Tuesday 23 July 2013

بیع سود ہبہ اجارہ ضمان صید ودیعت کا بیان

بیع (بیچنے اورخریدنے) کا بیان
بیع کی تعریف
بیع کی لغوی و اصطلاحی تعریف
بیع کے لغوی معنی:خریدنا اوربیچنا ہے۔ حوالہ
 قَالَهُ ابْنُ الْقَطَّاعِ وَالْبَيْعُ مِنْ الْأَضْدَادِ مِثْلُ : الشِّرَاءِ(المصباح المنير ۴۲۲/۱)

بیع کے اصطلاحی معنی:مال کا مال سے تبادلہ کرنا جو آپسی رضا مندی سے ہو۔ حوالہ
 وفي الشرع: مبادلة المال المتقوم بالمال المتقوم، تمليكاً وتملكاً(التعريفات ۱۵/۱)

اللہ تعالی نے دنیا کی مکمل زندگی آپسی تعلقات اورضروريات پر قائم کی ہے، جہاں ایک غریب اپنا پیٹ بھرنے اورزندگی کی ضروریات مکمل کرنے میں بظاہر امیر کا محتاج ہوتا ہے وہیں امیر کے لیے اپنی مختلف قسم کی خواہشات وضروریات  کی تکمیل میں غریب ایک اہم ذریعہ ہے ٹھیک ایسے ہی تجارت بھی آپسی تعلقات کا اہم ذریعہ ہے، اس لیے اسلام میں صرف تجارت کی اجازت ہی نہیں دی گئی؛بلکہ اس کے اصول وقوانین بڑی تفصیل سے بتائے گئےہیں۔

بیچنے اورخریدنے کے چند اصول
اسلام نے جتنے بھی خرید وفروخت کے اصول بنائے ہیں ان میں ان باتوں کو پیش نظر رکھا گیا کہ:
(۱) بیچنے والے اور خریدنے والے کی نفسیات کا لحاظ رکھا جائے۔
(۲) مہنگا بیچنے پرروک لگانے کی کوشش کی جائے۔
(۳) خریدو فروخت کا نتیجہ کوئی جھگڑا نہ بنے اس لیے وہ تمام صورتیں شریعت نے ناجائز قرار دی ہیں جن میں عاقدین کے درمیان جھگڑا ہوسکتا ہے جیسے کسی بیع میں قیمت متعین نہ ہو یا مبیع (جس چیز کو بیچا جارہا ہو اس) میں ابہام ہو، قیمت یا سامان کے حوالہ کرنے کی مدت پوری طرح متعین نہ ہو۔
(۴) دونوں مکمل طور پر راضی ہوں اور ایسا نہ ہو کہ کوئی فریق اپنے دل میں کسی قسم کا شک و شبہ رکھے اس لیے جو چیز بغیر دیکھے خریدی جائے اسے جائز تو قرار دیا گیا مگر جب اسے دیکھ لے اوراس پر مطمئن ہوجائے تو بیع نافذ ہوجائیگی ،اگر وہ دیکھنےکے بعد مطمئن نہ ہو تو اسے یہ اختیار ہوگا کہ بیع کو ختم کردے اس اختیار  کو ’خیار رویت‘ کہا جاتا ہے اوربیع منابذہ ،ملامسہ اوربیع حصاۃ (جوزمانۂ جاہلیت میں مروج تھیں) کو اسی لیے ناجائز قرار دیا گیا۔
(۵) دھوکہ دہی، فریب اورچالبازی سے محفوظ رکھا گیا اگر اس طرح کا کوئی کام ہوجائے تو اس کی تلافی کی تدبیر بتلائی گئیں لہذا بیع کی جس صورت میں دھوکہ ہوتا ہے اس کو پسند نہیں کیا گیا جیسے تاجر سے یہ کہا گیا کہ سامان میں کوئی عیب ہو تو بتا دیا جائے اور  تاجر نہیں بتایا تو گاہگ کو اختیار ہوتا ہے کہ جب وہ عیب  پر مطلع ہو تو وہ فورا اسے تاجر کو واپس کرکے بیع کو کالعدم کردے، اسے ’ خیار عیب‘ کہا جاتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (النساء:۲۹) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَتَفَرَّقَنَّ عَنْ بَيْعٍ إِلَّا عَنْ تَرَاضٍ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْبَيِّعَيْنِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا ۱۱۶۹) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ
قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يُسْلِفُونَ بِالتَّمْرِ السَّنَتَيْنِ وَالثَّلَاثَ فَقَالَ مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَفِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ(بخاري بَاب السَّلَمِ فِي وَزْنٍ مَعْلُومٍ ۲۰۸۶)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ وَكَانَ بَيْعًا يَتَبَايَعُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ الرَّجُلُ يَبْتَاعُ الْجَزُورَ إِلَى أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ ثُمَّ تُنْتَجُ الَّتِي فِي بَطْنِهَا(بخاري بَاب بَيْعِ الْغَرَرِ وَحَبَلِ الْحَبَلَةِ ۱۹۹۹) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانُوا يَتَبَايَعُونَ الْجَزُورَ إِلَى حَبَلِ الْحَبَلَةِ فَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ فَسَّرَهُ نَافِعٌ أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ مَا فِي بَطْنِهَا(بخاري بَاب السَّلَمِ إِلَى أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ ۲۰۹۶) عَنْ مَكْحُولٍ رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ « مَنِ اشْتَرَى شَيْئًا لَمْ يَرَهُ فَهُوَ بِالْخِيَارِ إِذَا رَآهُ إِنْ شَاءَ أَخَذَهُ وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهُ (دار قطني، البيوع ۲۸۳۶)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُلَامَسَةِ وَالْمُنَابَذَةِ (بخاري بَاب بَيْعِ الْمُنَابَذَةِ ۲۰۰۲) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ (مسلم بَاب بُطْلَانِ بَيْعِ الْحَصَاةِ وَالْبَيْعِ الَّذِي فِيهِ غَرَرٌ ۲۷۸۳)

اسی طرح گاہک خریدنے کے لیے بھاؤ تاؤ کررہا  ہو اور تاجر کا ایجنٹ اپنے آپ کو خریدار ظاہر کرکے اس کی قیمت بڑھادے اسے بھی شریعت نے ناجائز قرار دیا اس لیے کہ اس میں گاہک کو دھوکہ دینا ہے، جسے تناجش کہتے ہیں، اگر گاہک کو بعد میں معلوم ہوکہ قیمت میں دھوکہ ہوا ہے تو اسے اختیار ہے کہ چاہے تو اسے کالعدم کردے اوربھی بہت سی صورتیں ہیں کہ جس میں دھوکہ ہونے کی  بنیاد پر غیر درست کہا گیا۔ حوالہ
 عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّجْشِ (بخاري بَاب النَّجْشِ ۱۹۹۸)

(۶) چونکہ کسی چیز کی خرید و فروخت کا  ہونا اس کی اہمیت کو بتلاتا ہے اس لیے ایسی تمام چیزوں کی خرید و فروخت کو ناجائز قرار دیا گیا جو چیزیں خود شریعت میں ناجائز ہوں جیسے شراب، تصاویر اورذی روح مجسمے وغیرہ یا جو چیزیں ناجائز چیزوں  کا ذریعہ بنتی ہوں جیسے فتنہ کے زمانہ میں اہل فتنہ سے اسلحہ فروخت کرنا ۔ حوالہ
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدة:۲) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا أُنْزِلَتْ الْآيَاتُ مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي الرِّبَا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَقَرَأَهُنَّ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ حَرَّمَ تِجَارَةَ الْخَمْرِ۔ (بخاري بَاب تَحْرِيمِ تِجَارَةِ الْخَمْرِ فِي الْمَسْجِدِ ۴۳۹)

(۷) خرید وفروخت کے معاملہ میں کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے جو بیع کے معاملہ کے خلاف ہے یعنی کسی چیز کو خریدنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خریدار اس شئ کا مالک ہوجائے اوراس کو جب چاہے جس طرح چاہے استعمال کرے اب اگر بیچنے والا بیچتے وقت یہ شرط لگادے کہ میں اس کو ایک ماہ یا ایک سال استعمال کرونگا تو یہ شرط خلاف ِ بیع ہے اس لیے یہ بیع فاسد ہوگی۔ حوالہ
 عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع وشرط، البيع باطل، والشرط باطل(المعجم الاوسط للطبراني، من اسمه عبد الله ۴۵۱۲،۶۶/۱۰ )
اس کے علاوہ اور بھی کچھ صورتیں ہیں جو تفصیلی کتابوں میں موجود ہیں۔

بیع کے ارکان وشرائط
بیع کے ارکان:
بیع کے دو ارکان ہیں (۱) ایجاب (۲) قبول
خرید وفروخت میں جس کی طرف سے پہل کی جائے وہ ایجاب ہے اوراسے منظور کرلینے کو قبول کہتے ہیں۔حوالہ
( وَأَمَّا ) رُكْنُ الْبَيْعِ : فَهُوَ مُبَادَلَةُ شَيْءٍ مَرْغُوبٍ بِشَيْءٍ مَرْغُوبٍ ، وَذَلِكَ قَدْ يَكُونُ بِالْقَوْلِ ، وَقَدْ يَكُونُ بِالْفِعْلِ ( أَمَّا ) الْقَوْلُ فَهُوَ الْمُسَمَّى بِالْإِيجَابِ ، وَالْقَبُولِ فِي عُرْفِ الْفُقَهَاءِ(بدائع الصنائع، كِتَابُ الْبُيُوعِ ۴۷/۱۱)

بیع کے شرائط:
بیع کی شرطیں چار طرح کی ہیں ، شرائط انعقاد،شرائط نفاذ،شرائط صحت اورشرائط لزوم

شرائط انعقاد
بیع کے منعقد ہونے کی بعض شرطیں تاجر اور خریدار سے متعلق ہوتی ہیں:
۱۔ وہ دونوں عاقل اور تميز كرنےوالے ہوں۔ لہذا نابالغ جس میں فہم و شعو ر پیدا ہوچکا ہو،نیز کم عقل شخص کی بیع بھی منعقد ہوجائے گی۔حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ ۳۱۵/۱۶) (قَوْلُهُ: وَشَرْطُهُ أَهْلِيَّةِ الْمُتَعَاقِدَيْنِ) أَيْ بِكَوْنِهِمَا عَاقِلَيْنِ ، وَلَا يُشْتَرَطُ الْبُلُوغُ وَالْحُرِّيَّةُ(رد المحتار، كِتَابُ الْبُيُوعِ ۱۹۹/۱۸)۔

۲۔ ایجاب و قبول دو الگ الگ آدمیوں کی طرف سے ہو، ایک ہی شخص فریقين کی طرف سے وکیل بن کر ایجاب و قبول دونوں کرلے،یہ درست نہ ہوگا، البتہ باپ، وصی، یا قاضی خود اپنا مال اپنے زیر ولایت نابالغ سے فروخت کریں تو وہ اس سے مستثنیٰ ہیں اوران کی طرف سے ایجاب و قبول دونوں کی گنجائش ہے۔

۳۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف سے ہونے والے ایجاب وقبول کو سن لیں۔ حوالہ
 عَنْ جَابِرٍ… ثُمَّ قَالَ لِي بِعْنِي جَمَلَكَ هَذَا قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَكَ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَالَ قُلْتُ فَإِنَّ لِرَجُلٍ عَلَيَّ أُوقِيَّةَ ذَهَبٍ فَهُوَ لَكَ بِهَا قَالَ قَدْ أَخَذْتُهُ(مسلم بَاب بَيْعِ الْبَعِيرِ وَاسْتِثْنَاءِ رُكُوبِهِ ۲۹۹۸)

بعض شرطیں مبیع اوراس کے ثمن،یا ان دونوں میں سے کسی ایک سے متعلق ہوتی ہیں

         (۱) مبیع اورثمن دونوں مال ہوں۔                          (۲) مبیع موجود ہو۔

         (۳) بائع کی ملکیت میں ہو۔                                (۴) بائع مبیع کو حوالہ کرنے پر قادر ہو۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُبْتَاعَ(بخاري بَاب بَيْعِ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهَا ۲۰۴۴) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ(مسلم بَاب تَحْرِيمِ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ ۲۷۸۴)عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ زَادَ إِسْمَاعِيلُ مَنْ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ(بخاري بَاب بَيْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ وَبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ۱۹۹۲)وَأَمَّا شَرَائِطُ الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ فَأَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا مَالًا مُتَقَوِّمًا مَمْلُوكًا فِي نَفْسِهِ وَأَنْ يَكُونَ مِلْكَ الْبَائِعِ فِيمَا يَبِيعُهُ لِنَفْسِهِ وَأَنْ يَكُونَ مَقْدُورَ التَّسْلِيمِ فَلَمْ يَنْعَقِدْ بَيْعِ الْمَعْدُومِ وَمَا لَهُ خَطَرُ الْعَدَمِ كَنِتَاجِ النِّتَاجِ وَالْحَمْلِ وَاللَّبَنِ فِي الضَّرْعِ وَالثَّمَرِ وَالزَّرْعِ قَبْلَ الظُّهُورِ وَالْبَزْرِ فِي الْبِطِّيخِ وَالنَّوَى فِي التَّمْرِ وَاللَّحْمُ فِي الشَّاةِ الْحَيَّةِ وَالشَّحْمُ وَالْأَلْيَةُ فِيهَا وَأَكَارِعُهَا وَرَأْسُهَا وَالسَّجِيرُ فِي السِّمْسِمِ الخ(البحر الرائق، شَرْطُ الْعَقْدِ ۳۵/۱۵)

بعض شرطیں ایجاب و قبول سے متعلق ہیں
۱۔ ایجاب و قبول میں مطابقت ہو، ایسا نہ ہو کہ خریدار الگ قیمت بتائے اورتاجر الگ ،یا اسی طرح دونوں کی بات میں يا مبیع کی مقدار میں فرق پایا جاتا ہو۔ حوالہ
 عَنْ جَابِرٍ… ثُمَّ قَالَ لِي بِعْنِي جَمَلَكَ هَذَا قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَكَ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَالَ قُلْتُ فَإِنَّ لِرَجُلٍ عَلَيَّ أُوقِيَّةَ ذَهَبٍ فَهُوَ لَكَ بِهَا قَالَ قَدْ أَخَذْتُهُ(مسلم بَاب بَيْعِ الْبَعِيرِ وَاسْتِثْنَاءِ رُكُوبِهِ ۲۹۹۸) وَأَمَّا شَرْطُ الْعَقْدِ فَمُوَافَقَةُ الْقَبُولِ لِلْإِيجَابِ بِأَنْ يَقْبَلَ الْمُشْتَرِي مَا أَوْجَبَهُ الْبَائِعُ بِمَا أَوْجَبَهُ ، فَإِنْ خَالَفَهُ بِأَنْ قَبِلَ غَيْرَ مَا أَوْجَبَهُ أَوْ بَعْضَ مَا أَوْجَبَهُ أَوْ بِغَيْرِ مَا أَوْجَبَهُ أَوْ بِبَعْضِ مَا أَوْجَبَهُ لَمْ يَنْعَقِدْ لِتَفَرُّقِ الصَّفْقَةِ(البحر الرائق، شَرْطُ الْعَقْدِ ۳۵/۱۵)

۲۔ ایجاب و قبول دونوں ایک ہی مجلس میں ہو۔ حوالہ
 عَنْ جَابِرٍ… ثُمَّ قَالَ لِي بِعْنِي جَمَلَكَ هَذَا قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَكَ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَالَ قُلْتُ فَإِنَّ لِرَجُلٍ عَلَيَّ أُوقِيَّةَ ذَهَبٍ فَهُوَ لَكَ بِهَا قَالَ قَدْ أَخَذْتُهُ(مسلم بَاب بَيْعِ الْبَعِيرِ وَاسْتِثْنَاءِ رُكُوبِهِ ۲۹۹۸) وَأَمَّا الَّذِي يَرْجِعُ إلَى مَكَانِ الْعَقْدِ فَوَاحِدٌ وَهُوَ اتِّحَادُ الْمَجْلِسِ .بِأَنْ كَانَ الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ ، فَإِنْ اخْتَلَفَ الْمَجْلِسُ لَا يَنْعَقِدْ(بدائع الصنائع ( فَصْلٌ ) : فِي الشَّرْطِ الَّذِي يَرْجِعُ إلَى مَكَانِ الْعَقْدِ ۶۳/۱۱)

بیع کے نافذ وجاری ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں:
۱۔ بیچنے والا اس سامان کا مالک ہو، یا ولی اور نگران کی حیثیت سے اس کو وہ سامان فروخت کرنے کا حق حاصل ہو۔حوالہ
عن أبي هريرة قال: "نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر" (صحيح ابن حبان، ذكر الزجر عن بيع الحمل في البطن، والطير في الهواء والسمك في الماء قبل أن يصطاد ۴۹۵۱) عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَأْتِينِي الرَّجُلُ يَسْأَلُنِي مِنْ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي أَبْتَاعُ لَهُ مِنْ السُّوقِ ثُمَّ أَبِيعُهُ قَالَ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ۱۱۵۳)( وَمِنْهَا ) أَنْ يَكُونَ مَمْلُوكًا .لِأَنَّ الْبَيْعَ تَمْلِيكٌ فَلَا يَنْعَقِدُ فِيمَا لَيْسَ بِمَمْلُوكٍ كَمَنْ بَاعَ الْكَلَأَ فِي أَرْضٍ مَمْلُوكَةٍ ، وَالْمَاءَ الَّذِي فِي نَهْرِهِ أَوْ فِي بِئْرِهِ ؛ لِأَنَّ الْكَلَأَ وَإِنْ كَانَ فِي أَرْضٍ مَمْلُوكَةٍ فَهُوَ مُبَاحٌ ،(بدائع الصنائع في الشرط الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ ۱۱۱/۱۱) فَأَمَّا مَا يَبِيعُهُ بِطَرِيقِ النِّيَابَةِ عَنْ غَيْرِهِ يُنْظَرُ إنْ كَانَ الْبَائِعُ وَكِيلًا وَكَفِيلًا فَيَكُونُ الْمَبِيعُ مَمْلُوكًا لِلْبَائِعِ لَيْسَ بِشَرْطٍ(بدائع الصنائع في الشرط الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ ۱۱۶/۱۱)

۲۔ اس سامان سے تاجر کے سوا کسی اورکا حق متعلق نہ ہو، جیسے  نابالغ وناسمجھ بچہ  کی ہر چیز سے باپ کا حق بحیثیت ولی متعلق ہے تو جب تک باپ اجازت نہ دے وہ بیع موقوف رہے گی اجازت دیدے تو بیع نافذ ولازم ہوجائے گی ۔ حوالہ
 لَوْ بَاعَ الصَّبِيُّ الْعَاقِلُ مَالَ نَفْسِهِ ؛ يَنْعَقِدُ عِنْدَنَا مَوْقُوفًا عَلَى إجَازَةِ وَلِيِّهِ ، وَعَلَى إجَازَةِ نَفْسِهِ بَعْدَ الْبُلُوغِ(بدائع الصنائع، فصل في شرائط ركن البيع۵۳/۱۱)


شرائطِ صحت
بیع کے درست ہونے کے لیے کچھ شرطیں عام نوعیت کی ہیں ،جوہر معاملۂ خریدوفروخت کے لیے ضروری ہیں
۱۔ بیع ایک خاص مدت کے لیے نہ ہو بلکہ ہمیشہ کے لیے ہو۔ حوالہ
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع وشرط، البيع باطل، والشرط باطل(المعجم الاوسط للطبراني، من اسمه عبد الله ۴۵۱۲،۶۶/۱۰ )
۲۔مبیع اور ثمن اس طرح متعین اور معلوم ہوں کہ آئندہ اختلاف پیدا ہونے کا امکان نہ ہو۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الْأَسْلَمِيِّ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّامَ فَكَانَ يَأْتِينَا أَنْبَاطٌ مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ فَنُسْلِفُهُمْ فِي الْبُرِّ وَالزَّيْتِ سِعْرًا مَعْلُومًا وَأَجَلًا مَعْلُومًا فَقِيلَ لَهُ مِمَّنْ لَهُ ذَلِكَ قَالَ مَا كُنَّا نَسْأَلُهُمْ(ابو داود، في السلف، ۳۰۰۶)
 ( وَمِنْهَا ) أَنْ يَكُونَ الْمَبِيعُ مَعْلُومًا وَثَمَنُهُ مَعْلُومًا عِلْمًا يَمْنَعُ مِنْ الْمُنَازَعَةِ .فَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمَا مَجْهُولًا جَهَالَةً مُفْضِيَةً إلَى الْمُنَازَعَةِ فَسَدَ الْبَيْعُ(بدائع الصنائع فَصْلٌ في شَرَائِط الصِّحَّةِ في البيوع ۱۵۸/۱۱)

۳۔ ایسی بیع ہو جس سے کوئی فائدہ ہو، بے فائدہ بیع نہ ہو، مثلاً ایک روپیہ کے بدلہ ایک روپیہ فروخت کیا جائے، یہ درست نہیں، کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہیں۔ حوالہ
لان الشئ اذا خلا عن فائدته لغا(اعلاء السنن حرمة بيع الخمر والميتة ۱۱۱/۱۴)

۴۔ کوئی شرط فاسد نہ لگائی جائے۔ حوالہ
 عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع وشرط ، البيع باطل ، والشرط باطل(المعجم الاوسط للطبراني، من اسمه عبد الله ۴۵۱۲،۶۶/۱۰ )

شرط فاسد کی حسب ذیل صورتیں ہیں:
۱۔ ایسی شرط جس کا پایا جانا اور نہ پایا جانا،دونوں  شبہ سے خالی نہ ہو۔ حوالہ
 عن أبي هريرة قال: "نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر" (صحيح ابن حبان، ذكر الزجر عن بيع الحمل في البطن، والطير في الهواء والسمك في الماء قبل أن يصطاد ۴۹۵۱)

۲۔ ایسی شرط جو ممنوع اورشرعاًناجائز ہو۔ حوالہ
 وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدة:۲)

۳۔ ایسی شرط نہ ہو جو تقاضائے عقد کے خلاف ہو اوراس سے تاجر یا خریدار یا خود اس مبیع کا نفع متعلق ہو جس کے اندر مطالبہ کی صلاحیت موجود ہے اور نہ اس کا لوگوں میں تعامل ہو۔حوالہ
عن عَبْد اللَّهِ بْن مَسْعُودٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ اشْتَرَى جَارِيَةً مِنِ امْرَأَتِهِ زَيْنَبَ الثَّقَفِيَّةِ وَاشْتَرَطَتْ عَلَيْهِ إِنَّك إِنْ بِعْتَهَا فَهِىَ لِى بِالثَّمَنِ الَّذِى تَبِيعُهَا بِهِ فَاسْتَفْتَى فِى ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : لاَ تَقْرَبْهَا وَفِيهَا شَرْطٌ لأَحَدٍ.(السنن الكبري للبيهقي، باب الشَّرْطِ الَّذِى يُفْسِدُ الْبَيْعَ ۱۱۱۴۵) الاصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لاحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا(الدر المختار باب البيع الفاسد ۲۰۴ /۵)

۴۔ بیع کے رد کرنے کا ابدی اختیار یا تین دنوں سے زائد اختیار کی شرط لگادی جائے۔ حوالہ
 عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانٍ قَالَ هُوَ جَدِّي مُنْقِذُ بْنُ عَمْرٍو وَكَانَ رَجُلًا قَدْ أَصَابَتْهُ آمَّةٌ فِي رَأْسِهِ فَكَسَرَتْ لِسَانَهُ وَكَانَ لَا يَدَعُ عَلَى ذَلِكَ التِّجَارَةَ وَكَانَ لَا يَزَالُ يُغْبَنُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَهُ إِذَا أَنْتَ بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ ثُمَّ أَنْتَ فِي كُلِّ سِلْعَةٍ ابْتَعْتَهَا بِالْخِيَارِ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَإِنْ رَضِيتَ فَأَمْسِكْ وَإِنْ سَخِطْتَ فَارْدُدْهَا عَلَى صَاحِبِهَا(ابن ماجه بَاب الْحَجْرِ عَلَى مَنْ يُفْسِدُ مَالَهُ۲۳۴۶)

۵۔ مبیع وثمن کی موجودگی کے باوجود اس کی ادائیگی کے لیے مدت مقرر کردی جائے۔حوالہ
عن أَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ(بخاري بَاب مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ۲۲۲۵)

بیع کے درست ہونے کی کچھ شرطیں ایسی ہیں، جو خاص قسم کے معاملات کے لیے ضروری ہیں اور وہ اس طرح ہیں:
۱۔قیمت اُدھار ہو تو ادائیگی کی مدت کا تعین۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الْأَسْلَمِيِّ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّامَ فَكَانَ يَأْتِينَا أَنْبَاطٌ مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ فَنُسْلِفُهُمْ فِي الْبُرِّ وَالزَّيْتِ سِعْرًا مَعْلُومًا وَأَجَلًا مَعْلُومًا فَقِيلَ لَهُ مِمَّنْ لَهُ ذَلِكَ قَالَ مَا كُنَّا نَسْأَلُهُمْ(ابو داود، في السلف، ۳۰۰۶)

۲۔ اموال ربو یہ(سودی اموال) ہوں تو بدلین میں مماثلث اوریکسانیت ہو اور نقد معاملہ ہو۔حوالہ
 عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ(مسلم بَاب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا ۲۹۷۰)

۳۔ سونے چاندی اورسکوں کی باہم خرید و فروخت ہو (جس کو بیعِ صرف کہا جاتا ہے )تو ایک ہی مجلس میں فریقین کا بدلین پر قبضہ ہو۔ حوالہ
 عن أَبي الْمِنْهَالِ قَالَ سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ وَزَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ عَنْ الصَّرْفِ فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا يَقُولُ هَذَا خَيْرٌ مِنِّي فَكِلَاهُمَا يَقُولُ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ دَيْنًا(بخاري بَاب بَيْعِ الْوَرِقِ بِالذَّهَبِ نَسِيئَةً ۲۰۳۳) عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ(مسلم بَاب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا ۲۹۷۰)

۴۔ مرابحہ، تولیہ اوروضیعہ میں پہلی قیمت سے واقف ہونا۔ حوالہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ(الانفال:۲۷) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا(مسلم بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا۱۴۶) أماالمواضعۃ، فھی ضد المرابحۃ، وھی بیع بمثل الثمن الأول مع نقصان شیٔ معلوم منہ کما أن المرابحۃ بیع بمثل الثمن الأول مع زیادۃ ربح معلوم، والعلم بالثمن الأول شرط صحۃ ھذہ البیعات کلھا، فإن لم یکن معلوما، فالبیع فاسد إلی أن یعلم فی المجلس، فیختار إن شاء فیجوز، أویترک فیبطل، (اعلاء السنن ، التوليه والمرابحه وجوازها ۲۲۶/۱۴)۔
نوٹ: مرابحہ،تولیہ،اور وضیعہ ان تينوں كی تعريف آگے آرہی ہے۔

شرطِ لزوم
بیع کے لازم ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ فریقین میں سے کسی کو معاملۂ خرید و فروخت کو رد کرنے کا اختیار باقی نہ رہے ،اس سلسلہ میں چار خیار مشہور ہیں، خیار قبول، خیار شرط، خیار رویت، اور خیار عیب۔ حوالہ
وَأَمَّا شَرَائِطُ لُزُومِ الْبَيْعِ بَعْدَ انْعِقَادِهِ وَنَفَاذِهِ وَصِحَّتِهِ فَوَاحِدٌ وَهُوَ أَنْ يَكُونَ خَالِيًا عَنْ خِيَارَاتٍ أَرْبَعَةٍ خِيَارِ التَّعْيِينِ وَخِيَارِ الشَّرْطِ وَخِيَارِ الْعَيْبِ وَخِيَارِ الرُّؤْيَةِ فَلَا يَلْزَمُ مَعَ أَحَدِ هَذِهِ الْخِيَارَاتِ وَهَذَا عِنْدَنَا(بدائع الصنائع فصل في شَرَائِط لُزُومِ الْبَيْعِ بَعْدَ انْعِقَادِهِ۴۶۶/۱۱)

بیع کا حکم
بیع کا حکم یہ ہے کہ اس کے ذریعہ تاجر کی ملکیت قیمت پر اور خریدار کی ملکیت سامان پر ثابت ہوتی ہے اوراس طرح ان دونوں کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے۔ حوالہ
حكم العقد: هو الغرض والغاية منه، ففي عقد البيع: يكون الحكم هو ملكية المبيع للمشتري وملكية الثمن للبائع،(الفقه الاسلامي وادلته حكم البيع ۵۶/۵)


بیع کی قسمیں
حکم کے اعتبار سے بیع کی دو قسمیں ہیں:          (۱)جائز۔          (۲)ناجائز۔
بیع جائز کی تین صورتیں ہیں:          (۱)نافذ لازم۔          (۲)نافذ غیر لازم۔          (۳)موقوف۔
(۱) نافذ لازم: وہ بیع جو اپنے اصل اورخارج (یعنی اس کے ارکان و شرائط کے اعتبار سے درست ہو) کے اعتبار سے درست ہو اور کسی کو کوئی اختیار باقی نہ ہو جیسے کوئی کتاب خریدا اوراس کی خامیوں اور خو بیوں سے واقف ہوکر پانچ روپیہ میں لینے پر راضی ہوگیا تو بیع مکمل صحیح ہوگئی۔ حوالہ
عَنْ جَابِرٍ…ثُمَّ قَالَ لِي بِعْنِي جَمَلَكَ هَذَا قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَكَ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَالَ قُلْتُ فَإِنَّ لِرَجُلٍ عَلَيَّ أُوقِيَّةَ ذَهَبٍ فَهُوَ لَكَ بِهَا قَالَ قَدْ أَخَذْتُهُ(مسلم بَاب بَيْعِ الْبَعِيرِ وَاسْتِثْنَاءِ رُكُوبِهِ ۲۹۹۸) عن حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا أَوْ قَالَ حَتَّى يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا(بخاري بَاب إِذَا بَيَّنَ الْبَيِّعَانِ الخ ۱۹۳۷)۔ وَأَمَّا شَرَائِطُ لُزُومِ الْبَيْعِ بَعْدَ انْعِقَادِهِ وَنَفَاذِهِ وَصِحَّتِهِ فَوَاحِدٌ وَهُوَ أَنْ يَكُونَ خَالِيًا عَنْ خِيَارَاتٍ أَرْبَعَةٍ خِيَارِ التَّعْيِينِ وَخِيَارِ الشَّرْطِ وَخِيَارِ الْعَيْبِ وَخِيَارِ الرُّؤْيَةِ فَلَا يَلْزَمُ مَعَ أَحَدِ هَذِهِ الْخِيَارَاتِ وَهَذَا عِنْدَنَا(بدائع الصنائع فصل في شَرَائِط لُزُومِ الْبَيْعِ بَعْدَ انْعِقَادِهِ۴۶۶/۱۱)

(۲) نافذ غیر لازم: وہ بیع ہے جو اپنے اصل اورخارج کے اعتبار سے درست ہو البتہ دونوں میں سے کسی کا اختیار باقی ہو، جیسے کسی نے بغیر دیکھے کوئی چیز خرید لیا مگر دیکھنے تک غور و فکر کا خواہشمند ہے تو یہ بیع اپنے اصل کے اعتبار سے صحیح نافذ ہوگئی مگر اختیار باقی ہے اس لیے غیر لازم ہوئی۔ حوالہ
عن مكحول ، يرفع الحديث : من اشترى شيئا لم يره فهو بالخيار إذا رآه إن شاء أخذه وإن شاء تركه (السنن الكبري للبيهقي باب بيع خيار الرؤية ۵۴/۲)(وَأَمَّا) صِفَتُهُ فَهِيَ أَنَّ شِرَاءَ مَا لَمْ يَرَهُ الْمُشْتَرِي غَيْرُ لَازِمٍ ؛ لِأَنَّ عَدَمَ الرُّؤْيَةِ يَمْنَعُ تَمَامَ الصَّفْقَةِ(بدائع الصنائع خِيَارُ الرُّؤْيَةِ ۲۷۶/۱۲)

(۳) بیع موقوف: وہ بیع ہے جس میں مبیع( جس چیز کو بیچا جارہا ہے اس ) سے کسی اور کا حق متعلق ہو جیسے کوئی نابالغ وناسمجھ بچہ کوئی چیز بیچ دیا تو بحیثیت ولی باپ کا حق اس سے متعلق ہے تو جب تک باپ اجازت نہ دے وہ بیع موقوف رہےگی اجازت دیدے تو بیع نافذ ولازم ہوجائے گی۔ حوالہ
فَأَمَّا الْبُلُوغُ فَلَيْسَ بِشَرْطٍ لِانْعِقَادِ الْبَيْعِ عِنْدَنَا ، حَتَّى لَوْ بَاعَ الصَّبِيُّ الْعَاقِلُ مَالَ نَفْسِهِ ؛ يَنْعَقِدُ عِنْدَنَا مَوْقُوفًا عَلَى إجَازَةِ وَلِيِّهِ ، وَعَلَى إجَازَةِ نَفْسِهِ بَعْدَ الْبُلُوغِ(بدائع الصنائع، فصل في شرائط ركن البيع۵۳/۱۱)

بیع ناجائز کی تین صورتیں ہیں:         (۱)بیع فاسد            (۲)بیع باطل۔               (۳)بیع مکروہ۔

  (۱) بیع باطل:وہ بیع ہے جس کی ذات اوراصل ہی میں خرابی ہو جیسے کوئی مسلمان خنزیر کی بیع کرے تو شریعت میں چونکہ خنزیر مال ہی نہیں ہے اس لیے بیع کی اصل اوربنیاد ہی صحیح نہیں ہوئی۔ حوالہ
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ(بخاري بَاب بَيْعِ الْمَيْتَةِ وَالْأَصْنَامِ ۲۰۸۲) والبيع الباطل: هو ما اختل ركنه أو محله، أو هو ما لا يكون مشروعاً بأصله ولا بوصفه، أي أن يكون العاقد ليس أهلاً للعقد، أو أن يكون محل العقد ليس قابلاً له(الفقه الاسلامي وادلته أنواع البيوع عند الحنفية ۸۰/۵)

(۲) بیع فاسد: وہ بیع ہے جس کی ذات اوراصل میں کوئی خرابی نہ ہو لیکن کسی دوسری وجہ سے کوئی خرابی پیدا ہوگئی ہو جیسے عاقدین میں سے کوئی ایسی شرط لگادے جو مقتضائے عقد کے خلاف ہو۔ حوالہ
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع وشرط، البيع باطل، والشرط باطل(المعجم الاوسط للطبراني، من اسمه عبد الله ۴۵۱۲،۶۶/۱۰ ) والبيع الفاسد: هو ما كان مشروعاً بأصله دون وصفه، أي أن يصدر من أهل له في محل قابل للبيع، ولكن عرض له أمر أو وصف غير مشروع(الفقه الاسلامي وادلته أنواع البيوع عند الحنفية ۸۰/۵)

(۳) بیع مکروہ:وہ بیع ہے جو اپنی اصل اورذات کے لحاظ سے صحیح ہو لیکن کسی خارجی سبب کی وجہ سے ناپسندیدہ ہو،جیسے مسجد میں بیع کرنا یا اذان جمعہ کے بعد خرید و فروخت کرنا۔حوالہ
الجمعة ما بين الأذان الأول إلى الإِقامة إلى انصراف الإِمام ، لأن الله يقول :{ يا أيها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر } إلى { وذروا البيع }(الدر المنثور،الجمعة:۹) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ فَقُولُوا لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً فَقُولُوا لَا رَدَّ اللَّهُ عَلَيْكَ(ترمذي بَاب النَّهْيِ عَنْ الْبَيْعِ فِي الْمَسْجِدِ ۱۲۴۲)

باعتبار قیمت بیع کی قسمیں
ثمن اورقیمت کے اعتبار سے بیع کی چار قسمیں ہیں:وضیعہ ،تولیہ،مرابحہ اورمساومہ۔
وضیعہ سے مراد یہ ہے کہ تاجر اپنی خرید سے کم قیمت میں کوئی چیز بیچ دے، مثلا دس روپے میں خریدے اورپانچ روپے میں فروخت کردے۔ حوالہ
الوضيعة هي بيع بنقيصة عن الثمن الأول(التعريفات۸۴/۱)

تولیہ یہ ہے کہ جس قیمت میں کوئی چیز خریدی جائے اسی میں بیچ دی جائے۔ حوالہ
مرابحہ اس بیع کو کہتے ہیں کہ جس میں اپنی قیمت خرید پر نفع لے کر فروخت کیا جائے،مثلا ایک چیز دس روپے میں لے اورپندرہ روپے میں فروخت کردے۔ حوالہ
عَنْ أَبِى بَحْرٍ عَنْ شَيْخٍ لَهُمْ قَالَ : رَأَيْتُ عَلَى عَلِىٍّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ إِزَارًا غَلِيظًا قَالَ اشْتَرَيْتُ بِخَمْسَةِ دَرَاهِمَ فَمَنْ أَرْبَحَنِى فِيهِ دِرْهَمًا بِعْتُهُ إِيَّاهُ.(السنن الكبري للبيهقي باب الْمُرَابَحَةِ ۱۱۱۰۸)

اور مساومہ یہ ہے کہ پہلی قیمت کو ملحوظ رکھے بغیر خرید وفروخت کا معاملہ کرے،چاہے نفع کے ساتھ ہو، یا نقصان کےساتھ، یا برابر کا معاملہ ہو، اس طرح بیع مساومہ میں پہلی قیمت کا کوئی ذکر ہی نہ ہوگا، اوربقیہ تینوں صورتوں میں معاملہ کے وقت پہلی قیمت کا حوالہ دیا جائے گاکہ میں پہلی قیمت پر اس قدر نفع نقصان کے ساتھ، یا بعینہ اسی قیمت پر فروخت کررہا ہوں۔حوالہ
الْمُسَاوَمَة  وَهِيَ الْبَيْعُ بِأَيِّ ثَمَنٍ كَانَ مِنْ غَيْرِ نَظَرٍ إلَى الثَّمَنِ الْأَوَّلِ وَهِيَ الْمُعْتَادَةُ(رد المحتاربَابُ الْمُرَابَحَةِ وَالتَّوْلِيَةِ ۴۸۵/۱۹)

باعتبار مبیع بیع کی قسمیں
مبیع کے لحاظ سے بیع کی چار قسمیں ہیں:   (۱) مقائضہ،   (۲) صرف،   (۳) سلم،  اور (۴) بیع مطلق۔

(۱) بیع مقائضہ: یہ ہے کہ خریدار اورتاجر ہر دو کی طرف سے قیمت اور مبیع کے طور پرسامان ہی ہو،سونا،چاندی،(جسے شریعت قیمت اورثمن تصور کرتی ہے) یا رقم نہ ہو، مثلاً گیہوں کی بیع چاول کے بدلہ، بیع مقائضہ میں اصول یہ ہے کہ عربی زبان میں جس لفظ پر ب داخل ہوگی وہ ثمن سمجھی جائے گی، مثلابعت القلم بالثوب میں نے قلم کپڑے کےبدلہ فروخت کیا، یہاں ب چونکہ ثوب پر داخل ہے، اس لیے ثوب (کپڑا) ثمن قرار پائے گا۔

(۲) بیع صرف: یہ ہے کہ ثمن کی بیع ثمن کے بدلہ ہو، مثلا چاندی چاندی کے بدلہ، سونا سونے کے بدلے، یا روپے کا نوٹ اور سکہ اسی کے بدلہ ،بیع صرف میں ضروری ہے کہ طرفین کی جانب سے ثمن اورمبیع کی حوالگی مجلس میں ہی ہوجائے کسی کی طرف سے اُدھار نہ ہو اوراگر طرفین سے ایک ہی جنس ہو تو مقدار برابر ہو۔

(۳) بیع مطلق: یہ ہے کہ سامان کی بیع ثمن کے بدلہ ہو، جیسا کہ عام طور پر ہوا کرتا ہے، مثلا کتاب روپیوں کے بدلہ، یہاں  کتاب مبیع ہے اورروپیہ ثمن۔

(۴) بیع سلم: بیع میں اصل تو یہ ہے کہ خریدار اور تاجر دونوں مبیع وثمن نقد ادا کردیں اورکسی طرف سے بھی اُدھار نہ ہو، مگر انسانی ضروریات کے پیش نظر شریعت نے اس کی گنجائش بھی رکھی ہے کہ کسی طرف سے اُدھار کا معاملہ ہو، چنانچہ اگر ثمن نقد ادا ہو اورمبیع کی بعد میں حوالگی کا وعدہ ہو تو یہ بیع سلم ہے اوراگر مبیع نقد ہو اور ثمن ادھار تو یہ بیع مؤجل یا بیع الی اجل ہے۔حوالہ
وَبِالنَّظَرِ إلَى الْمَبِيعِ أَرْبَعَةٌ مُقَايَضَةٌ وَهِيَ بَيْعُ الْعَيْنِ بِالْعَيْنِ وَبَيْعُ الدَّيْنِ بِالدَّيْنِ وَهُوَ الصَّرْفُ وَبَيْعُ الدَّيْنِ بِالْعَيْنِ وَهُوَ السَّلَمُ وَعَكْسُهُ وَهُوَ بَيْعُ الْعَيْنِ بِالدَّيْنِ كَأَكْثَرِ الْبِيَاعَاتِ(البحر الرائق انواع البيع ۴۸/۱۵) عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ(مسلم بَاب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا ۲۹۷۰)

بیع كے متفرق مسائل
مسئلہ: درخت پر لگے ہوئے پھل کے سلسلہ میں ضابطہ یہی ہے کہ جب تک  پھل قابل استعمال نہ ہو جائیں اس وقت تک اس کی بیع درست نہیں اس لیے ہمارے  یہاں جو پھل کے قابل استعمال ہونے سے پہلے پھل کے بیچنے کا جو رواج  ہے وہ درست نہیں۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُبْتَاعَ(بخاري بَاب بَيْعِ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهَا ۲۰۴۴)

مسئلہ: خرید وفروخت کے سلسلہ میں ایک حکم یہ بھی ہے کہ خریدار جس چیز کو خرید لے تو جب تک اس پر قبضہ نہ کرلے دوسرے کو فروخت نہ کرے اورقبضہ کا مطلب یہ ہے کہ مالک اوراس شئی کے درمیان کوئی چیز مانع تصرف نہ بنے اورجس شئ میں قبضہ کا جو طریقہ عرف میں رائج ہو وہی قبضہ کی صورت معتبر ہوگی۔ حوالہ
عن ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ أَمَّا الَّذِي نَهَى عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهُوَ الطَّعَامُ أَنْ يُبَاعَ حَتَّى يُقْبَضَ(بخاري بَاب بَيْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ وَبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ۱۹۹۱) في الخانية حيث قال أجمعوا على أن التخلية في البيع الجائز تكون قبضا(المبسوط للسرخسي الجزء الثالث والعشرون ۵۶۳/۴)








سود کا بیان
سود کی تعریف
سود کی لغوی و اصطلاحی تعریف 

ربا یعنی سود کے لغوی معنی: زیادتی اوراضافہ کے ہیں۔حوالہ
 الرِّبَا الْفَضْلُ وَالزِّيَادَةُ(المصباح المنير ۳۴۵/۳) 
ربا کی اصطلاحی تعریف: مال کا تبادلہ مال کے ذریعہ کرنے میں جو زیادتی بلا معاوضہ حاصل ہو وہ سود ہے۔حوالہ
فَضْلُ مَالٍ بِلَا عِوَضٍ فِي مُعَاوَضَةِ مَالٍ بِمَالٍ(كنز الدقائق علي البحر باب الربا۲۶۰/۱۶)







سود اور نصوص شرعیہ
سود سے متعلق نصوص شرعیہ میں سخت سے سخت وعیدات آئی ہیں،اسی لیےحضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ سود اور شبہ سود سے بچو۔حوالہ
(ابن ماجه بَاب التَّغْلِيظِ فِي الرِّبَا ۲۲۶۷) 
بند
صحابہ کرام مقروض (قرض لینے والے) کا ہدیہ قبول کرنے اوراس کی سواری سے کچھ دیر کے لیے فائدہ اٹھانے سے بھی پرہیز کرتے تھے چنانچہ حضرت انسؓ  سےمروی ہے:
جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قرض دے اور مقروض اسے کوئی طشت بھیجے یا اپنی سواری پر سوار کرے تواسے قبول نہ کرے اور سوارنہ ہو الّا یہ کہ قرض لینے سے پہلے بھی ان میں یہ لین دین رہا ہو۔حوالہ
عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِى يَحْيَى قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فَقُلْتُ : يَا أَبَا حَمْزَةَ الرَّجُلُ مِنَّا يُقْرِضُ أَخَاهُ الْمَالَ فَيُهْدِى إِلَيْهِ فَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: إِذَا أُقْرِضَ أَحَدُكُمْ قَرْضًا فَأَهْدَىَ إِلَيْهِ طَبَقًا فَلاَ يَقْبَلْهُ أَوْ حَمَلَهُ عَلَى دَابَّةٍ فَلاَ يَرْكَبْهَا إِلاَّ أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَبْلَ ذَلِكَ
(السنن الكبري للبيهقي باب كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةٍ فَهُوَ رِبًا ۱۱۲۵۳)بند
بہر حال سود کے سلسلہ میں آپ    کا جو اصولی ارشاد منقول ہے وہ یہ ہے کہ سونا سونے کے بدلہ، چاندی چاندی کے، گیہوں گیہوں کے، اور جو جو کے،  کھجور کھجور کے اور نمک نمک کے بدلے برابر اور نقد بیچا جائے، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ کا مطالبہ کیا وہ سود کا مرتکب ہوا۔حوالہ
 (مسلم بَاب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا۲۹۶۹)بند






سود كا تحقق كہاں ہوتا ہے؟
فقہائے  امت نے ان چھ چیزوں کے ذریعہ ایک ایسی علت دریافت کی کہ جہاں جہاں وہ علت پائی جائے گی وہاں وہاں سود ہوگا چنانچہ امام ابو حنیفہؓ نے دو علتیں بتائی ہیں ۔(۱) جنس ۔(۲)قدر۔حوالہ
 فَالْعِلَّةُ الْكَيْلُ مَعَ الْجِنْسِ أَوْ الْوَزْنُ مَعَ الْجِنْسِ(الهداية بَابُ الرِّبَا ۲۹۰/۱۵)
بند
جنس سے مراد: دو ایسی چیزیں جن کی اصل الگ الگ ہو جیسے گائے کا گوشت اوربکرے کا گوشت، ان دونوں کی جنس الگ الگ سمجھی جائے گی، اسی طرح دو ایسی چیزیں جن کا مقصود الگ الگ ہو چاہے ان کی اصل ایک ہو یا الگ، تب بھی مختلف جنس شمار ہوگی جیسے گیہوں کا دانہ اور گیہوں کا آٹا، زیتون کا پھل اور اس کا تیل،ان کے استعمال کے مقاصد مختلف ہیں؛ اسی طرح دوایسی چیزیں جن کی صفت الگ الگ ہو؛ خواہ ان کی اصل ایک ہو، جیسے گیہوں کی روٹی اور گیہوں، ان دونوں کی صفت محتلف ہے۔ حوالہ
  وَالْحَاصِلُ أَنَّ الِاخْتِلَافَ بِاخْتِلَافِ الْأَصْلِ أَوْ الْمَقْصُودِ أَوْ بِتَبَدُّلِ الصِّفَةِ فَلْيُحْفَظْ(الدر المختار ۳۰۹/۵) وَاعْلَمْ أَنَّ الْمُجَانَسَةَ تَكُونُ بِاعْتِبَارِ مَا فِي الضِّمْنِ فَتَمْنَعُ النَّسِيئَةَ كَمَا فِي الْمُجَانَسَةِ الْعَيْنِيَّةِ ، وَذَلِكَ كَالزَّيْتِ مَعَ الزَّيْتُونِ وَالشَّيْرَجِ مَعَ السِّمْسِمِ ، وَتَنْتَفِي بِاعْتِبَارِ مَا أُضِيفَتْ إلَيْهِ فَيَخْتَلِفُ الْجِنْسُ مَعَ اتِّحَادِ الْأَصْلِ حَتَّى يَجُوزَ التَّفَاضُلُ بَيْنَهُمَا كَدُهْنِ الْبَنَفْسَجِ مَعَ دُهْنِ الْوَرْدِ أَصْلُهُمَا وَاحِدٌ وَهُوَ الزَّيْتُ أَوْ الشَّيْرَجُ فَصَارَا جِنْسَيْنِ بِاخْتِلَافِ مَا أُضِيفَا إلَيْهِ مِنْ الْوَرْدِ وَالْبَنَفْسَجِ نَظَرًا إلَى اخْتِلَافِ الْمَقْصُودِ وَالْفَرْضِ وَلَمْ يُبَلْ بِاتِّحَادِ الْأَصْلِ وَعَلَى هَذَا دُهْنُ الزَّهْرِ فِي دِيَارِنَا وَدُهْنُ الْبَانِ ؛ أَصْلُهُمَا اللَّوْزُ يُطَبَّقُ(فتح القدير بَابُ الرِّبَا ۳۴۷/۱۵)۔
بند
قدر سے مراد: ہر وہ چیز جو کیل (پیمانہ) کے ذریعہ ناپی جاتی ہو یا وزن کے ذریعہ تولی جاتی ہو۔حوالہ
 أَنَّ عِلَّةَ رِبَا الْفَضْلِ هِيَ الْقَدْرُ مَعَ الْجِنْسِ ، وَهُوَ الْكَيْلُ ، أَوْ الْوَزْنُ الْمُتَّفِقُ عِنْدَ اتِّحَادِ الْجِنْسِ
(بدائع الصنائع فصل في شَرَائِط الصِّحَّةِ في البيوع۲۸۰/۱۱)
بند
لہذا جن دو چیزوں میں جنس اور قدر ایک ہی ہوگا وہ خرید و فروخت میں برابر اورنقد بیچی جائے گی کوئی ایک کم یا زیادہ اورایک نقد ایک ادھار ہوتو وہاں سود متحقق ہوگا اس لیے ایسی چیزوں میں مقدار میں برابری اوردونوں کا نقد ہونا ضروری ہے۔
اگر کسی طرف زیادہ اورکسی طرف کمی ہوجائے تو اسے ربو تفاضل اورایک نقد دوسرا ادھار ہو تو ربو نسیٔہ کہتے ہیں جیسے سونے کے بدلے سونا اورگیہوں کے بدلہ گیہوں فروخت کرنا ان میں تفاضل اور نسیٔہ دونوں حرام ہیں۔حوالہ
 ( أَمَّا ) رِبَا الْفَضْلِ فَهُوَ : زِيَادَةُ عَيْنِ مَالٍ شُرِطَتْ فِي عَقْدِ الْبَيْعِ عَلَى الْمِعْيَارِ الشَّرْعِيِّ وَهُوَ الْكَيْلُ ، أَوْ الْوَزْنُ فِي الْجِنْسِ عِنْدَنَا ( وَأَمَّا ) رِبَا النَّسَاءِ فَهُوَ فَضْلُ الْحُلُولِ عَلَى الْأَجَلِ ، وَفَضْلُ الْعَيْنِ عَلَى الدَّيْنِ فِي الْمَكِيلَيْنِ ، أَوْ الْمَوْزُونَيْنِ عِنْدَ اخْتِلَافِ الْجِنْسِ ، أَوْ فِي غَيْرِ الْمَكِيلَيْنِ ، أَوْ الْمَوْزُونَيْنِ عِنْدَ اتِّحَادِ الْجِنْسِ عِنْدَنَا(بدائع الصنائع فصل في شَرَائِط الصِّحَّةِ في البيوع ۲۶۹/۱۱)
بند








سود سے متعلق احكام
(۱)اگر دو چیزوں کی جنس اورقدر الگ الگ ہو تو کمی زیادتی اور نقد وادھار دونوں صورتیں جائز ہیں جیسے سونا ،چاندی یا اس کے قائم مقام روپیے پیسے کے بدلے تیل خریدنا کیونکہ یہاں جنس بھی الگ ہے اور قدر بھی، اس لیے ربو تفاضل اور ربو نسیٔہ دونوں درست ہیں۔حوالہ
( قَوْلُهُ وَإِذَا عُدِمَ الْوَصْفَانِ الْجِنْسُ وَالْمَعْنَى الْمَضْمُومُ إلَيْهِ ) وَهُوَ الْقَدْرُ ( حَلَّ التَّفَاضُلُ وَالنَّسَاءُ ) كَبَيْعِ الْحِنْطَةِ بِالدَّرَاهِمِ أَوْ الثَّوْبِ الْهَرَوِيِّ بِمَرْوِيَّيْنِ إلَى أَجَلٍ وَالْجَوْزِ بِالْبِيضِ إلَى أَجَلٍ ( لِعَدَمِ الْعِلَّةِ الْمُحَرِّمَةِ )(فتح القدير  بَابُ الرِّبَا ۳۰۳/۱۵)
بند
(۲)اگر دو علتوں میں سے کوئی ایک پائی جائے یعنی جنس ایک ہو مگر قدر الگ الگ یا قدر ایک ہو اور جنس مختلف، تو کمی زیادتی جائز ہے مگر ادھار کی گنجائش نہیں دونوں نقد ہونا چاہیے جیسے سونا اورچاندی یا جو اورگیہوں۔حوالہ
 عن أبي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ وَالْفِضَّةَ بِالْفِضَّةِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ وَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ وَالْفِضَّةَ بِالذَّهَبِ كَيْفَ شِئْتُمْ(بخاري بَاب بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ ۲۰۲۹)عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، قَالَ : الْعَبْدُ خَيْرٌ مِنَ الْعَبْدَيْنِ ، وَالْبَعِيرُ خَيْرٌ مِنَ الْبَعِيرَيْنِ ، وَالثَّوْبُ خَيْرٌ مِنَ الثَّوْبَيْنِ ، لاَ بَأْسَ بِهِ يَدًا بِيَدٍ إنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسَاءِ ، إلاَّ مَا كِيلَ وَوُزِنَ.(مصنف ابن ابي شيبة فِي العبدِ بِالعبدينِ والبعِيرِ بِالبعِيرينِ۱۱۲/۶)عَنْ عُبَادَةَ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم مَا وُزِنَ مِثْلٌ بِمِثْلٍ إِذَا كَانَ نَوْعًا وَاحِدًا وَمَا كِيلَ فَمِثْلُ ذَلِكَ فَإِذَا اخْتَلَفَ النَّوْعَانِ فَلاَ بَأْسَ بِهِ(دار قطني البيوع ۲۸۹۱)
بند
(۳)ایسی دو چیزیں جو ایک جنس کی ہوں اور اموال ربویہ میں سے ہو نيز ان میں ایک عمدہ اور اچھی ہو اور دوسری خراب اور غیر عمدہ ہو تب بھی ان کے تبادلہ میں برابری کرنا ضروری ہے ،کمی زیادتی کے ساتھ خرید وفروخت سود میں شامل ہوکر حرام ہوگا۔حوالہ
عن أَبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ يَقُولُ جَاءَ بِلَالٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ فَقَالَ مِنْ أَيْنَ لَكَ هَذَا فَقَالَ كَانَ عِنْدِي تَمْرٌ رَدِيءٌ فَبِعْتُهُ بِهَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّهْ عَيْنُ الرِّبَا عَيْنُ الرِّبَا فَلَا تَقْرَبَنَّهُ وَلَكِنْ بِعْ تَمْرَكَ بِمَا شِئْتَ ثُمَّ اشْتَرِ بِهِ مَا بَدَا لَكَ(مسند احمد مسند ابي سعيد الخدري رضي الله عنه۱۱۶۱۳)
بند
(۴)رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا سود ہے اس لیے ناجائز ہوگا۔حوالہ
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ –صلى الله عليه وسلم :« الظَّهْرُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا وَيُشْرَبُ لَبَنُ النَّاقَةِ إِذَا كَانَتْ مَرْهُونَةً وَعَلَى الَّذِى يَشْرَبُ وَيَرْكَبُ النَّفَقَةُ(السنن الكبري للبيهقي باب مَا جَاءَ فِى زِيَادَاتِ الرَّهْنِ۱۱۵۳۶)وَكَذَا لَيْسَ لِلْمُرْتَهِنِ أَنْ يَنْتَفِعَ بِالْمَرْهُونِ ، حَتَّى لَوْ كَانَ الرَّاهِنُ عَبْدًا لَيْسَ لَهُ أَنْ يَسْتَخْدِمَهُ ، وَإِنْ كَانَ دَابَّةً لَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْكَبَهَا ، وَإِنْ كَانَ ثَوْبًا لَيْسَ لَهُ أَنْ يَلْبَسَهُ ، وَإِنْ كَانَ دَارًا لَيْسَ لَهُ أَنْ يَسْكُنَهَا ، وَإِنْ كَانَ مُصْحَفًا لَيْسَ لَهُ أَنْ يَقْرَأَ فِيهِ ؛ ؛ لِأَنَّ عَقْدَ الرَّهْنِ يُفِيدُ مِلْكَ الْحَبْسِ لَا مِلْكَ الِانْتِفَاعِ(بدائع الصنائع فصل في حكم الرهن ۳۸۴/۱۳)
بند
(۵)ایسے تمام معاملات جس میں نفع متعین کردیا گیا اورنقصان کا خطرہ قبول نہ کیا گیا ہو تو یہ سودی معاملہ ہوگا اور ہرگز جائز نہ ہوگا۔حوالہ
عَنْ إبْرَاهِيمَ : أَنَّهُ قَالَ فِي الْمُضَارِبِ : الرِّبْحُ عَلَى مَا اصْطَلَحُوا عَلَيْهِ وَالْوَضِيعَةُ عَلَى الْمَالِ ، فَإِنَ اقْتَسَمُوا الرِّبْحَ كَانَتِ الْوَضِيعَةُ عَلَى الْمَالِ ، وَإِنْ لَمْ يَقْتَسِمُوا رُدَّ الرِّبْحُ عَلَى رَأْسِ الْمَالِ. (مصنف ابن ابي شيبة الرّجل يدفع إلى الرّجلِ المال مضاربةً: ۴۶/۷)، مذکورہ آثار کی وجہ سے صاحب مال کونفع کے ساتھ نقصان میں بھی شریک رہنا ضروری قرار دیا گیا اور اگرصرف وہ نفع میں شریک ہو، نقصان میں نہ ہوتو؛ گویا ایسا ہی ہوگا جیسے سود میں ہوا کرتا ہے کہ صاحب مال (قرض دینے والا) پیسہ كے ذريعہ پیسہ لینا چاہتا ہے۔ وَالْوَضِيعَةُ عَلَى قَدْرِ الْمَالَيْنِ مُتَسَاوِيًا وَمُتَفَاضِلًا ؛ لِأَنَّ الْوَضِيعَةَ اسْمٌ لِجُزْءٍ هَالِكٍ مِنْ الْمَالِ فَيَتَقَدَّرُ بِقَدْرِ الْمَالِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ في بَيَان شَرَائِطِ جَوَازِ أَنْوَاعِ الشركة: ۹۳/۱۳) ۔







ہبہ (ہدیہ،تحفہ) کابیان
ہبہ کی تعریف
ہبہ کی لغوی و اصطلاحی تعریف
     
ہبہ کے لغوی معنی: تحفہ دينا، احسان كرنا ہے۔حوالہ
 الهبة في اللغة: التبرع،(التعريفات ۸۲/۱) 
بند
ہبہ کی اصطلاحی تعریف:کسی شخص کو اپنی کسی چیز کا بلا عوض مالک بناناہے۔حوالہ
وفي الشرع: تمليك العين بلا عوض. (التعريفات ۸۲/۱) 
بند
ہبہ اور عطیہ وغیرہ کسی مالدار یا غریب ،مرد یا عورت ہر ایک کو دیا جاسکتا ہے یہ محبت بڑھانے اور تعلقات استوار کرنے کی غرض سے دیا جاتا ہے یا پھر آخرت میں اس کا ثواب حاصل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَهَادَوْا فَإِنَّ الْهَدِيَّةَ تُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ وَلَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ شِقَّ فِرْسِنِ شَاةٍ(ترمذي بَاب فِي حَثِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى التَّهَادِي ۲۰۵۶)عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: تَهَادَوْا تَحَابُّوا (السنن الكبري للبيهقي باب التَّحْرِيضِ عَلَى الْهِبَةِ وَالْهَدِيَّةِ صِلَةً بَيْنَ النَّاسِ۱۲۲۹۷) 
بند








ہبہ کے ارکان و شرائط
ہبہ کے ارکان  دو ہیں:    (۱) ایجاب۔      (۲)قبول۔
مسئلہ: ہبہ کرنے والا اپنی زبان سے ہبہ یا اس جیسا لفظ  جو ہبہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہو کہدینے سے ایجاب اورجس شخص کو دیا جارہا ہےوہ اسے قبول کرلے تو قبول پایا جائے گا مگر ہبہ کے تام اورمکمل ہونے کے لیے جسے ہبہ کیا گیا ہے اس شخص کا ہبہ کی ہوئی چیز پر قبضہ کرنا ضروری ہے بغیر قبضہ کےہبہ مکمل نہیں ہوگا۔حوالہ
عن ابن عباس قال :لا تجوز الصدقة إلا مقبوضة وروينا عن عثمان ، وابن عمر ، وروينا عن معاذ وشريح أنهما كانا لا يجيزانها إلا مقبوضة(معرفة السنن والاثار للبيهقي باب الهبة ۳۸۸۲ ،۲۴۵/۱۰) وقال أبو عمر اتفق الخلفاء الأربع على أن الهبة لا تصح إلا مقبوضة وبه قال الأئمة الثلاثة(شرح الزرقاني، ما لا يجوز من العطية ۵۷/۴)۔
بند
ہبہ کے شرائط
(
۱)ہبہ کرنے والا عاقل اور بالغ ہو۔
(
۲) ہبہ کرتے وقت وہ چیز ہبہ کرنے والے کے پاس موجود ہو لہذا جو چیز ابھی موجود نہ ہو اس کا ہبہ درست نہیں جیسے کوئی کہے میری بکری کو امسال جو بچہ پیدا ہوگا وہ تیرے لیے ہبہ ہے یہ درست نہیں۔
(
۳) جس چیز کو ہبہ کررہا ہے وہ شریعت کی نگاہ میں قیمت والا مال ہو لہذا جو شریعت کی نگاہ میں مال نہ ہو اس کا ہبہ درست نہ ہوگا جیسے مردار، خون وغیرہ۔حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ ۳۱۵/۱۶)عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ۱۱۵۴) وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدة:۲) ( وَأَمَّا ) مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ فَهُوَ أَنْ يَكُونَ مِمَّنْ يَمْلِكُ التَّبَرُّعَ وَلِأَنَّ الْهِبَةَ تَبَرُّعٌ فَلَا يَمْلِكُهَا مَنْ لَا يَمْلِكُ التَّبَرُّعَ فَلَا تَجُوزُ هِبَةُ الصَّبِيِّ وَالْمَجْنُونِ لِأَنَّهُمَا لَا يَمْلِكَانِ التَّبَرُّعَ لِكَوْنِهِ ضَرَرًا مَحْضًا … ( وَأَمَّا ) مَا يَرْجِعُ إلَى الْمَوْهُوبِ فَأَنْوَاعٌ مِنْهَا ) أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا وَقْتَ الْهِبَةِ فَلَا تَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَوْجُودٍ وَقْتَ الْعَقْدِ … وَكَذَلِكَ لَوْ وَهَبَ مَا فِي بَطْنِ هَذِهِ الْجَارِيَةِ أَوْ مَا فِي بَطْنِ هَذِهِ الشَّاةِ أَوْ مَا فِي ضَرْعِهَا لَا يَجُوزُ (بدائع الصنائع فصل في شرائط ركن الهبة ۲۸۸/۱۳)۔
بند








ہبہ كےاحكام
جس چیز کو ہبہ کیا گیا اس پر قبضہ کے بعد موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا گیا ہے) اس کا مالک ہوجاتا ہے
مسئلہ: ہبہ کرنے والا ہبہ کرکے اس سے رجوع کرسکتا ہے مگر اس طرح کرنا مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ اگر اس کا کوئی عوض لےلیا گیا ہو، یا اولاد یا شوہر و بیوی یا محرم رشتہ دار کو ہبہ کیا گیا ہو یا اس میں کچھ اضافہ کردیا گیا ہو جیسے زمین تھی تو اس میں تعمیر کردی گئی یا ہبہ کرنے والا اورجسے ہبہ کیا گیا دونوں میں سے کسی کا انتقال ہوگیا ہو یا جسے ہبہ کیا گیا وہ اس کی ملکیت میں باقی نہ ہو یا وہ چیز اس کے پاس سے ضائع ہوگئی ہو تو ان صورتوں میں ہبہ سے رجوع نہیں کیا جاسکتا۔حوالہ
 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ(بخاري بَاب فِي الْهِبَةِ وَالشُّفْعَةِ ۶۴۶۰) عن سمرة رضي الله عنه : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : إذا كانت الهبة لذي رحم محرم لم يرجع فيها هذا حديث صحيح على شرط البخاري و لم يخرجاه(المستدرك للحاكم، كتاب البيوع ۲۳۲۴) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلُ أَحَقُّ بِهِبَتِهِ مَا لَمْ يُثَبْ مِنْهَا(ابن ماجه بَاب مَنْ وَهَبَ هِبَةً رَجَاءَ ثَوَابِهَا ۲۳۷۸) (ويمنع الرجوع فيها) حروف (دمع خزقه) يعني الموانع السبعة الآتية (فالدال الزيادة) في نفس العين الموجبة لزيادة القيمة (المتصلة) وإن زالت قبل الرجوع كأن شب ثم شاخ، لكن في الخانية ما يخالفه واعتمده القهستاني فليتنبه له، لان الساقط لا يعود (كبناء وغرس) إن عدا زيادة في كل الارض وإلا رجع الخ (الدر المختار باب الرجوع في الهبة۲۶۸/۵) 
بند










اجارہ (کرایہ پر دینے) کا بیان
اجارہ کی تعریف
اجارہ کے لغوی معنی: كرايہ  پر دينا۔
اجارہ کی اصطلاحی معنی: ہر اس معاملہ کو کہتے ہیں کہ جس میں مال (پیسے وغیرہ) کے بدلے کسی چیز سے فائدہ اٹھانے کا مالک بنایا گیا ہو، مثلا ایک آدمی کا مکان ہو جس میں وہ کسی آدمی کو رہنے کی اجازت دی ہو اور اس میں رہنے والا اس کا کرایہ ادا کرتا ہو تو یہ اجارہ ہے۔
الإجارة:عبارة عن العقد على المنافع بعوض هو مالٌ(التعريفات: ۱/۱) 
بند









اجارہ کے شرائط
(۱)اجارہ كرنےوالا عقل مند ہو ،بالغ ہو يا كم از كم معاملات كو سمجهنےوالا ہو، اور شئی كا مالك ہو۔حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ ۳۱۵/۱۶) عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ :« لأَلْقِيَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ أُعْطِىَ أَحَدًا مِنْ مَالِ أَحَدٍ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسِهِ إِنَّمَا الْبَيْعُ عَنْ تَرَاضٍ ».(السنن الكبري للبيهقي باب مَا جَاءَ فِى بَيْعِ الْمُضْطَرِّ وَبَيْعِ الْمُكْرَهِ: ۱۱۴۰۳) بیع؛ اجارہ اور اعارہ وغیرہ تصرفات ہیں اور کسی چیز میں تصرف کرنے کا حق صرف اس کے مالک کوہےاور کسی کونہیں؛ جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے اس لیے فقہاء کرام نے اجارہ میں بھی مالک ہونے یامالک کی اجازت پراجارہ کے صحیح ہونے کی شرط لگائی ہے۔ وَمِنْهَا الْمِلْكُ وَالْوِلَايَةُ فَلَا تَنْفُذُ إجَارَةُ الْفُضُولِيِّ لِعَدَمِ الْمِلْكِ ، وَالْوِلَايَةِ لَكِنَّهُ يَنْعَقِدُ مَوْقُوفًا عَلَى إجَازَةِ الْمَالِكِ عِنْدَنَا خِلَافًا لِلشَّافِعِيِّ كَالْبَيْعِ ،(بدائع الصنائع فصل في انواع شرائط ركن الاجارة: ۳۱۹/۹)۔
بند
(۲) نيز اجارہ کے صحیح ہونے کے لیے شئی سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ اورکرایہ پر لینے والے کی طرف سے معاوضہ کی مکمل تعیین ہو، جیسے کسی نے کہا  میرا یہ سامان فلاں جگہ تک پہنچا دو تو پچاس روپیہ دوں گا اس نے کہا ٹھیک ہے۔حوالہ
 عن أبي سعيد الخدري ، وعن أبي هريرة، قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من استأجر أجيرا فليعلمه أجرته (مسند ابي حنيفة من استأجر أجيرا فليعلمه أجرته ۱۱۳) عَن أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَأَبِي سَعِيدٍ ، قَالاَ : مَنِ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَلْيُعْلِمْهُ أَجْرَهُ. و عَنِ الْحَسَنِ  قَالَ: قَالَ عُثْمَانُ : مَنِ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَلْيُبَيِّنْ لَهُ أَجْرَهُ.(مصنف ابن ابي شيبة من كرِه أن يستعمِل الأجِير حتّى يبيِّن له أجره ۳۰۳/۶) 
بند
(۳)دونون فریق کی رضا مندی اورشئی کی منفعت کا حاصل ہونا ممکن ہو یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی کہے کہ میں جنگل سے فلاں جانور لاکر تمہیں کرایہ پردوں گاتویہ درست نہیں ہوگا۔حوالہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ(النساء:۲۹) وَالْإِجَارَةُ تِجَارَةٌ ؛ لِأَنَّ التِّجَارَةَ تَبَادُلُ الْمَالِ بِالْمَالِ وَالْإِجَارَةُ كَذَلِكَ(بدائع الصنائع فصل في انواع شرائط ركن الاجارة۳۲۹/۹)مِنْهَا : أَنْ يَكُونَ الْمَعْقُودُ عَلَيْهِ وَهُوَ الْمَنْفَعَةُ مَعْلُومًا عِلْمًا يَمْنَعُ مِنْ الْمُنَازَعَةِ ، فَإِنْ كَانَ مَجْهُولًا يُنْظَرُ إنْ كَانَتْ تِلْكَ الْجَهَالَةُ مُفْضِيَةً إلَى الْمُنَازَعَةِ تَمْنَعُ صِحَّةَ الْعَقْدِ(بدائع الصنائع فصل في انواع شرائط ركن الاجارة ۳۳۰/۹) 
بند







اجارہ کےاحكام
(۱)کسی چیز کی ایسی منفعت پر اجارہ درست نہیں جو شرعاً ناجائز وحرام ہو مثلا گانا بجانا وغیرہ۔حوالہ
 وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدة:۲) 
بند
(۲)دینی کاموں پر اجرت لینا جو بحیثیت مسلمان ہونے کے انجام دیئے جاتے ہوں ایسے کام کی اصل اجرت اوراصل نفع تو اجر وثواب ہے اوراس سے غفلت اورکوتاہی کی سزا آخرت کی سزا ہے، اس لیے حقیقت میں ان کاموں سے دنیا میں کسی قسم کی اجرت نہ لینا چاہیے ورنہ یہ عبادات اوردینی کام بھی دنیوی تجارت بن جائیں گے لیکن اگر مطلقا اس کے اجرت لینے سے منع کردیا جائے اور اسے ناجائز کہا جائے تو پھر جو علماء وغیرہ  ہیں وہ اپنی دینی مشغولیات چھوڑ کر ذریعۂ معاش تلاش کرکے اپنی ضروریات کی تکمیل میں لگ جائیں گے پھر جب یہ صورت حال ہوگی تو دین کا بہت بڑا خسارہ ہوجائے گا اوردینی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا،مساجد میں جماعت کی پابندی اورمؤذنین کا ملنا دشوار ہوجائے گا، اس وجہ سے اس سلسلہ میں نصوص بھی دو طرح کے ہیں بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی کاموں پر اجرت لینا درست ہے جیسا کہ حضور   کا ارشاد ہے: سب سے زیادہ تم جس چیز پر اجرت لینے کے حقدار ہو وہ کتاب اللہ ہے۔حوالہ
(بخاري بَاب الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنْ الْغَنَمِ ۵۲۹۶) 
بند
 اور بعض سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے کاموں پر اجرت لینا جائز نہیں ہے جیسا کہ اللہ کے رسول    نے کسی موقعہ پر فرمایا:قرآن پڑھو مگر اس کے ذریعہ نہ کھاؤ۔حوالہ
(مسند احمد زِيَادَةٌ فِي حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ۱۴۹۸۱) 
بند
نصوص کے مختلف ہونے کی بنیاد پر فقہائے کرام کی رائے بھی اس سلسلہ میں الگ الگ تھی بعض فقہاء نے جائز قرار دیا اور بعض نے ناجائز ،حضرت امام ابو حنیفہؓ ؒ کے نزدیک تعلیم قرآن پر اجرت لینا درست نہ تھا، امام شافعیؒ اورامام مالکؒ وغیرہ جائز قرار دیتے تھے درحقیقت امام اعظمؒ کے زمانے میں علماء اورفقہاء وغیرہ کو اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے بیت المال کی جانب سے وظائف ،جاگیریں اور بڑی بڑی امداد ملا کرتی تھی بعد میں بادشاہ  وامراء کی اسلامی تعلیمات سے دوری اورخدا کا خوف وغیرہ جاتا رہا تو یہ سلسلہ ختم ہوگیا پھر علماء کے لیے اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کے واسطے کوئی سہارا باقی نہ رہا، اس کے بعد فقہاء کرام نے ان کاموں پر اجرت کے جواز کا فتوی دینے لگے اورامامت ،اذان اورہر قسم کی دینی تعلیم کے لیے اجرت لینا ضرورۃ درست اورجائز قرار دیا گیا۔حوالہ
 ولا الاستئجار على الأذان والحج وكذا الإمامة وتعليم القرآن والفقه والأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليه عندنا وعند الشافعي رحمه الله يصح في كل ما لا يتعين على الأجير لأنه استئجار على عمل علوم غير متعين عليه فيجوز ولنا قوله عليه الصلاة والسلام اقرأوا القرآن ولا تأكلوا به وفي آخر ما عهد رسول الله عليه الصلاة والسلام إلى عثمان بن أبي العاص وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ على الأذان أجرا ولأن القربة متى حصلت وقعت عن العامل ولهذا تعتبر أهليته فلا يجوز له أخذ الأجر من غيره كما في الصوم والصلاة ولأن التعليم مما لا يقدر المعلم عليه إلا بمعنى من قبل المتعلم فيكون ملتزما مالا يقدر على تسليمه فلا يصح وبعض مشايخنا استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم لأنه ظهر التواني في الأمور الدينية ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوى (الهدية كتاب الإجارات ۲۴۰/۲) 
بند
(۳)ایصال ثواب پر اجرت لینا درست نہیں، اس لیے کہ یہ نماز اور تعلیم قرآن وغیرہ کی طرح کوئی ضرورت نہیں ہے؛ لہذا اگر کوئی اس کی اجرت لےلے تو اس کا کوئی اجر و ثواب باقی نہیں رہتا، جب خود پڑھنے والا اس کے اجر وثواب کا مستحق نہیں پھر وہ دوسرے زندے یا مردے کو ثواب کیا پہنچا ئیگا۔حوالہ
 عن عَبْد الرَّحْمَنِ بْن شِبْلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اقْرَءُوا الْقُرْآنَ وَلَا تَغْلُوا فِيهِ وَلَا تَجْفُوا عَنْهُ وَلَا تَأْكُلُوا بِهِ وَلَا تَسْتَكْثِرُوا بِهِ(مسند احمد زِيَادَةٌ فِي حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ۱۴۹۸۱)وَقَالَ الْعَيْنِيُّ فِي شَرْحِ الْهِدَايَةِ : وَيُمْنَعُ الْقَارِئُ لِلدُّنْيَا ، وَالْآخِذُ وَالْمُعْطِي آثِمَانِ .فَالْحَاصِلُ أَنَّ مَا شَاعَ فِي زَمَانِنَا مِنْ قِرَاءَةِ الْأَجْزَاءِ بِالْأُجْرَةِ لَا يَجُوزُ ؛ لِأَنَّ فِيهِ الْأَمْرَ بِالْقِرَاءَةِ وَإِعْطَاءَ الثَّوَابِ لِلْآمِرِ وَالْقِرَاءَةَ لِأَجْلِ الْمَالِ ؛ فَإِذَا لَمْ يَكُنْ لِلْقَارِئِ ثَوَابٌ لِعَدَمِ النِّيَّةِ الصَّحِيحَةِ فَأَيْنَ يَصِلُ الثَّوَابُ إلَى الْمُسْتَأْجِرِ وَلَوْلَا الْأُجْرَةُ مَا قَرَأَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ فِي هَذَا الزَّمَانِ بَلْ جَعَلُوا الْقُرْآنَ الْعَظِيمَ مَكْسَبًا وَوَسِيلَةً إلَى جَمْعِ الدُّنْيَا  إنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُونَ(۲۹۴/۲۴)
بند










ضمان (جرمانے ) کا بیان
ضمان کی تعریف
ضمان کے لغوی معنی: كفالت،اور تاوان ہے۔
ضمان کے اصطلاحی تعریف: کسی کا مال یا منفعت ضائع کردینے، جزئی یا کلی جسمانی نقصان  پہنچادینے کا معاوضہ (بدلہ) ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کرنا۔






ضمان کےاحكام
(۱)کسی معاملے کے وقت صراحۃ کوئی بات طئے  پائی ہو یا عرف عادت میں صاحب معاملہ جس چیز کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہو اس میں کمی کردے تو وہ اس کا ضامن ہوگا جیسے کوئی مکان کرایہ پر لیا گیا لیتے وقت مکان کے اندر کی ہر چیز صحیح  وسالم تھی جب مکان خالی کیا جانے لگا تو مکان کی کسی چیز میں نقص آگیا تو کرایہ دار اس نقص کے ختم کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔حوالہ
 فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ(البقرة: ۱۹۴) عن علي قال : من أجر أجيرا فهو ضامن(مصنف ابن ابي شيبة فِي الأجِيرِ يضمّن أم لاَ؟ ۱۲۷/۶)وقد قال ابن مسعود : ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن(موطا محمد ۸۰/۳) العادة محكمة(الاشباه والنظائر:۱۱۵/۱) 
بند
(۲)ناجائز طریقے سے کسی شئی پر قبضہ کیے ہوئے تھا اس دوران وہ چیز ہلاک ہوگئی یا کسی قسم کا اس میں نقص آگیا تو خواہ وہ اس کی زیادتی کی وجہ سے ضائع ہوئی ہو یا اس کے بغیر ہی، دونوں صورتوں میں وہ اس کا ضامن ہوگا ہاں البتہ اگر قبضہ جائز تھا تو پھر قابض اس صورت میں ضامن ہوگا جبکہ اس میں زیادتی کیا ہو جیسے کسی کے پاس کوئی چیز امانت رکھی گئی اس نے اس کو جان بوجھ کر کہیں غرق کردیا یا اس کی حفاظت میں کوتاہی کی تو وہ اس کا ضامن ہوگا۔حوالہ
 فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ(البقرة: ۱۹۴) عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَهْدَتْ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا فِي قَصْعَةٍ فَضَرَبَتْ عَائِشَةُ الْقَصْعَةَ بِيَدِهَا فَأَلْقَتْ مَا فِيهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامٌ بِطَعَامٍ وَإِنَاءٌ بِإِنَاءٍ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُكْسَرُ لَهُ الشَّيْءُ مَا يُحْكَمُ لَهُ مِنْ مَالِ الْكَاسِرِ۱۲۷۹) 
بند
(۳)ضمان واجب ہونے کے سلسلہ میں ضابطہ یہ ہے کہ جو چیز واجب الادا ہے وہ بعینہ موجود ہے تو خود اس شی کا لوٹانا واجب ہے البتہ اگر اس میں کوئی بڑا نقص پیدا ہوگیا تو مالک کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو اس شئ کے بجائے اس کی قیمت وصول کرلے۔
اور اگر وہ شئی ضائع ہوگئی اوروہ مثلی شئ (یعنی جس چیز کا مثل موجود ہو جیسے گھڑی، موٹر سیکل وغیرہ) تھی تو اس کا مثل واجب ہوگا اوراگر وہ مثلی شئ نہ ہو یا اس جیسی چیز حاصل نہ ہوتی ہو تو پھر اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔
حوالہ
 إذا تعذر الأصل يصار إلى البدل(تلقيح الافهام العلية شرح القواعد الفقهية لوليد السعيدان:۱۶/۱) 
بند










صید(شکار کرنے) کا بیان
صید کی تعریف
صید کی لغوی معنی: شكار كرنا، شكار كيا ہوا۔

صید کی اصطلاحی معنی:
 ہروہ وحشی جانور جسے انسان کسی حیلہ کے ذریعہ بمشکل قابو میں لاسکتا ہو؛ خواہ اسے کھانا جائز ہویاناجائز
  تعريف الصيد: الصيد أو الاصطياد لغة: مصدر «صاد» أي أخذ، فهو صائد، وذاك مصيد، ويسمى المصيد صيداً، ويجمع على صيود. والمصيد: هو كل حيوان متوحش طبعاً، ممتنع عن الآدمي، مأكولاً كان أو غير مأكول، لا يمكن أخذه إلا بحيلة.(الفقه الاسلامي وادلته الفَصْلُ الثَّاني: الصَّيد ۳۳۴/۴) 
بند
اللہ تعالی نے تمام مخلوقات اورساری کائنات کو صرف انسان کے لیے پیدا فرمایا،خواہ وہ آسمان کی بلندی کو چھونے والے ہوں یا زمین کی گہرائی میں بسنے والے ہوں یہ سب کے سب انسان کی خدمت گزاری میں لگے ہوئے ہیں ان ہی  مخلوقات میں حیوانات بھی ہیں ان میں کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام اور کچھ گھروں میں بسنے والے ہیں اور کچھ جنگلوں میں۔ حوالہ
 قال الحسن البصري : طلبت خطب النبي صلى الله عليه وسلم في الجمعة فأعيتني فلزمت رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فسألته عن ذلك فقال : كان يقول في خطبته يوم الجمعة : فإنكم خلقتم للآخرة والدنيا خلقت لكم(شعب الايمان الحادي و السبعون من شعب الإيمان و هو باب في الزهد و قصر الأمل ۱۰۱۸۵) اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ(غافر:۷۹) وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ(الاعراف:۱۵۷) 
بند
ان میں جو حلال ہیں ان سے تو ہر طرح سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، گوشت کے علاوہ ہڈیوں اورچمڑوں سے بھی اور جو جانور حرام ہیں ان کے بھی چمڑوں سے  دباغت كےبعدفائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، البتہ خنزیر نجس العین ہے اس کی کسی بھی چیز کو استعمال نہیں کیا جاسکتا اورجو جانور حرام ہیں انہیں شرعی طور پر ذبح کرلیا جائے تو ان کا گوشت بھی پاک ہوجائے گا اگرچہ کھایا نہیں جاسکتا ۔حوالہ
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ(المائدة: ۳) 
بند








صید كےشرائط
(۱)شکار کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جانور ذبح کرنے اوراس پر بسم اللہ پڑھنے کو سمجھ سکتا ہو، اور وہ شخص مسلمان یا یہودی یا نصرانی ہو۔
(۲)شكار كرتے وقت كوئی دوسرا جانور اس كے ساتھ شريك نہ ہو۔
(۳)شکار کرتے وقت جان بوجھ کر بسم اللہ پڑھنا نہ چھوڑا ہو، البتہ بھول سے چھوڑ دیا تو درست ہے۔
(۴)تیر پھینکنے  یا کتا وغیرہ شکار کے لیے چھوڑ کر ا س کے پیچھے مستقل لگا رہے، اگر چھوڑ کر انجان ہوگیا بعد میں وہ مردہ حالت میں ملا تو جائز نہ ہوگا اورجیسے ہی جانور قابو میں آجائے اور اس کی سانس چل ر ہی ہو تو اسے فوراً ذبح کردے۔
 عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ إِنَّا قَوْمٌ نَصِيدُ بِهَذِهِ الْكِلَابِ فَقَالَ إِذَا أَرْسَلْتَ كِلَابَكَ الْمُعَلَّمَةَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَإِنْ قَتَلْنَ إِلَّا أَنْ يَأْكُلَ الْكَلْبُ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ إِنَّمَا أَمْسَكَهُ عَلَى نَفْسِهِ وَإِنْ خَالَطَهَا كِلَابٌ مِنْ غَيْرِهَا فَلَا تَأْكُلْ(بخاري بَاب إِذَا أَكَلَ الْكَلْبُ۵۰۶۱)عن راشد بن سعد رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ذبيحة المسلم حلال وإن لم يسم ما لم يتعمد والعبد كذلك (المطالب العالية أبواب الذبائح ۲۳۷۹) عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ فَاذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ فَإِنْ أَمْسَكَ عَلَيْكَ فَأَدْرَكْتَهُ حَيًّا فَاذْبَحْهُ(مسلم بَاب الصَّيْدِ بِالْكِلَابِ الْمُعَلَّمَةِ ۳۵۶۵) 
بند





صید كے احكام
(۱)شکار کرنا جائز ہے اوراس کے ذریعہ وہ اس کا مالک ہوجاتا ہے پھر اسے استعمال کرنا، اس کو بیچنا اورمستقل طورپر اس کو ذریعہ معاشبنانا بھی درست ہے۔حوالہ
أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ(المائدة:۹۶) 
بند
(۲)شکار کئےہوئے جانور کی موت کسی جگہ چوٹ لگ کریا اوپر سے نیچے گرنے کی وجہ سے ہوئی ہو تو پھر اس کا کھانا جائز نہ ہوگا۔حوالہ
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ(المائدة: ۳)عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّيْدِ قَالَ إِذَا رَمَيْتَ سَهْمَكَ فَاذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ فَإِنْ وَجَدْتَهُ قَدْ قَتَلَ فَكُلْ إِلَّا أَنْ تَجِدَهُ قَدْ وَقَعَ فِي مَاءٍ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي الْمَاءُ قَتَلَهُ أَوْ سَهْمُكَ(مسلم بَاب الصَّيْدِ بِالْكِلَابِ الْمُعَلَّمَةِ ۳۵۶۶)
بند








ودیعت(امانت )کابیان
ودیعت کی تعریف
ودیعت کے لغوی معنی:  امانت ہے۔
ودیعت کی اصطلاحی معنی: وه امانت جو كسی كے پاس حفاظت  كے لیے ركھی گئی ہو۔
 هي أمانة تركت عند الغير للحفظ قصداً.(التعريفات: ۸۴/۱) 
بند






ودیعت کے ارکان
 وديعت كے اركان دو ہیں:    (۱)ايجاب،    (۲) قبول۔
اس معاملے کے طئے ہونے کے لیے ایک کی طرف سے پیش کش اوردوسرے کی طرف سے قبولیت کا اظہار ہو، مثلا ایک شخص کہے کہ یہ سامان میں آپ کے پاس بطور امانت رکھتا ہوں اوردوسرا کہے: ٹھیک ہے، میں اس کو بطور امانت قبول کرتا ہوں اور یہ زبان سے کہنے کے بجائے اگر قرائن (حالات و اشارات  وغیرہ) سے بھی دونوں اظہار کردیں تو  کافی ہے مثلا  ایک شخص سامان لاكر ديدے اور دوسرا بغير كچھ کہے رکھ لے، ياایک شخص یہ کہے: یہ سامان آپ اپنے پاس بطور امانت رکھ لیں اور دوسرا کچھ کہے بغیر اسے رکھ لے تو اس کی یہ خاموشی رضا مندی تصور کی جائے گی۔حوالہ
 ( أَمَّا ) رُكْنُهُ : فَهُوَ الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ ، وَهُوَ : أَنْ يَقُولَ لِغَيْرِهِ : أَوْدَعْتُكَ هَذَا الشَّيْءَ ، أَوْ احْفَظْ هَذَا الشَّيْءَ لِي ، أَوْ خُذْ هَذَا الشَّيْءَ وَدِيعَةً عِنْدَكَ ، وَمَا يَجْرِي مَجْرَاهُ ، وَيَقْبَلُهُ الْآخَرُ ، فَإِذَا وُجِدَ ذَلِكَ ؛ فَقَدْ تَمَّ عَقْدُ الْوَدِيعَةِ(بدائع الصنائع رُكْنُ الْوَدِيعَةِ ۹۷/۱۴) 
بند






وديعت كے شرائط
اس معاملہ کے صحیح ہونے کے شرائط
(۱)صاحب مال مجنون اوربے عقل بچہ  نہ ہو۔حوالہ
 وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ(بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ ۳۱۵/۱۶)وَأَمَّا شَرَائِطُ الرُّكْنِ فَأَنْوَاعٌ : ( مِنْهَا ) عَقْلُ الْمُودَعِ ، فَلَا يَصِحُّ الْإِيدَاعُ مِنْ الْمَجْنُونِ ، وَالصَّبِيِّ ، الَّذِي لَا يَعْقِلُ ؛ لِأَنَّ الْعَقْلَ شَرْطُ أَهْلِيَّةِ التَّصَرُّفَاتِ الشَّرْعِيَّةِ ( وَأَمَّا ) بُلُوغُهُ : فَلَيْسَ بِشَرْطٍ عِنْدَنَا ، حَتَّى يَصِحَّ الْإِيدَاعُ مِنْ الصَّبِيِّ الْمَأْذُونِ ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ مِمَّا يَحْتَاجُ إلَيْهِ التَّاجِرُ ؛ فَكَانَ مِنْ تَوَابِعِ التِّجَارَةِ ، فَيَمْلِكُهُ الصَّبِيُّ الْمَأْذُونُ ، كَمَا يَمْلِكُ التِّجَارَة(بدائع الصنائع رُكْنُ الْوَدِيعَةِ ۹۸/۱۴) 
بند
(۲) مال قبضہ میں ہو ایسا نہ ہو کہ اس پر قبضہ  دشوار ہو جیسے فضا میں اڑتا ہوا پرندہ، سمندر میں غرق شدہ سامان وغیرہ، اس طرح کےمال ميں ودیعت کا کوئی اعتبار نہیں۔حوالہ
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ وَبَيْعِ الْحَصَاةِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الْغَرَرِ ۱۱۵۱)، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَأْتِينِي الرَّجُلُ يَسْأَلُنِي مِنْ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي أَبْتَاعُ لَهُ مِنْ السُّوقِ ثُمَّ أَبِيعُهُ قَالَ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ۔(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ۱۱۵۳)، بیع، اجارہ، اعارہ اور ودیعت وغیرہ سب تصرفات ہیں، کسی چیز میں تصرف کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے قبضہ میں ہو؛ ورنہ تووہ دھوکہ ہے؛ اس لیے مذکورہ احادیث میں تصرف کی ایک قسم بیع کے سلسلے میں دھوکہ کی بیع؛ اسی طرح غیر مقبوض شیٔ وغیرہ کی بیع سے منع کیا گیا؛ اسی پرقیاس کرتے ہوئے فقہاء کرام نے تصرف کی اور قسموں میں بھی مقبوض ہونے کی شرط لگائی ہے۔  (وشرطها كون المال قابلا لاثبات اليد عليه) فلو أودع الآبق أو الطير في الهواء، لم يضمن(الدر المختار كتاب الايداع ۲۲۸/۵)۔بند







وديعت كا حکم
اس کا حکم یہ ہے کہ جس نے اپنے پاس امانت رکھا وہ اس کی حفاظت کرے یہ مال اس کے پاس امانت ہے، وہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی اور کو بطور عاریت، رہن، کرایہ اورامانت نہیں دےسکتا اورجب بھی مالک  اس کی واپسی کا مطالبہ کرے اسے واپس کردینا پڑے گا۔
مسئلہ: اگر امانت رکھنے والے کی زيادتی، غفلت اور کوتاہی کے بغیر ہی سامان ضائع ہوجائے تو وہ اس کا ضامن اورذمہ دار نہ ہوگا۔ اوراگر اس کے ضائع ہوجانے یا  اس میں نقص پیدا ہونے میں اس کی زیادتی اورغفلت  کا دخل تھا تو پھر وہ اس کا ضامن ہوگا۔
 وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ(ابوداود بَاب فِي الصُّلْحِ ۳۱۲۰) عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أُودِعَ وَدِيعَةً فَلَا ضَمَانَ عَلَيْهِ (ابن ماجه بَاب الْوَدِيعَةِ ۲۳۹۲) وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا(الشوري: ۴۰) فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ(البقرة: ۱۹۴) 
بند