Sunday 16 June 2013

عقیقہ کا بیان


عقیقہ کی تعریف



عقیقہ کے لغوی معنی:وه بال جونو مولود لڑکے كے سر پر ہوتے ہیں۔ حوالہ
  قال الإمام أبو منصور الأزهري: قال أبو عبيد: قال الأصمعي وغيره: العقيقة أصلها الشعر الذي يكون على رأس الصبي حين يولد(تهذيب الاسماء: ۶۵/۴) 
عقیقہ کی اصطلاحی تعریف:وه جانور جو لڑكا يا لڑکی کی ولادت كے ساتویں دن ذبح  كيا جائے۔ حوالہ
الْعَقِيقَةُ وَهِيَ الشَّاةُ الَّتِي تُذْبَحُ يَوْمَ الْأُسْبُوع(المصباح المنير۲۷۹/۶) 




عقیقہ کے احکام




(۱)لڑکا یا لڑکی کے ولادت کے وقت داہنے كان میں اذان اور بائيں كان میں اقامت كہنا،نام ركهنا،تحنيك كرانا (یعنی کسی صالح اور نیک آدمی كے ذریعہ کھجور یااس جیسی کسی میٹھی چیز کواچھی طرح چباکر اسے نومولود بچہ کے منہ میں ڈال دے؛ تاکہ معدہ تک پہونچ جائے؛ پھربچہ کے لیے دعا کرائے) ساتویں دن عقیقہ کرنا ،بال نکلنا اور بال کے بقدر چاندی صدقہ کرنا مستحب ہے ،حضور   نے حضرت حسن ؓ اورحضرت حسین ؓ کے ساتھ ایسا ہی کیا نیز فرمایا: ہر بچہ عقیقہ کی وجہ سے گروی ہوتا ہے اس لیے ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اوراس کے بال کاٹے جائیں۔ حوالہ
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وُلِدَ لِي غُلَامٌ فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمَّاهُ إِبْرَاهِيمَ فَحَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ وَدَفَعَهُ إِلَيَّ وَكَانَ أَكْبَرَ وَلَدِ أَبِي مُوسَى(بخاري بَاب تَسْمِيَةِ الْمَوْلُودِ غَدَاةَ يُولَدُ لِمَنْ لَمْ يَعُقَّ عَنْهُ وَتَحْنِيكِهِ ۵۰۴۵)عَنْ عَلِىٍّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ فَقَالَ :« زِنِى شَعَرَ الْحُسَيْنِ وَتَصَدَّقِى بِوَزْنِهِ فِضَّةً وَأَعْطِى الْقَابِلَةَ رِجْلَ الْعَقِيقَةِ (السنن الكبري للبيهقي  باب مَا جَاءَ فِى التَّصَدُّقِ بِزِنَةِ الخ ۱۹۷۷۶)عَنْ سَمُرَةَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ وَيُدَمَّى(ابو داود بَاب فِي الْعَقِيقَةِ ۲۴۵۴) 

(۲)لڑکے کی طرف سے دو اورلڑکی کے طرف سے ایک بکرا ذبح کرنے کا حکم ہے۔ حوالہ
أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهَاأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُمْ عَنْ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ وَعَنْ الْجَارِيَةِ شَاةٌ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَقِيقَةِ۱۴۳۳) 

(۳)اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو چودھویں یا اکیسویں دن کرلے، عقیقہ کے گوشت کی دعوت کرنا بھی درست ہے اور گوشت تقسیم کرنا بھی۔ حوالہ
 عَنْ سَمُرَةَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ وَيُدَمَّى(ابو داود بَاب فِي الْعَقِيقَةِ ۲۴۵۴)السُّنَّةُ أَنْ تُذْبَحَ يَوْمَ السَّابِعِ ، فَإِنْ فَاتَ فَفِي أَرْبَعَ عَشْرَةَ ، فَإِنْ فَاتَ فَفِي إحْدَى وَعِشْرِينَ وَيُرْوَى هَذَا عَنْ عَائِشَةَ (المغني، حكم العقيقة، متي تذبح العقيقة ۲/۲۲) 

(۴)عقیقہ کا جانور اسی عمر اور انہی خوبیوں کا مالک ہونا چاہیے جو قربانی کے لیے ہوا کرتا ہے اور عیوبات سے بھی اسی طرح پاک رہنا چاہیے جس طرح قربانی کا جانور ہواکرتا ہے۔ حوالہ
جنسها وسنها وصفتها :هي في الجنس والسن والسلامة من العيوب مثل الأضحية، من الأنعام: الإبل، والبقر، والغنم. وقيل: لا يعق بالبقر ولا بالإبل(الفقه الاسلامي وادلته  حكم العقيقة ومعناها وحكمتها ۲۸۶/۴) 

(۵)قربانی  کی طرح عقیقہ کے لیے اونٹ اور گائے میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ حوالہ
 عن أنس ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل مولود مرتهن بعقيقته تعق عنه يوم سابعه ، من الإبل ، والبقر ، والغنم(تاريخ اصبهان لابي نعيم الاصبهاني ۴۹/۱) 

(۶)عقیقہ کا گوشت چمڑا وغیرہ کوئی چیز فروخت نہیں کی جاسکتی اوراگر فروخت کردے اوراس کی قیمت مل جائے تو اس کا صدقہ کردینا ضروری ہے۔ حوالہ
 حكم اللحم كالضحايا، يؤكل من لحمها، ويتصدق منه، ولا يباع شيء منها (الفقه الاسلامي وادلته، العقيقة حكم لحمها وجلدها، ۲۸۷/۴) 




عقیقہ کی دعاء




عقیقہ کرنا سنت ہے،مسنون ہے کہ لڑکا ہو تو دو بکرے اورلڑکی ہو تو ایک بکرا ذبح کرے،اگر دو نہ ہوسکے تو ایک بھی کافی ہے،عقیقہ کے جانور کے ذبح کرتے وقت یہ دعاء پڑھے:
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہِ عَقِیْقَۃِ اِبْنِی......... دَمُھْا بِدَمِہ وَلَحْمُھَا بِلَحْمِہِ وَعَظْمُھَا بِعَظْمِہِ وَجِلْدُھَا بِجِلْدِہِ وَشَعرُھَا بِشَعْرِہِ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا فِدَاءٌ لِا بنی مِنَ النَّارِ
پھر یہ دعاء پڑھے
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيکَ لَهُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ اللَّهُمَّ مِنْکَ وَلَکَ
پھر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرے۔            

(مالا بدمنہ:۱۷۴)


http://islamicbookslibrary.wordpress.com/2011/09/04/aqeeqah-kay-ahkam-o-masail-by-shaykh-muhammad-yusuf-khan/


برتھ ڈے (سالگرہ اور یومِ میلاد) کی شرعی حیثیت؟
یومِ میلاد منانا..... جس کوبرتھ ڈے کہتے ہیں..... نہ کتاب وسنت سے ثابت ہے نہ صحابہؓ اور سلفِ صالحین کے عمل سے، شریعت نے بچوں کی پیدائش پرساتویں دن عقیقہ رکھا، جومسنون ہے اور جس کا مقصد نسب کاپوری طرح اظہار اور خوشی کے اس موقع پراپنے اعزہ واحباب اور غرباء کوشریک کرنا ہے، برتھ ڈے کا رواج اصل میں مغربی تہذیب کی برآمدات میں سے ہے، جوحضرت مسیح علیہ السلام کا یومِ پیدائش بھی مناتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری قوموں سے مذہبی اور تہذیبی مماثلت اختیار کرنے کوناپسند فرمایا ہے اس لیے یہ جائز نہیں، مسلمانوں کوایسے غیردینی اعمال سے بچنا چاہیے۔                    

  (جدید فقہی مسائل:۱/۴۶۸)

1 comment:

  1. جناب آپ نے یوم میلاد منانا جائز نہیں لکھا اس کے دلائل قرآن و سنت و اصحاب نبی اور سلف صالحین کرام سے ثابت کر سکتے ہیں؟؟

    ReplyDelete