نماز کا حکم
اللہ تعالی نے فرمایا:
حَافِظُواْ عَلَی الصَّلَوَاتِ والصَّلاَۃِ الْوُسْطَی وَقُومُواْ لِلّہِ قَانِتِیْنَ۔
(البقرة:۲۳۸)
نماز کی پابندی کرو،اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے سامنے خشوع خضوع سے کھڑے رہو۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد ہے:
أَرَأَیْتُمْ لَوْ أَنَّ نَھْرًا بِبَابِ أَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ فِیْہِ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسًا ھَلْ یَبْقَیٰ مِنْ دَرَنِہٖ شَیْیٌٔ، قَالُوْا لاَ یَبْقَیٰ مِنْ دَرَنِہٖ شَیْیٌٔ، قَالَ فَذَالِکَ مَثَلُ صَلَوَاتِ الْخَمْسِ یَمْحُوْااللہ بِھِنَّ الْخَطَایَا۔حوالہ
(بخاري بَاب الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ كَفَّارَةٌ ۴۹۷)
ترجمہ: تمہاری کیا رائے ہے کہ تم میں سے کسی کے گھر کے سامنے نہر ہو جس میں ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کا میل کچیل کچھ باقی رہ جائے گا صحابہ نے عرض کیا کہ اس کے میل کچیل میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی پانچوں نمازوں کی مثال ہے ، ان سے اللہ تعالی گناہوں کو مٹادیتے ہیں۔
نماز ایک بڑی اہم عبادت ہے ، جو بندے کو اپنے رب سے ملاتی ہے۔ نماز اللہ کی بے شمار نعمتوں کا شکرانہ ہے۔
نماز کے معنی
نماز کے لغوی اور شرعی معنی
نماز کے لغوی معنی دعا کے آتے ہیں۔حوالہ
الصلاةفي اللغة:الدعاء، (التعريفات:۴۳/۱)
نماز کے شرعی معنی:چند مخصوص اقوال اور افعال کا نام ہے جو تکبیر تحریمہ سے شروع کئے جاتے ہیں اور سلام سے ختم کئے جاتے ہیں۔ صلوة کو صلوةاس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس کا اکثر حصہ دعا پر مشتمل ہوتا ہے۔حوالہ
وفي الشريعة:عبارة عن أركان مخصوصة، وأذكار معلومة، بشرائط محصورة في أوقات مقدرة،(التعريفات:۴۳/۱)
نماز کی قسمیں
(۱) رکوع اور سجدہ والی نماز۔(۲) بغیر رکوع وسجدہ کی نمازاور و ہ نماز جنازہ ہے۔
رکوع اور سجدہ والی نماز کی تین قسمیں ہیں:
عَنْ طَلْحَةَ بْن عُبَيْدِ اللَّهِ يَقُولُ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرَ الرَّأْسِ يُسْمَعُ دَوِيُّ صَوْتِهِ وَلَا يُفْقَهُ مَا يَقُولُ حَتَّى دَنَا فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنْ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ(بخاري بَاب الزَّكَاةُ مِنْ الْإِسْلَامِ ۴۴)
(۲) واجب:وہ وتر اور عیدین کی نماز ہے اور ان نوافل کی قضاء ہے جسے شروع کرنے کے بعد فاسد کردیا ہو اور طواف کے بعد کی دورکعتیں۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا(ابوداود بَاب فِيمَنْ لَمْ يُوتِرْ ۱۲۰۹) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلَاةُ ثُمَّ يَنْصَرِفُ (بخاري بَاب الْخُرُوجِ إِلَى الْمُصَلَّى بِغَيْرِ مِنْبَرٍ ۹۰۳) وَقَالَ نَافِعٌ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُصَلِّي لِكُلِّ سُبُوعٍ رَكْعَتَيْنِ وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ قُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ إِنَّ عَطَاءً يَقُولُ تُجْزِئُهُ الْمَكْتُوبَةُ مِنْ رَكْعَتَيْ الطَّوَافِ فَقَالَ السُّنَّةُ أَفْضَلُ لَمْ يَطُفْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبُوعًا قَطُّ إِلَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ… عَنْ عَمْرٍو سَأَلْنَا ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَيَقَعُ الرَّجُلُ عَلَى امْرَأَتِهِ فِي الْعُمْرَةِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ قَالَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا ثُمَّ صَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ(بخاري بَاب صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسُبُوعِهِ رَكْعَتَيْنِ ۱۵۱۸)
نفل:وہ فرائض اور واجبات کے علاوہ ہیں۔
نماز کی فرضیت کے شرائط
جب تک تین شرطیں بیک وقت جمع نہ ہو جائیں ، نماز فرض نہیں ہوتی۔
ولا تجب عند الحنفية على الكافر، بناء على مبدئهم في أن الكافر غير مطالب بفروع الشريعة، لا في حكم الدنيا ولا في حكم الآخرة (الفقه الاسلامي وادلته شروط وجوب الصلاة:۶۳۷/۱)
(۲) بالغ ہونا، بچے پر نماز فرض نہیں۔حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ الخ۳۱۵/۱۶)
(۳) عقل مند ہونا، پاگل پر نماز فرض نہیں ۔حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ الخ۳۱۵/۱۶)
جب بچے سات سال کے ہو جائیں تو ماں باپ کو چاہئے کہ وہ بچوں کو نمازکا حکم کریں جب دس سال کے ہو جائیں تو ان پر نماز کے واجب ہونے سے پہلے نماز کا عادی بنانے کے لئے(ضرورت پڑنے پر) ان کو ماریں۔حوالہ
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ (ابوداود بَاب مَتَى يُؤْمَرُ الْغُلَامُ بِالصَّلَاةِ۴۱۸)
نماز کے اوقات کا حکم
اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ الصَّلاَۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوتاً۔
بے شک نماز مؤمنین پر اوقات مقررہ میں ہے۔
(النساء:۱۰۳)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خَمْسُ صَلَوَاتٍ اِفْتَرَضَھُنَّ اللہ تَعَالیٰ مَنْ أَحْسَنَ وَضُوْئَھُنَّ وَصَلَّاھُنَّ لِوَقْتِھِنَّ وَأَتَمَّ رُکُوْعَھُنَّ وَخُشُوْ عَھُنَّ کَانَ لَہٗ عَلَی اللہ عَھْدٌ اِنْ یَّغْفِرَ وَمَنْ لَّمْ یَفْعَلْ فَلَیْسَ لَہٗ عَلَی اللہ عَھْدٌ اِنْ شَاءَ غَفَرَ وَاِنْ شَاءَ عَذَّبَہْ۔حوالہ
(ابوداود بَاب فِي الْمُحَافَظَةِ عَلَى وَقْتِ الصَّلَوَاتِ۳۶۱)
ترجمہ: اللہ تعالی نے پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں جو اچھی طرح ان کا وضو کرے اور انہیں وقت پر ادا کرے؛ اس کے رکوع کوکامل طریقے سے خشوع خضوع کے ساتھ کرے تو اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ مغفرت کا وعدہ ہے اورجو اس طرح نہ کرے تو اللہ کا اس کے ساتھ کوئی عہد نہیں؛ چاہے تو اس کی مغفرت کردے اور چاہے تو اسے عذاب دے۔
پانچوں نمازوں کے اوقات
اللہ نے مسلمان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں،ذیل میں فرض نمازوں کی رکعتیں اور اوقات مذکور ہیں:
فجر کی نماز:
وہ دو رکعت ہے؛ اس کا وقت صبح صادق کے طلوع ہونے سے لے کر سورج کے طلوع ہونے سے پہلے تک رہتا ہے۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الصُّبْحِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِ الم تَنْزِيلُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى وَفِي الثَّانِيَةِ هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنْ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا (مسلم بَاب مَا يُقْرَأُ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ: ۱۴۵۶) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَقْتُ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ مَا لَمْ يَحْضُرْ الْعَصْرُ وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ الْأَوْسَطِ وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ(مسلم، بَاب أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ۹۶۶)
ظہر کی نماز:
وہ چاررکعت ہیں؛ اس کا وقت سورج کے درمیانی آسمان سے ڈھلنے کے بعد سے شروع ہوتا ہے ۔ حوالہ
وہ چاررکعت ہیں؛ اس کا وقت سورج کے درمیانی آسمان سے ڈھلنے کے بعد سے شروع ہوتا ہے ۔ حوالہ
وہ چاررکعت ہیں؛ اس کا وقت سورج کے درمیانی آسمان سے ڈھلنے کے بعد سے شروع ہوتا ہے ۔ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ يُطَوِّلُ فِي الْأُولَى وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ وَيُسْمِعُ الْآيَةَ أَحْيَانًا وَكَانَ يَقْرَأُ فِي الْعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ وَكَانَ يُطَوِّلُ فِي الْأُولَى وَكَانَ يُطَوِّلُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ(بخاري بَاب الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ۷۱۷) مذکورہ روایت میں فی احدی الرکعتین (شروع کی دورکعت) سے ظاہرہوتا ہے کہ اس کے بعد اور دورکعت ہیں اس طرح جملہ چار رکعتیں ہوتی ہیں۔ عَنْ بُرَيْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ لَهُ صَلِّ مَعَنَا هَذَيْنِ يَعْنِي الْيَوْمَيْنِ فَلَمَّا زَالَتْ الشَّمْسُ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الظُّهْرَ ثُمَّ أَمَرَهُ الخ(مسلم، بَاب أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ۹۶۹) اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ہر چیز کے زوال کے وقت پائے جانے والے سائے کے علاوہ اس کے دوگنے ہونے تک باقی رہتا ہے متأخرین احناف کے نزدیک اسی قول پر فتوی اور اسی پر عمل ہے، عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ لِلظُّهْرِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْرِدْ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ فَقَالَ لَهُ أَبْرِدْ حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ(بخاري بَاب الْإِبْرَادُ بِالظُّهْرِ فِي السَّفَرِ ۵۰۶)امام ابو یوسف اور امام محمدرحمہ اللہ کے نزدیک ہر چیز کے سائےاصلی کے علاوه اس کےایك مثل ہونےتک باقی رہتا ہے اور امام طحاوی رحمہ اللہ نےایك مثل ہی کو ترجیح دی ہے۔عن ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَّنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام عِنْدَ الْبَيْتِ مَرَّتَيْنِ فَصَلَّى الظُّهْرَ فِي الْأُولَى مِنْهُمَا حِينَ كَانَ الْفَيْءُ مِثْلَ الشِّرَاكِ ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ كُلُّ شَيْءٍ مِثْلَ ظِلِّهِ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ وَجَبَتْ الشَّمْسُ وَأَفْطَرَ الصَّائِمُ ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ حِينَ بَرَقَ الْفَجْرُ وَحَرُمَ الطَّعَامُ عَلَى الصَّائِمِ وَصَلَّى الْمَرَّةَ الثَّانِيَةَ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالْأَمْسِ ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَيْهِ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ لِوَقْتِهِ الْأَوَّلِ ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ أَسْفَرَتْ الْأَرْضُ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَذَا وَقْتُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِكَ وَالْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ۱۳۸)
عصر کی نماز:
وہ چار رکعت ہیں؛ اس کا وقت ظہر کے وقت ختم ہونے سے شروع ہوتا ہے اور سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے۔حوالہ
وہ چار رکعت ہیں؛ اس کا وقت ظہر کے وقت ختم ہونے سے شروع ہوتا ہے اور سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے۔حوالہ
وہ چار رکعت ہیں؛ اس کا وقت ظہر کے وقت ختم ہونے سے شروع ہوتا ہے اور سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے۔ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ يُطَوِّلُ فِي الْأُولَى وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ وَيُسْمِعُ الْآيَةَ أَحْيَانًا وَكَانَ يَقْرَأُ فِي الْعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ وَكَانَ يُطَوِّلُ فِي الْأُولَى وَكَانَ يُطَوِّلُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ(بخاري بَاب الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ۷۱۷) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ …وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ(بخاري بَاب مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الْفَجْرِ رَكْعَةً ۵۴۵)
مغرب کی نماز:
اس کا وقت سورج غروب ہوتے وقت شروع ہوتا ہے اور شفق احمر کے غائب ہونے تک باقی رہتا ہے۔حوالہ
اس کا وقت سورج غروب ہوتے وقت شروع ہوتا ہے اور شفق احمر کے غائب ہونے تک باقی رہتا ہے۔حوالہ
اس کا وقت سورج غروب ہوتے وقت شروع ہوتا ہے اور شفق احمر کے غائب ہونے تک باقی رہتا ہے۔ عَنْ بُرَيْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ لَهُ صَلِّ مَعَنَا هَذَيْنِ يَعْنِي الْيَوْمَيْنِ فَلَمَّا زَالَتْ الشَّمْسُ… فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ فَلَمَّا أَنْ كَانَ الْيَوْمُ الثَّانِي أَمَرَهُ فَأَبْرَدَ بِالظُّهْرِ … وَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ وَصَلَّى الْعِشَاءَ بَعْدَمَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ وَصَلَّى الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِهَا ثُمَّ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَقْتُ صَلَاتِكُمْ بَيْنَ مَا رَأَيْتُمْ(مسلم، بَاب أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ۹۶۹) عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم « الشَّفَقُ الْحُمْرَةُ فَإِذَا غَابَ الشَّفَقُ وَجَبَتِ الصَّلاَةُ(دار قطني باب الْحَثِّ عَلَى الرُّكُوعِ بَيْنَ الأَذَانَيْنِ فِى كُلِّ صَلاَةٍ ۱۰۶۶)
عشاء کی نماز:
وہ چار رکعت ہیں؛ اس کا وقت شفق احمر کے غائب ہونے سے شروع ہوتا اور صبح صادق کے طلوع تک باقی رہتا ہے۔حوالہ
وہ چار رکعت ہیں؛ اس کا وقت شفق احمر کے غائب ہونے سے شروع ہوتا اور صبح صادق کے طلوع تک باقی رہتا ہے۔حوالہ
وہ چار رکعت ہیں؛ اس کا وقت شفق احمر کے غائب ہونے سے شروع ہوتا اور صبح صادق کے طلوع تک باقی رہتا ہے۔ عَنْ أَبِى نَضْرَةَ قَالَ : كُنَّا عِنْدَ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَكُنَّا نَتَذَاكَرُ الْعِلْمَ ، فَقَالَ رَجُلٌ : لاَ تَتَحَدَّثُوا إِلاَّ بِمَا فِى الْقُرْآنِ. فَقَالَ لَهُ عِمْرَانُ : إِنَّكَ لأَحْمَقُ أَوَجَدْتَ فِى الْقُرْآنِ صَلُّوا الظُّهْرَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ ، وَالْعَصْرَ أَرْبَعًا لاَ تَجْهَرْ بِالْقِرَاءَةِ فِى شَىْءٍ مِنْهَا ، وَالْمَغْرِبَ ثَلاَثًا تَجْهَرُ بِالْقِرَاءَةِ فِى الرَّكْعَتَيْنِ مِنْهَا ، وَلاَ تَجْهَرْ بِالْقِرَاءَةِ فِى رَكْعَةٍ ، وَالْعِشَاءَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تَجْهَرُ بِالْقِرَاءَةِ فِى رَكْعَتَيْنِ مِنْهَا ، وَلاَ تَجْهَرْ بِالْقِرَاءَةِ فِى رَكْعَتَيْنِ ، وَالْفَجْرَ رَكْعَتَيْنِ تَجْهَرُ فِيهِمَا بِالْقِرَاءَةِ. (السنن الكبري للبيهقي باب الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ فِى صَلاَةِ الصُّبْحِ: ۳۱۹۳)، عَنْ بُرَيْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ لَهُ صَلِّ مَعَنَا هَذَيْنِ يَعْنِي الْيَوْمَيْنِ فَلَمَّا زَالَتْ الشَّمْسُ… فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ فَلَمَّا أَنْ كَانَ الْيَوْمُ الثَّانِي أَمَرَهُ فَأَبْرَدَ بِالظُّهْرِ … وَصَلَّى الْعِشَاءَ بَعْدَمَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ وَصَلَّى الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِهَا ثُمَّ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَقْتُ صَلَاتِكُمْ بَيْنَ مَا رَأَيْتُمْ (مسلم، بَاب أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ۹۶۹) عَنْ أَبِي بَرْزَةَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الصُّبْحَ وَأَحَدُنَا يَعْرِفُ جَلِيسَهُ وَيَقْرَأُ فِيهَا مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ وَيُصَلِّي الظُّهْرَ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ وَالْعَصْرَ وَأَحَدُنَا يَذْهَبُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجَعَ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي الْمَغْرِبِ وَلَا يُبَالِي بِتَأْخِيرِ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ ثُمَّ قَالَ إِلَى شَطْرِ اللَّيْل(بخاري بَاب وَقْتُ الظُّهْرِ عِنْدَ الزَّوَالِ : ۵۰۸( عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ ثُمَّ صَلَّى ثُمَّ قَالَ قَدْ صَلَّى النَّاسُ وَنَامُوا أَمَا إِنَّكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمُوهَا (بخاري بَاب وَقْتِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ: ۵۳۸) بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ لَهُ صَلِّ مَعَنَا هَذَيْنِ يَعْنِي الْيَوْمَيْنِ فَلَمَّا زَالَتْ الشَّمْسُ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ…وَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ وَصَلَّى الْعِشَاءَ بَعْدَمَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ وَصَلَّى الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِهَا ثُمَّ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَقْتُ صَلَاتِكُمْ بَيْنَ مَا رَأَيْتُمْ (بخاري بَاب أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ: ۹۶۹) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ حَتَّى ذَهَبَ عَامَّةُ اللَّيْلِ وَحَتَّى نَامَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى فَقَالَ إِنَّهُ لَوَقْتُهَا لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي (بخاري بَاب وَقْتِ الْعِشَاءِ وَتَأْخِيرِهَا: ۱۰۰۹) آخر کی مذکورہ تین احادیث کے علاوہ اور بھی مختلف احادیث کوحضرت امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح معانی الاثار، باب مواقیت الصلاۃ میں ذکر فرمانے کے بعد ہرنماز کے اوّل وآخر وقت کی تعیین کے سلسلے میں ایک فیصلہ کن بات بتائی ہے اس میں عشاء کی نماز کے آخر وقت کے سلسلے میں جوفیصلہ کیا ہے اس کا خلاصہ حضرت عبدالحئ لكھنوی رحمہ اللہ نے یہ بتلایا کہ احادیث کے مجموعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عشاء کا آخری وقت طلوعِ فجر تک ہے۔ قوله : ما بينك وبين ثلث الليل تكلم الطحاوي في " شرح معاني الآثار " ( 1 / 93 ، باب مواقيت الصلاة ) ها ههنا كلاما حسنا ملخصه أنه قال : يظهر من مجموع الأحاديث أن آخر وقت العشاء حين يطلع الفجر وذلك أن ابن عباس وأبا موسى وأبا سعيد رووا أن النبي صلى الله عليه و سلم أخرها إلى ثلث الليل وروى أبو هريرة وأنس أنه أخرها حتى انتصف الليل وروى ابن عمر أنه أخرها حتى ذهب ثلث الليل وروت عائشة أنه أعتم بها حتى ذهب عامة الليل وكل هذه الروايات في " الصحيح " قال : فثبت بهذا كله أن الليل كله وقت لها ولكنه على أوقات ثلاثة فأما من حين يدخل وقتها إلى أن يمضي ثلث الليل فأفضل وقت صليت فيه وأما بعد ذلك إلى نصف الليل ففي الفضل دون ذلك وأما بعد نصف الليل فدونه ثم ساق بسنده عن نافع بن جبير قال : كتب عمر إلى أبي موسى : وصل العشاء أي الليل شئت ولا تغفلهاالخ (التعليق المُمَجَّد لموطّأ الإمام محمد وهو شرح لعبد الحيّ اللَّكنوي علي الموطا باب وقوت الصلاة: ۴۳/۱)
وترکی نماز:
یہ واجب ہوتی ہے ، اس کا وقت بعینہٖ عشاء کا وقت ہوتا ہے ؛ لیکن یہ عشاء کے بعد پڑھی جاتی ہے۔حوالہ
یہ واجب ہوتی ہے ، اس کا وقت بعینہٖ عشاء کا وقت ہوتا ہے ؛ لیکن یہ عشاء کے بعد پڑھی جاتی ہے۔حوالہ
یہ واجب ہوتی ہے ، اس کا وقت بعینہٖ عشاء کا وقت ہوتا ہے ؛ لیکن یہ عشاء کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا(ابوداود بَاب فِيمَنْ لَمْ يُوتِرْ ۱۲۰۹)، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ أَنَّهُ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ أَمَدَّكُمْ بِصَلَاةٍ هِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ الْوِتْرُ جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْوِتْرِ ۴۱۴) اگر کوئی وتر عشاء سے پہلے پڑھ لے تو اس پر عشاء کی نماز کے بعد وتر کا اعادہ ضروری ہوگا۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَرَكْعَتَيْ الضُّحَى وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ (بخاري بَاب صِيَامِ أَيَّامِ الْبِيضِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ: ۱۸۴۵) مذکورہ حدیث کے علاوہ جتنی بھی احادیث وتر کی نماز کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ان سب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حكم اور معمول عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑھنے کا تھا، کسی حدیث میں عشاء سے پہلے وتر پڑھنے کا تذکرہ نہیں ہے؛ اس لیے عشاء کی نماز کے بعد وترپڑھنے کوضروری قرار دیا گیا اور ترتیب کے سقوط کی وجہ سے وترکےاعادہ کاحكم ديا گيا۔
اوقات نماز کے فروعی مسائل
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْإِسْفَارِ بِالْفَجْرِ۱۴۲)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنْ الصَّلَاةِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ(بخاري بَاب الْإِبْرَادُ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ ۵۰۲)
(۳)ظہر کو سردی کے موسم میں جبکہ آسمان ابر آلود ہواتنا مؤخر کرنا مستحب ہے کہ سورج کا زوال یقینی ہو جائے۔حوالہ
عن أَنَس بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَدَّ الْبَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلَاةِ وَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ يَعْنِي الْجُمُعَةَ(بخاري بَاب إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ۸۵۵)
عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ قَالَ قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَكَانَ يُؤَخِّرُ الْعَصْرَ مَا دَامَتْ الشَّمْسُ بَيْضَاءَ نَقِيَّةً(ابوداود بَاب فِي وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ ۳۴۵)
عن إبراهيم ، قال :« أخروا الظهر في يوم الغيم ، وعجلوا العصر ، وأخروا المغرب »(الاثار لابي يوسف باب الأذان۹۳)
عن رَافِع بْن خَدِيجٍ يَقُولُ كُنَّا نُصَلِّي الْمَغْرِبَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْصَرِفُ أَحَدُنَا وَإِنَّهُ لَيُبْصِرُ مَوَاقِعَ نَبْلِهِ(بخاري بَاب وَقْتُ الْمَغْرِبِ ۵۲۶) عن إبراهيم ، أنه قال :« ما اجتمع أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم على شيء من الصلاة كما اجتمعوا على التنوير بالفجر ، والتبكير بالمغرب(الاثار لابي يوسف باب الأذان ۹۶) عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيِّ قَالَ قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو أَيُّوبَ غَازِيًا وَعُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ يَوْمَئِذٍ عَلَى مِصْرَ فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ فَقَامَ إِلَيْهِ أَبُو أَيُّوبَ فَقَالَ مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ يَا عُقْبَةُ فَقَالَ شُغِلْنَا قَالَ أَمَا وَاللَّهِ مَا بِي إِلَّا أَنْ يَظُنَّ النَّاسُ أَنَّكَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ هَذَا أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ أَوْ عَلَى الْفِطْرَةِ مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلَى أَنْ يَشْتَبِكَ النُّجُومُ (مسند احمد حديث أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه ۲۳۵۸۱)
عن إبراهيم ، قال :« أخروا الظهر في يوم الغيم ، وعجلوا العصر ، وأخروا المغرب »(الاثار لابي يوسف باب الأذان۹۳)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ مَكَثْنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ فَخَرَجَ إِلَيْنَا حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ أَوْ بَعْدَهُ فَلَا نَدْرِي أَشَيْءٌ شَغَلَهُ فِي أَهْلِهِ أَوْ غَيْرُ ذَلِكَ فَقَالَ حِينَ خَرَجَ إِنَّكُمْ لَتَنْتَظِرُونَ صَلَاةً مَا يَنْتَظِرُهَا أَهْلُ دِينٍ غَيْرُكُمْ وَلَوْلَا أَنْ يَثْقُلَ عَلَى أُمَّتِي لَصَلَّيْتُ بِهِمْ هَذِهِ السَّاعَةَ ثُمَّ أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَصَلَّى (مسلم، بَاب وَقْتِ الْعِشَاءِ وَتَأْخِيرِهَا۱۰۱۰)عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ وَقَالَ مُحَمَّدٌ لَوْلَا أَنْ يُشَقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَخَّرْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ وَلَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ(مسند احمد بقية حديث زيد بن خالد الجهني عن النبي صلى الله عليه و سلم ۱۷۰۷۳)
عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَيُّكُمْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ ثُمَّ لِيَرْقُدْ وَمَنْ وَثِقَ بِقِيَامٍ مِنْ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ مِنْ آخِرِهِ فَإِنَّ قِرَاءَةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَحْضُورَةٌ وَذَلِكَ أَفْضَلُ(مسلم، بَاب مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ ۱۲۵۶)
ایک وقت میں دو فرضوں کو جمع کرنا جائز نہیں، خواہ یہ جمع کرنا بوجہ عذر ہو یا بغیر کسی عذر کے ہو خصوصا حاجیوں کے لئے ظہر اور عصر کو البتہ عرفہ میں ظہر کے وقت میں پڑھنا واجب ہے-حوالہ
عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فَسَأَلَ عَنْ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ فَقُلْتُ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَنَزَعَ زِرِّي الْأَعْلَى ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الْأَسْفَلَ ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ فَقَالَ مَرْحَبًا بِكَ يَا ابْنَ أَخِي… فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … ثُمَّ أَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا…الخ(مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۲۱۳۷)
عن أَبي أَيُّوب الْأَنْصَارِيّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِالْمُزْدَلِفَةِ(بخاري بَاب مَنْ جَمَعَ بَيْنَهُمَا وَلَمْ يَتَطَوَّعْ۱۵۶۲)
وہ اوقات جن میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
مندرجہ ذیل اوقات میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ نماز فرض ہو یا واجب اسی طرح ان اوقات میں فوت شدہ نمازوں کی قضاء بھی جائز نہیں ہے۔
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عِنِ الصَّلَاةِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا(بخاري بَاب الطَّوَافِ بَعْدَ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ۱۵۲۳)
عَنْ عُقْبَة بْن عَامِرٍ الْجُهَنِيّ يَقُولُاثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ(مسلم، بَاب الْأَوْقَاتِ الَّتِي نُهِيَ عَنْ الصَّلَاةِ فِيهَا ۱۳۷۳)
(۳) سورج کے زرد ہونے کے وقت ، تاآنکہ غروب ہو جائے ، خود اس دن کی نمازعصر (اس حکم سے) مستثنی ہے، چونکہ وہ سورج کے زرد ہونے کے وقت پڑھی جاسکتی ہے۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ (بخاري بَاب مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الْفَجْرِ رَكْعَةً: ۵۴۵) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ سورج کے غروب ہونے سے پہلے مکروہ وقت ہونے کے باوجود کوئی اس دن کی عصر کی نماز کے بعض حصہ کوپالے تووہ عصر کوپالیا؛ اس لیے کہ وہ ناقص وقت میں فرض ہوئی توجس صفت کے ساتھ فرض ہوئی اسی صفت سے ادا کرتا ہے توادا ہوجائیگی۔
ان اوقات میں واجب شدہ چیزیں کراہت کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں ، لہذا اگر ان اوقات میں جنازه حاضر ہوجاےتو نماز جنازه کراہت کے ساتھ جائز ہے ، ایسے ہی اگر کوئی شخص ان اوقات میں آیت سجدہ کی تلاوت کرے، تو سجدہ تلاوت اس کیلئے کراہت کے ساتھ جائز ہے۔حوالہ
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا الصَّلَاةُ إِذَا آنَتْ وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْوَقْتِ الْأَوَّلِ مِنْ الْفَضْلِ: ۱۵۶) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ(بخاري بَاب السُّرْعَةِ بِالْجِنَازَةِ ۱۲۳۱) ان اوقات میں کوئی نماز وغیرہ پڑھنا درست نہیں؛ جیسا کہ گذشتہ روایت سے معلوم ہوا؛ البتہ سجدۂ تلاوت ناقص وقت میں پڑھنے کی وجہ سے ناقص واجب ہوا تواس کی ادائیگی بھی ناقص وقت میں درست ہوجائیگی؛ اس لیے کہ جیسا واجب ہوا ویسے ادا ہوا؛ اسی طرح جنازۃ ناقص وقت میں حاضر ہونے کی وجہ سے ناقص وقت میں درست ہوگا، دوسری بات یہ ہے کہ حدیث میں جنازہ حاضر ہونے کے بعد تاخیر کرنے سے منع کیا گیا؛ اس لیے بھی اس وقت نماز جنازہ پڑھی جائے توکراہت کے ساتھ جائز ہوگی؛ البتہ افضل تومکروہ وقت کے نکلنے کے بعد ہی پڑھنا ہے؛ جیسا کہ مکروہ اوقات والی حدیث سے ظاہر ہے،اوپر مذکور اوقات میں نفل نمازیں پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔
عَنْ عُقْبَة بْن عَامِرٍ الْجُهَنِيّ يَقُولُاثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ(مسلم، بَاب الْأَوْقَاتِ الَّتِي نُهِيَ عَنْ الصَّلَاةِ فِيهَا ۱۳۷۳) مذکورہ حدیث میں ان تین اوقات میں مطلقاً نماز پڑھنے سے منع کیا گیا؛ خواہ فرض ہو یاواجب ہویاسنت یانفل وغیرہ؛ اس لیے کوئی نماز پڑھنا جائز نہ ہوگا؛ البتہ اگرکوئی نفل نماز ان اوقات میں شروع کردے توجیسے ہی وہ شروع کریگا تووَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد: ۳۳)کے تحت فوراً واجب ہوجائیگی اور ناقص واجب ہونے كیوجہ سےاس کی ادائیگی بھی ناقص وقت میں درست ہوجائیگی ليكن مذکورہ حدیث کی وجہ سے مکروہِ تحریمی ہوگی۔
وہ اوقات جن میں نفل نمازیں مکروہ ہیں
عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ لَا يُصَلِّي إِلَّا رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ (مسلم، بَاب اسْتِحْبَابِ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِالخ ۱۱۸۵)
عن أَبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ(بخاري بَاب لَا تُتَحَرَّى الصَّلَاةُ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ ۵۵۱)
عن أَبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ(بخاري بَاب لَا تُتَحَرَّى الصَّلَاةُ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ ۵۵۱)
إذا دخل أحدكم المسجد والامام على المنبر فلا صلاة ولاكلام حتى يفرغ الامام (کنزالعمال،باب محظورات الجمعۃ، حدیث نمبر:۲۱۲۱۲)۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ(مسلم بَاب كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ: ۱۱۶۰)
اس سے فجر کی سنت مستثنیٰ ہے ، کیونکہ وہ اقامت کے وقت اور اس کے بعد بغیر کسی کراہت کے مسجد کے کسی کونے میں پڑہی جاسکتی ہے ، جب اس کا امام کو دوسری رکعت میں پالینا یقینی ہو۔حوالہ
عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا (مسلم بَاب اسْتِحْبَابِ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ وَالْحَثِّ عَلَيْهِمَا الخ: ۱۱۹۳) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمْ يَكُنْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ (بخاري بَاب تَعَاهُدِ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ وَمَنْ سَمَّاهُمَا تَطَوُّعًا:۱۰۹۳) عَنْ أَبِي مُوسَى ، حِينَ دَعَاهُمْ سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ - دَعَا أَبَا مُوسَى ، وَحُذَيْفَةَ ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ الْغَدَاةَ ، ثُمَّ خَرَجُوا مِنْ عِنْدِهِ وَقَدْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ ، فَجَلَسَ عَبْدُ اللَّهِ إلَى أُسْطُوَانَةٍ مِنْ الْمَسْجِدِ ، فَصَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ .(شرح معاني الاثار بَابٌ الرَّجُلُ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ وَالْإِمَامُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَلَمْ يَكُنْ رَكَعَ : ۱۶۴/۲) فجر کی سنت کی بہت زیادہ تاکید آئی ہے، اس لیے جماعت کے ملنے کی اُمید ہوتوسنت پڑھ کرجماعت میں شامل ہونا چاہیے؛ جیسا کہ مذکورہ احادیث وآثار سے معلوم ہوا۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَلِّي قَبْلَ الْعِيدِ شَيْئًا فَإِذَا رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ (ابن ماجه بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِيدِ وَبَعْدَهَا: ۱۲۸۳) مذکورہ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بتلایا گیا کہ عید کی نماز سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھا کرتے تھے، مطلق کہنے سے معلوم ہوا کہ نہ گھر میں نہ عیدگاہ میں۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ؛ أَنَّ أَبَا مَسْعُودٍ ألأَنْصَارِيَّ كَانَ إِذَا كَانَ يَوْمَ أَضْحَى ، أَوْ يَوْمَ فِطْرٍ طَافَ فِي الصُّفُوفِ ، فَقَالَ :لاَ صَلاَةَ إِلاَّ مَعَ الإِمَام.(مصنف ابن ابي شيبة مَنْ كَانَ لاَ يُصَلِّي قَبْلَ الْعِيدِ ، وَلاَ بَعْدَهُ ۱۷۸/۲)،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدِ فِطْرٍ أَوْ أَضْحًى فَصَلَّى بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ وَلَمْ يُصَلِّ قَبْلَهُمَا وَلَا بَعْدَهُمَا(مسند احمد بِدَايَة مُسْنَد عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ۳۱۶۲)
عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ :سَمِعْتُهُ يَقُولُ :كَانَ عَبْدُ اللهِ إِذَا رَجَعَ يَوْمَ الْعِيدِ ، صَلَّى فِي أَهْلِهِ أَرْبَعًا.(مصنف ابن ابي شيبة فِيمَنْ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْعِيدِ أَرْبَعًا ۱۷۹/۲)
(۸) جب وقت اس طرح تنگ ہو کہ اسے خدشہ ہو کہ اگر وہ نفل میں لگ جائے تو فرض نماز چھوٹ جائے گی۔
عَنْ ابْنِ أَبِي عَتِيقٍ قَالَ تَحَدَّثْتُ أَنَا وَالْقَاسِمُ عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَدِيثًا وَكَانَ الْقَاسِمُ رَجُلًا لَحَّانَةً وَكَانَ لِأُمِّ وَلَدٍ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ مَا لَكَ لَا تَحَدَّثُ كَمَا يَتَحَدَّثُ ابْنُ أَخِي هَذَا أَمَا إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ مِنْ أَيْنَ أُتِيتَ هَذَا أَدَّبَتْهُ أُمُّهُ وَأَنْتَ أَدَّبَتْكَ أُمُّكَ قَالَ فَغَضِبَ الْقَاسِمُ وَأَضَبَّ عَلَيْهَا فَلَمَّا رَأَى مَائِدَةَ عَائِشَةَ قَدْ أُتِيَ بِهَا قَامَ قَالَتْ أَيْنَ قَالَ أُصَلِّي قَالَتْ اجْلِسْ قَالَ إِنِّي أُصَلِّي قَالَتْ اجْلِسْ غُدَرُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ(مسلم، بَاب كَرَاهَةِ الصَّلَاةِ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ الَّذِي يُرِيدُ أَكْلَهُ فِي الْحَالِ ۸۶۹)
عَنْ ابْنِ أَبِي عَتِيقٍ قَالَ تَحَدَّثْتُ أَنَا وَالْقَاسِمُ عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَدِيثًا وَكَانَ الْقَاسِمُ رَجُلًا لَحَّانَةً وَكَانَ لِأُمِّ وَلَدٍ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ مَا لَكَ لَا تَحَدَّثُ كَمَا يَتَحَدَّثُ ابْنُ أَخِي هَذَا أَمَا إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ مِنْ أَيْنَ أُتِيتَ هَذَا أَدَّبَتْهُ أُمُّهُ وَأَنْتَ أَدَّبَتْكَ أُمُّكَ قَالَ فَغَضِبَ الْقَاسِمُ وَأَضَبَّ عَلَيْهَا فَلَمَّا رَأَى مَائِدَةَ عَائِشَةَ قَدْ أُتِيَ بِهَا قَامَ قَالَتْ أَيْنَ قَالَ أُصَلِّي قَالَتْ اجْلِسْ قَالَ إِنِّي أُصَلِّي قَالَتْ اجْلِسْ غُدَرُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ(مسلم، بَاب كَرَاهَةِ الصَّلَاةِ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ الَّذِي يُرِيدُ أَكْلَهُ فِي الْحَالِ ۸۶۹)
(۱۱) کسی ایسی چیز کے موجود ہونے کے وقت جو چیز اس کے دل کو غافل کردے اور اس کے خشوع میں خلل پیدا کردے۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ أَبِي عَتِيقٍ قَالَ تَحَدَّثْتُ أَنَا وَالْقَاسِمُ عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَدِيثًا وَكَانَ الْقَاسِمُ رَجُلًا لَحَّانَةً وَكَانَ لِأُمِّ وَلَدٍ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ مَا لَكَ لَا تَحَدَّثُ كَمَا يَتَحَدَّثُ ابْنُ أَخِي هَذَا أَمَا إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ مِنْ أَيْنَ أُتِيتَ هَذَا أَدَّبَتْهُ أُمُّهُ وَأَنْتَ أَدَّبَتْكَ أُمُّكَ قَالَ فَغَضِبَ الْقَاسِمُ وَأَضَبَّ عَلَيْهَا فَلَمَّا رَأَى مَائِدَةَ عَائِشَةَ قَدْ أُتِيَ بِهَا قَامَ قَالَتْ أَيْنَ قَالَ أُصَلِّي قَالَتْ اجْلِسْ قَالَ إِنِّي أُصَلِّي قَالَتْ اجْلِسْ غُدَرُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ(مسلم، بَاب كَرَاهَةِ الصَّلَاةِ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ الَّذِي يُرِيدُ أَكْلَهُ فِي الْحَالِ ۸۶۹)
عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فَسَأَلَ عَنْ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ فَقُلْتُ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَنَزَعَ زِرِّي الْأَعْلَى ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الْأَسْفَلَ ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ فَقَالَ مَرْحَبًا بِكَ يَا ابْنَ أَخِي… فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ …ثُمَّ أَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا…الخ(مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۲۱۳۷) (۱۳) مزدلفہ میں خاص طور سے حاجیوں کے لئے مغرب اور عشاء کے درمیان۔عن أَبي أَيُّوب الْأَنْصَارِيّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِالْمُزْدَلِفَةِ(بخاري بَاب مَنْ جَمَعَ بَيْنَهُمَا وَلَمْ يَتَطَوَّعْ۱۵۶۲) عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَهُمَا بِالْمُزْدَلِفَةِ صَلَّى كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بِإِقَامَةٍ وَلَمْ يَتَطَوَّعْ قَبْلَ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا وَلَا بَعْدُ(نسائي الْإِقَامَةُ لِمَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ۶۵۴)
اذان اور اقامت کے مسائل
اذان ، فرض نماز کے لئے مردوں پر سنت مؤکدہ ہے۔حوالہ
عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا(بخاري بَاب اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ۶۱۸)
اقامت فرض نمازوں کے لئے مردوں پر سنت مؤکدہ ہے ، خواہ مقیم ہو یا مسافر ، خواہ وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہوں یا تن تنہا ، خواہ وقتی نماز ادا کررہے ہوں یا فوت شدہ نماز۔حوالہ
عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا(بخاري بَاب اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ۶۱۸) عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَعْجَبُ رَبُّكَ مِنْ رَاعِي غَنَمٍ فِي رَأْسِ شَظِيَّةِ الْجَبَلِ يُؤَذِّنُ بِالصَّلَاةِ وَيُصَلِّي فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ الصَّلَاةَ يَخَافُ مِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي وَأَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ(نسائي الْأَذَانُ لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ۶۶۰) عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ :بَلَغَنَا أَنَّ رِجَالاً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ، كَانَ أَحَدُهُمْ إذَا صَلَّى فِي دَارِهِ أَذَّنَ بِالأَولَى ، وَالإِقَامَةِ فِي كُلِّ صَلاَةٍ. ( مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فِي بَيْتِهِ يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ أَمْ لاَ ؟۲۲۰/۱) عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ :لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ أَذَانٌ وَلاَ إِقَامَةٌ. (السنن الكبري للبيهقي باب لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ أَذَانٌ وَلاَ إِقَامَةٌ ۱۹۹۶)
اذان یوں کہے:
اللہ اَکْبَرْ اللہ سب سے بڑا ہے
اللہ اَکْبَرْ اللہ سب سے بڑا ہے
اللہ اَکْبَرْ اللہ سب سے بڑا ہے
اللہ اَکْبَرْ اللہ سب سے بڑا ہے
اَشْھَدُ اَنَّ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں
اَشْھَدُ اَنَّ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں
اَشْھَدُ اَنَّ محمدارسول اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں
اَشْھَدُ اَنَّ محمدارسول اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں
حَیَّ عَلَی الصَّلوۃٰ آؤ نماز کی طرف
حَیَّ عَلَی الصَّلوۃٰ آؤ نماز کی طرف
حَیَّ عَلَی الْفَلاحْ آؤ کامیابی کی طرف
حَیَّ عَلَی الْفَلاحْ آؤ کامیابی کی طرف
اللہ اَکْبَرْ اللہ سب سے بڑا ہے
اللہ اَکْبَرْ اللہ سب سے بڑا ہے
(ابوداود بَاب كَيْفَ الْأَذَانُ ۴۲۱) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ كَانَ أَذَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَفْعًا شَفْعًا فِي الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِقَامَةَ مَثْنَى مَثْنَى ۱۷۹)
فجر کی اذان میں" حَیَّ عَلَی الْفَلاح" کے بعد دو مرتبہ" اَلصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوم "کا اضافہ کیا جائے گا۔حوالہ
عن أَبي مَحْذُورَةَ يَقُولُأَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ حَرْفًا حَرْفًا اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَالَ وَكَانَ يَقُولُ فِي الْفَجْرِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ(ابوداود بَاب كَيْفَ الْأَذَانُ ۴۲۵)
اقامت بھی اذان کے مثل ہے لیکن اقامت میں"حَیَّ عَلَی الْفَلاح"کے بعد دو مرتبہ"قَدْقَامَتِ الصَّلوۃْ " کا بھی اضافہ کیا جائے گا۔حوالہ
اذان ٹہر ٹہر کردی جائے گی اور اقامت جلدی جلدی دی جائے گی۔حوالہ
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالٍ يَا بِلَالُ إِذَا أَذَّنْتَ فَتَرَسَّلْ فِي أَذَانِكَ وَإِذَا أَقَمْتَ فَاحْدُر(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي التَّرَسُّلِ فِي الْأَذَانِ ۱۸۰)
اذان صرف عربی زبان میں ہی صحیح ہوتی ہے ، اگر عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں اذان دے تو صحیح نہیں ہے، خواہ اسے معلوم ہو کہ یہ اذان ہے یا معلوم نہ ہو۔حوالہ
عن عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ قَالَ لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ يُعْمَلُ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلَاةِ طَافَ بِي وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ فَقُلْتُ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ قَالَ وَمَا تَصْنَعُ بِهِ فَقُلْتُ نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ قَالَ أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ فَقُلْتُ لَهُ بَلَى قَالَ فَقَالَ تَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ ثُمَّ اسْتَأْخَرَ عَنِّي غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ قَالَ وَتَقُولُ إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَلَمَّا أَصْبَحْتُ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ فَقَالَ إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ فَلْيُؤَذِّنْ بِهِ فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ فَجَعَلْتُ أُلْقِيهِ عَلَيْهِ وَيُؤَذِّنُ بِهِ قَالَ فَسَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ وَيَقُولُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَأَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلِلَّهِ الْحَمْدُ۔ (ابوداود بَاب كَيْفَ الْأَذَانُ: ۴۲۱)۔ اس لیے کہ اذان بھی قرآن کی طرح عربی زبان ہی میں وارد ہوئی ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا۔
اذان کے مستحبات
مندرجہ ذیل چیز یں اذان میں مستحب ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يُؤَذِّنُ إِلَّا مُتَوَضِّئٌ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْأَذَانِ بِغَيْرِ وُضُوءٍ ۱۸۴)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللَّهُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي النَّوْمِ عَنْ الصَّلَاةِ ۱۹۱)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُؤَذِّنْ لَكُمْ خِيَارُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ قُرَّاؤُكُمْ(ابن ماجه بَاب فَضْلِ الْأَذَانِ وَثَوَابِ الْمُؤَذِّنِينَ۷۱۸)
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ :أُحِيلَتِ الصَّلاَةُ ثَلاَثَةَ أَحْوَالٍ ، فَذَكَرَ أَوَلاً حَالَ الْقِبْلَةِ … ثُمَّ إِنَّ رَجُلاً يُقَالُ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ أَتَى النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ :يَا رَسُولَ اللَّهِ بَيْنَا أَنَا بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ رَأَيْتُ شَخْصًا عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ قَامَ ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَقَالَ :اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ، الخ(السنن الكبري للبيهقي باب اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ بِالأَذَانِ وَالإِقَامَةِ ۱۹۱۱)
عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ رَأَيْتُ بِلَالًا يُؤَذِّنُ وَيَدُورُ وَيُتْبِعُ فَاهُ هَا هُنَا وَهَا هُنَا وَإِصْبَعَاهُ فِي أُذُنَيْهِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي إِدْخَالِ الْإِصْبَعِ فِي الْأُذُنِ عِنْدَ الْأَذَانِ۱۸۱)
(۶) حَیَّ عَلَی الصَّلوۃٰ کہتے وقت اپنے چہرے کو دائیں جانب پھیر ے اور حَیَّ عَلَی الْفَلاحْ کے وقت اپنی چہرے کو بائیں جانب پھیرے۔حوالہ
وَقَالَ مُوسَى قَالَ رَأَيْتُ بِلَالًا خَرَجَ إِلَى الْأَبْطَحِ فَأَذَّنَ فَلَمَّا بَلَغَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ لَوَى عُنُقَهُ يَمِينًا وَشِمَالًا (ابوداود بَاب فِي الْمُؤَذِّنِ يَسْتَدِيرُ فِي أَذَانِهِ ۴۳۶)
(۷) اذان اور اقامت کے درمیان اس قدر فاصلہ ہو کہ جماعت کی پابندی کرنے والے حاضر ہو جائیں ، ہاں !اگر وقت کے نکل جانے کا اندیشہ ہو تو نماز کو مؤخر نہیں کیا جائے گا۔حوالہ
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالٍ يَا بِلَالُ إِذَا أَذَّنْتَ فَتَرَسَّلْ فِي أَذَانِكَ وَإِذَا أَقَمْتَ فَاحْدُرْ وَاجْعَلْ بَيْنَ أَذَانِكَ وَإِقَامَتِكَ قَدْرَ مَا يَفْرُغُ الْآكِلُ مِنْ أَكْلِهِ وَالشَّارِبُ مِنْ شُرْبِهِ وَالْمُعْتَصِرُ إِذَا دَخَلَ لِقَضَاءِ حَاجَتِهِ وَلَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي التَّرَسُّلِ فِي الْأَذَانِ ۱۸۰)
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ ثُمَّ يُمْهِلُ فَإِذَا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَرَجَ أَقَامَ الصَّلَاةَ(ابوداود بَاب فِي الْمُؤَذِّنِ يَنْتَظِرُ الْإِمَامَ۴۵۲) عَنْ شُعْبَةَ فَقَالَ :وَكَانَ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ قَرِيبٌ يَعْنِى بِهِ فِى صَلاَةِ الْمَغْرِبِ.(السنن الكبري للبيهقي باب كَمْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ.۲۳۷۳)
(۹) اذان سننے والے کا کام سے رک جانا اور موذن کے الفاظ کا دہرانا مستحب ہے، لیکن وہ حَیَّ عَلَی الصَّلوۃٰاور حَیَّ عَلَی الْفَلاحْ کے وقت"لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمْ"کہے گا اور موذن کے "اَلصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوم"، کہنے کے وقت "صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ "کہے۔حوالہ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا سَمِعْتُمْ النِّدَاءَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ (بخاري بَاب مَا يَقُولُ إِذَا سَمِعَ الْمُنَادِي۵۷۶) عن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَقَالَ أَحَدُكُمْ اللَّهُ أَكْبَرُ … ثُمَّ قَالَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ قَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ قَالَ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّه (مسلم، بَاب اسْتِحْبَابِ الْقَوْلِ مِثْلِ قَوْلِ الْمُؤَذِّنِ لِمَنْ سَمِعَهُ ۵۷۸) ويقول في قوله :الصلاة خير من النوم :صدقت وبررت (الاذكار للنووي باب ما يقول من سمع المؤذن والمقيم۳۶/۱)
(۱۰) موذن اور سننے والے دونوں کا اذان سے فراغت کے بعد ان کلمات کا کہنا مستحب ہے :
اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلوۃِ الْقَائِمَۃِ، اٰتِ مُحَمَّدِنِ الْوَسِیْلَۃْ وَالْفَضِیْلَۃْ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَنِ الَّذِیْ وَعَدْتَہٗ۔
اے اللہ تو رب ہے اس دعوت تامہ کا اور صلوۃ قائمہ کا تو عطا فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت اور ان کو قائم فرما اس مقام میں جس کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے۔حوالہ
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ(بخاري بَاب الدُّعَاءِ عِنْدَ النِّدَاءِ ۵۷۹)
اذان کے مکروہات
مندرجہ ذیل چیزیں اذان میں مکروہ ہیں۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ الْمَكِّيِّ ؛ أَنَّ مُؤَذِّنًا أَذَّنَ فَطَرَّبَ فِي أَذَانِهِ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ :أَذِّنْ أَذَانًا سَمْحًا ، وَإِلا فَاعْتَزِلْنَا. (مصنف ابن ابي شيبة التطريب في الأَذَانِ.۲۲۹/۱)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يُؤَذِّنُ إِلَّا مُتَوَضِّئٌ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْأَذَانِ بِغَيْرِ وُضُوءٍ ۱۸۴) عَنِ الْحَسَنِ … وَيُقِيمَ وَهُوَ طَاهِرٌ.(مصنف ابن ابي شيبة فِي الْمُؤَذِّنِ يُؤَذِّنُ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ۲۱۱/۱)
عَنْ وَائِلٍ قَالَ :حَقٌّ وَسُنَّةٌ مَسْنُونَةٌ أَنْ لاَ يُؤَذِّنَ الرَّجُلُ إِلاَّ وَهُوَ طَاهِرٌ ، وَلاَ يُؤَذِّنَ إِلاَّ وَهُوَ قَائِمٌ.(السنن الكبري للبيهقي باب الْقِيَامِ فِى الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ۱۹۱۳)
عن أبي إسحاق قال :…ويكره للصبي أن يؤذن حتى يحتلم.(مصنف عبد الرزاق باب الاذان قاعدا وهل يؤذن الصبي ۴۶۹/۱)
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَا ۳۱۵/۱۶)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُؤَذِّنْ لَكُمْ خِيَارُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ قُرَّاؤُكُمْ(ابن ماجه بَاب فَضْلِ الْأَذَانِ وَثَوَابِ الْمُؤَذِّنِينَ۷۱۸)
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلَغَهُ أَنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ فِي أُنَاسٍ مَعَهُ فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ الصَّلَاةُ فَجَاءَ بِلَالٌ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حُبِسَ وَقَدْ حَانَتْ الصَّلَاةُ فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ قَالَ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَأَقَامَ بِلَالٌ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَبَّرَ لِلنَّاسِ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ فَأَخَذَ النَّاسُ فِي التَّصْفِيقِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ الْتَفَتَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُهُ أَنْ يُصَلِّيَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَرَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى لِلنَّاسِ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا لَكُمْ حِينَ نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّلَاةِ أَخَذْتُمْ فِي التَّصْفِيقِ إِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ (بخاري بَاب الْإِشَارَةِ فِي الصَّلَاةِالخ: ۱۱۵۸) اس لیے کہ اس کی آواز فتنہ ہے اسی وجہ سے عورت کی آواز کوبھی پردہ میں شامل کرکے آواز کرنے سے روکا گیا؛ جیسا کہ اس پرمذکورہ حدیث دال ہے۔
عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُؤَذِّنَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَأَذَّنْتُ فَأَرَادَ بِلَالٌ أَنْ يُقِيمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَخَا صُدَاءٍ قَدْ أَذَّنَ وَمَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ مَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ۱۸۳) اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کوکھڑے ہوکراذان دینے کی تعلیم دی اور اذان بیٹھ کردینا آپ کی تعلیم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ قرار دیا گیا۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُؤَذِّنْ لَكُمْ خِيَارُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ قُرَّاؤُكُمْ(ابن ماجه بَاب فَضْلِ الْأَذَانِ وَثَوَابِ الْمُؤَذِّنِينَ۷۱۸)
عن إبراهيم قال :كانوا يكرهون للمؤذن إذا أخذ في أذانه أن يتكلم حتى يفرغ ، وفي الاقامة كذلك(مصنف عبد الرزاق باب الكلام بين ظهراني الاذن ۴۶۸/۱)
عَنْ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ (ابوداود بَاب التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجُمُعَةِ:۸۸۸) چونکہ جمعہ کے دن ظہر کی نماز سے زیادہ اہمیت جمعہ کے نماز کی ہے اس لیے اس کے چھوڑنے والے پروعید بھی آئی ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا؛ بہرحال ظہر سے زیادہ تاکید جمعہ کی ہے اس لیے اس دن ظہر کی نماز کے لیے اذان دینے کومکروہ قرار دیا گیا۔ الْفَرْضُ هُوَ الْجُمُعَةُ ابْتِدَاءً وَهِيَ آكَدُ مِنْ الظُّهْرِ ، حَتَّى وَجَبَ تَرْكُ الظُّهْر لِأَجْلِهَا ، ثُمَّ إنَّهُمَا وَجَبَا لِإِقَامَةِ الظُّهْرِ ، فَالْجُمُعَةُ أَحَقُّ (بدائع الصنائع ( فَصْلٌ بَيَانُ مَحَلِّ وُجُوبِ الْأَذَانِ: ۱۰۷/۲)
جس کی چند نمازیں چھوٹی ہوں وہ پہلی فوت شدہ نماز کے لئے اذان اور اقامت کہے گا پھر اس کو باقی نمازوں کے سلسلہ میں اختیار ہے، چاہے تو وہ ہر نماز کے لئے اذان اور اقامت کہے۔حوالہ
عن عبدالله بن مسعود قال: "شغل المشركون رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن الصلوات: الظهر والعصر والمغرب والعشاء حتى ذهب ساعة من الليل، ثم أمر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عنه بلالا فأذن وأقام، ثم صلى الظهر، ثم أمره فأذن وأقام، ثم صلى العصر، ثم أمره فأذن وأقام، فصلى المغرب، ثم أمره فأذن وأقام، فصلى العشاء".(إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرةالمؤلف : شهاب الدين أحمد بن أبي بكر بن اسماعيل البوصيري (المتوفى : 840هـ) باب من فاته صلوات أذن لكل صلاة۱۴۰/۱) عن عطاء قال : ومن كان من أهل قرية غى رجامعة فلهم أذان إقامة لكل صلاة قلت : ساكني عرفة كم لهم ؟ قال : أذان وإقامة لكل صلاة ، إن كان لهم إمام يجمعهم (فلهم أذان وإقامة لكل صلاة) (مصنف عبد الرزاق باب الاذان في البادية: ۴۹۴/۱)
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ تَفُوتُهُ الصَّلَوَاتُ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ ۱۶۴)
نماز کے صحیح ہونے کی شرطیں
یہاں چند چیزیں ایسی ہیں جو نماز کی حقیقت میں داخل نہیں ہیں، لیکن وہ نماز کی صحت کے لئے اس طرح لازم ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی چیز چھوٹ جائے تو نماز صحیح نہیں ہوتی ان چیزوں کو نماز کی شرطیں کہا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلَاةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ(بخاري بَاب فِي الصَّلَاةِ ۶۴۴۰)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا (المائدة:۶)
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهَا قَالَتْ سَأَلَتْ امْرَأَةٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَهَا الدَّمُ مِنْ الْحَيْضَةِ كَيْفَ تَصْنَعُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ إِحْدَاكُنَّ الدَّمُ مِنْ الْحَيْضَةِ فَلْتَقْرُصْهُ ثُمَّ لِتَنْضَحْهُ بِمَاءٍ ثُمَّ لِتُصَلِّي فِيهِ (بخاري بَاب غَسْلِ دَمِ الْمَحِيضِ ۲۹۶)
(ج)نمازی کے کپڑے کا پاک ہونا۔ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ
(المدثر:۴)
(د)جس جگہ نماز پڑھ رہا ہو اس جگہ کا پاک ہونا، جگہ کی پاکی میں دونوں پیروں ، ہاتھوں اور پیشانی کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے۔حوالہ
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ(البقرة:۱۲۵)عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ :رَآنِي مُجَاهِدٌ وَأَنَا أَنْضَحُ مَكَانًا مِنْ سَطْحٍ لَنَا نُصَلِّي فِيهِ ، فَقَالَ :لاَ تَنْضَحْ ، إنَّ النَّضْحَ لاَ يَزِيدُهُ إِلاَّ شَرًّا ، وَلَكِنِ اُنْظُرْ إلَى الْمَكَانِ الَّذِي تُرِيدُهُ تَسْجُدُ فِيهِ فَانْفُخْهُ.(مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فِي الْمَكَانِ الَّذِي لَيْسَ بِنَظِيفٍ ۵۳۴/۲) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ(ترمذي بَاب مَا ذُكِرَ فِي تَطْيِيبِ الْمَسَاجِدِ۵۴۲)
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ(الاعراف :۳۱)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْحَائِضِ إِلَّا بِخِمَارٍ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْمَرْأَةِ إِلَّا بِخِمَارٍ۳۴۴)
شرمگاہ چھپانے پر قدرت ہونے کے باوجود شرمگاہ نہ چھپانے سے نماز صحیح نہیں ہوتی ، نماز کے شروع سے لیکر ختم تک شرمگاہ کا چھپا ہوا ہونا ضروری ہے ، نماز شروع کرتے وقت ہی سے اگر چوتھائی عضو کھلا ہوا ہو تو نماز نہیں ہوتی ، اگر دوران نماز ایک رکن کی ادائیگی کی مدت چوتھائی عضو کھل جائے تو نماز باطل ہو جائیگی۔حوالہ
وَإِنْ انْكَشَفَتْ عَوْرَتُهُ فِي الصَّلَاةِ فَسَتَرَهَا بِلَا مُكْثٍ جَازَتْ صَلَاتُهُ إجْمَاعًا وَإِنْ أَدَّى رُكْنًا مَعَ الِانْكِشَافِ فَسَدَتْ إجْمَاعًا (الهندية الْبَابُ الثَّالِثُ فِي شُرُوطِ الصَّلَاةِ:۴۵۱/۲)أَنَّ الشَّرْعَ أَقَامَ الرُّبْعَ مَقَامَ الْكُلِّ فِي كَثِيرٍ مِنْ الْمَوَاضِعِ ، كَمَا فِي حَلْقِ الرَّأْسِ فِي حَقِّ الْمُحْرِمِ ، وَمَسْحِ رُبْعِ الرَّأْسِ كَذَا هَهُنَا ، إذْ الْمَوْضِعُ مَوْضِعُ الِاحْتِيَاطِ .(بدائع الصنائع ( فَصْلٌ شَرَائِطُ الْأَرْكَانِ: ۴۷۷/۱)
مرد کےستر کی حد: ناف سے لیکر گھٹنے کے ختم تک ہے،گھٹنہ بھی شرمگاہ ہے، برخلاف ناف کے کہ وہ شرمگاہ نہیں ہے۔حوالہ
قَالَ مُوسَى وَاسْمُهُ عُقْبَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا رضى الله عنه يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم « الرُّكْبَةُ مِنَ الْعَوْرَةِ(دار قطني باب الأَمْرِ بِتَعْلِيمِ الصَّلَوَاتِ وَالضَّرْبِ عَلَيْهَا وَحَدِّ الْعَوْرَةِ الَّتِى يَجِبُ سَتْرُهَا ۹۰۱)عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا زَوَّجَ أَحَدُكُمْ خَادِمَهُ عَبْدَهُ أَوْ أَجِيرَهُ فَلَا يَنْظُرْ إِلَى مَا دُونَ السُّرَّةِ وَفَوْقَ الرُّكْبَةِ(ابوداود باب فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ{ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ }۳۵۸۷)
باندی کےستر کی حد:ناف سے لے کر گھٹنے کے ختم تک ، پیٹ اور پیٹھ سمیت۔حوالہ
عن عطاء أن عمر ابن الخطاب كان ينهى الاماء من الجلابيب أن يتشبهن بالحرائر ،(مصنف عبد الرزاق باب الخمار ۱۳۵/۳)
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ قُنْفُذٍ عَنْ أُمِّهِ أَنَّهَا سَأَلَتْ أُمَّ سَلَمَةَ مَاذَا تُصَلِّي فِيهِ الْمَرْأَةُ مِنْ الثِّيَابِ فَقَالَتْ تُصَلِّي فِي الْخِمَارِ وَالدِّرْعِ السَّابِغِ الَّذِي يُغَيِّبُ ظُهُورَ قَدَمَيْهَا(ابوداود بَاب فِي كَمْ تُصَلِّي الْمَرْأَةُ ۵۴۴)
(۳) تیسری شرط :استقبال قبلہ پر قدرت کے باوجود استقبال قبلہ نہ ہونے کی وجہ سے نماز صحیح نہیں ہوتی ۔حوالہ
قبلہ کیا ہے؟
فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (البقرة:۱۴۹) فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ(البقرة:۱۵۰) وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ وَكَبِّرْ(بخاري بَاب التَّوَجُّهِ نَحْوَ الْقِبْلَةِ حَيْثُ كَانَ ۱۵۸/۲)
قبلہ عین کعبہ ہے:یہ اس شخص کا قبلہ ہے جو مکہ مکرمہ کا باشندہ ہو اور اس کے دیکھنے پر قادر ہو۔حوالہ
عَنْ عَطَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ دَعَا فِي نَوَاحِيهِ كُلِّهَا وَلَمْ يُصَلِّ حَتَّى خَرَجَ مِنْهُ فَلَمَّا خَرَجَ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي قُبُلِ الْكَعْبَةِ وَقَالَ هَذِهِ الْقِبْلَةُ(بخاري بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى{ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى }۳۸۳)
یا کعبہ کی سمت ہے:یہ اس شخص کا قبلہ ہے جو خانہ کعبہ کو دیکھ نہیں سکتا ہو، اسی طرح جو مکہ مکرمہ سے دور ہو، اس کا قبلہ بھی سمت کعبہ ہے۔ جو شخص مرض یا دشمن کے ڈر کی وجہ سے کعبہ کا استقبال نہ کرسکتا ہو، وہ جس جہت پر قادر ہو نماز پڑھ سکتا ہے۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ (بخاري بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِبْلَةِ وَمَنْ لَمْ يَرَ الْإِعَادَةَ عَلَى مَنْ سَهَاالخ۳۸۸) عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْخَوْفِ… فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ هُوَ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ صَلَّوْا رِجَالًا قِيَامًا عَلَى أَقْدَامِهِمْ أَوْ رُكْبَانًا مُسْتَقْبِلِي الْقِبْلَةِ أَوْ غَيْرَ مُسْتَقْبِلِيهَ(بخاري بَاب قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ الخ ۴۱۷۱(
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (النساء:۱۰۳) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَقْرَبُ إِلَى الْجَنَّةِ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى مَوَاقِيتِهَا(مسلم، بَاب بَيَانِ كَوْنِ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ تَعَالَى أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ ۱۲۱)نماز کے اوقات کا تفصیلی ذکر پیچھے گذر چکا ہے۔
عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (بخاري بدْءِ الْوحْيِ: ۱) وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (البينة:۴) مذکورہ حدیث کی وجہ سے نماز کے صحیح ہونے کی ایک شرط نیت قرار دی گئی، اس لیے کہ اعمال کا دارومدار اسی کے اوپر ہے۔
اگر فرض نماز ہو تو اس کی تعیین ضروری ہے جیسے ظہر یا عصر کی نماز، اسی طرح اگر نماز واجب ہو تو اس کی تعیین ضروری ہے جیسے وتر یا عیدین کی نماز، ہاں !اگر نماز نفل ہو تو نیت کی تعیین شرط نہیں ہے ، بلکہ مطلق نماز کی نیت کافی ہے۔حوالہ
عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (بخاري بدْءِ الْوحْيِ: ۱) وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (البينة:۴) مذکورہ روایت کی وجہ سے نیت کرنا توضروری ہے ہی چونکہ فرض نماز کے جواوقات ہیں وہ ان کے لیے اس اعتبار سے ظرف ہیں کہ ہروقت میں وقتیہ نماز کے علاوہ اور بھی بہت ساری نمازیں پڑھنے کی گنجائش ہوتی ہے، اس لیے جب تک تعیین نیت نہ ہوگی اس وقت تک وقتیہ نماز کا اپنے ذمہ سے نکلنا دشوار ہے، برخلاف نفل کے، اس میں ذمہ میں کوئی وجوب نہیں ہوتا اس لیے صرف نماز کی نیت کافی ہوگی؛ اسی وجہ سے فقہائے کرام نے فرائض وواجبات میں تعیین نیت (آج کی ظہر، یا آج کی عصر وغیرہ) کوضروری قرار دیا۔ الأصل عندنا أن المنوي ؟ إما أن يكون من العبادات أو لا فإن كان عبادة فإن كان وقتها ظرفا للمؤدى بمعنى أنه يسعه وغيره فلا بد من التعيين كالصلاة كأن ينوي الظهر فإن قرنه باليوم كظهر اليوم صح وإن خرج الوقت أو بالوقت(الاشباه والنظائر تعيين المنوي وعدمه: ۴۳/۱)
اگر مقتدی ہو تو اسے امام کی اتباع کی نیت کرنا ضروری ہے۔حوالہ
عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (بخاري بدْءِ الْوحْيِ: ۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور متابعت ایک ایسا عمل ہے جونیت کا محتاج ہوتا ہے؛ اس لیے مقتدی کے لیے نیت کوضروری قرار دیا گیا۔
(۶)چھٹی شرط : تحریمہ۔تحریمہ کا مطلب خاص اللہ کے ذکر سے نماز شروع کرنا جیسے:اللہ اکبر یا اللہ اعظم،یا سبحان اللہ کہے۔حوالہ
عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ :إذَا سَبَّحَ ، أَوْ هَلَّلَ فِي افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ ، أَجْزَأَهُ مِنَ التَّكْبِيرِ(مصنف ابن ابي شيبة ما يجزئ مِنَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ.۲۳۸/۱)
نیت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان کسی نماز کے منافی عمل سے فصل نہ کرے جیسے کھانا، پینا۔حوالہ
السابع : في وقتها : الأصل أن وقتها أول العبادات ولكن الأول حقيقي وحكمي فقالوا في الصلاة : لو نوى قبل الشروع ؟ فعند محمد لو نوى عند الوضوء أنه يصلي الظهر أو العصر مع الإمام ولم يشتغل بعد النية بما ليس من جنس الصلاة إلا أنه لما انتهى إلى مكان الصلاة لم تحضر النية ؟ جازت صلاته بتلك النية وهكذا روي عن أبي حنيفة و أبي يوسف كذا في الخلاصة(الاشباه والنظائر وقت النية: ۵۸/۱)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ وَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ يُصَلِّي كَمَا صَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَهُ فَعَلِّمْنِي فَقَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا الخ (بخاري بَاب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ الخ: ۷۱۵) مذکورہ حدیث کے علاوہ بہت ساری احادیث ہیں جن میں نماز کی ترتیب کوبتلایا گیا اولاً تکبیرِتحریمہ پھرقیام پھرقرأت اور رکوع وغیرہ، نماز کی صحت کے لیے اس ترتیب کوبرقرار رکھنا ضروری ہے؛ اگرجھکتے ہوئے تکبیر کہی جائے توقیام نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہ ہوگی؛ اس لیے اولاً کھڑے ہوکر تکبیر کہے اور یہ صورت امام کی متابعت میں پیش آتی ہے۔
تکبیر تحریمہ سے نیت کو موخر نہ کرے ۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ وَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ يُصَلِّي كَمَا صَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَهُ فَعَلِّمْنِي فَقَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ الخ (بخاري بَاب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ الخ: ۷۱۵) مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذاقمت الی الصلاۃ فکبر یعنی جب نماز کے لیے کھڑے ہو توتکبیر کہو اس جملے میں اذاقمت الی الصلاۃ سے نیت کی طرف اشارہ ملتا ہے اور یہ تکبیر سے پہلے ہے اس لیے نیت کوتکبیر سے مؤخر نہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
اور" اللہ اکبر " اس طرح کہے کہ خود کو سنائی دے۔حوالہ
وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (المدثر: ۳)عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ مِفْتَاحَ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ: ۳) مذکورہ نصوص کی وجہ سے تکبیرِتحریمہ کے تلفظ کوفرض قرار دیا گیا اور تلفظ کی کم سے کم مقدار خود کوسنائی دینا ہے۔ ( وَأَدْنَى الْمُخَافَتَةِ إسْمَاعُ نَفْسِهِ ) فَقَطْ وَهُوَ قَوْلُ الْهِنْدُوَانِيِّ وَعَلَى أَكْثَرِ الْمَشَايِخِ ( فِي الصَّحِيحِ ) (مجمع الانهر فصل في احكام القراءة في الصلاة: ۳۰۹/۱)
شرائط نماز کےفروعی مسائل
جوشخص نجاست کا ازالہ کرنے والی چیز نہ پائے وہ نجاست کے ساتھ نماز پڑھ لے، نماز کو نہ لوٹائے، جو شخص شرمگاہ چھپانے کے لئے کپڑے نہ پائے ، اسی طرح وہ گھاس اور مٹی بھی نہ پائے ننگے نماز پڑھے اور نماز کو نہ لوٹائے ۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، فِي قَوْمٍ انْكَسَرَتْ بِهِمْ مَرَاكِبُهُمْ ، فَخَرَجُوا عُرَاةً ، قَالَ :يُصَلُّونَ جُلُوسًا ، يُومِئُونَ إيمَاءً بِرُءُوسِهِمْ(المغني ۳۶/۳) عن ابن عباس قال :الذي يصلي في السفينة والذي يصلي عريانا يصلي جالسا.(مصنف عبد الرزاق باب صلاة العريان ۵۸۴/۲)
جس کا چوتھائی کپڑاپاک ہو اس کیلئے ننگے نماز پڑھنا جائزنہیں۔حوالہ
عَنْ جَرْهَدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ كَاشِفٌ عَنْ فَخِذِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَطِّ فَخِذَكَ فَإِنَّهَا مِنْ الْعَوْرَةِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْفَخِذَ عَوْرَةٌ۲۷۲۰)
جس کا کپڑا ناپاک ہو، اس کا ناپاک کپڑے میں نماز پڑھنا اس کے ننگے نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، ننگا شخص بیٹھ کر قبلہ کی جانب پیر پھیلا کر نماز پڑھے ، رکوع اور سجدہ کو اشارہ سے ادا کرے۔حوالہ
عن الحجاج بن أرطاة ، قال :سألت عطاء عن القوم ، يغرقون فيخرجون عراة ، كيف يصلون ؟ قال :إن أصابوا حشيشا استتروا به ، وإلا صلوا قعودا إمامهم بينهم ، أو قال :وسطهم(المطالب العالية باب ستر العورة ۳۵۳)عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، فِي قَوْمٍ انْكَسَرَتْ بِهِمْ مَرَاكِبُهُمْ ، فَخَرَجُوا عُرَاةً ، قَالَ :يُصَلُّونَ جُلُوسًا ، يُومِئُونَ إيمَاءً بِرُءُوسِهِمْ(المغني ۳۶/۳)
ناپاک کپڑے کے پاک کونے پر نماز جائز ہے ، خواه کپڑے کا ایک کنارہ دوسرے کنارے کے حرکت دینے پر متحرک ہوتا ہويا نہ ہوتا ہو۔
وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (الحج: ۲۶)ولعل التعبير عن الصلاة بأركانها من القيام والركوع والسجود للدلالة على أن كل واحد منها مستقل باقتضاء التطهير (روح المعاني:۴۷/۱۳) عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ :رَآنِي مُجَاهِدٌ وَأَنَا أَنْضَحُ مَكَانًا مِنْ سَطْحٍ لَنَا نُصَلِّي فِيهِ ، فَقَالَ :لاَ تَنْضَحْ ، إنَّ النَّضْحَ لاَ يَزِيدُهُ إِلاَّ شَرًّا ، وَلَكِنِ اُنْظُرْ إلَى الْمَكَانِ الَّذِي تُرِيدُهُ تَسْجُدُ فِيهِ فَانْفُخْهُ.
(مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فِي الْمَكَانِ الَّذِي لَيْسَ بِنَظِيفٍ ۵۳۴/۲)
مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ نماز پڑھنے والے کے اعضاء جس جگہ کومس کرتے ہوں اتنی جگہ كاپاک رہنا کافی ہے، اطراف کی ناپاکی نماز کے لیے مانع نہیں؛ اس لیے مذکورہ صورت میں نماز ہوجائیگی؛ جیسا کہ یہی بات اس اثر سے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس میں نجاست پرپانی چھڑکنے کے بجائے نجاست کوموضع سجدہ سے پھونک کرہٹادینے کا حکم دیا گیااور اطراف کی ناپاکی كو نظر انداز كرديا۔حوالہ
وَلَوْ كَانَتْ النَّجَاسَةُ عَلَى جَانِبِهِ وَصَلَّى عَلَى طَرَفٍ طَاهِرٍ آخَرَ مِنْهُ جَازَ سَوَاءٌ تَحَرَّكَ النَّجِسُ أَوْ لَا هُوَ الصَّحِيحُ (فتح القدير بَابُ الْأَنْجَاسِ وَتَطْهِيرِهَا: ۳۴۹/۱)
ایسی زین پر جس کا اوپری حصہ پاک ہو اور نچلا حصہ ناپاک ہو نماز جائز ہے، اس لیے کہ جس جگہ نماز پڑھی جارہی ہے وہ پاک ہے اس کا نچلا حصہ ناپاک ہونے سے کچھ اثر نہیں پڑتا۔حوالہ
ثُمَّ لَوْ كَانَ الْمَكَانُ نَجِسًا فَبُسِطَ عَلَيْهِ ثَوْبٌ طَاهِرٌ إنْ شَفَّهُ لَا تَجُوزُ فَوْقَهُ وَإِلَّا جَازَتْ (فتح القدير بَابُ الْأَنْجَاسِ وَتَطْهِيرِهَا: ۳۴۹/۱)
جس شخص پر قبلہ مشتبہ ہو جائے اور اسے کوئی ایسا شخص نہ مل سکے کہ جس سے قبلہ کے بارے میں دریافت کرے اسی طرح کوئی ایسی چیز بھی نہ مل سکے جس سے قبلہ کا پتہ چل جائے تو وہ تحری (غوروفکر) کرکے نماز پڑھے اگر اس نے تحری کے بعد پڑھی درآنحالیکہ اسے قبلہ کے سلسلہ میں غلطی ہوئی تھی تو بھی نماز صحیح ہو جائے گی۔حوالہ
عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ فَلَمْ نَدْرِ أَيْنَ الْقِبْلَةُ فَصَلَّى كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا عَلَى حِيَالِهِ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ{ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ } (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ فِي الْغَيْمِ ۳۱۵)
اگر اس کو نماز کے دوران غلطی معلوم ہو جائے تو قبلہ کے جانب پھر جائے اور نماز کی بناء کرے (یعنی بقیہ نماز پڑھ لے)۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ (بخاري بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِبْلَةِ وَمَنْ لَمْ يَرَ الْإِعَادَةَ عَلَى مَنْ سَهَا الخ: ۳۸۸)
اگر شرمگاہ کے مختلف حصے کھل جائیں ، اگر اس کا مجموعہ کھلے ہوئے اعضاء میں سے چھوٹے عضو کی چوتھائی کو بھی پہنچتا ہے تو نماز باطل ہو جائیگی ، اگر کھلے ہوئے اعضاء کا مجموعہ اس سے کم ہو تو نماز صحیح ہوگی۔حوالہ
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف:۳۱){ يا بني آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ } البسوا ثيابكم { عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ } عند وقت كل صلاة وطواف(تنوير المقباس۱۶۵/۱) لأن الربع كالكل، يقوم مقامه في مواضع منها كشف العورة(الفقه الاسلامي وادلته طهارة الثوب والبدن ۶۴۶/۱)
نماز کے فرائض
نماز کے پانچ ارکان ہیں جو اس کے فرائض ہیں۔
جو شخص ان میں سے کسی کو چھوڑدے اس کی نماز باطل ہو جائے گی ، خواہ اس نے جان بوجھ کر چھوڑا ہو یا غلطی سے چھوڑا ہو۔
(۱)قیام (کھڑے ہونا):اگر کھڑے ہونے پر قادر ہو تو بغیر کھڑے ہوئے نماز صحیح نہیں ہوتی ، فرض اور واجب نمازوں میں قیام فرض ہے۔حوالہ
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(بخاري بَاب إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ ۱۰۵۰)
نفل نمازوں میں قیام فرض نہیں ہے، نفل نمازیں کھڑے ہونے کی قدرت کے باوجود بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے ۔حوالہ
عَنْ أَبِي بُرَيْدَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ وَكَانَ مَبْسُورًا قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ قَاعِدًا فَقَالَ إِنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ (بخاري بَاب صَلَاةِ الْقَاعِدِ ۱۰۴۸ )
فَاقْرَؤُوا مَاتَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ( مزمل:۲۰)۔ عن أبِی ہریرۃ أن رسول اللہﷺ قال لاصلاۃ إِلابِقِراء ۃٍ (مسلم، باب وجوب قرأۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، حدیث نمبر:۵۹۹)۔
فرض نمازوں کی دو رکعت میں قرأت فرض ہے ۔حوالہ
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنْ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ سُورَةٍ وَيُسْمِعُنَا الْآيَةَ أَحْيَانًا(بخاري بَاب الْقِرَاءَةِ فِي الْعَصْرِ ۷۲۰)
اگر نمازی مقتدی ہو تو اس سے قرأت ساقط ہو جاتی ہے؛ بلکہ اس کے لئے قرأت مکروہ ہے ۔حوالہ
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الظُّهْرِ أَوْ الْعَصْرِ فَقَالَ أَيُّكُمْ قَرَأَ خَلْفِي بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا وَلَمْ أُرِدْ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيهَا(مسلم، بَاب نَهْيِ الْمَأْمُومِ عَنْ جَهْرِهِ بِالْقِرَاءَةِ خَلْفَ إِمَامِهِ ۶۰۳)
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا يَرْكَعُونَ (المرسلات:۴۸)
رکوع کی فرض مقدار سر جھکانے سے متحقق ہو جاتی ہے۔حوالہ
عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي قَالَ وَجَعَلْتُ يَدَيَّ بَيْنَ رُكْبَتَيَّ فَقَالَ لِي أَبِي اضْرِبْ بِكَفَّيْكَ عَلَى رُكْبَتَيْكَ قَالَ ثُمَّ فَعَلْتُ ذَلِكَ مَرَّةً أُخْرَى فَضَرَبَ يَدَيَّ وَقَالَ إِنَّا نُهِينَا عَنْ هَذَا وَأُمِرْنَا أَنْ نَضْرِبَ بِالْأَكُفِّ عَلَى الرُّكَبِ(مسلم، بَاب النَّدْبِ إِلَى وَضْعِ الْأَيْدِي عَلَى الرُّكَبِ فِي الرُّكُوعِ وَنَسْخِ التَّطْبِيقِ ۸۳۲) عَنِ ابْنَةٍ لِسَعْدٍ ؛ أَنَّهَا كَانَتْ تُفْرِطُ فِي الرُّكُوع تُطَأْطؤًا مُنكَرَاً ، فَقَالَ لَهَا سَعْدٌ :إنَّمَا يَكْفِيك إذَا وَضَعْت يَدَيْك عَلَى رُكْبَتَيْك.(مصنف ابن ابي شيبة في أدنى مَا يُجْزِئُ أَنْ يَكون مِنَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ. ۲۵۱/۱)
اس طور پر کہ رکوع کی حالت کے قریب جھک جائے ، رہا مکمل رکوع تو وہ ریڑھ کی ہڈی کو اس طرح جھکانے سے متحقق ہوتا ہے کہ سرسرین کے برابر ہو جائے ۔حوالہ
عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ ، قَالَ :سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سيرين يَقُولُ :الرُّكُوعُ هَكَذَا ، وَوَصَفَ مُعَاذٌ أَنَّهُ يُسَوِّي ظَهْرَهُ ، لاَ يُصَوِّبُ رَأْسَهُ ، وَلاَ يَرْفَعُهُ ، (مصنف ابن ابي شيبة ۲۵۲/۱ في الرجل إذَا رَكَعَ كَيْفَ يَكُونُ فِي رُكُوعِهِ؟.)
(۴) سجدہ: ہررکعت میں دو سجدوں کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی، سجدہ کی فرض میں مقدار ، پیشانی کے کسی حصہ کو دونوں ہاتھوں میں سے کسی ایک ہاتھ کے ، دونوں گھٹنوں میں سے کسی ایک گھٹنہ کے اور دونوں پیروں میں سے کسی ایک پیر کے سرے کو رکھدینے سے متحقق ہوجاتی ہے۔حوالہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا(الحج:۷۷)
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ مَنْ وَضَعَ جَبْهَتَهُ بِالْأَرْضِ فَلْيَضَعْ كَفَّيْهِ عَلَى الَّذِي يَضَعُ عَلَيْهِ جَبْهَتَهُ ثُمَّ إِذَا رَفَعَ فَلْيَرْفَعْهُمَا فَإِنَّ الْيَدَيْنِ تَسْجُدَانِ كَمَا يَسْجُدُ الْوَجْهُ (موطا مالك بَاب وَضْعِ الْيَدَيْنِ عَلَى مَا يُوضَعُ عَلَيْهِ الْوَجْهُ فِي السُّجُودِ ۳۵۲) عن ابن عباس :عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال :من لم يلزق أنفه مع جبهته بالأرض إذا سجد لم تجز صلاته (المعجم الكبير أحاديث عبد الله بن العباس ۱۱۹۱۷)
اور مکمل سجدہ دونوں ہاتھوں ، دونوں گھٹنوں ، دونوں پیروں اور پیشانی اور ناک کے زمین پر رکھنے سے متحقق ہوتا ہے۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ عَلَى الْجَبْهَةِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَى أَنْفِهِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ وَلَا نَكْفِتَ الثِّيَابَ وَالشَّعَرَ(بخاري بَاب السُّجُودِ عَلَى الْأَنْفِ ۷۷۰)
سجدہ کسی ایسی چیز پر ہی صحیح ہوسکتا ہے جس پر پیشانی اس طرح ٹک جائے کہ اگر سجدہ کرنے والے اس میں مبالغہ کرے تو اس کا سراس سے زیادہ نیچے نہ چلا جائے جس طرح رکھنے کی حالت میں تھا۔حوالہ
عن بن عمر قال جاء رجل من الأنصار إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله كلمات أسأل عنهن… قال جئت تسألني عن الركوع والسجود والصلاة والصوم" فقال لا والذي بعثك بالحق ما أخطأت مما كان في نفسي شيئا قال:"فإذا ركعت فضع راحتيك على ركبتيك ثم فرج بين أصابعك ثم أمكث حتى يأخذ كل عضو مأخذه وإذا سجدت فمكن جبهتك ولا تنقر نقرا (صحيح ابن حبان ذكر وصف بعض السجود والركوع للمصلي في صلاته ۲۰۶/۵)
سجدہ میں ناک پر اکتفاء کرنا صحیح نہیں ہے۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ عَلَى الْجَبْهَةِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَى أَنْفِهِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ وَلَا نَكْفِتَ الثِّيَابَ وَالشَّعَرَ(بخاري بَاب السُّجُودِ عَلَى الْأَنْفِ ۷۷۰)
مگر یہ کہ کوئی عذر ہو۔حوالہ
عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ :رَأَيْتُ الْقَاسِمَ وَسَالِمًا يَسْجُدَانِ عَلَى جِبَاهِهِمَا ، وَلاَ تَمَسُّ الأَرْضَ أُنُوفُهُمَا(مصنف ابن ابي شيبة من رخص فِي تَرْكِ السُّجُودِ عَلَى الأَنْفِ.۲۶۳/۱)
اگر کوئی اپنی ہتھیلی یا اپنے کپڑے کے کونے پر سجدہ کرے تو کراہت کے ساتھ جائز ہے۔حوالہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ فَإِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَحَدُنَا أَنْ يُمَكِّنَ جَبْهَتَهُ مِنْ الْأَرْضِ بَسَطَ ثَوْبَهُ فَسَجَدَ عَلَيْهِ(مسلم، بَاب اسْتِحْبَابِ تَقْدِيمِ الظُّهْرِ فِي أَوَّلِ الْوَقْتِ فِي غَيْرِ شِدَّةِ الْحَرِّ۹۸۳)
سجدہ کے صحیح ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ سجدہ کی جگہ پیروں کی جگہ سے نصف ذراع سے زیادہ بلند نہ ہو اگر سجدہ کی جگہ نصف ذراع سے بلند ہو جاتی ہے تو نماز صحیح نہیں ہوتی مگر یہ کہ بہت زیادہ بھیڑ بھاڑ ہو۔حوالہ
عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ قَالَ أَخَذَ عَلْقَمَةُ بِيَدِي فَحَدَّثَنِي أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ أَخَذَ بِيَدِهِ وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ فَعَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ فَذَكَرَ مِثْلَ دُعَاءِ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ إِذَا قُلْتَ هَذَا أَوْ قَضَيْتَ هَذَا فَقَدْ قَضَيْتَ صَلَاتَكَ إِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُومَ فَقُمْ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ فَاقْعُدْ(ابوداود بَاب التَّشَهُّدِ ۸۲۵)
(۵)تشہد پڑھنے کی مقدار قعدۂ اخیرہ کرنا۔حوالہ
عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ قَالَ أَخَذَ عَلْقَمَةُ بِيَدِي فَحَدَّثَنِي أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ أَخَذَ بِيَدِهِ وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ فَعَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ فَذَكَرَ مِثْلَ دُعَاءِ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ إِذَا قُلْتَ هَذَا أَوْ قَضَيْتَ هَذَا فَقَدْ قَضَيْتَ صَلَاتَكَ إِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُومَ فَقُمْ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ فَاقْعُدْ(ابوداود بَاب التَّشَهُّدِ ۸۲۵)
بعض فقہاء نے نمازی کا اپنے ارادہ سے نماز سے نکلنے کو فرائض میں سے شمار کیا ہے ، لیکن محققین کے نزدیک یہ فرض نہیں ہے ، بلکہ واجب ہے۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَضَى الْإِمَامُ الصَّلَاةَ وَقَعَدَ فَأَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُهُ وَمَنْ كَانَ خَلْفَهُ مِمَّنْ أَتَمَّ الصَّلَاةَ (ابوداود بَاب الْإِمَامِ يُحْدِثُ بَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ آخِرِ الرَّكْعَةِ۵۲۲)
نماز کے واجبات
مندرجہ ذیل چیزیں نماز میں واجب ہیں۔
جو شخص ان چیزوں میں سے کسی چیز کو بھولے سے چھوڑ دے ، اس کی نماز ناقص ہو جائے گی اور اس نقصان کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو جائے گی ، جو شخص ان میں سے کسی چیز کو جان بوجھ کر چھوڑدے اس پر نماز کا اعادہ ضروری ہے ورنہ وہ گناہ گار ہوگا۔حوالہ
عن الثوري قال :إذا قمت فيما يجلس فيه ، أو جلست فيما يقام فيه ، أو جهرت فيما يخافت فيه ، أو خافت فيما يجهر فيه ناسيا سجدت سجدتي السهو ، فإن تعمدت الجهر فيما يخافت فيه ، أو عمدت شيئا من ذلك لم تسجد سجدتي السهو ، فإن نسيت شيئا من صلاة النهار فتقضيها بالليل ، فاقرأ كما أنت تقرأ بالنهار من المكتوبة.(مصنف عبد الرزاق باب إذا قام فيما يقعد فيه أو قعد فيما يقام أو سلم في مثنى ۳۱۳/۲)
عن أبِی ہریرۃ قال قال النبِیﷺ إِنما جعِل الإِمام لیؤتم بہ فإذا کبر فکبروا( بخاری، باب افتتاح الصلاۃ، حدیث نمبر:۶۹۲)
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ فِي الْأُولَيَيْنِ بِأُمِّ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ وَفِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُخْرَيَيْنِ بِأُمِّ الْكِتَابِ وَيُسْمِعُنَا الْآيَةَ وَيُطَوِّلُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مَا لَا يُطَوِّلُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ وَهَكَذَا فِي الْعَصْرِ وَهَكَذَا فِي الصُّبْحِ(بخاري بَاب يَقْرَأُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ۷۳۴)
(۳)ایکچھوٹی سورت یا چھوٹی تین آیتوں کا سورہ فاتحہ کے ساتھ فرض کی پہلی دو رکعتوں میں یا وتر اور نفل کی تمام رکعتوں میں ملانا۔ حوالہ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أُمِرْنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَا تَيَسَّرَ(ابوداود بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ۶۹۵) أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْرُجْ فَنَادِ فِي الْمَدِينَةِ أَنَّهُ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقُرْآنٍ وَلَوْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَمَا زَادَ (ابوداود بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ۶۹۶) وَفِي لَفْظٍ:لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ إلَّا بِفَاتِحَةِ الكتاب، ومعها غيرها، في لَفْظٍ:وَسُورَةٍ فِي فَرِيضَةٍ، أَوْ غَيْرِهَا(نصب الراية بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ ۳۶۳/۱)
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ فِي الْأُولَيَيْنِ بِأُمِّ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ الخ(بخاري بَاب يَقْرَأُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ۷۳۴) مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اولاً سورۂ فاتحہ پھرسورۃ پڑھنے کا تھا اسی وجہ سے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے پہلے اُم الکتاب فرمایا اس کے علاوہ جتنی بھی احادیث ہیں اُن میں بھی اُم الکتاب (سورۂ فاتحہ) ہی کومقدم ذکر کیا گیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ السَّلَامَ فَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَصَلَّى ثُمَّ … ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا (بخاري بَاب أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي لَا يُتِمُّ رُكُوعَهُ بِالْإِعَادَةِ ۷۵۱)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ السَّلَامَ فَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ فَمَا أُحْسِنُ غَيْرَهُ فَعَلِّمْنِي قَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا (بخاري بَاب أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي لَا يُتِمُّ رُكُوعَهُ بِالْإِعَادَةِ ۷۵۱)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا لَانَدْرِي مَانَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ..... فَقَالَ إِذَاقَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ فَقُولُوا التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ، الخ( نسائی، باب کیف التشھد الأول، حدیث نمبر:۱۱۵۱ )
عن شقیق بن سلمۃ قال قال عبداللہ کنا اذاصلینا خلف النبیﷺ قلنا السلام علی جبریل ومیکائیل السلام علی فلان وفلان فالتفت إلینا رسول اللہ ﷺ فقال إن اللہ ہوالسلام فإذا صلی أحدکم فلیقل التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک أیہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین فإنکم إذاقلتموہا أصابت کل عبد للہ صالح فی السماء والأرض أشہد أن لاإلہ إلااللہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ (بخاری، باب التشہد فی الآخرۃ، حدیث نمبر:۷۸۸)
عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ الْإِمَامُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ فَإِنْ ذَكَرَ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوِيَ قَائِمًا فَلْيَجْلِسْ فَإِنْ اسْتَوَى قَائِمًا فَلَا يَجْلِسْ وَيَسْجُدْ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ(ابوداود بَاب مَنْ نَسِيَ أَنْ يَتَشَهَّدَ وَهُوَ جَالِسٌ ۸۷۲)
عَنْ سَعْدٍ قَالَ كُنْتُ أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ حَتَّى أَرَى بَيَاضَ خَدِّهِ(مسلم، بَاب السَّلَامِ لِلتَّحْلِيلِ مِنْ الصَّلَاةِ عِنْدَ فَرَاغِهَا وَكَيْفِيَّتِهِ۹۱۶)
عن عَاصِم قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ الْقُنُوتِ فَقَالَ قَدْ كَانَ الْقُنُوتُ قُلْتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ أَوْ بَعْدَهُ قَالَ قَبْلَهُ (بخاري بَاب الْقُنُوتِ قَبْلَ الرُّكُوعِ وَبَعْدَهُ ۹۴۷)
أن بن مسعود کان یکبر فی العیدین تسعا تسعا أربعا قبل القراء ۃ ثم کبر فرکع وفی الثانیۃ یقرأ فإذا فرغ کبر أربعا ثم رکع (مصنف عبدالرزاق، باب التکبیر فی الصلاۃ یوم العید، حدیث نمبر:۵۶۸۶)
أن بن مسعود کان یکبر فی العیدین تسعا تسعا أربعا قبل القراء ۃ ثم کبر فرکع وفی الثانیۃ یقرأ فإذا فرغ کبر أربعا ثم رکع (مصنف عبدالرزاق، باب التکبیر فی الصلاۃ یوم العید، حدیث نمبر:۵۶۸۶)
(۱۴)امام کا فجر، مغرب، عشاء، جمعہ اور عیدین، کی نمازوں، نیز تراويح اور رمضان کی وتر میں قرأت بہ آواز بلند کرنا۔حوالہ
عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ (بخاري بَاب الْجَهْرِ فِي الْمَغْرِبِ ۷۲۳)عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَالْعَتَمَةَ فَقَرَأَ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ (بخاري بَاب الْجَهْرِ فِي الْعِشَاءِ ۷۲۴) عن عبداللہ بن عباسؓ قال انطلق النبیﷺ فی طائفۃ من أصحابہ عامدین إلی سوق عکاظ وقد حیل بین الشیاطین وبین خبر السماء وأرسلت علیہم الشہب فرجعت الشیاطین إلی قومہم… وہویصلی بأصحابہ صلاۃ الفجر فلما سمعوا القرآن استمعوا لہ فقالوا ہذا واللہ الذی حال بینکم وبین خبر السماء فہنالک حین رجعوا إلی قومہم وقالوا یاقومنا، إناسمعنا قرآنا عجبا یہدی إلی الرشد فآمنا بہ ولن نشرک بربنا حدا (بخاری، وباب الجھر بقرأۃ صلاۃ الفجر وقالتہ ام سلمۃ، حدیث نمبر:۷۳۱) وعن ابن عباسؓ قال قال قرأ النبیﷺ فیما أمر وسکت فیما أمر (بخاری، وباب الجھر بقرأۃ صلاۃ الفجر حدیث نمبر:۷۳۲)
(۱۵)منفرد کو جہری نماز میں اختیارہے ، چاہے تو بآواز بلند قرأت کرے اور چاہے تو آہستہ سے قرأت کرے ، لیکن بہتر جہری نمازوں میں جہر ہی ہے۔حوالہ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَاءَةِ فَكَشَفَ السِّتْرَ وَقَالَ أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ أَوْ قَالَ فِي الصَّلَاةِ (ابوداود بَاب فِي رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ: ۱۱۳۵) منفرد اپنے آپ کواور اپنے رب کوسنانے والا ہوتا ہے اور اس کے پیچھے کوئی نہیں ہوتا ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث میں بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے؛ اس لیے جہری نماز میں اختیار ہےاور اگرجہراً پڑھے توجماعت کی ہیئت پرہونے کی وجہ سے بہتر کیا گیا۔ أما المنفرد:فهو مخير بين الجهر والإسرار، والأفضل الجهر، ليكون الأداء على هيئة الجماعة. (الفقه الاسلامي وادلته واجبات الصلاة ۶/۲)
(۱۶)امام اور منفرد کا ظہر اور عصر میں ، مغرب کی آخری رکعت میں ، عشاء کی دونوں آخری رکعتوں میں اور اسی طرح دن کی نفل میں آہستہ سے قرأت کرنا۔حوالہ
جو شخص عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ چھوڑ دے ، اس کو آخری دو رکعتوں میں ضرور جہراً پڑھ لے اور سجدہ سہو کرلے، جو شخص پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ چھوڑ دے اس کو آخری دورکعتوں میں مکرر نہ پڑھے، بلکہ نقصان کی تلافی کے لئے سجدہ سہو کرے۔ حوالہ
عن علي قال إذا نسي الرجل أن يقرأ في الركعتين الأوليين من الظهر والعصر والعشاء فليقرأ في الركعتين الأخريين وقد أجزأ عنه (مصنف عبد الرزاق باب من نسي القراءة ۱۲۶/۲)( وَلَنَا ) إجْمَاعُ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، فَإِنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي الْمَغْرِبِ فِي إحْدَى الْأُولَيَيْنِ فَقَضَاهَا فِي الرَّكْعَةِ الْأَخِيرَةِ وَجَهَرَ وَعُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي الْأُولَيَيْنِ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ فَقَضَاهَا فِي الْأُخْرَيَيْنِ وَجَهَرَ ، وَعَلِيٌّ وَابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَا يَقُولَانِ :الْمُصَلِّي بِالْخِيَارِ فِي الْأُخْرَيَيْنِ ، إنْ شَاءَ قَرَأَ وَإِنْ شَاءَ سَكَتَ وَإِنْ شَاءَ سَبَّحَ ، وَسَأَلَ رَجُلٌ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي الْأُخْرَيَيْنِ فَقَالَتْ :لِيَكُنْ عَلَى وَجْهِ الثَّنَاءِ وَلَمْ يُرْوَ عَنْ غَيْرِهِمْ خِلَافُ ذَلِكَ(بدائع الصنائع فصل اركان الصلاة ۴۵۸/۱)
نماز کی سنتیں
مندرجہ ذیل چیزیں نماز میں مسنون ہیں،ان کو بجا لانا چاہئے تاکہ نماز کامل و مکمل ہو،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: صَلُّوْ اکَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ أُصَلِّی، یعنی اس طرح نماز پڑھو جس طرح کہ تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔حوالہ
(بخاري بَاب الْأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً وَالْإِقَامَةِالخ۵۹۵)
عن ابن جريج قال :أخبرني عبد الرحمن بن سابط أن وجه الصلاة أن يكبر الرجل بيديه ، ووجهه ، وفيه ، ويرفع رأسه شيئا حين يبتدئ ، وحين يركع ، وحين يرفع رأسه.( مصنف عبد الرزاق باب تكبيرة الافتتاح ورفع اليدين ۶۷/۲)
عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ(مسلم، بَاب اسْتِحْبَابِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الْمَنْكِبَيْنِ مَعَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ ۵۸۹)
عن ابن عمر قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :« إذا استفتح أحدكم الصلاة فليرفع يديه ، وليستقبل بباطنهما القبلة ، فإن الله أمامه (المعجم الاوسط لطبراني باب من اسمه محمود ۸۰۲۵)
(۴) ہاتھوں کے اٹھاتے وقت انگلیوں کو اپنے حال پر کھلا ہوا چھوڑنا، نہ پورے طرح سے ملانا اور نہ پوری طرح سے کشادہ کرنا۔حوالہ
عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ :دَخَلَ عَلَيْنَا أَبُو هُرَيْرَةَ مَسْجِدَ بَنِى زُرَيْقٍ فَقَالَ :ثَلاَثٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَعْمَلُ بِهِنَّ تَرَكَهُنَّ النَّاسُ ، كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ قَالَ هَكَذَا ، وَأَشَارَ أَبُو عَامِرٍ بِيَدِهِ وَلَمْ يُفَرِّجْ بَيْنَ أَصَابِعِهِ وَلَمْ يَضُمَّهَا.(السنن الكبري للبيهقي باب كَيْفِيَّةِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِى افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ. ۲۴۱۰)
عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مِنْ السُّنَّةِ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ(ابوداود بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ ۶۴۵)
(۶) اپنی داہنی ہتھیلی کے اندورنی حصہ کو اپنی بائیں ہتھیلی کے ظاہری حصہ پر ، انگوٹھے اور چھوٹی انگلی سے حلقہ بنا کر رکھنا۔حوالہ
ان وائل بن حجر اخبرہ قال قلت:لأنظرت الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف یصلی قال:فنظرت إلیہ قام فکبر ورفع یدیہ حتی حاذتا أذنیہ ثم وضع یدہ الیمنی علی ظہر کفہ الیسری والرسغ والساعد (صحیح ابن خزیمہ، باب وضع بطن الکف الیمنی علی الکف الیسریٰ والرسغ والساعد جمیعا، حدیث نمبر:۴۸۰۔)
(۷) دونوں ہاتھوں کو ناف کے نیچے رکھنے کے بعد ثناء پڑھنا۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلاَاِلٰہَ غَیْرُکَ۔
ترجمہ: اے اللہ تیری ذات پاک ہے اور تیرے ہی لئے تعریف ہے اور تیر انام با برکت ہے ، تیری عظمت بلند و بالا ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔حوالہ
عن ابی سعیدؓ ان النبیﷺ کان اذاافتتح الصلاۃ قال سبحانک اللّٰھُمَّ وبحمدک تبارک اسمک وتعالی جدک ولاإلہ غیرك ( نسائی، باب نوع آخرمن الذکر بین افتتاح الصلاۃ وبین القرأۃ، حدیث نمبر:۸۸۹ )
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم (النحل:۹۸)
عن انس قال صلیت مع رسول اللہﷺ وابی بکروعمر وعثمان فلم اسمع احداً منھم یقرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم (مسلم، باب حجۃ من قال لایجھربالبسملۃ، حدیث نمبر:۶۰۵)
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً (الاعراف:۵۵)عن ابی وائل قال:کان عمرؓ وعلیؓ لایجھران بسم اللہ الرحمن الرحیم ولابالتعوّذ ولابالتامین( شرح معانی الآثار، باب قرأۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصلاۃ:۱/۳۴۷ )
عن ابی عبیدۃ ان عبداللہ رضی اللہ عنہ رأی رجلاً یُصَلّی قَدْصَفَّ بَیْنَ قَدْمَیْہِ فقد خالف السنۃ ولوراوح بینھما کان أفضل( نسائی، باب الصف بین القدمین فی الصلاۃ، حدیث نمبر:۸۸۲) قال الحنفیۃ:یسن تفریج القدمین فی القیام قدر أربع أصابع؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع( الفقہ الاسلامی، تفریج القدمین، صفحہ نمبر:۲/۷۰)
(۱۲)ظہر اور فجر میں سورہ فاتحہ کے بعد طوال مفصل (سورۂ حجرات سے بروج تک) پڑھنا، عصر اور عشاء میں اوساط مفصل (سورۂ بروج سے سورہ بینہ تک) اور مغرب میں قصار مفصل (سورۂ زلزال سے ختم قرآن تک) پڑھنا۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ مَا رَأَيْتُ رَجُلًا أَشْبَهَ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فُلَانٍ لِإِمَامٍ كَانَ بِالْمَدِينَةِ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍفَصَلَّيْتُ خَلْفَهُ فَكَانَ يُطِيلُ الْأُولَيَيْنِ مِنْ الظُّهْرِ وَيُخَفِّفُ الْأُخْرَيَيْنِ وَيُخَفِّفُ الْعَصْرَ وَيَقْرَأُ فِي الْأُولَيَيْنِ مِنْ الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ وَيَقْرَأُ فِي الْأُولَيَيْنِ مِنْ الْعِشَاءِ مِنْ وَسَطِ الْمُفَصَّلِ وَيَقْرَأُ فِي الْغَدَاةِ بِطُوَالِ الْمُفَصَّلِ(مسند احمد مسند أبي هريرة رضي الله عنه۸۳۴۸)
عن ابی قتادۃ ان النبیﷺ … یطول فی الرکعۃ الاولی مالایطوّل فی الرکعۃ الثانیۃ وھکذا فی العصر وھکذا فی الصبح (بخاری، باب یقرأ فی الآخریین بفاتحۃ الکتاب، حدیث نمبر:۷۳۴)
عن أَبي هُرَيْرَةَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ (بخاري بَاب التَّكْبِيرِ إِذَا قَامَ مِنْ السُّجُودِ ۷۴۷)
عن أنس بن مالك قال :قدم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم المدينة وأنا يومئذ ابن ثمان سنين ، فذهبت بي أمي إليه ، فقالت :يا رسول الله ، إن رجال الأنصار ونساءهم قد أتحفوك غيري ، ولم أجد ما أتحفك إلا ابني هذا ، فاقبل مني يخدمك ما بدا لك قال :فخدمت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عشر سنين ، فلم يضربني ضربة قط ، ولم يسبني ، ولم يعبس في وجهي ، وكان أول ما أوصاني به أن قال :« يا بني ،… ثم قال لي :« يا بني ، إذا ركعت فضع كفيك على ركبتيك ، وافرج بين أصابعك ، وارفع يديك على جنبيك(المعجم الصغير للطبراني باب الميم من اسمه محمد ۴۹۷/۲(
(۱۶) رکوع کی حالت میں اپنی پیٹھ کو کشادہ کرنا، سرکو سرین کے برابر کرنا اور اپنی پنڈلیوں کو کھڑا کرنا۔حوالہ
عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَكَعَ اعْتَدَلَ فَلَمْ يَنْصِبْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُقْنِعْهُ وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ(نسائي بَاب الِاعْتِدَالِ فِي الرُّكُوعِ۱۰۲۹)
عن ابن مسعود ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال اذارکع أحدکم فقال فی رکوعہ سبحان ربی العظیم ثلث مرات( ترمذی، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، حدیث نمبر:۲۴۲)
قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ :أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَ الْحَدِيثَ ، قَالَ :ثُمَّ رَكَعَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ كَأَنَّهُ قَابِضٌ عَلَيْهِمَا ، وَوَتَّرَ يَدَيْهِ فَجَافَى عَنْ جَنْبَيْهِ.(السنن الكبري للبيهقي باب صِفَةِ الرُّكُوعِ ۲۶۵۳)
عن أَبي هُرَيْرَةَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنْ الرَّكْعَةِ ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ (بخاري بَاب التَّكْبِيرِ إِذَا قَامَ مِنْ السُّجُودِ ۷۴۷)
عن أَبي هُرَيْرَةَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنْ الرَّكْعَةِ ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ… ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ ثُمَّ يُكَبِّرُالخ (بخاري بَاب التَّكْبِيرِ إِذَا قَامَ مِنْ السُّجُودِ ۷۴۷)
عن وائل بن حجرقال:رأیت رسول اللہ ﷺ اذاسجد یضع رکبتیہ قبل یدیہ وإذانہض رفع یدیہ قبل رکبتیہ( ترمذی، باب ماجاء فی وضع الرکبتین قبل الیدین فی السجود، حدیث نمبر:۲۴۸) عَنْ مسلم، بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّهُ كَانَ إذَا سَجَدَ تَقَعُ رُكْبَتَاهُ ، ثُمَّ يَدَاهُ ، ثُمَّ رَأْسُهُ(مصنف ابن ابي شيبة في الرجل إذَا انْحَطَّ إلَى السُّجُودِ ۲۶۳/۱)
عن وائل بن حجرقال:رأیت رسول اللہﷺ اذاسجد یضع رکبتیہ قبل یدیہ وإذانہض رفع یدیہ قبل رکبتیہ( ترمذی، باب ماجاء فی وضع الرکبتین قبل الیدین فی السجود، حدیث نمبر:۲۴۸)
عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ قُلْتُ لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَيْنَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ وَجْهَهُ إِذَا سَجَدَ فَقَالَ بَيْنَ كَفَّيْهِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَيْنَ يَضَعُ الرَّجُلُ وَجْهَهُ إِذَا سَجَدَ ۲۵۱)
(۲۴) سجدے کی حالت میں اپنے پیٹ کو اپنے رانوں سے اور بازوؤں کو پہلوؤں سے اور کہنیوں کو زمین سے الگ رکھنا۔حوالہ
عن أَحْمَر بْن جَزْءٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَجَدَ جَافَى عَضُدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ حَتَّى نَأْوِيَ لَهُ(ابوداود بَاب صِفَةِ السُّجُودِ ۷۶۵)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى فَرَّجَ بَيْنَ يَدَيْهِ حَتَّى يَبْدُوَ بَيَاضُ إِبْطَيْهِ (بخاري بَاب يُبْدِي ضَبْعَيْهِ وَيُجَافِي فِي السُّجُودِ۳۷۷) عَنْ جَابِرٍأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَعْتَدِلْ وَلَا يَفْتَرِشْ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الِاعْتِدَالِ فِي السُّجُودِ ۲۵۵)
عَنْ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا رَكَعَ فَرَّجَ أَصَابِعَهُ وَإِذَا سَجَدَ ضَمَّ أَصَابِعَهُ الْخَمْسَ (دارِقطنی، باب التَّأْمِينِ فِى الصَّلاَةِ بَعْدَ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَالْجَهْرِ بِهَا، حدیث نمبر:۳۶ )
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا صَلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُهُ… فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ الْقِبْلَةَ(بخاري بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ ۷۸۵(
عن ابن مسعود ان النبیﷺ قال… واذاسجد فقال فی سجودہ سبحان ربی الأعلی ثلاث مرات۔( ترمذی، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، حدیث نمبر:۲۴۲۔ )
عن أَبي هُرَيْرَةَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنْ الرَّكْعَةِ ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ… ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ ثُمَّ يُكَبِّرُحِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ ثُمَّ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي الصَّلَاةِ كُلِّهَا حَتَّى يَقْضِيَهَا (بخاري بَاب التَّكْبِيرِ إِذَا قَامَ مِنْ السُّجُودِ ۷۴۷)
عَنْ عَبَّاسٍ أَوْ عَيَّاشِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّهُ كَانَ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَبُوهُ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْمَجْلِسِ أَبُو هُرَيْرَةَ وَأَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ وَأَبُو أُسَيْدٍ بِهَذَا الْخَبَرِ يَزِيدُ أَوْ يَنْقُصُ قَالَ فِيهِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ يَعْنِي مِنْ الرُّكُوعِ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ فَسَجَدَ فَانْتَصَبَ عَلَى كَفَّيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ وَصُدُورِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ ثُمَّ كَبَّرَ فَجَلَسَ فَتَوَرَّكَ وَنَصَبَ قَدَمَهُ الْأُخْرَى ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ ثُمَّ كَبَّرَ فَقَامَ وَلَمْ يَتَوَرَّكْ ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ ثُمَّ جَلَسَ بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ (ابوداود بَاب افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ ۶۲۷)عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يَرَى بَأْسًا أَنْ يَعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلَى يَدَيْهِ إذَا نَهَضَ فِي الصَّلاَةِ. عَنْ إبْرَاهِيمَ ؛ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ ذَلِكَ ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ شَيْخًا كَبِيرًا ، أَوْ مَرِيضًا. (مصنف ابن ابي شيبة في الرجل يَعْتَمِدُ عَلَى يَدَيْهِ فِي الصَّلاَةِ ۳۹۵/۱)
(۳۰) دونوں سجدوں کے درمیان دونوں ہاتھوں کو رانوں پر رکھنا ، جیسا کہ تشہد کی حالت میں رکھا جاتا ہے ۔حوالہ
عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ سَمِعْتُهُ وَهُوَ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمْ أَبُو قَتَادَةَ بْنُ رِبْعِيٍّ يَقُولُ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا مَا كُنْتَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً وَلَا أَكْثَرَنَا لَهُ إِتْيَانًا قَالَ بَلَى قَالُوا فَاعْرِضْ فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا …ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا ثُمَّ أَهْوَى إِلَى الْأَرْضِ سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ جَافَى عَضُدَيْهِ عَنْ إِبْطَيْهِ وَفَتَخَ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ عَلَيْهَا ثُمَّ اعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا ثُمَّ أَهْوَى سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ (ترمذي بَاب مِنْهُ بعد بَاب مَا جَاءَ فِي وَصْفِ الصَّلَاةِ ۲۸۰ (
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ … وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ وَكَانَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى (مسلم، بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ ۷۶۸(
(۳۲) تشہد میں شہادت کی انگلیوں سے اشارہ کرنا۔ "لاَ اِلٰہَ" کہتے وقت اسے اٹھانا اور "اِلاَّ اللہ" کہتے وقت رکھنا۔حوالہ
عن ابن عمرؓ ان رسول اللہﷺ کان إذاقعد فی التشھد وضع یدہ الیسری علی رکبتہ الیسری ووضع یدہ الیمنی علی رکبتہ الیمنی وعقد ثلاثۃ وخمسین وأشار بالسَّبَّابَۃِ (مسلم، باب صفۃ الجلوس فی الصلاۃ وکیفیۃ وضع الیدین علی الفخذین، حدیث نمبر:۹۱۲) بَسْطُ الْأَصَابِعِ إلَى حِينِ الشَّهَادَةِ ، فَيَعْقِدُ عِنْدَهَا وَيَرْفَعُ السَّبَّابَةَ عِنْدَ النَّفْيِ وَيَضَعُهَا عِنْدَ الْإِثْبَاتِ (ردالمحتار [ فُرُوعٌ ] قَرَأَ بِالْفَارِسِيَّةِ أَوْ التَّوْرَاةِ أَوْ الْإِنْجِيلِ: ۸۶/۴)۔
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنْ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَيُسْمِعُنَا الْآيَةَ أَحْيَانًا وَيَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ(مسلم، بَاب الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ ۶۸۶)
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ لَهُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ أَمَرَنَا اللَّهُ تَعَالَى أَنَّ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ قَالَ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ
(مسلم، باب الصلاۃ علی النبیﷺ بعد التشھد، حدیث نمبر:۶۱۳۔)
عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ الأَنْصَارِىِّ :أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَأَى رَجُلاً صَلَّى لَمْ يَحْمِدِ اللَّهَ وَلَمْ يُمَجِّدْهُ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَى النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم وَانْصَرَفَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم :عَجِلَ هَذَا . فَدَعَاهُ فَقَالَ لَهُ وَلِغَيْرِهِ :إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ ، وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ يَدْعُو بِمَا شَاءَ (السنن الكبري للبيهقي باب الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فِى التَّشَهُّدِ۲۹۶۸)
جیسے: اَللّٰھُمَّ اِنّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَاِنَّہٗ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ أَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُوْرالرَّحِیْم۔
ترجمہ: اے اللہ میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے ، گناہوں کی بخشش آپ ہی کرتے ہیں ، آپ اپنی جانب سے میری مغفرت کردیجئے ، مجھ پر رحم کیجئے ، آپ ہی بخشش کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔حوالہ
(بخاري بَاب الدُّعَاءِ قَبْلَ السَّلَامِ ۷۹۰)
عن عبداللہ عن النبیﷺ انہ کان یسلم عن یمینہ وعن یسارہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ترمذی، باب ماجاء فی التسلیم فی الصلاۃ، حدیث نمبر:۲۷۲۔
(۳۷) تکبیرات انتقالیہ (ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے کی تکبیروں) کو امام کا بآوز بلندکہنا اور مقتدی كا آہستہ کہنا۔حوالہ
عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن ان اباھریرۃرضی اللہ تعالیٰ عنہ کان یصلی لھم فیکبرکلما خفض ورفع (مسلم، باب اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلاۃ، حدیث نمبر:۵۹۰)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ… وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ(مسلم، بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ ۷۶۸) عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ(ابن ماجه بَاب التَّسْلِيمِ ۹۰۶)
(۳۹) امام کو دونوں سلاموں میں مردوں ،فرشتوں اور نیک جنات کی نیت کرنا، مقتدی امام کی جہت میں قوم کے ساتھ امام کی نیت کرے گا۔
عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ
(بخاري بدْءِ الْوحْيِ: ۱)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور سلام ایک ایسا عمل ہے جونیت کا محتاج ہوتا ہے؛ اس لیے اس کے لیے نیت کرنے كا حكم دیا گیا۔حوالہ
قَالَ سَلْمَانُ :مَا كَانَ رَجُلٍ فِي أَرْضِ قِيٍّ فَأَذَّنَ وَأَقَامَ ، إِلاَّ صَلَّى خَلْفَهُ مِنْ خَلْقِ اللهِ مَا لاَ يُرَى طَرَفَاهُ (مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ يَكُونُ وَحْدَهُ فَيُؤَذِّنُ أَوْ يُقِيمُ ۲۱۹/۱) امام کے پیچھے مرد اور ان کے ساتھ رہنے والے فرشتے توہوتے ہی ہیں ان کے علاوہ پاک جناب بھی ہوتے ہیں؛ جیسا کہ مذکورہ اثر سے ان کے موجود ہونے کوبتلایا گیا؛ اس لیے ان تینوں کی نیت کرنے کا حکم دیا گیا؛ اسی طرح مقتدی کے حق میں بھی سمجھنا چاہیے۔
عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سُمَيْعٍ ، قَالَ :سَمِعْتُ أَبَا رَزِينٍ يَقُولُ :سَمِعْت عَلِيًّا يُسَلِّمُ فِي الصَّلاَةِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ، وَالَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَخْفَضُ.( مصنف ابن ابي شيبة مَنْ كَانَ يُسَلِّمُ فِي الصَّلاَةِ تَسْلِيمَتَيْنِ ۲۹۹/۱)
عَنْ سَعْدٍ قَالَ كُنْتُ أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ حَتَّى أَرَى بَيَاضَ خَدِّهِ(مسلم، بَاب السَّلَامِ لِلتَّحْلِيلِ مِنْ الصَّلَاةِ عِنْدَ فَرَاغِهَا وَكَيْفِيَّتِهِ۹۱۶)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ… قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا (بخاري بَاب الصَّلَاةِ فِي السُّطُوحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ ۳۶۵ )
(۴۳) مسبوق کا امام کے دونوں جانب سلام پھیرنے کا انتظار کرنا لہذا امام کے دونوں سلام سے فارغ ہونے سے پہلے اپنی نماز مکمل کرنے کیلئے کھڑانہ ہو۔حوالہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ فَجُحِشَتْ سَاقُهُ أَوْ كَتِفُهُ وَآلَى مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا فَجَلَسَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ دَرَجَتُهَا مِنْ جُذُوعٍ فَأَتَاهُ أَصْحَابُهُ يَعُودُونَهُ فَصَلَّى بِهِمْ جَالِسًا وَهُمْ قِيَامٌ فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا (بخاري بَاب الصَّلَاةِ فِي السُّطُوحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ: ۳۶۵)۔ مقتدی کے لیے (خواہ مسبوق ہی کیوں نہ ہو) امام کی متابعت ضروری ہے؛ جیسا کہ مذکورہ حدیث میں بتلایا گیا؛ اگرمسبوق امام کے دونوں جانب سلام پھیرنے کا انتظار کیئے بغیر کھڑا ہوجائے تومتابعت کے چھوٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے، اس لیے فقہاء کرام نے مسبوق کوامام کے دونوں جانب سلام پھیرنے کا انتظار کرنے کا حکم دیا ہے۔
نماز کے مستحبات
نماز میں مندرجہ ذیل چیزیں مستحب ہیں جس کا لحاظ کرنا بہتر ہے ، تاکہ نماز کامل و مکمل طریقہ سے ادا ہو۔
(۱) آدمی کا تکبیر تحریمہ کے وقت اپنی ہتھیلیوں کو اپنی چادر یا آستینوں سے نکال لینااور عورت اپنی ہتھیلیوں کو نہیں نکالے گی۔حوالہ
عن عائشۃ قالت قال رسول اللہﷺ لاتقبل صلاۃ الحائض الابخمار (ترمذی، باب ماجاء لاتقبل صلاۃ المرأۃ الابخمار، حدیث نمبر:۳۴۴)، لکون مبنی احوالھن علی التستر (اعلاء السنن، طریق السجود:۳/۳۲) چونکہ شریعت میں عورت کے تمام احوال ستر پرمبنی ہوتے ہیں؛ اوراگرعورت اپنے ہتھیلیوں کواپنی چادر سے نہیں نکالے گی تواس میں سترکا لحاظ ہوگا، اس لیے فقہاء نے اسے مستحب قرار دیا گیا اور حدیث مطلق ہونے کی وجہ سے بھی اس کوشامل ہوجاتی ہے اور مرد ہاتھ باہر نکالے گا توہاتھوں کوسنت کے مطابق رکھ سکے گا اس لیے اس کوہاتھ باہر رکھنے کا حکم دیا گیا۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قُلْتُ :يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ أَضَعُ بَصَرِى فِى الصَّلاَةِ؟ قَالَ :« عِنْدَ مَوْضِعِ سُجُودِكَ يَا أَنَسُ (السنن الكبري للبيهقي باب لاَ يُجَاوِزُ بَصَرُهُ مَوْضِعَ سُجُودِهِ.۳۶۸۵)
وَإِلَى ظَهْرِ قَدَمَيْهِ حَالَةَ الرُّكُوعِ (الهندية الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي سُنَنِ الصَّلَاةِ وَآدَابِهَا وَكَيْفِيَّتِهَا۵۹/۳)
وَإِلَى أَرْنَبَتِهِ حَالَةَ السُّجُودِ (الهندية الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي سُنَنِ الصَّلَاةِ وَآدَابِهَا وَكَيْفِيَّتِهَا ۵۹/۳)
عَنْ الزُّبَيْرِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَعَدَ فِي التَّشَهُّدِ وَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ لَا يُجَاوِزُ بَصَرُهُ إِشَارَتَهُ(نسائي مَوْضِعُ الْبَصَرِ عِنْدَ الْإِشَارَةِ وَتَحْرِيكِ السَّبَّابَةِ ۱۲۵۸) وَإِلَى حِجْرِهِ حَالَةَ الْقُعُودِ (الهندية الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي سُنَنِ الصَّلَاةِ وَآدَابِهَا وَكَيْفِيَّتِهَا۵۹/۳)
الرُّكُوعِ وَعِنْدَ التَّسْلِيمَةِ الْأُولَى إلَى مَنْكِبِهِ الْأَيْمَنِ وَعِنْدَ الثَّانِيَةِ إلَى مَنْكِبِهِ الْأَيْسَرِ (الهندية الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي سُنَنِ الصَّلَاةِ وَآدَابِهَا وَكَيْفِيَّتِهَا۵۹/۳)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّثَاؤُبُ مِنْ الشَّيْطَانِ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَالَ هَا ضَحِكَ الشَّيْطَانُ(بخاري بَاب صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ ۳۰۴۶)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّثَاؤُبُ مِنْ الشَّيْطَانِ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَالَ هَا ضَحِكَ الشَّيْطَانُ(بخاري بَاب صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ ۳۰۴۶)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدْنَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ أَنْ نَقُولَ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشَهُّدِ ۲۶۶)
(السنن الكبري للبيهقي باب دُعَاءِ الْقُنُوتِ.۳۲۶۷)
نماز کو فاسد کرنے والی چیزیں
نماز کے دوران اگر مندرجہ ذیل چیزوں میں سےکوئی چیز پیش آجائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے ۔
(۱) جب نمازکے شرائط میں سے کوئی شرط فوت ہوجائے ۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِىِّ :أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ صَلَّى بِالنَّاسِ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ فَلَمْ يَقْرَأْ شَيْئًا حَتَّى سَلَّمَ ، فَلَمَّا فَرَغَ قِيلَ لَهُ :إِنَّكَ لَمْ تَقْرَأْ شَيْئًا . فَقَالَ :إِنِّى جَهَّزْتُ عِيرًا إِلَى الشَّامِ ، فَجَعَلْتُ أُنْزِلُهَا مَنْقَلَةً مَنْقَلَةً حَتَّى قَدِمَتِ الشَّامَ فَبِعْتُهَا وَأْقَتَابَهَا وَأَحْلاَسَهَا وَأَحْمَالَهَا. قَالَ :فَأَعَادَ عُمَرُ وَأَعَادُوا.(السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ قَالَ تَسْقُطُ الْقِرَاءَةُ عَمَّنْ نَسِىَ وَمَنْ قَالَ لاَ تَسْقُطُ ۴۱۵۱)عن الشعبي أن عمر صلى المغرب فلم يقرأ فأمر المؤذن فأعاد الأذان والإقامة ثم أعاد الصلاة(مصنف عبد الرزاق باب من نسي القراءة ۲۷۵۴)
عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ قَالَ قَالَ لِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ إِنْ كُنَّا لَنَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا صَاحِبَهُ بِحَاجَتِهِ حَتَّى نَزَلَتْ{ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ }فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ(بخاري بَاب مَا يُنْهَى عَنْهُ مِنْ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ ۱۱۲۵)
(۴) جب لوگوں کی عام گفتگو کے مشابہ دعاکرے جیسے:اے اللہ میری شادی فلانہ عورت سے کردے، یا اے اللہ !مجھے سیب دے۔حوالہ
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَا ثُكْلَ أُمِّيَاهْ مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ فَوَاللَّهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم (مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ ۸۳۶)
(۵) جب کسی کو سلام کرےیا زبان سے سلام کا جواب دے ، یا مصافحہ کرے ، سلام کرنا جان بوجھ کرہو یا بھولے سے یا غلطی سے ہو ۔حوالہ
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَا ثُكْلَ أُمِّيَاهْ مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ فَوَاللَّهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم (مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ ۸۳۶) مذکورہ حدیث میں نماز کوصرف اور صرف تسبیح، تکبیر اور قرأتِ قرآن پرمشتمل ہونے کوبتلایا گیا اور مصافحہ سے سلام کا جواب دینا اس کے خلاف عمل ہے اور عمل کثیر بھی ہے اس لیے فقہاء کرام نے اس کومفسدِ صلاۃ بتلایا ہے۔ نَعَمْ لَوْ صَافَحَ بِنِيَّةِ السَّلَامِ قَالُوا تَفْسُدُ ، كَأَنَّهُ لِأَنَّهُ عَمَلٌ كَثِيرٌ(الدر المختار باب ما يفسد الصلاة، وما يكره فيها: ۶۶۴/۱)
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قُلْتُ لِبِلَالٍ كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ قَالَ كَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْإِشَارَةِ فِي الصَّلَاةِ۳۳۶)عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ يُصَلِّي عَلَى بَعِيرِهِ فَكَلَّمْتُهُ فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَوْمَأَ زُهَيْرٌ بِيَدِهِ ثُمَّ كَلَّمْتُهُ فَقَالَ لِي هَكَذَا فَأَوْمَأَ زُهَيْرٌ أَيْضًا بِيَدِهِ نَحْوَ الْأَرْضِ وَأَنَا أَسْمَعُهُ يَقْرَأُ يُومِئُ بِرَأْسِهِ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ مَا فَعَلْتَ فِي الَّذِي أَرْسَلْتُكَ لَهُ فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُكَلِّمَكَ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي قَالَ زُهَيْرٌ وَأَبُو الزُّبَيْرِ جَالِسٌ مُسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةِ فَقَالَ بِيَدِهِ أَبُو الزُّبَيْرِ إِلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ فَقَالَ بِيَدِهِ إِلَى غَيْرِ الْكَعْبَةِ(مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ ۸۴۰)
عَنْ مُعَيْقِيبٍ قَالَ ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْحَ فِي الْمَسْجِدِ يَعْنِي الْحَصَى قَالَ إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَوَاحِدَةً (مسلم بَاب كَرَاهَةِ مَسْحِ الْحَصَى وَتَسْوِيَةِ التُّرَابِ فِي الصَّلَاةِ: ۸۴۹)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ الْحَيَّةُ وَالْعَقْرَبُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ فِي الصَّلَاةِ: ۳۵۵)عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا (بخاري بَاب إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً عَلَى عُنُقِهِ فِي الصَّلَاةِ: ۴۸۶) عملِ قلیل اور عملِ کثیر کے سلسلہ میں احادیث میں کوئی تحدید نہیں آئی؛ البتہ مذكوره احاديث کے علاوه اور بھی اس طرح کی مختلف احادیث کی پیشِ نظر فقہائے کرام نے عملِ قلیل اور عملِ کثیر کی تعیین کی اور ضرورت وغیرہ کا لحاظ رکھتے ہوئے صحت وفسادِ نماز کا حکم لگایا؛ بہرحال جہاں عملِ کثیر ہوگا وہاں فساد نماز کا تحقق ہوگا۔ لِأَنَّ الْعَمَلَ الْكَثِيرَ يَخْرُجُ بِهِ عَنْ الصَّلَاةِ (البحر الرائق راي الامام المتيمم ماء: ۳/۴) الْعَمَلُ الْكَثِيرُ هُوَ مَا لَا يَشُكُّ النَّاظِرُ إلَيْهِ أَنَّهُ لَيْسَ فِي الصَّلَاةِ أَوْ مَا كَانَ بِحَرَكَاتٍ مُتَوَالِيَةٍ أَوْ مَا كَانَ يُعْمَلُ بِالْيَدَيْنِ أَوْ مَا يَسْتَكْثِرُهُ الْمُبْتَلَى بِهِ أَوْ مَا يَكُونُ مَقْصُودًا لِلْفَاعِلِ بِأَنْ أَفْرَدَ لَهُ مَجْلِسًا عَلَى حِدَةٍ(البحر الرائق الْأَكْلُ وَالشُّرْبُ في الصلاة:۸۶/۴)
(۷) جب اپنے سینے کو قبلہ سے پھیردے۔(لیکن اگر اسے نماز کے دوران حدث لاحق ہو جائے اور وہ وضو کرنے کیلئے نکلے اور اس کا سینہ قبلہ سے پھر جائے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی ۔حوالہ
فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ(البقرة:۱۴۴( عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَصَابَهُ قَيْءٌ أَوْ رُعَافٌ أَوْ قَلَسٌ أَوْ مَذْيٌ فَلْيَنْصَرِفْ فَلْيَتَوَضَّأْ ثُمَّ لِيَبْنِ عَلَى صَلَاتِهِ وَهُوَ فِي ذَلِكَ لَا يَتَكَلَّمُ (ابن ماجه بَاب مَا جَاءَ فِي الْبِنَاءِ عَلَى الصَّلَاةِ ۱۲۱۱)
عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ :إذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ فِي الصَّلاَة اسْتَقْبَلَ الصَّلاَة.(مصنف ابن ابي شيبة الرجل يأكل وَيَشْرَبُ فِي الصَّلاَة:۴۷۶/ ۲)
(۹)جب دانتوں میں اٹکی ہوئی چیز کھالے اور اس کی مقدار چنے کے برابر ہو۔حوالہ
عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ :إذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ فِي الصَّلاَة اسْتَقْبَلَ الصَّلاَة.
(مصنف ابن ابي شيبة الرجل يأكل وَيَشْرَبُ فِي الصَّلاَة:۴۷۶/۲) نفس اکل وشرب ہی (خواه اس كی مقدار كتنی ہی ہو) مفسدِ نماز ہے جیسا کہ مذکورہ اثر سے معلوم ہوا؛ لیکن کھانے کا ایسا دانہ جومنھ میں رہ جائے اور اس کی مقدار چنے کے دانہ سے کم ہو اس سے بچنا مشکل ہے؛ اگراس کوبھی مفسد نماز کہدیا جائے توحرج ہوگا؛ اس لیے اس کومعفوعنہ قرار دیا گیا اور چنے کی مقدار کے برابر یازیادہ ہو تو اس سے بچنا ممکن ہے اس لیے اس کومفسد نماز قرار دیا گیا۔ الحاجه تنزل منزلة الضرورة (الاشباه والنظائر: ۱۱۴/۱) وَلَوْ بَقِيَ بَيْنَ أَسْنَانِهِ شَيْءٌ فَابْتَلَعَهُ إنْ كَانَ دُونَ الْحِمَّصَةِ لَمْ يَضُرَّهُ ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ الْقَدْرَ فِي حُكْمِ التَّبَعِ لِرِيقِهِ لِقِلَّتِهِ وَلِأَنَّهُ لَا يُمْكِنُ التَّحَرُّزُ عَنْهُ ؛ لِأَنَّهُ يَبْقَى بَيْنَ الْأَسْنَانِ عَادَةً فَلَوْ جُعِلَ مُفْسِدًا لَوَقَعَ النَّاسُ فِي الْحَرَجِ وَلِهَذَا لَا يَفْسُدُ الصَّوْمُ بِهِ ، وَإِنْ كَانَ قَدْرَ الْحِمَّصَةِ فَصَاعِدًا فَسَدَتْ صَلَاتُهُ (بدائع الصنائع فَصْلٌ بَيَانُ حُكْمِ الِاسْتِخْلَافِ: ۴۵۰/۲)
(۱۰)جب بغیر ضرورت کے کھانسے (ہاں! اگر کسی عذر یا آواز درست کرنے کیلئے یا امام کو غلطی پر متنبہ کرنے کے لیے کھنکارے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔حوالہ
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَا ثُكْلَ أُمِّيَاهْ مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ فَوَاللَّهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مسلم بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ: ۸۳۶) چونکہ نماز صرف تسبیح، تکبیر اور قرأۃ کے لیے ہے؛ اس لیے فقہائے کرام نے بے وجہ کھانسنے وغیرہ کومفسد نماز بتلایا ہے؛ البتہ ضرورۃ کھانسنے کی اجازت دی گئی؛ جیسا کہ حدیث شریف بھی ہے۔ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ كَانَ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةٌ آتِيهِ فِيهَا فَإِذَا أَتَيْتُهُ اسْتَأْذَنْتُ إِنْ وَجَدْتُهُ يُصَلِّي فَتَنَحْنَحَ دَخَلْتُ وَإِنْ وَجَدْتُهُ فَارِغًا أَذِنَ لِي۔(نسائی، التَّنَحْنُحُ فِي الصَّلَاةِ:۱۱۹۶)
یا اپنے نماز میں ہونے کو بتلانے کے لیے کھانسے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔حوالہ
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ كَانَ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةٌ آتِيهِ فِيهَا فَإِذَا أَتَيْتُهُ اسْتَأْذَنْتُ إِنْ وَجَدْتُهُ يُصَلِّي فَتَنَحْنَحَ دَخَلْتُ وَإِنْ وَجَدْتُهُ فَارِغًا أَذِنَ لِي۔(نسائی، التَّنَحْنُحُ فِي الصَّلَاةِ:۱۱۹۶)
(۱۱) جب آہ کرے یا اُف کرے یا کراہے، جب کہ یہ چیزیں اللہ کے ڈر سے نہ ہو، ہاں ! اگر رُونا اللہ کے ڈر سے یاجنت یاجہنم کے تذکرے سے ہو تو نماز فاسد نہ ہوگی، اس مسئلہ سے وہ مریض مستثنیٰ ہیں جوکراہنے اور آہ آہ کرنے میں اپنے اوپر کنڑول نہ کرسکتا ہو، اس کی نماز فاسد نہ ہوگی۔حوالہ
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ …قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم (مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ ۸۳۶)عَنِ الشَّعْبِيِّ ؛ فِي رَجُلٍ قَالَ :هَاهْ فِي الصَّلاَة ، قَالَ :يُعِيدُ.(مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ هَاهْ فِي الصَّلاَة.۵۳۲/۲) وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ سَمِعْتُ نَشِيجَ عُمَرَ وَأَنَا فِي آخِرِ الصُّفُوفِ يَقْرَأُ{ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ }(بخاري بَاب إِذَا بَكَى الْإِمَامُ فِي الصَّلَاةِ ۱۳۹/۳) والبكاء بصوت يحصل به حروف، لوجع أو مصيبة في الحالات الأربع الأخيرة، إلا لمرض لا يملك نفسه عن أنين وتأوه؛ لأنه حينئذ كعطاس وسعال وجشاء وتثاؤب، وإن ظهرت حروف للضرورة(الفقه الاسلامي وادلته الفَصْل ُالسَّابع:مُبْطِلاتُ الصَّلاة أو مُفْسِداتُها ۱۹۴/۲)
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ(الاعراف :۳۱) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْحَائِضِ إِلَّا بِخِمَارٍ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْمَرْأَةِ إِلَّا بِخِمَارٍ۳۴۴)مذکورہ نصوص کی وجہ سے نماز کے صحیح ہونے کی شرط سترعورت بھی ہے؛ لہٰذا اگرمصلی کی شرمگاہ نماز کے دوران ایک رکن کی ادائیگی کے بقدر کھلی رہے توفقہائے کرام نے اس کی نماز کوفاسد بتلایا؛ اس لیے کہ ایک رکن کی مقدار کثیر میں داخل ہے۔ وَقَدْرُ الْكَثِيرِ مَا يُؤَدَّى فِيهِ رُكْنٌ وَالْقَلِيلُ دُونَهُ (البحر الرائق بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ: ۶۹/۳)
(۱۳)جب نماز کے دوران ایک رکن کی ادائیگی کے بقدرنمازی کے بدن يا اس کے كپڑے يا اس كی جگہ پر نجاست لگی رہے۔حوالہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا (المائدة:۶) عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى ابْنِ عَامِرٍ يَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ فَقَالَ أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لِي يَا ابْنَ عُمَرَ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ (مسلم بَاب وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ: ۳۲۹) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (المدثر:۴) عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهَا قَالَتْ سَأَلَتْ امْرَأَةٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَهَا الدَّمُ مِنْ الْحَيْضَةِ كَيْفَ تَصْنَعُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ إِحْدَاكُنَّ الدَّمُ مِنْ الْحَيْضَةِ فَلْتَقْرُصْهُ ثُمَّ لِتَنْضَحْهُ بِمَاءٍ ثُمَّ لِتُصَلِّي فِيهِ (بخاري بَاب غَسْلِ دَمِ الْمَحِيضِ ۲۹۶) وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ(البقرة:۱۲۵)عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ :رَآنِي مُجَاهِدٌ وَأَنَا أَنْضَحُ مَكَانًا مِنْ سَطْحٍ لَنَا نُصَلِّي فِيهِ ، فَقَالَ :لاَ تَنْضَحْ ، إنَّ النَّضْحَ لاَ يَزِيدُهُ إِلاَّ شَرًّا ، وَلَكِنِ اُنْظُرْ إلَى الْمَكَانِ الَّذِي تُرِيدُهُ تَسْجُدُ فِيهِ فَانْفُخْهُ.(مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فِي الْمَكَانِ الَّذِي لَيْسَ بِنَظِيفٍ ۵۳۴/۲) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ (ترمذي بَاب مَا ذُكِرَ فِي تَطْيِيبِ الْمَسَاجِدِ۵۴۲) مذکورہ نصوص سے معلوم ہوا کہ نماز میں مصلی کا بدن، کپڑے اور جگہ کا پاک رہنا صحتِ صلاۃ کے لیے شرط ہے؛ لہٰذا اگرایک رکن کی ادائیگی کے بقدر یہ شرط نہ پائی جائے تواسے کثیروقت قرار دیکر فقہاء کرام نے مفسد نماز بتلایا ہے۔ وَقَدْرُ الْكَثِيرِ مَا يُؤَدَّى فِيهِ رُكْنٌ وَالْقَلِيلُ دُونَهُ (البحر الرائق بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ: ۶۹/۳)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ وَهُوَ سَاجِدٌ حَتَّى غَطَّ أَوْ نَفَخَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ قَدْ نِمْتَ قَالَ إِنَّ الْوُضُوءَ لَا يَجِبُ إِلَّا عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا فَإِنَّهُ إِذَا اضْطَجَعَ اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُهُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنْ النَّوْمِ: ۷۲)وَأَمَّا الْجُنُونُ فَلِأَنَّ الْمُبْتَلَى بِهِ يُحْدِثُ حَدَثًا، وَلَايَشْعُرُ بِهِ فَأُقِيمَ السَّبَبُ مَقَامَ الْمُسَبِّبِ، وَالسُّكْرُ الَّذِي يَسْتُرُ الْعَقْلَ فِي مَعْنَى الْجُنُونِ فِي عَدَمِ التَّمْيِيزِ وَقَدْ انْضَافَ إلَيْهِ اسْتِرْخَاءُ الْمَفَاصِلِ (بدائع الصنائع، فصل بیان ماینقض الوضوء:۱/۱۳۹)۔ مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ جنون وضو کوتوڑنے والی چیز ہے اور وضو نماز کے لیے ضروری ہے اور جب وضو باقی نہ رہا تونماز بھی باقی نہیں رہے گی اور اس صورت میں بناء بھی نہیں كی جاسكتی اس لیے کہ اس کا تحقق نماز میں بہت کم ہوتا ہے؛ اسی وجہ سےاسے ان صورتوں میں شمار نہیں کیا گیا جس میں بناءكے سلسلہ میں نص اور اجماع ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس مرض میں کتنی مدت لگے گی کچھ نہیں کہا جاسکتا اور نماز میں لمبا فصل نماز کی خصوصیت اور اس کے مقصود کے خلاف ہے؛ اس لیے اس مرض کومفسدِ نماز میں شامل کیا گیا۔
عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ بَلَى ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ قَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ قَالَتْ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ فَذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ قَالَتْ فَقَعَدَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَقَعَدَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ فَقُلْنَا لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلَام لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ بِأَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ(بخاري بَاب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ: ۶۴۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غشی کی حالت سے افاقہ کے بعد پانی کا طلب کرنا ناقضِ وضو ہونے پردلالت کرتا ہے، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِي رَجُلٍ غُشِيَ عَلَيْهِ وَهُوَ جَالِسٌ ، قَالَ :يَتَوَضَّأُ. (مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ يُغْشَى عَلَيْهِ فَيُعِيدُ لِذَلِكَ الْوُضُوءَ ۱۹۸/۱) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ بے ہوشی وضو کوتوڑنے والی چیز ہے اور وضو نماز کے لیے ضروری ہے اور جب وضو باقی نہ رہا تونماز بھی باقی نہیں رہے گی اور اس صورت میں بناء بھی نہیں كی جاسكتی اس لیے کہ اس کا تحقق نماز میں بہت کم ہوتا ہے؛ اسی وجہ سےاسے ان صورتوں میں شمار نہیں کیا گیا جس میں بناءكے سلسلہ میں نص اور اجماع ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس مرض میں کتنی مدت لگے گی کچھ نہیں کہا جاسکتا اور نماز میں لمبا فصل نماز کی خصوصیت اور اس کے مقصود کے خلاف ہے؛ اس لیے اس مرض کومفسدِ نماز میں شامل کیا گیا۔
عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُمُومَتِي مِنْ الْأَنْصَارِ ، { أَنَّ الْهِلَالَ خَفِيَ عَلَى النَّاسِ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحُوا صِيَامًا فَشَهِدُوا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ ، أَنَّهُمْ رَأَوْا الْهِلَالَ اللَّيْلَةَ الْمَاضِيَةَ . فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِالْفِطْرِ ، فَأَفْطَرُوا تِلْكَ السَّاعَةَ ، وَخَرَجَ بِهِمْ مِنْ الْغَدِ ، فَصَلَّى بِهِمْ صَلَاةَ الْعِيدِ (شرح معاني الاثار بَابُ الْإِمَامِ يَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعِيدِ هَلْ يُصَلِّيهَا مِنْ الْغَدِ أَمْ لَا: ۱۸۵/۲) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عید کی نماز کا وقت زوال سے پہلے پہلے تک ہے اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد چاند کی اطلاع ملنے پرعید کی نماز نہیں پڑھائی بلکہ دوسرے دن عید کی نماز پڑھائی ہے؛ چونکہ عید کی نماز کا وقت زوال تک ہی ہے؛ لہٰذا نمازِ عید کے دوران زوال کا وقت آجائے تووقت ختم ہوجانے کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے کہ اس کا وقت طلوعِ شمس کے کچھ دیر بعد سے زوال تک ہی ہے، اس کے علاوہ میں عید کی نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ تفسد الصلاة عند الإمام أبي حنيفة رحمه الله باثنتي عشرة مسألة وهي: رؤية المتيمم الماء،… وطلوع الشمس في صلاة الفجر، وزوال الشمس في صلاة العيدين، ودخول وقت العصر في الجمعة، (الفقه الاسلامي وادلته المسائل الاثنتا عشرة عند أبي حنيفة: ۲۰۸/۲)
عن عبد الله قال : من أدرك الخطبة فالجمعة ركعتان ومن لم يدركها فليصل أربعا ومن لم يدرك الركعة فلا يعتمد بالسجدة حتى يدرك الركعة (المعجم الكبير عبد الله بن مسعود الهذلي يكنى أبا عبد الرحمن الخ: ۳۰۹/۹، ۹۵۴۸) جمعہ کی نماز ظہر کی نماز کا بدل ہے؛ جیسا کہ مذکورہ روایت سے معلوم ہوا، اس لیے اس کا وقت بھی ظہر ہی کا وقت ہے اور جمعہ کی قضا نہیں ہے؛ لہٰذا اگرجمعہ کے دوران ظہر کا وقت ختم ہوجائے توجمعہ کی نماز ادا نہ ہوگی اسی وجہ سے عصر کا وقت داخل ہوتے ہی جمعہ کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : وَقْتُ الْجُمُعَةِ ، وَقْتُ الظُّهْرِ(مصنف ابن ابي شيبة مَنْ كَانَ يَقُولُ : وَقْتُهَا زَوَالُ الشَّمْسِ ، وَقْتُ الظُّهْرِ: ۱۰۹/۲) ( وَدُخُولُ وَقْتِ الْعَصْرِ ) بِأَنْ بَقِيَ فِي قَعْدَتِهِ إلَى أَنْ صَارَ الظِّلُّ مِثْلَيْهِ ( فِي الْجُمُعَةِ ) بِخِلَافِ الظُّهْرِ فَإِنَّهَا لَا تَبْطُلُ . (ردالمحتار بَابُ الِاسْتِخْلَافِ : ۳۹۴/۴)
(۱۸) جب نمازی تیمم کی حالت میں ہو، اسی وقتاور پانی مل جائے ، یا اس کے استعمال پر قدرت ہو جائے ۔ حوالہ
عن أَبي ذَرٍّ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ وَلَوْ إِلَى عَشْرِ حِجَجٍ فَإِذَا وَجَدَ الْمَاءَ فَلْيُمِسَّ بَشْرَتَهُ الْمَاءَ فَإِنَّ ذَلِكَ هُوَ خَيْرٌ ». (دارقطني باب فِى جَوَازِ التَّيَمُّمِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ سِنِينَ كَثِيرَةً: ۷۳۹) مذکورہ نص کی وجہ سے پانی ملتے ہی وضو کا بدل (تیمم) ختم ہوجاتا ہے اور سابقہ حدث کوادا شدہ نمازوں میں ضرورۃ تیمم چھپائے ہوئے رکھا تھا؛ لیکن جونماز ادا نہیں ہوئی وہاں ضرورت باقی نہیں رہی اس لیے نماز کے دوران پانی مل جائے یااس کے استعمال پرقادر ہوجائے تونماز فاسد ہوجائے گی؛ اور اس صورت میں بناء بھی نہیں كی جاسكتی اس لیے کہ اس کا تحقق نماز میں بہت کم ہوتا ہے؛ اسی وجہ سےاسے ان صورتوں میں شمار نہیں کیا گیا جس میں بناءكے سلسلہ میں نص اور اجماع ہے،
(۱۹) جب نمازی کا اپنے فعل سے یا دوسروں کے فعل سے وضو ٹوٹ جائے ۔ ہاں ! اگر انجانے میں بغیر مصلی کے فعل کے خدشات لاحق ہو جائے تو نماز فاسد نہ ہوگی ، بلکہ وہ شخص وضو کر کے اس نماز کی بنا (بقیہ نمازپوری) کرے گا۔حوالہ
اس لیے کہ بناء خلاف قیاس نص اور اجماع کی وجہ سے ثابت ہے تو جن صورتوں ميں ثابت ہے اسی تک محدود رکھا گیا ہے اور پہلی صورت کا تحقق بھی کم ہوتا ہے، برخلاف دوسری صورت کے۔
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا رَعَفَ انْصَرَفَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ رَجَعَ فَبَنَى وَلَمْ يَتَكَلَّمْ (موطا مالك بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّعَافِ: ۷۰) لِأَنَّ جَوَازَ الْبِنَاءِ ثَبَتَ مَعْدُولًا بِهِ عَنْ الْقِيَاسِ بِالنَّصِّ وَالْإِجْمَاعِ ، وَكُلُّ مَا كَانَ فِي مَعْنَى الْمَنْصُوصِ وَالْمُجْمَعِ عَلَيْهِ يَلْحَقُ بِهِ وَإِلَّا فَلَا (بدائع الصنائع ( فَصْلٌ شَرَائِطُ جَوَازِ الْبِنَاءِ: ۳۶۶/۲)
عن أَبي هُرَيْرَةَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنْ الرَّكْعَةِ ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ (بخاري بَاب التَّكْبِيرِ إِذَا قَامَ مِنْ السُّجُودِ: ۷۴۷) اس لیے کہ نماز شروع کرنے اور تکبیراتِ انتقالیہ کے لیے تکبیر یعنی اللہ کی بڑائی بیان کرنے کے لیے کہا گیا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بتایا گیا ہے اور مذکورہ صورت میں اس کے خلاف کرکے اللہ کی بڑائی کے سلسلے میں استفہام کیا جارہا ہے، اس لیے فقہاء کرام نے اسے مفسدِ صلاۃ قرار دیا ہے۔
(۲۱)جب قرآن سے ديکھ کر پڑھے، اس لیے کہ اسمیں عمل کثیر ہوتاہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔حوالہ
لِأَنَّ الْعَمَلَ الْكَثِيرَ يَخْرُجُ بِهِ عَنْ الصَّلَاةِ (البحر الرائق راي الامام المتيمم ماء: ۳/۴)
(۲۲) جب نیند کی حالت میں کسی رکن کو ادا کرے اور نیند سے بیدار ہونے کے بعد اس رکن کو نہ لوٹائے ۔حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَاالخ: ۳۱۵/۱۶)اس لیے کہ نیند میں ادا کیا ہوا رکن ایسا ہی ہے گويا کہ اس نے ادا ہی نہ کیا ہو، جیسا کہ مذكوره اثر سے معلوم ہوا اس لیے اسے مفسدِ صلاۃ بتلایا گیا ہے۔ وَقَدْرُ الْكَثِيرِ مَا يُؤَدَّى فِيهِ رُكْنٌ وَالْقَلِيلُ دُونَهُ (البحر الرائق بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ: ۶۹/۳)
(۲۳) جب نمازی صاحب ترتیب ہو، اورنماز کے دوران اسے یاد آجائے کہ اس کے ذمہ ایک فوت شدہ نماز ہے جس کی اس نے اب تک قضا نہیں کی ہے ۔حوالہ
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَاءَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى كَادَتْ الشَّمْسُ تَغْرُبُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا فَقُمْنَا إِلَى بُطْحَانَ فَتَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ وَتَوَضَّأْنَا لَهَا فَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا الْمَغْرِبَ (بخاري بَاب مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ جَمَاعَةً بَعْدَ ذَهَابِ الْوَقْتِ: ۵۶۱)عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ أَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةً وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا أَوْ قَدْ اشْتَقْنَا سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا فَأَخْبَرْنَاهُ قَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لَا أَحْفَظُهَا وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ (بخاري بَاب الْأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً وَالْإِقَامَةِ الخ: ۵۹۵)عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ إِذَا نَسِىَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلاَّ وَهُوَ مَعَ الإِمَامِ فَلْيُصَلِّ مَعَ الإِمَامِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ فَلْيُصَلِّ الصَّلاَةَ الَّتِى نَسِىَ ثُمَّ لْيُعِدْ صَلاَتَهُ الَّتِى صَلَّى مَعَ الإِمَامِ ».(دارقطني باب الْحَثِّ لِجَارِ الْمَسْجِدِ عَلَى الصَّلاَةِ فِيهِ إِلاَّ مِنْ عُذْرٍ.: ۱۵۷۸) پہلی حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاً فائتہ نماز ادا فرمائی پھروقتیہ اس کے علاوہ غزوۂ خندق والی احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے كہ ترتیب سے قضاء نمازیں ادا فرمائی ہیں؛ چونکہ فعلی حدیث سے وجوب ثابت نہیں ہوتا اس لیے دوسری حدیث قولی پیش کی گئی، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتا ہوا تم دیکھتے ہو، ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفائتہ اور وقتیہ میں ترتیب کوبرقرار رکھ کر پڑھتا ہوا دیکھا ہے اس لیے اسی طرح پڑھنا ضروری ہوگا اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر سے صاف معلوم ہوا کہ اگرفائتہ سے پہلے وقتیہ پڑھلے توفائتہ کے بعد پھروقتیہ کولوٹانا ہوگا اور جس طرح وہ مقدم ہوکر واجب ہوئی ہے اسی طرح اسے مقدم رکھ کرادا کرنا ہوگا؛ اسی وجہ سے فقہائے کرام نے بتلایا کہ اگرکسی کونماز كے دوران فائتہ یاد آجائے تواس کی نماز فاسد ہوجائے گی اب اولاً فائتہ پڑھنا ہوگا پھروقتیہ ادا کرنا ہوگا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللَّهُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ: ۱۹۱) اس لیے کہ امام سارے مقتدیوں کی نماز كا ضامن ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوا اور جب وہ امامت کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا ہے توپھرضامن کیسے ہوگا؛ اسی لیے فقہائے کرام نے اسے مفسدِ نماز قرار دیا۔
(۲۵)جب نمازی کو یہ گمان ہو جائے کہ اس کو حدث لاحق ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے وہ مسجد سے نکل جائے اور صفوں سے آگے بڑھ جائے یا مسجد کے علاوہ دوسری جگہ میں سُترہ سے آگے بڑھ جائے تو نماز فاسد ہوجائےگی۔ اس لئے کہ یہ سب عمل کثیر ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔حوالہ
عَنْ أُسَامَةَ قَالَ بَيْنَا نَحْنُ نُصَلِّى خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ ضَرِيرُ الْبَصَرِ فَوَقَعَ فِى حُفْرَةٍ فَضَحِكْنَا مِنْهُ فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِإِعَادَةِ الْوُضُوءِ كَامِلاً وَإِعَادَةِ الصَّلاَةِ مِنْ أَوَّلِهَا (دارقطني باب فِى مَا رُوِىَ فِيمَنْ نَامَ قَاعِدًا وَقَائِمًا وَمُضْطَجِعًا وَمَا يَلْزَمُ مِنَ الطَّهَارَةِ فِى ذَلِكَ: ۶۱۰)
عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِى مَرْيَمَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فِى الرَّجُلِ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ ثُمَّ يَبْدُو لَهُ فَيَنْزِعُهُمَا قَالَ :يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ (السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ خَلَعَ خُفَّيْهِ بَعْدَ مَا مَسَحَ عَلَيْهِمَا ۱۴۲۲) اس لیے کہ موزہ نکلنے کی وجہ سے اس کا مسح ختم ہوگیا اب اسے پیردھونے پڑینگے؛ جیسا کہ مذکورہ اثر سے معلوم ہوا؛ گویا اس کا وضو باقی نہ رہا، اسی لیے نماز فاسد ہوجائیگی اور اس پروہ بناء بھی نہیں کرسکتا؛ کیونکہ وه نادر الوقوع ہے اس لیے فقہائے کرام نے اسے ان صورتوں میں شامل نہیں کیا جن میں نص واجماع کی وجہ سے بناء کی اجازت دے دی گئی ہے۔
(۲۸) جب مقتدی ایک رکن کی ادائیگی میں اس طرح امام سے آگے نکل جائے کہ اس رکن کی ادائیگی میں امام کے ساتھ شریک نہ ہو، جیسے مقتدی امام سے پہلے رکوع کرے اور اپنے سر کو امام کے رکوع کرنے سے پہلے اٹھالے اورامام کے ساتھ اس رکوع کو نہ لوٹائے ۔ حوالہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ فَجُحِشَتْ سَاقُهُ أَوْ كَتِفُهُ وَآلَى مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا فَجَلَسَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ دَرَجَتُهَا مِنْ جُذُوعٍ فَأَتَاهُ أَصْحَابُهُ يَعُودُونَهُ فَصَلَّى بِهِمْ جَالِسًا وَهُمْ قِيَامٌ فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا (بخاري بَاب الصَّلَاةِ فِي السُّطُوحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ: ۳۶۵) مذکورہ حدیث کی وجہ سے امام کی اتباع کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے، اس لیے ایک رکن کے بقدر بھی اگرمقتدی امام سے آگے نکل جائے تونماز فاسد ہوجائیگی۔
(۲۹) جب نماز کے دوران جنابت لاحق ہو جائے ، خواہ وہ جنابت عورت کو دیکھنے سے لاحق ہو یا اس کی خوبصورتی میں غور وفکر کرنے ، یا احتلام کی وجہ سے ۔حوالہ
لِأَنَّ هَذِهِ الْعَوَارِضَ يَنْدُرُ وُقُوعُهَا فِي الصَّلَاةِ فَلَمْ تَكُنْ فِي مَعْنَى مَوْرِدِ النَّصِّ وَالْإِجْمَاعِ … لِأَنَّ هَذِهِ الْأَفْعَالَ مُنَافِيَةٌ لِلصَّلَاةِ فِي الْأَصْلِ لِمَا نَذْكُرُ فَلَا يَسْقُطُ اعْتِبَارُ الْمُنَافِي إلَّا لِضَرُورَةٍ وَلَا ضَرُورَةَ … لِأَنَّهُ عَمَلٌ كَثِيرٌ وَلَيْسَ مِنْ أَعْمَالِ الصَّلَاةِ)بدائع الصنائع فصل شَرَائِطُ جَوَازِ الْبِنَاءِ في الصلاة ۳۷۰/۲)
وہ چیزیں جس سے نماز فاسد نہیں ہوتی
مندرجہ ذیل چیزوں کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَاالخ: ۳۱۵/۱۶)
عن ابْنِ شِهَابٍ أَنَّهُ سَأَلَ عَمَّهُ عَنْ الصَّلَاةِ يَقْطَعُهَا شَيْءٌ فَقَالَ لَا يَقْطَعُهَا شَيْءٌ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ فَيُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ وَإِنِّي لَمُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ عَلَى فِرَاشِ أَهْلِهِ(بخاري بَاب مَنْ قَالَ لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ شَيْءٌ۴۸۵)
عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ :إذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ فِي الصَّلاَة اسْتَقْبَلَ الصَّلاَة.(مصنف ابن ابي شيبة الرجل يأكل وَيَشْرَبُ فِي الصَّلاَة:۴۷۶/ ۲) نفس اکل وشرب (خواه اس كی مقدار كتنی ہی ہو) مفسدِ نماز ہے جیسا کہ مذکورہ اثر سے معلوم ہوا؛ لیکن کھانے کا ایسا دانہ جومنھ میں رہ جائے اور اس کی مقدار چنے کے دانہ سے کم ہو اس سے بچنا مشکل ہے؛ اگراس کوبھی مفسد نماز کہدیا جائے توحرج ہوگا؛ اس لیے اس کومعفوعنہ قرار دیا گیا۔ الحاجه تنزل منزلة الضرورة (الاشباه والنظائر: ۱۱۴/۱) وَلَوْ بَقِيَ بَيْنَ أَسْنَانِهِ شَيْءٌ فَابْتَلَعَهُ إنْ كَانَ دُونَ الْحِمَّصَةِ لَمْ يَضُرَّهُ ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ الْقَدْرَ فِي حُكْمِ التَّبَعِ لِرِيقِهِ لِقِلَّتِهِ وَلِأَنَّهُ لَا يُمْكِنُ التَّحَرُّزُ عَنْهُ ؛ لِأَنَّهُ يَبْقَى بَيْنَ الْأَسْنَانِ عَادَةً فَلَوْ جُعِلَ مُفْسِدًا لَوَقَعَ النَّاسُ فِي الْحَرَجِ وَلِهَذَا لَا يَفْسُدُ الصَّوْمُ بِهِ ، وَإِنْ كَانَ قَدْرَ الْحِمَّصَةِ فَصَاعِدًا فَسَدَتْ صَلَاتُهُ (بدائع الصنائع فَصْلٌ بَيَانُ حُكْمِ الِاسْتِخْلَافِ: ۴۵۰/۲)
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ …قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم (مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ ۸۳۶) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرکسی چیز کا تکلم زبان سے ہو تو وہ نماز كے لیے درست نہیں ہے؛ لیکن اگرکوئی چیز ذہن میں آئی ہو اور زبان پرنہ آئے تووہ نماز کے لیے نقصان دہ نہ ہوگی جيسا كہ اس روايت سے بهی معلوم ہوتا ہے۔ عن خوات بن جبير قال : كنت أصلي فإذا رجل من خلفي يقول : خفف فإن لنا إليك حاجة فالتفت فإذا رسول الله صلى الله عليه و سلم (المعجم الكبير خوات بن جبير الأنصاري بدري يكنى أبا عبد الله ويقال أبو صالح: ۴۱۵۰، ۲۰۵/۴)
وہ چیزیں جو نماز میں مکروہ ہیں
نماز میں مندرجہ ذیل چیزیں مکروہ ہیں،اس سے بچنا چاہئے، تاکہ نماز میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ (النساء: ۵۹) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (الاحزاب:۲۱) عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ أَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةً وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا أَوْ قَدْ اشْتَقْنَا سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا فَأَخْبَرْنَاهُ قَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لَا أَحْفَظُهَا وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ (بخاري بَاب الْأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً وَالْإِقَامَةِ وَكَذَلِكَ بِعَرَفَةَ الخ: ۵۹۵) عن أَنَس بْن مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم … فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي (بخاري بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ الخ:۴۶۷۵)
جان بوجھ کرسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوچھوڑنے والا ان تمام نصوص کے خلاف کرنے والا ہے اور نماز کی جس سنت کوچھوڑیگا اس سلسلے میں جوحدیث ہوگی اس کے خلاف بھی کرنے والا ہوگا اس لیے فقہاء کرام نے اسے مکروہ قرار دیا۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أُمِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْضَاءٍ وَلَا يَكُفَّ شَعَرًا وَلَا ثَوْبًا الْجَبْهَةِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ(بخاري بَاب السُّجُودِ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ ۷۶۷) عن يحيى بن أبي كثير ، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :« إن الله كره لكم العبث في الصلاة والرفث في الصيام والضحك عند المقابر(مسند شهاب الجزء الثامن من مسند الشهاب ۱۰۱۲)
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: ۳۱) عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، قال « كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة فما يعجبه إلا الثياب النقية والريح الطيبة » (مراسيل ابي داود ما جاء في الثياب ۲۸) مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ نماز كے لیے مسجد آئے تومزین اور آراستہ ہوکر آئے، جس میں صاف ستھرا رہنا اور اچھے کپڑے پہننا وغیرہ شامل ہیں؛ نیز مذکورہ روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کوبتلایا ہے کہ آپ نماز كے لیے صاف ستھرے کپڑے اور خوشبو لگایا کرتے تھے، جس سے نماز کا اہتمام معلوم ہوتا ہے؛ لہٰذا کوئی اس کے خلاف کرے تووہ اللہ کے حکم اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرنے والا ہوگا اس لیے فقہائے کرام نے اسے مکروہ قرار دیا۔
عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ قَالَ قَدِمْتُ الرَّقَّةَ فَقَالَ لِي بَعْضُ أَصْحَابِي هَلْ لَكَ فِي رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُلْتُ غَنِيمَةٌ فَدَفَعْنَا إِلَى وَابِصَةَ قُلْتُ لِصَاحِبِي نَبْدَأُ فَنَنْظُرُ إِلَى دَلِّهِ فَإِذَا عَلَيْهِ قَلَنْسُوَةٌ لَاطِئَةٌ ذَاتُ أُذُنَيْنِ وَبُرْنُسُ خَزٍّ أَغْبَرُ وَإِذَا هُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى عَصًا فِي صَلَاتِهِ فَقُلْنَا بَعْدَ أَنْ سَلَّمْنَا فَقَالَ حَدَّثَتْنِي أُمُّ قَيْسٍ بِنْتُ مِحْصَنٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَسَنَّ وَحَمَلَ اللَّحْمَ اتَّخَذَ عَمُودًا فِي مُصَلَّاهُ يَعْتَمِدُ عَلَيْهِ (ابوداود بَاب الرَّجُلِ يَعْتَمِدُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى عَصًا ۸۱۱)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الِالْتِفَاتِ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ(بخاري بَاب الِالْتِفَاتِ فِي الصَّلَاةِ ۷۰۹)
عن عَبْد اللَّهِ بْن عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُصَلُّوا خَلْفَ النَّائِمِ وَلَا الْمُتَحَدِّثِ(ترمذي بَاب الصَّلَاةِ إِلَى الْمُتَحَدِّثِينَ وَالنِّيَامِ ۵۹۵) عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ :حدَّثَنَا يُوسُفَ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ :كُنْتُ جَالِسًا إِلَى جَنْبِ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، فَالْتَفَتَ ، فَإِذَا رَجُلٌ يُصَلِّي خَلْفَهُ ، فَقَالَ لَهُ :إِمَّا أَنْ تَحَوَّلَ عَنِّي ، وَإِمَّا أَنْ أَقُومَ عْنك. (مصنف ابن ابي شيبة فِي الصَّلاَةِ بَيْنَ النِّيَامِ وَالْمُتَحَدَّثِينَ. ۲۵۷/۲)
عَنْ ابْنِ أَبِي عَتِيقٍ قَالَ تَحَدَّثْتُ أَنَا وَالْقَاسِمُ عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَدِيثًا … إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ )مسلم، بَاب كَرَاهَةِ الصَّلَاةِ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ الَّذِي يُرِيدُ أَكْلَهُ فِي الْحَالِ وَكَرَاهَةِ الصَّلَاةِ مَعَ مُدَافَعَةِ الْأَخْبَثَيْنِ ۸۶۹(
عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَأْخُذَ عَصَا أَخِيهِ بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسِهِ وَذَلِكَ لِشِدَّةِ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ (مسند احمد حديث أبي حميد الساعدي رضي الله عنه: ۲۳۶۵۴) عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِى قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ « أَلاَ وَلاَ يَحِلُّ لاِمْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَىْءٌ إِلاَّ بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْه (دارقطني البيوع: ۲۹۲۳) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ بغیر رضامندی کے کسی کی کوئی چیز استعمال کرنا جائز نہیں اور کسی کی زمین پرنماز پڑھنا بھی اسے استعمال کرنا ہی ہے، اس لیے بغیر رضامندی کے اس کی جگہ پرنماز پڑھنا مکروہ ہوگا۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ(ابوداود بَاب فِي لُبْسِ الشُّهْرَةِ ۳۵۱۲)
عن أبي سعيد الخدري قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :« الأرض كلها مسجد ، إلا الحمام(صحيح ابن خزيمة باب الزجر عن الصلاة في المقابر والحمام ۷۶۹( اور بیت الخلاء کے قریب نماز پڑھنے سے اس لیے منع کیا گیا کہ وہاں گندی بوآنے کا خطرہ ہوتا ہے اور انسانی طبیعت فطری طور پراسے ناپسند کرتی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ نماز جیسی عظیم الشان عبادت اس جگہ کے قریب ادا کرنے کوہرکوئی ناپسند کرتا ہے اور اس سے مصلی کا خشوع وخضوع متاثر ہوتا ہے؛ حالانکہ نماز میں خشوع وغیرہ مطلوب ہے؛ جیسا کہ الله تعالي كا ارشاد ہے: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ(المومنون: ۲،۱)
عن علي أنه كان ينهى أن يصلى على جواد الطريق(كنز العمال(المكان المكروه)۱۹۵/۸)
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدٌ إِلَّا الْمَقْبَرَةَ وَالْحَمَّامَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْأَرْضَ كُلَّهَا مَسْجِدٌ إِلَّا الْمَقْبَرَةَ وَالْحَمَّامَ۲۹۱)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ(ترمذي بَاب مَا ذُكِرَ فِي تَطْيِيبِ الْمَسَاجِدِ۵۴۲)
عَنْ الْأَسْوَدِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُ أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَائِطَ فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ فَوَجَدْتُ حَجَرَيْنِ وَالْتَمَسْتُ الثَّالِثَ فَلَمْ أَجِدْهُ فَأَخَذْتُ رَوْثَةً فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ وَقَالَ هَذَا رِكْسٌ (بخاري بَاب لَا يُسْتَنْجَى بِرَوْثٍ: ۱۵۲) عَنْ عَائِشَةَ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا ذَهَبَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْغَائِطِ فَلْيَذْهَبْ مَعَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ يَسْتَطِيبُ بِهِنَّ فَإِنَّهَا تُجْزِئُ عَنْهُ (ابوداود بَاب الِاسْتِنْجَاءِ بِالْحِجَارَةِ: ۳۶) مذکورہ روایات میں صرف حجر پراکتفا کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ پتھر سے نجاست کے اثرات ختم نہیں ہوتے؛ بلکہ اس میں خفت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ سوکھ جاتی ہے اس کے باوجود اس حالت میں نماز پڑھ لینے کوجائز قرار دیا گیا؛ لیکن بہت سی احادیث اور قرآنی آیات کے ذریعہ مطلقاً نجاست( خواہ تھوڑی ہویازیادہ) كے پاک ہوجانے یاپاک کرنے کا حکم دیا گیا؛ اس لیے کوئی عذر نہ ہوتوتھوڑی نجاست کے ساتھ نماز پڑھنا مناسب نہیں ہے۔ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الثَّوْبِ يُصِيبُهُ الدَّمُ مِنْ الْحَيْضَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُتِّيهِ ثُمَّ اقْرُصِيهِ بِالْمَاءِ ثُمَّ رُشِّيهِ وَصَلِّي فِيهِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي غَسْلِ دَمِ الْحَيْضِ مِنْ الثَّوْبِ: ۱۲۸) عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ الْمَنِيِّ يُصِيبُ الثَّوْبَ فَقَالَتْ كُنْتُ أَغْسِلُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَأَثَرُ الْغَسْلِ فِي ثَوْبِهِ بُقَعُ الْمَاءِ (بخاري بَاب غَسْلِ الْمَنِيِّ وَفَرْكِهِ وَغَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنْ الْمَرْأَةِ: ۲۲۳)
عن أَبي طَلْحَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةُ تَمَاثِيلَ (بخاري بَاب ذِكْرِ الْمَلَائِكَةِ الخ: ۲۹۸۶) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ كَانَ قِرَامٌ لِعَائِشَةَ سَتَرَتْ بِهِ جَانِبَ بَيْتِهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمِيطِي عَنَّا قِرَامَكِ هَذَا فَإِنَّهُ لَا تَزَالُ تَصَاوِيرُهُ تَعْرِضُ فِي صَلَاتِي (بخاري بَاب إِنْ صَلَّى فِي ثَوْبٍ مُصَلَّبٍ أَوْ تَصَاوِيرَ هَلْ تَفْسُدُ صَلَاتُهُ وَمَا يُنْهَى عَنْ ذَلِكَ: ۳۶۱) تصاویر کی شریعت میں ممانعت بھی آئی ہے اس کے علاوہ نماز میں اس کی طرف دھیان جاتا ہے اس لیے ایسے لباس میں نماز کومکروہ قرار دیا گیا۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ كَانَ قِرَامٌ لِعَائِشَةَ سَتَرَتْ بِهِ جَانِبَ بَيْتِهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمِيطِي عَنَّا قِرَامَكِ هَذَا فَإِنَّهُ لَا تَزَالُ تَصَاوِيرُهُ تَعْرِضُ فِي صَلَاتِي (بخاري بَاب إِنْ صَلَّى فِي ثَوْبٍ مُصَلَّبٍ أَوْ تَصَاوِيرَ هَلْ تَفْسُدُ صَلَاتُهُ وَمَا يُنْهَى عَنْ ذَلِكَ: ۳۶۱) عَنْ مِقْسَمٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لاَ تُصَلِّ فِي بَيْتٍ فِيهِ تَمَاثِيلُ. (مصنف ابن ابي شيبة الصلاة في الْبَيْتِ فِيهِ تَمَاثِيلُ: ۴۶/۲)
عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُفَقِّعْ أَصَابِعَكَ وَأَنْتَ فِي الصَّلَاةِ (ابن ماجه بَاب مَا يُكْرَهُ فِي الصَّلَاةِ ۹۵۵)
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا قَدْ شَبَّكَ أَصَابِعَهُ فِي الصَّلَاةِ فَفَرَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ(ابن ماجه بَاب مَا يُكْرَهُ فِي الصَّلَاةِ ۹۵۷)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ كَانَ يَرَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَايَتَرَبَّعُ فِي الصَّلَاةِ إِذَا جَلَسَ فَفَعَلْتُهُ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ فَنَهَانِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَقَالَ إِنَّمَا سُنَّةُ الصَّلَاةِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَكَ الْيُمْنَى وَتَثْنِيَ الْيُسْرَى فَقُلْتُ إِنَّكَ تَفْعَلُ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّ رِجْلَيَّ لَا تَحْمِلَانِي (بخاري بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ۷۸۴)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ وَنَهَانِي عَنْ ثَلَاثٍ أَمَرَنِي بِرَكْعَتَيْ الضُّحَى كُلَّ يَوْمٍ وَالْوِتْرِ قَبْلَ النَّوْمِ وَصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَنَهَانِي عَنْ نَقْرَةٍ كَنَقْرَةِ الدِّيكِ وَإِقْعَاءٍ كَإِقْعَاءِ الْكَلْبِ وَالْتِفَاتٍ كَالْتِفَاتِ الثَّعْلَبِ(مسند احمد مسند أبي هريرة رضي الله عنه ۸۰۹۱)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ ۔۔۔ وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ وَيَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُع (بخاري بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ الخ: ۷۶۸)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ مُخْتَصِرًا (مسلم، بَاب كَرَاهَةِ الْاخْتِصَارِ فِي الصَّلَاةِ۸۴۸)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أُمِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْضَاءٍ وَلَا يَكُفَّ شَعَرًا وَلَا ثَوْبًا الْجَبْهَةِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ(بخاري بَاب السُّجُودِ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ ۷۶۷)
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا كَانَ لِأَحَدِكُمْ ثَوْبَانِ فَلْيُصَلِّ فِيهِمَا فَإِنْ لَمْ يَكُنْ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ فَلْيَتَّزِرْ بِهِ وَلَا يَشْتَمِلْ اشْتِمَالَ الْيَهُودِ(ابوداود بَاب إِذَا كَانَ الثَّوْبُ ضَيِّقًا يَتَّزِرُ بِهِ ۵۴۰)
(۲۵)بغیر کسی عذریا بغیر کسی مصلحت کےکھلے سرنماز پڑھنا۔ حوالہ
( و ) تكره وهو ( مكشوف الرأس ) تكاسلا لترك الوقار(مراقی الفلاح:۱/۱۵۸)
(۲۶)ایسی صف کے پیچھے کھڑا ہونا جس میں کھڑے ہونے کے لیے جگہ اور گنجائش ہو۔ حوالہ
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتِمُّوا الصَّفَّ الْأَوَّلَ ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ وَإِنْ كَانَ نَقْصٌ فَلْيَكُنْ فِي الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ
(نسائی،باب الصف المؤخر،حدیث نمبر:۸۰۹)
عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ :سَأَلَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، تَعُدُّ الآيِ فِي الصَّلاَة ؟ فَقَالَ :مَا أَفْعَلُ ، قَالَ :وَأَنَا أَيْضًا مَا أَفْعَلُ. (مصنف ابن ابي شيبة في عدد الآيِ فِي الصَّلاَة من كرهه ۸۴/۲)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ مِنْ الْجَفَاءِ أَنْ يُكْثِرَ الرَّجُلُ مَسْحَ جَبْهَتِهِ قَبْلَ الْفَرَاغِ مِنْ صَلَاتِهِ (ابن ماجه بَاب مَا يُكْرَهُ فِي الصَّلَاةِ: ۹۵۴) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إذَا كُنْتَ فِي الصَّلاَة ، فَلاَ تَمْسَحْ جَبْهَتَكَ ، وَلاَ تَنْفُخْ ، وَلاَ تُحَرِّكَ الْحَصْبَاءَ. (مصنف ابن ابي شيبة الرجل يمسح جَبْهَتَهُ فِي الصَّلاَة: ۶۰/۲)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَرَأَى رَجُلاً يُصَلِّى مَا يُصِيبُ أَنْفَهُ مِنَ الأَرْضِ فَقَالَ « لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لاَ يُصِيبُ أَنْفَهُ مِنَ الأَرْضِ مَا يُصِيبُ الْجَبِينَ (دار قطني باب مَنْ أَدْرَكَ الإِمَامَ قَبْلَ إِقَامَةِ صُلْبِهِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاَةَ. ۱۳۳۵)
عَنْ عَائِشَةعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا وُضِعَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ(بخاري بَاب إِذَا حَضَرَ الطَّعَامُ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ۶۳۱)
عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِ { وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ } الخ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ: ۲۸۱) عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ وَشِبْهِهِمَا (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ: ۲۸۲) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُمِّهِ أُمِّ الْفَضْلِ قَالَتْ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَاصِبٌ رَأْسَهُ فِي مَرَضِهِ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ فَقَرَأَ بِالْمُرْسَلَاتِ قَالَتْ فَمَا صَلَّاهَا بَعْدُ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الْمَغْرِبِ: ۲۸۳) مذکورہ احادیث کے علاوہ بہت ساری احادیث سے آپ کا معمول مذکورہ صورت کے خلاف معلوم ہوتا ہے اس لیے اسے مکروہ قرار دیا گیا۔
عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِ { وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ } الخ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ: ۲۸۱) عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ وَشِبْهِهِمَا (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ: ۲۸۲) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُمِّهِ أُمِّ الْفَضْلِ قَالَتْ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَاصِبٌ رَأْسَهُ فِي مَرَضِهِ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ فَقَرَأَ بِالْمُرْسَلَاتِ قَالَتْ فَمَا صَلَّاهَا بَعْدُ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الْمَغْرِبِ: ۲۸۳) مذکورہ احادیث کے علاوہ بہت ساری احادیث سے آپ کا معمول مذکورہ صورت کے خلاف معلوم ہوتا ہے اس لیے اسے مکروہ قرار دیا گیا۔
عن ابن مسعود ، أنه قيل له :إن فلانا يقرأ القرآن منكوسا قال :« ذلك منكوس القلب » (شعب الايمان فصل في ترك خلط سورة بسورة۲۲۲۸)
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ يُطَوِّلُ فِي الْأُولَى وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ وَيُسْمِعُ الْآيَةَ أَحْيَانًا وَكَانَ يَقْرَأُ فِي الْعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ وَكَانَ يُطَوِّلُ فِي الْأُولَى وَكَانَ يُطَوِّلُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ(بخاري بَاب الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ ۷۱۷)
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا صَلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُهُ…فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ الْقِبْلَةَ(بخاري بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ ۷۸۵(
عن يحيى بن أبي كثير ، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « إن الله كره لكم العبث في الصلاة والرفث في الصيام والضحك عند المقابر » (مسند الشهاب القضاعي إن لكل نبي دعوة ، وإني اختبأت دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة: ۱۰۱۲) اپنے عمامہ پرسجدہ کرنے میں بار بار عمامے کوسمیٹنا پڑیگا اور یہ نماز میں کپڑے سے کھیلنا ہوا جس سے مذکورہ حدیث میں منع کیا گیا البتہ کوئی عذر ہوتواس کی اجازت ہوگی؛ عن انَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّةِ الْحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ )بخاري بَاب السُّجُودِ عَلَى الثَّوْبِ فِي شِدَّةِ الْحَر ۳۷۲) وَفِيهِ إِشَارَة إِلَى أَنَّ مُبَاشَرَة الْأَرْض عَنْد السُّجُود هُوَ الْأَصْلِيّ ؛ لِأَنَّهُ عَلَّقَ بَسْط الثَّوْب بِعَدَمِ الِاسْتِطَاعَة . وَاسْتَدَلَّ بِهِ عَلَى إِجَازَة السُّجُود عَلَى الثَّوْب الْمُتَّصِل بِالْمُصَلِّي ، قَالَ النَّوَوِيّ :وَبِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَة وَالْجُمْهُور(فتح الباري ۹۸/۲) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ كَانَ قِرَامٌ لِعَائِشَةَ سَتَرَتْ بِهِ جَانِبَ بَيْتِهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمِيطِي عَنَّا قِرَامَكِ هَذَا فَإِنَّهُ لَا تَزَالُ تَصَاوِيرُهُ تَعْرِضُ فِي صَلَاتِي (بخاري بَاب إِنْ صَلَّى فِي ثَوْبٍ مُصَلَّبٍ أَوْ تَصَاوِيرَ هَلْ تَفْسُدُ صَلَاتُهُ وَمَا يُنْهَى عَنْ ذَلِكَ: ۳۶۱) تصاویر کی شریعت میں سخت ممانعت آئی ہے اس کے علاوہ اگراس پرسجدہ کیا جائے تونماز میں ذہن اس طرف متوجہ ہوگا اور یہ خشوع فی الصلاۃ کے منافی ہے؛ جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذہن تصویر کی طرف ہوتے رہنے کی وجہ سے اس کوہٹانے کا حکم فرمایانیز اس پرسجدہ کرنے میں اس کی تعظیم بھی معلوم ہوتی ہے؛ اس لیے اسے مکروہ قرار دیا گیا۔
(۳۷)فرض نمازوں میں دو پڑھی گئی سورتوں کے درمیان کسی چھوٹی سورت سے فصل کرنا جیسے پہلی رکعت میں سورۂ تکاثر اور دوسری رکعت میں سورۂ ہمزہ پڑھے ، اور ان دونوں کے درمیان سورۂ عصر کو چھوڑدے۔ حوالہ
عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ : مَرَّ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى بِلاَلٍ وَهُوَ يَقْرَأُ مِنْ هَذِهِ السُّورَةِ ، وَمِنْ هَذِهِ السُّورَةِ ، فَقَالَ : مَرَرْت بِكَ يَا بِلاَلُ وَأَنْتَ تَقْرَأُ مِنْ هَذِهِ السُّورَةِ ، وَمِنْ هَذِهِ السُّورَةِ ، فَقَالَ : بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ ، إنِّي أَرَدْتُ أَنْ أَخْلِطَ الطَّيِّبَ بِالطَّيِّبِ ، قَالَ : اقْرَأَ السُّورَةَ عَلَى نَحْوِهَا(مصنف ابن ابي شيبة الرَّجُلُ يقرأُ مِنْ هَذِهِ السُّورَةِ ، وَمِنْ هَذِهِ السُّورَةِ۵۳۲/۲) مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ قرأت میں ترتیب کا لحاظ رکھنا چاہیے؛ اس لیے فقہاء کرام نے دوسورتوں کے درمیان چھوٹی سورۃ کے چھوڑ دینے کومکروہ قرار دیا۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ قَالَ لَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ الرُّكَبَ سُنَّتْ لَكُمْ فَخُذُوا بِالرُّكَبِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَدَيْنِ عَلَى الرُّكْبَتَيْنِ فِي الرُّكُوعِ ۲۳۹)
عَنْ ابْنِ حُجْرٍ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ قُلْتُ لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا جَلَسَ يَعْنِي لِلتَّشَهُّدِ افْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى يَعْنِي عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَنَصَبَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى (ترمذي بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ الْجُلُوسُ فِي التَّشَهُّدِ ۲۶۹)
(۴۰) جمائی لینا، اگر جمائی کا تقاضہ زور پکڑے تو اس کو روکے،بایں طور کہ اپنے داہنے ہاتھ کے ظاہری حصہ کو منہ پر رکھ لے۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّثَاؤُبُ مِنْ الشَّيْطَانِ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَالَ هَا ضَحِكَ الشَّيْطَانُ(بخاري بَاب صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ ۳۰۴۶)عن سُهَيْل بْن أَبِي صَالِحٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنًا لِأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ يُحَدِّثُ أَبِي عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَثَاوَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيُمْسِكْ بِيَدِهِ عَلَى فِيهِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ (مسلم بَاب تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَكَرَاهَةِ التَّثَاؤُبِ: ۵۳۱۱)لَكِنْ فِي حَالَةِ الْقِيَامِ لَمَّا كَانَ يَلْزَمُ مِنْ دَفْعِهِ بِالْيَسَارِ كَثْرَةُ الْعَمَلِ بِتَحْرِيكِ الْيَدَيْنِ كَانَتْ الْيُمْنَى أَوْلَى وَقَدَّمْنَا فِي آدَابِ الصَّلَاةِ عَنْ الضِّيَاءِ أَنَّهُ بِظَهْرِ الْيُسْرَى . وَفِي الْحِلْيَةِ عَنْ بَعْضِهِمْ أَنَّهُ مُخَيَّرٌ بَيْنَهُمَا وَأَنَّهُ إنْ سَدَّ بِالْيُمْنَى يُخَيَّر فِيهِ بِظَاهِرِهَا أَوْ بَاطِنِهَا ، وَإِنْ بِالْيُسْرَى فَبِظَاهِرِهَا (رد المحتار [ فَرْعٌ ] لَا بَأْسَ بِتَكْلِيمِ الْمُصَلِّي وَإِجَابَتِهِ بِرَأْسِهِ: ۳۲/۵)
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَا ثُكْلَ أُمِّيَاهْ مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ فَوَاللَّهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم (مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ ۸۳۶)
عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ :« إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمُ الْقَمْلَةَ وَهُوَ يُصَلِّى فَلاَ يَقْتُلْهَا وَلَكِنْ يَصُرُّهَا حَتَّى يُصَلِّىَ (السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ وَجَدَ فِى صَلاَتِهِ قَمْلَةً فَصَرَّهَا ۳۷۵۰)
(۴۳) ایسی حالت میں نماز پڑھنا کہ اس نے اپنے سر کو رومال سے باندھے رکھا ہواور سر کے درمیانی حصہ کو کھلا چھوڑ دیا ہو۔ حوالہ
وَيُكْرَهُ الِاعْتِجَارُ وَهُوَ أَنْ يُكَوِّرَ عِمَامَتَهُ وَيَتْرُكَ وَسَطَ رَأْسِهِ مَكْشُوفًا (الهندية الْفَصْلُ الثَّانِي فِيمَا يُكْرَهُ فِي الصَّلَاةِ وَمَا لَا يُكْرَهُ ۳۷۴/۳)
عَنْ أَبِي رَافِعٍ أَنَّهُ مَرَّ بِالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَهُوَ يُصَلِّي وَقَدْ عَقَصَ ضَفِرَتَهُ فِي قَفَاهُ فَحَلَّهَا فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الْحَسَنُ مُغْضَبًا فَقَالَ أَقْبِلْ عَلَى صَلَاتِكَ وَلَا تَغْضَبْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ كِفْلُ الشَّيْطَانِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ كَفِّ الشَّعْرِ فِي الصَّلَاةِ۳۵۰)
(۴۵) رکوع اور سجدے کے وقت کپڑوں کے مٹی میں ملوث ہونے کے اندیشے سے اپنے کپڑوں کو سامنے یا پیچھے سے اٹھا لینا۔ حوالہ
عن يحيى بن أبي كثير ، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « إن الله كره لكم العبث في الصلاة والرفث في الصيام والضحك عند المقابر » (مسند الشهاب القضاعي إن لكل نبي دعوة ، وإني اختبأت دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة: ۱۰۱۲)
(۴۶)کپڑوں کا سدل کرنا، بایں طور کہ کپڑے کو اپنے سر یا کندھے پر ڈالدے اور اس کے دونوں کناروں کو بغیر باندھے یوں ہی چھوڑ دے۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ ۳۴۵)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلًا إِزَارَهُ إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ فَقَالَ إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ(ابوداود بَاب الْإِسْبَالِ فِي الصَّلَاةِ ۵۴۳)
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ الْقَسِّيِّ وَالْمُعَصْفَرِ وَعَنْ تَخَتُّمِ الذَّهَبِ وَعَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِي الرُّكُوعِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ الْقِرَاءَةِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ۲۴۴)
عن عبد الله أنه كره الصلاة في المحراب وقال إنما كانت الكنائس فلا تشبهوا بأهل الكتاب يعني أنه كره الصلاة في الطاق. (مسند البزار مسند عبد الله بن مسعود رضي الله عنه:۱۵۷۷ ، ۲۶۷/۱)( قَوْلُهُ وَقِيَامُ الْإِمَامِ لَا سُجُودُهُ فِي الطَّاقِ ) أَيْ الْمِحْرَابِ لِأَنَّ قِيَامَهُ فِيهِ يُشْبِهُ صَنِيعَ أَهْلِ الْكِتَابِ بِخِلَافِ سُجُودِهِ فِيهِ وَقِيَامِهِ خَارِجَه … وَلِهَذَا قَالَ الْوَلْوَالِجِيُّ فِي فَتَاوِيهِ وَصَاحِبُ التَّجْنِيسِ إذَا ضَاقَ الْمَسْجِدُ بِمَنْ خَلْفَ الْإِمَامِ عَلَى الْقَوْمِ لَا بَأْسَ بِأَنْ يَقُومَ الْإِمَامُ فِي الطَّاقِ لِأَنَّهُ تَعَذَّرَ الْأَمْرُ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَضِقْ الْمَسْجِدُ بِمَنْ خَلْفَ الْإِمَامِ لَا يَنْبَغِي لِلْإِمَامِ أَنْ يَقُوم فِي الطَّاقِ لِأَنَّهُ يُشْبِهُ تَبَايُنَ الْمَكَانَيْنِ (البحر الرائق قَوْلُهُ وَتَغْمِيضُ عَيْنَيْهِ: ۱۳۹/۴)
(۵۰)امام کا تنہا ایک ہاتھ اونچی جگہ یا ایک ہاتھ نیچی جگہ میں بغیر کسی عذر کے کھڑا ہونا، ہاں! اگر کوئی مقتدی بھی ساتھ میں ہو تو نماز مکروہ نہ ہوگ- حوالہ
عن ابن عباس قال :قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :إذا قام أحدكم في الصلاة فلا يغمض عينيه (المعجم الكبير للطبراني أحاديث عبد الله بن العباس بن
عن قَتَادَة أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي صَلَاتِهِمْ فَاشْتَدَّ قَوْلُهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى قَالَ لَيَنْتَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْ(بخاري بَاب رَفْعِ الْبَصَرِ إِلَى السَّمَاءِ فِي الصَّلَاةِ ۷۰۸)
خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ(الاعراف:۳۱) عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ :قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ( { إذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَلْبَسْ ثَوْبَيْهِ ، فَإِنَّ اللَّهَ أَحَقُّ مَنْ يُزَّيَّنَ لَهُ (شرح معاني الاثار بَابُ الصَّلَاةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ ۱۷۰/۲) عَنْ نَافِعٍ قَالَ : رَآنِى ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أُصَلِّى فِى ثَوْبٍ وَاحِدٍ فَقَالَ : أَلَمْ أَكْسُكَ؟ قُلْتُ : بَلَى. قَالَ : فَلَوْ بَعَثْتُكَ كُنْتَ تَذْهَبُ هَكَذَا ؟ قُلْتُ : لاَ. قَالَ : فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَزَيَّنَ لَهُ ، ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- :« إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فِى ثَوْبٍ فَلْيَشُدَّهُ عَلَى حِقْوِهِ ، وَلاَ تَشْتَمِلُوا كَاشْتِمَالِ الْيَهُودِ (السنن الكبري للبيهقي باب مَا يُسْتَحَبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُصَلِّىَ فِيهِ مِنَ الثِّيَابِ.: ۳۳۹۸)
وہ چیزیں جو نماز میں مکروہ نہیں ہیں
مندرجہ ذيل چیزیں نماز میں مکروہ نہیں ہیں۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَلْحَظُ فِي الصَّلَاةِ يَمِينًا وَشِمَالًا وَلَا يَلْوِي عُنُقَهُ خَلْفَ ظَهْرِهِ(ترمذي بَاب مَا ذُكِرَ فِي الِالْتِفَاتِ فِي الصَّلَاةِ ۵۳۶)
ولا بأس أن يصلي وبين يديه مصحف معلق أو سيف معلق لأنهما لايعبدان. (الفقه الاسلامي وادلته المطلب الرابع ـ ما تحرم الصلاة فيه ۱۵۷/۲)
عن نافع ، « أن ابن عمر ، كان يجلس الرجل ؛ يصلي إليه يستتر به » (الاوسط لابن المنذر ذكر الاستتار بالإبل في الصلاة۲۳۸۲)
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (ابوداود بَاب فِي لُبْسِ الشُّهْرَةِ: ۳۵۱۲)مذکورہ حدیث کی وجہ سے ایسی آگ کے سامنے نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا گیا جو بھڑکائی گئی ہو اس لیے کہ مجوسی اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس میں ان سے مشابہت ہوگی،لیکن قندیل یا چراغ کی آگ بھڑکائی ہوئی نہیں ہوتی،اس لیے مشابہت نہیں پائی جاتی لہذا مکروہ نہ رہی۔ ولا تكره الصلاة إلى قنديل أو سراج أو شمع إذ ليس فيه تشبه بالمجوس؛ لأنهم لا يعبدون إلا ناراً متوقداً۔(المحیط البرہانی:۹/۱۳۳)
فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ(المزمل: ۲۰) عن أَبي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْرُجْ فَنَادِ فِي الْمَدِينَةِ أَنَّهُ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقُرْآنٍ وَلَوْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَمَا زَادَ (ابوداود بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ: ۶۹۶) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أُمِرْنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَا تَيَسَّرَ (ابوداود بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ: ۶۹۵) مذکورہ نصوص میں ضمِ سورۃ کے سلسلے میں مطلق کسی بھی سورۃ کے پڑھنے کا حکم ہے؛ خواہ ہررکعت میں الگ الگ سورۃ پڑھی جائے یا ہررکعت میں ايك ہی سورۃ، اس لیے نفل کی دونوں رکعتوں میں کسی سورۃ کومکرر کرنا مکروہ نہیں ہے،
عن مُعَيْقِيب أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الرَّجُلِ يُسَوِّي التُّرَابَ حَيْثُ يَسْجُدُ قَالَ إِنْ كُنْتَ فَاعِلًا فَوَاحِدَةً(بخاري بَاب مَسْحِ الْحَصَا فِي الصَّلَاةِ ۱۱۳۱)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ الْحَيَّةُ وَالْعَقْرَبُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ فِي الصَّلَاةِ ۳۵۵)
(۸) رکوع یا سجدہ میں اپنے کپڑوں کو جھاڑ لینا، تاکہ کپڑے جسم سے چپک نہ جائیں اور اعضاء کے ظہور سے محفوظ رہا جاسکے۔حوالہ
عَنْ إبْرَاهِيمَ ؛ أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُحْدِثَ الرَّجُلُ فِي الصَّلاَة شَيْئًا حَتَّى زَرَّ الْقَمِيصِ . قَالَ :وَكَانَ إبْرَاهِيمُ لاَ يَرَى بَأْسًا إذَا اسْتَرْخَى إزَارُهُ فِي الصَّلاَة أَنْ يَرْفَعَهُ (مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُل يسترخي إزَارُهُ فِي الصَّلاَة. ۵۱۹/۲)
عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ :أَخْبَرَنَا مَنْ رَأَى إبْرَاهِيمَ وَالْحَسَنَ يُصَلِّيَانِ عَلَى بِسَاطٍ فِيهِ تَصَاوِيرُ.(مصنف ابن ابي شيبة في الصلاة عَلَى الطَّنَافِسِ وَالْبُسُطِ ۴۰۱/۱)
عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْكُزُ وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَغْرِزُ الْعَنَزَةَ وَيُصَلِّي إِلَيْهَا(مسلم، بَاب سُتْرَةِ الْمُصَلِّي۷۷۴) ولا بأس أن يصلي وبين يديه مصحف معلق أو سيف معلق لأنهما لايعبدان. (الفقه الاسلامي وادلته المطلب الرابع ـ ما تحرم الصلاة فيه ۱۵۷/۲)
نماز کا طریقہ
جب تمہیں نماز پڑھنا ہو تو کھڑے ہو جاؤ ، نماز کی نیت سے اپنے دونوں ہاتھوں كو کانوں کے برابر اٹھا ؤ پھر اللہ اکبر کہو۔ تکبیر تحریمہ کے بعد بغیر ٹہرے ہوئے اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھ دو، پھر آہستہ سے کہنا شروع کردو:
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلاَ اِلٰہَ غَیْرُکْ-حوالہ
( نسائی، باب نوع آخرمن الذکر بین افتتاح الصلاۃ وبین القرأۃ، حدیث نمبر:۸۸۹ )
ترجمہ:اے اللہ تیری ذات پاک ہے اور تیرے ہی لئے تعریف ہے اور تیر انام بابرکت ہے تیری عظمت بلند و بالاہے ،تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔
پھر آہستہ سے اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْم کہے، پھر آہستہ سے بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کہے، پھر سورہ فاتحہ پڑھے، پھر جب سورہ فاتحہ ہو جائے تو آہستہ سے آمین کہے۔حوالہ
عن ابی وائل قال:کان عمرؓ وعلیؓ لایجھران ببسم اللہ الرحمن الرحیم ولابالتعوّذ ولابالتامین( شرح معانی الآثار، باب قرأۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصلاۃ:۱/۳۴۷ )
پھر سورۃ پڑھے یا تین چھوٹی آیتیں یا کم از کم ایک لمبی آیت پڑھے۔حوالہ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أُمِرْنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَا تَيَسَّرَ(ابوداود بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ۶۹۵)
پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع کرے، رکوع میں اپنے سر کو سرین کے برابر کرے۔حوالہ
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُجْزِئُ صَلَاةُ الرَّجُلِ حَتَّى يُقِيمَ ظَهْرَهُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ(ابوداود بَاب صَلَاةِ مَنْ لَا يُقِيمُ صُلْبَهُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ۷۲۹)
اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو کشادہ کرے ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑلے۔حوالہ
عن أنس بن مالك قال :قدم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم المدينة وأنا يومئذ ابن ثمان سنين ، فذهبت بي أمي إليه ، فقالت :يا رسول الله ، إن رجال الأنصار ونساءهم قد أتحفوك غيري ، ولم أجد ما أتحفك إلا ابني هذا ، فاقبل مني يخدمك ما بدا لك قال :فخدمت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عشر سنين ، فلم يضربني ضربة قط ، ولم يسبني ، ولم يعبس في وجهي ، وكان أول ما أوصاني به أن قال :« يا بني ،ثم قال لي يا بني ، إذا ركعت فضع كفيك على ركبتيك ، وافرج بين أصابعك ، وارفع يديك على جنبيك(المعجم الصغير للطبراني باب الميم من اسمه محمد ۴۹۷/۲(
عن ابن مسعود ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال اذارکع أحدکم فقال فی رکوعہ سبحان ربی العظیم ثلث مرات( ترمذی، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، حدیث نمبر:۲۴۲)
پھرسَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہتے ہوئے رکوع سے سر اٹھائے۔ ہاں اگر تم مقتدی ہو تو صرف رَبَّنَالَکَ الْحَمْدپر اکتفاء کرلو۔ پھر اطمینان سے کھڑے ہو جاؤ۔
پھر تکبیر کہتے ہوئے سجدے میں جائے۔حوالہ
عن أَبي هُرَيْرَةَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنْ الرَّكْعَةِ ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ… ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ ثُمَّ يُكَبِّرُالخ (بخاري بَاب التَّكْبِيرِ إِذَا قَامَ مِنْ السُّجُودِ ۷۴۷)
پہلے اپنے گھٹنوں کو زمین پر رکھے ، پھر ہاتھوں کو، پھر چہرے کو دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھے، سجدے میں اپنے پیٹ کو اپنے رانوں سے اور بازؤں کو پہلوؤں سے دورر کھے اگر وہاں بھیڑ نہ ہو، اپنے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کو قبلہ رخ کرے۔ حوالہ
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا صَلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُهُ… فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ الْقِبْلَةَ(بخاري بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ ۷۸۵(
عن ابن مسعود ان النبیﷺ قال… واذاسجد فقال فی سجودہ سبحان ربی الأعلی ثلاث مرات۔( ترمذی، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، حدیث نمبر:۲۴۲۔ )
پھر پہلے سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے تکبیر کہے اور دونوں سجدوں کے درمیان اپنے ہاتھوں کو اپنے رانوں پر رکھ کر اطمینان سے بیٹھے۔ پھر تکبیر کہہ کر دوسرا سجدہ کرے ، دوسرے سجدہ میں بھی کم از کم تین مرتبہ تسبیح کہے۔پھر زمین پراپنے ہاتھوں سے ٹیک لگائے بغیر اور بغیر بیٹھے ہوئے اپنے سر کو اٹھنے کی تکبیر کہتے ہوئے اٹھائے ، اب پہلی رکعت پوری ہوئی۔دوسری رکعت میں پہلی رکعت کی طرح افعال بجا لائے، لیکن نہ اپنے ہاتھوں کو اٹھائے ، اور نہ ثناء پڑھے نہ ہی تعوذ پڑھے۔ جب دوسری رکعت کے سجدے سے فارغ ہو جائے تو بائیں پیر کو بچھالے اور اس پر بیٹھ جائے اور اپنے داہنے پیر کی انگلیوں کو قبلہ رخ کر کے پیر کھڑا کردے ، اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو کشادہ کرے کے ہاتھوں کو رانوں پر رکھے۔حوالہ
عن ابن عمرؓ ان رسول اللہﷺ کان إذاقعد فی التشھد وضع یدہ الیسری علی رکبتہ الیسری ووضع یدہ الیمنی علی رکبتہ الیمنی وعقد ثلاثۃ وخمسین وأشار بالسَّبَّابَۃِ (مسلم، باب صفۃ الجلوس فی الصلاۃ وکیفیۃ وضع الیدین علی الفخذین، حدیث نمبر:۹۱۲)۔
پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول تشہد پڑھے ۔
اَلتَّحِیَّاتُ للّٰہِ وَالصَّلَوَات وَالطَّیِّبَاتُ ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ ، اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہْ،اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِاللہ الصَّالِحِیْن، اَشْھَدُاَنْ لاَّاِلٰہَ اِلاَّاللہ، وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہْ۔حوالہ
(بخاری، باب التشہد فی الآخرۃ، حدیث نمبر:۷۸۸)
(ترجمہ:سب بدنی عبادتیں اور قولی عبادتیں اور مالی عبادتیں اللہ تعالی کیلئے ہیں ، سلام ہو تجھ پر اے اللہ کے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں)
اگر نماز دورکعت والی ہو تو جیسے فجر کی نماز تو تشہد کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے یوں کہے:
اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَکے وقت شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنےكےليے"لاَ اِلٰہَ" کے وقت اٹھائے"اِلاَّ اللہ "کہتے وقت رکھ دے۔
پھر درود شريف پڑھے:اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّک حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔حوالہ
ترجمہ:اے اللہ رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر جیسا کہ رحمت نازل فرمائی آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر ، بیشک تو تعریف اور بزرگی والا ہے۔
پھر قرآن وحدیث میں وارد شدہ دعاؤں کے مثل کوئی دعاکرے۔حوالہ
عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ :كَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يَدْعُوَ فِي الْمَكْتُوبَةِ بِدُعَاءِ الْقُرْآنِ.(مصنف ابن ابي شيبة مَنْ كَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يَدْعُوَ فِي الْفَرِيضَةِ بِمَا فِي الْقُرْآنِ ۲۹۸/۱)
جیسے یوں کہے:اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّك أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ۔
(بخاری،بَاب الدُّعَاءِ قَبْلَ السَّلَامِ:۷۹۰)
یا یوں کہے:رَبَّنَااٰتِنَافِیْ الدُّنْیَاحَسَنَۃً وَّفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَاعَذَابَ النَّارْ
ترجمہ:اے اللہ ہمیں دنیا میں بہلائی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے۔
پھر دائیں اور بائیں جانب اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہُ کہتے ہوئے سلام پھیرے اور دونوں سلام میں اپنے ساتھ نمازیوں اور نیک جنات اور فرشتوں کی نیت کرے اور اگر نماز تین رکعت والی ہو تو قعدۂ اولی میں تشہد پر کچھ زیادہ نہ کرے؛ بلکہ تشہد سے فارغ ہونے کے بعدتیسری رکعت کے لئے تکبیر کہتے ہوئے کھڑا ہو جائے۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ قَالَ شُعْبَةُ ثُمَّ حَرَّكَ سَعْدٌ شَفَتَيْهِ بِشَيْءٍ فَأَقُولُ حَتَّى يَقُومَ فَيَقُولُ حَتَّى يَقُومَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي مِقْدَارِ الْقُعُودِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ: ۳۳۴)
تیسری رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھے، اگر تین رکعت والی نماز جیسے مغرب کی نماز ہو اور چوتھی رکعت میں بھی اگر چار رکعت والی نماز ہو جیسے ظہر اور عصر کی نمازپھر رکوع اور سجدہ کرے جیسا کہ پہلے دو رکعتوں میں کیا تھا پھر بیٹھ جائے اور قعدۂ اخیرہ میں تشہد پڑھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔
جماعت کی نماز کی فضیلت
اللہ تعالی نے فرمایا:وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ(البقرة:۴۳) رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔حوالہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:صَلٰوۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلْ صَلٰوۃَ الْفَذّ لِسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً ۔ جماعت کی نماز تنہا نماز سے ستائیس درجہ بڑھی ہوئی ہے ۔
(بخاري بَاب فَضْلِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ۶۰۹)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی جماعت کے ساتھ نماز کی پابندی کی ہے ، حتی کہ آپ نے مرض الوفات میں بھی جماعت نہیں چھوڑی۔حوالہ
عَنْ الْأَسْوَدِ قَالَ كُنَّا عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَذَكَرْنَا الْمُوَاظَبَةَ عَلَى الصَّلَاةِ وَالتَّعْظِيمَ لَهَا قَالَتْ لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَأُذِّنَ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ وَأَعَادَ فَأَعَادُوا لَهُ فَأَعَادَ الثَّالِثَةَ فَقَالَ إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ كَأَنِّي أَنْظُرُ رِجْلَيْهِ تَخُطَّانِ مِنْ الْوَجَعِ فَأَرَادَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَكَانَكَ ثُمَّ أُتِيَ بِهِ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِهِ قِيلَ لِلْأَعْمَشِ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلَاتِهِ وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ بِرَأْسِهِ نَعَمْ (بخاري بَاب حَدِّ الْمَرِيضِ أَنْ يَشْهَدَ الْجَمَاعَةَ ۶۲۴)
مگر شاذو نادر ہی ایسا ہو ا ہے۔ اسی طرح صحابۂ کرام بھی جماعت کی پابندی کرتے تھے ، جماعت سے یا تو معذو ر یا ایسا منافق ہی پیچھے رہ جاتا جس کا نفاق ظاہر ہو چکا ہو، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:جماعت صحابہ كےبارے میں ہمارا یہ مشاہدہ تھا کی کوئی شخص نماز سے پیچھے نہیں رہتا سوائے ایسے منافق کے جس کا نفاق معلوم ہو چکا ہو یا مریض ؛ اگر چہ کہ مريض دو آدمیوں کے درمیان چل کر نماز کو آتا ، اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سنن ہدی سکھایا اور سنن ہدی میں سے اس مسجد میں نماز پڑھنا ہے جس میں اذان دی جاتی ہو۔حوالہ
عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْ الصَّلَاةِ إِلَّا مُنَافِقٌ قَدْ عُلِمَ نِفَاقُهُ أَوْ مَرِيضٌ إِنْ كَانَ الْمَرِيضُ لَيَمْشِي بَيْنَ رَجُلَيْنِ حَتَّى يَأْتِيَ الصَّلَاةَ وَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا سُنَنَ الْهُدَى وَإِنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى الصَّلَاةَ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُؤَذَّنُ فِيهِ(مسلم، بَاب صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى ۱۰۴۵)
عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا(بخاري بَاب اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ ۶۱۸)عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ(ابن ماجه بَاب الِاثْنَانِ جَمَاعَةٌ ۹۶۲)
عن ابن جريج قال… :ما الجمعة بأن يوتى أوجب بذلك منها إلا في الجماعة فكيف في الفطر ؟ قال عطاء :لا يتمان أربعا في جماعة ولا غيرها(مصنف عبد الرزاق باب وجوب صلاة الفطر والاضحى ۲۹۹/۳ )
جماعت کا حکم
مسئلہ:مردوں کے لئے پانچوں نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنا سنت موکدہ ہے جو قوت میں واجب کے مشابہ ہوتی ہے (یعنی یہ سنت واجب کے قریب قریب ہے)۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَلْقَى اللَّهَ غَدًا مسلما فَلْيُحَافِظْ عَلَى هَؤُلَاءِ الصَّلَوَاتِ حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ فَإِنَّ اللَّهَ شَرَعَ لِنَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَنَ الْهُدَى وَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى(مسلم، بَاب صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى ۱۰۴۶)
بغیر کسی عذر شرعی کے جماعت سے پیچھے رہ جانا جائز نہیں، جو شخص بغیر کسی عذر کے جماعت کے چھوڑنے کا عادی ہو جائے و ہ گنہ گا ر ہو گا۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ قَالُوا وَمَا الْعُذْرُ قَالَ خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى(ابوداود بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ۴۶۴)
مسئلہ: جمعہ اور عیدین کی نماز کے لئے جماعت شرط ہے ، بغیر جماعت کے جمعہ اور عیدین کی نماز صحیح نہیں ہوتی ۔حوالہ
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مسلم، فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً عَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَوْ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ مَرِيضٌ(ابوداود بَاب الْجُمُعَةِ لِلْمَمْلُوكِ وَالْمَرْأَةِ ۹۰۱)
عن عُرْوَة أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ وَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّى فَصَلَّوْا مَعَهُ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ فَلَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ (بخاري بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ۱۸۷۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کوآگے اس ڈر سے نہیں قائم فرمایا کہ کہیں یہ فرض نہ ہوجائے؛ جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا؛ پھرجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رحلت فرمانے کے بعد اس کے فرض ہوجانے کا خوف ختم ہوچکا تھا؛ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سے اس کوقائم فرمایا۔ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَقَامَ وَكَبَّرَ وَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ الخ(بخاري بَاب صَلَاةِ الْكُسُوفِ ۱۵۰۰ )
عَنْ مَالِك عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً (موطامالك بَاب مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ: ۲۳۳) مذکورہ اثر سے معلوم ہوا کہ جماعت کی نماز میں بیس رکعت تراویح کے بعد تین رکعات وتر بھی ہوا کرتی تھی۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَطَوُّعِهِ فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَيُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ وَيَدْخُلُ بَيْتِي فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ فِيهِنَّ الْوِتْرُ(مسلم، بَاب جَوَازِ النَّافِلَةِ قَائِمًا وَقَاعِدًا وَفِعْلِ بَعْضِ الرَّكْعَةِ قَائِمًا وَبَعْضِهَا قَاعِدًا ۱۲۰۱) چونکہ وتر میں جماعت کا ثبوت صرف رمضان میں ہے، رمضان کے علاوہ میں نہیں اور مذکورہ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول گھر میں تہجد کے بعد وتر پڑھنے کا بتلایا گیا؛ ظاہرسی بات ہے کہ یہ انفرادی طور پرحضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے؛ اس لیے فقہاءِ کرام نے اس کوباجماعت غیررمضان میں مکروہ قرار دیا۔
والنادر كالمعدوم (تيسير التحرير لمحمد أمين المعروف بأمير بادشاه فصل في بيان الاعتراضات الواردة على القياس: ۱۱۷/۴)7
عن عُرْوَة بْن الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ فَكَبَّرَ فَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَقَامَ كَمَا هُوَ ثُمَّ قَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً وَهِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهِيَ أَدْنَى مِنْ الرَّكْعَةِ الْأُولَى ثُمَّ سَجَدَ سُجُودًا طَوِيلًا ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ سَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ إِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ (بخاري بَاب هَلْ يَقُولُ كَسَفَتْ الشَّمْسُ أَوْ خَسَفَتْ الخ: ۹۸۹)
مسئلہ: فرض نمازوں کے علاوہ جن نمازوں کی جماعت کا ثبوت ہے اسی نماز میں جماعت کی اجازت ہے، اس کے علاوہ میں نہیں۔حوالہ
مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف نماز کی طرف متوجہ ہونے کا حکم فرمایا اور جماعت کا چاند گرہن میں ثبوت نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ رات کے وقت لوگوں کے جمع ہونے میں حرج ہے اور فتنے کا خوف ہوتا ہے، ان وجوہات کی بناء پر فقہاء کرام نے چاند گرہن میں جماعت کی نماز کومکروہ قرار دیا۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً قَالَ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ مِنْ حَصِيرٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى فِيهَا لَيَالِيَ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَلَمَّا عَلِمَ بِهِمْ جَعَلَ يَقْعُدُ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ قَدْ عَرَفْتُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلَاةِ صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ(بخاري بَاب صَلَاةِ اللَّيْلِ ۶۸۹) مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل نمازوں میں جماعت کوناپسند فرمایا؛ اس لیے فقہاء کرام نے مکروہ قرار دیا
ہاں ! اگر لوگ بغیر بلاوے اور اعلان کے اکھٹے ہو جائیں اور نفل کی جماعت بغیر اذان و اقامت کے کی جائے تو مکروہ نہیں ہے۔حوالہ
عن عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي فَإِذَا كَانَتْ الْأَمْطَارُ سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ بِهِمْ وَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَّكَ تَأْتِينِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى قَالَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَالَ عِتْبَانُ فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ ثُمَّ قَالَ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ قَالَ فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنْ الْبَيْتِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ فَقُمْنَا فَصَفَّنَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ الخ(بخاري بَاب الْمَسَاجِدِ فِي الْبُيُوتِ ۴۰۷)
مسئلہ:محلہ کی اس مسجد میں جس کا امام اور موذن ہو جماعت ثانیہ مکروہ ہے جب کہ محلہ والے اذان واقامت کے ساتھ نماز بھی پڑھ چکے ہوں ۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُم(بخاري بَاب وُجُوبِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ ۶۰۸)عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، عن أبيه :أن رسول الله صلى الله عليه وسلم « أقبل من نواحي المدينة يريد الصلاة ، فوجد الناس قد صلوا ، فمال إلى منزله ، فجمع أهله ، فصلى بهم » (المعجم الاوسط للطبراني باب العين من اسمه :عبدان۴۷۵۷)
بہر حال اگر پہلی ہیئت بدلی ہوئی ہو، بایں طور کہ دوسری جماعت کا امام پہلی جماعت کے امام کی جگہ کے علاوہ دوسری جگہ میں کھڑا ہو تو مکروہ نہیں۔حوالہ
عن الجعد أبي عثمان ، قال :« مر بنا أنس بن مالك رضي الله عنه ، في مسجد بني ثعلبة ، فقال :أصليتم ؟ ، قلنا :نعم وذلك في صلاة الصبح ، فأمر رجلا فأذن وأقام ، ثم صلى بأصحابه(المطالب العالية باب إعادة الصلاة لجماعة في المسجد ۵۱۹)
کس کیلئے جماعت مسنون ہے
جماعت اس شخص کے لئے جس میں مندرجہ ذیل شرائط پائےجائیں سنت موکدہ ہے،جو قوت میں واجب کے مشابہ ہے (یعنی اس کا درجہ واجب کے قریب ہے)۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قُلْتُ لِعَمْرَةَ أَوَمُنِعْنَ قَالَتْ نَعَمْ(بخاري بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالْغَلَسِ ۸۲۲) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِي بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَيْتِهَا (ابوداود بَاب التَّشْدِيدِ فِي ذَلِكَ ۴۸۳)
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ ۳۱۵/۱۶)
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ ۳۱۵/۱۶)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ قَالُوا وَمَا الْعُذْرُ قَالَ خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى(ابوداود بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ۴۶۴) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ(ابن ماجه بَاب التَّغْلِيظِ فِي التَّخَلُّفِ عَنْ الْجَمَاعَةِ ۷۸۵)
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مسلم، فِي جَمَاعَةٍ إِلَّاأَرْبَعَةً عَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَوْامْرَأَةٌ أَوْصَبِيٌّ أَوْمَرِيضٌ۔
(بوداؤد،الجمعۃ للمملوک والمراۃ، حدیث نمبر:۹۰۱)
مسئلہ: اگر عورت ، بچے ، پاگل ، معذور ، اور غلام جماعت سے نماز پڑھتے ہیں تو ان کی نماز صحیح ہوگی اور ان کو اس پر ثواب ملے گا۔حوالہ
عن أَبي هُرَيْرَةَ يَقُولُاقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةٌ مَعَ الْإِمَامِ أَفْضَلُ مِنْ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً يُصَلِّيهَا وَحْدَهُ (مسلم، بَاب فَضْلِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ وَبَيَانِ التَّشْدِيدِ فِي التَّخَلُّفِ عَنْهَا۱۰۳۷)عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ لَهُ فَأَكَلَ مِنْهُ ثُمَّ قَالَ قُومُوا فَلِأُصَلِّ لَكُمْ قَالَ أَنَسٌ فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا قَدْ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَفْتُ وَالْيَتِيمَ وَرَاءَهُ وَالْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ (بخاري بَاب الصَّلَاةِ عَلَى الْحَصِيرِ: ۳۶۷) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ أُمِّ سُلَيْمٍ فَقُمْتُ وَيَتِيمٌ خَلْفَهُ وَأُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا (بخاري بَاب صَلَاةِ النِّسَاءِ خَلْفَ الرِّجَالِ: ۸۲۴)
جماعت میں حاضری کب ساقط ہو تی ہے
مندرجہ ذیل اعذار میں سے جب کوئی عذر لاحق ہو جائے تو جماعت میں حاضری سا قط ہو جاتی ہے ۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ نَادَى بِالصَّلَاةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ وَمَطَرٍ فَقَالَ فِي آخِرِ نِدَائِهِ أَلَا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةٌ أَوْ ذَاتُ مَطَرٍ فِي السَّفَرِ أَنْ يَقُولَ أَلَا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ(بخاري بَاب الصَّلَاةِ فِي الرِّحَالِ فِي الْمَطَرِ ۱۱۲۶)
(۲) جب سخت سردی ہو،اور اندیشہ ہو کہ وہ اگر مسجد جائے گا تو بیمار ہو جائے گا یا اس کی بیماری میں اضافہ ہوگا۔حوالہ
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَذَّنَ بِالصَّلَاةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ ثُمَّ قَالَ أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ يَقُولُ أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ (بخاري بَاب الرُّخْصَةِ فِي الْمَطَرِ وَالْعِلَّةِ أَنْ يُصَلِّيَ فِي رَحْلِهِ۶۲۶)
أنَّه صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ :«إِذا ابتلت النِّعَال فَالصَّلَاة فِي الرّحال»(البدر المنير بَاب صَلَاة التَّطَوُّع الحَدِيث الْخَامِس عشر۴۱۹/۴ )
إذا كانت ليلةٌ مطيرةٌ أو مظلمةٌ فصلُّوا فى الرِّحالِ (جمع الجوامع ۳۰۵۸/۱)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ رِيحٍ وَبَرْدٍ فِي سَفَرٍ أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَذَّنَ ثُمَّ قَالَ الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ(مسند احمد مسند عبد الله بن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما ۵۳۰۲) عن أبي الدرداء ، قال :« كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كانت ليلة ريح شديدة كان مفزعه إلى المسجد حتى يسكن الريح(مسند الشميين ما انتهى إلينا من مسند عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ۵۵۴)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ قَالُوا وَمَا الْعُذْرُ قَالَ خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى(ابوداود بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ۴۶۴)
(۷) جب کہ وہ اندھا ہو۔عن عِتْبَانَ بْن مَالِكٍ كَانَ يَؤُمُّ قَوْمَهُ وَهُوَ أَعْمَى وَأَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا تَكُونُ الظُّلْمَةُ وَالسَّيْلُ وَأَنَا رَجُلٌ ضَرِيرُ الْبَصَرِ فَصَلِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي بَيْتِي مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلَّى فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فَأَشَارَ إِلَى مَكَانٍ مِنْ الْبَيْتِ فَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(بخاري بَاب الرُّخْصَةِ فِي الْمَطَرِ وَالْعِلَّةِ أَنْ يُصَلِّيَ فِي رَحْلِهِ ۶۲۷)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ(ابن ماجه بَاب التَّغْلِيظِ فِي التَّخَلُّفِ عَنْ الْجَمَاعَةِ ۷۸۵)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ(ابن ماجه بَاب التَّغْلِيظِ فِي التَّخَلُّفِ عَنْ الْجَمَاعَةِ ۷۸۵)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ قَالَ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَأَخَذَ بِيَدِ رَجُلٍ فَقَدَّمَهُ وَكَانَ إِمَامَ قَوْمِهِ وَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ وَوَجَدَ أَحَدُكُمْ الْخَلَاءَ فَلْيَبْدَأْ بِالْخَلَاءِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ وَوَجَدَ أَحَدُكُمْ الْخَلَاءَ فَلْيَبْدَأْ بِالْخَلَاءِ ۱۳۲)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ(ابن ماجه بَاب التَّغْلِيظِ فِي التَّخَلُّفِ عَنْ الْجَمَاعَةِ ۷۸۵)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ قَالُوا وَمَا الْعُذْرُ قَالَ خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى(ابوداود بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ۴۶۴)
(۱۳) جب اس کو کوئی ایسی بیماری ہو جائے کہ وہ اس بیماری کی وجہ سے چل نہ سکتا ہو جیسے شل ہو جائے ۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ قَالُوا وَمَا الْعُذْرُ قَالَ خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى(ابوداود بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ۴۶۴)
عن عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا وُضِعَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ(بخاري بَاب إِذَا حَضَرَ الطَّعَامُ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ ۶۳۱)`
وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ مِنْ فِقْهِ الْمَرْءِ إِقْبَالُهُ عَلَى حَاجَتِهِ حَتَّى يُقْبِلَ عَلَى صَلَاتِهِ وَقَلْبُهُ فَارِغٌ(بخاري بَاب إِذَا حَضَرَ الطَّعَامُ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ ۶۷/۳)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ قَالُوا وَمَا الْعُذْرُ قَالَ خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى(ابوداود بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ۴۶۴)
(۱۷) جب اسے یہ اندیشہ ہو کہ اگر وہ جماعت میں مشغول ہو جائے گا تو ٹرین چل پڑے گی یا ہوائی جہاز (فلائٹ) چھوٹ جائے گا۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ قَالُوا وَمَا الْعُذْرُ قَالَ خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى(ابوداود بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ۴۶۴)
امامت کے صحیح ہونے کی شرطیں
امامت کی صحت کے لئےامام میں مندرجہ ذیل چیزوں کا پایا جانا شرط ہے ۔
عن عبد الرحمن بن يزيد ، أن عبد الله بن مسعود ، كان إذا رأى النساء قال :أخروهن حيث جعلهن الله (صحيح ابن خزيمة باب ذكر بعض أحداث نساء بني إسرائيل الذي من أجله منعن المساجد ۱۶۰۶)
(۲) مسلمان ہو، کافر کی امامت کسی حال میں صحیح نہیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ :لاَ يَؤُمُّ الْغُلاَمُ حَتَّى يَحْتَلِمَ (السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ لَمْ يَرَ الْجُمُعَةَ تُجْزِئُ خَلْفَ الْغُلاَمِ لَمْ يَحْتَلِمْ ۶۰۶۹)
علي بن أبي طالب لا تقدموا سفهاءكم وصبيانكم في صلاتكم ولا على جنائزكم فإنهم وفدكم إلى الله عز وجل (مسند الفردوس للديلمي۴۸۴/۱)
(۵) نماز کے صحیح ہونے کیلئے ضروری قرأت پر قادر ہو ، لہذا اس ان پڑھ کی امامت جو نماز میں پڑھی جانے والی مقدار قرأت پر قادر نہ ہو صحیح نہیں ۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللَّهُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ: ۱۹۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ امام مقتدی کا ضامن ہوتا ہے اور قرأت نماز کا اہم رکن ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور امام مقتدی کی قرأت کا بھی ضامن ہوتا ہے، جب وہ قرأت پرقادر نہ ہوگا توضامن کیسے بنے گا؛ اس لیے فقہاء کرام نے اس کی امامت کوغیردرست قرار دیا ہے۔
( وَلَا ) يُصَلِّي ( الْقَارِئُ خَلْفَ الْأُمِّيِّ وَلَا الْمُكْتَسِي خَلْفَ الْعَارِي ) لِقُوَّةِ حَالِهِمَا . (الهداية: ۵۶/۱)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلَاةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ(بخاري بَاب فِي الصَّلَاةِ ۶۴۴۰)عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى ابْنِ عَامِرٍ يَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ فَقَالَ أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لِي يَا ابْنَ عُمَرَ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ (مسلم بَاب وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ: ۳۲۹) يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ(الاعراف :۳۱) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْحَائِضِ إِلَّا بِخِمَارٍ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْمَرْأَةِ إِلَّا بِخِمَارٍ۳۴۴) مذکورہ نصوص سے معلوم ہوا کہ طہارت اور سترعورت کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور جب امام ان دونوں سے خالی ہوگا تواس کی نماز نہ ہونے کی وجہ سے مقتدیوں کی بھی نماز نہ ہوگی؛ اس لیے کہ وہ ان کا ضامن ہوتا ہے اور اس کے علاوہ جتنے شرائط ہیں نماز کی صحت ان پرموقوف ہوتی ہیں؛ اسی وجہ سے فقہاء کرام نے بتلایا کہ امامت کے صحیح ہونے کے لیے نماز کے شرائط میں سے کوئی شرط مفقود نہ ہو۔
وَلَا يَصِحُّ اقْتِدَاءُ الصَّحِيحِ بِصَاحِبِ الْعُذْرِ الدَّائِمِ ؛ لِأَنَّ تَحْرِيمَةَ الْإِمَامِ مَا انْعَقَدَتْ لِلصَّلَاةِ مَعَ انْقِطَاعِ الدَّم فَلَا يَجُوزُ الْبِنَاءُ ، (بدائع الصنائع فصل شرائط اركان الصلاة۵۴/۲)
(۸) زبان اس قدر درست ہو کہ حروف کو بعینہٖ ادا کرسکتا ہو(لہذا ایسے شخص کی امامت جو راء کو غین سے یا لام سے یا سین کو ث سے بدل دے ، اس شخص کے حق میں درست نہیں جو ان حروف کی ادائیگی پر قادر ہو)۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللَّهُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ: ۱۹۱) امام ضامن ہوتا ہے اس لیے کم ازکم امام مقتدی کے مماثل ہو۔ أن يكون الإمام صحيح اللسان، بحيث ينطق بالحروف على وجهها، فلا تصح إمامة الألثغ وهو من يبدل الراء غيناً، أو السين ثاء، أو الذال زاياً، لعدم المساواة، إلا إذا كان المقتدي مثله في الحال. (الفقه الاسلامي وادلته شروط صحة الإمامة أو الجماعة: ۳۴۶/۲)
امامت کے لئے آگے بڑھنے کا حق کس کو ہے ؟
عن أَبي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَكْبَرُهُمْ سِنًّا وَلَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ مَنْ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ ۲۱۸)
مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کے حقدار حضرات کوبتلاتے ہوئے فرمایا: اپنے بادشاہ کی موجودگی میں کوئی امامت نہ كرے: وَلَایوم الرجل فی سلطانہ اس سے معلوم ہوا کہ امامت کا زیادہ حقدار بادشاہ ہوا کرتا ہے۔
مسئلہ: مسجد کا تنخواہ یافتہ امام اسی مسجد میں خاص طور سے امامت کا زیادہ حقدار ہے، اگر جماعت کسی کے گھر میں کی جارہی ہو تو گھر والا امامت کا مستحق ہے اگر وہ امامت کی صلاحیت رکھتا ہو۔حوالہ
عن أَبي عَطِيَّةَ مَوْلًى مِنَّا قَالَ كَانَ مَالِكُ بْنُ حُوَيْرِثٍ يَأْتِينَا إِلَى مُصَلَّانَا هَذَا فَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَقُلْنَا لَهُ تَقَدَّمْ فَصَلِّهْ فَقَالَ لَنَا قَدِّمُوا رَجُلًا مِنْكُمْ يُصَلِّي بِكُمْ وَسَأُحَدِّثُكُمْ لِمَ لَا أُصَلِّي بِكُمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلَا يَؤُمَّهُمْ وَلْيَؤُمَّهُمْ رَجُلٌ مِنْهُمْ(ابوداود بَاب إِمَامَةِ الزَّائِرِ ۵۰۴)
مسئلہ:اگر حاضر باش لوگوں میں بادشاہ یا اس کا نائب یا مسجد کا تنخواہ یافتہ امام ، یا گھر والا نہ ہو تو لوگوں کی امامت کا وہ شخص زیادہ مستحق ہوگا جو نماز کی صحت اور فساد کے احکام کو جاننے والا ہو، پھر وہ شخص جو حافظ قرآن ہونے کے ساتھ نماز کے احکام کو جاننے والا ہو، پھرمتقی پرہیز گار، پھر عمر رسیدہ ، اگر وہ سب برابر ہو ں تو لوگوں کا منتخب کردہ امام نماز پڑھائے،
مسئلہ:اگر لوگوں میں امام کے سلسلہ میں اختلاف ہو جائے تو اکثر لوگوں کا منتخب کردہ امام نماز پڑھائے گا۔
وہ اشخاص جن کی امامت مکروہ قرار دی گئی
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم « إِنْ سَرَّكُمْ أَنْ تُزَكُّوا صَلاَتَكُمْ فَقَدِّمُوا خِيَارَكُمْ ». (دار قطني باب صِفَةُ مَا يَقُولُ الْمُصَلِّى عِنْدَ رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ. ۱۳۲۸)عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خِيَارُكُمْ وَخِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَشِرَارُكُمْ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ قَالَ لَا مَا صَلَّوْا لَكُمْ الْخَمْسَ أَلَا وَمَنْ عَلَيْهِ وَالٍ فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعَاصِي اللَّهِ فَلْيَكْرَهْ مَا أَتَى وَلَا تَنْزِعُوا يَدًا مِنْ طَاعَتِهِ(مسند احمد حديث عوف بن مالك الأشجعي الأنصاري رضي الله عنه ۲۴۰۴۵) عن مرثد بن أبي مرثد الغنوي وكان بدريا قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :« إن سركم أن تقبل صلاتكم فليؤمكم خياركم ، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم عز وجل »(المستدرك للحاكم ذكر مناقب مرثد بن أبي مرثد الغنوي ۳۲۶/۱۱) عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم رجلا يصلي بالناس الظهر فتفل في القبلة وهو يصلي للناس فلما كانت صلاة العصر أرسل إلى آخر فأشفق الرجل الأول فجاء إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال يا رسول الله أأنزل في شيء قال لا ولكنك تفلت بين يديك وأنت قائم تؤم الناس فآذيت الله والملائكة (الترغيب والترهيب ۱۲۶/۱)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَى اللَّهُ أَنْ يَقْبَلَ عَمَلَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ حَتَّى يَدَعَ بِدْعَتَهُ(ابن ماجه بَاب اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ ۴۹) عَنْ عَلِىٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم « مِنْ أَصْلِ الدِّينِ الصَّلاَةُ خَلْفَ كُلِّ بَرٍّ وَفَاجِرٍ وَالْجِهَادُ مَعَ كُلِّ أَمِيرٍ وَلَكَ أَجْرُكَ وَالصَّلاَةُ عَلَى كُلِّ مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِ الْقِبْلَةِ »(دار قطني باب صِفَةِ مَنْ تَجُوزُ الصَّلاَةُ مَعَهُ وَالصَّلاَةُ عَلَيْهِ ۱۷۸۵)
عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، أَنَّهُ قَالَ :الأَعْمَى لاَ يَؤُمُّ.)مصنف ابن ابي شيبة مَنْ كَرِهَ إِمَامَةَ الأَعْمَى.۲۱۵/۲) عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ كَانَ يَؤُمُّ قَوْمَهُ وَهُوَ أَعْمَى)بخاري بَاب الرُّخْصَةِ فِي الْمَطَرِ وَالْعِلَّةِ أَنْ يُصَلِّيَ فِي رَحْلِهِ ۶۲۷)
ابن عمر من أم قوما وفيهم من أقرأ للقرآن منه وافقه لم يزل في سفال إلى يوم القيامة(مسند الفردوس للديلمي ۳۹۱/۱) إن سركم أن تقبل صلاتكم فليؤمكم علماؤكم فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم(جمع الجوامع ۵۸۴۱/۱)
عن أَنَس بْن مَالِكٍ يَقُولُ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةً رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ وَرَجُلٌ سَمِعَ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ثُمَّ لَمْ يُجِبْ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ ۳۲۶)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ فِيهِمْ السَّقِيمَ وَالضَّعِيفَ وَالْكَبِيرَ فَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ(نسائي مَا عَلَى الْإِمَامِ مِنْ التَّخْفِيفِ ۸۱۴(
(۷) صرف تنہا عورتوں کی جماعت مکروہ ہے ، اگر وہ جماعت سے نماز پڑھتی ہیں تو ان کی امام درمیان میں کھڑی ہوگی۔حوالہ
عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم :« لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ أَذَانٌ وَلاَ إِقَامَةٌ وَلاَ جُمُعَةٌ ، وَلاَ اغْتِسَالُ جُمُعَةٍ وَلاَ تَقَدَّمَهُنَّ امْرَأَةٌ وَلَكِنْ تَقُومُ فِى وَسَطِهِنَّ ». (السنن الكبري للبيهقي باب لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ أَذَانٌ وَلاَ إِقَامَةٌ. ۱۹۹۷)
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قُلْتُ لِعَمْرَةَ أَوَمُنِعْنَ قَالَتْ نَعَمْ(بخاري باب خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالْغَلَسِ۸۲۲)
مقتدی کے کھڑے ہونے کی جگہ اور صفوں کی ترتیب
مسئلہ:اگر امام کے ساتھ کوئی شخص مرد یا باتمیز بچہ ہو تو وہ امام سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگا۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ فَقُمْتُ أُصَلِّي مَعَهُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِرَأْسِي فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ(بخاري باب إِذَا لَمْ يَنْوِ الْإِمَامُ أَنْ يَؤُمَّ ثُمَّ جَاءَ قَوْمٌ فَأَمَّهُمْ ۶۵۸)
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كُنَّا ثَلَاثَةً أَنْ يَتَقَدَّمَنَا أَحَدُنَا(ترمذي اب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي مَعَ الرَّجُلَيْنِ ۲۱۶)
اسی طرح امام کے ساتھ ایک مرد اور بچہ ہو تو وہ دونوں اس کے پیچھے کھڑے ہوں گے ۔حوالہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ فَأَكَلَ مِنْهُ ثُمَّ قَالَ قُومُوا فَأُصَلِّيَ لَكُمْ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا قَدْ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ فَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَفْتُ أَنَا وَالْيَتِيمُ وَرَاءَهُ وَالْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ(مسلم، اب جَوَازِ الْجَمَاعَةِ فِي النَّافِلَةِ وَالصَّلَاةِ عَلَى حَصِيرٍ وَخُمْرَةٍ وَثَوْبٍ وَغَيْرِهَا مِنْ الطَّاهِرَاتِ ۱۰۵۳)
مسئلہ:اگر مرد، عورتیں، بچے اور مخنث اکھٹے ہو جائیں تو پہلے مردوں کی صف، پھر بچوں کی پھر مخنثوں پھر عورتوں کی صف بنائی جائے گی۔حوالہ
عن أَبي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيّ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَصَفَّ الرِّجَالَ وَصَفَّ خَلْفَهُمْ الْغِلْمَانَ ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ فَذَكَرَ صَلَاتَهُ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا صَلَاةُ قَالَ عَبْدُ الْأَعْلَى لَا أَحْسَبُهُ إِلَّا قَالَ صَلَاةُ أُمَّتِي(ابوداود باب مَقَامِ الصِّبْيَانِ مِنْ الصَّفِّ۵۷۹)عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ فِي بَيْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا(بخاري باب الْمَرْأَةُ وَحْدَهَا تَكُونُ صَفًّا ۶۸۵)
مسئلہ:لوگوں میں افضل اور بہتر شخص پہلی صف میں کھڑا ہو؛ تاکہ امام کو حدث لاحق ہونے کی صورت میں وہ امامت کرسکے۔حوالہ
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ مَنَاكِبَنَا فِي الصَّلَاةِ وَيَقُولُ اسْتَوُوا وَلَا تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ لِيَلِنِي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ(مسلم، بَاب تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ وَإِقَامَتِهَا وَفَضْلِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ مِنْهَا ۶۵۴)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ فَأَكَلَ مِنْهُ ثُمَّ قَالَ قُومُوا فَأُصَلِّيَ لَكُمْ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا قَدْ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ فَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَفْتُ أَنَا وَالْيَتِيمُ وَرَاءَهُ وَالْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ(مسلم، اب جَوَازِ الْجَمَاعَةِ فِي النَّافِلَةِ وَالصَّلَاةِ عَلَى حَصِيرٍ وَخُمْرَةٍ وَثَوْبٍ وَغَيْرِهَا مِنْ الطَّاهِرَاتِ ۱۰۵۳)
اور اگر بچے زیادہ ہو جائیں تو مردوں کے پیچھے ان کی صف بنائی جائے گی ، ان کو شامل کر کے بڑوں کی صفیں مکمل نہ کی جائیں۔حوالہ
عن أَبي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيّ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَصَفَّ الرِّجَالَ وَصَفَّ خَلْفَهُمْ الْغِلْمَانَ ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ فَذَكَرَ صَلَاتَهُ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا صَلَاةُ قَالَ عَبْدُ الْأَعْلَى لَا أَحْسَبُهُ إِلَّا قَالَ صَلَاةُ أُمَّتِي(ابوداود باب مَقَامِ الصِّبْيَانِ مِنْ الصَّفِّ۵۷۹)
مسئلہ:اگر کوئی نماز کیلئے آئے اور امام کو رکوع کی حالت میں پائے ، اگر صفوں میں کشادگی ہو تو صف کے باہر تکبیر تحریمہ نہ کہے، بلکہ صف میں کھڑا ہو جائے اور وہاں تکبیر تحریمہ کہے، اگر چہ اس کی رکعت ہی کیوں نہ چھوٹ جائے ۔حوالہ
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَاكِعٌ فَرَكَعَ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إِلَى الصَّفِّ فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ (بخاري باب إِذَا رَكَعَ دُونَ الصَّفِّ ۷۴۱)
اقتداء صحیح ہونے کی شرطیں
مندرجہ ذیل شرطوں کی وجہ سے اقتداء صحیح ہوتی ہے
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ … قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا(بخاري بَاب وُجُوبِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ ۶۴۷) عن أَبي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ أَوْ لَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ (بخاري بَاب إِثْمِ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ: ۶۵۰) عَنْ أَنَسٍ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي إِمَامُكُمْ فَلَا تَسْبِقُونِي بِالرُّكُوعِ وَلَا بِالسُّجُودِ وَلَا بِالْقِيَامِ وَلَا بِالِانْصِرَافِ فَإِنِّي أَرَاكُمْ أَمَامِي وَمِنْ خَلْفِي (مسلم بَاب تَحْرِيمِ سَبْقِ الْإِمَامِ بِرُكُوعٍ أَوْ سُجُودٍ وَنَحْوَهُمَا: ۶۴۶)
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ شَاكٍ فَصَلَّى جَالِسًا وَصَلَّى وَرَاءَهُ قَوْمٌ قِيَامًا فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ اجْلِسُوا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا (بخاري بَاب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ الخ: ۶۴۷) مذکورہ روایت میں انما جعل الامام لیؤتم بہ کے ذریعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ امام کی پیروی ضروری ہے، امام ہے ہی اس لیے کہ اس کی اتباع (پیروی) کی جائے اوراتباع اسی وقت ہوسکے گی جب کہ وہ مقتدی سے آگے ہو؛ اگروہ پیچھے چلاجائے تومقتدی پرامام کی حالت مشتبہ ہوجائے گی؛ پھروہ اتباع نہیں کرسکےگا،نيز وہ آگے بڑھ کر امام کی حیثیت کوگھٹادیگا؛ اس لیے فقہاء کرام نے مذکورہ حدیث کے علاوہ بہت ساری احادیث کے پیشِ نظر بطورِ احتیاط اقتداء کے لیے یہ شرط لگادی کہ امام مقتدی سے کم از کم اس كی ایڑیوں سے آگے بڑھا ہوا ہونا چاہیے؛ اگرایسا نہ ہوتومقتدی کے آگے بڑھ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
(۳)امام مقتدی سے کمتر حالت میں نہ ہو، اگر امام نفل پڑھ رہا ہو اور مقتدی فرض پڑھ رہا ہو تو اقتداء صحیح نہیں ہوگی ،لیکن اگر امام فرض نماز پڑھ رہا ہو اور مقتدی نفل نماز پڑھ رہا ہوتو اقتداء صحیح ہوگی۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللَّهُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ ۱۹۱)وفيه دلالة علي فساد صلاة المفترض خلف المتنفل وتقرير الدلالة ماذكره العزيزي عن العلقمي ان حقيقة الضمان في اللغة والشرعية هو الالتزام وياتي بمعني الوعاء لان كل شئ جعلته في شئ فقد ضمنته اياه فاذا عرف معني الضمان فان الضمان الامام لصلاة الماموم هو التزام شروطها وحفظ صلاته في نفسه لان صلاة الماموم تبني عليها فان افسد صلاته فسدت صلاة من ائتم به فكان غارما لها وان قلنا بمعني الوعاء فقد دخلت صلاة الماموم في صلاة الامام لتحمل القراءة عنه والقيام الي حين الركوع اي في حق المسبوق والسهو ولذلك لم تجز صلاة المفترض خلف المتنفل لان ضمان الواجب بما ليس واجبا محال (اعلاء السنن جواز النافلة خلف المفترض وعدم جواز عكسه ۲۸۸/۴)
(۴) امام اور مقتدی ایک ہی وقت کی فرض پڑھ رہے ہوں، لہذا اگر امام مثلا ظہر پڑھ رہا ہو اور مقتدی عصر پڑھ رہا ہو یا اس کے بر عکس ہو تو اقتداء صحیح نہیں ہوگی ۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ(بخاري بَاب إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ۶۸۰) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللَّهُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ ۱۹۱)
عن إبراهيم ، أنه قال :« من كان بينه وبين الإمام طريق أو امرأة أو نهر أو بناء أو امرأة ، فليس معه »(الاثار لابي يوسف باب صلاة العيدين في الأضحى ۳۲۹/۱)
عن إبراهيم ، أنه قال :« من كان بينه وبين الإمام طريق أو امرأة أو نهر أو بناء أو امرأة ، فليس معه »(الاثار لابي يوسف باب صلاة العيدين في الأضحى ۳۲۹/۱)
(۷)امام اور مقتدی کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہوں جس کی وجہ سے امام کا ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونا مخفی ہو جائے ۔حوالہ
عَنْ نُعَيْمٍ ، قَالَ :قَالَ عُمَرُ :إِذَا كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الإِمَام طَرِيقٌ ، أَوْ نَهْرٌ ، أَوْ حَائِطٌ فَلَيْسَ مَعَهُ(مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ يُصَلِّي ، وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ الإِمَام حَائِطٌ۲۲۳/۲)۔
مسئلہ:اگر سننے یا دیکھنے کی وجہ سے امام کا ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونا مخفی نہ رہتا ہو تو اقتداء صحیح ہوگی۔حوالہ
عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ؛ فِي الْمَرْأَةِ تُصَلِّي وَبَيْنَهَا وَبَيْنَ الإِمَام حَائِطٌ ، قَالَ :إِذَا كَانَتْ تَسْمَعُ التَّكْبِيرَ أَجْزَأَهَا ذَلِكَ(مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ يُصَلِّي ، وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ الإِمَام حَائِطٌ۲۲۳/۲)
مسئلہ:وضو کئے ہوئے مقتدی کی نماز تیمم کرنے والے امام کے پیچھے صحیح ہے، پیروں کو دھونے والے کا موزوں پر مسح کرنے والے امام کے ساتھ اقتداء کرنا صحیح ہے ، کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرنا صحیح ہے، تندرست شخص کا کبڑ ے کی اقتداء کرنا صحیح ہے ۔حوالہ
عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ…وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ لَا يَتَأَخَّرَ قَالَ أَجْلِسَانِي إِلَى جَنْبِهِ فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهُوَ يَأْتَمُّ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ(بخاري بَاب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ۶۴۶) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ (بخاري بَاب إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلَاةِ: ۶۹۲)
مسئلہ: اشارے سے نماز پڑھنے والے کے لئے اشارہ سے نماز پڑھانے والے امام کی اقتداء کرنا صحیح ہے۔
مسئلہ: اگر کسی وجہ سے امام کی نماز فاسد ہو جائے تو مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی امام کے لئے نماز کا لوٹانا ضروری ہے ، وہ اپنی نماز کے فاسد ہونے کا اعلان کرے ، تاکہ مقتدی بھی اپنی نماز لوٹالیں۔ حوالہ
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُصَلِّي إِذْ انْصَرَفَ وَنَحْنُ قِيَامٌ ثُمَّ أَقْبَلَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ فَصَلَّى لَنَا الصَّلَاةَ ثُمَّ قَالَ إِنِّي ذَكَرْتُ أَنِّي كُنْتُ جُنُبًا حِينَ قُمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ لَمْ أَغْتَسِلْ فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ فِي بَطْنِهِ رِزًّا أَوْ كَانَ عَلَى مِثْلِ مَا كُنْتُ عَلَيْهِ فَلْيَنْصَرِفْ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ حَاجَتِهِ أَوْ غُسْلِهِ ثُمَّ يَعُودُ إِلَى صَلَاتِهِ (مسند احمد مسند علي بن أبي طالب رضي الله عنه: ۶۶۸) عَنْ إبْرَاهِيمَ ؛ أَنَّ عُمَرَ صَلَّى بِالنَّاسِ وَهُوَ جُنُبٌ فَأَعَادَ ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ لاَ يُعِيدُوا… عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : يُعِيدُ وَيُعِيدُونَ. (مصنف ابن ابي شيبة الرجل يصلي بِالْقَوْمِ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ: ۴۴/۲) عن أبي جعفر أن عليا صلى بالناس وهو جنب ، أو على غير وضوء ، فأعادوا وأمرهم أن يعيدوا (مصنف عبد الرزاق باب الرجل يؤم القوم وهو جنب أو على غير وضوء: ۳۵۱/۲) مذکورہ نصوص وااثار سے واضح ہوتا ہے کہ امام کی نماز فاسد ہوجائے تومقتدی کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔
مقتدی اپنے امام کی کب اقتدا ء کرے
مسئلہ:اگر امام مقتدی کے تشہد سے فارغ ہونے سے پہلے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے تو مقتدی قیام کی حالت میں امام کی متابعت نہ کرے گا، بلکہ تشہد کو پورا کرے گا پھر کھڑا ہو جائے گا۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا لَانَدْرِي مَانَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ..... فَقَالَ إِذَاقَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ فَقُولُوا التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ، الخ( نسائی، باب کیف التشھد الأول، حدیث نمبر:۱۱۵۱ )
مسئلہ: اگر امام مقتدی کے تشہد سے فارغ ہونے سے پہلے سلام پھیردے تو مقتدی امام کی پیروی نہ کرے گا بلکہ تشہد کو مکمل کرے گا پھر سلام پھیر ے گا۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا لَانَدْرِي مَانَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ..... فَقَالَ إِذَاقَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ فَقُولُوا التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ، الخ( نسائی، باب کیف التشھد الأول، حدیث نمبر:۱۱۵۱ )
وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي(بخاري بَاب الْأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً وَالْإِقَامَةِ وَكَذَلِكَ بِعَرَفَةَ ۵۹۵)
مسئلہ:اگر امام زائد رکعت کو سجدہ سے مقید کردے تو مقتدی علیحدہ طور پر سلام پھیرلے گا،
اگر امام قعدہ اخیرہ سے پہلے بھولے سے کھڑا ہو جائے تو مقتدی اسکی پیروی نہیں کرے گا،بلکہ اپنے امام کو متنبہ کرنے کے لئے تسبیح کہے گا اور اس کے قعدہ کی حالت میں لوٹنے کا انتظار کرے گا
مسئلہ:اور اگر مقتدی امام کے زائد رکعت کو سجدہ سے مقید کرنے سے پہلے سلام پھیردے تو اس کی فرض باطل ہو جائے گی۔حوالہ
وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي(بخاري بَاب الْأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً وَالْإِقَامَةِ وَكَذَلِكَ بِعَرَفَةَ ۵۹۵) عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِقُبَاءٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ فَخَرَجَ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ الصَّلَاة… فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا لَكُمْ حِينَ نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّلَاةِ أَخَذْتُمْ بِالتَّصْفِيحِ إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ (بخاري بَاب رَفْعِ الْأَيْدِي فِي الصَّلَاةِ لِأَمْرٍ يَنْزِلُ بِهِ ۱۱۴۲)
مسئلہ:اگر امام مقتدی کے تینوں تسبیح مکمل کرنے سے پہلے رکوع یا سجدہ سے سراٹھائے تو مقتدی اس کی پیروی کرے گا اور تسبیح کو چھوڑ دےگا۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ(بخاري بَاب إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ۶۸۰)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا فَصُرِعَ عَنْهُ فَجُحِشَ شِقُّهُ الْأَيْمَنُ فَصَلَّى صَلَاةً مِنْ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ قُعُودًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ(نسائي الِائْتِمَامُ بِالْإِمَامِ يُصَلِّي قَاعِدًا ۸۲۳)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ(بخاري بَاب إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ۶۸۰)
سترہ کے احکام
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیُصَلِّ اِلٰی سُتْرَۃٍ، وَلْیَدْنُ مِنْھَا۔ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترہ کے پاس نماز پڑھے اور اس کے قریب ہوجائے۔حوالہ
(ابوداود بَاب مَا يُؤْمَرُ الْمُصَلِّي أَنْ يَدْرَأَ عَنْ الْمَمَرِّ بَيْنَ يَدَيْهِ ۵۹۸)
سترہ : اس لکڑی یا اس جیسی چیز کو کہتے ہیں جس کو نماز ی اپنے سامنے رکھتا ہے تاکہ کسی کا گزرنا اس کی نماز میں خلل انداز نہ ہو۔حوالہ
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي فَقَالَ مِثْلُ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ (مسلم، بَاب سُتْرَةِ الْمُصَلِّي ۷۷۱)
مسئلہ: اگر امام ایسی جگہ ہو جہاں لوگوں کا گزرنا بکثرت ہوتا ہو تو اس کو اپنے سامنے سترہ بنالینا مستحب ہے ۔حوالہ
عَنْ طَلْحَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ(مسلم، بَاب سُتْرَةِ الْمُصَلِّي ۷۶۹)
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ هَبَطْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثَنِيَّةِ أَذَاخِرَ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ يَعْنِي فَصَلَّى إِلَى جِدَارٍ فَاتَّخَذَهُ قِبْلَةً وَنَحْنُ خَلْفَهُ فَجَاءَتْ بَهْمَةٌ تَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ فَمَا زَالَ يُدَارِئُهَا حَتَّى لَصَقَ بَطْنَهُ بِالْجِدَارِ وَمَرَّتْ مِنْ وَرَائِهِ أَوْ كَمَا قَالَ مُسَدَّدٌ(ابوداود بَاب سُتْرَةُ الْإِمَامِ سُتْرَةُ مَنْ خَلْفَهُ ۶۰۷)
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كَانَ بَيْنَ مُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الْجِدَارِ مَمَرُّ الشَّاةِ(بخاري بَاب قَدْرِ كَمْ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْمُصَلِّي وَالسُّتْرَةِ ۴۶۶)
مسئلہ: نمازی کا سترہ کے دائیں یا بائیں جانب کھڑا ہونا مستحب ہے ، سترہ کے بالکل سامنے نہ کھڑا ہوحوالہ
عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَى عُودٍ وَلَا عَمُودٍ وَلَا شَجَرَةٍ إِلَّا جَعَلَهُ عَلَى حَاجِبِهِ الْأَيْمَنِ أَوْ الْأَيْسَرِ وَلَا يَصْمُدُ لَهُ صَمْدًا (ابوداود بَاب إِذَا صَلَّى إِلَى سَارِيَةٍ أَوْ نَحْوِهَا أَيْنَ يَجْعَلُهَا مِنْهُ ۵۹۴)
مسئلہ:سترہ کا ایک ہاتھ یا اس سے لمبا ہونا شرط ہے ، سترہ کا ایک انگلی یا اس سے زیادہ موٹا ہونا شرط ہےے۔ حوالہ
عَنْ عَطَاءٍ قَالَ آخِرَةُ الرَّحْلِ ذِرَاعٌ فَمَا فَوْقَهُ (ابوداود بَاب مَا يَسْتُرُ الْمُصَلِّيَ ۵۸۸)
نمازی کے سامنے سے گزرنے کے احکام
مسئلہ: اگر نماز کسی بڑی مسجد میں یا کسی میدان میں پڑھی جارہی ہو تو نمازی کے سامنے سے اس کے پیروں کی جگہ سے لے کر اس کے سجدہ کی جگہ تک گزرنا جائز نہیں ہے ۔حوالہ
عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ قَالَ أَبُو النَّضْرِ لَا أَدْرِي قَالَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ شَهْرًا أَوْ سَنَةً(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْمُرُورِ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي ۳۰۸)عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَ مِنْ سُبُعِهِ جَاءَ حَاشِيَةَ الْمَطَافِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطَّوَّافِينَ أَحَدٌ (النسائي أَيْنَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْ الطَّوَافِ: ۲۹۱۰)
مسئلہ:اگر مسجد چھوٹی ہو یا چھوٹا گھر ہو تو نمازی کے سامنے سے اس کے پیروں کی جگہ سے لے کر قبلہ کی جانب والی ديوار تک گزرنا جائز نہیں۔حوالہ
عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ قَالَ أَبُو النَّضْرِ لَا أَدْرِي قَالَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ شَهْرًا أَوْ سَنَةً(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْمُرُورِ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي ۳۰۸)
مسئلہ:اسی طرح نمازی کا لوگوں کی گذرگاہ کے سامنے نماز پڑھنا جائز نہیں ، بایں طور کہ جہاں لوگوں کی آمدورفت بکثرت ہو وہاں بغیر سترہ کے نما زپڑھے۔حوالہ
اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیُصَلِّ اِلٰی سُتْرَۃٍ، وَلْیَدْنُ مِنْھَا(ابوداود بَاب مَا يُؤْمَرُ الْمُصَلِّي أَنْ يَدْرَأَ عَنْ الْمَمَرِّ بَيْنَ يَدَيْهِ ۵۹۸)
مسئلہ:اگر کوئی نمازی کے سامنے سے گزررہا ہوتو نمازی کا اشارہ یا تسبیح کے ذریعہسے اس کو روکنا جائز ہے ۔حوالہ
اسی طرح نمازی کا اپنی قرأت کی آواز بلند کر کے گزرنے والے کو روکنا جائز ہے۔حوالہ
عن أَبي صَالِحٍ السَّمَّان قَالَ رَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ يُصَلِّي إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ النَّاسِ… قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْهُ فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ(بخاري بَاب يَرُدُّ الْمُصَلِّي مَنْ مَرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ ۴۷۹)
نمازی کا گزرنے والے کو اپنے ہاتھوں سے روکنا مناسب نہیں۔
مسئلہ: عورت گزرنے والے کو اشارہ سے یا ہتھیلی بجا کر روکے،گزرنے والے کو روکنے کیلئے قرأت کی آواز بلند نہ کرے۔۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ(بخاري بَاب التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ ۱۱۲۸)
نماز توڑنا کب ضروری ہے اور کب جائز نہیں ہے
، وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد: ۳۳)
عن أَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَادَتْ امْرَأَةٌ ابْنَهَا وَهُوَ فِي صَوْمَعَةٍ قَالَتْ يَا جُرَيْجُ قَالَ اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي قَالَتْ يَا جُرَيْجُ قَالَ اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي قَالَتْ يَا جُرَيْجُ قَالَ اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي قَالَتْ اللَّهُمَّ لَا يَمُوتُ جُرَيْجٌ حَتَّى يَنْظُرَ فِي وُجُوهِ الْمَيَامِيسِ وَكَانَتْ تَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ رَاعِيَةٌ تَرْعَى الْغَنَمَ فَوَلَدَتْ فَقِيلَ لَهَا مِمَّنْ هَذَا الْوَلَدُ قَالَتْ مِنْ جُرَيْجٍ نَزَلَ مِنْ صَوْمَعَتِهِ قَالَ جُرَيْجٌ أَيْنَ هَذِهِ الَّتِي تَزْعُمُ أَنَّ وَلَدَهَا لِي قَالَ يَا بَابُوسُ مَنْ أَبُوكَ قَالَ رَاعِي الْغَنَمِ(بخاري بَاب إِذَا دَعَتْ الْأُمُّ وَلَدَهَا فِي الصَّلَاةِ ۴۰۴/۴)
مسئلہ: نمازی جب کوئی اندھے کو کنویں یا گڑھے کے قریب دیکھے اور اسے یہ اندیشہ ہو کہ اگر وہ رہنمائی نہ کرے گا تو کنویں یا گڑھے میں گرجائے گا تو نمازی کا اپنی نماز کا توڑنا ضروری ہے ۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ الْحَيَّةُ وَالْعَقْرَبُ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ فِي الصَّلَاةِ ۳۵۵(
مسئلہ: جب کوئی مظلوم شخص نمازی کو مدد کے لئے آواز دے اور وہ اس سے ظلم کے دور کرنے پر قادر بھی ہو تو نماز ی پر نماز کا توڑنا ضروری ہے ۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ الْحَيَّةُ وَالْعَقْرَبُ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ فِي الصَّلَاةِ ۳۵۵(
مسئلہ:نمازی جب کسی چور کو ایک درہم کے بقدر مال کو چوری کرتے ہوئے دیکھے خواہ مال اس کا ہو یا دوسروں کا اس کے لئے نماز کا توڑدینا جائز ہے ۔حوالہ
وَقَالَ قَتَادَةُ إِنْ أُخِذَ ثَوْبُهُ يَتْبَعُ السَّارِقَ وَيَدَعُ الصَّلَاةَ(بخاري بَاب إِذَا انْفَلَتَتْ الدَّابَّةُ فِي الصَّلَاةِ ۴۱۲/۴)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَعَلَ عُمَرُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ يَسُبُّ كُفَّارَهُمْ وَقَالَ مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتْ قَالَ فَنَزَلْنَا بُطْحَانَ فَصَلَّى بَعْدَ مَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ ( بخاري بَاب قَضَاءِ الصَّلَاةِ الْأُولَى فَالْأُولَى ۵۶۳)مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جان یامال کی حفاظت کے لیے نماز کومؤخر کیا جاسکتا؛ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
وتر کی نماز
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَلْوِتْرُحَقٌ، فَمَنْ لَّمْ یُوْ تِرْ فَلَیْسَ مِنَّا، وتر ایک حق ہے ، جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیںحوالہ
(ابوداود بَاب فِيمَنْ لَمْ يُوتِرْ ۱۲۰۹)
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ نَامَ عَنْ الْوِتْرِ أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ وَإِذَا اسْتَيْقَظَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَنَامُ عَنْ الْوِتْرِ أَوْ يَنْسَاهُ ۴۲۷)
، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ رَقَدَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَيْقَظَ فَتَسَوَّكَ وَتَوَضَّأ… ثُمَّ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ (مسلم، بَاب الدُّعَاءِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ وَقِيَامِهِ۱۲۸۰)عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يُسَلِّمُ فِي رَكْعَتَيْ الْوِتْرِ(نسائي بَاب كَيْفَ الْوِتْرُ بِثَلَاثٍ۱۶۸۰) عن عائشة ، قالت :« كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث لا يسلم إلا في آخرهن (المستدرك وأما حديث بكر بن وائل ۱۰۹۰)
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(بخاري بَاب إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ ۱۰۵۰)
عَنْ { ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ وَيُوتِرُ بِالْأَرْضِ ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ كَذَلِكَ (شرح معاني الاثار بَابُ الْوِتْرِ هَلْ يُصَلَّى فِي السَّفَرِ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَمْ لَا ۲۵۹/۲)عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ قَالَ كُنْتُ أَسِيرُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ فَقَالَ سَعِيدٌ فَلَمَّا خَشِيتُ الصُّبْحَ نَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ ثُمَّ لَحِقْتُهُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَيْنَ كُنْتَ فَقُلْتُ خَشِيتُ الصُّبْحَ فَنَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِسْوَةٌ حَسَنَةٌ فَقُلْتُ بَلَى وَاللَّهِ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ عَلَى الْبَعِيرِ(بخاري بَاب الْوِتْرِ عَلَى الدَّابَّةِ ۹۴۴)
عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ قَالَ سَأَلْنَا عَائِشَةَ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ ( ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِيمَا يُقْرَأُ بِهِ فِي الْوِتْر، حدیث نمبر:۴۲۵)۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا لَانَدْرِي مَانَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ..... فَقَالَ إِذَاقَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ فَقُولُوا التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ، الخ( نسائی، باب کیف التشھد الأول، حدیث نمبر:۱۱۵۱ )
مسئلہ: جب تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تونہ ثنا پڑھے اور نہ تعوذ پڑھے-
مسئلہ:جب تیسری رکعت میں سورت کی قرات سے فارغ ہو جائے تو اس وقت دونوں ہاتھوں کا کانوں کے برابر اٹھانا اور تکبیر کہنا ضروری ہے ، جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت کرتے ہیں۔حوالہ
عَنْ الأَسْوَدِ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ كَبَّرَ ثُمَّ قَنَتَ ، فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقُنُوتِ كَبَّرَ ثُمَّ رَكَعَ. …عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :ارْفَعْ يَدَيْك لِلْقُنُوتِ)مصنف ابن ابي شيبة فِي التَّكْبِيرِ لِلْقُنُوتِ ۳۰۷/۲)
پھر رکوع سے پہلے کھڑے کھڑے دعائے قنوت پڑھے۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْنُتُ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ (ترمذي كِتَاب الْعِلَلِ ۴۹۶/۱۲)
عن النخعي :أن ابن مسعود كان يقنت السنة كلها في الوتر (المعجم الكبير عبد الله بن مسعود الهذلي ۲۸۳/۹)
عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ. )مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ.۳۰۸/۲)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے منقول قنوت پڑھنا سنت ہے اور وہ یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیْکَ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَنَشْکُرُکَ وَلاَ نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکَ مَنْ یَّفْجُرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعَیٰ وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْرَحْمَتَکَ وَنَخْشَیٰ عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ۔
ترجمہ:اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے اور تجھ سے ہدایت طلب کرتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں اور تیرے سامنے توبہ کرتے ہیں اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری بہتر ثنا بیان کرتے ہیں اور تیرا شکر ادا کرتے ہیں ہم تیری ناشکری نہیں کرتے اور ہم الگ ہوتے ہیں اور چھوڑتے ہیں جو تیری نافرمانی کرتا ہے۔ اے اللہ ! ہم خاص تیری عبادت کرتے ہیں اور تیرے لئے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور ہم تیری بندگی کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، بیشک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔حوالہ
(مصنف ابن ابی شیبہ، مايدعو به الرجل في قنوت الوتر، جلد نمبر:۷/۱۱۴)
جو شخص اس منقول قنوت پڑھنے پر قادر نہ ہو تو وہ کہے:’’ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‘‘ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں قبر کے عذاب سے بچالے۔حوالہ
عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(بخاري بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً۵۹۱۰)
یا تین مرتبہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ کہے یا تین مرتبہ یَارَبِّ کہدے۔حوالہ
اگر نمازی قنوت پڑھنا بھول جائے اور اس کو رکوع کی حالت میں یاد آجائے تو رکوع میں قنوت نہ پڑھے اور نہ ہی قنوت پڑھنے کیلئے اٹھ کر کھڑا ہو ، بلکہ واجب کو بھولے سے چھوڑدینے کی وجہ سلام کے بعد سجدہ سہو کرے اسی طرح اگر اسے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یاد آجائے تو قنوت نہ پڑھے ، بلکہ سلام کے بعد سجدہ سہوکرلے،اگر رکوع سے اٹھنے کے بعد قنوت پڑھ لے تو رکوع کو نہ لوٹائے لیکن سجدہ سہو کرے ، اس لئے کہ اس نے قنوت کو اپنی جگہ سے مؤخر کیا ہے۔
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ :مَنْ نَسِىَ الْقُنُوتَ فِى الْوِتْرِ سَجَدَ سَجْدَتَىِ السَّهْوِ.(السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ نَسِىَ الْقُنُوتَ سَجَدَ لِلسَّهْوِ ۴۰۴۲)
مسئلہ:اگر امام مقتدی کے قنوت سے فارغ ہو نے سے پہلے رکوع کرے تو مقتدی اس کی پیروی نہ کرے بلکہ قنوت کو مکمل کرے پھر اس کے ساتھ رکوع میں شریک ہو جائے۔حوالہ
عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ. )مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ.۳۰۸/۲)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ(بخاري بَاب إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ۶۸۰)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ (بخاري بَاب إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلَاةِ: ۶۹۲) مذکورہ نصوص سے معلوم ہوا کہ امام کی متابعت ضروری ہے، اب اگروہ دعائے قنوت میں لگا رہے اور رکوع میں امام کے ساتھ نہ مل پائے تواس کا ایک رکن میں امام کی متابعت نہ کرنا پایا جائے گا پھر اس کی نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے اس صورت میں قنوت چھوڑ کرامام کی متابعت کرلے گا۔
مسئلہ: اگر امام دعائے قنوت چھوڑدے تو مقتدی کا اگر امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہونا ممکن ہو تو قنوت پڑھ لے۔حوالہ
عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ. )مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ. ۳۰۸/۲)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ(بخاري بَاب إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ۶۸۰) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ (بخاري بَاب إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلَاةِ: ۶۹۲) مذکورہ نصوص سے معلوم ہوا کہ امام کی متابعت ضروری ہے، اب اگروہ دعائے قنوت میں لگا رہے اور رکوع میں امام کے ساتھ نہ مل پائے تواس کا ایک رکن میں امام کی متابعت نہ کرنا پایا جائے گا پھر اس کی نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے اس صورت میں قنوت چھوڑ کرامام کی متابعت کرلے گا۔
مسئلہ:قنوت ، وتر کے علاوہ صرف مصائب کے وقت پڑھا جائے گا، حوادث و مصائب کے وقت پڑھا جانے والا قنوت صرف امام کے لئے رکوع سے سراٹھانے کے بعد مسنون ہے نہ کہ منفرد کے لئے ۔حوالہ
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَقَنَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصُّبْحِ قَالَ نَعَمْ فَقِيلَ لَهُ أَوَقَنَتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ قَالَ بَعْدَ الرُّكُوعِ يَسِيرًا(بخاري باب الْقُنُوتِ قَبْلَ الرُّكُوعِ وَبَعْدَهُ ۹۴۶)
امام کے لئے بہتر یہ ہے کہ مصائب میں درج ذیل قنوت کو پڑھے ، مزید اس میں سنت سے ثابت شدہ زیادتی کی جاسکتی ہے۔حوالہ
اَللّٰھُمَّ اھْدِنَا بِفَضْلِکَ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ ، وَعَافِنَا فِیْمَنْ عَافَیْتَ ، وَتَوَلَّنَا فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لَنَا فِیْمَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّمَا قَضَیْتَ ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلاَ یُقْضَیٰ عَلَیْکَ، وَاِنَّہٗ لاَ یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ ، وَلَا یَعِزُّمَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ ، وَصَلَّی اللُّہُ عَلَی سَیِّدِنَا مُحَمِّدٍ وَّالِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ ‘’(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ۴۲۶)
مسئلہ:اگر مسبوق اپنے امام کو تیسری رکعت کے رکوع میں پالے تو حکما قنوت پانے والا ہوگا ، لہذا وہ اپنی نماز مکمل کرنے کے لئے کھڑا ہوتے وقت قنوت نہیں پڑھے گا۔حوالہ
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ « مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلاَةِ فَقَدْ أَدْرَكَهَا قَبْلَ أَنْ يُقِيمَ الإِمَامُ صُلْبَهُ(دار قطنی باب مَنْ أَدْرَكَ الإِمَامَ قَبْلَ إِقَامَةِ صُلْبِهِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاَةَ.۱۳۲۹)
عَنْ مَالِك عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً (موطامالك بَاب مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ: ۲۳۳) مذکورہ اثر سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین رمضان میں جماعت کے ساتھ وترادا کیا کرتے تھے اور یہ حضرات امتِ محمدیہ میں سب سے زیادہ بہتر اور افضل پرعمل کرنے والے تھے؛ اس لیے فقہاء کرام نے رمضان میں وتر جماعت سے پڑھنے کوافضل قرار دیا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَطَوُّعِهِ فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَيُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ وَيَدْخُلُ بَيْتِي فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ فِيهِنَّ الْوِتْرُ(مسلم، بَاب جَوَازِ النَّافِلَةِ قَائِمًا وَقَاعِدًا وَفِعْلِ بَعْضِ الرَّكْعَةِ قَائِمًا وَبَعْضِهَا قَاعِدًا ۱۲۰۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وترگھر میں تنہا ادا فرماتے تھے؛ اس لیے غیررمضان میں وترباجماعت مکروہ قرار دی گئی۔
آداب مسجد کا بیان
مسجد کی تعریف
مسجد کے لغوی معنی:سجدہ کرنے کی جگہ ؛ چونکہ نماز کا اہم اورفضیلت کا حامل رکن سجدہ ہے اس لیے نماز پڑہنے کی جگہ کو بھی مسجد ہی کہا جاتاہے اورمسجد کے لیے یہ نام قرآن کریم میں بھی آیا ہے۔ حوالہ
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ (البقرۃ:۱۱۴) وَالْمَسْجِدُ بَيْتُ الصَّلَاةِ وَالْمَسْجِدُ أَيْضًا مَوْضِعُ السُّجُودِ مِنْ بَدَنِ الْإِنْسَانِ وَالْجَمْعُ مَسَاجِدُ(المصباح المنير ۱۶۰/۴)
امت محمد یہ کی خصوصیت
اس امت کی خصوصیات میں سےایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے لیے اس امت میں کسی خاص جگہ کو منتخب نہیں کیا بلکہ تمام روئے زمین کو مومن کی سجدہ گاہ اورعبادت کی جگہ بنایا ہے خواہ آبادی ہو یا جنگل ،صرف جگہ پاک ہونی چاہیے بہرحال ہر جگہ نماز ادا کی جاسکتی ہے لیکن پھر بھی جس جگہ مسلمان آباد ہوں اوران کا گھر بار ہو تو وہاں ایک ایسی جگہ ہونی چاہے جو اللہ کی عبادت کے لیے وقف ہو،وہ ہمیشہ پاک صاف رہے،جس کی برکت اورماحول بھی انسان کو عبادت کی طرف بلاتا ہو۔
اگرچہ مساجد کا بنیاد ی مقصد پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی اورجس علاقہ میں جمعہ کا قیام درست ہے وہاں جمعہ کی نماز کا قیام ہے اس کے علاوہ مسجد مسلمانوں کی اور بھی بہت سی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے وہ مسلمانوں کے لیے ہمہ مقصدی مرکز ہے،نماز،تلاوت قرآن، ذکر ،اعتکاف ،اصلاح ،دعوت وتبلیغ اورمسلمانوں کے باہمی نزاعات کو سلجھانے اورصحیح فیصلے کرنے کا نیز ان تمام کاموں کا جن کے ذریعہ امت کی اجتماعی شیرازہ بندی ہوسکتی ہو، اس لیے مساجد کو شعائر اللہ کا درجہ حاصل ہے اوراسی وجہ سے اللہ کے رسول ﷺ جب کوئی لشکر روانہ کرتے تو فرماتے: جب تم مسجد دیکھو یا مؤذن کی آواز سنو تو کسی کو قتل مت کرو۔ حوالہ
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فُضِّلْنَا عَلَى النَّاسِ بِثَلَاثٍ جُعِلَتْ صُفُوفُنَا كَصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ وَجُعِلَتْ لَنَا الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدًا وَجُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُورًا إِذَا لَمْ نَجِدْ الْمَاءَ وَذَكَرَ خَصْلَةً أُخْرَى(مسلم كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ ۸۱۱) عَنْ ابْنِ عِصَامٍ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَبِيهِ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ جَيْشًا أَوْ سَرِيَّةً يَقُولُ لَهُمْ إِذَا رَأَيْتُمْ مَسْجِدًا أَوْ سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا فَلَا تَقْتُلُوا أَحَدًا(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الدَّعْوَةِ قَبْلَ الْقِتَالِ ۱۴۶۹) فضل بناء المسجد وملازمته وانتظار الصلاة فيه ترجع إلى أنه من شعائر الإسلام ، وهو قوله صلى الله عليه وسلم : ' إذا رأيتم مسجدا ، أو سمعتم مؤذنا ، فلا تقتلوا أحدا، وأنه محل الصلاة معتكف العابدين ومطرح الرحمة ويشبه الكعبة من وجه الخ (حجة اللہ، المساجد ۴۰۶/۱ )
مسجد سےمتعلق احكام و آداب
(۱)کسی جگہ مسجد بن جانے کے لیے صرف صاحب زمین کا اتنا کہدینا کافی ہے کہ یہ جگہ مسجد کے لیے ہے،عمارت وغیرہ کا ہونا ضروری نہیں۔ حوالہ
عن أَنَس بْن مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا وَكَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ فَلَمَّا نَزَلَتْ{ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ }قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ فِي كِتَابِهِ{ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ }وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ شِئْتَ فَقَالَ بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَائِحٌ ذَلِكَ مَالٌ رَائِحٌ قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ فِيهَا وَأَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ قَالَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ(بخاري بَاب إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِوَكِيلِهِ ضَعْهُ ۲۱۵۰)قال الحنفية: ركن الوقف هي الصيغة، وهي الألفاظ الدالة على معنى الوقف، مثل أرضي هذه موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه من الألفاظ، مثل: موقوفة لله تعالى، أو على وجه الخير، أو البر، أو موقوفة فقط، عملاً بقول أبي يوسف، وبه يفتى للعرف(الفقه الاسلامي وادلته، ركن الوقف۲۹۵/۱۰)
(۲)جب ایک بار کوئی جگہ مسجد کے لیے وقف ہوگئی تو وہ نیچے تحت الثری تک اوراوپر آسمان تک مسجد ہی ہے اس لیے مسجد کا احترام حقیقت میں اسی وقت ہوگا جب کہ اس کے نیچے یا اوپر کوئی دوسری چیز مسجد کے علاوہ نہ ہو۔ حوالہ
( وَ ) كُرِهَ تَحْرِيمًا ( الْوَطْءُ فَوْقَهُ ، وَالْبَوْلُ وَالتَّغَوُّطُ ) لِأَنَّهُ مَسْجِدٌ إلَى عَنَانِ السَّمَاءِ(وفي الشامي) ( قَوْلُهُ إلَى عَنَانِ السَّمَاءِ ) بِفَتْحِ الْعَيْنِ ، وَكَذَا إلَى تَحْتِ الثَّرَى كَمَا فِي الْبِيرِيِّ عَنْ الْإِسْبِيجَابِيِّ (الدر المختار مع الرد [ فُرُوعٌ ] يُكْرَهُ اشْتِمَالُ الصَّمَّاءِالخ۷۵/۵)
(۳)ابتداءً مسجد بناتے وقت ہی یہ فیصلہ کردے کہ مسجد کے نچلے حصہ میں دوکان وغیرہ رہے گی اور اوپر کا حصہ مکمل مسجد ہوگا تو درست ہے، اور تعمیر کے بعد بھی پہلی منزل مسجد کے لیے اور دوسری منزل کسی اور کام کے لیے کردے اور دونوں کے راستے الگ الگ کردے تو بھی درست ہوجائے گا۔حوالہ
وَمَنْ بَنَى مَسْجِدًا لَمْ يَزُلْ مِلْكُهُ حَتَّى يُفْرِزَهُ عَنْ مِلْكِهِ بِطَرِيقِهِ وَيَأْذَنَ بِالصَّلَاةِ فِيهِ وَإِذَا صَلَّى فِيهِ وَاحِدٌ زَالَ مِلْكُهُ(البحر الرائق فَصْلٌ اخْتَصَّ الْمَسْجِدُ بِأَحْكَامٍ تُخَالِفُ أَحْكَامَ مُطْلَقِ الْوَقْفِ ۴۹۷/۱۴) وأخذ هذا القانون برأي الإمام أبي حنيفة وصاحبيه في عدم صحة وقف الحصة الشائعة لتكون مسجداً أو مقبرة إلا بعد إفرازها؛ لأن شيوعها يمنع خلوصها لله تعالى، ويجعلها عرضة لتغيير جهة الانتفاع بها، فتتحول إلى حانوت أو أرض مزروعة، ونحوها، وهو أمر مستنكر شرعاً. (الفقه الاسلامي وادلته شروط الموقوف: ۳۲۱/۱۰)۔
(۴)تعمیر مسجد میں حلال پیسے ہی استعمال کریں اس لیے کہ جو مال بھی مسجد میں استعمال ہوتا ہے وہ اللہ کے لیے ہوتا ہے اوراللہ پاک ہے اورپاکی کو پسند کرتا ہے۔ حوالہ
عن سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ جَوَادٌ يُحِبُّ الْجُودَ فَنَظِّفُوا أُرَاهُ قَالَ أَفْنِيَتَكُمْ وَلَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي النَّظَافَةِ ۲۷۲۳)
(۵)تعمیر مسجد وغیرہ میں کوئی غیر مسلم قرب ونیکی وغیرہ حاصل كرنےکےلیے پیسے وغیرہ دیتا ہو تو اس کا لینا درست ہے بشرطیکہ اس بات کا خطرہ نہ ہوکہ آئندہ چل کر وہ مسلمانوں سے مندر کی تعمیر کے لیے تعاون کا مطالبہ کریں گے اس لیے کہ مسلمان کے لیے غیر اسلامی عبادت گاہ کے لیے تعاون کرنا ناجائز ہے۔ حوالہ
شَرْطَ وَقْفِ الذِّمِّيِّ أَنْ يَكُونَ قُرْبَةً عِنْدَنَا وَعِنْدَهُمْ كَالْوَقْفِ عَلَى الْفُقَرَاءِ أَوْ عَلَى مَسْجِدِ الْقُدْسِ(رد المحتار، مطلب قديثبت الوقف بالضرورة، ۱۷۶/۱۷) وَأَمَّا الْإِسْلَامُ فَلَيْسَ مِنْ شَرْطِهِ فَصَحَّ وَقْفِ الذِّمِّيِّ بِشَرْطِ كَوْنِهِ قُرْبَةً عِنْدَنَا وَعِنْدَهُمْ(البحر الرائق شرائط الوقف ۲۶۰/۱۴) درء للمفاسد أولى من جلب للمصالح : فإذا تعارضت مفسدة ومصلحة قدم دفع المفسدة غالبا لأن اعتناء الشرع بالمنهيات أشد من اعتنائه بالمأمورات ولذا قال عليه السلام: إذا أمرتكم بشيء فأتوا منه ما استطعتم وإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه(الاشباه والنظائر ۱۱۳/۱) وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدة: ۲)
(۶)ناپاکی، جنابت اورحیض کی حالت میں مسجد میں آنا جائز نہیں ہے،البتہ احاطۂ مسجد میں دکان یا وضو خانہ،طہارت خانہ یا ایسی جگہ جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی وہ مسجد شرعی کے حکم میں نہیں ہے اس لیے ناپاکی کے حالت میں بھی وہاں جاسکتے ہیں۔ حوالہ
عن عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهُ بُيُوتِ أَصْحَابِهِ شَارِعَةٌ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ وَجِّهُوا هَذِهِ الْبُيُوتَ عَنْ الْمَسْجِدِ ثُمَّ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَصْنَعْ الْقَوْمُ شَيْئًا رَجَاءَ أَنْ تَنْزِلَ فِيهِمْ رُخْصَةٌ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ بَعْدُ فَقَالَ وَجِّهُوا هَذِهِ الْبُيُوتَ عَنْ الْمَسْجِدِ فَإِنِّي لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ(ابو داود بَاب فِي الْجُنُبِ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ ۲۰۱)
(۷)مسجد میں داخل ہوتے وقت اپناداہنا قدم ڈال کر درود شریف پڑھ کر اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ پڑھے اور نکلتے وقت بایاں قدم پہلے نکالیں اور درود شریف پڑھ کر اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَپڑھے۔ حوالہ
عن أَبي حُمَيْدٍ أَوْ أَبي أُسَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لِيَقُلْ اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ فَإِذَا خَرَجَ فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ۔
(ابو داود بَاب فِيمَا يَقُولُهُ الرَّجُلُ عِنْدَ دُخُولِهِ الْمَسْجِدَ ۳۹۳)
(۸)مسجد میں کوئی بدبودار چیز کھا کر داخل نہ ہو جیسے لہسن ،پیاز وغیرہ اورجاتے ہی بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے اور کوئی بھی ایسا عمل نہ کرے جو احترام مسجد کےخلاف ہو،کھانا پینا اور سونا وغیرہ اگر مجبوری ہے تو گنجائش ہوسکتی ہے۔ حوالہ
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ قَالَ أَوَّلَ يَوْمٍ الثُّومِ ثُمَّ قَالَ الثُّومِ وَالْبَصَلِ وَالْكُرَّاثِ فَلَا يَقْرَبْنَا فِي مَسَاجِدِنَا فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ الْإِنْسُ(نسائي باب مَنْ يُمْنَعُ مِنْ الْمَسْجِدِ ۷۰۰) عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ(بخاري بَاب إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ ۴۲۵)عن نَافِع قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَأَنَّهُ كَانَ يَنَامُ وَهُوَ شَابٌّ أَعْزَبُ لَا أَهْلَ لَهُ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،،، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ قَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ فَجَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ وَأَصَابَهُ تُرَابٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ قُمْ أَبَا تُرَابٍ قُمْ أَبَا تُرَابٍ(بخاري بَاب نَوْمِ الرِّجَالِ فِي الْمَسْجِدِ ۴۲۱،۴۲۲) الضرورات تبيح المحظورات(الاشباه والنظائر:۱۰۷/۱)
No comments:
Post a Comment