قواعد فقہ


فقہی قواعد کی تاریخ وتدوین


قاعدۃ، قاعد کا مؤنت ہے "قاعدۃ التمثال" وہ بلند چبوترہ جس پر پتھر نصب کیا جائے، صلہ کے بدل جانے سے معنی میں بھی تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔          
   (مصباح اللغات:۶۹۴)
اصل معنی بنیاد اور اساس کے ہیں:
"وَهِيَ لُغَةً الْأَسَاسُ"۔          
   (حموی:۱/۵۱)
قرآن میں بھی قاعدہ کواس معنی میں استعمال کیا گیا ہے:
"قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ"۔            
(النحل:۲۶)
ترجمہ:ان سے پہلے بہت سے لوگ مکاریاں کرچکے ہیں، توانسان نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی۔
اصطلاح میں قاعدہ اس اصلِ کلی کوکہتے ہیں جواپنی ساری جزئیات پرمنطبق ہو، حموی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"وَاصْطِلَاحًا حُكْمٌ كُلِّيٌّ يَنْطَبِقُ عَلَى جَمِيعِ جُزْئِيَّاتِهِ لِتَصَوُّرِ أَحْكَامُهَا مِنْهُ"۔
(حموی:۱/۵۱)
ترجمہ:قاعدہ اصطلاح میں ایسی اصلِ کلی کوکہا جاتا ہے جواپنی ساری جزئیات پرمنطبق ہو؛ تاکہ اس قاعدہ کے ذریعہ اس کی جزئیات کا علم ہوسکے۔
قاعدہ سے ایک قریبی لفظ "ضابطہ" ہے ضابط اسم فاعل کا صیغہ ہے، اس کی جمع "ضبطۃ" اور "ضباط" آتی ہے، لغت میں اس کا معنی ٹھوس حافظہ والا بتایا جاتا ہے اور اصطلاح میں اس کی تعریف تھوڑے فرق کے ساتھ قاعدہ ہی کی سی ہے، حموی اس فرق کویوں بیان کرتے ہیں:
"اَلضَّابِطُ مَايَجْمَعُ فُرُوعًا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ بِخِلَافِ الْقَاعِدَةِ وَهِيَ مَايَجْمَعُهَا مِنْ أَبْوَابٍ شَتَّى"۔
(حموی:۱/۳۱)
ترجمہ:ضابطہ ایک ہی باب کی فروعات کوجامع ہوتا ہے، جب کہ قاعدہ مختلف ابواب کی فروعات کوجامع ہوتا ہے۔
قاعدہ سے دوسرا قریبی لفظ "اصول" ہے اہلِ فن نے ان دونوں میں بھی فرق کیا ہے، اصول کا تعلق الفاظ کی دلالت، نصوص کے ذریعہ ثبوت اور احکام کے طریقِ استنباط سے ہوتا ہے اور "قواعد" شریعت کے مزاج کوظاہر کرتے ہیں اور شریعت ان کی رعایت کی متقاضی ہوتی ہے (قرآن نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے، دیکھئے، الفروق:۱/۴،۹) اصول کی حیثیت کلیات کی ہوتی اور قواعد "اکثریہ"ہوتے ہیں۔
ہرفن کی اپنی ایک تاریخ ہوتی ہے، جس سے وہ فن جانا پہچانا جاتا ہے اور اس تاریخی پسِ منظر ہی سے اس کی اہمیت، ضرورت اور افادیت کا اندازہ ہوتا ہےــــــــ  چنانچہ فقہی قواعد، جسے فقہ اسلامی میں خاص اہمیت حاصل ہےـــــــ کی بھی اپنی تاریخ ہے، ذیل میں ہم قواعد فقہیہ کا تاریخی پسِ منظر اور اس کی تدوین وترتیب پربحث کریں گے کہ اس فن کا وجود کب ہوا؟ اس کی تدوین وترتیب کیوں ہوئی؟ اورکن لوگوں نے اس میں حصہ لیا؟ـــــــ  بنیادی طور پر قواعد فقہیہ کی تدوین اور ارتقاء کی تاریخ کوہم تین ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
پہلا دور
احادیثِ نبویہ  کوجسے شریعتِ اسلامی کے مصادر میں دوسرا اہم مقام حاصل ہے، اس میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ گوفقہی قواعد دورِ نبوی  میں مرتب نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی اسے کسی فن کی حیثیت حاصل تھی؛ لیکن اسی زمانہ میں ان قواعد کی بنیاد رکھی گئی؛ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہمارے سامنے جوقواعد ہیں ان میں سے کچھ تووہ ہیں جوبعینہ انہیں الفاظ کے ساتھ احادیث میں بھی مذکور ہیں اور اکثروہ ہیں جن کی اصل احادیث میں موجود ہے، شیخ زرقاء لکھتے ہیں:
"ھٰذا ولایعرف لکل قاعدۃ صائغ معین من الفقہا الاماکان منھا حدیث نبوی کقاعدۃ لاضرر ولاضرار"۔
(شرح القواعد الفقہیہ:۳۶)
ترجمہ:یہ بات ظاہر ہے کہ ہرقاعدہ کی فقہاء کے یہاں متعین اصل نہیں ملتی؛ سوائے اس کے کہ وہ قاعدہ بعینہ حدیثِ نبوی  ہو، جیسے "لاضرر ولاضرار" وغیرہ کا قاعدہ ہے۔
"لَاضرر ولاضرار" کے اس قاعدہ کے علاوہ بھی متعدد فقہی قاعدے اور ضابطے ہیں جوحدیث میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں، چند کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:
(۱)"الْعَجْمَاءُ جَرْحُهَا جُبَارٌ"۔              
(ترمذی، حدیث نمبر:۵۸۱، شاملہ، موقع الإسلام)
اس حدیث میں یہ بات کہی گئی ہے جانوروں کی جنایات قابل معافی ہیں؛ اگرجانور کسی آدمی کا کچھ نقصان کردے تواس سے جانور کے مالک پرضمان واجب نہ ہوگا (مسئلہ کی تفصیل کے لیے فقہ کی کتابوں سے مراجعت کی جائے) اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث ایک قاعدہ کی حیثیت رکھتی ہے؛ کیونکہ اس کے تحت بہت سی جزئیات آتی ہیں؛ البتہ چونکہ اس کے تحت ایک ہی باب کی جزئیات آئیں گی، اس لیے فنی اعتبار سے اس حدیث کو "قاعدہ" کے بجائے "ضابطہ" کہا جائے گا۔
(۲)"الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ"۔          
(ترمذی، حدیث نمبر:۱۲۰۷، شاملہ، موقع لإسلام)
اس حدیث کی تفسیر میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"هُوَالرَّجُلُ يَشْتَرِي الْعَبْدَ فَيَسْتَغِلُّهُ ثُمَّ يَجِدُ بِهِ عَيْبًا فَيَرُدُّهُ عَلَى الْبَائِعِ فَالْغَلَّةُ لِلْمُشْتَرِي لِأَنَّ الْعَبْدَ لَوْهَلَكَ هَلَكَ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِي"۔
ترجمہ:وہ آدمی جوغلام خریدتا ہے اور اس سے کمائی کرتا ہے؛ پھرغلام میں عیب پاتا ہے اور غلام کافروخت کرنے والے کوواپس کردیتا ہے توغلہ (غلام کی کمائی) خریدار کا ہوگا اس لیے کہ غلام اگرہلاک ہوتا وہ خریدار ہی کے حال سے ہلاک ہوتا۔
چونکہ "الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ" سے متعلق فقہ کے اکثرابواب میں جزئیات مل جاتی ہیں؛ اس لیے اسے قاعدہ کہا جاے گا، فقہاء اس حدیث کوقواعدِ فقہیہ کی فہرست میں انہیں الفاظ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔
(۳)"لَاقَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَاكَثَرٍ"۔
(ترمذی،كِتَاب الْحُدُودِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَاجَاءَ لَاقَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَاكَثَرٍ،حدیث نمبر:۱۳۶۹، موقع الإسلام)
ترجمہ:یعنی پھل اور خوشہ کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
یہ حدیث ضابطہ ہے؛ کیونکہ اس سے متعلق جزئیات صرف حدسرقہ میں ملیں گی۔
(۴)"لَايُجْلَدُ فَوْقَ عَشْرِ جَلَدَاتٍ إِلَّافِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ"۔
(ترمذی،كِتَاب الْحُدُودِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي التَّعْزِيرِ ،حدیث نمبر:۱۳۸۳، موقع الإسلام)
ترجمہ:اللہ کی حدوں کے علاوہ کسی حد میں دس کوڑے سے زیادہ نہیں مارا جائے گا۔
امام ترمذیؒ نے اس حدیث کے متعلق لکھا ہے "وَأَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي التَّعْزِيرِ هَذَا الْحَدِيثُ"۔
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ تعزیر کے اندر امام کوصرف دس کوڑے تک مارنے کا حق ہے، اس سے زیادہ نہیں؛ گویا یہ تعزیر کے باب میں ایک ضابطہ ہے۔
(۵)"الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ"۔
(ترمذی،كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ،بَاب مَاجَاءَ فِي أَنَّ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ ،حدیث نمبر:۱۲۶۱، موقع الإسلام)
ترجمہ:مدعی پرگواہان پیش کرنے کی ذمہ داری اور مدعیٰ علیہ پرہے۔
امام ترمذیؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث پرکلام کیا گیا ہے؛ کیونکہ محمدبن عبداللہ کوحافظہ کی وجہ سے ضعیف کہا جاتا ہے؛ البتہ امام ترمذیؒ نے ایک دوسری حدیث جواسی مفہوم کی ہے، حضرت ابنِ عباسؓ سے نقل کی ہے، جسے انہوں نے "حَسَنٌ صَحِيحٌ" کہا ہے، حدیث یہ ہے:"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ"۔
(ترمذی،كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ،بَاب مَاجَاءَ فِي أَنَّ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ ،حدیث نمبر:۱۲۶۲، موقع الإسلام)
مطلب یہ ہے کہ جوآدمی اپنے لیے کسی دوسرے پراپنے کسی حق کا دعویٰ کررہا ہوا سے ثبوت پیش کرنا ہوگا، بغیر ثبوت کے اس کا کوئی بھی حق ثابت نہیں ہوگا اور دوسرے آدمی جواپنے اوپر غیر کے کسی حق کے ثابت ہونے کا انکار کررہا ہے، ثبوت کے نہ ہونے کی صورت میں اسے قسم کھانی ہوگی؛ اگراس نے قسم نہیں کھائی تواسے مدعیٰ کے دعویٰ کوتسلیم کرنا ہوگا؛ اسی کو فقہاء "الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ" سے تعبیر کرتے ہیں، جو کہ ان کے یہاں قضاء کے باب میں ایک دستوری حیثیت رکھتا ہے۔
قواعدِ فقہیہ کا ثبوت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اقوال سے
سیدنا حضرت عمرفاروقؓ صحابہ کرامؓ میں اپنی اجتہادی قوت، اصابت رائے اور فطری ذہانب وطباعی کی وجہ سے ممتاز حیثیت کے حامل مانے جاتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ فقہاء ان کے اقوال کوجونصِ صریح سے متعارض نہ ہوں خاصی اہمیت دیتے ہیں؛ بلکہ "محمدرواس قلعہ جی" کے بقول حجت اور دلیل مانتے ہیں:
"فانی اوردت اجتھادات عمر دون الاستدلال علیھا من الحدیث الشریف اوالنظر لافی اعتبر کمایعتبر الفقہاء رأی عمرؓ دلیلا عند مالایعارض حدیث من احادیث مصطفیٰ علیہ السلام والدلیل لایحتاج الی دلیل"۔        
(مقدمہ موسوعۃ فقہ عمر بن الخطابؓ:۱۱)
ترجمہ:میں نے اس کتاب میں حضرت عمرؓ کے اجتہادات کوپیش کیا ہے نہ کہ حدیث اور قیاس سے اس پراستدلال کو؛ کیونکہ میں مانتا ہوں؛ جیسا کہ فقہاء مانتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی رائے اگرحدیث سے معارض نہ ہوتواسے دلیل سمجھا جائے گا اور دلیل کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑتی۔
حضرت عمرؓ سے بھی ایسے متعدد اقوال نقل کیے گئے ہیں جن کی حیثیت قاعدہ اور ضابطہ کی ہے، چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
(۱)"من استعمل فاجرا وھویعلم انہ فاجر فھو مثلہ"۔
(موسوعہ فقہ عمربن خطابؓ:۴۲۔ بحوالہ: سیرت لابن جوزی:۶۷)
ترجمہ:جس نے کسی فاجر کواس کا فسق وفجور جاننے کے باوجود عامل بنایا تووہ بھی فاجر ہے۔
اس کا تعلق امارت سے ہےاور ایک ضابطہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
(۲)"الْمُسْلِمُونَ عُدُولٌ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ"۔
(موسوعہ فقہ عمربن خطابؓ:۵۱۷۔ بحوالہ:سنن الکبریٰ للبیہقی،حدیث نمبر:۲۱۳۵۱، شاملہ،موقع وزارة الأوقاف المصرية)
ترجمہ:ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے حق میں معتبر ہے۔
اس کا مفہوم موافق یہ ہے کہ اگرایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف گواہی دے، یادوسرے مسلمان کے حق میں گواہی دے تواس کی گواہی معتبر ہوگی؛ لیکن اس عبارت کے مفہوم مخالف سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرکافر مسلمان کے خلاف گواہی دے تواس کی گواہی معتبر نہ ہوگی، یہ قانون شہادت میں ایک ضابطہ ہے۔
(۳)"دروا الربا والریبۃ"۔
(موسوعہ فقہ عمربن خطابؓ:۴۲۳۔ بحوالہ،مسنداحمد:۱/۳۶۔ والمحلی:۸/۴۷۷)
ترجمہ:سود اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے چھوڑدو۔
(۴)"الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِى وَالْيَمِينَ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ"۔
(موسوعہ فقہ عمربن خطابؓ:۷۳۱۔ بحوالہ،سنن الکبریٰ للبیہقی:۱/۱۵،۵۳)
ترجمہ:گواہی پیش کرنا مدعی پر ہوگا اور قسم انکار کرنے والے پر۔
قواعد کی کتابوں میں اس قاعدہ کوبعینہ انہیں الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور جیسا کہ ذکر ہوا کہ یہ فقرہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ماخوذ ہے۔
قواعدِ فقہیہ کا ثبوت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال سے
جیسا کہ گذرا کہ آنحضور  کے زمانہ میں فقہی قواعد کا ثبوت ملتا ہے، تابعین کے اقوال پرنظر ڈالنے سے وہاں بھی کچھ قواعد مل جاتے ہیں؛ لیکن حالات؛ نیز نئے مسائل کے پیدا ہونے کی وجہ سے صحابہؓ وتابعینؒ کے بعد ائمہ متبوعین کے زمانہ میں فقہی قواعد میں اور اضافہ ہوجاتا ہے، اس سلسلے میں اسلامی تاریخ کے پہلے قاضی القضاۃ امام ابویوسف رحمہ اللہ کا نام نامی خاص طور پرقابل ذکر ہے، آپ نے خلیفہ ہارون الرشید کے لیے جو"کتاب الخراج" لکھی تھی، اس میں متعدد ایسی عبارتیں موجود ہیں جوان قواعد سے کافی مشابہ ہیں، جنھیں بعد میں فقہاء نے قانونی کلیات کی شکل دی ہے؛ یہاں ہم خود کتاب الخراج سے کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں، جن سے اندازہ ہوگا کہ آپ نے امیراور دوسرے اہلِ ذوق کے لیے مشابہ احکام کے مجموعہ کوقواعد کا قالب پہنایا ہے، فرماتے ہیں:
(۱)"لاینبغی لاحد ان یحدث شیئاً فی طریق المسلمین ممایضرھم"۔
(کتاب الخراج، تحت موسوعۃ الخراج:۹۳)
ترجمہ:کسی کے لیے مسلمانوں کے راستہ میں ان تصرفات کا حق نہیں ہے، جن سے مسلمانوں کونقصان پہونچے۔
یہ قاعدہ بالکل اسی طرح کا ہے جوفقہاء کے یہاں "لَاضرر وَلَاضرار" سے مشہور ہے؛ اسی مضمون کی مزید تاکید اس طرح کرتے ہیں:
(۲)"لایجوز للامام ان یقطع شیئا من طریق المسلمین ممافیہ الضرر علیہم ولایسعہ ذلک"۔                   
(کتاب الخراج، تحت موسوعۃ الخراج:۹۳)
اس جملہ میں درحقیقت حکومت اور سلطنت چلانے والوں کے لیے ایک روشنی ہے، جن سے وہ دیکھ اور سمجھ سکتا ہے کہ رعیت اور عوام کے ساتھ اس کا سلوک کیسا ہو اور رعیت پراسے کیا اور کس طرح کے حقوق حاصل ہیں؟ دراصل اس میں وہی بات کہی گئی ہے جس کوبعد کے فقہاء نے مزید وسعت کے ساتھ "التصرف علی الرعیۃ حنوط بالمصلحۃ"سے تعبیر کیا ہے۔
حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ خلیفہ ہارون الرشید کے اس سوال کہ: "اگرکچھ لوگوں کی نہر ہواور اس کی منڈیر صحیح نہ ہو، جس کی وجہ سے راستے خراب ہوگئے ہوں اور لوگوں کوتکلیف ہورہی ہو توامام کیا کرے گا؟" کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
(۳)"ان کا ھذا النھر قدیما یترک علی حالہ"۔        
      (کتاب الخراج:۹۴)
ترجمہ:اگرنہرپرانی ہوتوپھر اسے اس کی حال پرچھوڑ دیا جائے گا۔
اس عبارت سے فقہاء کے قاعدہ "القدیم یترک علی قدمہ" کی تائید ہوتی ہے۔
(۴)"ولایؤخذ شئی من اموالھم الا بحق یجب علیھم"۔        
      (کتاب الخراج:۱۲۵)
ترجمہ:مسلمانوں کے مال سے کچھ بھی نہیں لیا جائے گا؛ سوائے اس کے کہ ان سے کوئی حق متعلق ہو۔
یہ بھی فقہاء کے مشہور قاعدہ "التصرف علی الرعیۃ منوط بالمصلحۃ" سے مشابہ ہے، یہ اور ان کے علاوہ کتاب الخراج میں اور بھی مثالیں ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہی قواعد کی تدوین وترتیب گواس زمانہ میں نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی لوگ اسے ایک فن کی حیثیت سے جانتے تھے؛ لیکن ان کے ذہن میں یہ بات ضرور موجود تھی کہ باہم مشابہ جزئیات کا ایسا کلیہ ہونا چاہیے جس پر اس سے متعلق جزئیات کا انطباق ہوسکے۔
دوسرا دور
قواعد فقہ کا دوسرا دور ائمہ مجتہدین کی فقہ کے استحکام کے بعد شروع ہوتا ہے، فقہ حنفی کوعلوم الفقہ میں سبقت اور اوّلیت اور اپنی وسعت ووقعت کے اعتبار سے خاص امتیاز حاصل ہے؛ چنانچہ فقہ کے دیگرفنون کی طرح فن قواعد میں بھی فقہائے احناف شرفِ تقدم سے سرفراز ہیں، اس سلسلہ میں قاضی ابویوسفؒ کے وہ منضبط قواعد گذرچکے ہیں جومختلف تالیفات اور خصوصیت سے کتاب الخراج میں مذکور ہیں؛ اسی طرح امام محمد رحمہ اللہ کی تحریروں میں متعدد مواقع پرایسے اصول اور کلیات ملتے ہیں؛ یہاں تک کہ چوتھی صدی آجاتی ہے اور ابوطاہر دباس (یہ ابوالحسن کرخی کے ہم عصر تھے، طبقات الفقہاء:۱۴۱)کے ہاتھوں اس فن کی تدوین کی باضابطہ خشتِ اوّل رکھی جاتی ہے۔
ابوطاہردباس کا واقعہ
علامہ سیوطیؒ اور علامہ ابن نجیمؒ وغیرہ نے ایک واقعہ لکھا ہے، جس سے اس فن کی تدوین کی تاریخ پرروشنی پڑتی ہے، واقعہ یوں ہے کہ ابوطاہردباس نے امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کوسامنے رکھ کرسترہ ایسے قواعد مرتب کئے، جن پرفقہ حنفی کی تمام جزئیات منطبق ہوجاتی تھیں، یہ بات ابوسعید ہروی شافعی کومعلوم ہوئی؛ چنانچہ انہوں نے ان قواعد کے حصول کے لیے ابوطاہر دباس کے یہاں سفر کیا، ابوطاہر دباس کا حال یہ تھا کہ وہ نابینا تھے اور انہوں نے یہ معمول بنارکھا تھا کہ ہررات مسجد میں لوگوںکے نکل جانے کے بعد ان قواعد کودہراتے، ابوسعید ہروی آنے کے بعد مسجد میں چھپ گئے ادھر چونکہ لوگ نکل گئے تھے، اس لیے ابوطاہر نے اپنے قواعد کودہرانا شروع کردیا، اس بیچ اچانک ایسا ہوا کہ ابوسعید ہروی کوچھینک آگئی، جس سے ابوطاہر کومعلوم ہوگیا کہ مسجد میں کوئی چھپ کرمیرے قواعد سن رہا ہے؛ چنانچہ انہوں نے ابوسعید وہاں سے اپنے رفقاء میں لوٹے توانہیں ابوطاہر کے قواعد کے متعلق بتایا۔
(الاشباہ والنظائر لابن نجیم:۱۶۔ الاشباہ والنظائر للسیوطی:۳۵۔ المنشور فی القواعد للزرکشی:۱/۱۹۔ حموی:۱/۱۰۰)
اس وقاعہ کی صحت پربعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسا ایک عالم سے مشکل ہے کہ وہ لوگوں کوعلم سے اوراس کے حاصل کرنے سے روکتے اور اگرکوئی نہ مانے تواسے زدوکوب کرے؛ پھریہ کہ جب ابوطاہر دباس نے لوگوں کویہ قواعد نہیں سنایا تویہ مشہور کیونکر ہوئے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس اس وقاعہ کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔
(الاشباہ والنظائر للسیوطیؒ:۳۶۔ تحقیق، محمدالمعتصم باللہ البغدادی)
لیکن یہ اعتراض کچھ بہت قوی نہیں؛ کیونکہ ہرشخص چاہتا ہے کہ اس کی تحقیق اور اس کی ایجاد دوسروں سے منسوب نہ ہو؛ ممکن ہے کہ ابوطاہر دباس نے ان قواعد کومنظرعام پرلانے کاارادہ اسی لیے نہیں کیا ہو کہ اس بات کا امکان تھا کہ دوسرے لوگ اس کواپنی جانب منسوب کرلیں، علمی اور قلمی سرقہ کی بعض مثالیں علم وفن کی تاریخ میں موجود ہیں، ماضی میں اس طرح کا عمل نسبتاً زیادہ ہوا کرتا تھا؛ کیونکہ اس وقت پریس کے ذریعہ نشر واشاعت کا یہ سلسلہ موجود نہ تھا۔
نیزاس پر"کتمانِ علم" کا اطلاق بھی شاید نہ ہوسکے؛ کیونکہ "کتمانِ علم" میں اس طرح کے علوم کفایہ بھی شامل ہیں محل نظر ہے؛ بحرِحال اتنا توماننا ہوگا کہ واقعہ گواپنی پوری تفصیل کے ساتھ صحیح نہ ہو؛ لیکن بالکل بے اصل بھی نہیں، شیخ زرقاء کے بقول:
"والنقل بصورۃ مستبعدۃ لاتصح تفاصیلھا ولٰکن الظاہر ان لھا اصلاً ثانیا"۔
(شرح القواعد الفقہیہ:۳۸)
ترجمہ:اس واقعہ کی روایت بعینہ صحیح نظر نہیں آتی اور نہ ہی اس کی تفصیل درست معلوم ہوتی ہے، ہاں اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔
پس مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس فن میں ابوطاہر دباس حنفی کواوّلیت حاصل ہے؛ انہوں نے جوسترہ قواعد وضح کئے ہیں، ان میں سے پانچ وہ قواعد بھی ہیں، جنھیں اساسی قواعد کہا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں:
(۱)"الامور بمقاصدھا"               
  (امور کے احکام ارادوں پرمرتب ہوں گے)
(۲)"الضرر یزال"             
(ضرر کوزائل کیا جائے )
(۳)"العادۃمحکمۃ"             
(عرف وعادت کوحکم بنایا جائے گا)
(۴)"الیقین لایزول بالشک"  
(یقین شک سے زائل نہیں ہوگا)
(۵)"المشقۃ تجلب السیر"     
(مشقت سہولت کولاتی ہے)
(شرح القواعد الفقہیہ:۳۸)
شوافع میں قواعد کے مؤسس
شوافع میں کسی کواس فن میں سبقت حاصل ہے؟ اس سلسلہ میں زرکشی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وممن لہ باع فیالقواعد وارجاع فروع الفقہ الیہا لک فقہاء الشافعیۃ القاضی حسین ابوعلی الحسین بن احمد المرور ورزی المتوفی سنہ ۴۶۲ھ فی شھر اللہ المحرم فانہ ردفقۃ الشافعیۃ الی اربع قواعد، وھی: الیقین لایزول بالشک المشقۃ تجلب التیسیر، الضرر یزال، العادۃ محکمۃ"۔            
(المشور فی القواعد:۱/۲۵)
ترجمہ:فقہائے شوافع میں سے جن لوگوں کوقواعد فقہ میں یدطولیٰ اور جزئیات کوقواعد پر منطبق کرنے میں اہمیت حاصل ہے، ان میں قاضی حسین (متوفی ماہ محرم الحرام سنہ۴۶۲ھ) ہیں جنہوں نے فقہ شافعی کوچار قاعدوں میں منحصر کردیا تھا اور وہ یہ ہیں الیقین لایزول بالشک، المشقۃ تجلب التیسیر، الضرر یزال، العادۃ محکمۃ۔
قاضی حسین کے ان چاروں قواعد کے الفاظ وہی ہیں جوابوطاہر دباس کے ہیں، اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ قاضی حسین نے یہ قواعد باس ہی سے لیے ہیں؛ البتہ فقہ شافعی پران کی تطبیق یہ ان کا کارنامہ ہے۔
اصول الکرخی
تاہم ابھی بھی اس فن کی آبیاری میں حنفیہ ہی پیش پیش رہے، چنانچہ دباس کے بعد ابوالحسن عبیداللہ بن حسین بن دلال بن دلہم الکرخی (سنہ۲۴۰ھ) نے قواعد فقہیہ پرایک مختصر وقیع رسالہ لکھا جواصولِ کرخی کے نام سے مشہور ہوا، اس میں امام کرخی نے ۸۳/اڑتیس قواعد تحریر فرمائے ہیں:
امام کرخی کا اسلوب یہ ہے کہ وہ ہرقاعدہ کو "الاصل" سے تعبیر کرتے ہیں اور شرف قواعد ذکر کرنے پراکتفا کرتے ہیں، بعد میں امام نسفی نے امام کرخی کے قواعد پرتخریج کی ہے، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
(۱)"الاصل ان السؤال یجری علی حسب متعارف کل قوم فی مکانھم"۔
(اصول الکرخی ملحق بتاسیس النظر:۸۱)
ترجمہ:اصل یہ ہے کہ سوال ہرقوم کی جگہوں کے عرف کے مطابق جاری ہوگا۔
امام نسفیؒ نے اس کی مثال دی ہے کہ اگرکوئی شخص قسم کھائے کہ میں غذا کا استعمال نہیں کرونگا تودیکھا جائے گا کہ وہ عربی ہے یاعجمی؟ اگرعربی ہوگا توحانث ہوجائے گا؛ کیونکہ عرب دودھ کوغذا کے طور پراستعمال کرتے ہیں اور قسم ھانے والا عجمی ہوتو حانث نہیں ہوگا؛ کیونکہ عجمی دودھ کوبطورِ غذا کے استعمال نہیں کرتے۔
(۲)"الاصل ان الاحتیاط فی حقوق اللہ تعالیٰ جائزوفی حقوق العباد لایجوز"۔
(اصول الکرخی ملحق بتاسیس النظر:۸۲)
ترجمہ:اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں احتیاط جائز ہے اور بندوں کے حقوق میں احتیاط جائز نہیں۔
اس قاعدہ پرجن مسائل کی تخریج کی جاتی ہے، ان میں سے یہ ہے کہ نماز میں اگرصحت اور فساد کی دونوں جہتیں برابر ہوں تواحتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نماز کا اعادہ کرلیا جائے؛ کیونکہ ادا کی ہوئی نماز کوپھرادا کرنا اس سے بہتر ہے کہ اپنے اوپر واجب نماز صحیح طور پرادا نہ ہوسکے؛ لیکن ضمان میں وجوب اور عدمِ وجوب کی دونوں جہتیں ہوں، توضمان احتیاطاً واجب نہ ہوگا؛ کیونکہ ضمان شک سے واجب نہیں ہوتا۔
(۳)"الاصل انہ اذامضی بالاجتہاد لایفسخ باجتھاد مثلہ ویفسخ بالنص"۔
(اصول الکرخی ملحق بتاسیس النظر:۸۵)
ترجمہ:اصل یہ ہے کہ جب کسی مسئلہ میں اجتہاد ہوجائے تواس اجتہاد کواسی جیسا اجتہاد فسخ نہیں کرسکتا؛ لیکن نص اسے فسخ کردے گا۔
اس کی مثالیں دعویٰ قضاء اور تحری کے ابواب میں ملیں گی، اصول الکرخی میں بعض ایسے بھی اصول آگئے ہیں جن کوایک نظریہ توکہا جاسکتا ہے؛ لیکن قاعدہ نہیں کہا جاسکتا؛ کیونکہ قاعدہ کی جوتعریف کی گئی ہے، وہ اس پرصادق نہیں آتی، یعنی وہ اصل مشابہ احکام کا مجموعہ نہیں ہوتا، جن کواصل بناکر جزئیات کی تخریج کی جائے؛ بلکہ وہ اصول کے درجہ کی چیز ہے، مثلاً امام کرخی لکھتے ہیں:
"اصل یہ ہے کہ ہروہ خبرہمارے اصحاب کی رائے کے خلاف ہواسے نسخ کے اوپر محمول کیا جائے گا یااس بات پرکہ وہ اسی کے مثل کسی نص سے معارض ہے؛ پھرانہوں نے دوسری دلیل کی جانب توجہ کی یاترجیح کا وہ راستہ اختیار کیا جوہمارے اصحاب وجوہِ ترجیح میں سے بطورِ استدلال کے احتیاط کرتے ہیں؛ لیکن ایسا دلیل کے مطابق کیا جائے گا؛ چونکہ اگرنسخ کی دلیل قائم ہوگئی تواسے نسخ پرمحمول کیا جائے یااگرکوئی دوسری دلیل قائم ہوگئی توہم اس دوسری دلیل کی جانب رجوع کریں گے"۔
(اصول الکرخی ملحق بتاسیس النظر:۸۱)
تاسیس النظر
امام کرخی کے بعد پانچویں صدی میں ابوزید دبوسی (۴۳۰ھ) نے "تاسیس النظر" لکھی جس میں ستتر قواعد ذکر کئے گئے ہیں، ان قواعد کا اسلوب امام کرخی ہی جیسا ہے، یہ بھی قاعدہ لو "الاصل" ہی سے تعبیر کرتے ہیں، تعبیر بھی امام کرخی جیسی ہے، ابوزید دبوسی نے ہرقاعدہ کے تحت کچھ جزئیات بھی ذکر کردی ہیں، اس کتاب کوانہوں نے کئی ابواب میں تقسیم کیا ہے، جس میں امام صاحب اور صاحبین کے درمیان شیخین اور امام محمدکے درمیان، ائمہ ثلاثہ اور امام زفر کے درمیان؛ نیز امام ابوحنیفہ اور امام مالک اور امام ابوحنیفہؒ اور ابن ابی لیلی کے درمیان اختلاف پرمبنی اساسی قواعد کا ذکر ہے؛ چونکہ یہ کتاب قواعدِ فقہیہ کی تدوین کے دوسرے دور کی باضابطہ تصنیف ہے، اس لیے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ "تاسیس النظر" سے بھی کچھ مثالیں پیش کرتے چلیں:
(۱)"الاصل عندابی حنیفۃ ان المحرم اذااحز النسک من الوقت المؤقت لہ اوقدمہ لزم دم"۔                         
(تاسیس النظر:۵)
ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک محرم جب وقت مقرر سے کسی عمل کومؤخریامقدم کرے تواسے دم دینا ہوگا۔
مثلاً جس نے طوافِ زیارت کوایامِ نحر کے گذرنے تک مؤخر کیا تواسے دَم دینا ہوگا؛ کیونکہ محرم نے ایک کام کواس وقت نہیں کیا، جب کہ اسے کرنا چاہیے تھا۔
(۲)"الاصل عند اصحابنا ان مالایتجزأ فوجود بعضہ کوجود کلہ وعندزفر لایکون وجود بعضہ کوجود کلہ"۔            
(تاسیس النظر:۴۴)
ترجمہ:ہمارے اصحاب کے نزدیک اصول یہ ہے کہ بعض غیرمنقسم چیزوں کا وجود اس کے کل کے وجود کی طرح ہے؛ لیکن امام زفرکے یہاں بعض کا وجود کل کا وجود نہیں ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ اگرکسی شخص نے اپنے اوپرایک رکعت کولازم کرلیا تواسے دورکعت ادا کرنی ہوگی، امام زفرکے نزدیک کچھ واجب نہیں ہوگا، ائمہ ثلاثہ اس لیے واجب کہتے ہیں کہ دورکعت غیرمنقسم ہے، اس لیے جب اس نے ایک رکعت کواپنے اوپرواجب کرلیا توبعض کا وجود ہوگیا اور بعض غیرمنقسم کا وجود کل کے وجود کی طرح ہے، جب کہ امام زفر کہتے ہیں کہ کچھ بھی واجب نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس نے اپنے اوپر ایک ہی رکعت کوواجب کیا ہے، جوکہ نماز ہی نہیں ہے؛ بلکہ نماز کا ایک غیرمنقسم جزو ہے اور غیرمنقسم چیز کے ایک جزوکا وجود کل کے وجود کے لیے لازم نہیں ہے۔
(۳)"الاصل عند الامام مالک بن انسؓ ان العزم علی الشئی بمنزلۃ المبائرۃ لذلک الشئی بمنزلۃ المبائرۃ لذلک الشئی عندنا"۔                
  (تاسیس النظر:۵۰)
ترجمہ:ابن ابی لیلی کے نزدیک اصول یہ ہے کہ وہ حقوق اللہ کوحقوق العباد پرقیاس کرتے ہیں۔
مثال یہ ہے کہ ابن ابی لیلی کے نزدیک حدود کی وصولی میں وکیل بنانا جائز ہے، جوکہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے؛ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بندوں کے حقوق میں وکیل بنانا جائز ہے، جیسا کہ قرضٰں وغیرہ کی وصولی میں ہوتا ہے، ہمارے یہاں جائز نہیں؛ کیونکہ ایک کودوسرے پرقیاس نہیں کیا جاسکتا۔
ساتویں صدی کا کام
پھرچوتھی صدی کے بعد ساتویں صدی میں اس سلسلہ کا اہم کام ملتا ہے، اس دور میں علامہ محمدبن ابراہیم جاجرمی کی کتاب "القواعد فی فروع الشافعیۃ" محمدبن عبداللہ بن راشد البکری کی کتاب "المذہب فی ضبط قواعد المذہب" منظر عام پر آئی۔
اسی صدی میں لکھی جانے والی مایۂ ناز کتاب علامہ قرافی مالکیؒ (۶۸۴ھ) کی "کتاب الفرق" ہے، جسے قواعدفقہیہ میں نمایاں حاصل ہے، علامہ قرافی نے اس کتاب میں ۵۸۸/قواعد ذکر کئے ہیں، ساتھ ہی فروعات کے ذکر کابھی اہتمام کیا ہے؛ تاکہ قاعدہ کے سمجھنے میں مدد ملے، علامہ قرافی کا اسلوب یہ ہے کہ وہ دویادوسے زیادہ قاعدوں کوایک ساتھ ذکر کرتے ہیں؛ پھردقیقہ سنجی سے دونوں کے فرق کوواضح کرتے ہیں، مثلاً کہیں خیارِمجلس اور خیارِ شرط (الفروق:۱/۳)کہیں قرض اور بیع کے قاعدہ کوایکساتھ بیان کرتے ہیں (الفروق:۴/۲)اور دونوں کودلائل سے مبرہن کرتے ہیں؛ نیز ان کے باہمی فرق کو اجاگر کرتے ہیں۔
تاہم یہ قاعدہ جن پرہم بحث کررہے ہیں کہیں ایک باب میں مذکور نہیں ہیں؛ بلکہ وہ متفرق ابواب میں بکھرے ہوئے ہیں اور ان کی تعداد سوسے متجاوز نہیں۔
آٹھویں صدی میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا، اس صدی میں فقہائے شوافع کی خدمات نمایاں نظر آتی ہیں، اس صدی میں مقری (۷۱۶ھ) کی کتاب "کتاب القواعد" تاج الدین سبکی (۷۷۱ھ) کی کتاب "الاشباہ والنظائر" بدرالدین زرکشی (۷۹۴ھ) کی "المنشور فی القواعد" اور ابن رجب حنبلی کی "القواعد فی الفقہ" قواعد کی دنیا میں منصۂ شہود پرجلوہ گرہوئیں۔
الاشباہ والنظائر
اس کے بعد بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں؛ لیکن جوشہرت اور مقبولیت علامہ ابن نجیم (۹۲۶ھ، ۹۷۰ھ) کی"الاشباہ والنظائر" کوحاصل ہوئی وہ کسی اور کتاب کونہیں ہوئی، اس میں علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی "اشباہ والنظائر"سے کافی فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
اس کتاب کوعلامہ ابن نجیم نے کئی فنون میں تقسیم کیا ہے، پہلا فن ان پانچ قاعدوں پرمشتمل ہے؛ جنھیں اساسی کہا جاتا ہے؛ نیزاسی فن میں دوسری نوع کے قواعد بھی ہیں، جوبے حداہم ہیں، دوسرا فن فوائد پرمشتمل ہے، اس فن میں انہوں نے تمام فقہی ابواب کوترتیب وارذکر کیا ہے اور اس کی اہم بحثیں جمع کی ہیں؛ پھراس کے بعد مختلف عنوان سے ۱۸/فوائد لکھے ہیں، تیسرا فن فروق پرمشتمل ہے، جس میں منشاء احکام میں فرق پرروشنی ڈالی گئی ہے، پانچواں فن اشباہ ونظائر کا، چھٹافن حیل کا اور ساتواں فن حکایات کا ہے، اس کتاب کی متعدد اہم شرحیں بھی لکھی گئی ںہیں، جن میں حموی کی "غمزعیون البصائر" خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔
تیسرا دور
ابن نجیم کی "الاشباہ والنظائر" کے بعد اور بھی کئی کتابیں معرض وجود میں آئیں؛ لیکن یہ قواعد وضوابط خاصے منتشر تھے اورعام طور پرکتبِ فقہ سے ان کا ربط بھی نہ تھا، خلافتِ عثمانیہ ترکی کی زیرِنگرانی مرتبہ "مجلۃ الاحکام العدلیہ"میں فقہی جزئیات سے مربوط کرکے ان قواعدکو یک جاکیا گیا ہے، جوقواعد فقہ کے باب میں ایک انقلابی قدم ہے؛ نیز ایسے قواعد کے نقل کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے جوجامع اور مانع ہوں؛ نیز اس میں اساسی قواعد کوبھی ذکر کیا گیا ہے اور دوسرے قواعد کوبھی؛ یہاں اس بات کا 
ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مجلہ میں بعض ایسے قواعد بھی ہیں، جومتقارب یامتداخل ہیں؛ نیزقواعد میں ترتیب کی بھی رعایت نہیں کی گئی ہے
 (دیکھئے، مجلۃ الاحکام العدلیۃ، مادۃ:۱۲،۶۰،۶۱،۶۲) مثلاً کہیں کسی نمبرپر ایک قاعدہ ہے توہونا یہ چاہےئے کہ اس میں معذرج قاعدہ کا ذکر اس کے ساتھ کردیا جاتا، اب اخیر میں مختلف دبستانِ فقہ میں قواعدِ فقہیہ کے مصادر کا ذکر کیا جاتا ہے۔
قواعدِ فقہیہ کے مصادر
(۱)اصولِ کرخی                                             مؤلف: امام کرخیؒ (۲۶۰ھ، ۳۴۰ھ)
(۲)تاسیس النظر                                              مؤلف:ابوزید دبوسی (۴۳۰ھ)
(۳)الاشباہ والنظائر                                            مؤلف:ابن نجیم (۹۲۶ھ، ۹۷۰ھ)
(۴)تنویرالبصائر علی الاشباہ والنظائر                          مؤلف:شرف الدین عزی (۱۰۰۵ھ)
یہ ابنِ نجیمؒ "الاشباہ والنظائر" کی شرح ہے، جس میں مؤلف نے ابن نجیمؒ کے بعض تسامح کی نشاندہی کی ہے اور بعض ان مسائل پربحث کی ہے، جوعلامہ ابن نجیم سے چھوٹ گئے ہیں۔
(۵)غمزعیون البصائر علی الاشباہ والنظائر                  مؤلف:احمد بن محمدحموی (۱۰۹۸ھ)
یہ بھیابن نجیم کی "الاشباہ والنظائر" کی شرح ہے، جو اپنی تحقیق وتدقیق میں انفرادی مقام رکھتی ہے، حموی نے "الاشباہ" کے بعض تسامحات پرمتنبہہ کرنے کے ساتھ تشریح طلب عبارت کی تشریح وغیرہ کا بھی اہتمام کیا ہے۔
(۶)خاتمہ مجامع الحقائق                                   مؤلف:محمدبن محمدبن مصطفیٰ خادی (۱۱۷۶ھ)
کتاب تودراصل "مجامع الحقائق" ہے، جواصولِ فقہ کی ہے؛ لیکن اخیر میں خاتمہ کے عنوان سے ۱۵۰/فقہی قواعد کوحروفِ تہجی کی ترتیب سے ذکر کیا گیا ہے۔
(۷)مجلۃ الاحکام العدلیہ                      مؤلف:حکومتِ عثمانیہ کی زیرِنگرانی علماء کی ایک جماعت نے اس کی ترتیب کا فریضہ انجام دیا۔
(۸)الفوائد البہیۃ فی القواعد والفوائد الفقہیہ         مؤلف:محمد بن محمدبن نسیب بن حسین الشہیر بابن حمزہ (۱۳۰۵ھ)
ابن حمزہ کا مقصود اس تالیف سے یہ ہے کہ مفتی حضرات بہ آسانی فقہی قواعد تک رسائی حاصل کرسکیں؛ چنانچہ انہوں نے فقہی ابواب کی ترتیب سے قواعد کا ذکر کیا ہے اور ہرباب کے تحت اس سے متعلق قواعد اور ضوابط پیش کئے ہیں۔
مذہبِ مالکی
(۱)الفروق                        مؤلف:ابوالعباس احمد بن ابی العلاء ادریس بن عبدالرحمن الشہیر بالقرافی (۶۸۴ھ)
(۲)ایضاح المسالک الی القواعد الاما       مؤلف:احمد بن یحییٰ بن محمدابونشریسی (۹۱۴ھ)

(۳)الاسعاف                                مؤلف:ابوالحسن علی بن قاسم التجیسی (۹۱۲ھ)
(۴)شرح المنظومہ                        مؤلف:احمد بن علی الفاسی (۹۹۵ھ)
مذہب شافعی
(۱)قواعد الاحکام فی مصالح الانام            مؤلف: عزالدین بن عبدالسلام السلمی (۵۷۷ھ، ۶۶۰ھ)
قواعد فقہیہ میں شافعی مذہب کے مطابق یہ سب سے تصنیف ہے۔
(۲)کتاب الاشباہ والنظائر                         مؤلف:ابن وکیل شافعی (۷۱۶ھ، ۶۶۵ھ)
(۳)المجموع المذہب فی قواعد المذہب         مؤلف: خلیل بن کیکلیدی، الشھیر بابن وکیل (۶۹۴ھ، ۶۶۱ھ)
(۴)الاشباہ والنظائر                                  مؤلف:تاج الدین سبکی (۷۲۷ھ، ۷۷۱ھ)
(۵)المنشور فی القواعد                            مؤلف:محمد بن بہادر بن عبداللہ زرکشی (۷۴۵ھ، ۷۹۴ھ)
(۶)الاشباہ والنظائر                                مؤلف:عمربن علی بن احمد المعروف بابن الملقی (۷۲۳ھ، ۷۹۴ھ)
(۷)القواعد                                       مؤلف:ابوبکربن محمدبن عبدالمؤمن الحصنی الشافعی (۷۵۲ھ، ۸۲۹ھ)
(۸)الاشباہ والنظائر                              مؤلف:عبدالرحمن بن ابی بکر بن محمدجلال الدین سیوطی (۸۴۹ھ، ۹۱۱ھ)
(۹)الاستغناء فی الفروق والاستغناء            مؤلف:محمدبن ابی بکر بن سلیمان البکری الشافعی۔
مذہب حنبلی
(۱)القواعد النورانیۃ الفقہیہ                  مؤلف:ابن تیمیہ (۶۶۱ھ، ۷۲۸ھ)
(۲)القواعد الفقہیہ                        مؤلف:احمد بن حسن بن عبداللہ الشہیر بابن القاضی الجبل (۶۹۳ھ، ۷۷۱ھ)
(۳)القواعد                                  مؤلف:ابن رجب حنبلی (۷۹۵ھ)
(۴)القواعد الکلیہ والضوابط الفقہیہ       مؤلف: ابن عبدالہادی (۸۴۰ھ، ۹۰۹ھ)
(۵)قواعد مجلۃ الاحکام الشرعیۃ علی مذہب ا     مؤلف:احمد بن عبداللہ القاری الحنفی (۱۳۰۹ھ، ۱۳۹۵ھ)


حنفی قواعد فقہ میں الفاظ قرآن و حدیث کی رعایت


تاحد نظر پھیلی ہوئی یہ زمین کتنی ہی تہذیبوں کا مدفن اور بے شمار علوم وفنون کامظہر ہے، سیدنا آدم علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس دم آسمان سے اس دھرتی کے سینے پر قدم رکھا، حیوانوں اور جنوں سے بھری ہوئی اس دنیا میں علم وفن کے چراغ اور فکر نظر کے دیپ جل اُٹھے، اس وقت سے آج تک تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا، جس میں اولاد آدم کا قافلہ مکمل طور پر اس مشعلِ راہ سے تہی دست ومحروم ہوکر حیوانیت کی تاریک راہوں میں بھٹک گیا ہو، ساتویں صدی عیسوی میں اسلام کی آمد کے بعد علم وفن کے صحن میں ایک نئی صبح نمودار ہوئی اور تحقیق ومعرفت کے بند دروازے کھلے، آپ دنیا میں جس طرف بھی نظر اٹھائیں گے، مختلف علوم کی ایک آباد بستی نظر آئے گی، چاہے ان علوم کا تعلق دین ومذہب سے ہویادنیا ومافیہا سے، روحانیت سے ہویامادیت سے، علوم وفنون کی اس کہکشاں کا ایک روشن حصہ علم فقہ ہے، جس کوسیکھنے کا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کوتاکیدی حکم دیا ہے۔                
      (التوبہ:۱۲۲)
جس طرح ہرعلم کے کچھ قواعد واصول (Principle) ہوتے ہیں، جن پر اس علم کی عمارت قائم رہتی ہے؛ اسی طرح فقہ کے بھی کچھ قواعد ہیں، جن کے گرد فقہ کی تمام جزئیات چکرلگاتی ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ گفتگو کودراز کرنے سے پہلے قواعد فقہیہ کی تعریف کردی جائے؛ تاکہ ان کے مباحث کا سمجھنا آسان ہوجائے، قواعدِ فقہیہ کی مختلف انداز سے علماء نے تعریف کی ہے؛ لیکن سب سے جامع تعریف وہ ہے جوفقیہ العصر استاذ مصطفےٰ الزرقاء نے فرمائی ہے، قواعد فقہیہ کی تعریف کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں:
"أصول فقهية كلية في نصوص موجزة دستورية تتضمن أحكاما تشريعية عامة في الحوادث التي تدخل تحت موضوعها"۔
(التطبيقات الفقهية لقاعدة اليسير مغتفر في البيوع، "التمھید":۴/۷، شاملہ، الإشراف العلمي: فضيلة الشيخ الدكتور يوسف بن عبد الله الشبيلي)
وہ عمومی فقہی اصول ہیں، جن کومختصر قانونی زبان میں مرتب کیا گیا ہو اور جن میں ایسے عمومی قانونی اور فقہی احوال بیان کئے گئے ہوں، جواس موضوع کے تحت آنے والے حوادث وواقعات کے بارے میں ہوں۔
ڈاکٹرمحمود احمد غازی ان قواعد کی قانونی حیثیت پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"قاعدہ کلیہ کی حیثیت صرف یہ ہے کہ وہ زیرِبحث موضوع سے متعلق فقہ اسلامی کی عمومی فکراور منہاج کوواضح کرتا ہے، اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں مسئلہ میں فقہی رخ معلوم کرنے کا عمومی اسلوب کیا ہے؛ لہٰذا جس طرح فقہ کے دوسرے جزئی اور فروعی احکام براہِ راست یابالواسطہ قرآن وسنت سے ماخوذ ہیں؛ اسی طرح قواعدِ کلیہ بھی قرآن وسنت سے ماخود ہیں؛ اگرکوئی قاعدہ کلیہ قرآن وسنت کے کسی حکم سے متعارض ہوتو اسکی سرے سے کوئی حیثیت نہیں ہے"۔
(قواعد ِکلیہ اور ان کا آغاز وارتقاء، مقالہ ڈاکٹرمحموداحمد غازی، سہ ماہی مجلہ، بحث ونظر صفحہ نمبر:۱۴)
اسی طرح قوعاد فقہ کے اہم مقاصد اور فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے "مجلۃ الاحکام" کے مرتبین وشارحین رقمطراز ہیں:
"فقہی احکام کی پشت پر جوعمومی اندازِ فکر کارفرما ہے، اس سے ایک عمومی واقفیت پیدا کرنے کے لیے اِن قواعد کا مطالعہ ناگزیر ہے، قواعدِ کلیہ کے مطالعہ سے فقہی احکام سے ایک گونہ مناسبت پیدا ہوجاتی ہے، قواعد کلیہ کے مطالعہ سے فقہ اسلامی میں گہرا درک حاصل ہوجاتا ہے، منتشر ومتفرق فقہی مسائل کومرتب ومنضبط کرنے اور انھیں ایک مربوط قانونی نظام کے تحت لانے میں مدد ملتی ہے، فروع وجزئیات چونکہ بے شمار ہیں اس لیے ان سب کے تفصیلی دلائل یاد کرنا اور مستحضر رکھنا مشکل ہے؛ اگرقواعدِ کلیہ اور ان کے ماخذ ودلائل سے ایک بار واقفیت پیدا ہوجائے توان کے تحت آنے والے فروع وجزئیات کی جڑ ہاتھ آجاتی ہے، قواعدِ کلیہ سے واقفیت کے بعدانسان کے لیے روزمرہ زندگی میں شریعت کے نقطہ نظر کوجاننا اور اپنے معاملات پر منطبق کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
(دررالحکام شرح مجلۃ الأحکام:۱/۱۱، طبع بیروت)
مذکورہ اقتباسات سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
(الف)قواعد فقہ کواسلام کے مزاج اور عمومی فکروفلسفہ کوسامنے رکھ کر  مرتب کیا گیا۔
(ب)اس کا مقصد فقہ اسلامی کے انداز تفکیر اور فقہی حکم معلوم کرنے کے صحیح طریقۂ کار سے واقفیت حاصل کرنا؛ نیزبے شمار فروع مسائل کے دریا کوچند اصولی قواعد کے کوزہ میں بند کرنا ہے؛ تاکہ استخراجِ مسائل کے ساتھ ساتھ استحضارِ مسائل میں بھی آسانی کی راہ ہموار کی جاسکے۔
(ج)فروع مسائل کی طرح یہ اصولی قواعد بھی کتاب وسنت ہی سے ماخوذ ہیں، ان کا سرچشمہ قرآن وحدیث یااجماعِ صحابہ کے علاوہ دوسری چیز نہیں ہے۔
دورِ حاضر میں جہاں فقہی مسائل وجزئیات پر بے جااعتراضات کئے گئے، وہیں قواعد فقہ کوبھی طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا گیا اور یہ غلط پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ قواعد وضوابط قرآن وحدیث پر عمل نہ کرنے کا مہذب حیلہ اور بہانہ ہیں؛ پھریہ بھیانک تہمت فقہاء پرلگائی کہ وہ پہلے ایک قاعدہ بناتے ہیں؛ پھرنصوص کواسی قاعدہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے آثار نبویہ کی رعایت رہے یا نہ رہے (سُبْحَانَکَ ھَذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ)۔
اگرچہ قواعد فقہ کی مفصل کتابیں اور فقہی قاعدوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے والوں کے سامنے ان الزامات واعتراضات کی کوئی وقعت نہیں ہے؛ پھربھی بطورِ نمونہ ذیل میں چند فقہی قواعد بیان کرکے حدیث پاک سے ان کی تائیدات ودلائل پیش کیئے جاتے ہیں، جن سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ ان قواعد کے خمیر میں بھی حدیث وسنت ہی کا ماءِ شیریں موجود ہے۔
(۱)فقہی قاعدہ
"لَاثَوَابَ إلَّابِالنِّيَّةِ"۱؎۔                      
   ثواب کا دارومدار نیت پر ہے۔
اس قاعدہ کو فقہاء "الْأُمُورُ بِمَقَاصِدِهَا" کے الفاظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، یعنی ہرکام کی اچھائی اور برائی کا دارومدار فاعل کی نیت پر ہے؛ اگر اس کی نیت ثواب کی ہے اور شریعت میں اس عمل کی اجازت بھی ہے توثواب ملے گا اور اگر کام جائز ہولیکن کام کرنے والے کی نیت بری ہوتو وہی کام گناہ کا سبب بن جائے گا؛ اسی طرح کوئی شخص بغیر نیت کے کوئی مباح کام کرے تواس کونہ ثواب ملے گا نہ گناہ ہوگا، غور کیا جائے تویہ قاعدہ درجِ ذیل حدیث سے مستنبط ہے، امام بخاریؒ حضرت عمرؓ سے نبی کریم  کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
"إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَالِكُلِّ امْرِئٍ مَانَوَى"۲؎۔
اعمال (کے ثواب) کا دارومدار نیت پر ہے، ہرآدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔
(۱)الاشباہ والنظائر لابنِ نجیمؒ:۲۵، الفن الاول، مطبوعہ:یاسرندیم اینڈ کمپنی دیوبند۔ (۲)بخاری،بدْءِ الْوحْيِ، حدیث نمبر:۱، شاملہ، موقع الإسلام۔
(۲)فقہی قاعدہ 
"الْيَقِينُ لَايَزُولُ بِالشَّكِّ"۳؎۔              
    شک کی وجہ سے یقین زائل نہیں ہوتا۔
یعنی اگرایک شخص کوکسی کام کے ہونے یانہ ہونے کا پورا یقین تھا؛ پھرکسی وجہ سے شک پیدا ہوگیا تواس شک کی وجہ سے وہ یقین ختم نہیں ہوگا؛ بلکہ وہ بحالہ برقرار رہے گا اور شک پر عمل نہیں کیا جائے گا، یہ قاعدہ اس صحیح حدیث سے ماخوذ ہے، جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں نقل فرمایا ہے:
"إِذَاشَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى ثَلَاثًا أَمْ أَرْبَعًا فَلْيَطْرَحْ الشَّكَّ وَلْيَبْنِ عَلَى مَااسْتَيْقَنَ"۴؎۔
اگرکسی کو دورانِ نماز شک ہوجائے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہے یاچار رکعت، تووہ شک کوچھوڑ دے اور جس کا یقین ہو اس پر عمل کرے۔
(۳)الاشباہ والنظائر:۱/۱۰۰۔ القواعد الفقہیۃ:۳۵۴، للشیخ علی احمد الندوی۔ (۴)مسلم، كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ،بَاب السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ وَالسُّجُودِ لَهُ،حدیث نمبر:۸۸۸، شاملہ، موقع الإسلام۔
(۳) فقہی قاعدہ
"مَنْ تَيَقَّنَ الْفِعْلَ وَشَكَّ فِي الْقَلِيلِ، وَالْكَثِيرِ حَمَلَ عَلَى الْقَلِيلِ؛ لِأَنَّهُ الْمُتَيَقَّنُ"۵؎۔
جس شخص کوکسی فعل کے وجود کا یقین ہو؛ لیکن کمی وزیادتی میں شک ہوجائے تواس فعل کوقلیل پر محمول کیا جائے گا؛ کیونکہ وہ یقینی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو کسی عبادت وغیرہ کی مقدار میں اشتباہ (Doubt) ہوجائے، مثلاً نماز میں یاروزہ میں شبہ ہوجائے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہے یاچار رکعت، چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء کے باےر میں شک ہوجائے کہ دس روزہ کی قضاء کی ہے یا آٹھ کی، تواس صور میں حکم یہ ہے کہ کم تعداد پر عمل کرتے ہوئے تین رکعت اور آٹھ روزوں کی قضاء مانی جائے گی؛ کیونکہ تین اور چار؛ اسی طرح آٹھ اور دس میں، تین اور آٹھ تویقینی ہیں، زائد میں شک ہے؛ لہٰذا مذکورہ قاعدہ کے مطابق کم تعداد کویقینی مان کر اسی پر عمل کیا جائے گا، یہ قاعدہ مذکورۂ ذیل کی حدیث  نبویسے مستنبط ہے، جسے امام ترمذیؒ نے نقل کیا ہے، آپ  کا ارشاد ہے:
"إِذَاسَهَا أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ وَاحِدَةً صَلَّى أَوْثِنْتَيْنِ فَلْيَبْنِ عَلَى وَاحِدَةٍ فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثِنْتَيْنِ صَلَّى أَوْثَلَاثًا فَلْيَبْنِ عَلَى ثِنْتَيْنِ فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثَلَاثًا صَلَّى أَوْأَرْبَعًا فَلْيَبْنِ عَلَى ثَلَاثٍ"۶؎۔
اگرکوئی شخص نماز میں بھول جائے اور اس کوشک ہوجائے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یادورکعت؛ تووہ ایک رکعت پر نماز کی بناء کرے اور اگرشک ہوجائے کہ دورکعت پڑھی ہے یاتین رکعت تووہ دورکعت کا اعتبار کرتے ہوئے نماز پوری کرے اور اگرشک ہوجائے کہ تین رکعت پڑھی ہے یاچار، تووہ تین رکعت پر بناء کرے۔
(۵)الاشباہ والنظائر:۱۰۵۔ (۶)ترمذی،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فَيَشُكُّ فِي الزِّيَادَةِ وَالنُّقْصَانِ،حدیث نمبر:۳۶۴، شاملہ، موقع الإسلام۔
(۴)فقہی قاعدہ 
"الْمَشَقَّةُ تَجْلُبُ التَّيْسِيرَ"۷؎۔                      
  مشقت آسانی کولاتی ہے۔
یعنی اگرکسی حکم پر عمل کرنے میں اجتماعی دشواری ہو اور اس عمل کوبہت زیادہ تکلیف ومشقت کے بغیر نہ کیا جاسکتا ہوتو اس میں تخفیف اور آسانی پیدا کرتی جاتی ہے، اس قاعدہ کی دلیل یہ احادیثِ صحیحہ ہیں:
"لَوْلَاأَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْعَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلَاةٍ"۸؎۔
اگرمجھے امت پر یالوگوں پر تنگی اور مشقت کا خوف نہ ہوتا تومیں ان کوہرنماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے:
"أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعِشَاءِ فَخَرَجَ عُمَرُ فَقَالَ الصَّلَاةَ يَارَسُولَ اللَّهِ رَقَدَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ فَخَرَجَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ يَقُولُ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْعَلَى النَّاسِ وَقَالَ سُفْيَانُ أَيْضًا عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالصَّلَاةِ هَذِهِ السَّاعَةَ"۹؎۔
نبی کریم  ایک مرتبہ عشاء کی نماز کے لیے بہت دیرتک تشریف نہیں لائے، جب بہت دیر ہوگئی توحضرت عمرؓ باہر نکلے اور آواز لگائی، اے اللہ کے رسول ! نماز (کے لیے بہت دیرہوگئی ہے) عورتیں اور بچے سوگئے ہیں، اس کے بعد آپ  اس حالت میں باہر آئے کہ آپ کے سرسے پانی ٹپک رہا تھا اور فرمایا: اگرمیری امت پر، یافرمایا:لوگوں پر، مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تومیں ان کوحکم دیتا کہ وہ اس نماز کواسی وقت ادا کریں۔
ان احادیث میں نبی کریم نے مشقت وتنگی کے پیشِ نظر امت پر ااسانی فرماتے ہوئے ان دونوں باتوں کاحکم نہیں دیا۔
(۷)القواعد الفقہیۃ:۱۳۶۔ الاشباہ والنظائر:۱۲۵۔ (۸)بخاری، كِتَاب الْجُمُعَةِ،بَاب السِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ،حدیث نمبر:۸۳۸، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۹)بخاری، كِتَاب التَّمَنِّي،بَاب مَايَجُوزُ مِنْ اللَّوْ،حدیث نمبر:۶۶۹۸، شاملہ، موقع الإسلام۔
(۵)فقہی قاعدہ 
"الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ"۱۰؎۔          
    ضرورت ممنوعات کومباح کردیتی ہے۔
یعنی مجبوری کی صورت میں شریعت کی حرام کردہ اور ممنوع چیز کوضرورت کی حد تک استعمال کرنا درست اور جائز ہے، مثلاً: شراب اور خنزیر کاگوشت حرام ہے؛ لیکن مجبوری کی حالت میں جب کہ موت کا اندیشہ ہو ان چیزوں کوکھانا جائز ہے، مندرجۂ ذیل احادیث صحیحہ سے اس قاعدہ کی تائید ہوتی ہے۔
شریعت کا ضابطہ ہے کہ جوشخص حج کوجائے تووہ ۱۰/ذی الحجہ کوذبح کے بعد اپنے بال کٹائے گا؛ لیکن ضرورت کی بناء پرآپ  نے اس سے پہلے بھی بال کاٹنے کی اجازت دی ہے؛ چنانچہ حضرت کعب بن عجرۃؓ فرماتے ہیں:
"أَنَّ النَّبِيَّ  مَرَّبِهِ وَهُوَبِالْحُدَيْبِيَةِ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ مَكَّةَ وَهُوَمُحْرِمٌ وَهُوَيُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ وَالْقَمْلُ يَتَهَافَتُ عَلَى وَجْهِهِ فَقَالَ أَتُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ هَذِهِ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ احْلِقْ"۱۱؎۔
مکہ میں داخل ہونے سے پہلے نبی رحمت حدیبیہ کے مقام پر میرے پاس سے گزرے، میں اس وقت حالتِ احرام میں تھا، سرکی جویں (کثرت کی وجہ سے) میرے چہرے پر رینگ رہی تھیں، رسول اللہ  نے فرمایا: کیایہ جوئیں تم کوپریشان کررہی ہیں؟ میں نے جواب دیا ہاں! اے اللہ کے رسول ؛ توآپ  نے مجھے بال کٹالینے کا حکم دیا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبوری کی وجہ سے ریشم کاکپڑا پہننے کی اجازت دی:
"رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْرُخِّصَ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فِي لُبْسِ الْحَرِيرِ لِحِكَّةٍ كَانَتْ بِهِمَا"۱۲؎۔
رسولِ خدا نے حضرت زبیرؓ اور حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کوخارش کی وجہ سے ریشم کالباس پہننے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
ریشم کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہے؛ لیکن ضرورت کی بناء پر آپ  نے اس کے استعمال کی اجازت دی۔
(۱۰)الاشباہ:۱۴۰۔ القواعد     الفقہیۃ:۳۰۸۔ (۱۱)ترمذی،كِتَاب الْحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْمُحْرِمِ يَحْلِقُ رَأْسَهُ فِي إِحْرَامِهِ مَاعَلَيْهِ،حدیث نمبر:۸۷۶، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۱۲)مسلم، كِتَاب اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ،بَاب إِبَاحَةِ لُبْسِ الْحَرِيرِ لِلرَّجُلِ إِذَاكَانَ بِهِ حِكَّةٌ أَوْنَحْوُهَا،حدیث نمبر:۳۸۷۰، شاملہ، موقع الإسلام۔
(۶)فقہی قاعدہ 
"لَاضَرَرَ وَلَاضِرَارَ"۱۳؎۔       
   نہ ابتداً کسی کا نقاص کرو نہ انتقاماً۔
(۱۳)القواعد الفقہیۃ:۳۹۰۔
(۷)فقہی قاعدہ 
"الضَّرَرُ لَايَزَالُ بِالضَّرَرِ"۱۴؎۔ 
              نقصان کی پابجائی نقصان پہنچاکر نہیں کی جائے گی۔
یعنی اگرکسی شخص نے پتھر مارکر کسی کے گھر کے شیشے توڑ دیئے تووہ بھی بدلہ میں اس کے گھر کے شیشے نہ توڑے؛ بلکہ قیمت وصول کرلے، یہ دونوں قاعدہ اس حدیثِ مبارک سے مستفاد ہوتے ہیں، آنحضرت  کا ارشادِ گرامی ہے:
"لاَضَرَرَ وَلاَضِرَارَ مَنْ ضَارَّ ضَارَّهُ اللَّهُ وَمَنْ شَاقَّ شَقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ"۱۵؎۔
نہ ابتداً نقصان پہنچاؤ نہ بدلہ میں، جوکسی دوسرے کونقصان پہنچائے گا اللہ اس کا نقصان کریں گے، جوکسی دوسرے کومشقت پہنچائے گا اللہ اس کومشقت میں ڈالیں گے۔
(۱۴)الاشباہ والنظائر:۱۴۱۔ (۱۵)سنن دارِقطنی،البيوع،حدیث نمبر:۳۱۲۴، شاملہ، موقع وزارة الأوقاف المصرية۔
(۸)فقہی قاعدہ 
"الْعَادَةُ مُحَكَّمَةٌ"۱۶؎۔                      
    عادت فیصلہ کرنے والی ہے۔
یعنی اگرکسی جگہ کا عرف اور کسی مقام کے لوگوں کی کوئی عادت، شریعت کے خلاف نہ ہوتودینی اور دنیوی معاملات میں اس عادت کی رعایت کی جائے گی اور جھگڑے کے موقع پر اس عرف کے مطابق فیصلہ کیا جائےگا، مندرجہ ذیل احادیثِ شریفہ میں ہمیں یہ قاعدہ صاف نظر آتا ہے:
"الْوَزْنُ وَزْنُ أَهْلِ مَكَّةَ وَالْمِكْيَالُ مِكْيَالُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ"۱۷؎۔
وزن تواہلِ مکہ کا ہے اور ناپ تواہلِ مدینہ کا ہے۔
یعنی خطۂ عرب کے اندرتولی جانے والی اشیاء میں مکہ والوں کے وزن کا اعتبار کیا جائے گا اور ناپ کردی جانے والی چیزوں میں اہلِ مدینہ کے ناپ کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔
ایک مرتبہ حضرت ہندہؓ بنت عتبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت ابوسفیانؓ کی بخالت کی شکایت کی کہ وہ گھر کا خرچ پورا نہیں دیتے ہیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندہؓ سے فرمایا:
"خُذِي مَايَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ"۱۸؎۔
عرف وعادت کے مطابق جوتمہارے اور تمہارے لڑکے کے لیے کافی ہوتا ہے وہ (ابوسفیانؓ کے مال میں سے) لے لو۔
پہلی حدیث میں آپ نے اہلِ مکہ کے وزن اور اہلِ مدینہ کے عرفی ناپ کومعیار قرار دیا اور دوسری حدیث میں عرف وعادت کوتسلیم کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ فرمایا۔
(۱۶)الاشباہ والنظائر:۱۵۰۔ القواعد الفقہیۃ:۲۹۳۔ (۱۷)سنن ابی داؤد، كِتَاب الْبُيُوعِ، بَاب فِي قَوْلِ النَّبِيِّ  وَسَلَّمَ الْمِكْيَالُ مِكْيَالُ الْمَدِينَةِ،حدیث نمبر:۲۸۹۹، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۱۸)بخاری،كِتَاب النَّفَقَاتِ، بَاب إِذَالَمْ يُنْفِقْ الرَّجُلُ فَلِلْمَرْأَةِ أَنْ تَأْخُذَ بِغَيْرِ عِلْمِهِ مَايَكْفِيهَا وَوَلَدَهَا ،حدیث نمبر:۴۹۴۵، شاملہ،موقع الإسلام۔
(۹)فقہی قاعدہ
"إذَااجْتَمَعَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ غَلَبَ الْحَرَامُ"۱۹؎۔
جب کسی چیز میں حلال وحرام مل جائیں توحرام کا اعتبار کیا جائے گا۔
یعنی کسی چیز کی حالت وحرمت میں شبہ ہوجائے کہ یہ چیز حلال ہے یاحرام، یاایک چیز میں حلال وحرام، جائز وناجائز دونوں پہلو جمع ہوجائیں توحرام کوترجیح دیتے ہوئے اس شئی کے حرام ہونے کا حکم لگایا جائیگا، یہ قاعدہ ان احادیثِ شریفہ سے ماخوذ ہے:
"إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَايَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ"۲۰؎۔
حلال بھی ظاہر ہے اورحرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں (جن کی صحیح حقیقت ظاہر نہیں ہے) اکثر لوگ اس کونہیں جانتے؛ لہٰذا جوشخص ان مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس کا دین اور عزت محفوظ ہے اور جوشبہات میں پڑگیا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا۔
ایک مرتبہ صحابی جلیل حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے خدمتِ اقدس میں عرض کیا: یارسول اللہ میں بسم اللہ پڑھ کر اپنے کتے کوچھوڑتا ہوں، جب وہ شکار کرلیتا ہے تومیں دیکھتا ہوں کہ شکار کئے ہوئے جانور کے پاس ایک دوسرا کتا بھی کھڑا ہے، جس پر میں نے اللہ کا نام نہیں لیا ہے اور مجھے اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ شکار میرے کتے نے کیا ہے یادوسرے کتے نے؛ توایسی صورت میں شکار کوکیا کروں؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"لَاتَأْكُلْ إِنَّمَاسَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى الْآخَرِ"۲۱؎۔
اس کومت کھاؤ؛ کیونکہ تم نے اپنے کتے کوچھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا ہے، دوسرے کتے پر نہیں لیا۔
اس حدیث میں حلال وحرام دونوں کے جمع ہوجانے کی وجہ سے آپ نے اس شکار کے حرام ہونے کا حکم دیا۔
(۱۹)الاشباہ والنظائر:۱/۱۵۰۔ القواعد الفقہیۃ:۲۹۳، للشیخ علی احمد الندوی۔ (۲۰)صحیح مسلم،كِتَاب الْمُسَاقَاةِ،بَاب أَخْذِ الْحَلَالِ وَتَرْكِ الشُّبُهَاتِ،حدیث نمبر:۲۹۹۶، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۲۱)صحیح بخاری،كِتَاب الْبُيُوعِ،بَاب تَفْسِيرِ الْمُشَبَّهَاتِ،حدیث نمبر:۱۹۱۳، شاملہ، موقع الإسلام۔
(۱۰)فقہی قاعدہ
"اَلْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِيْ وَالْيَمِيْنُ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ"۲۲؎۔
گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے اور جوشخص دعویٰ کا انکار کرے وہ قسم کھائے۔
یعنی اگرکسی شخص نے دوسرے کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا تواس کے ذمہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرے؛ اگروہ گواہ نہ پیش کرسکے اور مدعیٰ علیہ پر ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کے صحیح ہونے پرقسم کھائے، اس قاعدہ کونبی کریمنے بھی تقریباً انہیں الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
"الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِى وَالْيَمِينَ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ"۲۳؎۔
گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے اور جوشخص دعویٰ کا انکار کرے وہ قسم کھائے۔
(۲۲)القوانین الفقہیۃ:۲/۱۶۸، لابن جزی، شاملہ، القسم: أصول وقواعد الفقہ۔ (۲۳)السنن الکبریٰ للبیہقی، كتاب الدعوى والبينات،باب الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمُدَّعِى وَالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ،حدیث نمبر:۲۱۷۳۳، شاملہ،موقع وزارة الأوقاف المصرية۔
(۱۱)فقہی قاعدہ
"لاعبرۃ للتواہم"۲۴؎۔            
    وہم وخیال اور وسوسہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
مثلاً:اگرکسی آدمی کوبار بار وہم ہوجاتا ہے کہ فلاں کام کیا یانہیں؟ تووہ شخص اس وہم پرتوجہ نہ دے؛بلکہ یقین اور گمان غالب پرعمل کرے، مندرجہ ذیل حدیث نبوی  میں اس قاعدہ کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔
ایک آدمی نے حاضرِ خدمت ہوکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! ایک شخص کونماز پڑھتے ہوئے یہ وہم ہوجاتا ہے کہ اس کا وضوء ٹوٹ گیا ہے توایسی صورت میں وہ کیا کرے، آپ نے فرمایا:
"لَايَنْفَتِلْ أَوْلَايَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْيَجِدَ رِيحًا"۲۵؎۔
وہ نماز سے نہ پھرے؛ یہاں تک کہ آواز سن لے یابدبومحسوس کرے۔
(۲۴)القواعد الفقہیۃ:۳۱۶۔ (۲۵)صحیح بخاری،كِتَاب الْوُضُوءِ،بَاب مَنْ لَايَتَوَضَّأُ مِنْ الشَّكِّ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ،حدیث نمبر:۱۳۴، شاملہ، موقع الإسلام۔
 (۱۲)فقہی قاعدہ 
"مَاحَرُمَ أَخْذُهُ حَرُمَ إعْطَاؤُهُ"۲۶؎۔
جس چیز کولینا حرام ہے اس کوکسی دوسرے کودینا بھی حرام ہے۔
درجِ ذیل حدیث اس قاعدہ کی بین دلیل ہے۔
"الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي فِي النَّارِ"۲۷؎۔
رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔
(۲۶)الاشباہ والنظائر:۲۲۹۔ (۲۷)المعجم الکبیر للطبرانی، قطعۃ من المفقود،حدیث نمبر:۱۴۰۰، شاملہ۔
(۱۳)فقہی قاعدہ
"كل مالايجوز أكله أوشربه من المأكولات والمشروبات لا يجوز بيعه ولايحل ثمنه"۲۸؎۔
ماکولات ومشروبات میں سے جس چیز کاکھانا اور پینا حرام ہے اس کوبیچنا اور اس کی قیمت سے فائدہ اٹھانا بھی حرام ہے۔
مثلاً: شراب پینا حرام ہے تواس کوبیچنا بھی حرام ہے؛ اسی طرح اس کی قیمت کواستعمال کرنا بھی درست نہیں ہے، یہ قاعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِگرامی سے مستنبط ہے:
"لَعَنَ اللہُ الْیَھُوْد، ثَلَاثًا، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمُ الشُّحُومُ ، فَبَاعُوهَا وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا، وَإِنَّ الله  اِذَاحَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ، أَکَلَ شَیٔ حَرَّمَ ثَمَنَہٗ" ۲۹؎۔
اللہ تعالیٰ یہود پرلعنت کرے (تین مرتبہ آپ  نے یہ جملہ فرمایا) ان کے اوپر چربی کوحرام کیا گیا تھا توانھوں نے اس کوبیچ کر اس کی قیمت کواستعمال کیا، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پرکسی چیز کاکھانا حرام فرمادیتے ہیں تواس کی قیمت کوبھی حرام کردیتے ہیں۔
یہ قند قواعد فقہیہ اور ان کی تائید میں پیش کی گئی احادیث ہیں؛ اگراس مختصر سے مقالہ میں گنجائش ہوتی تومزید قواعد فقہیہ اور احادیثِ نبویہ سے ان کے دلائل پیش کئے جاتے؛ لیکن گنجائش نہ ہونے کی بناء پرانھیں چند مثالوں پراکتفاء کیا جاتا ہے، ماننے والوں کے لیے تودوچار مثالیں ہی کافی ہیں نہ ماننے والوں کے لیے دفتر بھی بے کار ہے، واللہ ولی الھدایۃ والسداد۔
(۲۸)القواعد الفقہیۃ:۱۲۳۔ (۲۹)التمہید لابن عبدالبر:۴/۱۴۳، بحوالہ:القواعد الفقہیۃ:۱۲۴۔

No comments:

Post a Comment