تعارفِ فقہ


تعارفِ فقہ
فقہ کی لغوی تعریف
فقہ کے لغوی معنی کسی بات کو جاننے اور سمجھنے کے ہیں، قرآن مجید میں کم سے کم دو موقعوں پر یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہواہے (النساء:۷۸۔  ھود:۹۱) اس مناسبت سے احکامِ شرعیہ کے علم کو بھی فقہ سے تعبیر کیا گیا۔
فقہ کی اصطلاحی تعریف
ابتداءً شریعت کے تمام احکام کے جاننے کو فقہ کہا جاتا تھا؛ خواہ عقائد ہوں یااخلاق اورعبادات ہوں یا معاملات؛ ليكن اب فقہ میں صرف عملی احکام باقی رہ گئے، جو محض اخلاقی حیثیت کے حامل نہیں؛ بلکہ قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لحاظ سے فقہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی:
"اَلْعِلْمُ بِالْأَحْکَامِ الشَّرْعِیَّۃِ عَنْ أَدِلَّتِھَا التَّفْصِیْلِیَّۃِ
(فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت:۱/۱۳)
تفصیلی دلائل سے شرعی احکام کو جاننے کا نام فقہ ہے۔
"شرعی احکام" سے مکلف کے افعال پر شریعت کی جانب سے جو حکم اور صفت مرتب ہوتی ہے وہ مراد ہے، جیسے کسی عمل کا فرض، واجب، مستحب یامباح یا اسی طرح حرام ومکروہ ہونا اور تفصیلی دلائل کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ کس دلیل شرعی پر مبنی ہے، کتاب اللہ پر، سنت رسول پر، اجماع پر، یا قیاس وغیرہ پر؛ اسی طرح حکم اور دلیل کے درمیان ارتباط کو جاننا بھی فقہ میں شامل ہے۔
ضرورت فقہ
انسان کی مکمل زندگی میں عقائد،عبادات،معاملات اور معاشرت وغیرہ سے متعلق شرعی احکام ومسائل ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ،قرآن،حدیث اور صحابہ وغیرہ کے اقوال میں بکھرے پڑے ہیں،اب ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں ہر مسئلہ بلاواسطہ قرآن،حدیث اورآثار صحابہ وغیرہ سے خود ہی تلاش کرلوں گا یہ ایک ناممکن اوربے حد دشوار ہے اس کے ناممکن ہونے کی وجوہات بہت ساری ہیں مثلاً:
(۱)انسان کی اپنی اپنی لامتناہی مصروفیات (۲)شریعت کے تمام احکام عربی زبان میں ہیں اور ہر انسان عربی زبان سے واقف نہیں ہوتا اور ہوتا بھی ہے تو اس کے معانی مختلف ہونے کی وجہ سے صحیح معنی تک اس کا پہنچنا دشورا ہوتا ہے (۳)شریعت کے بعض احکام ایسے  ہیں جو آیات قرآني اور احادیثِ صحیحہ سے صراحۃ ثابت ہیں لیکن بعض احکام ایسے ہیں کہ جن میں کسی قدر ابہام واجمال ہے اور بعض آیات واحادیث ایسی ہیں جو چند معانی کا احتمال رکھتی ہیں اورکچھ احکام ایسے ہیں جو بظاہر قرآن کی کسی دوسری آیت یا کسی دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتی تووہاں اجتہاد واستنباط سے کام لینا پڑتا ہے اور خود زبان نبوت سے اس کی تائید وتصویب بھی ہوتی ہے (ترمذی، باب ماجاء فی القاضی کیف یقضی،حدیث نمبر:۱۲۴۹)اور اجتہاد واستنباط ہرايك كےبس كی بات نہیں؛ ایسے موقع پر عمل کرنے والے کے لیے الجھن اوردشواری یہ پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنا عمل شریعت کے مطابق کیسے بنائے؟ کس پر عمل کرے اورکونسا راستہ اختیار کرے؟اسی الجھن کی وجہ سے خود صحابہ کرام حضور  کی موجودگی میں بلاواسطۂ نبی قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ كچھ خاص صحابہ کرام حضور   کے پاس جاکر قرآنی تعلیمات مستقل طورپر سمجھا کرتے تھے۔
(الاتقان:الفصل فی شرف التفاسیر، النوع الثامن والسبعون:۲/۴۶۸، شاملہ)
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر شخص قرآن وحدیث سے  بغیر کسی واسطے کے کوئی مسئلہ اپنے لیے تجویز نہیں کرتا تھا بلکہ جو عالم صحابہ کرام تھے ان سے مسئلہ معلوم کرکے عمل کیا کرتا تھا اسی طرح ہر زمانہ میں ہوتا رہا۔
بہرحال بعض حضرات ہر زمانے میں ایسے رہے جو قرآن وحدیث کے علوم میں ماہر، فہم وبصیرت میں اعلی، تقویٰ اورطہارت میں فائق اورحافظہ وذکاوت میں اوقع تھے لوگ ان ہی سے مسائل معلوم کرکے عمل کرتے اور اپنی فہم وبصیرت پر بالکل اعتماد نہیں کرتے اور اگر ہر کوئی خود ہی اپنے مسئلہ کوقرآن وحدیث میں تلاش کرنے لگے تو گویا ایسا ہی ہوجائے گا جیسے کہ ہر شخص اپنے مرض کا علاج خود ہی طبی کتابوں میں تلاش کرلے ڈاکٹر س وغیرہ کی اس کو ضرورت ہی  نہیں اگر ایسا ہوا تو کیا ہر مریض اپنے مرض کا علاج ان كتابوںميں تلاش کرپائے گا؟جرگز نهيں؛ بلکل اسی طرح دینی و شرعی مسئلہ کو سمجھیں کہ اس کا حل ہر کوئی نہیں کرسکتا۔
بہرحال جو لوگ قرآن وحدیث کو مکمل طورپر سمجھے ہیں اوراپنی مکمل زندگی کو مسائل کے حل کرنے اورقرآن وحدیث کے مطابق اس کو ڈھالنےمیں وقف کردیا اور ہر مسئلہ کا جواب قرآن و حدیث اور اس کے مطابق اصول کی روشنی میں بتایا ان میں مقبول چار حضرات کے مکاتب فکر ہوئے ہیں جن کے نام یہ ہیں، حضرت امام ابو حنیفہؒ ،حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام مالکؒ اورحضرت امام احمد بن حنبلؒ،ان حضرات کے بعد ان کے شاگرد حضرات ہر ایک کا مسئلہ قرآن و حدیث اور ان حضرات کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق بتلایا کرتے تھے اسی طرح یہی معمول اب تک چلاآیا اور آئندہ بھی چلتا رہے گا (انشاءاللہ)۔
ان چاروں حضرات نے مسائل کے حل کرنے میں جو طرز عمل اختیار فرمایا وہ اس طرح ہے۔
فقہ اسلامی کے مصادر
چونکہ اسلامی نقطۂ نظرسے قانون کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے، اس لیے تمام قوانین کا رشتہ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی سے ہے؛ البتہ بعض احکام کی نسبت صراحتاً اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہے اور بعض احکام قرآن وحدیث سے ثابت ہونے والے اصول وقواعد کی روشنی میں اہلِ علم نے استنباط کیے ہیں، ان کی بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی جاسکتی ہے، فرق یہ ہے کہ پہلا ذریعہ معصوم ہے؛ اگر قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت یقینی ہوتو اس میں غلطی کا احتمال نہیں اور دوسرا ذریعہ معصوم نہیں؛ کیونکہ اس میں انسانی اجتھاد کو دخل ہے اور انسان کی سوچ غلط بھی ہوسکتی ہے، اس طرح فقہ اسلامی کے مصادر کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱)نصوص  (۲)اجتہاد کے دوسرے مسائل۔
منصوص مصادر
فقہ اسلامی کے منصوص مصادر چار ہیں:
(۱)کتاب اللہ.
(۲)سنت رسول اللہ.
(۳)شرائع ماقبل .
(۴)جن مسائل میں اجتھاد کی گنجائش نہ ہو ان میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار۔
کتاب اللہ
کتاب اللہ سے مراد قرآن مجید ہے، جو بے کم وکاست محفوظ ہے اور قیامت تک رہے گا، قرآن مجید میں فقہی احکام سے متعلق آیات کی تعداد لوگوں نے دوڈھائی سوسے لیکر پانچ سو تک لکھی ہے، پانچ سو کی تعداد اس لحاظ سے ہوسکتی ہے کہ قرآن سے ثابت ہونے والے صریح احکام کے علاوہ اصولی احکام کوبھی شامل کرلیا جائے،صریح حکم کی مثال:جیسا کہ اللہ تعالی نے کھانے کی حرام چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
"حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَاأُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَاأَكَلَ السَّبُعُ إِلَّامَا ذَكَّيْتُمْ وَمَاذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ
(المائدہ:۳)
تم پر مردار جانور اور خون اور سور کا گوشت اوروہ جانور حرام کردیا گیا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جسے چوٹ مار کر ہلاک کیا گیا ہو اور جو اوپر سے گر کر مرا ہو اور جسے کسی جانور نے سینگ مار کر ہلاک کیا ہو اور جسے کسی درندے نے کھالیا ہو؛ اِلَّا یہ کہ تم (اس کے مرنے سے پہلے ) اس کو ذبح کرچکے ہو اور وہ (جانور بھی حرام ہے) جسے بتوں کی قربان گاہ پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بات بھی (تمہارے لیے حرام ہے ) کہ تم جوے کے تیروں سے (گوشت وغیرہ) تقسیم کرو، یہ ساری باتیں سخت گناہ کی ہیں۔
سنت رسول
احکامِ شرعیہ کا دوسرا ماخذ سنت رسول ہے، سنت رسول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، آپ   کا عمل نیز وہ قول وفعل ہے جو آپ کے سامنے آیاہو اور آپ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی ہو، سنت کے حجت ہونے پر امت کا اجماع واتفاق ہے؛ کیونکہ قرآن مجید میں کثرت سے مستقل طورپر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، فرمایا گیا کہ رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے، "مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ"  (النساء: ۸۰) نیز اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے:
"وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوْا
(الحشر:۷)
رسول جوکچھ لائے اسے قبول کرو اور جس سے منع کردے اس سے رک جاؤ۔
نیز سنت رسول اصل میں قرآن مجید کی تفسیر وتوضیح ہے، اسی لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: حضور کی سنتیں تین طرح کی ہیں،یاتو قرآن میں جو حکم ہے وہی سنت رسول میں بھی ہے، یاقرآن میں کوئی حکم مجمل ہے اور سنت نے اس کو واضح کردیا ہے، یاقرآن مجید اس سلسلہ میں خاموش ہے اور سنت کے ذریعہ اس صورت کا حکم معلوم ہوتا ہے۔
(الرسالہ:۹۱،۹۲،  باب ماابان اللہ لخلقہ من فرضہ علی رسولہ اتباع اوحی اللہ)
لیکن غور کیا جائے تو یہ صورت بھی قرآن مجید کے بتائے ہوئے اصولوں کے دائرہ میں آتی ہے؛ گویا قرآن نے ایک اصول بیان کردیا اور سنت کے ذریعہ اس کی تطبیق اور عملی صورتگری سامنے آگئی؛ اس لیے امام اوزاعی نے فرمایا کہ بیان وضاحت اور فہم مراد کے اعتبار سے قرآن کو حدیث کی حاجت زیادہ ہے، بمقابلہ اس حاجت کے جو حدیث کو قرآن کی ہے:
"اَلْکِتَابُ أَحْوَجُ اِلٰی السُّنَّۃِ مِنَ السُّنَّۃِ  إِلٰی الْکِتَابِ
(شرح السنۃ، للحسن بربہاری:۱/۳۵)
حقیقت یہ ہے کہ فقہی اعتبارسے احادیث کی بڑی اہمیت ہے، قرآن مجید ایک دستوری کتاب ہے، جس میں اصولی احکام دیئے گئے ہیں اور دین کے حدودِاربعہ کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے، حدیث کے ذریعہ ان قرآنی احکام کی عملی تصویر سامنے آجاتی ہے اوراس طرح اہل ہوس کے لیے قرآن کے معنوں میں الٹ پھیر، تحریف اور من چاہی تاویل کا دروازہ بند ہوجاتا ہے، جہاں حفاظ اورقاریوں کے ذریعہ الفاظِ قرآن کی حفاظت کا غیبی انتظام ہواہے، وہیں معنوی تحریف اور آمیزش سے حفاظت کا سروسامان حدیث کے ذریعہ انجام پایا ہے، اس طرح احادیث قرآن مجید کی معنوی حفاظت کا ذریعہ ہیں؛ قرآنی ایسے حکم کی مثال جس کو عملی شکل حدیث نے دی ہے یہ کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں "أَقِیْمُوْ الصَّلَاۃَ" اور"یُقِیْمُوْنَ الصَّلَاۃَ" کے ذریعہ نماز کا حکم بارہا فرمایا؛ لیکن اس کے ادا کرنے کا طریقہ احادیث میں اللہ کے رسول  نے بتلایا 
آثارِصحابہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دین کو براہِ راست حضرات صحابہ نے حاصل کیا ہے اور انہی کے واسطہ سے یہ دین پوری امت تک پہنچا ہے، صحابہؓ سب کے سب عادل، معتبر، خداترس اور مخلص تھے؛ لہٰذا ان کے اقوال اور آراء کی خاص اہمیت ہے، بعض مسائل تو ایسے ہیں جن میں رائے اور اجتھاد کی گنجائش ہے اور بعض مسائل وہ ہیں جسے کوئی شخص اپنے اجتھاد سے اخذ نہیں کرسکتا؛ بلکہ لازماً ان کی بنیاد قرآن وحدیث ہی پرہوگی، اس دوسرے قسم کے مسائل میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے احناف ومالکیہ کے نزدیک حجت اوردلیل ہے؛ اس لیے کہ ان کی رائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کسی بات پرہی مبنی ہوگی؛ گویا یہ بھی حدیث ہی کے درجہ میں ہے،جیسا کہ جمعہ میں اذانِ ثانیہ کے سلسلہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی رائے کو لیا گیا۔
شرائع ماقبل
تمام پیغمبروں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو دین بھیجا ہے وہ ایک ہی دین ہے، اعتقادی اور اخلاقی احکام میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے؛ اس لیے کہ اس کا سرچشمہ ایک ہی ذات ہے اور اگر عقیدہ واخلاق کی ہدایت میں کوئی فرق پایا جاتا ہوتو یقینی طورپر یہ انسانی تحریفات اور آمیزش کا نتیجہ ہے؛ البتہ "عملی زندگی" کے احکام جو فقہ کا اصل موضوع ہے، مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں؛ کیونکہ انسانی تمدن کے مرحلہ بہ مرحلہ ارتقاء کا تقاضہ یہی تھا، پہلی قسم کے احکام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَاوَصّٰی بِہٖ نُوْحاً وَّالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَاوَصَّیْنَا بِہٖ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسٰی وَعِیْسٰی أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَاتَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ"۔         
(الشوریٰ:۱۳)
اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے نوح (علیہ السلام) کوحکم دیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم وموسی (علیہ السلام) کو (مع ان سب کے اتباع کے) حکم دیا تھا (اور ان کی امم کو یہ کہا تھا) کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔
دوسری قسم کے احکام کے بارے میں ارشاد ہے:
"لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا"۔               
  (المائدہ:۴۸)
تم میں سے ہرایک کے لیے ہم نے ایک(خاص)شریعت اور راہ رکھی ہے۔
اس پس منظرمیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ شریعتوں کے احکام کی کیا حیثیت ہوگی، اس سلسلہ میں اہل علم نے جو گفتگو کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی کتابوں میں جو احکام آئے ہیں وہ چار طرح کے ہیں، اول وہ احکام جن کا قرآن وحدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، بالاتفاق اس امت میں وہ احکام قابل عمل نہیں ہیں، دوسرے وہ احکام جن کا قرآن وحدیث میں ذکر آیا ہے اور یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ یہ حکم سابقہ امت کے لیے تھا، اس امت میں یہ حکم باقی نہیں بلکہ منسوخ ہوچکا ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ امت محمدیہ میں اس حکم پر عمل نہیں کیا جائے گا، تیسرے وہ احکام ہیں جو قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں اور یہ بھی بتادیا گیا کہ یہ احکام اس امت کے لیے بھی ہیں، بالاتفاق اس شریعت میں بھی ان احکام پر عمل کیا جائے گا، چوتھے وہ احکام ہیں جن کو قرآن وحدیث نے پچھلی قوموں کی نسبت سے بیان کیا ہے؛ لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس امت کے لیے یہ حکم باقی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں دونظریہ ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اس امت کے لیے بھی یہ حکم باقی ہے، احناف اسی کے قائل ہیں اور دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس امت کے لیے یہ حکم باقی نہیں۔                       
  (الاحکام للآمدی)
لیکن یہ اختلاف عملی اعتبار سے زیادہ اہم نہیں ہے؛ کیونکہ عملاً شایدہی کسی مسئلہ میں اس کی وجہ سے اختلاف رہاہو، شرائع ماقبل جو منسوخ نہیں ہوئی ہیں وہ کتاب اللہ میں داخل ہیں، ایساحکم جوماقبل شریعتوں میں بھی تھا اور اس کوشریعتِ محمدیہ میں بھی رکھا گیا؛ جیسا کہ روزوں کی فرضیت، کہ پہلی شریعتوں میں بھی روزہ فرض تھا اوراب بھی فرض ہے، شرائع ماقبل کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: (فقہ اسلامی میں سابقہ شریعت کا مقام)۔
غیرمنصوص مصادر
اجماع
جن شرعی دلائل کا ماخذ انسانی اجتھادہے ان میں سب سے قوی اجماع ہے، اجماع سے مراد کسی رائے پر رسول اللہ    کی وفات کے بعد امت کے مجتہدین کا متفق ہوجانا؛ کیونکہ رسول اللہ   نے ارشاد فرمایا کہ: یہ امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوسکتی؛ گویا امت کے افراد کے انفرادی اجتھاد میں تو خطا کا احتمال ہے؛ لیکن اجتماعی حیثیت میں وہ معصوم ہیں اور کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوسکتے۔
اجماعی احکام میں کچھ تو وہ ہیں جن کی بنیاد احادیث پرہے، یعنی ایک حکم خبرواحد سے ثابت ہوا اور بعدکو تمام فقہاء اس پر متفق ہوگئے، اس طرح اس مسئلہ پر اجماع منعقد ہوگیا اور اجماع کی وجہ سے اس حکم نے قطعی اور یقینی حکم کا درجہ حاصل کرلیا اور کچھ احکام وہ ہیں جن کی بنیاد قیاس ومصلحت پرہے اور اس میں اجتھاد اور ایک سے زیادہ نقطۂ نظر کی گنجائش ہے، اس طرح کے احکام میں زیادہ تر اجماع کاانعقاد عہدِصحابہؓ میں ہواہے؛ کیونکہ اس عہدمیں تمام مجتہدین کی آراء سے واقف ہونا آسان تھا، خاص کر سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے اجتماعی غوروفکر اور شورائی اجتھاد کا خاص ذوق عطا فرمایا تھا؛ اس لیے ان کے عہدمیں نسبتاً زیادہ اجماع منعقد ہوئے،جیسا کہ تراویح بیس رکعات باجماعت پڑھنے پر حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں اجماع ہوا ۔
قیاس
غیرمنصوص مصادرمیں سے ایک قیاس بھی ہے، قیاس کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے برابر کرنے کے ہیں، کسی مسئلہ کے سلسلے میں قرآن وحدیث کی صراحت موجود نہ ہو لیکن قرآن وحدیث میں اس سے ملتاجلتا کوئی مسئلہ موجودہو اور اس مسئلہ میں اللہ اوررسول کے حکم کی جو وجہ ہوسکتی ہو وہ اس مسئلہ میں بھی موجود ہو چنانچہ یہاں بھی وہی حکم لگادیا جائے، اس کو قیاس کہتے ہیں، غور کیا جائے تو قیاس قرآن وحدیث کے مقابلہ میں دی جانے والی رائے نہیں ہے؛ بلکہ قیاس کے ذریعہ قرآن وحدیث کے حکم کے دائرہ کو وسیع کیا جاتا ہے۔
جن مسائل کی بابت نص موجودنہ ہو ان میں قیاس پر عمل کیا جائے گا، یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے، شرعی دلیلوں میں قیاس کوچوتھے درجہ پر رکھا گیا ہے؛ لیکن حدیث وقیاس یہ دونوں ایسے مصادر ہیں جن سے بیشتر فقہی احکام متعلق ہیں اور معاملات کے احکام کی بنیاد تو بڑی حدتک قیاس ہی پرہے، اس لحاظ سے یہ نہایت اہم ماخذ ہے، جیسا کہ شراب کی حرمت کی علت نشہ اور سکر کو نکال کر افیون ،گانجہ وغیرہ کونشہ کی وجہ سے حرام قراردیاگیا۔
دوسرے دلائل
ان دونوں کے علاوہ کچھ اور غیرمنصوص مصادرہیں جن سے وقتا فوقتا فقہ اسلامی میں مدد لی جاتی ہے، مثلاً:استحسان ، مصالح مرسلہ، استصحاب ،عرف اورذریعہ ان کی تفصیل ذیلی مضامین میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ 
فقہ اسلامی کا امتیاز
جامعیت وہمہ گیری
فقہ اسلامی کو جو باتیں انسان کے خودساختہ قوانین سے ممتاز کرتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں جامعیت وہمہ گیری پائی جاتی ہے کہ یہ تمام انسانوں کی ضروریات کو پوری طرح حاوی(گھیرے ہوئے) ہے اور ان کی زندگی اور زندگی کے ہرحال کے متعلق مرتب وجامع نظام پیش کرتی ہے، جو انسان کی شخصی زندگی، عائلی زندگی، قبائلی وشہری زندگی اور ظاہری وروحانی زندگی کے ہرپہلو سے اس کی رہبری کرتی ہے، وہ صرف اجتماعی وسیاسی زندگی ہی تک محدود نہیں؛ بلکہ وہ انسان کی انفرادی وشخصی زندگی کے اصول بھی سکھاتی ہے، معاملہ عقائد وعبادات کاہو، اخلاق وتمدن کاہو، سیاست وحکومت کاہو، ملازمت و تجارت کاہو، تعلیم وتربیت کاہو، شادی بیاہ کاہو، سیروتفریح اور غم ومصیبت کاہو، غرض یہ کہ انسانی زندگی سے متعلق جس قسم کا بھی معاملہ ہو فقہ اسلامی اس میں انسان کی بھرپور رہنمائی کرتی ہے۔
عقل وحکمت سے مطابقت
فقہ اسلامی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں معقولیت بھی پائی جاتی ہے، علماء، محققین نے اپنی اپنی تصانیف میں پورے شرح وبسط(تفصیل) کے ساتھ اس کی معقولیت پر گفتگو فرمائی ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، امام رازی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم نے اس پہلوپر سیرحاصل بحث کی ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ شریعت کے احکام عقل کے تقاضوں اور مصلحتوں کے عین مطابق ہیں؛ حتی کہ بعض اہل علم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شریعت تمام تر مصلحت ہی سے عبارت ہے اور ہرحکمِ شرعی کا مقصد یاتو کسی مصلحت کوپاناہے یاکسی نقصان اور مفسدہ کا ازالہ ہے:
"اِنَّ الشَّرِیْعَۃَ کُلَّہَا مَصَالِحٌ اِمَّادَرْأُ مَفَاسِدٍ اَوْجَلْبُ مَصَالِحٍ
(قواعد الاحکام لعزالدین بن عبدالسلام:۱/۹)
اس کے برخلاف انسان کی عقل کوتاہ ونارساہے اور خود اپنے نفع ونقصان کو سمجھنے سے بھی قاصر وعاجز ہے، دوسرے انسان بعض اوقات خواہشات سے اس قدر مغلوب ہوجاتا ہے کہ کسی بات کو نقصان جانتے ہوئے بھی اس کو قبول کرلیتا ہے، اس کی واضح مثال شراب ہے، شراب انسان کے لیے نہایت نقصان دہ اور اس کی صحت کو برباد کردینے والی چیز ہے، اس پر اتفاق ہے، لیکن آج دنیا کے ان تمام ملکوں میں جو انسانی قانون کے زیرسایہ زندگی بسرکررہے ہیں شراب کی اجازت ہے، غیرقانونی جنسی تعلق اور ہم جنسی کے بارے میں تمام میڈیکل ماہرین متفق ہیں کہ یہ صحت کے لیے نہایت مہلک فعل ہے اور نہ صرف اخلاق کے لیے تباہ کن ہے بلکہ طبی نقطۂ نظرسے بھی سماج کے لیے زہرہلاہل سے کم نہیں ہے، اس کے باوجود عوامی دباؤ اور آوارہ خیال لوگوں کی کثرت سے مجبورہوکر بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ان خلافِ فطرت امور کی بھی اجازت دے دی گئی ہے، فقہ اسلامی کہیں بھی عقل اور حکمت ومصلحت سے برسرِپیکار نظر نہیں آتی اور اس کا ایک ایک حکم انسانی مفادومصلحت پر مبنی ہے۔
ابدیت ودوام
کسی بھی قانون کے مفید اور فعال رہنے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ اس میں حالات ومواقع کے لحاظ سے تغیرات کو قبول کرنے کی گنجائش رہے وہیں ایک گونہ ثبات ودوام اور بقاء واستمرار بھی ضروری ہے، جو قانون بالکل بے لچک اور تغیرناآشناہو وہ زمانہ کی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دے سکتا اور جس قانون میں کوئی بقاء واستحکام نہ ہو وہ انصاف قائم کرنے اور لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کے ہراصول میں شکست وریخت کی گنجائش ہوگی اور کسی بھی قانون کو لوگ اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھال سکیں گے۔
اسلام میں ان دونوں پہلوؤں کی رعایت ملحوظ ہے، کچھ احکام وہ ہیں جن کی بابت اصول وقواعد اور شریعت کے مقاصد کی وضاحت پر اکتفاء کیا گیا ہے، ہرعہدمیں جو مسائل پیداہوں ان کو ان اصولوں کی روشنی میں حل کیا جائے گا اور بعض مسائل میں شریعت نے جزوی تفصیلات کو بغیرکسی استثناء اور تخصیص کے متعین کردیا ہے، یہ تحدید اس بات کی علامت ہے کہ یہ قیامت تک قابلِ عمل ہے، اس طرح شریعت میں جو اصولی ہدایات دی گئی ہیں اور جن قواعد ومقاصد کی رہنمائی کی گئی ہے وہ ناقابلِ تبدیل ہیں، اس لیے قرآن نے اشارہ کیا ہے کہ قرآنی ہدایات کے ذریعہ دین پا یۂ کمال کو پہنچ گیا ہے(المائدہ:۳) اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلۂ نبوت کو ختم کردیا گیا ہے (الاحزاب:۴۰) لہٰذا اب خالقِ کائنات کی طرف سے کسی نئی شریعت کے آنے کا امکان باقی نہیں رہا، اب یہ انسانی سماج کے لیے ایسا موزوں قانون ہے کہ قیامت تک اس کی موزونیت اور اس کی افادیت کم نہیں ہوسکتی، کیونکہ فقہ اسلامی کا سرچشمہ وہ نصوص ہیں جوقیامت تک ہرطرح کے تغیرات واصلاح سے ماوراء ہیں اور وضعی قوانین کی اساس انسانی خیالات وجذبات ہیں جو ہرآن وزمان تغیر وتبدیلی سے دوچار ہیں۔
فطرت انسانی سے ہم آہنگی
اللہ خود انسان کا خالق ہے اور اس کی ضروریات وتقاضے سے بھی پوری طرح واقف ہے؛ اس لیے اس نے جو شریعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے انسانیت کو عطاکی وہ پوری طرح فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے، اس لیے قرآن نے اسلام کو دینِ فطرت سے تعبیر کیا ہے۔                       
  (الروم:۳۰)
فطرت سے بغاوت ہمیشہ انسان کے لیے نقصان وخسران اور تباہی وبربادی کا سبب بناہے، انسان کے بنائے ہوئے قانون میں فطرت سے بغاوت کا رجحان قدم قدم پر ملتا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے عورت کی فطرت میں جلدبازی، زودرنجی اور بعجلت قدم اٹھانے کا مزاج رکھا ہے، اس لیے اسلام نے طلاق کا اختیار عورت کے ہاتھ میں نہیں رکھا، بلکہ مردکو طلاق کا اختیار دیا؛ لیکن مغرب نے مردوعورت کومساوی درجہ دیتے ہوئے طلاق کے معاملہ میں بھی دونوں کو یکساں حیثیت دے دی، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ طلاق کی شرح اس معاشرہ میں بہت بڑھ گئی؛ حتی کہ بہت سے ملکوں میں نکاح کے مقابلہ میں طلاق کی شرح بڑھی ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں خاندانی نظام بکھرکر رہ گیا ہے؛ اسی طرح انسانی فطرت ہے کہ سخت اور مناسب سزائیں ہی انسان کو جرم سے باز رکھ سکتی ہیں اور مجرم کے ساتھ حسنِ سلوک دراصل مظلوم کے ساتھ ناانصافی اور سماج کو امن سے محروم کردینے کے مترادف ہے؛ اس لیے اسلام میں قتل کی سزا قتل رکھی گئی ہے اور بعض دیگر جرائم میں بھی سخت سزائیں رکھی گئی ہیں؛ لیکن بعض ممالک میں ہمدردی وانسانیت کے نام پر مجرم کو سہولتیں دی گئیں، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ جرائم پر جسارت روز مرہ بڑھتی جارہی ہے اور جو سزائیں دی جارہی ہیں وہ جرائم کے سدباب کے لیے ناکافی ہیں، اس کے برخلاف شریعتِ اسلامی کے جس حکم کو بھی حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ اس میں قانونِ فطرت کی مطابقت غیرمعمولی حدتک پائی جاتی ہے، جبکہ انسان کے خودساختہ قوانین میں فطرت سے بغاوت اور خواہشات کے غلبہ کا رجحان ہرجگہ نمایاں ہے۔
توازن واعتدال
شریعتِ اسلامی کا ایک وصف اس کا توازن واعتدال بھی ہے، مثلاً مردوعورت انسانی سماج کے دولازمی جزہیں، دنیامیں کچھ ایسے قوانین وضع کئے گئے ہیں جن میں عورت کی حیثیت جانور اور بے جان املاک کی سی قرار دے دی گئی، نہ وہ کسی جائیداد کی مالک ہوسکتی تھی، نہ ہی تصرف کرسکتی تھی، نہ اس کو اپنے مال پر اختیارتھا، نہ اپنی جان پر، یہاں تک کہ اہلِ علم کے درمیان بحث جاری تھی کہ عورتوں میں انسانی روح پائی جاتی ہے یا حیوانی؟ اس کے بالمقابل دوسری طرف کچھ لوگوں نے عورتوں کو تمام ذمہ داریوں میں مردوں کے مساوی قراردے دیا، عورتوں کی جسمانی کمزوری، اس کے ساتھ پیش آنے والے قدرتی حالات وعوارض اور طبیعت ومزاج اور قوتِ فیصلہ پر ان کے اثرات کونظرانداز کردیا، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ بظاہرتو اسے عورت کی حمایت سمجھاگیا لیکن انجام کار اس آزادی نے سماج کو بے حیائی، اخلاقی گراوٹ، ناقابلِ علاج امراض اور خود عورتوں کو ناقابلِ تحمل ذمہ داریوں میں جکڑدیا۔
اسلام نے مردوں اور عورتوں سے متعلق نہایت متوازن قانون دیا ہے، انسانی حقوق میں مردوں اور عورتوںکو مساوی درجہ دیا گیا ہے "وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ" (البقرہ:۲۲۸) لیکن سماجی زندگی میں دونوں کے قُویٰ اور صلاحیت کے لحاظ سے فرق کیا گیا ہے اور بال بچوں کی تربیت کی ذمہ داری عورتوںپر اور کسبِ معاش کی ذمہ داری مردوںپر رکھی گئی ہے، سماجی زندگی کا یہ نہایت زریں اصول ہے، جس میں خاندانی نظام کا بقاء، اخلاقی اقدار کی حفاظت اور عورت کو ناقابلِ برداشت مصائب سے بچانا ہے۔
دولت مندوں اور غریبوں، آجروں اور مزدوروں، عوام اور حکومت کے تعلقات اور مجرموں اور جرم سے متاثر مظلوموں کے درمیان انصاف وغیرہ احکام کو اگر حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو قانونِ شریعت میں جو اعتدال نظر آئے گا گذشتہ اور موجودہ ادوارمیں انسانوں کے بنائے ہوئے کسی قانون میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔
عدل وانصاف
شریعتِ اسلامی کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں انسانیت کے ساتھ مساویانہ سلوک ہے، دین کی بنیادہی دراصل عدل پرہے (النحل:۹۰) اس لیے اسلام کی نگاہ میں رنگ ونسل، جنس اور قبیلہ وخاندان کی بنیادپر کوئی تفریق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللہِ أَتْقَاکُمْ
(الحجرات:۱۳) 
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مردوعورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو خاندانوں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک تم میں سب سے زیادہ معززاللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ تقوی اختیار کرنے والا ہو۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مزید واضح فرمایا: کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے (مسنداحمد، حدیث نمبر:۲۲۳۹۱) اسلام کے تمام قوانین کی اساس اسی اصول پرہے، برخلاف انسانی قوانین کے، انسانوں نے جوبھی قوانین وضع کئے ہیں وہ ایک گروہ کی برتری اور دوسرے طبقہ کی تذلیل وحق تلفی پر مبنی رہا ہے، لیکن اسلام نے دنیا کو ایک ایسے قانون سے روشناس کیا جس کی بنیاد انسانی وحدت مساوات اور ہرطبقہ کے ساتھ ایسے انصاف پر مبنی ہے جوکسی طبقہ کو حقیر اور اچھوت بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
حقیقی نافعیت
شریعتِ اسلامی حقیقی نافعیت اورمال وانجام کی سعادت پر مبنی ہے، انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں حقیقی نفع وضرر سے زیادہ خواہشات وجذبات کی رعایت ہے، شراب صحت انسانی کے لیے مضرہے، نشہ جنون کا ایک درجہ ہے، خنزیرکا گوشت مختلف طبعی بیماریوں اور اخلاقی مفاسد کی جڑہے، عصمت وعفت کے مذہبی تصورکے خلاف برہنگی ہے جواخلاقی اقدار کے بھی منافی ہے اور امن وسکون کی غارت گرہے، اسلام نے ان مضرتوںپر نظررکھی اور ان امور کے بارے میں اس کی مخالفت ناقابلِ تبدیل ہے، مگر وضعی قوانین ان تمام نقصانات کو تسلیم کرنے کے باوجود ہوائے نفسانی اور ہوسِ انسانی کے سامنے سپرانداز(جھکے ہوئے) ہیں۔
تنفیذ کی قوت
کسی بھی قانون کا نفاذ دوطریقوں سے ہوتا ہے، ایک تو سماج کے اندر قبولِ اطاعت کا جذبہ پیدا کرکے اور دوسرے قانون کے خلاف کرنے والوں کے لیے جبروقوت کا استعمال کرکے، کچھ طبیعتیں سلامتی اور شرافت کی حامل ہوتی ہیں، ان میں ازخود قانون پر عمل کرنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے؛ لیکن جن طبیعتوں میں سرکشی اور بغاوت ہوتی ہے یا جو خواہشات سے مغلوب ہوتی ہیں وہ جبروخوف کے بغیر سرِتسلیم خم نہیں کرتیں، انسانی قوانین میں عدالت اور پولیس اور دونوں شعبوں کے ذریعے سزاؤں کا خوف ہی انسان کو جرم سے باز رکھتا ہے، جبکہ شریعتِ اسلامی میں اس سے آگے ایک اور عقیدہ"آخرت کے ثواب وعذاب" کاہے؛ اس لیے قرآن وحدیث میں ہرحکم کے ساتھ اس کے ماننے پر آخرت کا اجر اور نہ ماننے پر آخرت کی سزا کا ذکر موجودہے، یہ ایسا انقلاب انگیز عقیدہ ہے جو طاقتورسے طاقتور انسان کے دل کو ہلاکر رکھ دیتا ہے اور بڑے بڑے مجرموں کو قانون کے سامنے سپرانداز ہونے پر مجبور کرتا ہے، جب کوئی آنکھ دیکھنے والی اور کوئی زبان ٹوکنے والی نہیں ہوتی اس وقت بھی یہ عقیدہ اس کے ہاتھوں کے لیے ہتھکڑی اوراس کے پاؤں کے لیے زنجیر بن جاتا ہے۔
مسلم سماج میں اس گئے گذرے دورمیں بھی اس کی مثالیں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں، مثلاً یہی منشیات کا مسئلہ ہے، آج پوری دنیا اس سے دوچار ہے اور اس کے نقصانات تسلیم شدہ ہیں، امریکہ نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے سنہ۱۹۳۰ء میں نشہ بندی کا ایک قانون بنایا اورشراب کی مضرتوں کو واضح کرنے کے لیے صرف تشہیرپر ۶۵/ ملین ڈالر خرچ کئے، نوہزار ملین صفحات شراب کے نقصانات پر لکھے گئے، ۲۰۰/آدمی قتل کئے گئے، ۵۰/لاکھ کو قیدکی سزا دی گئی، ان لوگوںپر جو جرمانے کئے گئے وہ بے شمار ہیں؛ لیکن اس کے باوجود طاقت سے قانون کو منوایا نہیں جاسکا اور سنہ۱۹۳۳ء میں امریکی حکومت اس بات پر مجبور ہوئی کہ اس قانون کو واپس لے لے؛ لیکن قرآن مجید نے جب شراب کو حرام قراردیا توعرب اس کے بے حد عادی تھے، یہاں تک کہ اسلام سے پہلے ان کی مذہبی تقریبات بھی شراب سے خالی نہیں ہوتی تھیں، لیکن شراب کی حرمت کا حکم آتے ہی لوگوں نے اپنا سرجھکادیا اور مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں شراب بہنے لگی، آج بھی صورتحال یہ ہے کہ جہالت وغفلت کے باوجود مسلمان سماج میں شراب سے جو احتیاط برتی جاتی ہے شایدہی اس کی مثال مل سکے؛ مغربی ممالک میں خاص طورپر اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ دوش بدوش زندگی گذارنے والے مسلمان اور غیرمسلم مئے نوشی کے اعتبارسے ایک دوسرے سے بہت مختلف کردار کے حامل ہوتے ہیں۔
اسی طرح زنا اور غیرقانونی جنسی تعلق کا معاملہ ہے کہ آج بھی اس معاملہ میں مسلم سماج دوسری قوموں سے بدرجہاغنیمت ہے، یہی وجہ ہے کہ ایڈس کی بیماری کی شرح مسلم ملکوں میں سب سے کم ہے، مغربی ملکوں میں شہرشہر بوڑھے لوگوں کے لیے ہاسٹل قائم کردیئے گئے ہیں، لوگ بوڑھے ماںباپ اور بزرگانِ خاندان کو ان ہاسٹلوں میں رکھ کر اپنا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں، لیکن مسلم سماج میں آج بھی ایسی خودغرضی نسبتاً کم پائی جاتی ہے، والدین کا احترام اور بزرگوں کی قدردانی کو لوگ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں، یہ آخرت کے خوف اور آخرت میں جوابدہی کے احساس کے بغیر نہیں ہوسکتا؛ الغرض وضعی قوانین کا نفاذ قانون کی طاقت ہی سے ممکن ہے؛ لیکن قانونِ شریعت کے نفاذمیں عقیدہ وایمان کی طاقت بھی موثر کردار ادا کرتی ہے۔
فقہ پر اعتماد نہ کرنے کا نقصان
اگرفقہ پراعتماد نہ کرکے کوئی شخص اپنے ہرعمل کاتعلق بلا واسطہ قرآن یاحدیث سے کرےگا تو یہ اجماع کے خلاف ہوگا(عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید:۱۳) اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے سامنے مکمل قرآنی علم یامکمل احادیث کا مجموعہ ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سارے علوم وغیرہ کا ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ بعض جگہ قرآنی آیات مجمل ہیں توبعض جگہ قرآنی آیات اور احادیث میں ابہام بھی ہے اورکچھ احادیث ایک ہی عمل کے مختلف طریقے اور مختلف حکم پیش کرتی ہے اور الفاظ قرآن یاحدیث ایک معنی پیش کرتے ہیں اور مرادی معنی اور ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سحری کے وقت کے سلسلہ میں فرمایا:
"وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ"۔
(البقرۃ:۱۸۷)
اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفیددھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکر تم پر واضح (نہ) ہوجائے۔ 
بظاہر اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس وقت تک کھاپی سکتے ہیں جب تک کہ صبح کی روشنی سے سفید اور کالے دھاگے میں امتیاز ہوجائے جیسا کہ بعض صحابہ نے ایسا ہی سمجھا تھا؛ مگرحقیقی معنی یہ نہیں ہیں؛ بلکہ خیط ابیض سے مراد صبح صادق اور خیط اسود سے مراد صبح کاذب ہے۔          
  (بخاری، كِتَاب الصَّوْمِ،بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَكُلُوا وَاشْرَبُوا}، حدیث نمبر:۱۷۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)
اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ جوانسان اللہ پراوریومِ آخرت پرایمان رکھتا ہو اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے پانی سے دوسرے کے کھیت کوسیراب کرے۔                     
  (مسنداحمد، حدیث نمبر:۱۷۰۳۱)
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب باغ میں پانی زیادہ ہوجائے تواسے دوسرے کے باغ میں نہ چھوڑا جائے جیسا کہ بعض حدیث پڑھنے والے یہی معنی سمجھ کر کئی دن اسی پر عمل کرتے رہے؛ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حاملہ لونڈیوں سے صحبت نہ کی جائے؛ اس طرح بلاواسطہ قرآن وحدیث کے سمجھنے میں غلطی ہونے کا قوی امکان ہوسکتا ہے؛ اس کے علاوہ بہت سارے نئے مسائل(خواہ وہ مسائل عبادات کے ہوں یامعاملات کے ہوں یامعاشرت کے ہوں وہ) قرآن وحدیث سے بلاواسطہ (ڈائرکٹ) نہیں سمجھ سکتا؛ بہرحال ہرانسان اپنے کم علمی کے ذریعہ زندگی کے ہرعمل کوشریعت کے مطابق نہیں بناسکتا؛ اس لیے علوم شرعیہ کے ماہرین سے رجوع کرنا ضروری ہوگا؛ اس کے بغیروہ اپنی زندگی کوشریعت کے منشا کے مطابق نہیں بناپائیگا اور بہت ساری خرابیاں وجود میں آتی ہیں جو تفصیلی مضامین میں انشاءاللہ آئیں گی۔


No comments:

Post a Comment