Tuesday 23 July 2013

طلاق ، ایلاء ، ظہار ، لعان ، خلع ، تفریق اور عدّت ، حضانت اور حداد (سوگ) کا بیان


طلاق کی حقیقت

میاں بیوی دونوں کے درمیان جو حقوق وفرائض شریعت میں بتلائے گئےہیں ان میں سے کوئی یا دونوں ان کو ادا نہیں کرپاتے ہوں یا ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہوں یا ان میں سے کوئی کسی کی حق تلفی کرتا ہو جس کی وجہ سے دونوں میں کوئی عارضی اختلاف رونما ہوجاتا ہو تو اس کے لیے شریعت نے حکم دیا کہ دونوں صلح مصالحت کے ذریعہ اپنا اختلاف اورآپسی کشیدگی  ختم کرلیں۔
اس کا طریقہ یہ بتایا گیاہے کہ دونوں خود یا ان کے سرپرست یا جن کی بات دونوں مانتے ہیں وہ دو آدمیوں کے سامنے اپنے اس معاملے کو رکھیں،جس کی بنا پر اختلاف پیدا ہوا ہے اوریہ دونوں آدمی جو فیصلہ کردیں خواہ وہ کسی کے خلاف ہو جائے یا موافق اس کو دونوں مان لیں، جن دو حضرات کو فیصلے کے لیے انتخاب کیا جائے ان میں سے ایک بیوی کا نمائندہ ہو اور دوسرا مرد کی طرف سے ہو اور دونوں فیصلہ کرنے کے اہل ہوں اور دونوں میں صلح کرنے کی نیت سے بیٹھے ہوں۔
اگر اس کوشش کے بعد بھی دونوں میں صلح و صفائی نہ ہوسکے اور دونوں کا اختلاف اور کشیدگی ایسی مستقل نفرت وعداوت کی صورت اختیار کرلے کہ اب نباہ ممکن نہ ہو یا کسی فریق کی بے توجہی حق تلفی ایذاءرسانی ،دوسرے فریق کی برداشت سے باہر ہوجائے اور گمان غالب ہوکہ اگر اس رشتہ کو نہ کاٹا گیا تو پھر دوسرے معاشرتی مصائب یا برائیاں پیدا ہوجائیں گی تو پھر اس صورت میں عورت کو خلع وتفریق  کے ذریعہ مرد کی قوامیت سے نکل جانے اور مرد کو طلاق کے ذریعہ عورت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجانے کا حق دیا گیا ہے۔
 شریعت نے مرد کو طلاق کی اجازت اور اختیار ضروردیاہے مگر یہ بھی ظاہر کردیا ہے کہ یہ ایک ناپسندیدہ چیز ہے اس لیے اس اختیار کو آخری چارہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔حوالہ

 وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا- (النساء: ۳۵)، عَنْ ابْنِ عُمَرَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ-(ابوداود بَاب فِي كَرَاهِيَةِ الطَّلَاقِ،حدیث نمبر:۱۸۶۳۱)۔


طلاق کی صورتیں

طلاق   دینےکی تین صورتیں ہیں: (۱)احسن (۲)حسن (۳)بدعی
(۱) طلاق دینے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایسے طہر میں طلاق رجعی دے  جس طہر میں اس سے صحبت نہ کی ہو اس کے بعد عدت ختم ہونے تک اس کو طلاق نہ دے (اس صورت کو طلاق احسن کہا جاتا ہے) حوالہ
عَنْ إبْرَاهِيمَ قَالَ : كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً ، ثُمَّ يَتْرُكَهَا حَتَّى تَحِيضَ ثَلاَثَ حِيَضٍ
(مصنف ابن ابي شيبةباب ما يُسْتَحَبُ مِنْ طَلاَقِ السُّنَّةِ ، وَكَيْفَ هُوَ ؟،حدیث نمبر:۱۸۰۴۰)

 (۲) طلاق دینے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو تین طہر مین تین طلاق دیدے، ایک ساتھ نہ دے بلکہ یکے بعد دیگرے ہر طہر میں ایک ایک دی جائے اس صورت کو طلاق حسن کہتے ہیں۔ حوالہ
عن عَبْد اللَّهِ بْن عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِىَ حَائِضٌ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُتْبِعَهَا بِتَطْلِيقَتَيْنِ أُخْرَاوَيْنِ عِنْدَ الْقَرْءَيْنِ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ  يَا ابْنَ عُمَرَ مَا هَكَذَا أَمَرَكَ اللَّهُ إِنَّكَ قَدْ أَخْطَأْتَ السُّنَّةَ وَالسُّنَّةُ أَنْ تَسْتَقْبِلَ الطُّهْرَ فَتُطَلِّقَ لِكُلِّ قَرْءٍ . قَالَ فَأَمَرَنِى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَرَاجَعْتُهَا ثُمَّ قَالَ  إِذَا هِىَ طَهُرَتْ فَطَلِّقْ عِنْدَ ذَلِكَ أَوْ أَمْسِكْ  فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ لَوْ أَنِّى طَلَّقْتُهَا ثَلاَثًا أَكَانَ يَحِلُّ لِى أَنْ أُرَاجِعَهَا قَالَ  لاَ كَانَتْ تَبِينُ مِنْكَ وَتَكُونُ مَعْصِيَةٌ
(سنن دار قطني باب الطلاق والخلع والإيلاء،حدیث نمبر:۴۰۱۹)

(۳) طلاق دینے کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو حالت حیض میں یا ایسے طہر میں طلاق دے جس طہر میں اس نے اس سے جماع کیا ہو ، یا ایک ہی طہر میں دو يا تين طلاق دیدے خواہ ایک ہی  مجلس میں دےیا الگ الگ مجلس میں۔ حوالہ
عن عَبْد اللَّهِ بْن عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِىَ حَائِضٌ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُتْبِعَهَا بِتَطْلِيقَتَيْنِ أُخْرَاوَيْنِ عِنْدَ الْقَرْءَيْنِ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ  يَا ابْنَ عُمَرَ مَا هَكَذَا أَمَرَكَ اللَّهُ إِنَّكَ قَدْ أَخْطَأْتَ السُّنَّةَ وَالسُّنَّةُ أَنْ تَسْتَقْبِلَ الطُّهْرَ فَتُطَلِّقَ لِكُلِّ قَرْءٍ . قَالَ فَأَمَرَنِى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَرَاجَعْتُهَا ثُمَّ قَالَ  إِذَا هِىَ طَهُرَتْ فَطَلِّقْ عِنْدَ ذَلِكَ أَوْ أَمْسِكْ  فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ لَوْ أَنِّى طَلَّقْتُهَا ثَلاَثًا أَكَانَ يَحِلُّ لِى أَنْ أُرَاجِعَهَا قَالَ  لاَ كَانَتْ تَبِينُ مِنْكَ وَتَكُونُ مَعْصِيَةٌ
(سنن دار قطني باب الطلاق والخلع والإيلاء،حدیث نمبر:۴۰۱۹)
عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَالَ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ فَيَرْكَبُ الْحُمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ‘ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ’وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَلَمْ أَجِدْ لَكَ مَخْرَجًا عَصَيْتَ رَبَّكَ وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ‘ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ ’فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ
(ابوداود، بَاب نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلَاثِ،حدیث نمبر:۱۸۷۸)
( قَوْلُهُ وَطَلَاقُ الْبِدْعَةِ ) مَا خَالَفَ قِسْمَيْ السُّنَّةِ ، وَذَلِكَ بِإِنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ أَوْ مُفَرَّقَةً فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ أَوْ ثِنْتَيْنِ كَذَلِكَ أَوْ وَاحِدَةً فِي الْحَيْضِ أَوْ فِي طُهْرٍ قَدْ جَامَعَهَا فِيهِ أَوْ جَامَعَهَا فِي الْحَيْضِ الَّذِي يَلِيهِ هُوَ ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ وَقَعَ الطَّلَاقُ وَكَانَ عَاصِيًا
(فتح القدير بَابُ طَلَاقِ السُّنَّةِ:۴۵۶/۷)

طلاق کی قسمیں

طلاق کی تین قسمیں: (۱)طلاق رجعی،    (۲)طلاق بائن،    (۳) طلاق مغلظہ۔
طلاق رجعی:
وہ طلاق ہے جس میں عدت کے اندر شوہر کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو اسے اپنی زوجيت میں بغیر نکاح کے باقی ركهے(گرچہ عورت راضی نہ ہو) اگر عدت گزرجائے تو پھر سے نکاح کرنا ہوگا۔ حوالہ
 أما الطلاق الرجعي: فهو الذي يملك الزوج بعده إعادة المطلقة إلى الزوجية من غير حاجة إلى عقد جديد ما دامت في العدة، ولو لم ترض. وذلك بعد الطلاق الأول والثاني غير البائن إذا تمت المراجعة قبل انقضاء العدة، فإذا انتهت العدة انقلب الطلاق الرجعي بائناً، فلا يملك الزوج إرجاع زوجته المطلقة إلا بعقد جديد.
(الفقه الاسلامي وادلته تقسيم الطلاق إلى رجعي وبائن:۴۰۷/۹)

طلاق بائن:
وہ طلاق ہے جس میں شوہر بغیر نکاح کے اس کو اپنے نکاح میں نہیں لے سکتا وہ فوراً اس کے  نکاح سے نکل جاتی ہے جیسے دخول سے پہلے طلاق، یا خلع یا الفاظ کنایہ سے طلاق دینے سے یاقاضی کے ذریعہ تفریق سے جو طلاق واقع  ہوتی ہے وہ سب  بائنہ ہوتی ہیں ۔ حوالہ
وأما الطلاق البائن: فهونوعان: بائن بينونة صغرى، وبائن بينونة كبرى.والبائن بينونة صغرى: هو الذي لا يستطيع الرجل بعده أن يعيد المطلقة إلى الزوجية إلا بعقد جديد ومهر. وهو الطلاق قبل الدخول أوعلى مال أو بالكناية عند الحنفية أو الذي يوقعه القاضي لا لعدم الإنفاق أو بسبب الإيلاء
(الفقه الاسلامي وادلته تقسيم الطلاق إلى رجعي وبائن:۴۰۷/۹)

طلاق مغلظہ:
وہ طلاق ہے جس میں شوہر اس کو پھر سے اپنے نکاح میں کبھی بھی نہیں لے سکتا؛البتہ اگر اس عورت کا نکاح کسی اور مرد سے ہوجائے اور وہ اس سے صحبت بھی کرلے اس کے بعد وہ اس کو طلاق دیدے یا مرجائے تو عدت گزارنے کے بعد پہلا شوہر اس سے نکاح کرسکتا ہے(طلاق مغلظہ، تین باريا  اس سے زائد طلاق دینے سے واقع ہوجاتی ہے) حوالہ
والبائن بينونة كبرى: هو الذي لا يستطيع الرجل بعده أن يعيد المطلقة إلى الزوجية إلا بعد أن تتزوج بزوج آخر زواجاً صحيحاً، ويدخل بها دخولاً حقيقياً، ثم يفارقها أو يموت عنها، وتنقضي عدتها منه. وذلك بعد الطلاق الثلاث حيث لا يملك الزوج أن يعيد زوجته إليه إلا إذا تزوجت بزوج آخر
(الفقه الاسلامي وادلته تقسيم الطلاق إلى رجعي وبائن:۴۰۷/۹)

الفاظ کے اعتبار سے طلاق کی قسمیں

الفاظ کے اعتبار سے طلاق دینے کی دو صورتیں ہیں: (۱) طلاق صریح،  (۲) طلاق کنایہ۔
(۱) صاف لفظوں  میں طلاق دے مثلا یہ  کہے کہ میں نے تجھے طلاق دیا، یا تجھےطلاق وغیرہ مطلب یہ ہے کہ ایسے صاف الفاظ کہہ دیا کہ جس سے طلاق کے علاوہ کوئی اور معنی نہیں نکل سکتے ایسی طلاق کو طلاق صریح کہتے ہیں۔

(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ صاف لفظوں میں طلاق نہ دے بلکہ گول مول الفاظ کہے جیسے میں نے تجھ کو دور کردیا، یا تو گھر چلی جا وغیرہ اس طرح کے جملوں  میں طلاق کے علاوہ یہ معنی بھی نکلتے ہیں کہ میں تجھے قریب نہیں رکھوں گا دو رچلی جا یا تو ایک ہفتہ کے لیے یا دو دن کے لیے اپنےمیکے چلی  جا وغیرہ اس کو طلاق کنایہ کہتے ہیں ۔

مسئلہ: اگر کوئی صاف لفظوں میں صرف ایک طلاق یادو طلاق دے تو طلاق رجعی ہواکرتی ہے

مسئلہ:اوراگر دخول سے پہلے یا گول مول لفظوں میں طلاق دے تو طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔

مسئلہ:اسی طرح نکاح کے بعد رخصتی یا خلوت صحیحہ( یعنی میاں بیوی میں ایسی تنہائی کہ جس میں وہ چاہیں تو صحبت کرنے سے کوئی مانع نہ ہو) سے قبل طلاق ہوجائے تو طلاق بائن واقع ہوگی اور فوراً وہ نکاح سے نکل جائے گی ،عدت بھی اس عورت پر نہ ہوگی۔ حوالہ
  الطلاق الصريح بعد الدخول الحقيقي: بلفظ من مادة الطلاق أو التطليق غير مقترن بعوض، ولا بعدد الثلاث، ولا موصوف بوصف الشدة أو القوة أو البينونة أو نحوها. فمن قال: أنت طالق، أو مطلقة، أو طلقتك، يقع به الطلاق الرجعي، ولا يقع به إلا واحدة، وإن نوى أكثر من ذلك، ولا يفتقر إلى النية.أما لو قال: أنت طالق، أوأنت طالق الطلاق، أو أنت طالق طلاقاً، فإن لم تكن له نية، فهي طلقة واحدة رجعية، وإن نوى به ثلاثاً كان ثلاثاً.  الطلاق الكنائي بعد الدخول الذي لايفيد معنى الشدة والبينونة مثل قوله: اعتدي، أو استبرئي رحمك، أو أنت واحدة، يقع بهذه الألفاظ طلقة واحدة رجعية، إذا نوى الزوج بها الطلاق
 (الفقه الاسلامي وادلته تقسيم الطلاق إلى رجعي وبائن:۴۰۷/۹)

طلاق سےمتعلق كچھ احكام

مسئلہ: طلاق دینے کا اختیار صرف مرد ہی کو ہے،جب وہ طلاق دیگا تو فورا ًواقع ہوجائے گی، چاہے وہ مذاق میں یا نشہ میں یا غصہ میں دیا ہو، یا صحیح حالت میں دیا حوالہ
ہو۔ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ سَيِّدِي زَوَّجَنِي أَمَتَهُ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِي وَبَيْنَهَا قَالَ فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجُ عَبْدَهُ أَمَتَهُ ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا إِنَّمَا الطَّلَاقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ(ابن ماجه بَاب طَلَاقِ الْعَبْدِ: ۲۰۷۲) مذکورہ روایت سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ طلاق کا اختیار صرف شوہر کوہے اور کسی کونہیں۔  قَوْله  ( إِنَّمَا الطَّلَاق لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ ) أَيْ الطَّلَاق حَقّ الزَّوْج الَّذِي لَهُ أَنْ يَأْخُذ بِسَاقِ الْمَرْأَة لَا حَقّ الْمَوْلَى(حاشية السندي علي ابن ماجه: ۳۲۱/۴) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ  (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْجِدِّ وَالْهَزْلِ فِي الطَّلَاقِ،حدیث نمبر:۱۱۰۴) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي طَلَاقِ الْمَعْتُوهِ: ۱۱۱۲) مذکورہ روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معتوہ اور مجنون کے علاوہ ہرشخص کی طلاق کے واقع ہوجانے کا تذکرہ فرمایا اور نشہ، غصہ وغیرہ کی کوئی قید نہیں رکھی؛ لہٰذا نشہ ،غصہ کی حالت کی طلاق بھی واقع ہوجائے گی۔

اسی طرح طلاق صریح میں طلاق کی نیت کیا ہو یا نہ کیا حوالہ
ہو۔سُمِّيَ هَذَا النَّوْعُ صَرِيحًا … وَهَذِهِ الْأَلْفَاظُ ظَاهِرَةُ الْمُرَادِ ؛ لِأَنَّهَا لَا تُسْتَعْمَلُ إلَّا فِي الطَّلَاقِ عَنْ قَيْدِ النِّكَاحِ فَلَا يُحْتَاجُ فِيهَا إلَى النِّيَّةِ لِوُقُوعِ الطَّلَاقِ ؛ إذْ النِّيَّةُ عَمَلُهَا فِي تَعْيِينِ الْمُبْهَمِ وَلَا إبْهَامَ فِيهَا .(بدائع الصنائع فَصْلٌ في النِّيَّة فِي أَحَدِ نَوْعَيْ الطَّلَاقِ وَهُوَ الْكِنَايَةُ: ۵۹/۷)۔

ایسے ہی عورت (جسے طلاق دی گئی ہو) سنی ہو یا نہ سنی ہو کوئی گواہ ہو یا نہ ہو ہر حال میں پڑجائے گی۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي طَلَاقِ الْمَعْتُوهِ: ۱۱۱۲) مذکورہ روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے سننے یاگواہ وغیرہ کی شرط لگائے بغیر ہرطلاق کوواقع ہوجانے والی قرار دیا، اس لیے فقہاء کرام نے طلاق واقع ہونے کے لیے مذکورہ امور کی شرط نہیں لگائی۔

 مسئلہ: کسی شخص نے اپنی بیوی کو تین یا اس سے زائد طلاق دیا خواہ ایک وقت اور ایک مجلس میں دیا ہو یا الگ الگ وقت اور مجلس میں دیا ہو تو تین طلاق پڑ جائیگی اب وہ پھر سے اس کو اپنی بیوی نہیں بناسکتا وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی ،صرف ایک صورت میں اسے اپنی بیوی بنائے گا وه یہ کہ اس کی عدت گزرنے کے بعد یہ کسی اور سے نکاح کرلے اور دونوں میں صحبت بھی ہوجائے اس کے بعد کسی وجہ سے شو ہر ثانی اسے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اب عدت کے بعد پہلا شوہر اس سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے( لیکن اگر جان بوجھ کر کوئی حلالہ کی نیت سے شادی کرے تو دونوں گناہ گار ہونگے)۔ حوالہ

فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۔    (البقرة:۲۳۰)،عن عُرْوَة بْن الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ امْرَأَةَ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلَاقِي وَإِنِّي نَكَحْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزُّبَيْرِ الْقُرَظِيَّ وَإِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ الْهُدْبَةِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ (بخاري بَاب مَنْ أَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ،حدیث نمبر: ۴۸۵۶) عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِسْمَعِيلُ وَأُرَاهُ قَدْ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ (ابوداود بَاب فِي التَّحْلِيلِ: ۱۷۷۸) مذکورہ حدیث میں حلالہ کرنے والے مرد اور عورت دونوں پرلعنت فرمائی، جس سے معلوم ہوا کہ وہ دونوں گنہگار ہیں۔


کسی شرط پر طلاق دینے کا بیان

یہ تو ضابطہ ہے کہ اگر کسی چیز کو کسی شرط پر معلق کردے تو شرط پائے جانےپر اس شئی(مشروط) کا وجود ہوجائے گا جیسے اگر سورج نکل جائے تو روشنی ہوگی اب جیسے سورج نکلے گا تو روشنی خود بخود ہوجائے گی۔ حوالہ
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمُونَ عِنْدَ شُرُوطِهِمْ
(بخاري بَاب أَجْرِ السَّمْسَرَة:۴۳/۸)

اسی طرح طلاق کے باب میں بھی کوئی شخص طلاق کو کسی شرط پر معلق کردے تو اس شرط کے پائے جاتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی جیسے کسی نے اجنبی عورت سے کہا، اگر تجھ سے میرا نکاح ہوا تو تجھے طلاق ہے، چند دنوں بعد دونوں میں نکاح ہوا تو نکاح ہوتے ہی طلاق فورا واقع ہوجائے گی۔ حوالہ
عن عبد الله بن عمر أنه كان يقول : إذا قال الرجل : إذا نكحت فلانة فهي طالق فهي طالق فهي كذلك إذا نكحها وإذا كان طلقها  واحدة أو اثنتين أو ثلاثا فهو كما قال
( مؤطا محمد،باب الرجل يقول إذا نكحت فلانة فهي طالق،حدیث نمبر: ۵۶۳)

ایسے ہی نکاح کے بعد شوہر نے اپنی بیوی سے کہا اگر تو فلاں کام کریگی تو تجھے طلاق ہے اب اگر اس کی بیوی وہ کام کرلے تو وہ طلاق واقع ہوجائے گی ورنہ نہیں۔ حوالہ
وَقَالَ نَافِعٌ طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ إِنْ خَرَجَتْ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِنْ خَرَجَتْ فَقَدْ بُتَّتْ مِنْهُ وَإِنْ لَمْ تَخْرُجْ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ
(بخاري اب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ:۳۱۵/۱۶)

حالت بیماری میں طلاق دینے کا بیان

مسئلہ: بیماری کی حالت میں کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دیا ابھی اس کی عدت مکمل نہ ہونے پائی کہ اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا تو اس کے مال میں سے جتنا حصہ بیوی کا ہوتا ہے وہ اسی عورت کو دیا جائے گا، چاہے ایک طلاق دیا ہو یا زائد، بائن ہو یا رجعی سب کا ایک ہی حکم ہے۔ حوالہ
عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ أُمَّ الْبَنِينَ بِنْتَ عُيَيْنَةَ بْنِ حِصْنٍ كَانَتْ تَحْتَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَلَمَّا حُصِرَ طَلَّقَهَا وَقَدْ كَانَ أَرْسَلَ إلَيْهَا لِيَشْتَرِيَ مِنْهَا ثُمْنَهَا فَأَبَتْ فَلَمَّا قُتِلَ أَتَتْ عَلِيًّا فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ : تَرَكَهَا حَتَّى إذَا أَشْرَفَ عَلَى الْمَوْتِ طَلَّقَهَا ، فَوَرَّثَهَا
(مصنف ابن ابي شيبةمن قَالَ : تَرِثُهُ مَا دَامَتْ فِي الْعِدَّةِ مِنْهُ إذَا طَلَّقَ وَهُوَ مَرِيضٌ،حدیث نمبر:۱۹۳۸۱)

مسئلہ: اگر عدت ختم ہونے کے بعد اس کا انتقال ہوا ہو یا جس بیماری میں طلاق دیا تھا اسی بیماری میں انتقال نہیں ہوا بلکہ اس سے صحت ہونے کے بعد کسی اور بیماری کی وجہ سے انتقال کر گیا تو پھر اس کو حصہ نہیں ملے گا چاہے عدت ختم ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ حوالہ
 عَنْ شُرَيْحٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَ ثَلاَثًا فِي مَرَضِهِ وَرِثَتْهُ مَا دَامَتْ فِي الْعِدَّةِ۔
(مصنف ابن ابي شيبةمن قَالَ : تَرِثُهُ مَا دَامَتْ فِي الْعِدَّةِ مِنْهُ إذَا طَلَّقَ وَهُوَ مَرِيضٌ،حدیث نمبر:۱۹۳۸۰)

طلاق رجعی، بائن اور مغلظہ کے احکامات کا بیان


طلاق رجعی کا حکم

طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ طلاق دیتے ہی وہ نکاح سے نہیں نکلے گی بلکہ عدت گزرنے تک وہ نکاح میں رہے گی اس لیے عدت کے اندر شوہر اس کو دیکھ سکتا ہے،چھو سکتا ہے اور صحبت وغیرہ کرسکتا ہے مگر ایسا کرنے سے رجعت ہوجائے گی اوروہ رجعت نہ کرنا چاہے تو ان ساری چیزوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے اور عورت کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ عدت میں اچھا زیب و زینت اورخوب بناؤ سنگھار کرتی رہے کہ ہوسکتا ہے مرد کا دل اس کی طرف مائل ہوجائے اور رجعت کرلے، عدت گزر گئی اور مرد نے رجعت نہیں کی تو وہ نکاح سے نکل جائے گی اور اب وہ اس کے لیےاجنبیہ کا حکم رکھے گی اور عدت کے بعد بغیر نکاح کےمرد اس کو اپنی بیوی نہیں بنا سکتا۔ حوالہ
وَأَمَّا بَيَانُ حُكْمِ الطَّلَاقِ فَحُكْمُ الطَّلَاقِ يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الطَّلَاقِ مِنْ الرَّجْعِيِّ ، وَالْبَائِنِ ، وَيَتَعَلَّقُ بِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَحْكَامٌ بَعْضُهَا أَصْلِيٌّ ، وَبَعْضُهَا مِنْ التَّوَابِعِ ، أَمَّا الطَّلَاقُ الرَّجْعِيُّ فَالْحُكْمُ الْأَصْلِيُّ لَهُ هُوَ نُقْصَانُ الْعَدَدِ ، فَأَمَّا زَوَالُ الْمِلْكِ ، وَحِلُّ الْوَطْءِ فَلَيْسَ بِحُكْمٍ أَصْلِيٍّ لَهُ لَازِمٍ حَتَّى لَا يَثْبُتَ لِلْحَالِ ، وَإِنَّمَا يَثْبُتُ فِي الثَّانِي بَعْدَ انْقِضَاءِ الْعِدَّةِ ، فَإِنْ طَلَّقَهَا وَلَمْ يُرَاجِعْهَا بَلْ تَرَكَهَا حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا بَانَتْ ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَا يَزُولُ أَصْلًا ، وَإِنَّمَا يَحْرُمُ وَطْؤُهَا مَعَ قِيَامِ الْمِلْكِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ كَالْوَطْءِ فِي حَالَةِ الْحَيْضِ ، وَالنِّفَاسِ وَالدَّلِيلُ عَلَى قِيَامِ الْمِلْكِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ أَنَّهُ يَصِحُّ طَلَاقُهُ ، وَظِهَارُهُ ، وَإِيلَاؤُهُ ، وَيَجْرِي اللِّعَانُ بَيْنَهُمَا ، وَيَتَوَارَثَانِ ، وَهَذِهِ أَحْكَامُ الْمِلْكِ الْمُطْلَقِ ، وَكَذَا يَمْلِكُ مُرَاجَعَتَهَا بِغَيْرِ رِضَاهَا وَلَوْ كَانَ مِلْكُ النِّكَاحِ زَائِلًا مِنْ وَجْهٍ لَكَانَتْ الرَّجْعَةُ إنْ شَاءَ النِّكَاحِ عَلَى الْحُرَّةِ مِنْ غَيْرِ رِضَاهَا مِنْ وَجْهٍ ، وَهَذَا لَا يَجُوزُ فَجَازَ أَنْ يَظْهَرَ أَثَرُ هَذَا الطَّلَاقِ بَعْدَ انْقِضَاءَ الْعِدَّةِ ، وَهُوَ زَوَالُ الْمِلْكِ ، وَحُرْمَةُ الْوَطْءِ ، عَلَى أَنَّ لَهُ أَثَرًا نَاجِزًا ، وَيُسْتَحَبُّ لَهَا أَنْ تَتَشَوَّفَ ، وَتَتَزَيَّنَ ؛ لِأَنَّ الزَّوْجِيَّةَ قَائِمَةٌ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ ، وَيُسْتَحَبُّ لَهَا ذَلِكَ لَعَلَّ زَوْجَهَا يُرَاجِعُهَا ، وَعَلَى هَذَا يُبْنَى حَقُّ الرَّجْعَةِ أَنَّهُ ثَابِتٌ لِلزَّوْجِ بِالْإِجْمَاعِ سَوَاءٌ كَانَ الطَّلَاقُ وَاحِدًا أَوْ اثْنَيْنِ ، أَمَّا عِنْدَنَا فَلِقِيَامِ الْمِلْكِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ
(بدائع الصنائع فَصْلٌ في بَيَان حُكْمِ الطَّلَاقِ:۳۴۲۔۳۴۵/۷) 

طلاق بائن کا حکم

طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ طلاق دیتے ہی وہ نکاح سے نکل جائے گی اب شوہر کے لیے وہ اجنبیہ کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے اس کو دیکھنا غیر ضروری بات کرنا،چھونا اور جماع وغیرہ سب ممنوع ہوگا البتہ اس میں یہ گنجائش ہوگی کہ اگر وہ اس کو پھر سے اپنی بیوی بنانا چاہتا ہو تو از سرِ نو نکاح کرنا ہوگا،خواہ عدت میں ہو یا عدت کے بعد۔ حوالہ
وَأَمَّا حُكْمُ الطَّلَاقِ الْبَائِنِ فَالْحُكْمُ الْأَصْلِيُّ لِمَا دُونَ الثَّلَاثِ مِنْ الْوَاحِدَةِ الْبَائِنَةِ ، وَالثِّنْتَيْنِ الْبَائِنَتَيْنِ هُوَ نُقْصَانُ عَدَدِ الطَّلَاقِ ، وَزَوَالُ الْمِلْكِ أَيْضًا حَتَّى لَا يَحِلَّ لَهُ وَطْؤُهَا إلَّا بِنِكَاحٍ جَدِيدٍ وَلَا يَصِحُّ ظِهَارُهُ ، وَإِيلَاؤُهُ وَلَا يَجْرِي اللِّعَانُ بَيْنَهُمَا وَلَا يَجْرِي التَّوَارُثُ وَلَا يُحَرَّمُ حُرْمَةً غَلِيظَةً حَتَّى يَجُوزَ لَهُ نِكَاحُهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ تَتَزَوَّجَ بِزَوْجٍ آخَرَ ؛ لِأَنَّ مَا دُونَ الثَّلَاثَةِ  وَإِنْ كَانَ بَائِنًا  فَإِنَّهُ يُوجِبُ زَوَالَ الْمِلْكِ لَا زَوَالَ حِلِّ الْمَحَلِّيَّ
(بدائع الصنائع فَصْلٌ في حُكْم الطَّلَاقِ الْبَائِنِ:۳۶۷/۷)

طلاق مغلظہ کا حکم

طلاق مغلظہ کا حکم یہ ہے کہ وہ فورا اس کے نکاح سے ہمیشہ کے لیے نکل جائے گی اور عدت کے اندر بھی وہ اجنبیہ ہی کی طرح ہوگی اور وہ اس کو پھر سے اپنی زوجہ بنانا چاہتا ہو تو نہیں بنا سکتا البتہ اتنی گنجائش ہوگی کہ اس عورت کی عدت گزرنے کے بعد اس کا نکاح کسی اور مرد سے ہوجائے اور ان دونوں میں صحبت بھی ہوجائے پھر شوہر ثانی کسی وجہ سے اسے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہوجائے اور وہ ان کی عدت گزارے تو اب شوہر اول اسے اپنی زوجہ نکاح کے ذریعہ بناسکتا ہے لیکن اس عورت کی نیت عقد ثانی کے وقت حلالہ کی ہو تو وہ اور شوہر ثانی دونوں گناہ گار ہونگے۔ حوالہ
وَأَمَّا الطَّلْقَاتُ الثَّلَاثُ فَحُكْمُهَا الْأَصْلِيُّ هُوَ زَوَالُ الْمِلْكِ ، وَزَوَالُ حِلِّ الْمَحَلِّيَّةِ أَيْضًا حَتَّى لَا يَجُوزَ لَهُ نِكَاحُهَا قَبْلَ التَّزَوُّجِ بِزَوْجٍ آخَرَ ؛ لِقَوْلِهِ  عَزَّ وَجَلَّ ‘ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ’ ، وَسَوَاءٌ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا مُتَفَرِّقًا أَوْ جُمْلَةً وَاحِدَةً۔(بدائع الصنائع فَصْلٌ في حُكْم الطَّلَاقِ الْبَائِنِ  :   ۳۶۷/ ۷)، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِسْمَعِيلُ وَأُرَاهُ قَدْ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ۔(ابوداودبَاب فِي التَّحْلِيلِ،حدیث نمبر:۱۷۷۸)،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ۔(ابن ماجه بَاب الْمُحَلِّلِ وَالْمُحَلَّلِ لَهُ،حدیث نمبر:۱۹۲۴)،مذکورہ احادیث میں حلالہ کرنے والے مرد اور عورت دونوں پرلعنت فرمائی، جس سے معلوم ہوا کہ وہ دونوں گنہگار ہیں۔ 

رجعت کا بیان

رجعت کی لغوی و اصطلاحی تعریف
رجعت کے لغوی معنی: لوٹانا
اصطلاحی معنی: پہلے سے قائم نکاح (جو طلاق کی وجہ سے ختم ہورہا ہے) پھر سے برقرار رکھناہے۔ حوالہ
اسْتِدَامَةُ الْمِلْكِ الْقَائِمِ
(بدائع الصنائع فصل في بَيَان مَاهِيَّةِ الرَّجْعَةِ:۳۴۷/۷)

طلاق کی تین قسموں میں سے رجعت صرف طلاقِ رجعی ہی میں ہوا کرتی ہے اور طلاق رجعی میں بھی عدت ختم ہونے سے پہلے ہی رجعت کرنے کا حق ہوتا ہے، اس کے بعد رجعت نہیں کرسکتا، رجعت کے لیے عورت کا رضا مند ہونا یا اس کے علم میں لاکر رجعت کرنا ضروری نہیںحوالہ ۔
عن قيس بن زيد : أن النبي صلى الله عليه و سلم طلق حفصة بنت عمر فدخل عليها خالاها قدامة و عثمان ابنا مظعون فبكت و قالت : و الله ما طلقني عن شبع و جاء النبي صلى الله عليه و سلم فقال : قال لي جبريل عليه السلام راجع حفصة فإنها صوامة قوامة و إنها زوجتك في الجنة
(مستدرك حاكم ،ذكر أم المؤمنين حفصة بنت عمر بن الخطاب ؓ،حدیث نمبر:۶۷۵۳)
وَكَذَا لَا مَهْرَ فِي الرَّجْعَةِ وَلَا يُشْتَرَطُ فِيهَا رِضَا الْمَرْأَةِ ؛ لِأَنَّهَا مِنْ شَرَائِطِ ابْتِدَاءِ الْعَقْدِ لَا مِنْ شَرْطِ الْبَقَاءِ ، وَكَذَا إعْلَامُهَا بِالرَّجْعَةِ لَيْسَ بِشَرْطٍ حَتَّى لَوْ لَمْ يُعْلِمْهَا بِالرَّجْعَةِ جَازَتْ ؛ لِأَنَّ الرَّجْعَةَ حَقُّهُ عَلَى الْخُلُوصِ لِكَوْنِهِ تَصَرُّفًا فِي مِلْكِهِ بِالِاسْتِيفَاءِ ، وَالِاسْتِدَامَةِ ، فَلَا يُشْتَرَطُ فِيهِ إعْلَامُ الْغَيْرِ كَالْإِجَازَةِ فِي الْخِيَارِ لَكِنَّهُ مَنْدُوبٌ إلَيْهِ ، وَمُسْتَحَبٌّ
(بدائع الصنائع بَيَانُ مَاهِيَّةِ الرَّجْعَةِ:۳۴۸/۷)

رجعت کے دو طریقے ہیں۔    (۱) قولی،   (۲)فعلی۔
(۱)رجعت کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے صاف صاف الفاظ میں کہدے کہ میں نے تم کو اپنے نکاح میں لوٹا لیا اوراس پردو گواہ بنائے(یہ رجعت کا بہتر طریقہ ہے) یا رجعت کے لیے ایسے الفاظ کا  استعمال کرے جو دو معنی رکھتے ہوں (۱) حقیقی معنی(۲)مجازی معنی جس سے رجعت مراد لی جائے جیسے  تو میرے نزدیک ویسے ہی ہےجیسے پہلے تھی،البتہ ان الفاظ میں رجعت کی نیت کرنے سے رجعت ہوگی ورنہ نہیں (ان دونوں  صورتوں کو رجعتِ قولی کہتے ہیں)۔ حوالہ
وَأَمَّا رُكْنُ الرَّجْعَةِ فَهُوَ قَوْلٌ أَوْ فِعْلٌ يَدُلُّ عَلَى الرَّجْعَةِ : أَمَّا الْقَوْلُ فَنَحْوُ أَنْ يَقُولَ لَهَا : رَاجَعْتُك أَوْ رَدَدْتُك أَوْ رَجَعْتُك أَوْ أَعَدْتُك أَوْ رَاجَعْت امْرَأَتِي أَوْ رَاجَعْتهَا أَوْ رَدَّدْتهَا أَوْ أَعَدْتهَا وَنَحْوُ ذَلِكَ لِأَنَّ الرَّجْعَةَ رَدٌّ وَإِعَادَةٌ إلَى الْحَالَةِ الْأُولَى وَلَوْ قَالَ لَمَّا نَكَحْتُك أَوْ تَزَوَّجْتُك كَانَ رَجْعَةً فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ (بدائع الصنائع رُكْنُ الرَّجْعَةِ (

(۲) رجعت کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ عورت کے ساتھ ایسے افعال کئے جائیں جوصرف بیوی كےساتھ کیے جاتے ہیں:اس كو شہوت سے چھولے يا بوسہ لےلے يا صحبت كرلےوغیرہ، اس كےلیے گواہ وغیرہ کی ضرورت نہیں۔ حوالہ
وَأَمَّا رُكْنُ الرَّجْعَةِ فَهُوَ قَوْلٌ أَوْ فِعْلٌ يَدُلُّ عَلَى الرَّجْعَةِ :...وَأَمَّا الْفِعْلُ الدَّالُّ عَلَى الرَّجْعَةِ فَهُوَ أَنْ يُجَامِعَهَا أَوْ يَمَسَّ شَيْئًا مِنْ أَعْضَائِهَا لِشَهْوَةٍ أَوْ يَنْظُرَ إلَى فَرْجِهَا عَنْ شَهْوَةٍ أَوْ يُوجَدَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ هَهُنَا عَلَى مَا بَيَّنَّا وَوَجْهُ دَلَالَةِ هَذِهِ الْأَفْعَالِ عَلَى الرَّجْعَةِ مَا ذَكَرْنَا فِيمَا تَقَدَّمَ وَهَذَا عِنْدَنَا
(بدائع الصنائع رُكْنُ الرَّجْعَةِ: ۳۵۳/۷)

ایلاء (بیوی سے صحبت نہ کرنے کی قسم کھانے) کا بیان


ایلاء کے لغوی واصطلاحی معنی

ایلاء کے لغوی معنی: قسم (یمین) کے ہیں خواہ کسی بھی بات پر قسم کھائی جائے۔ حوالہ
اصطلاحی معنی:کوئی شخص اپنی بیوی سے مطلق طور پر یا ہمیشہ کے لیے  یا چار مہینہ اوراس سے زیادہ مدت کے لیے صحبت نہ کرنے کی قسم کھالے، اسی طرح بیوی سے صحبت کرنے کی صورت میں کوئی ایسی چیز اپنے اوپر لازم کرلے جس کی ادائیگی ایک گونہ دشوار اور مشکل ہو مثلا یہ کہے کہ اگر میں تجھ سے صحبت  کرلوں تو مجھ پر حج یا روزہ وغیرہ واجب ہوجائے توبھی ایلاء ہی شمارہوگا۔ حوالہ
لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ   (البقرة:۲۲۶)
والإيلاء شرعاً: الحلف  بالله تعالى أو بصفة من صفاته أو بنذر أو تعليق طلاق على ترك قربان زوجته مدة مخصوصة
(الفقه الاسلامي وادلته تاريخ الإيلاء ومعناه وألفاظه:۵۰۳/۹)

ایلاء کا حکم

ایلاء کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ شخص اس عورت سے چار ماہ تک صحبت نہ کرے تو چارمارہ بعد خود بخود طلاق بائن پڑ جائے گی اور اگر چار ماہ کے اندر صحبت کرلے تو قسم کا کفارہ دینا پڑیگا۔ حوالہ
وَأَمَّا حُكْمُ الْإِيلَاءِ فَنَقُولُ  وَبِاَللَّهِ التَّوْفِيقُ  إنَّهُ يَتَعَلَّقُ بِالْإِيلَاءِ حُكْمَانِ : حُكْمُ الْحِنْثِ ، وَحُكْمُ الْبِرِّ ، أَمَّا حُكْمُ الْحِنْثِ فَيَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْمَحْلُوفِ بِهِ : فَإِنْ كَانَ الْحَلِفُ بِاَللَّهِ تَعَالَى فَهُوَ وُجُوبُ كَفَّارَةِ الْيَمِينِ كَسَائِرِ الْأَيْمَانِ بِاَللَّهِ ،، أَمَّا أَصْلُ الْحُكْمِ فَهُوَ وُقُوعُ الطَّلَاقِ بَعْدَ مُضِيِّ الْمُدَّةِ مِنْ غَيْرِ فَيْءٍ
(بدائع الصنائع فصل في حُكْم الْإِيلَاءِ:۳۲۸/۷)

قسم کا کفارہ

قسم کا کفارہ ایک دن میں دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا کپڑے پہنانا ياغلام آزاد کرنا ہے اگر یہ نہ ہوسکے تو تین دن روزہ رکھنا ہے۔ حوالہ
فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ         (المائدة: ۸۹)

نوٹ: قسم كےكفاره كی تفصيل یمین (قسم کھانے) کے بیان ميں ديكھ لی جائے۔

ظہار (بیوی کو ماں کے برابر کہنے) کا بیان


ظہار کی تعریف

ظہار کی لغوی و اصطلاحی تعریف
ظہار کے لغوی معنی: ظہار ’ ظَہر‘ سے مشتق ہے ظہر کے معنی پیٹھ کے ہیں۔
ظہارکے اصطلاحی معنی: بیوی یا اس کے بعض حصہ جیسے آدھا یا چوتھائی وغیرہ یا اس کے ایسے عضو جس کو بول کر پورا وجود مراد لیا جاتا ہو، جیسے سر، وغیرہ کو اپنے حقیقی یا سسرالی یا رضاعی محرم کے ایسے عضو سے تشبیہ دینا جس کا دیکھنا جائز نہیں۔ حوالہ
والظهار لغة مصدر ظاهر وهو مفاعلة من الظهر ، ويراد به معان مختلفة راجعة إلى الظهر معنى
(روح المعاني، المجادلة :۲)
وَفِي اصْطِلَاحِ الْفُقَهَاءِ : تَشْبِيهُ الْمَنْكُوحَةِ بِالْمُحَرَّمَةِ عَلَى سَبِيلِ التَّأْبِيدِ اتِّفَاقًا بِنَسَبٍ أَوْ رَضَاعٍ أَوْ مُصَاهَرَةٍ
(العناية باب الظِّهَارُ: ۲/۶)

ظہار کا حکم

 ظہار میں چونکہ ایک غلط بات کہی جاتی ہے اس لیے گناہ اور حرام ہے۔ حوالہ
الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَائِهِمْ مَا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَزُورًا                    (المجادلہ:۲)

بہر حال اگر کوئی ظہار کرلے خواہ مذاق یا نشہ میں کیا ہو یا جبرا کیا ہو،جب تک  کفارہ ظہار ادا نہیں کریگا اس کا اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرنا جائز نہیں البتہ دیکھنا ،بات کرنا وغیرہ جائز ہے۔حوالہ
وَحُكْمُهُ حُرْمَةُ الْوَطْءِ وَالدَّوَاعِي مَعَ بَقَاءِ أَصْلِ الْمِلْكِ إلَى غَايَةِ الْكَفَّارَةِ
(العناية باب الظِّهَارُ:۲/۶)

ظہار کے شرائط اور اس کا کفارہ

بعض شرائط ظہار کرنے والے سے متعلق ہیں
بعض شرائط ظہار کرنے والےسے متعلق ہیں:ظہار کرنے والا عاقل ،بالغ، مسلمان ہو، بے ہوش اور سویا ہوا نہ ہو۔ حوالہ
عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يَشِبَّ وَعَنْ الْمَعْتُوهِ حَتَّى يَعْقِلَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْحَدُّ ۱۳۴۳)وَأَمَّا الشَّرَائِطُ فَأَنْوَاعٌ بَعْضُهَا يَرْجِعُ إلَى الْمُظَاهِرِ وَبَعْضُهَا يَرْجِعُ إلَى الْمُظَاهَرِ مِنْهُ وَبَعْضُهَا يَرْجِعُ إلَى الْمُظَاهَرِ بِهِ .أَمَّا الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمَظَاهِرِ فَأَنْوَاعٌ : مِنْهَا أَنْ يَكُونَ عَاقِلًا إمَّا حَقِيقَةً أَوْ تَقْدِيرًا فَلَا يَصِحُّ ظِهَارُ الْمَجْنُونِ وَالصَّبِيِّ الَّذِي لَا يَعْقِلُ ؛ لِأَنَّ حُكْمَ الْحُرْمَةِ وَخِطَابَ التَّحْرِيمِ لَا يَتَنَاوَلُ مَنْ لَا يَعْقِلُ .وَمِنْهَا أَنْ لَا يَكُونَ مَعْتُوهًا وَلَا مَدْهُوشًا وَلَا مُبَرْسَمًا وَلَا مُغْمًى عَلَيْهِ وَلَا نَائِمًا فَلَا يَصِحُّ ظِهَارُ هَؤُلَاءِ كَمَا لَا يَصِحُّ طَلَاقُهُمْ
(بدائع الصنائع فصل في شرائط ركن الظهاروَبَعْضُهَا يَرْجِعُ إلَى الْمُظَاهَر:۲۴/۸ِ)

بعض شرائط اس عورت سے متعلق ہیں جس سے ظہار کر رہا ہے
بعض شرائط عورت سے متعلق ہیں:جس عورت سے ظہار کررہا ہے اس کے شرائط یہ ہیں کہ وہ ظہار کرنے والے کے نکاح میں ہو، ظہار کی نسبت عورت کے پورے حصہ یا اس کے مناسب حصہ کی طرف کی گئی ہو یا اس کے ایسے متعین عضو کی طرف ہو جسے بول کر پورابدن مراد لیا جاتا ہو جیسے سر، گردن چہرہ شرمگاہ وغیرہ۔ حوالہ
وَأَمَّا الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُظَاهَرِ مِنْهُ فَمِنْهَا أَنْ تَكُونَ زَوْجَتَهُ وَهِيَ أَنْ تَكُونَ مَمْلُوكَةً لَهُ بِمِلْكِ النِّكَاحِ وَمِنْهَا أَنْ يَكُونَ الظِّهَارُ مُضَافًا إلَى بَدَنِ الزَّوْجَةِ أَوْ إلَى عُضْوٍ مِنْهَا جَامِعٍ أَوْ شَائِعٍ وَهَذَا عِنْدَنَا
(بدائع الصنائع فصل في بيان الشرائط التي تَرْجِعُ إلَى الْمُظَاهَرِ مِنْهُ: ۳۲/۸)

بعض شرائط اس عورت سے متعلق ہیں جس عورت سے تشبیہ دی گئی ہے
حقیقی یا سسرالی یا رضاعی ايسی عورت سے تشبیہ دےجوظہار کرنے والے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جیسے ماں، بہن ،دادی، نانی وغیرہ، ساس، رضاعی ماں وغیرہ،جن سے عارضی طور پرحرمت کا رشتہ ہو ان سے تشبیہ دینے کی وجہ سے ظہار نہ ہوگا، جیسے سالی،غير کی منكوحہ۔جو بالترتیب ادا کرنے ہیں اور ان تینوں میں سے ايك بهی ادا كردےتو كفاره ادا ہوجائےگا۔حوالہ
وَأَمَّا الَّذِي يُرْجَعُ إلَى الْمُظَاهَرِ بِهِ فَمِنْهَا أَنْ يَكُونَ مِنْ جِنْسِ النِّسَاءِ حَتَّى لَوْ قَالَ لَهَا : أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أَبِي أَوْ ابْنِي لَا يَصِحُّ ؛ لِأَنَّ الظِّهَارَ عُرْفًا مُوجِبًا بِالشَّرْعِ ، وَالشَّرْعُ إنَّمَا وَرَدَ بِهَا فِيمَا إذَا كَانَ الْمُظَاهَرِ بِهِ امْرَأَةً .وَمِنْهَا أَنْ يَكُونَ عُضْوًا لَا يَحِلُّ لَهُ النَّظَرُ إلَيْهِ مِنْ الظَّهْرِ وَالْبَطْنِ وَالْفَخِذِ وَالْفَرْجِ حَتَّى لَوْ شَبَّهَهَا بِرَأْسِ أُمِّهِ أَوْ بِوَجْهِهَا أَوْ يَدِهَا أَوْ رِجْلِهَا لَا يَصِيرُ مُظَاهِرًا ؛ لِأَنَّ هَذِهِ الْأَعْضَاءَ مِنْ أُمِّهِ يَحِلُّ لَهُ النَّظَرُ إلَيْهَا .وَمِنْهَا أَنْ تَكُونَ هَذِهِ الْأَعْضَاءُ مِنْ امْرَأَةٍ يَحْرُمُ نِكَاحُهَا عَلَيْهِ عَلَى التَّأْبِيدِ سَوَاءٌ حُرِّمَتْ عَلَيْهِ بِالرَّحِمِ كَالْأُمِّ وَالْبِنْتِ وَالْأُخْتِ وَبِنْتِ الْأَخِ وَالْأُخْتِ وَالْعَمَّةِ وَالْخَالَةِ ، أَوْ بِالرَّضَاعِ ، أَوْ بِالصِّهْرِيَّةِ كَامْرَأَةِ أَبِيهِ وَحَلِيلَةِ ابْنِهِ ؛ لِأَنَّهُ يَحْرُمُ عَلَيْهِ نِكَاحُهُنَّ عَلَى التَّأْبِيدِ ، وَكَذَا أُمُّ امْرَأَتِهِ الخ

(بدائع الصنائع فصل في بيان الشرائط التي تَرْجِعُ إلَى الْمُظَاهَرِ بِهُ: ۳۵/۸ )


ظہار کا کفارہ تین چیزیں ہیں
(۱)غلام آزاد کرنا،      (۲)دو ماہ مسلسل روزے رکھنا،      (۳)ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلانا۔
جو بالترتیب ادا کرنے ہیں اور ان تینوں میں سے ايك بهی ادا كردےتو كفاره ادا ہوجائےگا۔ حوالہ
وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ  فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ذَلِكَ(المجادلة:۲،۳)

اس کی تفصیل یہ ہے کہ غلام آزاد کرنے پر قادر ہو تو غلام آزاد کرے،اگر اس پر قادر نہ ہوتو دوماه مسلسل روزے رکھے جس میں کسی قسم کا فصل نہ ہو اس لیے ایسے دنوں کا انتخاب کرے کہ جس میں رمضان،عیدین اورایام  تشریق نہ ہوں اگر روزے نہ رکھ سکتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
کھانا کھلانے کی ایک صورت یہ ہے کہ ہر مسکین کو صدقۃ الفطر کے بقدر غلہ دیدے لیکن یہ ضروری ہے کہ ساٹھ الگ الگ فقراء کو دے یا ایک ہی محتاج شخص کو ساٹھ دن دے یا ایک ہی شخص کو ایک ہی دن میں دینا ہو تو ساٹھ دفعہ دے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ پکا ہوا کھانا کھلادیا جائے اس صورت میں صبح و شام دو وقت کا کھانا کھلاناپڑیگا۔
تیسری صورت یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو دودو وقت کے کھانے کے پیسہ(صدقہ فطر كے لحاظ سے نصف صاع كے بقدر گیہوں جو تقريبا پونے دو كلو ہوتے  ہیں لہذا پونے دو كلو گیہوں كے پیسے) دیدے۔ حوالہ
وإذا لم يجد المظاهر ما يعتق فكفارته صوم شهرين متتابعين ليس فيهما شهر رمضان ولا يوم الفطر ولا يوم النحر ولا أيام التشريق أما التتابع فلأنه منصوص عليه وشهر رمضان لا يقع عن الظهار لما فيه من إبطال ما أوجبه الله والصوم في هذه الأيام منهي عنه فلا ينوب عن الواجب الكاملوإذا لم يستطع المظاهر الصيام أطعم ستين مسكينا لقوله تعالى :
فمن لم يستطع فإطعام ستين مسكينا  ( المجادلة : ۴)
ويطعم كل مسكين نصف صاع من بر أو صاعا من تمر أو شعير أو قيمة ذلك وإن أطعم مسكينا واحدا ستين يوما أجزأه وإن أعطاه في يوم واحد لم يجزه إلا عن يومه لأن المقصود سد خلة المحتاج والحاجة تتجدد في كل يوم فالدفع إليه في اليوم الثاني كالدفع إلى غيره وهذا في الإباحة من غير خلاف ن وأما التمليك من مسكين واحد في يوم واحد بدفعات فقد قيل لا يجزئه وقد قيل يجزئه لأن الحاجة إلى التمليك تتجدد في يوم واحد بدفعات
(الهداية فصل في الكفارة: ۲۶۶/۱)
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَرَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ أَوْ قَالَ رَمَضَانَ عَلَى الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ فَعَدَلَ النَّاسُ بِهِ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ (بخاري بَاب صَدَقَةِ الْفِطْرِ عَلَى الْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ ۱۴۱۵)

مسئلہ: کفارہ ادا کرنے سےپہلے صحبت نہ کرے اگر کفارہ سے پہلے صحبت کرلے تو دوبارہ کفارہ کی ضرورت نہیں ،توبہ واستغفار کرلےاور عورت کو چاہيے کہ کفارہ دینے تک اس کے پاس جانے سے رکی رہے۔ حوالہ
ويجب على المرأة أن تمنع الزوج عن الاستمتاع بها، حتى يكفرفإن وطئ قبل أن يكفر فقد باشر وطئا حراما، فعليه أن يستغفر الله تعالى ولا يطأ حتى يكفر(تحفة الفقهاء باب الظهار:۲۱۳،۲۱۵/۲)

لعان کا بیان


لعان کے لغوی واصطلاحی معنی

لعان کے لغوی معنی: لعان لعنت  سے بنا ہوا ہے اور لعنت کے معنی دوری اور محرومی کےہیں۔ حوالہ
لَعَنَهُ لَعْنًا مِنْ بَابِ نَفَعَ طَرَدَهُ وَأَبْعَدَهُ أَوْ سَبَّهُ(المصباح المنير:۲۸۱/۸)

لعان کی اصطلاحی تعریف: ایسی چار شہادتیں جو قسم سے مؤکد ہوں ،شوہر نے اپنی شہادت کے ساتھ اپنے اوپر لعنت بھیجی ہو اور عورت نے اپنے اوپر غضب الہی کی دعاء کی ہو۔ حوالہ
 وشرعا: (شهادات) أربعة كشهود الزنا (مؤكدات بالايمان مقرونة شهادته) باللعن وشهادتها بالغضب لانهن يكثر اللعن
(الدرالمختار أطعم مائة وعشرين لم يجز إلا عن نصف الاطعام فيعيد على ستين منهم غداء أو عشاء ولو في يوم آخر للزوم العدد مع المقدار، ولم يجز إطعام فطيم ولا شبعان.باب اللعان:۵۳۰/۳)

لعان کی وجہ

اسلام میں انسانی عزت وآبرو کی بہت اہمیت ہے اس لیے شریعت میں بدکاری کی سزا یا کسی پر تہمت لگا کر اس کو چار گواہوں سے ثابت نہ کرنے کی سزا بڑی سخت بتائی گئی ہے اور اگر خود شوہر اپنی بیوی پر تہمت لگائے تو ایسے وقت میں اس کے لیے گواہوں کا فراہم کرنا یا تلاش کرنا بڑا مشکل امر ہے اس لیے کہ شوہر اور بیوی کا معاملہ کچھ الگ نوعیت کا ہے اور عورت کی بے عفتی براہِ راست شوہر کے مفاد اور اس کی عزتِ نفس کو مجروح کرتی ہے اور ایسی حالت میں گواہوں کے نہ ملنےپر وہ ضبط کرکے دونوں کے درمیان ازدواجی زندگی کی پائیداری اور خوشگوار،تعلقات کا باقی رہنا ایک شریف گھرانےکے لیے ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔اس لیے اس نزاکت کو سمجھتے ہوئے شریعت نے یہ حکم دیا کہ شوہر اوربیوی سےمخصوص الفاظ کے ساتھ قسم لے لی جائے اور لعنت و غضب کے ساتھ بددعائیہ الفاظ کہلائے جائیں اس کے بعد ان دونوں میں تفریق کردی جائے۔

لعان کے شرائط

(۱) زوجین عاقل، بالغ ،مسلمان اورآزاد ہوں (۲)شو ہر عورت پر زناکی تہمت لگائے یااپنی بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والے بچہ کا انکار کردے اورعورت اس تہمت کا انکار کرتی ہو (۳)عورت اپنی سابقہ زندگی میں پاکدامن ہو، زنا میں مبتلا نہ ہو(۴)زوجین اپنی پہلی زندگی میں غلط تہمت لگانے پر سزایافتہ نہ ہوں(۵)زوجین شہادت کے اہل ہوں (۶)شوہر اپنے دعویٰ پر گواہ نہ پیش کرسکا ہو۔ حوالہ
لَا بُدَّ أَنْ يَكُونَ الْمُتَلَاعِنَانِ مِنْ أَهْلِ الشَّهَادَةِ لِأَنَّ الرُّكْنَ فِيهِ الشَّهَادَةُ ، وَلَا بُدَّ أَنْ تَكُونَ الْمَرْأَةُ مِمَّنْ يُحَدُّ قَاذِفُهَا لِأَنَّهُ قَائِمٌ فِي حَقِّهِ مَقَامَ حَدِّ الْقَذْفِ فَلَا بُدَّ مِنْ الْإِحْصَانِ ، وَيَجِبُ بِنَفْيِ الْوَلَدِ لِأَنَّهُ لَمَّا نَفَى وَلَدَهَا صَارَ قَاذِفًا لَهَا
(العناية باب اللعان:۵۸/۶)
كون الزوج أهلاً للشهادة على المسلم، بأن يكون طرفا اللعان زوجين حرين عاقلين بالغين مسلمين ناطقين غير محدودين في قذف
(الفقه الاسلامي وادلته شروط وجوب اللعان:۵۲۸/۹)

لعان کا طریقہ اور اس کےاحکام

لعان کا طریقہ یہ ہے کہ قاضی شوہر سے ابتدا کرے اور اس سے چار دفعہ کہلائے کہ میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں فلاں عورت پر زنا کا دعوی کرنے میں سچا ہوں اورپانچویں بار کہے کہ اگر میں اس دعوے میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو پھر عورت سے چار دفعہ کہلائے کہ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ فلاں شخص مجھ پر زنا کی تہمت لگانے میں جھوٹا ہے اورپانچویں دفعہ کہے کہ اگر وہ اپنے الزام لگانے میں سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو۔ حوالہ
 صِفَةُ اللِّعَانِ أَنْ يَبْتَدِئَ الْقَاضِي بِالزَّوْجِ فَيَشْهَدَ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ يَقُولُ فِي كُلِّ مَرَّةٍ : أَشْهَدُ بِاَللَّهِ إنِّي لَمِنْ الصَّادِقِينَ فِيمَا رَمَيْتُهَا بِهِ مِنْ الزِّنَا ، وَيَقُولُ فِي الْخَامِسَةِ : لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ إنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ فِيمَا رَمَاهَا بِهِ مِنْ الزِّنَا يُشِيرُ إلَيْهَا فِي جَمِيعِ ذَلِكَ ، ثُمَّ تَشْهَدُ الْمَرْأَةُ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ ، تَقُولُ فِي كُلِّ مَرَّةٍ : أَشْهَدُ بِاَللَّهِ إنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ فِيمَا رَمَانِي بِهِ مِنْ الزِّنَا ، وَتَقُولُ فِي الْمَرَّةِ الْخَامِسَةِ : غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ فِيمَا رَمَانِي بِهِ مِنْ الزِّنَا
(فتاوي هندية الْبَابُ الْحَادِيَ عَشَرَ فِي اللِّعَانِ:۹۲/۱۱)

لعان كےاحكامات
(۱) لعان ہونے کے بعد قاضی دونوں میں تفریق کردے گا اگر مستقبل میں کوئی ایک اپنے آپ کو جھوٹا کہے اور دوسرے کو صحیح تسلیم کرلیں اور دونوں ایک ساتھ زندگی گزارنا چاہیں تو از سر نو نکاح کرنا ہوگا اس لیے کہ یہ فرقت طلاق بائن کاحکم رکھتی ہے۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ رَجُلًا لَاعَنَ امْرَأَتَهُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا فَفَرَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ ِالْمَرْأَةِ
(بخاري بَاب مِيرَاثِ الْمُلَاعَنَةِ،حدیث نمبر:۶۲۵۱)
الْفُرْقَةُ الْوَاقِعَةُ فِي اللِّعَانِ فُرْقَةٌ بِتَطْلِيقَةٍ بَائِنَةٍ فَيَزُولُ مِلْكُ النِّكَاحِ
(فتاوي هندية الْبَابُ الْحَادِيَ عَشَرَ فِي اللِّعَانِ:۸۹/۱۱)

(۲) اگر شوہر نے بچہ کا انکار کیا تو لعان میں اس کی صراحت کرنا ہوگا اور لعان کے بعد جب قاضی تفریق کریگا تو بچہ کے نسب کے سلسلہ میں بھی شوہر کی جانب سےنفی کردے۔ حوالہ
وَرَوَى بِشْرٌ عَنْ أَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ لَا بُدَّ أَنْ يَقُولَ الْقَاضِي : فَرَّقْتُ بَيْنَكُمَا وَقَطَعْتُ نَسَبَ هَذَا الْوَلَدِ مِنْهُ حَتَّى لَوْ لَمْ يَقُلْ ذَلِكَ لَا يَنْتَفِي النَّسَبُ عَنْهُ كَذَا فِي الْمَبْسُوطِ
(فتاوي هندية الْبَابُ الْحَادِيَ عَشَرَ فِي اللِّعَانِ: ۹۵/۱۱)

(۳) مرد اگر لعان سے انکار کریگا تو قاضی اسے قید کردے گا یہاں تک کہ وہ لعان کرلے یا پھر اپنے آپ کو جھوٹا کہدے اس صورت میں اس پر تہمت كی حد لگائی جائے گی۔ حوالہ
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (النور: ۴) فإن امتنع منه حبسه الحاكم حتى يلاعن أو يكذب نفسه لأنه حق مستحق عليه وهو قادر على إيفائه فيحبس به حتى يأتي بما هو عليه أو يكذب نفسه ليرتفع السبب (الهداية باب اللعان:۲۷۰/۱)۔

(۴) عورت اگر لعان کرنے سے انکار کردے تو قاضی اسے قید کردیگا حتی کہ وہ یا تو لعان کرلے یا شوہر کے الزام کی تصدیق کرلے اس صورت میں اس پر زنا کی حد اس وقت جاری ہوگی جبکہ وہ چار بار اس بات کا اقرار کرلے کہ مجھ سے زنا  کا صدور ہوا ہے۔ حوالہ
فإن امتنعت حبسها الحاكم حتى تلاعن أو تصدقه لأنه حق مستحق عليها وهي قادرة على إيفائه فتحبس فيه
(الهداية باب اللعان:۲۷۰/۱)

(۵) لعان کے بعد جب قاضی دونوں میں تفریق کردے تو عدت کا نان و نفقہ اور سکنی (کھانے، لباس، اور رہائش کے انتظام) کی عورت مستحق ہوگی۔ حوالہ
الْفُرْقَةُ الْوَاقِعَةُ فِي اللِّعَانِ فُرْقَةٌ بِتَطْلِيقَةٍ بَائِنَةٍ فَيَزُولُ مِلْكُ النِّكَاحِ
(فتاوي هندية الْبَابُ الْحَادِيَ عَشَرَ فِي اللِّعَانِ:۸۹/۱۱)
وإذا كان الطلاق بائناً وجب للمرأة النفقة والسكنى في عدتها
(الفقه الاسلامي وادلته أحكام أوآثار اللعان :۵۴۷/۹)

(۶) لعان کے بعد اس سے بچہ پیدا ہو تو اس کا نسب باپ سے نہیں ماں سے ہوگا یعنی وہ باپ کا وارث نہ ہوگا۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ رَجُلًا لَاعَنَ امْرَأَتَهُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا فَفَرَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ
(بخاري بَاب مِيرَاثِ الْمُلَاعَنَةِ،حدیث نمبر:۶۲۵۱)

خلع کا بیان

خلع کی تعریف

خلع کے لغوی معنی:
اتارنا، عرب قوم کپڑے اتارنے کے لیے ‘خلع ثوب’ کا لفظ بولتے ہیں اور قرآن میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا (البقرۃ:۱۸۷) گویا نکاح کے ذریعہ زوجین ایک لباس میں ہوجاتے ہیں اور خلع کے ذریعہ وہ اس لباس کو اتار پھینکتے ہیں۔
خلع کے اصطلاحی معنی:
عورت سے کچھ مال لیکر رشتہ نکاح کو ختم کردینا۔ حوالہ
خَلَعْتُ النَّعْلَ وَغَيْرَهُ خَلْعًا نَزَعْتُهُ وَخَالَعَتْ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا مُخَالَعَةً إذَا افْتَدَتْ مِنْهُ وَطَلَّقَهَا عَلَى الْفِدْيَةِ فَخَلَعَهَا هُوَ خَلْعًا وَالِاسْمُ الْخُلْعُ بِالضَّمِّ وَهُوَ اسْتِعَارَةٌ مِنْ خَلْعِ اللِّبَاسِ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا لِبَاسٌ لِلْآخَرِ فَإِذَا فَعَلَا ذَلِكَ فَكَأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ نَزَعَ لِبَاسَهُ عَنْهُ
(المصباح المنير:۱۱۵/۳)

طلاق اور خلع میں فرق

جس طرح مرد کو طلاق دیکر عورت سے اپنا رشتہ  نکاح ختم کرلینے کی اجازت ہے اسی طرح عورت کو خلع کے ذریعہ مرد سے پیچھا چھڑانے کی اجازت شریعت نے دی ہے،طلاق اورخلع میں فرق یہ ہے کہ طلاق بغیر کسی معاوضہ کےہوتا ہے اور خلع میں عورت کو کچھ دینا پڑتا ہے۔
شریعت میں یہ بات مطلوب ہے کہ رشتۂ نکاح ایک دفعہ قائم ہوجانے کے بعد پھر اسے توڑا نہ جائے،اس لیے طلاق کی طرح خلع کو بھی پسند نہیں کیا گیا ہے اسی وجہ سے جس طرح مرد کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ طلاق اور تفریق کا اختیار بالکل مجبوری کی حالت میں استعمال کرے اسی طرح عورت کو بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ یہ قدم اس کو اسی وقت اٹھانا چاہیے جب کہ واقعۃ اس کی کوئی دینی ،اخلاقی یا معاشی حق تلفی ہورہی ہو یا اس پر کوئی ناقابل برداشت معاشرتی ظلم ہورہا ہو یا وہ اپنے جنسی جذبات کی تسکین نہ ہونے کی بنا پر سخت ذہنی کوفت میں ہو۔
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ(البقرة:۲۲۹)
عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ لَمْ تَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ
(ترمذی بَاب مَا جَاءَ فِی الْمُخْتَلِعَاتِ،حدیث نمبر:۱۱۰۷)

بدل خلع

خلع کے اندر عورت سے معاوضہ لینے میں یہ دیکھا جائے گا کہ ظلم و زیادتی مرد کی طرف سے ہے یا عورت کی طرف سے ہے؟  اگر مرد کی طرف سے ہو تو عورت سے طلاق کا معاوضہ لینا ناجائز وحرام ہے اوراگر زیادتی عورت کی طرف سے ہے تو بدل خلع لیا جاسکتا ہے لیکن اس صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ بدل خلع کی مقدار ‘مہر’ سے زیادہ نہ ہو۔ حوالہ
وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا          (النساء:۲۰)
 وإن كان النشوز من قبله يكره له أن يأخذ منها عوضا ولأنه أوحشها بالاستبدال فلا يزيد في وحشتها بأخذ المال وإن كان النشوز منها كرهنا له أن يأخذ منها أكثر مما أعطاها
(الهداية باب الخلع:۲۶۱/۱)

خلع کا حکم

خلع کے ذریعہ طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے اور مرد پر عدت گزرنے تک عورت کا نان و نفقہ اور سکنی دینا لازم ہوگا اور عورت پر جو بدل خلع طئے ہوا ہے وہ ادا کرنا واجب ہوگا۔ حوالہ

  عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِيقَةً بَائِنَةً۔(سنن الدار قطني الطلاق والخلع والإيلاء،حدیث نمبر: ۴۰۷۰)،  فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال۔( الهداية باب الخلع:۲۶۱/۱) ،أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى (الطلاق: ۶)، وَمِنْهَا وُجُوبُ النَّفَقَةِ وَالسُّكْنَى وَهُوَ مُؤْنَةُ السُّكْنَى لِبَعْضِ الْمُعْتَدَّاتِ دُونَ بَعْضٍ ، وَجُمْلَةُ الْكَلَامِ أَنَّ الْمُعْتَدَّةَ إمَّا إنْ كَانَتْ عَنْ طَلَاقٍ أَوْ عَنْ فُرْقَةٍ بِغَيْرِ طَلَاقٍ وَإِمَّا إنْ كَانَتْ عَنْ وَفَاة … لِأَنَّ مِلْكَ النِّكَاحِ قَائِمٌ فَكَانَ الْحَالُ بَعْدَ الطَّلَاقِ كَالْحَالِ قَبْلَهُ وَلِمَا نَذْكُرُ مِنْ دَلَائِلَ أُخَرَ ،…وَلِأَنَّ الْأَمْرَ بِالْإِسْكَانِ أَمْرٌ بِالْإِنْفَاقِ ؛ لِأَنَّهَا إذَا كَانَتْ مَحْبُوسَةً مَمْنُوعَةً عَنْ الْخُرُوجِ لَا تَقْدِرُ عَلَى اكْتِسَابِ النَّفَقَةِ فَلَوْ لَمْ تَكُنْ نَفَقَتُهَا عَلَى الزَّوْجِ وَلَا مَالَ لَهَا لَهَلَكَتْ ، أَوْ ضَاقَ الْأَمْرُ عَلَيْهَا وَعَسُرَ ، وَهَذَا لَا يَجُوزُ وقَوْله تَعَالَى { لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ } مِنْ غَيْرِ فَصْلٍ بَيْنَ مَا قَبْلَ الطَّلَاقِ وَبَعْدَهُ فِي الْعِدَّةِ ، وَلِأَنَّ النَّفَقَةَ إنَّمَا وَجَبَتْ قَبْلَ الطَّلَاقِ لِكَوْنِهَا مَحْبُوسَةً عَنْ الْخُرُوجِ وَالْبُرُوزِ لِحَقِّ الزَّوْجِ وَقَدْ بَقِيَ ذَلِكَ الِاحْتِبَاسُ بَعْدَ الطَّلَاقِ فِي حَالَةِ الْعِدَّةِ وَتَأَبَّدَ بِانْضِمَامِ حَقِّ الشَّرْعِ إلَيْهِ ؛ لِأَنَّ الْحَبْسَ قَبْلَ الطَّلَاقِ كَانَ حَقًّا لِلزَّوْجِ عَلَى الْخُلُوصِ وَبَعْدَ الطَّلَاقِ تَعَلَّقَ بِهِ حَقُّ الشَّرْعِ حَتَّى لَا يُبَاحَ لَهَا الْخُرُوجُ ، وَإِنْ أَذِنَ الزَّوْجُ لَهَا بِالْخُرُوجِ فَلِمَا وَجَبَتْ بِهِ النَّفَقَةُ قَبْلَ التَّأَكُّدِ فَلَأَنْ تَجِبَ بَعْدَ التَّأَكُّدِ أَوْلَى (بدائع الصنائع فَصْلٌ في وَأَمَّا أَحْكَامُ الْعِدَّةِ: ۴۴۸/۷)۔


خلع كےاحكامات

(۱) اگر عورت خلع کے وقت اپنی ذات سے متعلق حقوق جیسے نفقہ وسکنی مرد کے ذمہ سے معاف کردے تو اس کی اجازت ہوگی لیکن بچہ کا نفقہ معاف کرنے سے معاف نہیں ہوتا؛بلکہ شوہر کے ذمہ اس کا نفقہ وغیرہ دینا ضروری ہوگا۔ حوالہ
عَنْ مُعَاوِيَةَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ قَالَ أَنْ يُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمَ وَأَنْ يَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَى وَلَا يَضْرِبْ الْوَجْهَ وَلَا يُقَبِّحْ وَلَا يَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ (ابن ماجه بَاب حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ: ۱۸۴۰) وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (البقرة:۲۳۳) مذکورہ آیت وحدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا نان ونفقہ اس کا اپنا حق ہے؛ اس لیے عورت اپنا حق معاف کردے تومعاف ہوجائے گا؛ لیکن بچے کا حق اس کا حق نہیں ہے؛ اس لیے اسے معاف کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ فَأَمَّا نَفَقَةُ الْعِدَّةِ فَإِنَّمَا تَجِبُ عِنْدَ الْخُلْعِ فَكَانَ الْخُلْعُ عَلَى النَّفَقَةِ مَانِعًا مِنْ وُجُوبِهَا (بدائع الصنائع فَصْلٌ في حُكْم الْخُلْعِ: ۲۳۹/۷) وَلَوْ اخْتَلَعَتْ عَلَى إرْضَاعِهِ ثُمَّ صَالَحَتْ الزَّوْجَ عَلَى شَيْءٍ يَصِحُّ ، وَلَوْ خَالَعَتْهُ عَلَى نَفَقَةِ وَلَدِهِ عَشْرًا وَهِيَ مُعْسِرَةٌ فَطَالَبَتْهُ بِنَفَقَتِهِ يُجْبَرُ عَلَيْهَا وَمَا شُرِطَ حَقٌّ عَلَيْهَا ، وَعَلَيْهِ الِاعْتِمَادُ لَا عَلَى مَا أَفْتَاهُ بَعْضُهُمْ مِنْ سُقُوطِ النَّفَقَةِ (فتح القدير بَابُ الْخُلْعِ: ۸۲/۹) قَالَ فِي الْحَاوِي الزَّاهِدِيِّ وَلَوْ اخْتَلَعَتْ نَفْسَهَا مِنْ زَوْجِهَا بِمَهْرِهَا وَنَفَقَةِ وَلَدِهَا عَشْرَ سِنِينَ ، وَهِيَ مُعْسِرَةٌ لَا تَقْدِرُ عَلَى نَفَقَةِ وَلَدِهَا فَلَهَا أَنْ تُطَالِبَ الزَّوْجَ بِنَفَقَةِ الْوَلَدِ لِأَنَّ بَدَلَ الْخُلْعِ دَيْنٌ عَلَيْهَا فَلَا تَسْقُطُ نَفَقَةُ الْوَلَدِ عَنْهُ بِدَيْنٍ عَلَيْهَا كَمَا إذَا كَانَ لَهُ عَلَيْهَا دَيْنٌ آخَرُ ، وَهِيَ لَا تَقْدِرُ عَلَى قَضَائِهِ لَا تَسْقُطُ نَفَقَةُ الْوَلَدِ عَنْهُ قَالَ وَعَلَيْهِ الِاعْتِمَادُ لَا عَلَى مَا أَجَابَ بِهِ سَائِرُ الْمُفْتِينَ أَنَّهُ تَسْقُطُ (البحر الرائق باب الخلع: ۳۷۸/۱۰)۔

(۲) خلع کے لیے قاضی کا ہونا ضروری نہیں اور خلع کے بعد بغیر نکاح کے یہ دونوں نہیں مل سکتے ۔ حوالہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِيقَةً بَائِنَةً (سنن الدار قطني الطلاق والخلع والإيلاء،حدیث نمبر: ۴۰۷۰)

(۳) خلع میں اگر فاسد شرطیں لگائی جائیں تب بھی خلع صحیح ہوجائے گا۔حوالہ
عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا قَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي فَعَلْتُ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لِأَهْلِهَا فَأَبَوْا وَقَالُوا إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ فَلْتَفْعَلْ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لَنَا فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعِي فَأَعْتِقِي فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ قَالَ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا بَالُ أُنَاسٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَنْ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ وَإِنْ شَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ شَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ (بخاري بَاب مَا يَجُوزُ مِنْ شُرُوطِ الْمُكَاتَبِ : ۲۳۷۳) قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ ( وَمَا لَا يَبْطُلُ بِالشَّرْطِ الْفَاسِدِ الْقَرْضُ ، وَالْهِبَةُ ، وَالصَّدَقَةُ ، وَالنِّكَاحُ ، وَالطَّلَاقُ ، وَالْخُلْعُ ، وَالْعِتْقُ ، وَالرَّهْنُ ، وَالْإِيصَاءُ ، وَالْوَصِيَّةُ ، وَالشَّرِكَةُ ، وَالْمُضَارَبَةُ ، وَالْقَضَاءُ ، وَالْإِمَارَةُ ، وَالْكَفَالَةُ ، وَالْحَوَالَةُ ، وَالْوَكَالَةُ ، وَالْإِقَالَةُ ، وَالْكِتَابَةُ ، وَإِذْنُ الْعَبْدِ فِي التِّجَارَةِ وَدَعْوَةُ الْوَلَدِ ، وَالصُّلْحُ عَنْ دَمِ الْعَمْدِ ، وَالْجِرَاحَةِ وَعَقْدُ الذِّمَّةِ وَتَعْلِيقُ الرَّدِّ بِالْعَيْبِ ، أَوْ بِخِيَارِ الرُّؤْيَةِ وَعَزْلُ الْقَاضِي ) هَذِهِ كُلُّهَا لَا تَبْطُلُ بِالشُّرُوطِ الْفَاسِدَةِ لِمَا ذَكَرْنَا أَنَّ الشُّرُوطَ الْفَاسِدَةَ مِنْ بَابِ الرِّبَا وَأَنَّهُ يَخْتَصُّ بِالْمُبَادَلَةِ الْمَالِيَّةِ ، وَهَذِهِ الْعُقُودُ لَيْسَتْ بِمُعَاوَضَةٍ مَالِيَّةٍ ، فَلَا يُؤَثِّرُ فِيهَا الشُّرُوطُ الْفَاسِدَةُ أَلَا تَرَى أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ { أَجَازَ الْعُمْرَى وَأَبْطَلَ شَرْطَ الْمُعَمِّرِ } ، وَكَذَا أَبْطَلَ شَرْطَ الْوَلَاءِ لِغَيْرِ الْمُعْتِقِ بِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا { ابْتَاعِي فَاعْتِقِي فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ } قَالَهُ لَهَا حِينَ أَرَادَ مَوَالِي بَرِيرَةَ أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ بَعْدَ مَا أَعْتَقَهَا لَكِنْ الْكِتَابَةَ إنَّمَا لَا تَفْسُدُ بِالشَّرْطِ الْمُفْسِدِ إذَا كَانَ الشَّرْطُ غَيْرَ دَاخِلٍ فِي صُلْبِ الْعَقْدِ بِأَنْ كَاتَبَهُ عَلَى أَنْ لَا يَخْرُجَ مِنْ الْبَلَدِ ، أَوْ عَلَى أَنْ لَا يُعَامِلَ فُلَانًا ، أَوْ عَلَى أَنْ يَعْمَلَ فِي نَوْعٍ مِنْ التِّجَارَةِ فَإِنَّ الْكِتَابَةَ عَلَى هَذَا الشَّرْطِ تَصِحُّ وَيَبْطُلُ الشَّرْطُ فَلَهُ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْبَلَدِ وَيَعْمَلَ مَا شَاءَ مِنْ أَنْوَاعِ التِّجَارَةِ مَعَ أَيِّ شَخْصٍ شَاءَ .(تبيين الحقائق مَا لَا يَبْطُلُ بِالشَّرْطِ الْفَاسِدِ: ۳۶۳/۱۱)۔

(۴) خلع میں وقت کی کوئی قید نہیں حالت حیض یا ایسے طہر میں جس میں شوہر اس سے صحبت کرچکا ہو بلا کراہت خلع کیا جاسکتا ہے لیکن طلاق میں یہ بات نہیں ہوگی۔حوالہ
لا بأس بالخلع في الحيض، والطهر الذي أصابها فيه لأن المنع من الطلاق في الحيض من أجل دفع الضرر الذي يلحق المرأة بطول العدة، والخلع لإزالة الضرر الذي يلحقها بسوء العشرة والمقام مع من تكرهه وتبغضه، وهو أعظم من ضرر طول العدة، فجاز دفع أعلاهما بأدناهما، وهي قد رضيت به، مما يدل على رجحان مصلحتها، ولذا لم يسأل النبي صلّى الله عليه وسلم المختلعة عن حالها (الفقه الاسلامي وادلته وقت الخلع: ۴۵۷/۹)۔التِّجَارَةِ مَعَ أَيِّ شَخْصٍ شَاءَ .(تبيين الحقائق مَا لَا يَبْطُلُ بِالشَّرْطِ الْفَاسِدِ: ۳۶۳/۱۱)۔

تفریق (میاں بیوی میں علیحدگی کردینے ) کا بیان

تفریق کے معنی جدا کرنے کے ہیں، عام طور پر یہ کتب  فقہ میں ’تفریق‘ زوجین کے درمیان جدائی کو کہتے ہیں۔
بنیادی طورپر تفریق  کی دو قسمیں ہیں:     (۱) مؤبد،     (۲)موقت۔
 تفریق مؤبد سے مراد وہ جدائی ہے، جس میں ایک دفعہ زوجین میں جدائی پیدا ہونے کے بعد پھر کبھی اور کسی طور پر ان دونوں کے درمیان نیا ازدواجی رشتہ قائم نہ کیا جاسکے۔
تفریق مؤبد کی تین صورتیں ہیں:
          (۱)حرمت رضاعت،          (۲)حرمت نسب،          (۳)حرمت مصاہرت۔
(۱)حرمت رضاعت کی بنیاد پرتفریق: مثلا بیوی ابھی دو سال کی نہیں تھی ،شوہر کی دوسری بیوی یا بہن وغیرہ نے دودھ پلا دیا اور شوہر اوراس کی شیر خوار بیوی کے درمیان ایسار رضاعی رشتہ پیدا ہوگیا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے محرم ہوگئے ۔حوالہ
( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ الاية النساء:۲۳) (يَقَعُ مَغْلَطَةٌ فَيُقَالُ : طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَتَيْنِ ، وَلَهَا مِنْهُ لَبَنٌ فَاعْتَدَّتْ ، فَنَكَحَتْ صَغِيرًا فَأَرْضَعَتْهُ ، فَحَرُمَتْ عَلَيْهِ فَنَكَحَتْ آخَرَ فَدَخَلَ بِهَا فَأَبَانَهَا فَهَلْ تَعُودُ لِلْأَوَّلِ بِوَاحِدَةٍ أَمْ بِثَلَاثٍ ؟ الْجَوَابُ : لَا تَعُودُ إلَيْهِ أَبَدًا لِصَيْرُورَتِهَا حَلِيلَةَ ابْنِهِ رَضَاعًارد المحتار فَصْلٌ فِي الْمُحَرَّمَاتِ،فُرُوعٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَتَيْنِ۲۶۶/۹)

(۲) دوسری صورت حرمت نسب ہے،یعنی زوجین کے درمیان ایسا نسبی یا خاندانی رشتہ موجود تھا، جس سے دونوں ایک دوسرے کے لیےمحرم قرار پاتے تھے،اتفاق سے اس وقت رشتہ کا اظہار نہ ہوسکا، بعدمیں اس کا انکشاف ہوا تو پھر دونوں ایک دوسرے کے لیے محرم ہوجائیں گے۔ حوالہ
(حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًاالنساء:۲۳)

(۳) تیسری صورت حرمت مصاہرت کی ہے،حرمت مصاہرت سے مراد سسرالی رشتہ سے پیدا ہونے والی حرمت ہے،اورزنا، بلکہ دواعی زنا کے ذریعہ بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی، چنانچہ اگر شوہر نے بیوی کی ماں یا اس کی بیٹی کے ساتھ کوئی ایسی حرکت کرلی تو شوہر اوربیوی کے درمیان ہمیشہ کے لیے حرمت کی دیوار کھڑی ہوجائے گی۔ حوالہ
(عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن أم الحكم أنه قال قال رجل يا رسول الله إني زنيت بامرأة في الجاهلية وابنتها فقال النبي صلى الله عليه و سلم لا أرى ذلك ولا يصلح ذلك أن تنكح امرأة تطلع من ابنتها على ما اطلعت عليه منها،مصنف عبد الرزاق باب الرجل يزني بأخت امرأته۱۲۷۸۴ ، ويترتب على هذا الرأي: أنه يحرم على الرجل نكاح بنته من الزنا وأخته، وبنت ابنه وبنت بنته وبنت أخيه وأخته من الزنا، وتحرم أمها وجدتها، فمن زنى بامرأة حرمت عليه بنتها وأمها. ولو زنى الزوج بأم زوجته أو ببنتها، حرمت عليه زوجته على التأييد،الفقه الاسلامي وادلته ما يلحق بحرمة المصاهرة۱۲۵/۹)

اس کے علاوہ تفریق کی جتنی صورتیں ہیں وہ سب موقت ہیں، جس میں ایک مخصوص عرصہ تک کسی خاص وجہ سے دونوں کے درمیان تفریق کردی جاتی ہے، پھر جب وہ خاص سبب ختم ہوجائے یا جاتا رہے،تو مرد از سرِ نو اسی عورت کو اپنے نکاح میں لاسکتا ہے ۔

آثار ونتائج کے اعتبار سے تفریق

اس اعتبار سے بھی تفریق کی دوقسمیں ہیں:
اول وہ تفریق جو کہ طلاق کے حکم میں ہو، دوسرے وہ جس تفریق کو طلاق کے حکم میں مانا نہیں گیا ہے؛بلکہ وہ نکاح سابق کے کا لعدم ہوجانے کے حکم میں ہے، پہلی صورت تفریق بذریعہ طلاق ہے اور دوسری صورت تفریق بذریعہ فسخ کہلاتی ہے۔
تفریق کی جو صورتیں طلاق کے حکم میں ہیں، وہ یہ ہیں:
۱۔شوہرکے کفونہ ہونے کی بناء پر تفریق۔
۲۔مہر کم مقرر ہونے کی وجہ سے تفریق۔
۳۔نامرد ہونے کی وجہ سے تفریق۔
۴۔شوہر کے مجبوب ،یعنی عضو تناسل کٹے ہوئے ہونے کی بنا پر تفریق۔
۵۔ خیار بلوغ کے استعمال کے ذریعہ تفریق۔
۶۔کافر زوجین میں سے ایک کے اسلام قبول کرنے کی صورت میں تفریق، بہ شرطیکہ بیوی یہودی اور عیسائی نہ ہو۔
۷۔زوجین میں سے کسی ایک کے مرتد ہونے کی وجہ سے تفریق۔
۸۔لعان کی بنا پر تفریق۔
۹۔شوہر کے مفقود الخبر ہونے کی وجہ سے تفریق۔
۱۰۔شوہر کے زوجہ کا نفقہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے تفریق۔
۱۱۔شوہر کے نفقہ ادا کرنے پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے تفریق۔
۱۲۔شوہر کے ظلم اور بیوی کو زودکوب کرنے کی وجہ سے تفریق۔
۱۳۔شوہر کے حق زوجیت ادانہ کرنے کی وجہ سے تفریق۔
۱۴۔شوہر کے جنون، برص، جذام یا کسی اور مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تفریق۔
۱۵۔زن وشو کے درمیان شدید اختلاف وشقاق کی بنا پر تفریق۔
نوٹ: تفریق بنیادی طورپر قاضی کے فیصلہ سے ہوتی ہے،لیکن جن صورتوں میں قاضی کا فیصلہ ضروری نہیں وہ یہ ہیں:    
۱۔مصاہرت کی وجہ سے زوجین میں حرمت کا پیدا ہوجانا۔
۱۔مصاہرت کی وجہ سے زوجین میں حرمت کا پیدا ہوجانا۔
۲۔زوجین کے درمیان حرمت رضاعت پیدا ہوجائے۔
۳۔نکاح کےکسی شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سے نکاح فاسد ہو۔
۴۔دارالحرب میں زوجین میں سے کوئی ایک اسلام قبول کرلیں۔
۵۔زوجین میں سے کوئی ایک مرتد ہو جائے۔
۶۔ایلاءکرنے کے بعد چارماہ گذرگئے اوربیوی سے جماع پر قادر ہونے کے باوجود فئی(رجوع) نہ کرے،اس کے علاوہ خیار عتق یعنی زوجین میں سے ایک کا غلامی سے آزاد ہوجانا یا ان میں سے ایک دوسرے کا مالک بن جانا اور اختلاف دار بھی اسی قسم میں داخل ہے، البتہ ان صورتوں میں بھی اگر کبھی نزاع پیدا ہوجائے مثلا عورت حرمت مصاہرت پیدا ہوجانے کا دعویٰ کرتی ہو اور مرد اس سے انکار کرتا ہو، یا نکاح فاسد ہو، لیکن مرد وزن از خود ایک دوسرے سے علاحدہ ہونے کو تیار نہ ہوں، ایسی تمام صورتوں میں پھر یہ مسئلہ دائرۂ قضاء میں آجاتا ہے اور قاضی کا فیصلہ ضروری ہوجاتا ہے۔

قانون تفريق میں اسلام كا اعتدال

مختلف شعبہ ہائے زندگی کی طرح طلاق و تفریق کے باب میں بھی اسلام کے قوانین اعتدال و توازن اوراصولِ فطرت سے ہم آہنگی میں اپنی مثال آپ ہے،دنیا کے دو بڑے مذاہب ہندومت اور عیسائیت میں رشتہ نکاح کے ایک دفعہ قائم ہوجانے کے بعد پھر ٹوٹ جانے کا تصور نہیں، وہ رشتہ نکاح کو اٹوٹ تصور کرتے ہیں، عیسائی مذہب میں بعد کو چل کر تفریق  کی ایک صورت اختیار کی گئی جس کو فراق بدنی کہاجاتا ہے، یعنی بعض خاص صورتوں میں میاں بیوی کا جسمانی رشتہ تو ختم ہوجاتا تھا،لیکن عورت دوسرے نکاح کی مجاز نہیں ہوتی تھی، مذاہب عالم میں شاید اسلام نے پہلی دفعہ نکاح وطلاق کے اُصول نہایت تفصیل کے ساتھ مرتب کئے اوراس میں  انسانی فطرت کی پوری پوری رعایت کی، نہ تفریق کو اتنا آسان کیا،جیسا آج کی مغربی عدالتوں نے کیا ہوا ہے کہ مرد و عورت کے خراٹے کی آواز ،کتا پالنے کی خواہش، یہاں تک کہ دوسرے مرد سے ناجائز تعلق اورمرد کی طرف سے اس میں رکاوٹ جیسی باتیں بھی تفریق کے لیے جائز اسباب مان لی گئی ہیں اور نہ اسلام نے یہ صورت اختیار کی کہ مہلک اور متعدی امراض کیوجہ سے باہمی نفرت، شوہر کی طرف سے ظلم و تعدی اورعورت کے واجبی حقوق سے محرومی کے باوجود جبر اوردباؤ کے ساتھ ہر قیمت پر رشتۂ نکاح کو باقی رکھا جائے کہ اس سے نکاح کا اصل مقصود محبت و یگانگت کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو، اس نے ضروریات اورخواہشات میں مناسب اور غیر مناسب اسباب کے درمیان فرق کیا ہے۔
ستم ظریفی ہے کہ آج دنیا کا شاید ہی کوئی قانون ہو جس نے اس شعبہ میں اسلام سے فائدہ نہ اٹھایا ہو،مگر یہی قوانین ہیں جو مغرب کے اہل قلم اوراصحاب فکر کا سب سےز یادہ نشانہ ہیں۔

عدّت کا بیان

عدت کی تفصیل

عدت کی لغوی و اصطلاحی تعریف
عدت کےلغوی معنی :شمار کرنے کے ہیں ۔
فقہ کی اصطلاح میں عدت: اس مدت کو کہتے ہیں جس میں نکاح صحیح کے  ختم ہونے، نکاح فاسد کے بعد قاضی کی طرف سے علاحدگی کے فیصلہ یا باہمی فیصلہ کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ ترک تعلق یا شبہ کی بنا پر وطی کے بعد اپنے آپ کو خاص مدت تک روکے رکھے۔ حوالہ
وَعِدَّةُ الْمَرْأَةِ قِيلَ أَيَّامُ أَقْرَائِهَا مَأْخُوذٌ مِنْ الْعَدِّ وَالْحِسَابِ (المصباح المنير۶۴/۶)معنى العدة: العِدَّة بكسر العين جمع عِدَد، وهي لغة: الإحصاء
(الفقه الاسلامي وادلته المبحث الأول ـ تعريف العدة۵۸۹/۹)

عدت کے مقاصد
عدت سے شریعت کا مقصود نسب کا تحفظ ہے،اسلام کی نظر میں نسب کی ایک خاص اہمیت ہے اوراس پر خاندانی زندگی کا مداروانحصار ہے، اگر باپ کی شناخت باقی نہ رہے اوراولاد کو اس کا حقیقی خاندان میسر نہ آسکے تو پھر انسان اور حیوان کے درمیان کیا فرق باقی رہ جائے گا؟ اسی لیے اسلام نے ایک مرد کے بعد دوسرے مرد کے نکاح میں جانے کے درمیان ایک وقفہ رکھا ہے تاکہ نسب میں اختلاط نہ ہو، اسی وقفہ کا نام عدت ہے!
اس کے علاوہ عدت سے کچھ اور اخلاقی مقاصد بھی متعلق ہیں، میاں بیوی کا رشتہ نہایت قربت کا رشتہ ہے،جب تک ازدواجی زندگی قائم ہوتی ہے ہر نشیب و فراز اور سردوگرم میں ایک دوسرے کی رفاقت کا حق ادا کرتے ہیں، راحت  پہنچاتے ہیں اور تکلیف بھی اٹھاتے ہیں،کبھی ایک دوسرے کو سہتے ہیں اور کبھی سہے جاتے ہیں،بیوی تو چراغ خانہ ہوتی ہے،لیکن مرد اس کو روشن رکھنے کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھاتا،پسینے بہاتا، پریشانیاں اٹھاتا اورتکلیفیں سہتا ہے، اب جب شوہر کی وفات ہوئی تو اس پر دلگیر وحزیں ہونا اس کا فطری اور اخلاقی فریضہ ہے ہی، اگر طلاق کی بنا پر علاحدگی ہوئی ہو تب بھی روا نہیں کہ پچھلے تعلقات سے محرومی پر حسرت و افسوس كا ایک اشک بھی نہ گرایا جائے،عدت اسی اخلاقی فرض کی ادائیگی سے عبارت ہے۔حوالہ
وحكمة العدة: إما التعرف على براءة الرحم، أو التعبد، أو التفجع على الزوج، أو إعطاء الفرصة الكافية للزوج بعد الطلاق ليعود لزوجته المطلقةوفي فرقة الوفاة: يراد من العدة تذكر نعمة الزواج، ورعاية حق الزوج وأقاربه، وإظهار التأثر لفقده، وإبداء وفاء الزوجة لزوجها، وصون سمعتها وحفظ كرامتها، حتى لا يتحدث الناس بأمرها، ونقد تهاونها، والتحدث عن خروجها وزينتها، خصوصاً من أقارب زوجها
(الفقه الاسلامي وادلته حكمة العدة۵۹۲/۹)

عدتِ وفات کی مدت

مسئلہ: عدت وفات ایسی عورتوں کے لیے جو حاملہ نہ ہوں چار ماہ دس دن ہے اورخود قرآن مجید میں اس کی صراحت موجود ہے، وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (البقرہ:۲۳۴) مہینہ سے چاند کا مہینہ مراد ہے،اگر مہینہ کے آغاز ہی سے عدت گذارے تو چاند کے مہینوں کا اعتبار ہے،خواہ مہینے ۲۹ دن کے ہوں یا ۳۰ دن کے اور اگر مہینہ کے درمیان میں انتقال ہوا تو  پھر دنوں کا اعتبار ہے،ایک سوتیس دن عدت کے ہوں گے،یہ امام ابو حنیفہؒ کی رائے ہے،امام ابو یوسفؓ اورمحمدؒ کے نزدیک درمیان کے دونوں مہینے تو چاند کے ہی حساب سے ہوں گے،البتہ ابتدائی مہینہ کے باقی ماندہ ایام کو دو ماہ کے بعد پورا کرے گی۔حوالہ
قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ يُعْتَبَرُ بِالْأَيَّامِ فَتَعْتَدُّ مِنْ الطَّلَاقِ ، وَأَخَوَاتِهِ تِسْعِينَ يَوْمًا ، وَمِنْ الْوَفَاةِ مِائَةً ، وَثَلَاثِينَ يَوْمًا ، وَكَذَلِكَ قَالَ فِي صَوْمِ الشَّهْرَيْنِ الْمُتَتَابِعَيْنِ إذَا ابْتَدَأَ الصَّوْمُ فِي نِصْفِ الشَّهْرِ . وَقَالَ مُحَمَّدٌ : تَعْتَدُّ بَقِيَّةَ الشَّهْرِ بِالْأَيَّامِ ، وَبَاقِي الشُّهُورِ بِالْأَهِلَّةِ ، وَتُكْمِلُ الشَّهْرَ الْأَوَّلَ مِنْ الشَّهْرِ الْأَخِيرِ بِالْأَيَّامِ.وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ رِوَايَتَانِ : فِي رِوَايَةٍ مِثْلُ قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ ، وَفِي رِوَايَةٍ مِثْلُ قَوْلِ مُحَمَّدٍ ، وَهُوَ قَوْلُهُ الْأَخِيرُ . ( وَجْهُ ) قَوْلِهِمَا أَنَّ الْمَأْمُورَ بِهِ هُوَ الِاعْتِدَادُ بِالشَّهْرِ ، وَالْأَشْهُرُ اسْمُ الْأَهِلَّةِ فَكَانَ الْأَصْلُ فِي الِاعْتِدَادِ هُوَ الْأَهِلَّةُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى { يَسْأَلُونَكَ عَنْ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ ، وَالْحَجِّ } جَعَلَ الْهِلَالَ لِمَعْرِفَةِ الْمَوَاقِيتِ ، وَإِنَّمَا يُعْدَلُ إلَى الْأَيَّامِ عِنْدَ تَعَذُّرِ اعْتِبَارِ الْهِلَالِ فِي الشَّهْرِ الْأَوَّلِ فَعَدَلْنَا عَنْهُ إلَى الْأَيَّامِ وَلَا تَعَذُّرَ فِي بَقِيَّةِ الْأَشْهُرِ فَلَزِمَ اعْتِبَارُهَا بِالْأَهِلَّةِ ، وَلِهَذَا اعْتَبَرْنَا كَذَلِكَ فِي بَابِ الْإِجَارَةِ إذَا وَقَعَتْ فِي بَعْضِ الشَّهْرِ . كَذَا هَهُنَا ، وَلِأَبِي حَنِيفَةَ أَنَّ الْعِدَّةَ يُرَاعَى فِيهَا الِاحْتِيَاطُ فَلَوْ اعْتَبَرْنَاهَا فِي الْأَيَّامِ لَزَادَتْ عَلَى الشُّهُورِ وَلَوْ اعْتَبَرْنَاهَا بِالْأَهِلَّةِ لَنَقَصَتْ عَنْ الْأَيَّامِ فَكَانَ إيجَابُ الزِّيَادَةِ أَوْلَى احْتِيَاطًا بِخِلَافِ الْإِجَارَةِ ؛ لِأَنَّهَا تَمْلِيكُ الْمَنْفَعَةِ ، وَالْمَنَافِعُ تُوجَدُ شَيْئًا فَشَيْئًا عَلَى حَسَبِ حُدُوثِ الزَّمَانِ فَيَصِيرُ كُلُّ جُزْءٍ مِنْهَا كَالْمَعْقُودِ عَلَيْهِ عَقْدًا مُبْتَدَأً فَيَصِيرُ عِنْدَ اسْتِهْلَاكِ الشَّهْرِ كَأَنَّهُ ابْتَدَأَ الْعَقْدَ فَيَكُونُ بِالْأَهِلَّةِ بِخِلَافِ الْعِدَّةِ فَإِنَّ كُلَّ جُزْءٍ مِنْهَا لَيْسَ كَعِدَّةٍ مُبْتَدَأَةٍ .(بدائع الصنائع فَصْلٌ في بَيَان مَقَادِيرِ الْعِدَّةِ ، وَمَا تَنْقَضِي بِهِ: ۴۰۱/۷)۔الْغَيْرِ: ۴۴۸/۵)۔

اور حاملہ عورت کی عدت وضعِ حمل (بچہ کی ولادت تک) ہے۔حوالہ
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُن۔ (الطلاق:۴)۔

مسئلہ: عدتِ وفات بالغہ پر بھی واجب ہوتی ہے اور نابالغہ پر بھی، مسلمان عورت پر بھی، اور مسلمان مرد کے نکاح میں کوئی یہودی یا عیسائی خاتون ہو تو اس پر بھی ،شوہر نے اس سے صحبت کرلی ہو تب بھی اورصحبت نہ کی ہو جب بھی، البتہ یہ ضروری ہے کہ نکاح شرعا درست و معتبر ہو، اگر نکاح فاسد (نا معتبر) تھا اور مرد کا انتقال ہوگیا تو عدت واجب نہیں ہوگی۔حوالہ
وَأَمَّا الَّذِي يَجِبُ أَصْلًا بِنَفْسِهِ فَهُوَ عِدَّةُ الْوَفَاةِ ، وَسَبَبُ وُجُوبِهَا الْوَفَاةُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى { وَاَلَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا } ، وَأَنَّهَا تَجِبُ لِإِظْهَارِ الْحُزْنِ بِفَوْتِ نِعْمَةِ النِّكَاحِ إذْ النِّكَاحُ كَانَ نِعْمَةً عَظِيمَةً فِي حَقِّهَا فَإِنَّ الزَّوْجَ كَانَ سَبَبَ صِيَانَتِهَا ، وَعَفَافِهَا ، وَإِيفَائِهَا بِالنَّفَقَةِ ، وَالْكُسْوَةِ ، وَالْمَسْكَنِ فَوَجَبَ عَلَيْهَا الْعِدَّةُ إظْهَارًا لِلْحُزْنِ بِفَوْتِ النِّعْمَةِ ، وَتَعْرِيفًا لِقَدْرِهَا ، وَشَرْطُ وُجُوبِهَا النِّكَاحُ الصَّحِيحُ فَقَطْ فَتَجِبُ هَذِهِ الْعِدَّةُ عَلَى الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا ، سَوَاءٌ كَانَتْ مَدْخُولًا بِهَا أَوْ غَيْرَ مَدْخُولٍ بِهَا ، وَسَوَاءٌ كَانَتْ مِمَّنْ تَحِيضُ أَوْ مِمَّنْ لَا تَحِيضُ ؛ لِعُمُومِ قَوْلِهِ - عَزَّ وَجَلَّ - { وَاَلَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا } ، وَلِمَا ذَكَرْنَا أَنَّهَا تَجِبُ إظْهَارًا لِلْحُزْنِ بِفَوْتِ نِعْمَةِ النِّكَاحِ وَقَدْ وُجِدَ ، وَإِنَّمَا شَرَطْنَا النِّكَاحَ الصَّحِيحَ ؛ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَوْجَبَهَا عَلَى الْأَزْوَاجِ وَلَا يَصِيرُ زَوْجًا حَقِيقَةً إلَّا بِالنِّكَاحِ الصَّحِيحِ ، وَسَوَاءٌ كَانَتْ مُسْلِمَةً أَوْ كِتَابِيَّةً تَحْتَ مُسْلِمٍ لِعُمُومِ النَّصِّ ، وَلِوُجُوبِ الْمَعْنَى الَّذِي وَجَبَتْ لَهُ ، وَسَوَاءٌ كَانَتْ حُرَّةً أَوْ أَمَةً أَوْ مُدَبَّرَةً أَوْ مُكَاتَبَةً أَوْ مُسْتَسْعَاةً لَا يَخْتَلِفُ أَصْلُ الْحُكْمِ ؛ لِأَنَّ مَا وَجَبَتْ لَهُ لَا يَخْتَلِفُ ، وَإِنَّمَا يَخْتَلِفُ الْقَدْرُ لِمَا نَذْكُرُ (بدائع الصنائع فَصْلٌ في عِدَّة الْأَشْهُرِ: ۳۸۹/۷)۔

عدتِ طلاق وتفريق

عدت کا دوسرا سبب نکاح کے بعد رشتہ نکاح کا طلاق،خلع یا فسخ کے ذریعہ ختم ہوجانا ہے،چاہے نکاح خیار بلوغ یا حرمت مصاہرت یا کفائت نہ ہونے کی بنا پر فسخ کیا گیا ہو،ہاں ایک صورت اس سے مستثنیٰ ہے کہ اگر دارالحرب سے کوئی عورت دارالاسلام آجائے،مسلمان ہوکر آئے یا کفر ہی کی حالت میں ہو،تو اس کا نکاح پہلے شوہر سے فسخ ہوجائے گا لیکن اس عورت پر عدت واجب  نہیں ہوگی۔ حوالہ
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقرة:۲۲۸) وَكَذَلِكَ الْمُهَاجِرَةُ وَهِيَ الْمَرْأَةُ خَرَجَتْ إلَيْنَا مِنْ دَارِ الْحَرْبِ مُسْلِمَةً مُرَاغِمَةً لِزَوْجِهَا يَجُوزُ نِكَاحُهَا ، وَلَا عِدَّةَ عَلَيْهَا فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ : عَلَيْهَا الْعِدَّةُ وَلَا يَجُوزُ نِكَاحُهَا ( وَجْهُ ) قَوْلِهِمَا : إنَّ الْفُرْقَةَ وَقَعَتْ بِتَبَايُنِ الدَّارِ فَتَقَعُ بَعْدَ دُخُولِهَا دَارَ الْإِسْلَامِ وَهِيَ بَعْدَ الدُّخُولِ مُسْلِمَةٌ وَفِي دَارِ الْإِسْلَامِ ، فَتَجِبُ عَلَيْهَا الْعِدَّةُ كَسَائِرِ الْمُسْلِمَاتِ ، وَلِأَبِي حَنِيفَةَ قَوْله تَعَالَى : { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إذَا جَاءَكُمْ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ } إلَى قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ : { وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ إذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } أَبَاحَ تَعَالَى نِكَاحَ الْمُهَاجِرَةِ مُطْلَقًا مِنْ غَيْرِ ذِكْرِ الْعِدَّةِ وقَوْله تَعَالَى : { وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ } نَهَى اللَّهُ تَعَالَى الْمُسْلِمِينَ عَنْ الْإِمْسَاكِ وَالِامْتِنَاعِ عَنْ نِكَاحِ الْمُهَاجِرَةِ لِأَجْلِ عِصْمَةِ الزَّوْجِ الْكَافِرِ وَحُرْمَتِهِ ، فَالِامْتِنَاعُ عَنْ نِكَاحِهَا لِلْعِدَّةِ ، وَالْعِدَّةُ فِي حَقِّ الزَّوْجِ يَكُونُ إمْسَاكًا وَتَمَسُّكًا بِعِصْمَةِ زَوْجِهَا الْكَافِرِ ، وَهَذَا مَنْهِيٌّ عَنْهُ ، وَلِأَنَّ الْعِدَّةَ حَقٌّ مِنْ حُقُوقِ الزَّوْجِ وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَبْقَى لِلْحَرْبِيِّ عَلَى الْمُسْلِمَةِ الْخَارِجَةِ إلَى دَارِ الْإِسْلَامِ حَقٌّ (بدائع الصنائع فَصْلٌ أَنْ لَا تَكُونَ مُعْتَدَّةَ الْغَيْرِ: ۴۴۸/۵)۔

مسئلہ: نکاح کے بعد علاحدگی کی صورت میں اس وقت عدت واجب ہوتی ہے جب کہ نکاح صحیح رہا ہو، نکاح کے بعد شوہر کی عورت کے ساتھ اس طرح خلوت ہوئی ہو کہ ہمبستری میں کوئی طبعی مانع  نہ ہو۔

یا نکاح فاسد ہو اور ہمبستری ہوچکی ہو، نکاح فاسد کی صورت میں صرف خلوت ویکجائی کافی نہیں ،نکاح کے بعد جس عورت کے ساتھ اس طرح کی تنہائی ویکجائی نہ ہوئی ہو، اس پر عدت واجب نہیں۔

مسئلہ: جس عورت سے شبہ میں وطی کرلی گئی ہو،اس پر بھی عدت واجب ہوگی،زانیہ عورت پر حنفیہ کے نزدیک عدت واجب نہیں،ہاں،اگر حاملہ ہو تو چاہیے کہ نکاح کے بعد بھی ولادت تک اس سے صحبت نہ کرے،اگر حمل نہ ہو تو صحبت سے رکنا ضروری تو نہیں،لیکن مستحب ہے کہ ایک حیض گذر جانے دے تاکہ نسب میں اختلاط واشتباہ کا کوئی اندیشہ نہ رہے۔حوالہ
قضی خلفاء الراشدین المھدیون انہ اذا اغلق الباب وارخی الستووجب الصداق رواہ احمد والاثرم وزاد:وجبت العدۃ(اعلاء السنن:۱۱/۸۹،ط:کراچی) تجب العدة في الجملة بأحد أمرين: طلاق أو موت. والفسخ كالطلاق وذلك بعد الدخول (الوطء) من زواج صحيح أو فاسد أو شبهة بالاتفاق، أو بعد استدخال ذكر زائد، أو أشل، أو إدخال مني الزوج؛ لأنه أقرب إلى العلوق من مجرد الإيلاج ولاحتياجها لتعرف براءة الرحم، أو بعد خلوة صحيحة عند الجمهورتجب العدة بالفرقة بعد الدخول من زواج صحيح أو فاسد، أو بعد الخلوة الصحيحة في رأي الجمهورفإن كان الزواج فاسداً كزواج الخامسة أو المعتدة، فلا تجب العدة إلا بالدخول الحقيقي،
(الفقه الاسلامي وادلته سبب وجوب العدة ،۵۹۳/۹)

عدتِ طلاق کی مقدار

طلاق کی عدت مختلف حالات میں الگ الگ ہے۔
(الف) حاملہ عورت کی عدت وضعِ حمل (بچہ کی ولادت تک) ہے۔  حوالہ
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُن (الطلاق:۴)

(ب) جس عورت کو حیض کا سلسلہ جاری ہو، اس کی عدت تین حیض ہےحوالہ

ارشاد خداوندی ہے:

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ(البقرہ:۲۲۷)اس آیت میں قرء سے حنفیہ اورحنابلہ کے نزدیک حیض مراد ہے،(المغنی:۸/۸۱) کیونکہ آپ    نے باندی کی عدت دوحیض قراردی ہے،(ابن ماجہ،حدیث نمبر:۲۰۷۱)اس لیے ضروري ہے کہ آزاد عورت کی عدت بھی حیض ہی کے ذریعہ شمار کی جائے گی، پھر غور کرو کہ عدت کا مقصد کیا ہے؟ اس کے مختلف مقاصد ہیں، مگر سب سے اہم مقصد اس بارےميں مطمئين ہونا ہے کہ عورت کے رحم میں سابق شوہر کا نطفہ نہیں ہے اس لیے اب وہ دوسرے مرد کے نکاح میں جاسکتی ہے، یہ مقصد حیض ہی کے آنے سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ طہر سے ۔


 (ج) جن عورتوں کو کم سنی یا درازی عمر کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو،ان کی عدت قرآن مجید نے تین ماہ بتائی ہے۔حوالہ

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ (الطلاق:۴)


حضانت کا بیان

حضانت کے معنی

 یہ حضن سے ماخوذ ہے،حضن کے معنی پہلو کا ایک حصہ کے ہیں۔
جب پرندے انڈے پروں کے نیچے ڈھانپ لیتے ہیں تو عربی زبان میں اس کو کہاجاتا ہےحضن الطائر بیضہعورت کا پرورش کرنا ٹھیک اسی ممتا کا مظہر ہے جو ایک بے زبان مادہ کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ انڈوں یا چھوٹے بچوں کو اپنے آغوش محبت میں سمیٹ لے۔ حوالہ
حَضَنَ الطَّائِرُ بَيْضَهُ حَضْنًا مِنْ بَابِ قَتَلَ وَحِضَانًا بِالْكَسْرِ أَيْضًا ضَمَّهُ تَحْتَ جَنَاحِهِ (المصباح المنير۴۰۷/۲)

پرورش کے حقدار

پرورش کا حق عمر کی ایک حد تک عورتوں کو اوراس کے بعد مردوں کو حاصل ہوتاہے،البتہ حق پرورش کے معاملہ میں شریعت نے عورتوں کے طبعی رفق، شفقت اورچھوٹے بچوں کی طبعی صلاحیت،نیز خودماں کی ممتا اوراس کے جذبات مادری کی رعایت کرتے ہوئے عورتوں کو اولیت دی ہے۔ حوالہ
علامہ کاسانیؒ کے الفاظ میں: وَالْأَصْلُ فِيهَا النِّسَاءُ ؛ لِأَنَّهُنَّ أَشْفَقُ وَأَرْفَقُ وَأَهْدَى إلَى تَرْبِيَةِ الصِّغَارِ۔
(بدائع الصنائع فَصْلٌ: في بَيَانُ مَنْ لَهُ الْحَضَانَةُ:۲۳۴/۸)

اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ حق پرورش میں ماں سب سے پہلے اور مقدم ہے،اس کے بعد پھر جورشتہ کے اعتبار سے زیادہ قریب ہو،چنانچہ ماں کے بعد نانی چاہے وہ بالائی پشت کی ہو،نانی نہ ہو تو دادی اوردادی میں بھی یہی ترتیب ہے،کہ دادی نہ ہو تو پردادی بہن سے زیادہ مستحق ہے، دادی کے بعد بہن ،بہن کے بعد خالہ، خالہ کے بعد پھوپیوں کا درجہ ہے، بہن،خالہ، پھوپی،ان سب میں یہ ترتیب بھی ہے کہ ماں باپ دونوں کی شرکت کے ساتھ جو رشتہ ہو وہ مقدم ہے، اس کے بعد ماں شریک اور اس کے بعد باپ شریک کا درجہ ہے۔ حوالہ
والنفقة على الأب على ما نذكر ولا تجبر الأم عليه لأنها عست تعجز عن الحضانة فإن لم تكن له أم فأم الأم أولى من أم الأب وإن بعدت لأن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات فإن لم تكن أم الأم فأم الأب أولى من الأخوات لأنها من الأمهات ولهذا تحرز ميراثهن السدس ولأنها أوفر شفقة للولاد فإن لم تكن له جدة فالأخوات أولى من العمات والخالات لأنهن بنات الأبوين ولهذا قدمن في الميراث
(ھدایہ ،  باب الولد من احق به ؟:۳۸۳/۱)

اگر خواتین میں کوئی مستحق نہ ہو تو پھر حق پروش ان مردوں کی طرف لوٹے گا جو عصبہ رشتہ دار ہوں اوران رشتہ داروں میں جو وارث ہونے کے اعتبار سے مقدم ہوگا وہی حق پرورش کا بھی ذمہ دار ہوگا، فقہاء نے مردوں میں حق پرورش کی ترتیب یوں لکھی ہے، باپ،دادا، پردادا وغیرہ ، اس کے بعد حقیقی بھائی،پھر باپ شریک بھائی، پھر حقیقی بھتیجہ ،پھر باپ شریک بھائی کا لڑکا، پھر حقیقی چچا، پھر باپ شریک چچا ،پھر حقیقی چچازاد بھائی، اس کے بعد باپ شریک چچا کالڑکا، بشرطیکہ جس کی پرورش کی جارہی ہو وہ لڑکا ہو، لڑکی نہ ہو ان کے بعد باپ کے چچا اوردادا کے چچا وغیرہ کا حق ہے۔ حوالہ
عن عَمْرو بْن شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي (ابوداود بَاب مَنْ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ: ۱۹۳۸)عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ترمذي بَاب فِي كَرَاهِيَةِ التَّفْرِيقِ بَيْنَ السَّبْيِ السَّبْيِ: ۱۴۹۱) عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ طَلَّقَ أُمَّ عَاصِمٍ , ثُمَّ أَتى عَلَيْهَا , وَفِي حِجْرِهَا عَاصِمٌ , فَأَرَادَ أَنْ يَأْخُذَهُ مِنْهَا , فَتَجَاذَبَاهُ بَيْنَهُمَا حَتَّى بَكَى الْغُلاَمُ , فَانْطَلَقَا إلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ : يَا عُمَرُ ، مَسْحُهَا وَحِجْرُهَا وَرِيحُهَا خَيْرٌ لَهُ مِنْك حَتَّى يَشِبَّ الصَّبِيُّ فَيَخْتَارَ(مصنف ابن ابي شيبة  مَا قَالُوا ؛ فِي الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ وَلَهَا وَلَدٌ صَغِيرٌ: ۲۳۸/۵) وَلِلرِّجَالِ مِنْ الْعَصَبَاتِ مَدْخَلٌ فِي الْحَضَانَةِ ، وَأَوْلَاهُمْ الْأَبُ ، ثُمَّ الْجَدُّ أَبُو الْأَبِ وَإِنْ عَلَا ، ثُمَّ الْأَخُ مِنْ الْأَبَوَيْنِ ، ثُمَّ الْأَخُ مِنْ الْأَبِ ، ثُمَّ بَنُوهُمْ وَإِنْ سَفَلُوا ، عَلَى تَرْتِيبِ الْمِيرَاثِ ، ثُمَّ الْعُمُومَةُ ، ثُمَّ بَنُوهُمْ كَذَلِكَ ، ثُمَّ عُمُومَةُ الْأَبِ ، ثُمَّ بَنُوهُمْ (المغني كِتَابُ النَّفَقَاتِ۲۴۰/۱۸ )۔

حق پرورش کے لیے شرطیں

حق پرورش کے لیے ضروری ہے کہ جس کی پرورش کی جائے وہ نابالغ ہو اوراگر بالغ ہو تو معتوہ ہو (عقل وہوش کے اعتبار سے متوازن نہ ہو)۔
بالغ اورذی ہوش(رشید)لڑکے اورلڑکیاں والدین میں سے جس کے ساتھ رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں، لڑکے ہوں تو ان کو تنہا بھی رہنے کا حق حاصل ہے،لڑکی ہو تو اس کو تنہار رہنے کی اجازت نہ ہوگی۔ حوالہ
وَلَا تَثْبُتُ الْحَضَانَةُ إلَّا عَلَى الطِّفْلِ أَوْ الْمَعْتُوهِ ، فَأَمَّا الْبَالِغُ الرَّشِيدُ ، فَلَا حَضَانَةَ عَلَيْهِ ، وَإِلَيْهِ الْخِيرَةُ فِي الْإِقَامَةِ عِنْدَ مَنْ شَاءَ مِنْ أَبَوَيْهِ ، فَإِنْ كَانَ رَجُلًا ، فَلَهُ الِانْفِرَادُ بِنَفْسِهِ ، لِاسْتِغْنَائِهِ عَنْهُمَا ، وَيُسْتَحَبُّ أَنْ لَا يَنْفَرِدَ عَنْهُمَا ، وَلَا يَقْطَعَ بِرَّهُ عَنْهُمَا وَإِنْ كَانَتْ جَارِيَةً لَمْ يَكُنْ لَهَا الِانْفِرَادُ وَلِأَبِيهَا مَنْعُهَا مِنْهُ ؛ لِأَنَّهُ لَا يُؤْمَنُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهَا مَنْ يُفْسِدُهَا ، وَيُلْحِقُ الْعَارَ بِهَا وَبِأَهْلِهَا ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا أَبٌ ، فَلِوَلِيِّهَا وَأَهْلِهَا مَنْعُهَا مِنْ ذَلِكَ۔(المغنی كِتَابُ النَّفَقَاتِ:۲۲۴/۱۸)

حق پرورش کے لیے کچھ شرطیں وہ ہیں جو عورتوں اورمردوں دونوں کے لیے ضروری ہیں، کچھ شرطیں مردوں سے متعلق ہیں اورکچھ عورتوں سے متعلق،عورتوں اورمردوں کے لیے مشترکہ اوصاف میں سے یہ ہے کہ پرورش کرنے والا عاقل و بالغ ہو۔ حوالہ
عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يَشِبَّ وَعَنْ الْمَعْتُوهِ حَتَّى يَعْقِلَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْحَدُّ ۱۳۴۳)

بعض لوگوں نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ فاسق نہ ہو، لیکن حافظ ابن قیمؒ کا خیال ہے کہ فسق جتنا عام ہے،اس کے تحت اس قسم کی شرط لگانا بچوں کے حق میں مفید نہ ہوگا، اس لیے بھی کہ اکثر اوقات فاسق وفاجر ماں باپ بھی اپنے بچوں کے لیے فسق وفجور کی راہ کو پسند نہیں کرتے۔ حوالہ
والعادة شاهدة بأن الرجل لو كان من الفساق فإنه يحتاط لابنته ولا يضيعها (فقہ السنہ:۲/۳۴۲) 

حقیقت یہ ہے کہ ابن قیمؒ کی رائے عین قرین قياس ہے،بشرطیکہ پرورش کرنے والی ایسی پیشہ ورفاسقہ نہ ہو کہ اس سے اپنے زیر پرورش بچوں کو غلط راہ پر ڈال دینا غیر متوقع نہ ہوحوالہ
وَعَلَى هَذَا فَالْمُرَادُ فِسْقٌ يَضِيعُ الْوَلَدُ بِهِ(ردالمحتار،باب الحضانۃ۲۲/۱۳)

امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک جب تک بچوں میں دین کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہ ہوجائے کافرہ ماں کو بھی بچہ پر حق پرورش حاصل ہے،ہاں  اگر عورت مرتد ہوجائے تو اس کو حق پرورش بھی باقی نہ رہے گا،غلامی بھی حق پرورش میں مانع ہے،غلام یا باندی اس حق سے محروم رہیں گے، کہ وہ بچہ کی مناسب پرورش وپرداخت کے لیے وقت فارغ نہیں کرسکتے۔ حوالہ
والذمية أحق بولدها المسلم مالم يعقل الأديان أو يخاف أن يألف الكفر للنظر قبل ذلك واحتمال الضرر بعده ولا خيار للغلام والجارية۔(ھدایہ ،  باب الولد من احق به ؟:۳۸۳/۱)

عورتوں کے لیے حق پرورش کی خاص شرط یہ ہے کہ وہ بچہ کی محرم رشتہ دار ہو۔ حوالہ
ان تکون المرأۃ ذات رحم محرم من الصغار(بدائع الصنائع:فَصْلٌ في بَيَان مَنْ لَهُ الْحَضَانَةُ ۲۳۴/۸)

دوسرے اس نے کسی ایسے مرد سے نکاح نہ کیا ہو،جو اس زیر پرورش بچہ کا محرم نہ ہو، اگر ایسے اجنبی شخص سے نکاح کرلیا تو اس کا حق پرورش ختم ہوجائے گا، ہاں اگر اس کا نیا شوہر بچہ کا محرم ہو، جیسے بچہ کے چچا سے نکاح کرلے،یا بچہ کی نانی اس کے دادا سے نکاح کرلے تو اس کے حق پرورش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، روایت موجود ہے کہ ایک خاتون کو حق پرورش دیتے ہوئے آپ    نے فرمایا تھا:
أنت احق بہ مالم تنکحی حوالہ
(ابو داود بَاب مَنْ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ ۱۹۳۸)

مردوں کو حق پرورش حاصل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اگر زیر پرورش لڑکی کا مسئلہ ہو تو وہ مرد اس کا محرم ہوتا ہو،البتہ اگر کوئی دوسرا پرورش کنندہ موجود نہ ہو اور قاضی مناسب سمجھے اور مطمئن ہو تو وہ چچازاد بھائی کے پاس بھی لڑکی کو رکھ سکتا ہے،لڑکی کا حق پرورش  جس کو دیا جائے ضروری ہے کہ وہ مرد امین اور قابل اعتماد ہو، یہاں تک کہ بھائی اور چچا ہی کیوں نہ ہو لیکن فسق وخیانت کی وجہ سے اس پر اطمینان نہ محسوس کیا جائے تو اسے حق پرورش حاصل نہ ہوسکے گا۔

حق پرورش کی مدت

ماں اور دادی، نانی کو اس وقت تک لڑکوں کا حق پرورش حاصل ہوگا جب تک کہ خود ان میں کھانے پینے ،استنجاء کرنے اورکپڑے پہننے وغیرہ کی صلاحیت پیدا ہوجائے، امام ابوبکر خصافؒ نے اس کی مدت کا اندازہ سات آٹھ سال سے کیا ہے اوراسی سات  سال والے قول پر فتویٰ ہے،اس کے بعد چونکہ لڑکوں کو تہذیب وثقافت اورآداب واخلاق کی ضرورت ہے،اس لیے بچے باپ کے حوالے کردئے جائیں گے، لڑکیاں ہوں تو بالغ ہونے کے بعد باپ کے حوالے کردی جائیں گی، دادی،نانی اورماں کے سوا دوسری پرورش کنندہ خواتین لڑکیوں کو اس عمر تک اپنے پاس رکھیں گی، جب تک اس کی طرف مردوں کا شہوت کے ساتھ میلان نہ ہوسکے۔ حوالہ
ووجهه أنه إذا استغنى يحتاج إلى التأدب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقهم والأب أقدر على التأديب والتثقيف و الخصاف رحمه الله قدر الاستغناء بسبع سنين اعتبارا للغالب والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض لأن بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والممرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأخدى (ھدایہ،با ب الولد من احق به :۲۳۴/۸)

حداد (سوگ) کا بیان

سوگ کا حکم

فطرت انسانی ہر خوشی وغم سے متاثر ہوتی ہے اورجب تک اپنی خوشی و غم کا اظہار نہیں کرلیتی اس وقت تک اسے چین وسکون نصیب نہیں ہواکرتا چونکہ اللہ تعالی نے دنیا کی ہرچیز کو فانی بنایا ہے تو یہاں کی ہر خوشی اور ہر مصیبت بھی فانی ہے اس لیے اللہ تعالی نے شریعت اسلامی میں ان چیزوں کے بھی اصول وضوابط رکھے ہیں کہ کہیں بندہ ان حالتوں میں حدود سے تجاوز کرکے دنیوی واخروی نقصان نہ کربیٹھے
کسی کے انتقال وغیرہ پر سوگ یا غم منانے کا جو تصور زمانہ جاہلیت میں تھا اللہ تعالی نے اپنے حبیب محمد عربی    کے واسطہ سے اس کی اصلاح کی اور ہمیں یہ درس دیا کہ ساری چیزیں من جانب اللہ ہواکرتی ہیں، اس لیے ان حالتوں میں غیر ضروری چیخنا چلانا گریبان چاک کرنا،گریہ وزاری کرنا ہمیں زیب نہیں ديتا بلکہ اس وقت صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ
(بخاري بَاب لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ:۱۲۱۴)

سوگ میں عورت سےمتعلق احكام

(۱) البتہ عورت جب تک عدت میں رہے(خواہ عدتِ طلاق ہویا وفات) اس وقت تک گھر سے باہر نہ نکلے نہ اپنا نکاح دوسرے سے کرے نہ  زیب وزینت کرے نہ اچھے کپڑے پہنے۔ حوالہ
لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ (الطلاق:۱) أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ(الطلاق:۳)
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا وَلَا نَكْتَحِلَ وَلَا نَتَطَيَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ وَكُنَّا نُنْهَى عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ(بخاري بَاب الطِّيبِ لِلْمَرْأَةِ عِنْدَ غُسْلِهَا مِنْ الْمَحِيضِ:۳۰۲)

(۲) سر میں درد ہونے کی وجہ سے ایسا تیل لگالے جس میں خوشبو نہ ہو اسی طرح دوا کے طور پر سرمہ لگانا بھی ضرورت کے وقت درست ہے اور ضرورت پڑنے پر کنگھی کرلے لیکن مانگ نہ نکالے۔ حوالہ
وَإِنَّمَا يَلْزَمُهَا الِاجْتِنَابُ فِي حَالَةِ الِاخْتِيَارِ أَمَّا فِي حَالَةِ الِاضْطِرَارِ فَلَا بَأْسَ بِهَا إنْ اشْتَكَتْ رَأْسَهَا أَوْ عَيْنَهَا فَصَبَّتْ عَلَيْهَا الدُّهْنَ أَوْ اكْتَحَلَتْ لِأَجْلِ الْمُعَالَجَةِ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَلَكِنْ لَا تَقْصِدُ بِهِ الزِّينَةَ كَذَا فِي الْمُحِيطِ .(فتاوي هندية الْبَابُ الرَّابِعَ عَشَرَ فِي الْحِدَادِ:۲۵۴/۱۱)

(۳) کم عمر نابالغ لڑکی ہو تو ساری چیزیں کرسکتی ہے البتہ گھر سے باہر نہ نکلے نہ عدت ختم ہونے تک دوسرے سے نکاح کرے۔ حوالہ
وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ
(البقرة:۲۳۷)
فَلَا يَجِبُ عَلَى الصَّغِيرَةِ وَالْمَجْنُونَةِ الْكَبِيرَةِ وَالْكِتَابِيَّةِ وَالْمُعْتَدَّةِ مِنْ نِكَاحٍ فَاسِدٍ وَالْمُطَلَّقَةِ طَلَاقًا رَجْعِيًّا ، وَهَذَا عِنْدَنَا .
(بدائع الصنائع فصل في أَحْكَام الْعِدَّةِ: ۴۴۶/۷)

(۴) شوہر کے علاوہ کسی کے انتقال پر سوگ منانا (یعنی زیب وزینت وغیرہ نہ کرنا) درست نہیں البتہ اگر شوہر اجازت دے تو تین دن تک اس طرح کرسکتی ہے۔ حوالہ
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا وَلَا نَكْتَحِلَ وَلَا نَتَطَيَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ وَكُنَّا نُنْهَى عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ (بخاري بَاب الطِّيبِ لِلْمَرْأَةِ عِنْدَ غُسْلِهَا مِنْ الْمَحِيضِ:۳۰۲) مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ زینت شوہر کا حق ہے اور کسی کا حق اس کی اجازت کے بغیر لینا درست نہیں یہ اور بات ہے اجازت زبانی بھی ہوتی اور بے زبانی بھی۔  وللزوج منع زوجته من الحداد على الأقرباء؛ لأن الزينة حقه.(الفقه الاسلامي وادلته الإحداد أو الحداد: ۶۲۴/۹)۔

متفرقات

(۱) جب کسی شادی شدہ عورت کو اولاد ہوگی تو وہ اس کے شوہر ہی کی اولاد ہوگی،کسی شبہ کی بنیاد پر یہ کہنا کہ یہ اس کے شوہر سے نہیں ہے؛ بلکہ فلاں آدمی سے ہے، درست نہیں اور اس لڑکے کو حرامی کہنا بھی درست نہیں ،اگر اسلامی حکومت ہو تو اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔حوالہ
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ َ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَر
(بخاري بَاب تَفْسِيرِ الْمُشَبَّهَاتِ :۱۹۱۲)

(۲) حمل کی مدت کم سے کم چھ ماہ ہیں اورزیادہ سے زیادہ دو سال، چھ مہینہ سے پہلے بچہ کی پیدائش نہیں ہوسکتی اورنہ دوسال سے زائد حمل رہتا ہے۔ حوالہ
وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا
(الاحقاف:۱۵)
وَحَمْلُهُ وفصاله ، أي مدة حمله وفصاله
(روح المعاني ۱۶/۱۹)
>عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لاَ يَكُونُ الْحَمْلُ أَكْثَرَ مِنْ سَنَتَيْنِ قَدْرَ مَا يَتَحَوَّلُ ظِلُّ الْمِغْزَلِ
(سنن الدار قطني النكاح:۳۹۲۰)

(۳) شرعی ضابطہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے بچہ کو حرامی نہ کہے، اس لیے پورے چھ مہینہ میں یا اس سے زیادہ میں جو بچہ پیدا ہو یا نکاح ہونے کے بعد رخصتی سے پہلے پیدا ہو اوراس پر شبہ ہو تو حرامی نہ کہیں گے اوراگر شوہر انکار کرے تو پہلے لعان ہوگا (بشرطیکہ اسلامی ملک ہو)پھرحکم لگایا جائے گا۔ حوالہ
وقد دل ظاهر الحديث على أن الولد إنما يلحق بالأب بعد ثبوت الفراش، وهو لا يثبت إلا بعد إمكان الوطء في الزواج الصحيح أو الفاسد. وهو رأي الجمهور. وروي عن أبي حنيفة أنه يثبت بمجرد العقد؛ لأن مجرد المظنة كافية
(الفقه الاسلامي وادلته عناية الشرع بالنسب وتحريم التبني والإلحاق من طريق غير مشروع:۳/۱۰) 

(۴) نکاح میں شرط لگانا ناجائز ہے لہذا حلالہ کے سلسلہ میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ شوہر سے مطلقہ عورت یا اس کا سرپرست یا خود نکاح کرنے والا یہ شرط نہ لگائے کہ نکاح کے بعد وہ اس کو طلاق دیدیگا بلکہ یہ نکاح اسی طرح ہونا چاہیے جس طرح عمومی نکاح ہوا کرتے ہیں اوراس کے بعد طلاق بھی اسی ضرورت کی وجہ سے دینا چاہیے جس کی بنا پر شریعت نے طلاق دینےکی اجازت دی ہے۔حوالہ
إن كان الشرط صحيحاً   يلائم مقتضى العقد، ولايتنافى مع أحكام الشرع، وجب الوفاء به، كاشتراط المرأة أن يسكنها وحدها في منزل، لا مع أهله أو مع ضَرَّتها، أو ألا يسافر بها سفراً بعيداً إلا بإذن أهلها وأن كان الشرط فاسداً، أي لا يلائم مقتضى العقد، أو لا تجيزه أحكام الشرع، فالعقد صحيح، ويبطل الشرط وحده، مثل اشتراط الخيار لأحد الزوجين أو لكل منهما أن يعدل عن الزواج في مدة معينة، وهذا بخلاف القاعدة العامة: وهي أن الشرط الفاسد في المعاوضات المالية كالبيع يفسدها.فإن ورد النهي عن الشرط، كاشتراط طلاق ضرتها، كره الوفاء به، لحديث  لا يحل لامرأة تسأل طلاق ضَرتها .
(الفقه الاسلامي وادلته الشروط في الزواج:۴۶،۴۷/۹)

4 comments:

  1. ماشاءالله بہت بہت جزاک اللہ اپکا بہت شکریہ

    ReplyDelete
  2. ظهار کی کتنی اقسام هیں رهنمائی فرمائیں

    ReplyDelete
  3. ظهار کی کتنی اقسام هیں رهنمائی فرمائیں

    ReplyDelete
  4. ظهار کی کتنی اقسام هیں رهنمائی فرمائیں

    ReplyDelete