوْلُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: النِّكَاحُ إلَى الْعَصَبَاتِ
(بدائع الصنائع فَصْلٌ : وَأَمَّا بَيَانُ شَرَائِطِ الْجَوَازِ وَالنَّفَاذِ فَأَنْوَاعٌ مِنْهَ:۳۵۶/۵)
قال الحنفية:الولاية هي ولاية الإجبار فقط،وتثبت للأقارب العصبات،الأقرب فالأقرب؛ لأن النكاح إلى العصبات كما روي عن علي رضي الله عنه، وذلك على الترتيب الآتي: البنوة، ثم الأبوة، ثم الأخوة، ثم العمومة، ثم المعتق، ثم الإمام والحاكم، أي بالترتيب التالي:  الابن وابنه وإن نزل، الأب والجد العصبي (الصحيح) وإن علا، الأخ الشقيق والأخ لأب وأبناؤهما وإن نزلوا، العم الشقيق والعم لأب وأبناؤهما وإن نزلوا.
(الفقه الاسلامي وادلته من له الولاية وترتيب الأولياء:۹/۱۸۸) 



نکاح کے سلسلہ میں وکیل اورفضولی کا بیان




وکالت


بسا اوقات انسان اپنی کچھ ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے اپنے کچھ ذاتی مسائل وغیرہ کسی اور کے ذریعہ انجام دینے کا محتاج ہوتا ہے  اس لیے کہ ہر انسان  اپنی تمام ضروریات خود ہی انجام نہیں دے سکتا ایسے وقت میں وہ اپنے مسائل کسی اور کے سپرد کرنا چاہتا ہے ۔ حوالہ
وَأَجْمَعَتْ الْأُمَّةُ عَلَى جَوَازِ الْوَكَالَةِ فِي الْجُمْلَةِوَلِأَنَّ الْحَاجَةَ دَاعِيَةٌ إلَى ذَلِكَ ؛ فَإِنَّهُ لَا يُمْكِنُ كُلَّ وَاحِدٍ فِعْلُ مَا يَحْتَاجُ إلَيْهِ ، فَدَعَتْ الْحَاجَةُ إلَيْهَا
(المغني كتاب الوكالة:۲۵۱/۱۰)

شریعت نے انسان کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اختلافات وغیرہ سے بچنے کے لیے کچھ اصول اور ضوابط بنائے ہیں، اس کی کچھ تفصیل بیان کی جارہی ہے۔



وکیل کی تعریف



وکیل:وکالت  سے ماخوذ ہے،وکالت کے لغوی معنی حوالہ کرنا اور دوسرے پر اعتماد کرناہے۔ حوالہ
وَكَلْت الْأَمْرَ إلَيْهِ وَكْلًا مِنْ بَابِ وَعَدَ وَوُكُولًا فَوَّضْتُهُ إلَيْهِ وَاكْتَفَيْتُ بِهِوَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ اعْتَمَدَ عَلَيْهِ وَوَثِقَ بِه
(المصباح المنير،حدیث نمبر:۱۰/۴۴۱)

اصطلاحی معنی:انسان کا کسی متعین شخص کو مخصوص تصرف میں اپنا قائم مقام بنانا۔ حوالہ
مَعْنَاهَا شَرْعًا : فَهُوَ إقَامَةُ الْإِنْسَانِ غَيْرَهُ مَقَامَ نَفْسِهِ فِي تَصَرُّفٍ مَعْلُومٍ
(الهنديةكِتَابُ الْوَكَالَةِ وَهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى أَبْوَابٍ  الْبَابُ الْأَوَّلُ : فِي بَيَانِ مَعْنَاهَا شَرْعًاالاخ:۴۴۵/۲۶)

وکیل کے معنی: محافظ (اسم فاعل) کے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے: حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ    (آل عمران:۱۷۳)
اوروکیل کے دوسرے معنی  وہ شخص جس پر بھروسہ کیا گیا اورجس کو کوئی کام سپرد کیا گیا ہو(یہ اس معنی کے وقت اسم مفعول ہوتا ہے) حوالہ
وَالْوَكِيلُ فَعِيلٌ بِمَعْنَى مَفْعُولٍ لِأَنَّهُ مَوْكُولٌ إلَيْهِ وَيَكُونُ بِمَعْنَى فَاعِلٍ إذَا كَانَ بِمَعْنَى الْحَافِظِ وَمِنْهُ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ
(المصباح المنير :۱۰/۴۴۱)




وکالت کے ارکان


 اس کے ارکان دو ہیں ۔(۱)ایجاب(۲)قبول
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کو وکیل بنا نا چاہے تو جو الفاظ اس کو وکیل بنانے کے لیے استعمال کریگا اس کو 'ایجاب' اور وکالت کو قبول کرنے والے کے الفاظ کو 'قبول' کہتے ہیں ۔ حوالہ
وَأَمَّا بَيَانُ رُكْنِ التَّوْكِيلِ فَهُوَ الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ فَالْإِيجَابُ مِنْ الْمُوَكِّلِ أَنْ يَقُولَ : " وَكَّلْتُكَ بِكَذَا " أَوْ " افْعَلْ كَذَا " أَوْ " أَذِنْتُ لَكَ أَنْ تَفْعَلَ كَذَا " وَنَحْوُهُ وَالْقَبُولُ مِنْ الْوَكِيلِ أَنْ يَقُولَ : " قَبِلْتُ " وَمَا يَجْرِي مَجْرَاهُ
(بدائع الصنائع كِتَابُ الْوَكَالَةِ:۴۳۲/۱۲)

موکل، وکیل:جو کسی کو وکالت سپرد کرے وہ مؤکل ہے۔ اور جو خود کسی دوسرے کی وکالت کو قبول کرے  اس کو وکیل کہتے ہیں۔



وکیل بننے کے شرائط:


(۱)عاقل ہونا۔
(۲)بالغ ہونا یا ایسا نابالغ کہ جو معاملہ اس كے حوالہ کيا گیا ہےوه اس کو سمجھ سکتا ہو۔
(۳)جس شخص کو وکیل بنایا جائے وہ متعین شخص ہے۔
(۴) وکیل کو یہ علم ہو کہ وہ فلاں آدمی کا فلاں معاملہ میں وکیل ہے۔ حوالہ
عن أُمّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصَابَ اَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَقُلْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي وَأْجُرْنِي فِيهَا وَأَبْدِلْنِي مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهَا…وَأَمَّا الْأَوْلِيَاءُ فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ شَاهِدٌ وَلَا غَائِبٌ إِلَّا سَيَرْضَانِي قُلْتُ يَا عُمَرُ قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنِّي لَا أَنْقُصُكِ شَيْئًا مِمَّا أَعْطَيْتُ أُخْتَكِ فُلَانَةَ رَحَيَيْنِ وَجَرَّتَيْنِ وَوِسَادَةً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ۔(مسند احمد مسند ام سلمة،حدیث نمبر:۲۵۴۴۸)،وَأَمَّا الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْوَكِيلِ فَهُوَ أَنْ يَكُونَ عَاقِلًا ، فَلَا تَصِحُّ وَكَالَةُ الْمَجْنُونِ ، وَالصَّبِيِّ الَّذِي لَا يَعْقِلُ ، لِمَا قُلْنَاوَأَمَّا الْبُلُوغُ ، وَالْحُرِّيَّةُ ، فَلَيْسَا بِشَرْطٍ لِصِحَّةِ الْوَكَالَةِ ، فَتَصِحُّ وَكَالَةُ الصَّبِيِّ الْعَاقِلِ ، وَالْعَبْدِ ، مَأْذُونَيْنِ كَانَا أَوْ مَحْجُورَيْنِ وَهَذَا عِنْدَ أَصْحَابِنَا۔(بدائع الصنائع كِتَابُ الْوَكَالَةِ:۴۳۵/۱۲)۔

مسئلہ:اگر کوئی بالغ مرد یا عورت کسی شخص کو اپنے نکاح کا ولی بنادے یعنی اس کو یہ اختیار دیدے کہ تو جس سے چاہے میرا نکاح کردے تو وہ وکیل جس کے ساتھ نکاح کردیگا صحیح ہوجائے گا۔ حوالہ
عن أَبُي جَعْفَرٍ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَمْرَو بْنَ أُمَيَّةَ الضَّمْرِىَّ إِلَى النَّجَاشِىِّ فَزَوَّجَهُ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ أَبِى سُفْيَانَ وَسَاقَ عَنْهُ أَرْبَعَمِائَةِ دِينَار۔(السنن الكبري للبيهقي باب الْوَكَالَةِ فِى النِّكَاحِ:۱۴۱۶۹)۔

مسئلہ: نکاح کا وکیل بناتے وقت موکل نے جتنا مہر مقرر کرنے کے لیے کہا ہے وہ وکیل اس کے خلاف نہ کرے اگر خلاف کریگا تو نکاح صحیح نہ ہوگا البتہ مؤکل بعد میں اپنی رضا مندی ظاہر کردے تو نکاح ہوجائے گا، اسی طرح نکاح کے لیے  لڑکی یا لڑکے کے اوصاف مؤکل یا مؤکلہ نے بتائے ہوں تو وکیل کو ان سب کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا اگر اس میں کچھ کمی ہوجائے تو نکاح صحیح نہ ہوگا البتہ بعد میں رضا مندی ظاہر کردے تو درست ہوجائے گا۔ حوالہ
 وَيُشْتَرَطُ لِلُزُومِ عَقْدِ الْوَكِيلِ مُوَافَقَتُهُ فِي الْمَهْرِ الْمُسَمَّى فَلِذَا قَالَ فِي الْخَانِيَّةِ لَوْ وَكَّلَهُ فِي أَنْ يُزَوِّجَهُ فُلَانَةَ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ فَزَوَّجَهَا إيَّاهُ بِأَلْفَيْنِ إنْ أَجَازَ الزَّوْجُ جَازَ وَإِنْ رَدَّ بَطَلَ النِّكَاحُ۔(البحر الرائق فَصْلٌ حَاصِلُهُ بَعْضُ مَسَائِلِ الْوَكِيلِ وَالْفُضُولِيِّ:۱۹۹/۸)۔




فضولی


فضولی: اس شخص کو کہتے ہیں جو نہ خود صاحب معاملہ ہو نہ صاحب معاملہ کا ولی ہو اور نہ وکیل ہو؛ بلکہ ایک عام آدمی ہو جو کسی کی طرف سے معاملہ کرلے تو اس کا یہ معاملہ اصل صاحب کے اختیار پر موقوف رہیگا؛ اسی طرح نکاح کے سلسلہ میں بھی ہے کہ وہ کسی لڑکے یا لڑکی کا نکاح ان کی اجازت کے بغیر کردے اور بعد میں اس کو اس کی اطلاع کردے تو وہ اسی وقت اسی مجلس میں اس پر راضی ہوجائیں تو نکاح ہوجائے گا۔ حوالہ

 كُلُّ عَقْدٍ صَدَرَ مِنْ الْفُضُولِيِّ وَلَهُ قَابِلٌ يُقْبَلُ سَوَاءٌ كَانَ ذَلِكَ الْقَابِلُ فُضُولِيًّا آخَرَ أَوْ وَكِيلًا أَوْ أَصِيلًا انْعَقَدَ مَوْقُوفًا هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ وَشَطْرُ الْعَقْدِ يَتَوَقَّفُ عَلَى الْقَبُولِ فِي الْمَجْلِسِ وَلَا يَتَوَقَّفُ عَلَى مَا وَرَاءَ الْمَجْلِسِ ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ۔(البحر الرائق الْبَابُ السَّادِسُ فِي الْوَكَالَةِ بِالنِّكَاحِ وَغَيْرِهَا:۱۱۸/۷)




کفائت (برابری) کا بیان




کفائت کسے کہتے ہیں


ازدواجی زندگی کو خوشگوار اور دائمی بنانے اوران میں زیادہ محبت و مودّت پیدا کرنے کے لیے شریعت نے نکاح میں دوسری قیودات کے ساتھ یہ قید بھی لگادی ہے کہ رشتہ قائم کرنے میں دینی، معاشی اور معاشرتی مناسبت کا بھی لحاظ کیا جائے ورنہ عام طور پر اس کے بغیر ازدواجی زندگی میں خوشگواری کا پیدا ہونا مشکل ہوتا ہے اورجب اس میں سکون اور خوشگواری نہ ہوگی تو نکاح کا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا، اسی مناسبت اور برابری کو اسلامی شریعت میں ’کفائت‘ کہتے ہیں۔ حوالہ
 عن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تنكح النساء إلا من الأكفاء ولا يزوجهن إلا الأولياء ولا مهر د ون عشرة د راهم۔(مسند ابي يعلي تابع مسند جابر،حدیث نمبر:۲۰۹۴)، ( فَصْلٌ فِي الْأَكْفَاءِ ) .جَمْعُ كُفْءٍ بِمَعْنَى النَّظِيرِ لُغَةً ، وَالْمُرَادُ هُنَا : الْمُمَاثَلَةُ بَيْنَ الزَّوْجَيْنِ فِي خُصُوصِ أُمُورٍ أَوْ كَوْنُ الْمَرْأَةِ أَدْنَى وَهِيَ مُعْتَبَرَةٌ فِي النِّكَاحِ ؛ لِأَنَّ الْمَصَالِحَ إنَّمَا تَنْتَظِمُ بَيْنَ الْمُتَكَافِئِينَ عَادَةً ؛ لِأَنَّ الشَّرِيفَةَ تَأْبَى أَنْ تَكُونَ مُسْتَفْرَشَةً لِلْخَسِيسِ بِخِلَافِ جَانِبِهَا ؛ لِأَنَّ الزَّوْجَ مُسْتَفْرِشٌ فَلَا يَغِيظُهُ دَنَاءَةُ الْفِرَاشِ۔(البحر الرائق  فَصْلٌ فِي الْأَكْفَاءِ:۱۶۰/۸)۔



کفائت (برابری) کن چیزوں میں دیکھی جائے



جن چیزوں میں برابری دیکھی جاتی ہے وہ یہ ہیں:
(۱)اسلام،    (۲)خاندان،    (۳)پیشہ،    (۴)حریت،    (آزاد ہونا، غلام نہ ہونا)،    (۵)مال،    (۶)دیانت و تقوی۔
(۱)اسلام: میں برابری کا مطلب یہ ہے کہ اس کے باپ دادا بھی کم از کم مسلمان ہوں۔
حوالہ
 والمراد به إسلام الأصول أي الآباء، فمن له أبوان مسلمان كفء لمن كان له آباء في الإسلام، ومن له أب واحد في الإسلام لا يكون كفئاً لمن له أبوان في الإسلام؛ لأن تمام النسب بالأب والجد۔(الفقه الاسلامي وادلته ما تكون فيه الكفاءة، أو أوصاف الكفاءة:۲۲۹/۹)۔

(۲)خاندان: میں برابری کا مطلب یہ ہے کہ پسندیدہ اور قابل تعریف خاندان ہو جيسے علم ، بہادری(نہ کہ ظلم میں)،سخاوت اور تقویٰ وغیرہ میں جن سے خاندان کی عزت بڑھتی ہے۔حوالہ
المراد بالنسب: صلة الإنسان بأصوله من الآباء والأجداد. أما الحسب: فهو الصفات الحميدة التي يتصف بها الأصول أو مفاخر الآباء، كالعلم والشجاعة والجود والتقوى.( الفقه الاسلامي وادلته ما تكون فيه الكفاءة، أو أوصاف الكفاءة:۲۳۱/۹)۔

(۳)پیشہ: میں برابری کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ذریعہ معاش جو ماحول اور عرف میں بہتر سمجھا جاتا ہو اگر کوئی پیشہ عرف میں حقیر و کم درجہ والا ہو تو اسی طرح کے پیشہ والوں میں نکاح کیا جائے۔حوالہ

وَأَمَّا الْحِرْفَةُ ، فَقَدْ ذَكَرَ الْكَرْخِيُّ أَنَّ الْكَفَاءَةَ فِي الْحِرَفِ ، وَالصِّنَاعَاتِ مُعْتَبَرَةٌ عِنْدَ أَبِي يُوسُفَ ، فَلَا يَكُونُ الْحَائِكُ كُفْئًا لِلْجَوْهَرِيِّ وَالصَّيْرَفِيِّ ، وَذُكِرَ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ بَنَى الْأَمْرَ فِيهَا عَلَى عَادَةِ الْعَرَبِ أَنَّ مَوَالِيهمْ يَعْمَلُونَ هَذِهِ الْأَعْمَالَ لَا يَقْصِدُونَ بِهَا الْحِرَفَ ، فَلَا يُعَيَّرُونَ بِهَا ، وَأَجَابَ أَبُو يُوسُفَ عَلَى عَادَةِ أَهْلِ الْبِلَادِ أَنَّهُمْ يَتَّخِذُونَ ذَلِكَ حِرْفَةً ، فَيُعَيَّرُونَ بِالدَّنِيءِ مِنْ الصَّنَائِعِ ، فَلَا يَكُونُ بَيْنَهُمْ خِلَافٌ فِي الْحَقِيقَةِ۔(بدائع الصنائع فصل الْكَفَاءَةَ فِي الْحِرَفِ ، وَالصِّنَاعَاتِ:۱۲۰/۶)۔

(۴)حریت: یعنی کوئی آزاد عورت ہے تو اس کا کفو آزاد مرد ہے نہ کہ غلام۔حوالہ

وَمِنْهَا الْحُرِّيَّةُ ؛ لِأَنَّ النَّقْصَ ، وَالشَّيْنَ بِالرِّقِّ ، فَوْقَ النَّقْصِ ، وَالشَّيْنِ بِدَنَاءَةِ النَّسَبِ ، فَلَا يَكُونُ الْقِنُّ ، وَالْمُدَبَّرُ ، وَالْمُكَاتَبُ كُفْئًا لِلْحُرَّةِ بِحَالٍ۔(بدائع الصنائع فصل فَي مَا تُعْتَبَرُ فِيهِ الْكَفَاءَةُ وَمِنْهَا الْحُرِّيَّةُ:۱۱۶/۶) -

(۵)مال: مالدار سے مراد ہروہ شخص ہے جو مہر اور نفقہ وغیرہ دینے پر قدرت رکھتا ہو۔حوالہ

و تعتبر في المال وهو أن يكون مالكا للمهر والنفقة وهذا هو المعتبر في ظاهر الرواية۔(الهدية فصل في الكفاءة:۱۹۵/۱)۔

(۶)دیانت و تقوی: مطلب یہ ہے کہ وہ شخص علانیہ گناہ کرنے والا اور شرابی وغیرہ نہ ہو، فاسق وفاجر نہ ہو ورنہ وہ مومن کا کفو نہ ہوگا۔حوالہ

أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ                                       (السجدة:۱۸)۔




کفو (برابری) میں اعتبار کس کا ہوگا



(۱)کفو(برابری) کا اعتبار صرف مرد کی طرف سے ہے یعنی مرد عورت کے کفو میں ہونا چاہئے، عورت اگر مرد کے کفو میں  نہ ہو تو  کوئی حرج نہیں اور ابتدائے نکاح میں کفو کا اعتبار ہوگا بعد میں کفو ختم ہوجائے تو کچھ حرج نہیں جیسے کوئی شخص نکاح کے وقت پرہیز گار تھا بعد میں بدکار ہوگیا تو یہ نکاح فسخ نہ ہوگا۔ حوالہ
فلا بد من اعتبار الكفاءة من جانب الرجل، لا من جانب المرأة؛ لأن الزوج لا يتأثر بعدم الكفاءة عادة۔(الفقه الاسلامي وادلته رأى جمهور الفقهاء منهم المذاهب الأربعة:۲۲۰/۹)۔

(۲)کفائت کے لیے دین اور دیانت کے علاوہ کسی اور چیز میں زیادہ شدت نہیں برتی جائے گی اس لیے کہ اسلام میں حسب ونسب حسن وجمال، مال و دولت اورپیشہ وغیرہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہ ساری چیزیں عارضی ہیں اور اصل چیز دین اور تقوی ہے(ان تمام چیزوں میں کفو ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے پیش نظر رکھا گیا ہے لیکن ضروری قرار نہیں دیا گیا۔  حوالہ
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ۔ (الحجرات:۱۳)، عن جابر بن عبد الله قال : خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في وسط أيام التشريق خطبة الوداع ، فقال : يا أيها الناس ، إن ربكم واحد ، وإن أباكم واحد ، ألا لا فضل لعربي على عجمي ، ولا لعجمي على عربي ، ولا لأحمر على أسود ، ولا أسود على أحمر ، إلا بالتقوى۔(شعب الايمان ربكم واحد ، وإن أباكم واحد ، ألا لا فضل لعربي،حدیث نمبر:۴۹۲۱)۔



مہر کا بیان


مہر کی حقیقت

 مہروہ چیز ہے جو عقد نکاح کی وجہ سے شوہر کی طرف سے عورت کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ اس نے خاص منافع کا اس کو مالک بنادیاہے۔ حوالہ
المهر: هو المال الذي تستحقه الزوجة على زوجها بالعقد عليها أو بالدخول بها حقيقة۔(الفقه الاسلامي وادلته تعريف المهر وحكمه وحكمته وسبب إلزام الرجل به:۲۳۷/۹)۔

مہر کے تقریباً دس نام  ہیں:     (۱)صداق،     (۲)مہر،     (۳)نحلۃ،     (۴)فريضہ،     (۵)حباء،     (۶)اجر،     (۷)عقر،     (۸)علائق،     (۹)صدقۃ،     (۱۰)عطیۃ حوالہ
 قَالَ فِي النَّهْرِ وَقَدْ جَمَعَهَا بَعْضُهُمْ فِي قَوْلِهِ : صَدَاقٌ وَمَهْرٌ نِحْلَةٌ وَفَرِيضَةٌ حِبَاءٌ وَأَجْرٌ ثُمَّ عُقْرٌ عَلَائِقُ لَكِنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ الْعَطِيَّةَ وَالصَّدَقَةَ
(رد المحتار بَابُ الْمَهْرِ وَمِنْ أَسْمَائِهِ :۴۹۴/۹)

مہر کیوں ضروری ہے
 اسلام ازدواجی تعلق کو ایک مقدس اور محترم رشتہ سمجھتا ہے اورچونکہ مرد خاندانی نظام میں ذمہ دار کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے گو یا وہ اپنی بیوی کے جسم کے مخصوص حصہ کا مالک ہوتا ہے اور شریعت کے دائرہ میں ره كر  اس کے لیے عورت سے فائدہ اٹھانا جائز ہوتا ہے،دوسری بات یہ ہے کہ یہ رشتہ نکاح دنیا کی مخلوقات میں سے صرف انسان ہی  کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ انسان پر اللہ تعالی کا بہت بڑا انعام ہے کیونکہ اس (نکاح) سے خاندانوں کا وجود اور نسب وغیرہ کی حفاظت ہوجاتی ہے اس  لیےرشتہ کی اہمیت اور عصمت نسوانی کے احترام کے طور پر نکاح کے ساتھ مہر کو ضروری قرار دیاگیا ہے، یہ عورت یا اس کی عصمت کی قیمت نہیں، ایسا نہیں ہے کہ مرد مہر ادا کرکے عورت کا مالک بن جاتا ہے بلکہ شوہر کی طرف سے وہ ایک تحفہ احترام ہے جو وہ اپنی رفیقۂ حیات کے لیے پیش کرتا ہے۔ حوالہ
 والحكمة من وجوب المهر: هو إظهار خطر هذا العقد ومكانته، وإعزاز المرأة وإكرامها، وتقديم الدليل على بناء حياة زوجية كريمة معها، وتوفير حسن النية على قصد معاشرتها بالمعروف، ودوام الزواج. وفيه تمكين المرأة من التهيؤ للزواج بما يلزم لها من لباس ونفقة۔(الفقه الاسلامي وادلته تعريف المهر وحكمه وحكمته: ۲۳۹/۹)۔



مہر کی قسمیں اور ان کی تعریفات

مہر کی چار قسمیں:     (۱)مہر معجل،     (۲)مہر مؤجل،     (۳)مہر مسمی،     (۴)مہر مثل۔
(۱) مہر معجل: وہ مہر جس کے علی الفور ادا کرنے کا وعدہ کیا گیا ہو، یعنی نکاح کے بعد فورا ادا کردیا جائے۔ حوالہ
 إذَا كَانَ الْمَهْرُ مُعَجَّلًا ، بِأَنْ تَزَوَّجَهَا عَلَى صَدَاقٍ عَاجِلٍ أَوْ كَانَ مَسْكُوتًا عَنْ التَّعْجِيلِ وَالتَّأْجِيلِ ؛ لِأَنَّ حُكْمَ الْمَسْكُوتِ حُكْمُ الْمُعَجَّلِ۔(بدائع الصنائع  فَصْلٌ  : وَأَمَّا بَيَانُ مَا يَجِبُ بِهِ الْمَهْرُ:۱۲/۶)۔

(۲) مہر مؤجل:وہ مہر جس کی ادائیگی کا علی الفور وعدہ نہ ہو بلکہ کسی مدت کے ساتھ خاص کردیا جائے،خواہ وہ مدت معلوم ہو یا نہ ہو۔ حوالہ
 إذَا كَانَ مُؤَجَّلًا بِأَنْ تَزَوَّجَهَا عَلَى مَهْرٍ آجِلٍ۔(بدائع الصنائع  فَصْلٌ  : وَأَمَّا بَيَانُ مَا يَجِبُ بِهِ الْمَهْرُ:۱۲/۶)۔

(۳) مہر مسمی: وہ مہر جس کی مقدار عقد نکاح کے وقت متعین کردی گئی ہو۔ حوالہ
وقد فرضتم لهن فريضة، فنصف ما فرضتم (۲۳۷)أما المهر المسمى: فهو ما سمي في العقد أو بعده بالتراضي، بأن اتفق عليه صراحة في العقد، أو فرض للزوجة بعده بالتراضي، أو فرضه الحاكم۔(الفقه الاسلامي وادلته أنواع المهر وحالات وجوب كل نوع:۲۵۲/۹)۔)

(۴) مہر مثل: (۴)مہر مثل: آزاد عورت (جو باندی نہ ہو اس) کا مہر مثل وہ مہر ہے جو اس کے باپ کے خاندان کی ان عورتوں کا ہو جو تیرہ باتوں میں  اس کے مثل ہوں۔   (۱)عمر،   (۲)جمال،   (۳)مال،   (۴)شہر،   (۵)زمانہ،   (۶)عقل،   (۷)دینداری،   (۸)بکارت (کنواری) اور ثیوبت(جو کنواری نہ ہو)،   (۹)علم،   (۱۰)ادب،   (۱۱)اخلاق،   (۱۲)صاحب اولاد ہونا یا نہ ہونا،   (۱۳) شوہر کا اوصاف میں یکساں ہونا۔
ليكن ان چيزوں میں  مكمل طور پر يكساں ہونا ضروری نہیں، بلکہ فی الجملہ برابری كافی ہے۔ حوالہ
وأما مهر المثل :فقد حدده الحنفية: بأنه مهر امرأة تماثل الزوجة وقت العقد من جهة أبيها، لا أمها إن لم تكن من قوم أبيها، كأختها وعمتها وبنت عمها، في بلدها وعصرها. وتكون المماثلة في الصفات المرغوبة عادة: وهي المال والجمال والسن والعقل والدين؛ لأن الصداق يختلف باختلاف البلدان، وباختلاف المال والجمال والسن والعقل والدين، فيزداد مهر المرأة لزيادة مالها وجمالها وعقلها ودينها وحداثة سنها، فلا بد من المماثلة بين المرأتين في هذه الصفات، ليكون الواجب لها مهر مثل نسائها. فإن لم يوجد من تماثلها من جهة أبيها، اعتبر مهر المثل لامرأة تماثل أسرة أبيها في المنزلة الاجتماعية. فإن لم يوجد فالقول للزوج بيمينه؛ لأنه منكر للزيادة التي تدعيها المرأة۔(الفقه الاسلامي وادلته أنواع المهر وحالات وجوب كل نوع:۲۵۳/۹)۔




مہر  کے احکام


(۱)جس چیز کو مہر بنایا جائے وہ شریعت کی نظر میں مال ہولہذا ا اگر کوئی خنزیر یا شراب کو مہر بنائے تو صحیح نہ ہوگا کیونکہ یہ دونوں چیزیں شریعت میں مال نہیں سمجھی جاتی اور وہ موجود ہو اور اس کو حوالہ کرنے پر قادر ہو۔ حوالہ
 شَرَائِطُ مِنْهَا .أَنْ يَكُونَ الْمُسَمَّى مَالًا مُتَقَوِّمًا وَهَذَا عِنْدَنَا۔(بدائع الصنائع فصل بَيَانُ مَا يَصِحُّ تَسْمِيَتُهُ مَهْرًا وَمَا لَا يَصِحُّ:۴۷۵/۵)،فقال الحنفية:المهر:هوكل مال متقوم معلوم مقدور على تسليمه.فيصح كون المهرذهباً أوفضاً،مضروبة أوسبيكة، أي نقداً أو حلياً ونحوه، ديناً أوعيناً،ويصح كونه فلوساً أو أوراقاً نقدية، مكيلاً أو موزوناً، حيواناً أوعقاراً،أوعروضاً تجارية كالثياب وغيرها.(الفقه الاسلامي وادلته ضوابط لما يصلح أن يكون مهراً وما لا يصلح:۲۴۵/۹)۔

(۲) جس چیز کو مہر بنایا جائے اس کی قیمت دس درہم سے کم نہ ہو اور ایک درہم دو ماشہ ڈیڑھ رتی کا ہوتا ہے۔(جس کی مقدار آج کل کے وزن کے اعتبار سے تیس گرام آٹھ سوملی گرام ہوتی ہے)۔ حوالہ
عَنْ عَلِىٍّ قَالَ لاَ تُقْطَعُ الْيَدُ إِلاَّ فِى عَشْرَةِ دَرَاهِمَ وَلاَ يَكُونُ الْمَهْرُ أَقَلَّ مِنْ عَشْرَةِ دَرَاهِمَ۔(دار قطني الحدود والديات وغيرها،حدیث نمبر:۳۵۰۱
ترجمہ : حضرت علی سے روایت ہے کہ نہ کاٹا جائیگا ہاتھ مگر دس درہم (کی مالیت کی چوری) میں اور نہ ہو مہر کم دس درہم سے.
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا تُنْكَحُ النِّسَاءُ إِلا مِنَ الأَكْفَاءِ ، وَلا يُزَوِّجُهُنَّ إِلا الأَوْلِيَاءُ ، وَلا مَهْرَ دُونَ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ " .[مسند أبي يعلى الموصلي » تَابِعْ : مُسْنَدُ جَابِرٍ ... رقم الحديث: 2064]
ترجمہ : حضرت جابر، رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ مت کرو نکاح عورتوں کا مگر کفو (برابری) میں ، اور مت جوڑو بناؤ انھیں مگر ولی (سرپرست کی اجازت و رضامندگی) کے ، اور نہ مہر دو علاوہ دس دراہم کے.
اور دس درہم کا وزن موجودہ گرام کے حساب سے ۳۰ گرام ۶۱۸ ملی گرام (30.618gm) ہوتا ہے۔ اور مہر فاطمی کی مقدار پانچ سو درہم ہے، مشکاة وغیرہ کتب حدیث میں روایت موجود ہے اور پانچ سو درہم کا وزن موجودہ گرام کے اعتبار سے ڈیڑھ کلو ۳۰ گرام ۹۰۰ ملی گرام (1.539kg)چاندی ہے۔ خلاصہ یہ کہ مہر کی اقل مقدار شریعت میں متعین ہے، اکثر کی مقدار متعین نہیں۔ بہت سے حضرات اتباع سنت کی نیت سے مہرفاطمی طے کرتے ہیں، بہتر یہ ہے کہ شوہر، بیوی دونوں کی حیثیت کا خیال کرکے مہر مقرر کیا جائے۔

(۳مہر کی ادائیگی واجب  ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اس شرط پرنکاح کرے کہ اس کا کچھ مہر نہ ہوگا، جب بھی نکاح درست ہوجائے گا اورمہرِمثل واجب ہوگا۔حوالہ
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً(النساء: ۲۴) عَنْ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ قَالَاأُتِيَ عَبْدُ اللَّهِ فِي رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا فَتُوُفِّيَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ سَلُوا هَلْ تَجِدُونَ فِيهَا أَثَرًا قَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا نَجِدُ فِيهَا يَعْنِي أَثَرًا قَالَ أَقُولُ بِرَأْيِي فَإِنْ كَانَ صَوَابًا فَمِنْ اللَّهِ لَهَا كَمَهْرِ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ فَقَامَ رَجُلٌ مَنْ أَشْجَعَ فَقَالَ فِي مِثْلِ هَذَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا فِي امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا بَرْوَعُ بِنْتُ وَاشِقٍ تَزَوَّجَتْ رَجُلًا فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا فَقَضَى لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ صَدَاقِ نِسَائِهَا وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ فَرَفَعَ عَبْدُ اللَّهِ يَدَيْهِ وَكَبَّرَ(النسائي إِبَاحَةُ التَّزَوُّجِ بِغَيْرِ صَدَاقٍ ۳۳۰۲) عن عطاء الخراساني أن عليا وابن عباس سئلا عن رجل تزوج امرأة وشرطت عليه ان بيدها الفرقة والجماع وعليها الصداق ، فقالا : عميت عن السنة ووليت الامر غير أهله عليك الصداق وبيدك الفراق والجماع(كنز العمال أحكام النكاح ۴۵۶۷۱)۔
(۴)اگر نكاح صحيح ہو تو صرف نكاح سے ہی مہر واجب ہوجاتا ہے اور اگر فاسد ہو تو دخول كےبعد واجب ہوتا ہےحوالہ
(۵) نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد باہمی رضا مندی سے مہر متعین ہوگیا، شوہر نے بیوی کے ساتھ خلوت صحيحہ (يا دخول) بھی کرلیا، اس کے بعد طلاق یا علیحدگی کی نوبت آئی،یاخلوت تونہیں ہوئی لیکن شوہر کا انتقال ہوگیا، ایسی صورت میں پورا مہر متعین (بشرطیکہ اس کی مقدار دس درہم سے زیادہ ہو) واجب ہوگا۔حوالہ
عن محمد بن ثوبان ، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « من كشف المرأة فنظر إلى عورتها فقد وجب الصداق (مراسيل ابي داود، من كشف المرأةالخ۱۹۹)۔
(۶) نکاح کے وقت مہر متعین ہوگیا اور پھر خلوت صحيحہ  سے پہلے ہی طلاق یا علیحدگی ہوگئی ہو، اس صورت میں مہر متعین کا آدھا ملے گا۔ حوالہ
وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ(البقرة: ۲۳۷)۔
(۷) نکاح کے وقت مہر متعین ہی نہ کیا، یا ایسی چیز کو مہر بنایا، جس میں مہر بننے کی صلاحیت نہیں، یا اس شرط پر نکاح کیا کہ اس کا کوئی مہر ہی نہ ہوگا اورخلوت کے بعد علیحدگی ہوگئی، یا خلوت تو نہیں ہوئی، لیکن شوہر کا انتقال ہوگیا، ان صورتوں میں عورت کا مہر مثل واجب ہوگا۔ حوالہ
عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أُتِيَ فِي امْرَأَةٍ تَزَوَّجَهَا رَجُلٌ فَمَاتَ عَنْهَا وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا فَاخْتَلَفُوا إِلَيْهِ قَرِيبًا مِنْ شَهْرٍ لَا يُفْتِيهِمْ ثُمَّ قَالَ أَرَى لَهَا صَدَاقَ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ فَشَهِدَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ الْأَشْجَعِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي بَرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ بِمِثْلِ مَا قَضَيْتَ (النسائي إِبَاحَةُ التَّزَوُّجِ بِغَيْرِ صَدَاقٍ ۳۳۰۳)۔
(۸) نکاح کے وقت مہر متعین نہیں ہوا،یا ایسی چیز کو مہر بنایا گیا، جس میں مہر بننے کی صلاحیت نہیں اور خلوت سے پہلے ہی زوجین میں علیحدگی ہوگئی، تو اب ایسی عورت کے لیے متعہ واجب ہوگا، یہ بات پیش نظر رہے کہ جس عورت کا مہر عقد کے وقت متعین نہ ہوا ہو، بعد میں باہمی رضا مندی سے طے ہوا تو، اگر خلوت سے پہلے ہی علیحدگی ہو جائے تو اس کا مہر غیر متعین ہی مقصود ہوگا اور وہ متعہ کی مستحق ہوگی،نہ کہ مہر مثل کی۔ حوالہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا(الاحزاب: ۴۹)۔
(۹) اگرزندگی میں مہرادا نہیں کیا، توموت کے بعد اس کے ترکہ میں سے مہرادا کیا جائے گا اور مہر کی ادائیگی، وصیت اور میراث کی تقسیم پرمقدم ہوگی؛ اگرشوہر وبیوی دونوں کاانتقال ہوگیا، مہرمتعین توتھا؛ لیکن ادا نہ ہوا، توعورت کے ورثاء شوہر کے متروکہ سے مہروصول کریں گے۔ حوالہ
وإذا مات الزوجان وقد سمى لها مهرا فلورثتها أن يأخذوا ذلك من ميراث الزوج(الهداية باب المهر:۱۹۸/۱)۔
(۱۰) عقد کے بعد مہر میں اضافہ اورکمی درست ہے اورمہر کی ادائیگی میں اس کا عتبار ہے،البتہ اگر مہر میں شوہر کی طرف سے رضا کارانہ اضافہ ہوجائے اورخلوت سے پہلے ہی طلاق کی نوبت آجائے، تو صرف عقد کے وقت مقررہ مہر کا نصف واجب ہوگا۔حوالہ
وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ (النساء: ۲۴)فَأَمَّا إذَا زَادَ فَالزِّيَادَةُ لَا تَخْلُو إمَّا إنْ كَانَتْ فِي الْمَهْرِ أَوْ عَلَى الْمَهْرِ فَإِنْ كَانَتْ عَلَى الْمَهْرِ بِأَنْ سَمَّى الزَّوْجُ لَهَا أَلْفًا ثُمَّ زَادَهَا بَعْدَ الْعَقْدِ مِائَةً ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ الدُّخُولِ بِهَا فَلَهَا نِصْفُ الْأَلْفِ وَبَطَلَتْ الزِّيَادَةُ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ (بدائع الصنائع فصل بَيَان مَا يَسْقُطُ بِهِ نِصْفُ الْمَهْرِ۴۶/۶)۔




متعہ کا مقصد


اسلام خیر خواہی اور حسن سلوك والا مذہب ہے اور ہر مرحلہ پر ہمدردی اور رواداری سكھاتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرکسی عورت کونکاح میں رکھنا ہے توبھلے طریقے پررکھو اور اگر اُسے چھوڑنا  ہے(گرچہ چھوڑنا اچھی بات نہیں) توبھلے طریقے پرچھوڑ دو فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْتَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (البقرۃ:۲۲۹) بہر حال متعہ کا مقصد  اصل میں بھلے طریقہ پرحسنِ سلوک کے ساتھ بیوی کورخصت کرنا ہے کہ جب ایک عورت مرد کی زندگی سے جدا ہوتو آخر اُسے بہتر سلوک کے ساتھ رخصت کیا جائے کہ یہ گذشتہ زندگی کی رفاقت کا تقاضا بھی ہے اور اس سے توقع ہے کہ تلخیاں بھی کچھ نہ کچھ کم ہونگی۔

متعہ کی مقدار


متعہ کی کوئی مقدار متعین نہیں؛ بلکہ عرف وعادت اور زن وشوہر کے حالات پرموقوف ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے معروف طریقہ پر متعہ کا حکم دیا ہے: مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ (البقرۃ:۲۳۶) اور اسی آیت میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ خوش حال اور تنگ دست شوہر کواپنے حالات کے موافق متعہ ادا کرنا چاہئے توگویا مرد کے معاشی حالات کوبھی ملحوظ رکھا جائے گا اور سماجی عرف کوبھی وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ (البقرۃ:۲۳۶) ،نيز معروف کی رعایت اس وقت تك نہیں ہوسکتی جب تک كہ عورت کا معیارِ زندگی اور معیارِ پسندیدگی بھی ملحوظ ہو، اس لیے ان تینوں کا خیال کرنا چاہئے۔
عام طور پر فقہاء نے متعہ کی حیثیت سے ایک جوڑے کپڑے کا ذکر کیا ہے، جوکرتا اوڑھنی اور چادر پرمشتمل ہو، یہ متعہ کی کم سے کم مقدار ہے۔ حوالہ
والمتعة ثلاثة أثواب من كسوة مثلها وهي درع وخمار وملحفة(هداية باب المهر: ۱۹۸/۱) 
 متعہ واجب صرف اس عورت کے لیے ہے،جس کا مہر متعین نہیں ہوا تھا اورخلوت سے پہلے ہی طلاق کی نوبت آگئی تھی، لیکن ان خواتین کے لیے بھی متعہ مستحب ہے،جن کو خلوت کے بعد طلاق واقع ہوئی ہے،خواہ نکاح کے وقت ان کا مہر متعین ہوا ہو یا نہیں۔ حوالہ
          يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (الاحزاب:۴۹)وأما المتعة فهي على ما في «المبسوط» والمحيط وغيرهما من المعتبرات مستحبة ، وعلى ما في بعض نسخ القدوري ومشى عليه صاحب الدرر غير مستحبة أيضاً والأرجح أنها مستحبة(روح المعاني: ۱۶۹/۱۶)




نفقہ وسکنی کابیان




نفقہ کی تعریف




نفقہ کی لغوی و شرعی تعریف
نفقہ کے لغوی معنی: ہر وہ چیز جسے انسان اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہو۔
نفقہ:اصطلاح میں :خوراک،لباس اور رہائش کے انتظام کو کہتے ہیں۔ حوالہ
بَابُ النَّفَقَةِ هِيَ لُغَةً مَا يُنْفِقُهُ الْإِنْسَانُ عَلَى عِيَالِهِ وَشَرْعًا ( هِيَ الطَّعَامُ وَالْكُسْوَةُ وَالسُّكْنَى۔(درمختار علي الرد َبابُ النَّفَقَةِ:۷۴/۱۳)۔

مرد كے ذمہ تین چیزیں ہیں: کھانا ،لباس اور رہائش۔
(۱)شوہر بیوی کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے بیوی کو رہنے کے لیے گھر اور کھانا وغیرہ کا خرچ مرد کے ذمہ رہتا ہے اب چونکہ یہ ذمہ داری مرد کی ہے اس لیے اپنی حیثیت کے مطابق خرچہ دینا اس پر لازم ہے اس سلسلہ میں عورت کی حیثیت خواہش وغیرہ کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں۔ حوالہ
عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ         (البقرة:۲۳۶)۔
(۲)عورت کے لیے اس کے خرچہ کے علاوہ اس کو رہنے کے لیے اوراپنے سامان وغیرہ کی حفاظت کے لیے کم از کم ایک خصوصی کمرہ دینا شوہر کی ذمہ داری ہے (شریعت میں اس کو سکنی  کہتے ہیں) حوالہ
عن جابر...وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنْ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابُ اللَّهِ۔(مسلم بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۱۳۷)۔ أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ (الطلاق:۶)۔




بیویوں کے درمیان مساوات کا بیان




جن امور میں برابری قائم کرناضروری ہے




اسلام بہت سی مصلحتوں اور حکمتوں کے بناء پر ایک مرد کو بیک وقت چار عورتیں اپنے نکاح میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ وہ ان کے حقوق کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتا ہو اوران کے درمیان عدل وانصاف قائم رکھتا ہو اگر وہ ان شرائط کا لحاظ نہ رکھ سکتا ہو تو وہ ایک سے زائد نکاح بھی نہیں کرسکتا۔ حوالہ
فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَة        (النساء:۳)۔
(۱)تمام بیویوں کو ایک ہی معیار کا کپڑا ،کھانا، زیور اورمکان وغیرہ دینا چاہیے خواہ نئی ہو یا پرانی،کنواری ہو یا بیوہ اگر ایک بیوی کو خرچہ اور مکان اچھا دیا اوردوسری کو اس میں کمی کردی تو کم پانے والی اس کے خلاف دعوی کرسکتی ہے۔
رات گزارنے میں برابری ضروری ہےدن میں کسی کے پاس زیادہ وقت کسی کے پاس کم وقت رہ سکتا ہے۔حوالہ
 وَمِنْهَا ، وُجُوبُ الْعَدْلِ بَيْنَ النِّسَاءِ فِي حُقُوقِهِنَّ .وَجُمْلَةُ الْكَلَامِ فِيهِ أَنَّ الرَّجُلَ لَا يَخْلُو إمَّا أَنْ يَكُونَ لَهُ أَكْثَرَ مِنْ امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ وَإِمَّا إنْ كَانَتْ لَهُ امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ ، فَإِنْ كَانَ لَهُ أَكْثَرُ مِنْ امْرَأَةٍ ، فَعَلَيْهِ الْعَدْلُ بَيْنَهُنَّ فِي حُقُوقِهِنَّ مِنْ الْقَسْمِ وَالنَّفَقَةِ وَالْكِسْوَةِ ، وَهُوَ التَّسْوِيَةُ بَيْنَهُنَّ فِي ذَلِكَ حَتَّى لَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَأَتَانِ حُرَّتَانِ أَوْ أَمَتَانِ يَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَعْدِلَ بَيْنَهُمَا فِي الْمَأْكُولِ وَالْمَشْرُوبِ وَالْمَلْبُوسِ وَالسُّكْنَى وَالْبَيْتُوتَةِ۔(بدائع الصنائع فَصْلٌ وُجُوبُ الْعَدْلِ بَيْنَ النِّسَاءِ فِي حُقُوقِهِنَّ: ۱۶۶/۶)۔

(۲)ایک سے زائد بیویاں رکھنے والا شخص ان کے درمیان حقوق میں کمی زیادتی نہ کرتا ہو لیکن ان میں سے بعض کی طرف اپنا دلی میلان زیادہ رکھتا ہو تو وہ اس کے اختیار سے باہر ہے اسلئے یہ انصاف کے خلاف نہیں اوراس کی شریعت میں گنجائش ہے۔ حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ  أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِهِ فَيَعْدِلُ وَيَقُولُ اللَّهُمَّ هَذِهِ قِسْمَتِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ۔(ترمذي، بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الضَّرَائِر،حدیث نمبر:۱۰۵۹)، أَمَّا الْمَحَبَّةُ فَهِيَ مَيْلُ الْقَلْبِ وَهُوَ لَا يَمْلِكُ۔(رد المحتار بَابُ الْقَسْمِ بين الزوجات:۳۴۲/۱۰)۔

(۳)مباشرت میں برابری ضروری نہیں صرف رات گزارنے میں برابری ضروری ہے۔ حوالہ
 ( قَوْلُهُ لَا فِي الْمُجَامَعَةِ ) لِأَنَّهَا تُبْتَنَى عَلَى النَّشَاطِ ، وَلَا خِلَافَ فِيهِ۔(درمختارمع الرد بَابُ الْقَسْمِ بين الزوجات:۳۴۲/۱۰)۔

(۴)سفر میں برابری ضروری نہیں جس کو چاہے لیجاسکتا ہے بہتر ہے کہ قرعہ اندازی کرے. حوالہ
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ وَكَانَ يَقْسِمُ لِكُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا غَيْرَ أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبْتَغِي بِذَلِكَ رِضَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔(بخاري بَاب هِبَةِ الْمَرْأَةِ لِغَيْرِ زَوْجِهَا وَعِتْقِهَا إِذَا كَانَ لَهَا زَوْجٌ،حدیث نمبر:۲۴۰۴)۔





3 comments:

  1. I am so thankful.bahut pasand aya ye book ki shakal mai miljaiga

    ReplyDelete
  2. اچھی کاوش ھے اسلام میں عائلی زندگی میں اس معاہدے کو سنگ میل کی حثیت ھے لوگوں کو ان مسائل سے آگاہی ھونا ضروری ھے

    ReplyDelete
  3. بہت عمدہ
    ایسی معلومات اور مسائل کی آگاہی نہایت ضروری ہے

    ReplyDelete