Tuesday 23 July 2013

يمین نذر لقطہ وقف اور آداب مسجد کا بیان

قسم کھانے کے معنی اور اس کی قسمیں
یمین کی لغوی و اصطلاحی تعریف
یمین کے لغوی معنی:قوت اورطاقت کے ہیں۔ حوالہ
وَالْيَمِينُ الْقُوَّةُ وَالشِّدَّةُ(المصباح المنير ۴۹۴/۱۰)

یمین کی اصطلاحی تعریف: کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر عزم مصمم کا اظہار کرنا۔حوالہ
قسم کھانے کے عمل کو(حلف) لینا کہتے ہیں۔حوالہ
قِيلَ سُمِّيَ الْحَلِفُ يَمِينًا(المصباح المنير ۴۹۴/۱۰)۔

یمین کا مقصد
انسان جب اپنی بات کو مؤکد کرنا چاہتا ہے یا سامع کو اپنی بات پر اعتماد دلوانا چاہتا ہے تو قسم کا استعمال کرتا ہے، شریعت نے اس کی اجازت تو دی ہے لیکن صحیح بات کی قسم کھانے پر اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اورغلط کام کے کرنے پر قسم کھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اوراس کا جرمانہ یعنی کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا، نیز اگر کوئی ہر بات کے لیے قسم کا استعمال کرتا ہو تو اسے پسند نہیں کیا گیاہے اس لیے کہ اس میں اللہ تعالی کے نام اوراس کے صفات کی توہین ہے اور وہ خود بھی بار بار قسم کا استعمال کرنے سے دنیا کی نظر میں  انسان غیر معتمد ہوجاتا ہے۔ 
حوالہ
وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا (النحل:۹۱) لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ (المائدة:۸۹) وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ (القلم:۱۰)وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ(البقرة:۲۲۴)۔

کن الفاظ سے قسم کھائی جاسکتی ہے؟
یا تو لفظ اللہ یا پھر اللہ کی ایسی صفت سے قسم کھائی جائے جس کے ذریعہ عرف میں صرف اللہ ہی مراد لیے جاتے ہوں جیسے رحمن، رحیم، خالق وغیرہ بہرحال عرف میں اللہ کے ساتھ مخصوص صفات ہی سے قسم کھانی چاہیے ۔
اس کے علاوہ غیر اللہ ،پیغمبر،کسی بزرگ،آباءواجداد کی قسم کھانا جائز نہیں ۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْرَكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَسِيرُ فِي رَكْبٍ يَحْلِفُ بِأَبِيهِ فَقَالَ أَلَا إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ (بخاري بَاب لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ۶۱۵۵)۔

یمین کے اقسام اور احکام
یمین کی تین قسمیں ہیں: (۱)یمین غموس،    (۲)یمین لغو،       (۳)یمین منعقدہ۔حوالہ
الْيَمِينُ  بِاَللَّهِ  تَعَالَى مُنْقَسِمٌ ثَلَاثَةَ أَقْسَامٍ فِي عُرْفِ الشَّرْعِ يَمِينُ الْغَمُوسِ وَيَمِينُ اللَّغْوِ وَيَمِينٌ مَعْقُودَةٌ(بدائع الصنائع كِتَابُ الْأَيْمَانِ۲۰۱/۶)۔ 

(۱) یمین غموس: کسی گزشتہ یا موجودہ بات  یا واقعہ کے سلسلہ میں جان بوجھ کر حقیقت کے خلاف جھوٹی بات کہہ کر قسم کھانا جیسے کسی نے پوچھا، کل زید آیا تھا؟ جواب دیا گیا: بخدا کل زید نہیں آیا(حالانکہ جواب دینے والے کو یہ علم ہے کہ حقیقتاً زید آیا تھا)۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ هُوَ فِيهَا فَاجِرٌ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ(ترمذي بَاب وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۲۹۲۲) أَمَّا يَمِينُ الْغَمُوسِ فَهِيَ الْكَاذِبَةُ قَصْدًا فِي الْمَاضِي وَالْحَالِ عَلَى النَّفْيِ أَوْ عَلَى الْإِثْبَاتِ وَهِيَ الْخَبَرُ عَنْ الْمَاضِي أَوْ الْحَالِ فِعْلًا أَوْ تَرْكًا مُتَعَمِّدًا لِلْكَذِبِ فِي ذَلِكَ مَقْرُونًا بِذِكْرِ اسْمِ اللَّهِ تَعَالَى نَحْوُ أَنْ يَقُولَ : وَاَللَّهِ مَا فَعَلْتُ كَذَا وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ فَعَلَهُ ، أَوْ يَقُولَ : وَاَللَّهِ لَقَدْ فَعَلْتُ كَذَا وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ يَفْعَلْهُ ، أَوْ يَقُولَ : وَاَللَّهِ مَا لِهَذَا عَلَيَّ دَيْنٌ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ لَهُ عَلَيْهِ دَيْنًا فَهَذَا تَفْسِيرُ يَمِينِ الْغَمُوسِ(بدائع الصنائع:كِتَابُ الْأَيْمَانِ۲۰۳/۶)
یمین غموس کا حکم: یہ ہے کہ استغفار کیا جائے کہ آئندہ اس طرح کی قسم نہیں کھاؤں گا اس لیے کہ شریعت میں اسے ناپسند کیا گیاہے اوراللہ کے رسول  نے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا البتہ اس میں کوئی کفارہ نہیں ہے۔حوالہ

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْكَبَائِرُ الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ(بخاري بَاب الْيَمِينِ الْغَمُوسِ۶۱۸۲) وَالظَّاهِرُ أَنَّ هَذِهِ الْأُمُورَ لَا كَفَّارَةَ لَهَا إلَّا التَّوْبَةَ مِنْهَا(نيل الاوطار بَابُ مَا جَاءَ فِي الْيَمِينِ الْغَمُوسِ وَلَغْوِ الْيَمِينِ۲۴۰/۱۳)۔

(۲) یمین لغو: اس کی تعریف عام طور پر یہ کی جاتی ہے ؛کوئی شخص گزشتہ کے کسی بات کے ہونے یا نہ ہونے پر قسم کھالے اوروہ اپنے آپ کو اس میں صحیح سمجھے لیکن حقیقت اس کے خلاف ہو جیسے سوال کیا گیا کہ کل زید آیا تھا؟تو جواب دینے والے نے اپنے علم کے مطابق جواب دیا کہ ہاں! آیا تھا لیکن حقیقت میں وہ آیا نہیں تھا اس کے علاوہ بات بات پر قسم کھانا معمول بن جائے یہ بھی یمین لغو میں داخل ہے خلاصہ یوں سمجھئے کہ وہ تمام قسمیں جو انسان کسی غلط فہمی کی بناء پر یا تکیہ کلام کے طور پر یا بے فائدہ کھائے وہ یمین لغو ہیں۔حوالہ
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَاأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ{ لَا يُؤَاخِذُكُمْ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ }فِي قَوْلِ الرَّجُلِ لَا وَاللَّهِ وَبَلَى وَاللَّهِ(بخاري بَاب قَوْلِهِ{ لَا يُؤَاخِذُكُمْ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ }۴۲۴۷) وَأَمَّا يَمِينُ اللَّغْوِ فَقَدْ اُخْتُلِفَ فِي تَفْسِيرِهَا ، قَالَ أَصْحَابُنَا : هِيَ الْيَمِينُ الْكَاذِبَةُ خَطَأً أَوْ غَلَطًا فِي الْمَاضِي أَوْ فِي الْحَالِ وَهِيَ أَنْ يُخْبِرَ عَنْ الْمَاضِي أَوْ عَنْ الْحَالِ عَلَى الظَّنِّ أَنَّ الْمَخْبَرَ بِهِ كَمَا أَخْبَرَ وَهُوَ بِخِلَافِهِ فِي النَّفْيِ أَوْ فِي الْإِثْبَاتِ ، نَحْوُ قَوْلِهِ : وَاَللَّهِ مَا كَلَّمْتُ زَيْدًا وَفِي ظَنِّهِ أَنَّهُ لَمْ يُكَلِّمْهُ ، أَوْ وَاَللَّهِ لَقَدْ كَلَّمْتُ زَيْدًا وَفِي ظَنِّهِ أَنَّهُ كَلَّمَهُ وَهُوَ بِخِلَافِهِ أَوْ قَالَ : وَاَللَّهِ إنَّ هَذَا الْجَائِيَ لَزَيْدٌ ، إنَّ هَذَا الطَّائِرَ لَغُرَابٌ وَفِي ظَنِّهِ أَنَّهُ كَذَلِكَ ثُمَّ تَبَيَّنَ بِخِلَافِهِ وَهَكَذَا رَوَى ابْنُ رُسْتُمَ عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ قَالَ : اللَّغْوُ أَنْ يَحْلِفَ الرَّجُلُ عَلَى الشَّيْءِ وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ حَقٌّ وَلَيْسَ بِحَقٍّ(بدائع الصنائع:كِتَابُ الْأَيْمَانِ۲۰۴/۶)۔

یمین لغو کا حکم: اس قسم میں کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی کفارہ ہے،بہتر ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔حوالہ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ۔ (المائدة:۸۹)۔

(۳) یمین منعقدہ: مستقبل کے بارے میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھانا جیسے واللہ میں کل دس رکعت نماز پڑھو نگا۔حوالہ

وَأَمَّا الْيَمِينُ الْمَعْقُودَةُ فَهِيَ الْيَمِينُ عَلَى أَمْرٍ فِي الْمُسْتَقْبَلِ نَفْيًا أَوْ إثْبَاتًا نَحْوَ قَوْلِهِ وَاَللَّهِ لَا أَفْعَلُ كَذَا وَكَذَا وَقَوْلِهِ وَاَللَّهِ لَأَفْعَلَن كَذَا (بدائع الصنائع:كِتَابُ الْأَيْمَانِ۲۰۹/۶)۔
یمین منعقدہ کا حکم: یہ ہے کہ اچھا کام کرنے کی قسم کھائی ہے تو اسے پورا کرنا ہوگا اگر نہ کرسکا تو کفارہ دینا پڑیگا اوراگر کوئی غلط اوربرا کام کرنے کی قسم کھائی ہے تو اس قسم کو توڑ کر کفارہ دیدے۔  وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا (النحل:۹۱) وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ (المائدة:۸۹)۔

قسم کا کفارہ
اگر کوئی شخص قسم کو پوری نہ کرپائے تو اس پرکفارہ کی ادائیگی واجب ہے، کفارے کی اول تین صورتیں ہیں ۔(۱) مسکینوں کو کھاناکھلانا۔(۲) کپڑے پہنانا ۔(۳) غلام آزاد کرنا ،ان تینوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرسکتا ہے اگر ان میں سے کسی پر بھی قادر نہ ہوا تو پھر تین روزے رکھے (اس کی تفصیل ‘ایلاء’کے بیان میں گزرچکی ہے) اگر حانث ہونے سے پہلے قسم کا کفارہ ادا کردے تو ادا نہ ہوگا۔ حوالہ
فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ(المائدة:۸۹) فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَلْيَأْتِهَا وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ(مسلم بَاب نَدْبِ مَنْ حَلَفَ يَمِينًا فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا أَنْ يَأْتِيَ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَيُكَفِّرُ عَنْ يَمِينِهِ۳۱۱۳)( قَوْلُهُ لَا يَسْتَرِدُّ مِنْ الْفَقِيرِ ) يَعْنِي إذَا دَفَعَ إلَى الْفَقِيرِ الْكَفَّارَةَ قَبْلَ الْحِنْثِ وَقُلْنَا لَا يُجْزِيهِ(فتح القدير فَصْلٌ فِي الْكَفَّارَةِ۴۵۶/۱۰)


نذر کا بیان
نذر کی تعریف
نذر کی لغوی و اصطلاحی تعریف
نذر کی لغوی تعریف:كسی برائی يا اچھائی كا عہد كرنا۔
 حوالہ
النذر لغة: الوعد بخير أو شر(الفقه الاسلامي وادلته الفَصْلُ الثَّاني: النّذور۱۰۹/۴)

نذر کی اصطلاحی تعریف: کسی مباح اور جائز چیز کو اپنے اوپر لازم اور ضروری کرلینا۔حوالہ
وشرعاً: الوعد بخير خاصة(الفقه الاسلامي وادلته الفَصْلُ الثَّاني: النّذور۱۰۹/۴)

مسئلہ: اگر کوئی شخص زبان سے یہ کہدے کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں دس روزے رکھوں گا تو جو روزے اس پر ضروری نہیں تھے وہ اس کام کے ہوجانے کے بعد اس کے ذمہ لازم ہوجائیں گے۔

نذر کی شرائط

(۱)نذر ماننے والا، عاقل، بالغ، اورمسلمان ہو، پاگل یا ناسمجھ بچہ اور کافر کی نذر کا اعتبار نہیں۔ حوالہ
عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يَشِبَّ وَعَنْ الْمَعْتُوهِ حَتَّى يَعْقِلَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْحَدُّ ۱۳۴۳)( مِنْهَا ) الْعَقْلُ .( وَمِنْهَا ) الْبُلُوغُ ، فَلَا يَصِحُّ نَذْرُ الْمَجْنُونِ وَالصَّبِيِّ الَّذِي لَا يَعْقِلُ ، لِأَنَّ حُكْمَ النَّذْرِ وُجُوبُ الْمَنْذُورِ بِهِ ، وَهُمَا لَيْسَا مِنْ أَهْلِ الْوُجُوبِ ، وَكَذَا الصَّبِيُّ الْعَاقِلُ ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ وُجُوبِ الشَّرَائِعِ… ( وَمِنْهَا ) الْإِسْلَامُ فَلَا يَصِحُّ نَذْرُ الْكَافِرِ (بدائع كِتَابُ النَّذْرِ ۳۲۴/۱۰)۔

(۲)جس چیز کی نذر مانی جارہی ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا وجود ممکن ہو جیسے رات میں روزہ رکھنے کی نذر مانے تو اس کا وجود رات میں ممکن نہیں اس لیے یہ نذر صحیح نہ  ہوگی

(۳)  وہ چیز عبادت مقصودہ کے قبیل سے ہو،جیسے نماز پڑھنے ،روزہ رکھنے وغیرہ کی نذر
مسئلہ: لہذا اگر کوئی معصیت کی نذر مانے تو اس کی نذر صحیح نہ ہوگی لیکن ایسی نذر مان لے تو قسم کا کفارہ دینا پڑیگا

(۴) جس چیز کی نذر مانی جارہی ہے وہ پہلے سے اس کے ذمہ فرض یا واجب نہ ہو جیسے پانچ وقت کی نماز، نماز جنازہ، وتر وغیرہ کی نذر صحیح نہیں۔ حوالہ
عن ثَابِت بْن الضَّحَّاكِ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَى مِلَّةٍ غَيْرِ الْإِسْلَامِ فَهُوَ كَمَا قَالَ وَلَيْسَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَذْرٌ فِيمَا لَا يَمْلِكُ(بخاري بَاب مَا يُنْهَى مِنْ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ۵۵۸۷)عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْرَ إِلَّا فِيمَا ابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا يَمِينَ فِي قَطِيعَةِ رَحِمٍ(مسند احمد مسند عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ۶۷۳۲) عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّ أَخَوَيْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ كَانَ بَيْنَهُمَا مِيرَاثٌ فَسَأَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ الْقِسْمَةَ فَقَالَ إِنْ عُدْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ الْقِسْمَةِ فَكُلُّ مَالٍ لِي فِي رِتَاجِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ إِنَّ الْكَعْبَةَ غَنِيَّةٌ عَنْ مَالِكَ كَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ وَكَلِّمْ أَخَاكَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَمِينَ عَلَيْكَ وَلَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ الرَّبِّ وَفِي قَطِيعَةِ الرَّحِمِ وَفِيمَا لَا تَمْلِكُ(ابوداود بَاب الْيَمِينِ فِي قَطِيعَةِ الرَّحِمِ۲۸۴۷)عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ۱۴۴۴)،( مِنْهَا ) أَنْ يَكُونَ مُتَصَوَّرَ الْوُجُودِ فِي نَفْسِهِ شَرْعًا ، فَلَا يَصِحُّ النَّذْرُ بِمَا لَا يُتَصَوَّرُ وُجُودُهُ شَرْعًا كَمَنْ قَالَ : لِلَّهِ  تَعَالَى  عَلَيَّ أَنْ أَصُومَ لَيْلًا أَوْ نَهَارًا…لِأَنَّ اللَّيْلَ لَيْسَ مَحِلَّ الصَّوْمِ (بدائع بيان ركن النذر وشرائطه ۳۲۶/۱۰)۔

(۵) نذر کے الفاظ کے ساتھ اگر کوئی انشاء اللہ لگادے تو نذر کا پورا کرنا ضروری نہ ہوگا، جیسے مجھ پر حج کرنا ہے انشاء اللہ، اس انشاء اللہ کی وجہ سے نذر منعقد نہ ہوگی۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ حَلَفَ فَقَالَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ فَقَدْ اسْتَثْنَى(نسائي باب الِاسْتِثْنَاءُ۳۷۶۸)









لقطہ (گری پڑی چیز)کا بیان
لقطہ کی تعریف
لقطہ کی لغوی و اصطلاحی تعریف
لقطہ کی لغوی معنی: کسی چیز کا لینا، اٹھانا  ۔حوالہ
لَقَطْتُ الشَّيْءَ لَقْطًا مِنْ بَابِ قَتَلَ أَخَذْتُهُ(المصباح المنير۳۰۰/۸)
بند
لقطہ کی اصطلاحی معنی: زمین پرگری پڑی چیز، جس کا مالک معلوم نہ ہو، کسی شخص کا وہ کھویا ہوا مال جو کوئی اورشخص اٹھالے ۔حوالہ
اللُّقَطة:هو مالٌ يوجد على الأرض ولا يعرف له مالك،(التعريفات:۶۲/۱)
بند
 لقطہ(گری پڑی چیز) جاندار اورغیر جاندار دونوں ہوسکتے ہیں اگر جاندار ہوتو اسے لقیط کہتے ہیں۔حوالہ
اسم لما يطرح على الأرض من صغار بني آدم،(التعريفات:۶۲/۱)





لقطہ کے متعلق کچھ احكام
(۱)لقطہ اٹھانے کا حکم یہ ہے کہ اگر اندیشہ ہو کہ اسے نہ اٹھایا جائے تو وہ ضائع ہوجائے گا تو اصل مالک تک پہنچانے کی نیت سے اٹھا لینا مستحب ہے،اگر اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو اس كے مالک تک پہنچانے کی نیت سے اٹھا لینا مباح ہے اور دونوں صورتوں میں اگر نیت یہ ہو کہ خود ہی رکھ لیں گے، مالک کو نہ پہنچائیں گے تو حرام ہے۔حوالہ
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ اللُّقَطَةِ فَقَالَ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا وَإِلَّا فَاعْرِفْ وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا وَعَدَدَهَا ثُمَّ كُلْهَا فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي اللُّقَطَةِ وَضَالَّةِ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ ۱۲۹۴)أَمَّا حَالَةُ النَّدْبِ : فَهُوَ أَنْ يُخَافَ عَلَيْهَا الضَّيْعَةُ لَوْ تَرَكَهَا فَأَخْذُهَا لِصَاحِبِهَا أَفْضَلُ مِنْ تَرْكِهَا ؛ لِأَنَّهُ إذَا خَافَ عَلَيْهَا الضَّيْعَةَ كَانَ أَخْذُهَا لِصَاحِبِهَا إحْيَاءً لِمَالِ الْمُسْلِمِ مَعْنًى فَكَانَ مُسْتَحَبًّا  وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ  وَأَمَّا حَالَةُ الْإِبَاحَةِ : فَهُوَ أَنْ لَا يَخَافَ عَلَيْهَا الضَّيْعَةَ فَيَأْخُذَهَا لِصَاحِبِهَا ، وَهَذَا عِنْدَنَاوَأَمَّا حَالَةُ الْحُرْمَةِ : فَهُوَ أَنْ يَأْخُذَهَا لِنَفْسِهِ لَا لِصَاحِبِهَا وَلِأَنَّهُ أَخَذَ مَالَ الْغَيْرِ بِغَيْرِ إذْنِهِ لِنَفْسِهِ فَيَكُونُ بِمَعْنَى الْغَصْبِ (بدائع الصنائع فصل في بيان احوال اللقطة ۷۵/۱۴)عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ جَرِيرٍ بِالْبَوَازِيجِ فَجَاءَ الرَّاعِي بِالْبَقَرِ وَفِيهَا بَقَرَةٌ لَيْسَتْ مِنْهَا فَقَالَ لَهُ جَرِيرٌ مَا هَذِهِ قَالَ لَحِقَتْ بِالْبَقَرِ لَا نَدْرِي لِمَنْ هِيَ فَقَالَ جَرِيرٌ أَخْرِجُوهَا فَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَأْوِي الضَّالَّةَ إِلَّا ضَالٌّ (ابوداود، بَاب التَّعْرِيفِ بِاللُّقَطَةِ: ۱۴۶۲)
بند
(۲)لقطہ، اٹھانے والےكے قبضہ میں بطور امانت ہے اس لحاظ سے اگر اسے اس نیت سے اٹھایا گیا کہ مالک تک پہنچا دیا جائیگا اوراس کی کوتاہی اورغفلت کے بغیر وہ چیز ضائع ہوگئی تو وہ اس کا ضامن نہ ہوگا اوراگر اس کی حفاظت میں کوتاہی ہوئی پھر وہ ضائع ہوگیا تو وہ ضامن ہوگا، اگر اسے اسی نیت سے اٹھایا گیا کہ خود ہی استعمال کرلیں گے تو بہر صورت ضامن ہوگا۔حوالہ
عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا ضَاعَتِ اللُّقَطَةُ فَصَاحِبُهَا ضَامِنٌ(مصنف ابن ابي شيبة فِي اللّقطةِ تضِيع مِن الِّذِي أخذها ۴۶۶/۶)أَمَّا حَالَةُ الْأَمَانَةِ : فَهِيَ أَنْ يَأْخُذَهَا لِصَاحِبِهَا لِأَنَّهُ أَخَذَهَا عَلَى سَبِيلِ الْأَمَانَةِ فَكَانَتْ يَدُهُ يَدَ أَمَانَةٍ كَيَدِ الْمُودَعِ۔
(بدائع الصنائع، فصل في بيان احوال اللقطة:۷۶/۱۴(
بند
(۳)مالک کو پہنچانے کی نیت ہو تو اس کے ملتے ہی اعلان کردے کہ جس صاحب کی فلاں چیز کھو گئی ہو تو علامات بتا کر لےلے اوراعلان کے لیے لوگوں کی گزرگاہ اورمجمع وغیرہ کا انتخاب کرے یا جس ذریعہ سے بھی اعلان ہوجائے۔حوالہ
عن زيد بن خالد الجهني قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من آوى ضالة فهو ضال مالم يعرفها۔
(المعجم الكبير۵۲۸۱،۲۵۸/۵)
بند
(۴)جو چیز جتنی قیمتی ہوگی اس کا علان بھی اسی کے بقدر ضروری ہوگااور لقطہ کی قیمت کے لحاظ سے اعلان کی مدت بھی متعین ہوا کرتی ہے جیسے اگر سو درہم یا اس سے زائد کی مالیت کا ہو تو ایک سال، دس درہم کے بقدر مالیت کا  ہوتو ایک ماہ، تین درہم کی مقدار کا ہو تو ایک ہفتہ تک اعلان کرتا رہے،لیکن یہ مدت ان اشیاء کے لیے ہےجو خراب ہونے والی نہ ہو اگر خراب ہوجانے والی ہے تو اسے خراب ہونے سے پہلے پہلے صدقہ کردے۔حوالہ
عن يَعْلَى بْنُ مُرَّةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ الْتَقَطَ لُقَطَةً يَسِيرَةً دِرْهَمًا أَوْ حَبْلًا أَوْ شِبْهَ ذَلِكَ فَلْيُعَرِّفْهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنْ كَانَ فَوْقَ ذَلِكَ فَلْيُعَرِّفْهُ سِتَّةَ أَيَّامٍ(مسند احمد حديث يعلي بن مرة الثقفي ۱۷۶۰۲) عن أُبَيّ بْن كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَخَذْتُ صُرَّةً مِائَةَ دِينَارٍ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَرِّفْهَا حَوْلًا فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَقَالَ عَرِّفْهَا حَوْلًا فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ ثُمَّ أَتَيْتُهُ ثَلَاثًا فَقَالَ احْفَظْ وِعَاءَهَا وَعَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا فَاسْتَمْتَعْتُ فَلَقِيتُهُ بَعْدُ بِمَكَّةَ فَقَالَ لَا أَدْرِي ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ أَوْ حَوْلًا وَاحِدًا(بخاري بَاب إِذَا أَخْبَرَهُ رَبُّ اللُّقَطَةِ بِالْعَلَامَةِ دَفَعَ إِلَيْهِ ۲۲۴۸)
بند
(۵)لقطہ اٹھانے والے کو یہ حق ہے کہ مالک کے آنے پر اس سے علامت دریافت کرے اور اطمینان ہونے پر اس کے حوالے کردے پھر چاہے تو اس سے کفیل طلب کرلے کہ اگر خدانخواستہ کوئی اور مالک نکل آئے تو اسے کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔حوالہ
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَعْرَابِيًّا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ اللُّقَطَةِ قَالَ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُخْبِرُكَ بِعِفَاصِهَا وَوِكَائِهَا وَإِلَّا فَاسْتَنْفِقْ بِهَا(بخاري بَاب مَنْ عَرَّفَ اللُّقَطَةَ وَلَمْ يَدْفَعْهَا إِلَى السُّلْطَانِ ۲۲۵۸) فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ يَجُوزُ لِلْمُلْتَقِطِ أَنْ يَرُدَّ اللُّقَطَةَ إلَى مَنْ وَصَفَهَا بِالْعَلَامَاتِ الْمَذْكُورَةِ مِنْ دُونِ إقَامَةِ الْبَيِّنَةِ(نيل الاوطار كِتَابُ اللُّقَطَةِ ۱۸۴/۹)
بند
(۶)اعلان کے باوجود کوئی مالک نہ آئے تو اسے  مالک کی طرف سے صدقہ کردے اگر خود غریب ہو تو خود ہی رکھ لے یا اولاد اوراہل خاندان میں کوئی غریب ہو تو ان کو دیدے اورصدقہ کی کسی بھی صورت میں اس کا مالک آجائے اور وہ اس صدقہ کو جائز قرار دیتا ہو تو وہ اجروثواب کا مستحق ہوگا اور وہ اس کی اجازت نہیں دیتا ہے تو پھر اس کا بدل دینا ہوگا۔حوالہ
عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ : أَنَّ رَجُلاً مِنْ بَنِى رُؤَاسٍ وَجَدَ صُرَّةً فَأَتَى بِهَا عَلِيًّا رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ : إِنِّى وَجَدْتُ صُرَّةً فِيهَا دَرَاهِمُ وَقَدْ عَرَّفْتُهَا وَلَمْ نَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا وَجَعَلْتُ أَشْتَهِى أَنْ لاَ يَجِىءَ مَنْ يَعْرِفُهَا قَالَ : تَصَدَّقَ بِهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَرَضِىَ كَانَ لَهُ الأَجْرُ وَإِنْ لَمْ يَرْضَ غَرِمْتَهَا وَكَانَ لَكَ الأَجْرُ(السنن الكبري للبيهقي باب اللُّقَطَةِ يَأْكُلُهَا الْغَنِىُّ وَالْفَقِيرُ إِذَا لَمْ تُعْتَرَفْ بَعْدَ تَعْرِيفِ سَنَةٍ ۱۲۴۲۱)
بند
(۷)لقیط( ایسے نابالغ بچہ کو کہتے ہیں جو پڑا ہوا ملے،اس کے والدین کا پتہ نہ ہو اگرچہ وہ باشعور ہو) کو اٹھالینا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے اگر کسی نے نہیں اٹھایا اور وہ مرگیا تو سارے علاقے والے گناہ گار ہونگے۔حوالہ
اللقيط أحكامه: الالتقاط عند الحنفية مندوب إليه وهو من أفضل الأعمال؛ لأنه يترتب عليه إحياء النفس، ويكون فرض كفاية إن غلب على الظن هلاك الولد لو لم يأخذه، كأن وجد في مغارة ونحوها من المهالك، لحصول المقصود بالبعض وهو صيانته۔(الفقه الاسلامي وادلته حقيقة اللقيط وأحكامه۶۰۹/۶)
بند
(۸)اگر لقیط مسلمانوں کے علاقے میں پایا گیا تو مسلمان اور غیر مسلموں کے علاقہ میں پایا گیا تو غیر مسلم تصور کیا جائیگا، اگر مسلمان کی پرورش میں ہو گیا تو مسلمان اورغیر مسلم کی پرورش میں رہا تو غیر مسلم مانا جائیگا۔حوالہ
فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا(الروم: ۲۹) عن أَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يُحَدِّثُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ{ فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا }(بخاري بَاب إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ ۱۲۷۰)وَاللَّقِيطُ الَّذِي هُوَ فِي يَدِ الْمُسْلِمِ وَتَصَرُّفِهِ يَكُونُ مُسْلِمًا ظَاهِرًا ، وَالْمَوْجُودُ فِي الْمَكَانِ الَّذِي هُوَ فِي أَيْدِي أَهْلِ الذِّمَّةِ وَتَصَرُّفِهِمْ فِي أَيْدِيهِمْ وَاللَّقِيطُ الَّذِي هُوَ فِي يَدِ الذِّمِّيِّ وَتَصَرُّفِهِ يَكُونُ ذِمِّيًّا ظَاهِرًا ، فَكَانَ اعْتِبَارُ الْمَكَانِ أَوْلَى فَإِنْ وَجَدَهُ مُسْلِمٌ فِي مِصْرٍ مِنْ أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ فَبَلَغَ كَافِرًا يُجْبَرُ عَلَى الْإِسْلَامِ وَلَكِنْ لَا يُقْتَلُ ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُعْرَفْ(بدائع الصنائع فصل بيان  حا ل اللقيط ۶۷/۱۴) 
بند
(۹)جس نے لقیط کو اٹھایا وہ دوسروں کے مقابلے میں پرورش کا زیادہ مستحق ہوگا اورمسلمانوں کی حکومت ہو تو اسے بیت المال سے نفقہ بھی دیا جائے گا۔حوالہ
عَنْ سُنَيْنٍ أَبِي جَمِيلَةَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ أَنَّهُ وَجَدَ مَنْبُوذًا فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ فَجِئْتُ بِهِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ مَا حَمَلَكَ عَلَى أَخْذِ هَذِهِ النَّسَمَةِ فَقَالَ وَجَدْتُهَا ضَائِعَةً فَأَخَذْتُهَا فَقَالَ لَهُ عَرِيفُهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّهُ رَجُلٌ صَالِحٌ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ أَكَذَلِكَ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ اذْهَبْ فَهُوَ حُرٌّ وَلَكَ وَلَاؤُهُ وَعَلَيْنَا نَفَقَتُهُ(موطا مالك، بَاب الْقَضَاءِ فِي الْمَنْبُوذِ۱۲۲۳)
بند
(۱۰)اگر اس کا نسب ثابت نہ ہوسکا تو حکومت کو اس کی ولایت حاصل ہوگی۔حوالہ
عن عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ …فَإِنَّ السُّلْطَانَ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ(مسند احمد حديث السيدة عائشة رضي الله عنها۲۵۳۶۵)









وقف کا بیان
وقف کی تعریف
وقف کی لغوی تعریف:روکنا۔حوالہ
الوقف في اللغة: الحبس(التعريفات۸۴/۱)
بند
وقف کی اصطلاحی تعریف:اصل شئی کو اللہ کی ملکیت کے حکم پرروکے اور اس کی منفعت کو جس پر چاہے خرچ کرےاگرچہ وہ شخص مالدار ہو۔حوالہ
هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا(الدر المختار كتاب الوقف ۵۳۲/۴)
بند
وقف:
وقف کو اسلام کی خصوصیات میں سے شمار کیا جاتا ہے، مسلمانوں کے عہد میں عبادت ،تعلیم خدمت خلق اور رفاہی کاموں کے لیے بہت سے اوقاف ملتے ہیں جو اسلام سے پہلے ناپید تھے البتہ مسلمان سلاطین اور مالداروں میں خیراتی مقاصد کے لیے وقف کا ذوق دیکھ کر دوسری قوموں میں بھی مذہبی اور رفاہی کاموں کے لیے وقف کا رجحان پیدا ہوا ہے۔حوالہ
والوقف في اصطلاح العلماء عطية مؤبدة بشروط معروفة وهي مما اختص به المسلمون. قال إمامنا الشافعي رضي الله تعالى عنه: لم يحبس أهل الجاهلية فيما علمته دارا ولا أرضا تبررا بحبسها، قال: وإنما حبس أهل الإسلام.(تهذيب الاسماءللنووي، القسم الثاني، حرف الواو، ۱۴۸۴/۱)
بند
وقف کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنی غیر منقولہ جائداد وغیرہ کو اللہ کی ملکیت میں دیدینا اور اس کے منافع مخلوق میں کسی کے لیے خاص کردینا۔







وقف کےا رکان وشرائط
وقف کے ارکان
 ارکان:اس پر دلالت کرنے والے الفاظ ہیں لہذا اگر کوئی اتنا کہہ دے کہ اس مکان کا کرایہ فلاں مساکین پر خرچ کیا جائے  تو وقف مکمل ہوجائے گا۔حوالہ
ركن الوقف هي الصيغة، وهي الألفاظ الدالة على معنى الوقف، مثل أرضي هذه موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه من الألفاظ، مثل: موقوفة لله تعالى، أو على وجه الخير، أو البر، أو موقوفة فقط، عملاً بقول أبي يوسف، وبه يفتى للعرف(الفقه الاسلامي وادلته ركن الوقف :۲۹۵ /۱۰)وألفاظ الوقف الخاصة به عند الحنفية: مثل أرضي هذه صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين، أو موقوفة لله تعالى، أو على وجه الخير، أو البر.والمفتى به عملا ًبالعرف هو ما قال أبو يوسف من الاكتفاء بلفظ (موقوفة) بدون ذكر تأبيد أو ما يدل عليه، كلفظ: صدقة، أو لفظ المساكين، ونحوه(الفقه الاسلامي وادلته ألفاظ الوقف الخاصة به عند الحنفية۳۳۵/۱۰)
بند
وقف کےشرائط
وقف كےشرائط:وقف صحیح ہونے کے لیے واقف کا عاقل، بالغ اورآزاد ہونا ضروری ہے،جس چیز کو وقف کررہا ہے وہ اس وقت اس کا مالک ہو۔حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ الخ ۳۱۵/۱۶)(أَمَّا) الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْوَاقِفِ فَأَنْوَاعٌ :(مِنْهَا) الْعَقْلُ (وَمِنْهَا) الْبُلُوغُ فَلَا يَصِحُّ الْوَقْفُ مِنْ الصَّبِيِّ وَالْمَجْنُونِ ؛ لِأَنَّ الْوَقْفَ مِنْ التَّصَرُّفَاتِ الضَّارَّةِ ؛ لِكَوْنِهِ إزَالَةَ الْمِلْكِ بِغَيْرِ عِوَضٍ ، وَالصَّبِيُّ وَالْمَجْنُونُ لَيْسَا مِنْ أَهْلِ التَّصَرُّفَاتِ الضَّارَّةِ ، وَلِهَذَا لَا تَصِحُّ مِنْهُمَا الْهِبَةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْإِعْتَاقُ وَنَحْوُ ذَلِكَ(بدائع الصنائع فصل في شرائط جواز الوقف۱۴۲/۱۴)







وقف كےاحكام
 (۱)موقوفہ جائداد کی آمدنی ومنافع کو مقررہ خیراتی اوررفاہی مصرف ہی میں خرچ کرنا ضروری ہے۔حوالہ
شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم : شرط الواقف كنص الشارع أي : في وجوب العمل به۔
(الاشباه والنظائر كتاب الوقف۲۱۹/۱)
بند
(۲)وقف کی ہوئی چیز صرف اللہ کی ملکیت ہوتی ہے کسی اور کی نہیں اس لیے اس کو فروخت کرنا یا کسی اورکو ہدیہ دینا یا اس میں میراث جاری کرنا صحیح نہیں۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَصَابَ عُمَرُ بِخَيْبَرَ أَرْضًا فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ مِنْهُ فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ قَالَ إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا فَتَصَدَّقَ عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُورَثُ فِي الْفُقَرَاءِ وَالْقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالضَّيْفِ وَابْنِ السَّبِيلِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ(بخاري بَاب الْوَقْفِ كَيْفَ يُكْتَبُ ۲۵۶۵) إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته،(الفقه الاسلامي وادلته الفَصْلُ الثَّالث : حكم الوقف، ومتى يزول ملك الواقف۳۰۵/۱۰)( فَإِذَا تَمَّ وَلَزِمَ لَا يُمَلَّكُ وَلَا يُمْلَكُ وَلَا يُعَارُ وَلَا يُرْهَنُ) ( قَوْلُهُ : لَا يُمْلَكُ ) أَيْ لَا يَكُونُ مَمْلُوكًا لِصَاحِبِهِ وَلَا يُمَلَّكُ أَيْ لَا يَقْبَلُ التَّمْلِيكَ لِغَيْرِهِ بِالْبَيْعِ وَنَحْوِهِ لِاسْتِحَالَةِ تَمْلِيكِ الْخَارِجِ عَنْ مِلْكِهِ ، وَلَا يُعَارُ ، وَلَا يُرْهَنُ لِاقْتِضَائِهِمَا الْمِلْكَ دُرَرٌ(الدرالمختار مع الرد كتاب الوقف ۲۰۹/۱۷)
بند
 (۳)واقف مریض ہو اور حالت مرض میں کیا ہوا وقف ہو تو دیون (قرضوں) کو ادا کرنے کے بعد متروکہ کے ایک تہائی میں لازماً وقف نافذ ہوگا، اگر ایک تہائی سے زیادہ کا وقف ہو تو زیادتی میں ورثاء کی اجازت لینا ضروری ہے اگر ورثاء اختلاف کرجائیں تو اجازت دینے والے ورثاء ہی کے حصے میں وقف نافذ ہوسکے گا۔حوالہ
عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَرِضْتُ فَعَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ لَا يَرُدَّنِي عَلَى عَقِبِي قَالَ لَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ وَيَنْفَعُ بِكَ نَاسًا قُلْتُ أُرِيدُ أَنْ أُوصِيَ وَإِنَّمَا لِي ابْنَةٌ قُلْتُ أُوصِي بِالنِّصْفِ قَالَ النِّصْفُ كَثِيرٌ قُلْتُ فَالثُّلُثِ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ قَالَ فَأَوْصَى النَّاسُ بِالثُّلُثِ وَجَازَ ذَلِكَ لَهُمْ(بخاري بَاب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ۲۵۳۹)أَوْ بِالْمَوْتِ إذَا عُلِّقَ بِهِ ) أَيْ بِمَوْتِهِ كَإِذَا مِتَّ فَقَدْ وَقَفْت دَارِي عَلَى كَذَا فَالصَّحِيحُ أَنَّهُ كَوَصِيَّةٍ تَلْزَمُ مِنْ الثُّلُثِ بِالْمَوْتِ لَا قَبْلَهُ(الدرالمختار كتاب الوقف۵۳۲/۴)
بند
(۴)وقف کی جانے والی چیز غیر منقولہ ہو البتہ اگر منقولہ اشیاء غیر منقولہ کے تابع ہو جیسے زراعتی زمین کے تابع ہل،بیل اورآلات کا شت وغیرہ تو غیر منقولہ کے تابع منقولہ اشیاء کا بھی وقف صحیح ہوجائے گا۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَصَابَ عُمَرُ بِخَيْبَرَ أَرْضًا فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ مِنْهُ فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ قَالَ إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا فَتَصَدَّقَ عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُورَثُ فِي الْفُقَرَاءِ وَالْقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالضَّيْفِ وَابْنِ السَّبِيلِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ(بخاري بَاب الْوَقْفِ كَيْفَ يُكْتَبُ ۲۵۶۵) وَأَمَّا الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمَوْقُوفِ فَأَنْوَاعٌ : ( مِنْهَا ) أَنْ يَكُونَ مِمَّا لَا يُنْقَلُ وَلَا يُحَوَّلُ كَالْعَقَارِ وَنَحْوِهِ ، فَلَا يَجُوزُ وَقْفُ الْمَنْقُولِ مَقْصُودًا لِمَا ذَكَرْنَا أَنَّ التَّأْبِيدَ شَرْطُ جَوَازِهِ ، وَوَقْفُ الْمَنْقُولِ لَا يَتَأَبَّدَ لِكَوْنِهِ عَلَى شَرَفِ الْهَلَاكِ ، فَلَا يَجُوزُ وَقْفُهُ مَقْصُودًا إلَّا إذَا كَانَ تَبَعًا لِلْعَقَارِ ، بِأَنْ وَقَفَ ضَيْعَةً بِبَقَرِهَا وَأَكَرَتِهَا وَهُمْ عَبِيدُهُ فَيَجُوزُ ، كَذَا قَالَهُ أَبُو يُوسُفَ۔(بدائع الصنائع فصل في شرائط جواز الوقف ۱۴۵/۱۴)۔بند
(۵)جو چیز وقف کی جائے وہ شریعت کی نظر میں قیمت رکھنے والا مال ہو لہذا جو چیز شرعاً مال ہی نہ ہو، جیسے شراب، اس كا وقف صحیح نہیں اس لیے كہ یہ شریعت کی نظر میں  مال ہی نہیں ہے،  یا ایسا مال ہو جس کی خرید و فروخت شرعاً جائز نہیں ہے، جیسے ہدايت كے راستے سے ہٹا دينے والی كتابیں تو اس کا وقف معتبر نہیں۔حوالہ
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدة: ۲)فقال الحنفية: يشترط في الموقوف أربعة شروط هي ما يأتي: أن يكون الموقوف مالاً متقوماً عقاراً: فلا يصح وقف ما ليس بمال كالمنافع وحدها دون الأعيان، وكالحقوق المالية مثل حقوق الارتفاق؛ لأن الحق ليس بمال عندهم ولايصح وقف ما ليس بمال متقوم شرعاً كالمسكرات وكتب الضلال والإلحاد، إذ لا يباح الانتفاع به، فلا يتحقق المقصود من الوقف وهو نفع الموقوف عليه ومثوبة الواقف۔
(الفقه الاسلامي وادلته، المبحث الثاني، شروط الموقوف۳۲۰/۱۰)
بند
(۶)وقف کی جانے والی چیز وقف کرتے وقت واقف کی ملکیت میں ہو لہذا ملکیت میں آنے سے پہلے کا وقف معتبر نہ ہوگا۔حوالہ
الْخَامِسُ مِنْ شَرَائِطِهِ الْمِلْكُ وَقْتَ الْوَقْفِ حَتَّى لَوْ غَصَبَ أَرْضًا فَوَقَفَهَا ثُمَّ اشْتَرَاهَا مِنْ مَالِكِهَا وَدَفَعَ الثَّمَنَ إلَيْهِ أَوْ صَالَحَ عَلَى مَالٍ دَفَعَهُ إلَيْهِ لَا تَكُونُ وَقْفًا لِأَنَّهُ إنَّمَا مَلَكَهَا بَعْدَ أَنْ وَقَفَهَا۔(البحر الرائق شرائط الوقف ۲۵۱/۱۴)
بند
(۷)جو چیز وقف کی جارہی ہے وہ معلوم و متعین ہو لہذا اگر کوئی کہے کہ میری زمین کا کچھ حصہ میں وقف کررہا ہوں تو اس کا یہ وقف ابہام کے ساتھ درست نہ ہوگا اس لیے وقف کرتے وقت جگہ کی تعیین حدود وغیرہ بتادیئے جائیں۔حوالہ
( وَشَرْطُهُ شَرْطُ سَائِرِ التَّبَرُّعَاتِ ) كَحُرِّيَّةٍ وَتَكْلِيفٍ ( وَأَنْ يَكُونَ ) قُرْبَةً فِي ذَاتِهِ مَعْلُومًا ( مُنَجَّزًا ) لَا مُعَلَّقًا إلَّا بِكَائِنٍ ، وَلَا مُضَافًا ، وَلَا مُوَقَّتًا وَلَا بِخِيَارِ شَرْطٍ (وفي الشامي) أَفَادَ أَنَّ الْوَاقِفَ لَا بُدَّ أَنْ يَكُونَ مَالِكُهُ وَقْتَ الْوَقْفِ مِلْكًا بَاتًّا وَلَوْ بِسَبَبٍ فَاسِدٍ ، وَأَنْ لَا يَكُونَ مَحْجُورًا عَنْ التَّصَرُّفِ ، حَتَّى لَوْ وَقَفَ الْغَاصِبُ الْمَغْصُوبَ لَمْ يَصِحَّ ، وَإِنْ مَلَكَهُ بَعْدُ بِشِرَاءٍ أَوْ صُلْحٍ۔
 (الدر المختار علي الرد كتاب الوقف۱۷۵/۱۷)
بند
(۸)وقف کا مقصد ثواب حاصل کرنا ہو جیسے مسجد، مدرسہ، مسافر خانہ وغیرہ یا علماء،فقراء وغیرہ یا زید خالد وغیرہ کے لیے وقف ہو تو درست ہوگا اگر ثواب کے لیے نہ ہو تو پھر وقف صحیح نہ ہوگا جیسے گرجا،چرچ وغیرہ کے لیے صحیح نہیں۔حوالہ
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدة: ۲) (قَوْلُهُ : وَأَنْ يَكُونَ قُرْبَةً فِي ذَاتِهِ ) أَيْ بِأَنْ يَكُونَ مِنْ حَيْثُ النَّظَرُ إلَى ذَاتِهِ وَصُورَتِهِ قُرْبَةً ، وَالْمُرَادُ أَنْ يَحْكُمَ الشَّرْعُ بِأَنَّهُ لَوْ صَدَرَ مِنْ مُسْلِمٍ يَكُونُ قُرْبَةً حَمْلًا عَلَى أَنَّهُ قَصَدَ الْقُرْبَةَ۔
(الدر المختار علي الرد كتاب الوقف۱۷۵/۱۷)
بند
(۹)وقف کسی محدود مدت کے لیے نہ کیا گیا ہو بلکہ ہمیشہ کے لیے وقف کیا گیا ہو لہذا اگر کوئی ایک مہینہ یا ایک سال کے لیے وقف کرے تو درست نہ ہوگا۔حوالہ
 أَنْ لَا يَكُونَ مُؤَقَّتًا قَالَ الْخَصَّافُ لَوْ وَقَفَ دَارِهِ يَوْمًا أَوْ شَهْرًا لَا يَجُوزُ لِأَنَّهُ لَمْ يَجْعَلْهُ مُؤَبَّدًا۔
(البحر الرائق شرائط الوقف ۲۵۹/۱۴)
بند
(۱۰)مسجد ایک بار مسجد بن گئی ہو تو ہمیشہ کے لیے مسجد ہی رہے گی ،خواہ وہ ویران اور ناقابل استعمال ہوجائے ،اس پر سب ائمہ کا اتفاق ہے۔حوالہ
قَالَ ( وَمَنْ اتَّخَذَ أَرْضَهُ مَسْجِدًا لَمْ يَكُنْ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ فِيهِ وَلَا يَبِيعَهُ وَلَا يُورَثُ عَنْهُ ) لِأَنَّهُ تَجَرَّدَ عَنْ حَقِّ الْعِبَادِ وَصَارَ خَالِصًا لِلَّهِ ، وَهَذَا لِأَنَّ الْأَشْيَاءَ كُلَّهَا لِلَّهِ تَعَالَى ، وَإِذَا أَسْقَطَ الْعَبْدُ مَا ثَبَتَ لَهُ مِنْ الْحَقِّ رَجَعَ إلَى أَصْلِهِ فَانْقَطَعَ تَصَرُّفُهُ عَنْهُ كَمَا فِي الْإِعْتَاقِ(فتح القدير، فَصْلٌ وَإِذَا بَنَى مَسْجِدًا لَمْ يَزُلْ مِلْكُهُ عَنْهُ۱۴۲/۱۴)قال الحنفية: للمسجد بمجرد القول ( أي الوقف ) على المفتى به صفة الأبدية، فلا تنسلخ عنه صفة المسجدية ولو استغني عنه، فلو خرب المسجد وليس له ما يعمر به، وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر، يبقى مسجداً عند أبي حنيفة وأبي يوسف أبداً إلى قيام الساعة، وبرأيهما يفتى،(۳۵۳/۱۰)
بند
(۱۱)واقف کی جو شرطیں شریعت اوروقف کے مفاد کے خلاف نہ ہو تو ان کی رعایت کرنا واجب ہے لہذا وقف کو جس جائز مصرف میں خرچ کرنے کی شرط لگائی گئی اسی مصرف میں خرچ کرنا ضروری ہے۔حوالہ
شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي : في وجوب العمل به وفي المفهوم والدلالة۔
(الاشباه والنظائر كتاب الوقف۲۱۹/۱)
بند
(۱۲)وقف کی ہوئی چیز کو بیچ کر دوسری چیز خریدنا یا موقوفہ شی کا دوسری شی سے تبادلہ کرنا یہ بہت ہی اہم اورنازک مسئلہ ہے، واقف نے اپنے لیے یا کسی اور کے لیے حق استبدال کی شرط لگادی ہے تو متعلق شخص کو اس کا حق حاصل ہوگا، اگر شرط نہیں لگائی گئی یا وقف نامہ میں استبدال کا کوئی ذکر ہی موجود نہیں یا یہ صراحت کردی گئی کہ کسی کو اس وقف میں استبدال کا حق نہیں ہوگا ایسی صورت میں دو طرح کے حالات ہوتے ہیں:
(پہلی صورت) استبدال کے بغیر وقف سے فائدہ اٹھانا ممکن نہ ہو تو دیانت دار قاضی کی اجازت سے استبدال جائز ہے۔
(دوسری صورت) موقوفہ شئی تو اب بھی قابل انتفاع ہولیکن استبدال کے ذریعہ اس کو زیادہ نفع بخش بنایا جاسکتا ہو تو اس صورت میں دو قول ہیں: جائز کا بھی اور ناجائز کا بھی، لیکن استبدال کی صورت میں یہ باتیں ملحوظ رکھیں:
(الف) اراضی وقف معمولی قیمت پر فروخت نہ کی جائے بلکہ ان کی مناسب اور مروجہ قیمت حاصل کی جائے۔
(ب) بیچنے کی اجازت دیانت دار اور ذمہ دار ادارہ کو حاصل ہو۔
(ج) موقوفہ اراضی اورمکانات کے بدلے مکانات اوراراضی ہی حاصل کی جائیں ،روپیہ ،پیسہ سے تبادلہ نہ ہو،اگر روپیہ پیسہ لیا گیا ہو تو فورا اس سے غیر منقولہ جائداد خریدلی جائے ۔حوالہ
حالات الاستبدال: الاستبدال عند الحنفية ثلاثة أنواع:الأول ـ أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره، أو لنفسه وغيره، بأن شرط الواقف في وقفيته الاستبدال بالموقوف أرضاً أخرى، أو شرط بيعه، جاز الاستبدال على الصحيح، ويشتري بالثمن أرضاً أخرى إذا شاء، فإذا فعل، صارت الأرض الثانية كالأولى في شرائطها.الثاني ـ ألا يشرطه الواقف، بأن شرط عدمه أو سكت، لكن صار الموقوف بحيث لا ينتفع به بالكلية، بألا يحصل منه شيء أصلاً، أو لا يفي بمؤنته، فهو أيضاً جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي، وكان رأيه المصلحة فيها.الثالث ـ ألا يشرطه الواقف أيضاً، ولكن فيه نفع في الجملة، وبدله خير منه ريعاً ونفقاً. وهذا لايجوز استبداله على الأصح المختار.شروط الاستبدال: إذا كان الوقف عقاراً غير مسجد، فالمعتمد أنه يجوز للقاضي الاستبدال به للضرورة بلا شرط الواقف، بشروط ستة:1ً  أن يخرج الموقوف عن الانتفاع به بالكلية، أي يصبح عديم المنفعة.2ً  ألا يكون هناك ريع للوقف يعمر به.3ً  ألا يكون البيع بغبن فاحش.4ً  أن يكون المستبدل قاضي الجنة: وهو ذو العلم والعمل، لئلا يؤدي الاستبدال إلى إبطال أوقاف المسلمين، كما هو الغالب في الزمن الأخير.5ً  أن يستبدل به عقار لا دراهم ودنانير، لئلا يأكلها النظار؛ ولأنه قل أن يشتري بها الناظر بدلاً. وأجاز بعضهم الاستبدال به نقوداً، ما دام المستبدل قاضي الجنة.6ً  ألا يبيعه القاضي لمن لا تقبل شهادته له، ولا لمن له عليه دين، خشية التهمة والمحاباة.فإذا لم تتوافر هذه الشروط كان بيع الوقف باطلاً لا فاسداً. وإذا صح بيع الحاكم بطل وقفية ما باعه، ويبقى الباقي على ما كان۔(الفقه الاسلامي وادلته الفَصْلُ الثَّامن : استبدال الوقف وبيعه حالة الخراب ۳۵۵/۱۰)
بند
(۱۳)موقوفہ جائداد کا ذمہ دار (متولی) خود واقف ہوگا،یا وہ جس کو مقرر کردے اگر اس کا انتقال ہوجائے تو قاضی کو اختیار ہوگا کہ وہ کسی کو منتظم مقرر کردے۔حوالہ
الْمَوْضِعُ الثَّانِي فِي النَّاظِرِ بِالشَّرْطِ قَدَّمْنَا أَنَّ الْوِلَايَةَ لِلْوَاقِفِ ثَابِتَةٌ مُدَّةَ حَيَاتِهِ وَإِنْ لَمْ يَشْتَرِطْهَا(البحر الرائق النَّاظِرِ بِالشَّرْطِ في الوقف ۴۲۹/۱۴) وَإِنْ جَعَلَ وِلَايَتَهُ إلَى مَنْ يَخْلُفُ مِنْ وَلَدِهِ وَلَّى الْقَاضِي أَمْرَ الْوَقْفِ رَجُلًا يَخْلُفُ وَلَدَهُ وَيَكُونُ مَوْضِعًا لِلْوِلَايَةِ فَتَكُونُ الْوِلَايَةُ إلَيْهِ وَهَذَا اسْتِحْسَانٌ۔(هندية الْبَابُ الْخَامِسُ فِي وِلَايَةِ الْوَقْفِ وَتَصَرُّفِ الْقَيِّمِ فِي الْأَوْقَافِ ۴۷۶/۱۸)
بند
(۱۴)متولی کو وقف کی ذمہ داری ادا کرنے میں اجرت دی جاسکتی ہے۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمُؤْنَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ(ابو داود بَاب فِي صَفَايَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَمْوَالِ ۲۵۸۲)
بند








متولی کےشرائط
متولی ہونے کے لیے عاقل،بالغ ہونا شرط ہے مسلمان ہو یا غیر مسلم ،مرد ہو یا عورت بینا ہو نا بینا ہوہر ایک متولی بن سکتا ہے۔حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ الخ ۳۱۵/۱۶)وَيُشْتَرَطُ لِلصِّحَّةِ بُلُوغُهُ وَعَقْلُهُ لِمَا فِي الْإِسْعَافِ وَلَا تُشْتَرَطُ الْحُرِّيَّةُ وَالْإِسْلَامُ لِلصِّحَّةِ لِمَا فِي الْإِسْعَافِ (البحر الرائق جَعَلَ الْوَاقِفُ غَلَّةَ الْوَقْفِ لِنَفْسِهِ أَوْ جَعَلَ الْوِلَايَةَ إلَيْهِ ۴۱۰/۱۴) وَيَسْتَوِي فِيهِ الذَّكَرُ وَالْأُنْثَى وَكَذَا الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ۔(الهندية الْبَابُ الْخَامِسُ فِي وِلَايَةِ الْوَقْفِ ۴۷۶/۱۸)
بند
متولی عاقل، بالغ ہونے کے علاوہ امین ودیانت دا ر ہو خائن شخص کو متولی بنانا جائز نہیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس وقف سے متعلق حفاظت اورمفوضہ فرائض کو وہ بذات خود یا کسی نائب کے واسطے سے انجام دے سکے۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ قَالَ الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ(ابن ماجة بَاب شِدَّةِ الزَّمَانِ۴۰۲۶) وَفِي الْإِسْعَافِ لَا يُوَلَّى إلَّا أَمِينٌ قَادِرٌ بِنَفْسِهِ أَوْ بِنَائِبِهِ(الهندية الْبَابُ الْخَامِسُ فِي وِلَايَةِ الْوَقْفِ ۴۷۶/۱۸)







آداب مسجد کا بیان
مسجد کے لغوی معنی:سجدہ کرنے کی جگہ ؛ چونکہ نماز کا اہم اورفضیلت کا حامل رکن سجدہ ہے اس لیے نماز پڑہنے کی جگہ کو بھی مسجد ہی کہا جاتاہے اورمسجد کے لیے یہ نام قرآن کریم میں بھی آیا ہے۔حوالہ
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ (البقرۃ:۱۱۴) وَالْمَسْجِدُ بَيْتُ الصَّلَاةِ وَالْمَسْجِدُ أَيْضًا مَوْضِعُ السُّجُودِ مِنْ بَدَنِ الْإِنْسَانِ وَالْجَمْعُ مَسَاجِدُ(المصباح المنير ۱۶۰/۴)





امت محمد یہ کی خصوصیت
اس امت کی خصوصیات میں سےایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے لیے اس امت میں کسی خاص جگہ کو منتخب نہیں کیا بلکہ تمام روئے زمین کو مومن کی سجدہ گاہ اورعبادت کی جگہ بنایا ہے خواہ آبادی ہو یا جنگل ،صرف جگہ پاک ہونی چاہیے بہرحال ہر جگہ نماز ادا کی جاسکتی ہے لیکن پھر بھی جس جگہ مسلمان آباد ہوں اوران کا گھر بار ہو تو وہاں ایک ایسی جگہ ہونی چاہے جو اللہ کی عبادت کے لیے وقف ہو،وہ ہمیشہ پاک صاف رہے،جس کی برکت اورماحول بھی انسان کو عبادت کی طرف بلاتا ہو۔
اگرچہ مساجد کا بنیاد ی مقصد پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی اورجس علاقہ میں جمعہ کا قیام درست ہے وہاں جمعہ کی نماز کا قیام ہے اس کے علاوہ مسجد مسلمانوں کی اور بھی بہت سی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے وہ مسلمانوں کے لیے ہمہ مقصدی مرکز ہے،نماز،تلاوت قرآن، ذکر ،اعتکاف ،اصلاح ،دعوت وتبلیغ اورمسلمانوں کے باہمی نزاعات کو سلجھانے اورصحیح فیصلے کرنے کا نیز ان تمام کاموں کا جن کے ذریعہ امت کی اجتماعی شیرازہ بندی ہوسکتی ہو، اس لیے مساجد کو شعائر اللہ کا درجہ حاصل ہے اوراسی وجہ سے اللہ کے رسول   جب کوئی لشکر روانہ کرتے تو فرماتے: جب تم  مسجد دیکھو یا مؤذن کی آواز سنو تو کسی کو قتل مت کرو۔حوالہ
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فُضِّلْنَا عَلَى النَّاسِ بِثَلَاثٍ جُعِلَتْ صُفُوفُنَا كَصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ وَجُعِلَتْ لَنَا الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدًا وَجُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُورًا إِذَا لَمْ نَجِدْ الْمَاءَ وَذَكَرَ خَصْلَةً أُخْرَى(مسلم كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ ۸۱۱) عَنْ ابْنِ عِصَامٍ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَبِيهِ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ جَيْشًا أَوْ سَرِيَّةً يَقُولُ لَهُمْ إِذَا رَأَيْتُمْ مَسْجِدًا أَوْ سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا فَلَا تَقْتُلُوا أَحَدًا(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الدَّعْوَةِ قَبْلَ الْقِتَالِ ۱۴۶۹) فضل بناء المسجد وملازمته وانتظار الصلاة فيه ترجع إلى أنه من شعائر  الإسلام ، وهو قوله صلى الله عليه وسلم : ' إذا رأيتم مسجدا ، أو سمعتم  مؤذنا ، فلا تقتلوا أحدا، وأنه محل الصلاة معتكف العابدين ومطرح  الرحمة ويشبه الكعبة من وجه الخ (حجة اللہ، المساجد ۴۰۶/۱ )









مسجد سےمتعلق احكام و آداب
(۱)کسی جگہ مسجد بن جانے کے لیے صرف صاحب زمین کا اتنا کہدینا کافی  ہے کہ یہ جگہ مسجد کے لیے ہے،عمارت وغیرہ کا ہونا ضروری نہیں۔حوالہ
عن أَنَس بْن مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا وَكَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ فَلَمَّا نَزَلَتْ{ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ }قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ فِي كِتَابِهِ{ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ }وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ شِئْتَ فَقَالَ بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَائِحٌ ذَلِكَ مَالٌ رَائِحٌ قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ فِيهَا وَأَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ قَالَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ(بخاري بَاب إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِوَكِيلِهِ ضَعْهُ ۲۱۵۰)قال الحنفية: ركن الوقف هي الصيغة، وهي الألفاظ الدالة على معنى الوقف، مثل أرضي هذه موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه من الألفاظ، مثل: موقوفة لله تعالى، أو على وجه الخير، أو البر، أو موقوفة فقط، عملاً بقول أبي يوسف، وبه يفتى للعرف(الفقه الاسلامي وادلته،  ركن الوقف۲۹۵/۱۰)
بند
(۲)جب ایک بار کوئی جگہ مسجد کے لیے وقف ہوگئی تو وہ نیچے تحت الثری تک اوراوپر آسمان تک مسجد ہی ہے اس لیے مسجد کا احترام حقیقت میں اسی وقت ہوگا جب کہ اس کے نیچے یا اوپر کوئی دوسری چیز مسجد کے علاوہ نہ ہو۔حوالہ
( وَ ) كُرِهَ تَحْرِيمًا ( الْوَطْءُ فَوْقَهُ ، وَالْبَوْلُ وَالتَّغَوُّطُ ) لِأَنَّهُ مَسْجِدٌ إلَى عَنَانِ السَّمَاءِ(وفي الشامي) ( قَوْلُهُ إلَى عَنَانِ السَّمَاءِ ) بِفَتْحِ الْعَيْنِ ، وَكَذَا إلَى تَحْتِ الثَّرَى كَمَا فِي الْبِيرِيِّ عَنْ الْإِسْبِيجَابِيِّ (الدر المختار مع الرد [ فُرُوعٌ ] يُكْرَهُ اشْتِمَالُ الصَّمَّاءِالخ۷۵/۵)
بند
(۳)ابتداءً مسجد بناتے وقت ہی یہ فیصلہ کردے کہ مسجد کے نچلے حصہ میں دوکان وغیرہ رہے گی اور اوپر کا حصہ مکمل مسجد ہوگا تو درست ہے، اور تعمیر کے بعد بھی پہلی منزل مسجد کے لیے اور دوسری منزل کسی اور کام کے لیے کردے اور دونوں کے راستے الگ الگ کردے تو بھی درست ہوجائے گا۔حوالہ
وَمَنْ بَنَى مَسْجِدًا لَمْ يَزُلْ مِلْكُهُ حَتَّى يُفْرِزَهُ عَنْ مِلْكِهِ بِطَرِيقِهِ وَيَأْذَنَ بِالصَّلَاةِ فِيهِ وَإِذَا صَلَّى فِيهِ وَاحِدٌ زَالَ مِلْكُهُ(البحر الرائق فَصْلٌ اخْتَصَّ الْمَسْجِدُ بِأَحْكَامٍ تُخَالِفُ أَحْكَامَ مُطْلَقِ الْوَقْفِ ۴۹۷/۱۴) وأخذ هذا القانون برأي الإمام أبي حنيفة وصاحبيه في عدم صحة وقف الحصة الشائعة لتكون مسجداً أو مقبرة إلا بعد إفرازها؛ لأن شيوعها يمنع خلوصها لله تعالى، ويجعلها عرضة لتغيير جهة الانتفاع بها، فتتحول إلى حانوت أو أرض مزروعة، ونحوها، وهو أمر مستنكر شرعاً. (الفقه الاسلامي وادلته  شروط الموقوف: ۳۲۱/۱۰)۔
بند
(۴)تعمیر مسجد میں حلال پیسے ہی استعمال کریں اس لیے کہ جو مال بھی مسجد میں استعمال ہوتا ہے وہ اللہ کے لیے ہوتا ہے اوراللہ پاک ہے اورپاکی کو پسند کرتا ہے۔حوالہ
عن سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ جَوَادٌ يُحِبُّ الْجُودَ فَنَظِّفُوا أُرَاهُ قَالَ أَفْنِيَتَكُمْ وَلَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي النَّظَافَةِ ۲۷۲۳)
بند
(۵)تعمیر مسجد وغیرہ میں کوئی غیر مسلم قرب ونیکی وغیرہ حاصل كرنےکےلیے پیسے وغیرہ دیتا ہو تو اس کا لینا درست ہے بشرطیکہ اس بات کا خطرہ نہ ہوکہ آئندہ چل کر وہ مسلمانوں سے مندر کی تعمیر کے لیے تعاون کا مطالبہ  کریں گے اس لیے کہ مسلمان کے لیے غیر اسلامی عبادت گاہ کے لیے تعاون کرنا ناجائز ہے۔حوالہ
شَرْطَ وَقْفِ الذِّمِّيِّ أَنْ يَكُونَ قُرْبَةً عِنْدَنَا وَعِنْدَهُمْ كَالْوَقْفِ عَلَى الْفُقَرَاءِ أَوْ عَلَى مَسْجِدِ الْقُدْسِ(رد المحتار، مطلب قديثبت الوقف بالضرورة، ۱۷۶/۱۷) وَأَمَّا الْإِسْلَامُ فَلَيْسَ مِنْ شَرْطِهِ فَصَحَّ وَقْفِ الذِّمِّيِّ بِشَرْطِ كَوْنِهِ قُرْبَةً عِنْدَنَا وَعِنْدَهُمْ(البحر الرائق شرائط الوقف ۲۶۰/۱۴) درء للمفاسد أولى من جلب للمصالح :  فإذا تعارضت مفسدة ومصلحة قدم دفع المفسدة غالبا لأن اعتناء الشرع بالمنهيات أشد من اعتنائه بالمأمورات ولذا قال عليه السلام: إذا أمرتكم بشيء فأتوا منه ما استطعتم وإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه(الاشباه والنظائر ۱۱۳/۱) وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدة: ۲)
بند
(۶)ناپاکی، جنابت اورحیض کی حالت میں مسجد میں آنا جائز نہیں ہے،البتہ احاطۂ مسجد میں دکان یا وضو خانہ،طہارت خانہ یا ایسی جگہ جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی وہ مسجد شرعی کے حکم میں نہیں ہے اس لیے ناپاکی کے حالت میں بھی وہاں جاسکتے ہیں۔حوالہ
عن عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهُ بُيُوتِ أَصْحَابِهِ شَارِعَةٌ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ وَجِّهُوا هَذِهِ الْبُيُوتَ عَنْ الْمَسْجِدِ ثُمَّ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَصْنَعْ الْقَوْمُ شَيْئًا رَجَاءَ أَنْ تَنْزِلَ فِيهِمْ رُخْصَةٌ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ بَعْدُ فَقَالَ وَجِّهُوا هَذِهِ الْبُيُوتَ عَنْ الْمَسْجِدِ فَإِنِّي لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ(ابو داود بَاب فِي الْجُنُبِ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ ۲۰۱)
بند
(۷)مسجد میں داخل ہوتے وقت اپناداہنا قدم ڈال کر درود شریف پڑھ کر اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ پڑھے اور نکلتے وقت بایاں قدم پہلے نکالیں اور درود شریف پڑھ کر اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ پڑھے۔حوالہ
عن أَبي حُمَيْدٍ أَوْ أَبي أُسَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لِيَقُلْ اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ فَإِذَا خَرَجَ فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ۔
(ابو داود بَاب فِيمَا يَقُولُهُ الرَّجُلُ عِنْدَ دُخُولِهِ الْمَسْجِدَ ۳۹۳)
بند
(۸)مسجد میں کوئی بدبودار چیز کھا کر داخل نہ ہو جیسے لہسن ،پیاز وغیرہ اورجاتے ہی بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے اور کوئی بھی ایسا عمل نہ کرے جو احترام مسجد کےخلاف ہو،کھانا پینا اور سونا وغیرہ اگر مجبوری ہے تو گنجائش ہوسکتی ہے۔حوالہ
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ قَالَ أَوَّلَ يَوْمٍ الثُّومِ ثُمَّ قَالَ الثُّومِ وَالْبَصَلِ وَالْكُرَّاثِ فَلَا يَقْرَبْنَا فِي مَسَاجِدِنَا فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ الْإِنْسُ(نسائي باب مَنْ يُمْنَعُ مِنْ الْمَسْجِدِ ۷۰۰) عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ(بخاري بَاب إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ ۴۲۵)عن نَافِع قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَأَنَّهُ كَانَ يَنَامُ وَهُوَ شَابٌّ أَعْزَبُ لَا أَهْلَ لَهُ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،،، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ قَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ فَجَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ وَأَصَابَهُ تُرَابٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ قُمْ أَبَا تُرَابٍ قُمْ أَبَا تُرَابٍ(بخاري بَاب نَوْمِ الرِّجَالِ فِي الْمَسْجِدِ ۴۲۱،۴۲۲) الضرورات تبيح المحظورات(الاشباه والنظائر:۱۰۷/۱)
بند


1 comment:

  1. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete