ضمنی ماخذِ فقہ


ضمنی اصول

سابقہ شریعت کا مقام

اللہ تعالیٰ نے ابتداء  آفرینش سے ہی انبیاء ورسل کا سلسلہ قائم فرمایا؛ تاکہ انسان کو خدا کی مرضیات کا علم ہوتا رہے اور وہ ان کے مطابق اپنی زندگی گذارے، یہ مبارک سلسلہ حضرت آدمؑ سے لے  کر نبی کریم  تک رہا، ہرنبی نے اپنی قوم کو خدائی احکام وہدایات پہونچائیں اور پوری جتن کے ساتھ پہونچائیں، کسی نے بھی ذرہ برابر سستی نہیں برتی، سارے انبیاء کے ادیان اپنے اپنے زمانہ میں حق اورواجب الاتباع تھے اور انہی پر آخرت کی کامیابی ملتی تھی؛ لیکن نبی کریم کی بعثت کے بعد تمام انبیاء کی شریعتیں منسوخ ہوگئیں اور آخرت کی کامیابی صرف دین اسلام میں منحصر ہوگئی، اب اگرکوئی سابقہ شریعت پر عمل کرتا ہے تووہ عنداللہ مردود ہے؛ یہاں ہمیں شریعت سابقہ پر کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کرنی ہے اور نہ ہی اس پر بحث کرنا ہے کہ بعثت سے پہلے آیا آپ  کسی شریعت کے متبع بھی تھے یانہیں ،تھے توکس شریعت کے تھے؟ کسی خاص شریعت کے یالاعلی التعیین کسی ایک یاتمام شریعتوں کے؟ کیوں کہ بظاہر یہ بحث نہ ہی فی نفسہ مفید معلوم ہوتی ہے اور نہ ہی یہ ہمارا موضوع ہے، ہم ذیل میں سابقہ شریعت کے جس پہلو سے بحث کرنا چاہتے ہیں ، تجزیہ وتحقیق کے بعد اس کی جملہ چار شقیں نکلتی ہیں، تین ان میں متفق علیہ ہیں اور ایک مختلف فیہ ونزاعی، ان کی تفصیلات میں جانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اولاً شریعت سابقہ کا مفہوم متعین کرلیا جائے؛ تاکہ آگے کے مباحث کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔
شریعتِ سابقہ کسے کہتے ہیں؟
شریعتِ سابقہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کی ان شریعتوں کو کہا جاتا ہے جوہرنبی کو خدا کی طرف سے اپنی اپنی امت کی ہدایت کے لیے دی گئی تھیں۔             
(الموسوعۃ الفقہیۃ:۲۶/۱۷)
شریعتِ سابقہ اور امت کی آراء
ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اصلِ توحید میں تمام شریعتیں متحد ہیں (البحرالمحیط:۶/۴۰) مثلا اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے متعلق اعتقادات، عقیدہ بعث بعدالموت، حشرونشر کا تصور، ان سب میں تمام شریعتیں متفق ہیں؛ اسی طرح ابواب البر مثلاً نماز، روزے، زکوٰۃ وحج اور جہاد وغیرہ جوتکلیفات الہٰیہ کے قبیل سے ہیں؛ نیزابواب الاثم جیسے زنا کی حرمت، ظلم وجور کا انسداد کائنات کی بقاء اور أشخاص کی عصمت وعفت کی خاطر حدود وکفارات کا نظام، یہ سب بھی وہ امور ہیں جن پر تمام شریعتوں کا اتفاق اور ان میں باہم یگانگت رہی ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اس آیت:
"شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَاوَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَاوَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَاتَتَفَرَّقُوا فِيهِ"۔ 
(الشوریٰ:۱۳)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا، جس کا اُس نے نوحؑ کوحکم دیا تھا اور جس کوہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو (مع ان سب کے اتباع کے) حکم دیا تھا (اور ان کی امم کو یہ کہا تھا) کہ اس دین کو قائم رکھنا ہے اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔            

کا محمل اسی شکل کو قرار دیا ہے (حجۃ اللہ البالغۃ:۱/۸۶) اگرچہ ان سب کی تفصیلات میں زمانہ اور امت کے مزاج کے لحاظ سے اختلاف ہوتا رہا؛ تاہم اصول میں کسی قسم کا فرق نہیں تھا۔
(۲)اس پر بھی امت کے تمام مکاتبِ فکر متفق ہیں کہ گذشتہ شریعتوں کےاحکام منسوخ ہیں، امت محمدیہ کو اس سے کوئی سروکار نہیں، جیسے حضرت سلیمانؑ کی شریعت کا تعذیب طیور کا مسئلہ ہے کہ پرندوں کی جانب سے گوہمیں کوئی نقصان پہنچے ؛لیکن ان کوعذاب وسزا دینا ہمارے لیے مشروع نہیں (الاحکام لابن حزم:۵/۱۶۶) اسی طرح شریعت موسویہ کا یہ حکم کے گائے، اونٹ کی چربی حرام ہے، ہم پر لاگو نہیں کیونکہ یہ امور انہی کے ساتھ خاص تھے (نورالانوار:۲۲۰) ایسے ہی ہفتہ کے دن کو قابلِ تعظیم سمجھنا شریعت موسوی کے ساتھ خاص تھا، شریعتِ زکریاؑ ومریمؑ میں صومِ صمت عبادت وقربت تھی؛ مگریہ سب ہماری شریعت میں نہیں ہے (الاحکام لابن حزم:۵/۱۷۶) غرض یہ وہ احکام ہیں جن کے شریعت محمدی میں ناقابل عمل ہونے پر امت کا اتفاق ہے۔
(۳) اسی طرح یہ امر بھی متفق علیہ ہے کہ شرائع سابقہ کے وہ اعمال، جن پر عمل آوری کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے، اس کے ہم مکلف ومامور ہیں، جیسے روزوں کی فرضیت کے متعلق ارشادِ باری ہے:
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَاكُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ"۔
(البقرۃ:۱۸۳۔ اصول الفقہ لابی زھرۃ:۲۴۲)
ترجمہ:اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔              
    
محلِ نزاع کی نشاندہی
محلِ نزاع صرف وہ احکام ہیں جونکیر کے بغیر کتاب وسنت میں وارد ہوئے ہیں اور ان کے کرنے نہ کرنے کی کوئی تصریح قرآن وحدیث میں نہیں کی گئی ہے، جیسے توراۃ کا یہ حکم ہے کہ:
"وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ"۔                 
(المائدۃ:۴۵)
ترجمہ:اور ہم نے اُن پر اُس میں یہ بات فرض کی تھی کہ جان بدلے جان کے اور آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے۔        
  
اس سلسلہ میں محققین کی ماٰلاً دوہی رائے ہوسکتی ہیں (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۴۸۳) ایک رائے یہ کہ ہرشریعت اپنے نبی کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے، اس کی تبلیغ وتشریح اس کے زمانے تک محدود رہتی ہے اور اس کی وفات کے ساتھ وہ شریعت بھی ختم ہوجاتی ہے؛ اکثر متکلمین اور حنفیہ وشافعیہ کی ایک جماعت اسی کی قائل ہے (کشف الاسرار:۳/۳۹۸) اور یہی ابن حزم کی بھی رائے ہے۔
(الاحکام لابن حزم:۵/۱۶۱)
دوسری رائے یہ ہے کہ شرائع سابقہ کے وہ احکام لائق عمل واتباع ہیں جو خدا اور رسول کی زبانی بلانکیر ہم تک پہنچے ہیں؛ گوکہنے کو یہ پچھلی شریعتوں کے احکام ہیں؛ مگرحقیقت یہ ہے کہ کتاب وسنت کے راستے یہ ہماری شریعت بن گئے ہیں اور رہے وہ احکام ومسائل جواہل کتاب خواہ مسلمانانِ اہل کتاب کے توسط سے ہم تک پہنچے ہوں یاخود مسلمانوں نے انہیں براہِ راست کتبِ سابقہ سے سمجھا ہو تووہ قابلِ حجت وقابلِ عمل نہیں؛ کیونکہ سوائے قرآن کے تمام کتبِ سماویہ کا محرَّف اور اصلی حالت پر برقرار نہ رہنا، ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے، اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ ان سے اخذ کیا ہوا حکم دستِ تحریف کا شکار ہو؛ اکثرمشائخ احناف بشمول ابومنصور ماتریدیؒ، قاضی ابوزید دبوسیؒ کا یہی مسلک ہے؛ اسی پر متاخرین احناف کا بھی عمل ہے۔              
   (کشف الاسرار:۳/۳۹۸،۳۹۹)
مانعین کے دلائل
مانعین نے اپنے موقف پر درجِ ذیل دلائل سے استدلال کیا ہے:
۱۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا"۔  
  (المائدۃ:۴۸)
ترجمہ:تم میں سے ہرایک کے لیے ہم نے (خاص) شریعت اور خاص طریقت تجویز کی تھی۔

نیزارشادِ باری تعالیٰ ہے:  
   "لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ"۔   
(الحج:۶۷)
ترجمہ:ہم نے (ان میں) ہرامت کے واسطہ ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اسی طرح پر ذبح کیا کرتے تھے۔            
     
یہ آیات اس جانب مشیر ہیں کہ ہرنبی بس اپنی ہی شریعت کا داعی اور ہرامت صرف اپنی ہی شریعت کی مکلف رہتی ہے، اب اگر شریعتِ سابقہ کو بھی حجت مان لیا جائے تویہ لازم آئے گا کہ بعد والا نبی شریعت سابقہ کا بھی داعی ہو اور امت بھی شریعتِ سابقہ کی مکلف ہو؛ حالانکہ یہ بات بداہۃً  غلط ہے۔             
      (اصول مذہب الامام احمدبن حنبلؒ:۴۹۳)
۲۔یمن کی جانب روانگی کے موقع سے آپ  اور حضرت معاذؓ کے درمیان جوگفتگو ہوئی تھی اس میں شرائع من قبلنا کا کوئی تذکرہ نہیں؛ اگرحجج شرعیہ میں اس کا شمار ہوتا توضرور حضرتِ معاذؓ اس کا ذکر کرتے۔
(المستصفی:۱/۲۵۱۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۴۹۳)
۳۔شرائع من قبلنا معتبر ولائق احتجاج ہوتیں توشریعت ان کے سیکھنے اور ان کی طرف مراجعت کی تاکید کرتی؛ حالانکہ شریعت نے کہیں ایسا حکم نہیں دیا ہے؛ بلکہ توراۃ کے پڑھنے پر توایک مرتبہ آپ  نے حضرت عمرؓ پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔
(المستصفی:۱/۲۵۲)
۴۔نبی کی بعثت کا مقصد امت کی تعلیم اور انہیں ان کے نفع ونقصان سے آگاہ کرنا ہے، اب اگرآنے والا نبی پچھلی ہی شریعت کا داعی وحامی ہو، جب کہ اس سے قبل شریعت مذکورہ ان تک پہنچ چکی ہے، تواس کے بعد والے نبی کی بعثت کا بے فائدہ اور بے ضرورت ہونا لازم آئے گا جو صحیح نہیں ہے۔                       
(کشف الاسرار:۳/۴۰۱)
۵۔ایک ہی زمانہ میں دونبیوں کی بعثت الگ الگ شریعتوں کے ساتھ واقع ہے، دیکھئے موسیٰؑ کی شریعت نبی اسرائیل کے لیے تھی اور اسی زمانہ میں شعیبؑ کی بعثت خاص اہلِ مدین کے لیے ہوئی تھی، جب جگہ ومکان کے فرق سے شریعتیں الگ الگ نازل کی جاسکتی ہیں تووقت وزمان کے اعتبار سے شریعتوں میں باہم اختلاف واختصاص کیوں نہیں رہ سکتا؟      
  (کشف الاسرار:۳/۴۰۱)
۶۔اگرشریعت محمدیہ کو سابقہ شریعتوں کے احکام پر بھی مشتمل مانا جائے تواس کے تفوق وامتیاز پر سخت حرف آئے گا اور اُسے شرائع سابقہ کا متبع گردانا جائے گا جو اس کی شان متبوعیت کے عین منافی ہے۔               
    (الاحکام لابن حزم:۵/۱۸۱)
مانعین کے دلائل کا جائزہ
مانعین کی دلیل اور اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اگرشریعت سابقہ کو حجت مانا جائے توشریعت سابقہ کی دعوت اور اس کی اتباع نبی اور امت پر ضرور ہوگی؛ لیکن آیت کے سیاق وسباق کو دیکھنے کے بعد ہرصاحبِ نظرپر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آیت سے یہ بات کسی درجہ میں بھی ثابت نہیں ہوتی، اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اصولی اور عمومی طور پر ہرشریعت کے فروعی احکام اشکال وصور کے اعتبار سے مستقل ہوا کرتے ہیں (حجۃ اللہ البالغۃ:۱/۸۶) اب اس کے ساتھ ساتھ کسی شریعت کے بعض احکام کا دوسری شریعت میں آجانے سے وہ بات کہاں لازم آتی ہے جسے ہمارے معترضین نے ثابت کرنا چاہا ہے۔            
   (الاحکام فی اصول الاحکام للآمدیؒ:۴/۲۰۰)
۲۔جہاں تک "حدیثِ معاذؓ" سے ان کا استدلال ہے کہ شرائع من قبلنا کوئی حجت ہوتی توحضرت معاذؓ اس کو ضرور ذکر کرتے، تواس کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ عدم ذکر نفی کو مستلزم نہیں ہوتا یعنی کسی چیز کے بارے میں ہرگز اس بناء پر منفی رائے قائم نہیں کی جاسکتی کہ وہ چیز غیرمذکور اور بادی النظر میں غیرموجود ہے؛ کیونکہ عدم ذکر کی اس کے سوا اور بھی تومعقول توجیہات ہوسکتی ہیں؛ چنانچہ یہاں بھی یہ توجیہ عین ممکن ہے کہ حضرت معاذؓ نے شرائع من قبلنا کا تذکرہ اس بناء پر نہیں فرمایا کہ خود ہماری شریعت کے اصول وکلیات اس قدر ہیں کہ "شرائع من قبلنا" کی طرف مراجعت کی بہت کم ضرورت پڑتی ہے اور قاعدہ ہے کہ ایسی قلیل الحاجۃ چیزیں اثنائے گفتگومیں ترک کردی جاتی ہیں؛ پھرچونکہ اس کا تذکرہ حضرت معاذؓ کے اس جملہ "أقضیٰ بِکِتَابِ اللہِ" کے تحت ضمناً اور اجمالاً آچکا تھا، اس لیے بھی اس کے اظہار کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔       
   (فواتح الرحموت:۲/۱۸۵)
۳۔اوریہ بات کہ "شرائع من قبلنا" اگرمعتبر ولائقِ احتجاج ہوتیں تو شریعت ان کے سیکھنے سکھانے کی تلقین کرتی، یہ دلیل اس لائق نہیں ہے کہ اس کا جواب دینے کی کوشش کی جائے کیونکہ ہمارا دعویٰ کچھ ہے اور مانعین کی اس دلیل کا رُخ اور طرف ہے، سابق میں ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ ہماری گفتگو اور بحث کا تمام ترمحور وہی احکامِ سابقہ ہیں جوکتاب وسنت کی سند سے ہم کو ملے ہیں، توریت وغیرہ سیکھنے اور اس جانب مراجعت کا نہ ہی ہمارا دعویٰ ہے اور نہ ہم اس کے قائل ہیں۔     
  (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۴۹۴)
۴۔گروہ منکرین کی چوتھی دلیل کا حاصل یہ ہے کہ ہراگلا نبی اگر پچھلے نبی کی شریعت ہی کا داعی ہوتو خود اس کی بعثت کا کیا فائدہ، پچھلے نبی کی شریعت توپہلے ہی دنیا میں آچکی ہے؛ مگراس کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ بعد والا نبی، نبی سابق کی شریعت کا حامی اس اعتبار سے ہو کہ اس کی شریعت مندرس اور بھلادی گئی تھی اور یہ نبی اس کی تجدید وتبلیغ کررہا ہے، اس لیے اس کی بعثت کو بے معنی اور بے فائدہ کہنا بجائے خود بے معنی ہے؛ نیز دلیلِ مذکور سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال معلل بالاغراض ہیں ؛حالانکہ یہ بات جمہور امت کے مسلمہ عقائد کے خلاف ہے۔          
    (المستصفی:۱/۲۴۹،۲۵۰)
۵۔مانعین کی پانچویں دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ایک ہی زمانہ میں ہرنبی کو الگ الگ شریعتیں دی جاتی ہیں توالگ الگ زمانوں میں ہرنبی کی شریعت بدرجہ اولیٰ مختلف اور جدا ہونی چاہیے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ شریعتِ سابقہ حجت نہ ہو؛ مگراس استدلال کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک ہی زمانہ میں اگر کئی نبی آئے توان کی شریعت میں اختلاف ضروری نہیں تھا، حضرت لوطؑ اور حضرت ابراہیمؑ اسی طرح ہارونؑ وموسیٰؑ کا زمانہ ایک تھا؛ لیکن ان کی شریعتیں متحد تھیں، علاوہ اس کے پچھلی شریعتوں کے احکام جب اللہ ورسول نے علی الاطلاق بیان کردیئے ہیں تویہ شریعت محمدیہ کا بھی جز بن گئے اور سابقہ امتوں سے اختصاص کا قرینہ موجود نہیں رہا۔
۶۔شریعتِ محمدی کے تفوق وامتیاز کو بنیاد بناکر شرائع سابقہ کے غیرمعتبر ہونے پر استدلال کرنا بھی درست نہیں ہے؛ کیونکہ سابقہ شریعتیں خود انبیاء کی وضع کردہ نہیں تھیں؛ بلکہ ان کا واضع بذاتِ خود اللہ تعالیٰ تھا؛ یہی وجہ ہے کہ "شرع لکم من الدین" میں دین وقانون کی تشریعی نسبت خود اللہ نے اپنی طرف کی ہے، اس طرح پچھلی شریعتوں کے کچھ احکام کا وحی کے واسطے سے امتِ محمدیہ میں معمول بہا ہوجانا، اس کے نقص وعیب کی دلیل نہیں اور نہ اس کی شان متبوعیت پر اثرانداز ہے۔     
(کشف الاسرار:۳/۴۰۰)
نیزشریعتِ محمدیہ کا امتیاز ووتفوق خود اس بات کا متقاضی ہے کہ شرائع سابقہ کی حیثیت اس کے لیے توطئہ وتمہید کی سی ہو اور ظاہر ہے کہ اس حیثیت سے اگر ان کے بعض احکام شریعت محمدیہ میں بھی ہوں تو یہ اس کے تفوق کے منافی نہیں ہے۔
(کشف الاسرار:۳/۴۰۲)
قائلین کے دلائل
چنداولوالعزم انبیاء کوگنانے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
"أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ"۔  
   (الانعام:۹۰)
ترجمہ:یہ حضرات ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی؛ سوآپ بھی انہی کے طریقہ پر چلئے۔              
    
واضح رہےکہ ہدایت ایمان اور جمیع اعمال کو عام ہے؛ چنانچہ سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتوں میں ایمان واعمالِ صالحہ کے تذکرہ کے بعد کہا گیا ہے:
أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ 
(البقرۃ:۵۔ کشف الاسرار:۳۴۰۰)
ترجمہ:وہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے پروردگار کی طرف سے۔
  (ترجمہ شیخ الہندؒ)
۲۔ایک موقع سے ارشاد فرمایا گیا:
"ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا"
   (فاطر:۳۲)
ترجمہ:پھریہ کتاب ہم نے ان لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچائی جن کو ہم نے اپنے (تمام دنیا کے) بندوں سے پسند فرمایا۔ 
علامہ ابن نجیم اس آیت سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ یہاں وراثت کی تعبیر اختیار کی گئی ہے، جس سے وارث کی ملکیتِ خاص کی جانب اشارہ ہے کہ شرائع سابقہ کے وہ احکام جونکیر کے بغیر آپ  پر نازل ہوئے ہیں گوکہنے کو وہ شرائع سابقہ ہیں ،مگربتقاضائے لفظ ارث وہ آپ  ہی کی شریعت بن چکے ہیں۔
  (اصول مذہب امام احمد بن حنبل:۴۹۱)
۳۔زمانہ رسالت میں ایک واقعہ پیش آیا تھا، جس میں ایک فریق نے دوسرے کے دانت توڑے تھے، آپ  نے اس موقع سے فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا تھا "کِتَابُ اللہِ یَقْضِی بِالْقِصَاصِ" کہ کتاب اللہ دانت کے قصاص کا حکم دیتی ہے، جب کہ باجماعِ امت پورے قرآن میں دانت کے قصاص کے بارے میں شریعتِ موسویہ کی وضاحت پر مشتمل صرف یہی آیت ہے:
"وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ..... وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ..."۔       
(المائدۃ:۴۵)
ترجمہ:اور ہم نے ان پر اس میں یہ بات فرض کی تھی کہ جان بدلے جان کے..... اور دانت بدلے دانت کے۔              

اور سبھوں نے اس آیت کے ذریعہ "قصاص فی السن" کو واجب قرار دیا، جوشرائع سابقہ کی حجیت کی صریح دیل ہے(اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۴۹۱) ہرچند کہ بعض منکرین نے اس آیت سے معارضہ کرنا چاہا اور قصاص فی السن کو:
"وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ"
(البقرۃ:۱۷۹)
ترجمہ: (اس قانون) قصاص میں تمہاری جانوں کا بڑا بچاؤ ہے۔
   
"فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَااعْتَدَى عَلَيْكُمْ"۔
(البقرۃ:۱۹۴)
ترجمہ:سوجوتم پر زیادتی کرے توتم بھی اس پر زیادتی کرو جیسی اُس نے تم پر زیادتی کی ہے۔

کے عموم سے ثابت کرنا چاہا؛ مگرجیسا کہ ظاہر ہے یہ نصوص قضیہ مذکورہ پرصراحۃ اور بالراست دال نہیں ہیں، اس لیے ان کے ذریعہ استدلال ہرگز تام نہیں کہلاسکتا، مزید عمومی نصوص پر تخصیص کانقص توبہرِصورت موجود رہتا ہے؛ اس لیے یہ ممکن ہے کہ آیاتِ ذیل سے قصاص فی السن کی صورت مستثنیٰ اور خارج ہو اور ایسی صورت میں مذکورہ حکم پر صرف اسی ابتدائی آیت سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔        
   (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۴۹۲)
مذاہبِ اربعہ میں شرائع من قبلنا کی فقہی حیثیت
مذاہب اربعہ کے تمام ہی ائمہ متبوعین اس سے استدلال کرتے ہیں ،پھرچونکہ اس دلیل شرعی کی معرفت کا طریق صرف کتاب وسنت ہے ،اس لیے اسے اصولِ فقہ کی مستقل اصل خامس کا مقام نہیں دیا گیا؛ بلکہ اسے کتاب وسنت ہی کا تابع مانا گیا۔
(فواتح الرحموت:۲/۱۸۴)
علماء احناف میں حضرت امام محمد بن الحسن الشیبانی نے مہایاۃ کی صحت پر حضرت صالح علیہ السلام کی شریعت کے ان احکام سے استدلال کیا ہے:
"وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ"۔   
(القمر:۲۸)
ترجمہ:اور ان لوگوں کو یہ بتلادینا کہ پانی (کنویں کا) ان میں بانٹ دیا گیا ہے۔

اور ارشاد ہے:
"قَالَ هَذِهِ نَاقَةٌ لَهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ"۔                   
(الشعراء:۱۵۵)
ترجمہ:صالحؑ نے فرمایا کہ یہ اونٹنی ہے، پانی پینے کے لیے ایک باری اس کی ہے اور ایک مقررہ دن میں ایک باری تمہاری (یعنی تمہارے مواشی کی)۔          
    
شمس الائمہ السرخسیؒ رقمطراز ہیں کہ امام محمدؒ نے کتاب الشرب میں قسمۃ الشرب بطریق المہایاۃ، پر درج بالا آیات ہی کے ذریعہ استدلال کیا ہے (کشف الاسرار:۳/۴۰۵) مہایاۃ تقسیم منافع کو کہتے ہیں، منافع چونکہ معنوی اور ناقابلِ قسمت ہوا کرتے ہیں، اس لیے ان کی تقسیم ایک باعث اشکال امر تھا، امام محمدؒ نے مذکورہ آیات کے ذریعہ استدلال کرتے ہوئے اس کوحل فرمادیا کہ ایام ووقت کے لحاظ سے منافع کی تقسیم ہوسکتی ہے؛ لہٰذا ایک باؤلی اگرچند کاشتکاروں کے درمیان مشترک ہو تووہ یومیہ یاوقتیہ باری لگاکر اپنے کھیت کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔
  (کشف الاسرار:۳/۴۰۵۔ نورالانوار:۲۲۰)
ایسے ہی مسلمان کو ذمی کے بدلے میں قصاصاً قتل کرنے پر حنفیہ نے:
"وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ"
   (المائدۃ:۴۵)
ترجمہ:اور ہم نے ان پر اس میں یہ بات فرض کی تھی کہ جان بدلے جان کے۔

کے ذریعہ استدلال کیا ہے۔          
   (الموسوعۃ الفقہیۃ:۲۶/۱۸)
علماء مالکیہ رحمہ اللہ
مالکیہ نے محض قرائن کی شہادت پر قاضی کو فیصلہ کی اجازت دی ہے، اس قاعدہ پر ان کا مستدل حضرت یعقوب علیہ السلام کا یہ عمل ہے کہ انہوں نے آثار وقرائن ہی کی بناء پر برادرانِ یوسف کے اس بیان کو رد کردیا تھا کہ  یوسف کوبھیڑیئے نے کھالیا ہے، بردرانِ یوسف کے بیان مذکور کو غلط قرار دینے کے لیے حضرت یعقوبؑ کے پاس کوئی عینی شہادت نہ تھی؛ بس کچھ علامات وقرائن تھے؛ اسی قاعدہ پر مالکیہ نے یہ تفریع کی کہ اگرکوئی شخص دارالاسلام میں بحالت مردہ پایا جائے اور وہ غیرمختون اور زنار باندھے ہوئے ہو، تواس کو علامت کفر ٹھہراتے ہوئے اُسے مقابر مسلمین سے دور رکھا جائے گا، مسلمانوں کے قبرستان میں اُسے دفن نہیں کیا جائے گا۔
(الموسوعۃ الفقہیۃ:۱۹/۲۶)
حنابلہ رحمہ اللہ
ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے علماء حنابلہ کی تصریحات کی روشنی میں باحوالہ ثابت کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل کا رائج مذہب بھی وہی ہے جواحناف ومالکیہ کا ہے؛ چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی نذر مانے توشرعاً اس کی یہ نذر منعقد ہوجائے گی اور اُسے اپنے بیٹے کے بجائے ایک دنبہ ذبح کرنا ہوگا؛ کیونکہ شریعت ابراہیمی ہمارے مدنظر ہے، حضرت ابراہیمؑ نے ایسا ہی کیا تھا، قرعہ اندازی کے جواز وثبوت پر حنابلہ نے شریعتِ یونسؑ اور واقعۂ مریمؑ کے ذریعہ استدلال کیا کہ جس طرح قرعہ اندازی کے ذریعہ حضرت یونسؑ کے کشتی میں بیٹھے رہنے کے حق کوسوخت کردیا گیا تھااور حضرت مریمؑ کے حق حصانت کوقرعہ اندازی ہی کے ذریعہ طے کیا گیا تھا؛ ایسے ہی ہماری شریعت میں قرعہ اندازی کے ذریعہ بعض امور طے اور بعض سوخت کئے جاسکتے ہیں۔       
     (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۴۹۰)
شوافع رحمہ اللہ
ہرچند کے الموسوعۃ الفقہیہ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۲۶/۱۹) میں امام شافعی کا اصح مذہب "شرائع من قبلنا" کے عدم اعتبار کا بتلایا گیا ہے؛ مگرفقہ شافعی کی بعض فروعات اور خوداصولین شوافع کی تصریحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ "شرائع من قبلنا" ان کے یہاں بھی فی الجملہ حجت ہے؛ چنانچہ البحرالمحیط میں امام الحرمین کے حوالے سے ہے کہ امام شافعیؒ نے ضمانت وذمہ لینے کی صحت پرشریعت یوسفؑ کے اس حکم کے ذریعہ استدلال کیا:
"وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ"۔        
   (یوسف:۷۲)
ترجمہ: (کہ) جوشخص اس کو (بادشاہی پیمانے کو) لاکر حاضر کرے اس کو
  
یہاں بارِ شترغلہ کی مقدار اس شخص کی اجرت ٹھہرائی گئی جو مسروقہ بادشاہی پیمانہ کولاکر حاضر کردے، شاید ان کے ہاں اجرت مذکور کی مقدار معلوم ومتعین تھی، اس لیے منادی نے بارِ شتر کی ذمہ داری لی تھی، اسی طرح شافعیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ کوئی شحص اپنے غلام کو سوکوڑے مارنے کی قسم کھالے؛ پھراُسے کھجور وغیرہ کے ایسے گچھے سے مارے جوسواجزاء پر مشتمل ہو تو وہ اپنی قسم کو پوری کرنے والا شمار ہوگا؛ کیونکہ حضرت ایوبؑ کا قصہ ہمارے سامنے ہے۔              
(البحرالمحیط:۶/۴۳)

اقوال صحابہ کا مقام

انسان اور انسانیت کے درپیش مسائل کے حل کے بنیادی مآخذ قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ ذیلی اور ضمنی مآخذ میں صحابہ اور ان کے اقوال کا بھی ایک مقام ہے، تشریعی اعتبار سے اساسی اور بنیادی مآخذ کے بعد ان کی بڑی اہمیت ہےاور بہت سے احکام محض ان کے اقوال وافعال پر منحصر ہیں، ان کی ذات سے صادر ہوئے بے زبان افعال وحرکات بہت کچھ چیزوں کا پتہ دیتی ہیں اور ان کی قوتِ گویائی سے نکلے ہوئے الفاظ اپنے اندر ذات رسول کا عکس رکھتی ہیں، ان کی ذات خدائی احکام اور اسلامی مزاج کا آئینہ دار ہوتی ہے، وہ قرآن وسنت کے حقیقی مظہر ہیں۔
عدالتِ صحابہ
صحابہ کرامؓ کی عدالت وثقاہت مسلم وواضح ہے، عدالت سے مراد معصیت کا محال ہونا نہیں؛ بلکہ گناہوں سے محفوظ رہنا ہے، صحابہ کرام کی ذات سے گناہوں کا صدور ممکن  تو ہے؛ لیکن ان سے جب کوئی گناہ سرزد ہوجاتا تھا تواس پر انہیں فوری تنبہ ہوجاتا تھا، اس لیے تمام امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور جومشاجرات اور جنگیں اُن کے درمیان واقع ہوئی ہیں اورجواختلاف ان میں نظر آتا ہے وہ زیادہ ترتاریخی روایات پر مبنی ہے اور تاریخ تورطب ویابس کا مجموعہ ہے یاپھران حضرات کا اجتہاد تھا اور اجتہادی غلطی پر بھی ایک اجر ملتا ہے (البحرالمحیط:۴/۲۹۹) لہٰذا اس سے ان کی عدالت پر کوئی حرف نہیں آسکتا، صحابہ کی عدالت قرآن کریم اور احادیثِ رسول وغیرہ سے ثابت ہے۔
 الفاظِ صحابی  کے درجات
صحابہ کے فتاویٰ وآثار کی اصولی حضرات نے کیفیتِ أدا اور سماع ولقاء کے لحاظ سے سات درجوں میں تقسیم کی ہے (مسلم الثبوت:۲/۱۶۱) جس کی تفصیل درجِ ذیل ہے:
۱۔"قال لنا واخبرنی وحدثنا" کےذریعہ اگرکوئی صحابی بیان کرے تویہ بالاتفاق حجت ہیں، اس لیے کہ اس میں واسطہ کا احتمال نہیں ہے۔ 
(مسلم الثبوت:۲/۱۶۱)
۲۔قال علیہ السلام اگرکوئی صحابی کہے تواس کو بھی سماع پر محمول کیا جائیگا؛ اس لیے کہ صحابی کی یہ شان نہیں ہے کہ بغیر سنے اس طرح بیان کردے۔  
(مسلم الثبوت:۲/۱۶۱)
۳۔لفظ امر ونہی کے ذریعہ صحابی کوئی حکم بیان کرے تو اس میں اکثر حضرات کا کہنا ہے کہ یہ بھی قابل حجت ہے؛ البتہ امام ابوحنیفہؒ اس کو حجت تسلیم نہیں کرتے ہیں، امام کرخی بھی اس کے قائل ہیں؛ کیونکہ لفظِ امر ونہی میں کئی چیزوں کا احتمال ہوتا ہے۔
(البحرالمحیط:۴/۲۹۹)
۴۔اگرصحابی "امرنا وحُرم علینا" یعنی صیغۂ مجہول کے ذریعہ کوئی بات بیان کرے تواس میں بھی اختلاف ہے؛ کیونکہ اس صورت میں امر کی تعیین میں جہالت ہے کہ "اٰمِروناہی" کون ہے؟ حاکم یاکتاب اللہ یاکوئی اور؟۔ 
(مسلم الثبوت:۲/۱۶۱)
۵۔"من السنۃ" کہہ کر اگرکوئی صحابی کسی بات کو بیان کرے تووہ قابلِ حجت ہے؛ اس لیے کہ سنت کا نبی  کی جانب سے ہونا ظاہر ہے؛ البتہ احناف کے یہاں "السنۃ" عام ہے، خلفاءِ راشدین کی سنت بھی اس میں داخل ہے۔
(مسلم الثبوت:۲/۱۶۲)
۶۔"عن النبی " کہہ کراگر صحابی بیان کرے توابنِ صلاح اور دیگر حضرات نے اس کو سماع پر محمول کیا ہے۔
(مسلم الثبوت:۲/۱۶۲)
۷۔"کنا نفعل" کہہ کرجب صحابی کوئی حکم بیان کرے تواس سے اجماعِ صحابہ کا ہونا ظاہر ہے، اس لیے یہ بھی حجت ہے؛ البتہ بعض حضرات نے اس کو حجت تسلیم نہیں کیا ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے آثار اور اُن کی حجیت
صحابہ کرامؓ سے جس طرح احادیث رسول منقول ہیں، اسی طرح ان احادیث کا اپنا فہم اور ان کے شانِ ورود کی روشنی میں مطلب وغیرہ بھی منقول ہے، صحابہ کے یہ اقوال وآثار کبھی کسی قرآنی آیت کے تعین کا کام دیتے ہیں، کبھی حدیثِ رسول  کی شرح ہوتی ہے، ان کے اقوال سے کئی آیتوں کی تفسیر اور ان کا اجمال ختم ہوتا ہے اور نصوص کی تفہیم میں تسہیل ہوتی ہے، قرآن کی تفسیر کرتے وقت پہلے آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ رسول  پر نظر رکھنی پڑتی ہے؛ اگر ان سے اس کی تفسیر معلوم ہوجاتی ہے تودوسری طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کے بعد اقوالِ صحابہؓ کی روشنی میں اس کے معنی کی تعیین کا حکم ہے ؛اس لیے کہ وہ سب سے زیادہ قرآن کو جاننے والے اور سمجھنے والے ہیں، ہمارے لیے جوکچھ شنید ہے وہ ان کے لیے دید ہے؛ انھوں نے قرآن کی تشریح شارح محمدرسول اللہ  سے سیکھی ہے(حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ:۱/۳۳۲) نیز صحابہ کرامؓ کے آثار کی اتباع ہمارے لیے اس لیے بھی لازم ہے کہ وہ  جوکچھ بیان کرتے ہیں وہ ان اسباب میں سے  کوئی ایک ضرور ہوگا،وہ یا تو قول رسول کو براہ راست سنے ہوں گے یا جنہوں نے رسول سے سنا تھاان سے سنا ہوگا یاکتاب اللہ سے سمجھا ہوگا یاصحابہ کی جماعت کا اس پر اتفاق ہوگا یالغت والفاظ سے انہوں نے سمجھا ہوگا اور ظاہر ہے کہ اس معاملہ میں وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں (اصول فقہ لابی زہرہ:۶۹۔ حیات ابن قیمؒ:۳۰۰) خود امام ابوحنیفہؒ کا اجتہاد کے باب میں یہ طرز تھا کہ جب کسی مسئلہ کا حل کتاب اللہ وسنت سے دریافت نہ ہوتا تھا توقولِ صحابی کو اختیار فرماتے تھے اور اگرصحابہ میں اختلاف ہوتا تودلائل کی روشنی میں جن کا قول قوی معلوم ہوتا اسے اختیار فرماتے۔          
  (اصول فقہ لابی زہرہ:۱۷۰)
امام شافعیؒ نے بھی "الرسالۃ" میں اپنا مذہب یہی لکھا ہے (اصولِ فقہ لابی زہرہ:۱۷۰) اورامام مالکؒ اور امام احمدبن حنبلؒ توبکثرت اپنی کتابوں میں صحابہؓ کے اقوال اور ان کے فتاویٰ کو پیش کرتے ہیں اور ان سے استدلال کرتے ہیں تفصیل کے لیے مؤطا امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کی تصنیفات دیکھی جاسکتی ہیں، اس کے بعد شیخ ابوزہرہ لکھتے ہیں:
"اَلْاَئِمَّۃُ الْاَرْبَعَۃُ کَانُوْا یَتَّبِعُوْنَ قَوْلَ الصَّحَابِیْ"۔           
   (اصولِ فقہ لابی زہرہ:۱۷۲)
ترجمہ:ائمہ اربعہ قولِ صحابی کی اتباع کرتے ہیں۔
فتاویٰ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
صحابہ کرام کے فتاویٰ ان کے آثار کی طرح اثباتِ احکام میں قابلِ حجت ہیں، اُن سے کسی حکم کی مشروعیت اور کسی خاص حکم کی ممانعت ثابت کی جاسکتی ہے، اس لیے کہ صحابہ کرامؓ جب کوئی بات کہیں یاکسی مسئلہ میں فتویٰ دیں تودراصل وہ فتویٰ آیتِ قرآنی یامشکوٰۃ نبوت سےمستفاد ہوتا ہے؛ لہٰذا ان کے تمام فتاویٰ قابلِ حجت ہیں؛ چنانچہ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
"أن الصحابي إذاقال قولا أوحكم بحكم أوأفتى بفتيا فله مدارك ينفرد بها عنه ومدارك لا نشاركه فيها فأمامايختص به فيجوز أن يكون سمعه من النبي  شفاها أومن صحابي آخر عن رسول الله"۔               
(اعلام الموقعین:۴/۱۲۸)
ترجمہ:صحابی رسول  جب کوئی بات کریں یاکسی حکم کا فیصلہ کریں یاکسی مسئلہ میں فتویٰ دیں توان کے کچھ مدارک ومظان ایسے ہیں جوہمارے لیے نہیں ہیں، بعض مدارک ومظان میں ہم بھی ان کے شریک نہیں؛ لیکن کچھ مدارک ومظان صرف ان کے لیے خاص ہیں، مثلاً ممکن ہے کہ انہوں نے حضورسے بالمشافہ سنا ہو یاکسی دوسرے صحابی سے سنا ہو جوخود حضور  سے سنے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے فتاویٰ بلاشبہ حجت ہیں اگرغور سے دیکھا جائے توصحابہ کے فتاویٰ وآثار عام طور پر چھ حالتوں سے خالی نہیں ہوتے (۱)یاتوخود انہوں نے نبی  سے سنا ہوگا
(۲)یادوسرے صحابی سے سنا ہوگا جوحضور  سے سنے ہیں
(۳)کتاب اللہ سے مفہوم ہوگا
(۴)صحابہؓ کا اس مسئلہ میں اتفاق ہوا ہو جس کا ہمیں علم نہ ہوسکا ہو
(۵)چونکہ وہ قرائن ولغت کو ہم سے اچھی طرح جانتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی رائے ہم سے بہتر تھی (اصول فقہ لابی زہرہ:۱۷۰)
(۶)اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کا فہم غلط ہو یاحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے صراحت نہ ہو یہ وجہ ایسی ہے کہ بلاشبہ اس کے وقوع کا احتمال ہے؛ لیکن ان کے عدالت کے پیشِ نظر اس کا وقوع نادر ہے اور ظن غالب صواب اور صحت ہی کا ہے؛ لہٰذا ان کے فتاویٰ حجت ہیں، جیسا کہ حدیثِ رسول  ہے:
"وعظنا رسول الله  موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب فقال قائل يا رسول الله كأنها موعظة مودع فماذا تعهد إلينا فقال عليكم بالسمع والطاعة وإن تامر عليكم عبد حبشي كأن رأسه زبيبة وعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة"۔
(اعلام الموقعین:۴/۱۲۱)
ترجمہ:ایک مرتبہ حضور  نے ایک پراثر وعظ فرمایا جس سے آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور دلوں میں خوفِ خدا پیدا ہوگیا توایک صاحب نے عرض کیا:یہ وداعی وعظ معلوم ہوتا ہے؟ یارسول اللہ! اس لیے آپ ہمیں کس بات کی تاکید کرتے ہیں؟ آپ  نے فرمایا تم لوگوں پر سمع وطاعت واجب ہے؛ اگرچہ تمہارا حاکم کوئی حبشی غلام ہی ہو اورسراس کا نہایت چھوٹا ہو اور تم پر میری سنت اورمیرے بعد خلفاءِ راشدین کی سنت لازم ہے، اسے خوب مضبوطی سے پکڑے رہنا اور دین میں نئی چیزوں کے پیدا کرنے سے ڈرتے رہنا ،اس لیے کہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے۔
اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد علامہ ابنِ قیمؒ لکھتے ہیں کہ حضورنے اس میں خلفاءِ راشدین کو اپنی سنت کے ساتھ ذکر کیا اور ان کی اتباع کا سختی سے حکم دیا ہے؛ لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہےکہ صحابہؓ کے اور خلفاء راشدین کے فتاویٰ بھی سنت میں داخل ہیں؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
"وَھٰذَا یَتَنَاوَلُ مَاأَفْتَوْا بِہِ"۔         
(اعلام الموقعین:۴/۱۲۱)
ترجمہ:صحابہ کے فتاویٰ بھی اس میں شامل ہیں۔
صحابہ کے فتاویٰ بھی اس حدیث سے قابلِ حجت معلوم ہوتے ہیں۔
اقوالِ صحابی رضی اللہ عنہم اجمعین کی قسمیں
صحابہ کرامؓ سے جواقوال منقول ہیں او ران کی صراحت قرآن وحدیث میں نہ ہوں تووہ دوطرح کے ہیں:ایک قسم تووہ جوعقل سے ماوراء ہیں ،جنھیں غیرقیاسی کہا جاتا ہے، دوسری قسم وہ ہیں جن کا تعلق فہم وقیاس سے ہے اور انہیں قیاسی کہا جاتا ہے۔
غیرقیاسی مسائل
صحابہؓ کے وہ اقوال جوعقل کی روشنی میں بیان نہیں کئے جاسکتے ہوں اور عقل کی پرواز وہاں تک نہیں ہوسکتی توایسے اقوال کا درجہ یہ ہوگا کہ انہوں نے حضور  سے ہی سنا ہوگا؛ اگرچہ انہوں نے اس کی صرحت نہ کی ہو اور اس میں ان کے عقل وفہم کا دخل نہ ہوگا جیسے نماز کی تعداد ورکعات کی تعیین ہے اور قیامت کی علامات اور اس کی تفصیل وغیرہ، یہ سب حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہوں گی، ایسے  مسائل بالاتفاق قابلِ حجت ہیں:
"اذاقال الصحابی مالایمکن ان یقول اجتہادا بل عن توقیف فیکون مرفوعا"۔
(اصول مذہب  الامام احمد بن حنبل:۳۹۲)
ترجمہ:جب صحابی کوئی ایسی بات کہے جواجتہاد سے نہیں کہی جاسکتی ہوتو وہ مرفوع کے حکم میں ہوگی۔
کیونکہ صحابہ کرام کے ورع وتقویٰ اور دیانت داری کی بناء پر ان کے بارے میں یہ خیال کرنا کسی طرح درست نہیں ہے کہ ایسے مسائل کا حکم انہوں نے اپنی طرف سے بیان کیا ہوگا، خاص طور پر جب کہ صحابہ کرامؓ کی یہ عادت رہی کہ وہ مسائل بیان کرتے وقت کبھی تورسول اللہؐ کا نام لیتے تھے اور کبھی آپکا نام لیے بغیر مسائل بیان کردیتے تھے، اس لیے تمام غیرقیاسی مسائل کے بارے میں کہا جائے گا کہ انہوں نے رسول اللہسے سن کر ہی بیان کیا ہوگا (اصول السرخسی:۲/۱۱۰) جیسے حضرت علیؓ کا مہرکے سلسلے میں "لاَمَهْرَ أَقُلَّ مِنْ عَشْرَةِ دَرَاهِمَ" (السنن الکبری للبیہقی، كتاب الصداق، باب مَايَجُوزُ أَنْ يَكُونَ مَهْرًا، حدیث نمبر:۱۴۷۷۷) اقل مہر دس درہم ہے۔
قیاسی مسائل
قرآن وحدیث میں جومسئلہ منصوص نہ ہو اور وہ مسئلہ قیاسی ہو اور اس میں کسی صحابی کا قول ملتا ہے تو وہ بھی حدیث مرفوع کے حکم میں ہے اورقابلِ حجت ہے، اس کے رہتے ہوئے کوئی دوسرا قول اختیار نہیں کیا جاسکتا ہے؛ لیکن یہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ کوئی دوسرے صحابی کا قول اس قول کے خلاف نہ ہو یاخود راوی کا عمل اس کے خلاف نہ ہو:
"قال ابوالبرکات اذاقال الصحابی قولاً ولم ینقل صحابی خلافہ وھو یجری بمثلہ القیاس والاجتہاد فھو حجۃ"۔            
    (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۳۹۳)
ترجمہ:علامہ ابوالبرکات فرماتے ہیں کہ جب صحابی کوئی بات بتائیں اور دیگرصحابہ کا اس میں اختلاف منقول نہ ہو اور وہ مسئلہ قیاسی اور اجتہادی ہو تو وہ حجت ہے۔
اسی لیے قولِ صحابیؓ کے ہوتے ہوئے امام ابوحنیفہؒ اجتہاد نہیں کرتے تھے اور یہی معمول امام احمد بن حنبلؒ کا بھی تھا؛ حتی کہ اگر پہلے سے عدم علم کی بناء پر ان کی کوئی رائے ہوتی توقولِ صحابی کے معلوم ہونے کے بعد اپنی رائے بدل دیتے تھے۔
اختلافِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
اگر صحابہ کے اقوال میں اختلاف ہوتو مجتہد کو اختیار ہے کہ وہ اجتہاد کے بعد جس قول کو قرآن وحدیث کے اقرب پاتا ہے اس کو ترجیح دے اور عمل کرے؛ چنانچہ علامہ ابن قیمؒ لکھتے ہیں:
"إذااختلف الصحابۃ تخیر اقوالھم ماکان اقربھا الی الکتاب والسنۃ"۔
(اعلام الموقعین:۱/۳۷۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۴۰۸)
ترجمہ:جب صحابہؓ کا اختلاف ہوجائےتو جواقرب الی الکتاب والسنۃ ہو اس کولیا جائے؛ البتہ ان سے خروج جائز نہ ہوگا۔                 
   (اصولِ مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۴۰۸)
اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
کسی دینی مسئلہ میں فقہاء اور اہلِ علم کا اتفاق کرلینا اجماع کہلاتا ہے، اجماع کے من جملہ اقسام میں سے ایک قسم"اجماعِ صحابہؓ" ہے یعنی صحابہ کرامؓ کا کسی مسئلہ دینی میں اتفاق کرلینا اجماعِ صحابہؓ کہلاتا ہے، اجماعِ صحابہ عہدِ اوّل میں کئی مواقع پر ہوا ہے، مثلاً خلافتِ ابوبکرؓ پر صحابہ کا اجماع ہوا؛ اِسی طرح مسئلہ میراث میں مقاسمۃ الجد پر اجماع ہوا، اجماعِ صحابہ بالاتفاق حجت ہے:
"اجماع الصحابۃ حجۃ بلاخلاف بین القائلین بحجیۃ الاجماع وھم احق الناس بذلک"۔          
   (البحرالمحیط:۴/۴۸۲)
ترجمہ:جوحضرات حجیت اجماع کے قائل ہیں ان سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اجماعِ صحابہؓ معتبر ہے اور صحابہؓ کسی مسئلہ پر اجماع کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔
افعالِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
آثارِ صحابہ کے ضمن میں افعال صحابہؓ بھی آتےہیں وہ امور جن میں قرآن وحدیث کی صراحت نہ ہو تواس میں اقوال صحابہؓ کے ساتھ مشروعیت حکم میں افعال صحابہؓ سے بھی کام لیا جاسکتا ہے؛ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض احکام کی مشروعیت فعل وعمل صحابی کی وجہ سے ہوئی ہے، جیسے قاضی ابویعلی نے اپنے کتاب "جامع کبیر" میں ذکر کیا ہے کہ بے ہوش شخص کی نمازوں کی قضا کی مشروعیت صحابی رسول  عمار بن یاسرؓ کے فعل سے ہے
(شرح الکوکب المنیر:۲/۲۰۹) اورجیسے اذانِ ثانی کی بنیاد حضرت عثمانؓ نے رکھی تھی؛ اسی طرح عہدِ عثمانی میں مسجد کی تزئین وپختہ بنانے کا عمل ملتا ہے؛ اسی لیے عالمگیری میں ہے:
"لَابَأْسَ بِنَقْشِ الْمَسْجِدِ بِالْجِصِّ وَالسَّاجِ"۔
(فتاویٰ عالمگیری، الْبَابُ الْخَامِسُ في آدَابِ الْمَسْجِدِ وَالْقِبْلَةِ وَالْمُصْحَفِ وماكُتِبَ فيه شَيْءٌ من الْقُرْآنِ نَحْوُ الدَّرَاهِمِ وَالْقِرْطَاسِ....:۵/۳۱۹)
ترجمہ:مسجد کی تزئین گچ وچونہ اور لکڑی وغیرہ سے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
الحاصل صحابہؓ کا عمل اور خلفاءِ راشدین کا فعل قرآن وحدیث کے خلاف نہ ہو تووہ قابلِ حجت ہے اور وہ ساری انسانیت کے لیے رشد کا پیغام ہے۔
قیاسِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
قیاس کے معنی اندازہ کرنا اور برابر کرنے کے ہیں، قیاس بھی ایک حجتِ شرعی ہے، صحابہ کرامؓ نے بھی قیاس سے کام لیا ہے؛ چنانچہ شیخ محمدخضری بک لکھتے ہیں:
"وکانت ترد علی الصحابۃ قضیۃ لایرون فیھا نصاً من کتاب اللہ اوسنۃ واذ ذاک کانوا یلجاؤن الی القیاس"۔             
   (تاریخ التشریعی الاسلامی:۸۸)
ترجمہ:صحابہؓ کے سامنے جب کوئی مسئلہ پیش آتا اور وہ قرآن وحدیث میں صراحت نہ پاتے توقیاس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔
عہدِ نبوی میں بھی ان کا قیاس سے کام لینا ثابت ہے، مثلاً قبلہ مخفی ہوجاتا تواجتہاد وقیاس سے اس کی تعیین کرتے، ایک سفر میں صحابی رسول  کوغسلِ جنابت کرنا تھا؛ لیکن پانی نہ تھا اور اب انہیں غسل کے بجائے تیمم کرنا تھا، انھیں اس کا طریقہ معلوم نہ تھا، وضوء کے تیمم کو غسل پر قیاس کرتے ہوئے اپنے سارے جسم کو مٹی سے ملوث کردیا (طحاوی:۱/۸۶) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اوردوسرے صحابہؓ کا مانعینِ زکوٰہ کے سلسلہ میں تارکینِ صلوٰۃ پر قیاس کرنا واضح ہے اور حضرت عمرؓ کا ایک خط جس کو انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے نام روانہ کیا تھا، اس میں ان کو قیاس کرنے کا امر فرمایا تھا۔   
  (اعلام الموقعین:۱/۶۹)
علامہ ابنِ قیمؒ صحابہؓ کے آراء اور قیاس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:حقیقت یہ ہے کہ صحابہؓ کے آراء ہم سے بہتر ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو؟ وہ توایسے قلوب سے نکلے ہیں جونور ایمان اور علم وحکمت سے بھرے ہوئے تھے، اس کا تعلق ایسے فہم سے ہے جو اللہ اور رسول  کا ہے اور امت کے لیے نصیحت ہے اور ان کے قلوب نبی کے دل کے قریب تھے، نبی اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے؛ لہٰذا ان کی آراء اور قیاس کے مقابلہ میں دوسروں کی رائے وقیاس صحیح نہیں ہوسکتی۔        
   (اعلام الموقعین:۱/۸۸)
استحسان

لغت میں استحسان کے معنی کسی بھی شئی کے بارے میں حسن کا اعتقاد رکھنا، چاہے وہ واقع کے مطابق ہو یااس کے خلاف ہو اور شرعی نقطۂ نظر سے استحسان وہ چیز کہلاتی ہے جس کی حجتِ شرعیہ تقاضاکرتی ہے چاہے اس کا دل اس کومستحسن سمجھے یانہ سمجھے۔
استحسان کی تعریف
ائمہ احناف نے استحسان کی تعریف مختلف الفاظ میں کی ہیں:
۱۔ایک قیاس سے دوسرے قیاسِ قوی کی طرف عدول کرنے کا نام استحسان ہے۔
۲۔قیاس کو کسی قوی دلیل کے ساتھ خاص کرنے کا نام استحسان ہے۔
۳۔اس دلیل کا نام استحسان ہے جومجتہد کے دل میں بطورِ اشکال پیدا ہوتی ہے اور الفاظ چونکہ اس دلیل کا ساتھ نہیں دیتے ؛اس لیے مجتہد اس کوظاہر کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
۴۔ابوالحسن کرخیؒ فرماتے ہیں کہ استحسان کا مطلب یہی ہے کہ مجتہد ایک مسئلہ میں جوحکم لگاچکا ہے جب اسی طرح کا دوسرا مسئلہ آجائے تواس میں وہی حکم صرف اس لیے نہ لگائے کہ کوئی قوی دلیل ایسی موجود ہو جس کی وجہ سے پہلے جیسا حکم لگانا مناسب نہ ہو۔
استحسان کی حقیقت پر جتنی تعریفات احناف نے کی ہیں ان سب میں زیادہ واضح تعریف امام ابوزہرہ نے اسی کو قرار دیا ہے؛ کیونکہ یہ استحسان کے تمام انواع کو شامل ہے، خلاصہ یہ ہے کہ استحسان قوی ترین دلیل کو اختیار کرنے کا نام ہے، مالکیہ کے نزدیک بھی استحسان کی یہی تعریف ہے۔       
    (اصول فقہ امام لابی زہرہ:۲۰۸)
استحسان دراصل استقباح کا مقابل ہے، علماء مجتہدین کے جس طبقہ وجماعت نے استحسان کو قبول فرمایا ہے ان کے پیشِ نظر اولاً یہی چیز ہوتی ہے کہ پیش آمدہ صورتِ جزئیہ میں اگر کسی ظاہرِ نص یانص سے ثابت شدہ کسی حکم کلی ہی پر نظر مرکوز رکھی جائے اور اس کے خلاف کسی معتبر دلیل کی بنیاد پر بھی عدول کرکے استثنائی حکم تجویز نہ کیا جائے توایک امرقبیح کو گوارہ کرنا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ اس سے مقاصدِ شریعت فوت اور روحِ شریعت مجروح ہوگی اس لیے وہ ظاہر نص کے اقتضاء سے صرفِ نظر کرنے اور حکم کلی سے اس جزئی واقعہ کے استثناء کرلینے کو حسن اور بہتر سمجھتے ہوئے ایک الگ حکم خاص تجویز کرتے ہیں اور اسے استقباح کے مقابل استحسان قرار دیتے ہیں جو دراصل نصِ قرآنی:
"وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا"۔ 
                               (الاعراف:۱۴۵)
ترجمہ:اور اپنی قوم کو بھی حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کریں۔   
   
کی تعمیل ہوتی ہے اور وہ
 "فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"۔    
(الزمر:۱۸)      
  ترجمہ:اس کی اچھی اچھی باتوں پر چلتے ہیں ۔    

 کے مصداق بنتے ہیں۔
استحسان کی اقسام
استحسان اپنے معارض کے اعتبار سے تین قسموں پر منقسم ہوتا ہے:
۱۔استحسان السنہ:اس کا مطلب یہ ہے کہ سنت سے ایسے چیز ثابت ہوتی ہو کہ اس کی وجہ سے قیاس کا ترک کرنا ضروری ہو، مثلاً حدیث میں ہے:
"إذَااخْتَلَفَ الْمُتَبَايِعَانِ وَالسِّلْعَةُ قَائِمَةٌ تَحَالَفَا وَتَرَادَّا"۔
(بدائع الصنائع، كِتَابُ الدَّعْوَى، (فَصْلٌ) وَأَمَّا حُكْمُ تَعَارُضِ الدَّعْوَتَيْنِ فِي قَدْرِ الْمِلْكِ:۱۴/۲۸۴ڈیجیٹیل لائبریری)
ترجمہ:جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہوجائے اور سامان موجود ہو تو دونوں سے قسم لی جائے اور مشتری کو ثمن اور بائع کو مبیع واپس کردی جائے۔
(الف)قیاس کا تقاضا تویہ ہے کہ یہاں بائع کو مدعی اور مشتری کو مدعا علیہ مانا جائے؛ کیونکہ بائع زیادہ ثمن کا دعویٰ کررہا ہے اورمشتری اس کا انکار کررہا ہے؛ لہٰذا بائع کو بینہ پیش کرنا چاہیے، اگر وہ بینہ پیش نہ کرے تومشتری سے قسم لیکر اس کے حق میں فیصلہ کردینا چاہیے؛ لیکن سنت میں یہ آچکا ہے کہ دونوں سے قسم لیکر بیع کوختم کردیا جائے، اس لیے قیاس کو ترک کردیا جائے گا اور سنت پر عمل کیا جائے گا۔
(ب)نیزحدیث میں ہے کہ اگرکوئی روزہ دار بھول کر کھا پی لے توبھی اس کا روزہ صحیح ہے (مشکوٰۃ شریف:۱۷۶)حالانکہ قیاس کا تقاضا ہے کہ اس کا روزہ ٹوٹ جائے؛ کیونکہ کھانے پینے سے رکنا جوروزہ کے لیے ضروری ہے نہیں پایا گیا؛ لیکن بھول کر کھاپی لینے کے باوجود روزہ کے نہ ٹوٹنے پر نص وارد ہوئی ہے، اس لیے اس جگہ قیاس کو رد کردیا جائے گا۔
(ج)نیزحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ  نمازکےاندر قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے (سنن دارِقطنی:۱/۱۶۱)حالانکہ قہقہہ لگانا ناقضِ وضو نہیں ہونا چاہیے؛کیونکہ اس میں خروجِ نجاست بھی نہیں ہے کہ اسے ناقض وضو کہا جائے؛ لیکن نماز کے اندر قہقہہ لگانے سے وضو کے ٹوٹ جانے پر نص وارد ہوئی ہے؛ اس لیے یہاں بھی قیاس کو ترک کردیا جائے گا۔
۲۔استحسان الاجماع:کسی مسئلہ میں اجماع منعقد ہوگیا ہوتوا سکی وجہ سے قیاس کو ترک کردیا جائے گا، مثلاً عقد استصناع قیاس کی رو سے جائز نہیں ہونا چاہیے؛ لیکن اس کی صحت پر ہرزمانہ میں عمل ہوچکا ہے؛ لہٰذا اس کی وجہ سے قیاس کو ترک کردیا جائے؛ اب اسے اجماع کی وجہ سےترک کرنا کہیں یاعرفِ عام کی وجہ سے؛کیونکہ ایسا کرنا اقویٰ دلیل کو اختیار کرنا ہوگا، مفہوم کے اعتبار سے استحسانِ اجماع، استحسانِ عرف کے قریب قریب ہے؛ کیونکہ دونوں کا مقصد مشقت کودور کرنا ہے۔
۳۔استحسان الضرورۃ:کسی مسئلہ میں ایسی ضرورت پائی جائے جومجتہد کو قیاس کے ترک کرنے اور ضرورت کے مقتضیٰ کو اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہو۔
 مالکیہ ان اقسام کے علاوہ اس میں ایک اور قسم کا اضافہ کرتے ہیں اور وہ ہے "استحسان المصلحۃ" اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرمصلحت اور قیاس میں تعارض ہوجائے تومصلحت کواختیار کیا جائے گا اور اس کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیا جائے گا، مثلاً قیاس کا تقاضا ہے کہ عدالت میں عادل اور ثقہ لوگوں کی گواہی معتبر ہو؛تاکہ کذب پر صدق راجح رہے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے؛ لیکن اگرکوئی قاضی ایسے شہر میں ہو جہاں عادل گواہ نہ مل سکیں توایسی صورت میں اگرقاضی انہی غیرعادل گواہوں کی گواہی قبول نہ کرے تولوگوں کے املاک اور حقوق ضائع ہوجائیں گے؛ اس لیے اس مصلحت کے پیشِ نظر اس قاضی کو انہی غیرعادل گواہوں کی گواہی قبول کرنا لازم ہے ؛تاکہ لوگوں کے حقوق اور املاک ضائع نہ ہوں؛ یہاں اس مصلحت کی وجہ سے قیاس کو ترک کردیا جائے گا اور اسی قبیل سے یہ بھی ہے کہ حوض اور کنواں جب ایک مرتبہ ناپاک ہوجائے توقیاس کی روشنی میں اسے پاک ہونا ہی نہیں چاہیے؛ کیونکہ جب حوض اور کنواں کا ناپاک پانی نکال لیا جائے تواس کی سطح اور دیوار نجس پانی کے اس سے متصل ہونے کی وجہ سے ناپاک ہی رہتا ہے، اب ان کو پاک کرنے کی خاطر جب بھی پانی ڈالا جائے گا تونجس سطح اور دیوار سے پانی ملتے ہی ناپاک ہوتا رہے گا اور ناپاک پانی سے ان دونوں کو پاک کرنا ممکن نہیں رہے گا، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حوض یاکنواں جب ایک بار ناپاک ہوجائے تواسے بالکل بند کردینا چاہیے؛ کیونکہ انہیں پاک کرنا ممکن ہی نہیں؛ ظاہر ہے کہ اس میں بہت بڑا حرج ہے؛ لہٰذا اس کے پیشِ نظر قیاس کو ترک کردیا گیا اور ضرورت کے پیشِ نظر فقہاء نے ناپاکی کی نوعیت کے لحاظ سے ڈول کی ایک خاص تعداد میں پانی نکالنا متعین فرمادیا؛ تاکہ بار بار پانی نکالنے سے نجاست میں خاطر خواہ کمی ہوجائے؛ اگرچہ کہ وہ پوری طرح ختم نہ ہوپائے۔
استحسان کے منکرین اور ان کے دلائل
امام شافعیؒ نے سب سے پہلے استحسان کو حجت ماننے سے انکار کیا اور مستقل موضوع بناکر اس کی تردید کی؛ چنانچہ کتاب الام میں ایک مستقل عنوان "ابطال الاستحسان" کے نام سے قائم کیا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس عنوان کے ذیل میں یااپنی کتاب "الرسالہ" میں ابطال استحسان پر جو دلائل قائم کئے ہیں ،ان کا خلاصہ سطورِ ذیل میں پیش کردیا جائے:
ان کی دونوں کتابوں کا جائز ہ لینے سے چھ دلائل سامنے آتے ہیں، جو نمبروار اس طرح ہیں:
الف:شریعت کی بنیاد نص پر ہے اور شریعت نے نص پر قیاس کرنے کا انسان کو مکلف کیا ہے اور ظاہر ہے کہ استحسان نہ نص ہے نہ نص پر قیاس کرنا ہے؛ بلکہ ان سے ایک خارج شئی ہے، اب اگر اس خارجی شی کا اعتبار کیا جائے تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ایک ضروری چیز کوترک کردیا ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد:
"أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى"۔                          
   (القیامۃ:۳۶)
ترجمہ:کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا۔      

کے خلاف ہے؛ پس استحسان جونہ قیاس ہے اور نہ نص پر عمل کرنا ہے ،اس آیتِ کریمہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ قبول ہے۔
ب:بے شمار آیتوں میں اللہ اور اس کے رسول  کی اطاعت کا حکم ہے اور خواہشات کی اتباع سے انسانوں کو روکا گیا ہےاور شریعت کا حکم ہے کہ جب کبھی آپس میں نزاع ہوجایا کرے توکتاب اللہ کی طرف رجوع کرو؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ"۔
(النساء:۵۹)
ترجمہ:اگرکسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تواس امر کو اللہ اور اس کے رسول  کے حوالے کردیا کرو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔           
  
اور ظاہر ہے کہ استحسان نہ کتاب اللہ ہے او رنہ سنت رسول  کہ ان کی طرف رجوع کیا جائے؛ بلکہ یہ ان دونوں سے ہٹ کر ایک تیسری چیز ہے، اس لیے جب تک قرآن وحدیث کے اندر اس کے قبول کرنے کی دلیل نہ ملے اس وقت تک اس کو قبول نہیں کریں گے اور چونکہ کوئی دلیل اس کے قبول پر نہیں ہے، اس لیے استحسان کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
ج:حضور  ہمیشہ وحی کی روشنی ہی میں حکم دیا کرتے تھے ،کبھی بھی استحسان کی بناپر کوئی حکم نہیں دیا، مثلاً ایک بار آپ  سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے "انت علی کظھرامی" کہہ دیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ توحضور نے اس کا جواب استحسان سے نہیں دیا  ؛ بلکہ حضورؐ نے وحی کا انتظار کیا حتی کہ آیتِ ظہار اور کفارہ کا حکم نازل ہوا اور اس طرح کے اورکئی مسائل ہیں کہ آپؐ نے پیش آمدہ واقعات میں استحسان کی روشنی میں جواب دینے سے انکار فرمایا اور وحی کا انتظار فرمایا؛ اگرکسی کے لیے فقہی ذوق اور استحسان سے فتویٰ دینے کی گنجائش ہوتی تو اس کے زیادہ مستحق حضور  تھے؛ لیکن حضور  نے اس سے گریز کیا توہم پر لازم ہے کہ ہم بھی کسی نص پر اعتماد کئے بغیر استحسان پر فتویٰ دینے سے احتراز کریں، ہمارے لیے حضور  کی ذات اسوہ ہے۔
د:حضور  نے بعض حضرات صحابہ کرامؓ پر محض اس لیے نکیر فرمائی کہ انہوں نے حضور  کے زمانے میں غائبانہ استحسان پر عمل کرلیا تھا، مثلاً ایک مرتبہ ایک مشرک نے مسلمان لشکر کو دیکھ کر کلمہ شہادت پڑھ دیا تھا؛ لیکن حضرت اسامہؓ نے سمجھا کہ اس نے محض جان بچانے کی خاطر یہ کلمہ پڑھا ہے؛ لہٰذا وہ مسلمان نہیں ہے اور اس کا قتل کرنا درست ہے، اس لیے انہوں نے اس کو قتل کردیا؛ لیکن حضور  کو جب معلوم ہوا تو آپ  نے اس پر نکیر فرمائی(اصول فقہ لابی زہرہ:۲۱۴) اگر استحسان جائز ہوتا توحضور حضرت اسامہؓ پر نکیرنہ فرماتے؛ لہٰذا معلوم ہوا کہ استحسان جائز نہیں ہے۔
ھ:استحسان کے لیے کوئی ضابطہ اور قاعدہ نہیں ہے کہ اس پر حق وباطل کو پرکھا جائے ،اب اگرہرمفتی حاکم اور مجتہد کے لیے استحسان کی اجازت دیدی جائے تومعاملہ بہت الجھ جائے گا اور ایک ہی مسئلہ میں کئی احکام سامنے آئیں گے اور کوئی ضابطہ ہے نہیں کہ اس کی روشنی میں کسی ایک کو ترجیح دی جائے اور یہ خرابی  استحسان کی اجا زت دینے سے پیدا ہوگی؛ لہٰذا وہ قابلِ ترک ہے۔
و:اگر استحسان مجتہد کے لیے جائز قرار دیا جائے تو وہ مجتہد نص پر اعتماد نہیں کرےگا او رنہ کسی مسئلہ کونص میں تلاش کرنے کی زحمت گوارہ کرے گا؛ بلکہ وہ صرف اپنی عقل پر ہی اعتماد کرکے احکام بیان کردے گا اور اس سے ہراس شخص کو مسائل بیان کرنے کی جرأت ہوجائے گی جوکتاب وسنت کا علم بھی نہ رکھتا ہو، اس لیے کہ کتاب وسنت کا علم نہ رکھنے والوں کے لیے بھی عقل کا ہونا ثابت ہے، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اہلِ علم کی عقل سے غیراہلِ علم کی عقل زیادہ ہوتی ہے اور یہ خرابی محض استحسان کے جائز قرار دینے کی وجہ سے لازم آرہی ہے، اس لیے استحسان حجت نہیں بن سکتی۔      
(اصولِ فقہ لابی زہرہ:۲۱۵)
مانعین کی دلائل پر ایک نظر
اگرغور سے دیکھا جائے تومانعین کے یہ تمام دلائل اس استحسان سے متعلق نہیں ہیں، جنھیں احناف ومالکیہ قابلِ اعتبار قرار دیتے ہیں، چنانچہ شیخ ابوزہرہ امام شافعیؒ کے مذکورہ چھ دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"ان ھذہ الادلۃ کلھا لاترد علی الاستحسان الحنفی"۔
یہ سارے دلائل استحسان حنفی کے خلاف نہیں ہیں۔
اور واقعۃً امام شافعیؒ کے ان دلائل میں اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں "لوکان لاحدان یفتی بذوق الفقہی، الخ.... بل یعتمد علی العقل وحدہ ، الخ.... وغیرھا" اس سے واضح ہوتا ہے کہ دراصل سیدنا امام شافعیؒ مطلقاً استحسان کو باطل اور قابلِ رد نہیں سمجھتے؛ بلکہ جس استحسان میں صرف فقہی ذوق اور محض عقلی اقتضا کے تحت قانون سازی ہو، ایسے استحسان کو باطل ومردود قرار دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جن دلائل کے معتبر اور شرعی ہونے پر پوری امت متفق ہے، اس سے استناد کئے بغیر محض ذوق ووجدان اور طبعی خواہش کی بنیاد پر حکم  شرعی بیان کرنے کوکوئی استحسان نہیں کہتا اور نہ یہ طریقہ استدلال کسی مجتہد کے یہاں صحیح ہے، اس طرح یہ محض ایک لفظی نزاع رہ جاتا ہے؛ چنانچہ ابوزہرہ لکھتے ہیں:
"ان الاخذ بالاستحسان لاینافی الاتباع للاصول المعتبرۃ بحال من الاحوال"۔
(اصول فقہ لابی زہرہ:۲۵۰)
استحسان یعنی قیاس خفی کے مقتضا کو قبول کرنا کسی بھی حالت میں شرعاً اصول معتبرہ کی اتباع کے خلاف نہیں ہے۔
اسی لیے تقریبا تمام ائمہ مجتہدین حنفیہ ہوں یامالکیہ وحنابلہ؛ بلکہ امام شافعیؒ بھی عملاً اس کے مصدر شرعی ہونے کو تسلیم کرتے ہیں، متاخرین علماء شوافع کی تحریریں اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ امام شافعیؒ بھی استخراج احکام میں برابر اس طرزِ استدلال سے کام لیتے رہے ہیں؛ گویا یہ حضرات اس کی تعبیر"استدلال مرسلہ" اور "معانی مرسلہ" وغیرہ سے کرتے ہیں، اس طرح مصطفیٰ زرقاء کی یہ بات قولِ فیصل ہے، یعنی استحسان واستصلاح کے بارےمیں امام شافعیؒ کا اختلاف بعض شرائط وقیود اور تسمیہ واصطلاح کا اختلاف ہے، اصل استحسان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
حاصل یہ ہے کہ یہ بات اپنی جگہ ایک سچائی ہے کہ استحسان بھی مصادر شرعی میں سے ایک معتبر مصدر ہے، جس سے کام گوسارے ہی مجتہد نے لیا ہے، مگر علماء احناف نے اس سے بکثرت استفادہ کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں اسلامی زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق پوری جامعیت کے ساتھ قانونِ اسلامی کا ایک عظیم الشان اور نافع ترین ذخیرہ امت کے ہاتھ آیا۔ 
(فقہ اسلامی —اصول خدمات اور تقاضے:۲۳۷،۲۳۸)
استحسان کے قائلین
ائمہ احناف میں سے امام طحاویؒ کو چھوڑ کر تمام احناف، حنابلہ اور مالکیہ استحسان کومعتبر مانتے ہیں، اصل میں امام مالکؒ استحسان کو مصالح مرسلہ میں داخل کردیتے ہیں اور مصالح مرسلہ ان کے نزدیک حجت ہے، حاصل یہ ہے کہ ائمہ ثلاثہ اس کی حجیت کے قائل ہیں۔
(اصول فقہ لابی زہرہ:۲۰۸،۲۱۵)
قائلین استحسان کے دلائل
قائلینِ استحسان اس کی حجیت پر قرآن وسنت اور اجماعِ امت سے استدلال کرتے ہیں، مثلاً، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَاأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ"۔   
(الزمر:۵۵)
ترجمہ:تم کو چاہیے کہ اپنے رب کے پاس سے آئے ہوئے اچھے اچھے حکموں پر چلو۔

(۱)ارشادِ خداوندی ہے:
"الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"۔
(الزمر:۱۸)
ترجمہ:جواس کلام الہٰی کو کان لگاکر سنتے ہیں پھراس کی اچھی اچھی باتوں پر چلتے ہیں۔

پہلی آیت میں "أحْسَنَ مَااُنْزِلَ" کی اتباع کا حکم ہے اور دوسری آیت مقام مدح میں ہےاس میں ان حضرات کی تعریف کی گئی ہے جواحسن قول کی اتباع کیا کرتے ہیں ،گویانص میں خود اس بات کا حکم اورترغیب ہے کہ بعض کوچھوڑدی جائے اور بعض کی اتباع محض اس وجہ سے کی جائے کہ وہ احسن ہے اور یہی استحسان کا مطلب ہے کہ اس کے ذریعہ احسن کو اختیار کیا جاتا ہے اور غیراحسن کو ترک کردیا جاتا ہے۔
(۲)نیزآپ  کا ارشاد ہے:
"فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ"۔
(مسنداحمدبن حنبلؒ، مسندعبداللہ بن مسعودؓ، حدیث نمبر:۳۶۰۰)
ترجمہ:جسے مسلمان مستحسن سمجھیں وہ اللہ کے یہاں بھی مستحسن ہے۔
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک بھی وہ چیز مستحسن ہوجاتی ہے جومسلمانوں کے یہاں مستحسن ہو اور اگراستحسان حجت نہ ہوتی تو اس کے اللہ کے نزدیک حسن ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(۳)استحسان کی حجیت اجماع امت سے اس طرح ثابت ہے کہ حمام میں غسل کرنے کے لیے داخل ہونا تمام فقہاء نے جائز قرار دیا ہے؛ حالانکہ اس میں نہ وقت کی تعیین ہوتی ہے اور نہ پانی کی مقدار متعین ہوتی ہے اور نہ ہی اجرت متعین کی جاتی ہے؛ اسی طرح سقہ سے پانی پینا تقریباً تمام فقہاء نے جائز قرار دیا ہے؛ حالانکہ اس میں نہ پانی کی مقدار متعین ہوتی ہے اور نہ ہی اجرت متعین کی جاتی ہے ،ظاہر ہے کہ ان کو فقہاء نے استحسان کے قبیل سے ہونے کی وجہ سے ہی جائز قرار دیا ہے، حاصل یہ ہے کہ استحسان کا قابل حجت ہونا کتاب اللہ، سنت رسول اللہ  اور اجماع امت سے ثابت ہے اور قیاس تواس کی تائید میں پہلے سے ہی ہے اس طرح چاروں ادلہ سے استحسان کا حجت ہونا ثابت ہے۔                    
  (اصول مذہب امام احمد بن حنبلؒ:۵۰۵)
استحسان کا وجود شارع علیہ السلام کے کلام میں
بہرحال جہاں تک استحسان کے مصدرِ شرعی ہونے کی بات ہے تو تقریباً سارے ہی ائمہ مجتہدین کے نزدیک وہ عملاً مسلم ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ ائمہ مجتہدین جس طرزِ عمل کو اور جس طرزِ استدلال کو دلیل استحسان سے تعبیر کرتے ہیں، بلاشبہ یہ طرزِ عمل خود جناب رسول اللہ  کا بھی تھا، اس کی چند مثالیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیے مثلاً قہقہہ کوئی نجاست نہیں ہے؛ چنانچہ نماز کے باہرقہقہہ سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ مگرجناب رسول اللہنے نماز کے اندر قہقہہ کو ناقضِ وضو قرار دیا ہے؛ گواہوں کا نصاب دومرد ہونا نص سے ثابت ہے؛ مگرجناب رسول اللہ  نے حضرت خزیمہ بن ثابتؓ کو استثنائی طور پر ایک ہونے کے باوجود دوگواہ کے قائم مقام قرار دیا ہے، روزہ میں اگرکوئی قصداً روزہ توڑدے اور وہ غلام آزاد کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور نہ ہی دومہینے روزہ رکھنے کی اسے طاقت ہے تواس کے بارے میں حکم ہے کہ بطورِ کفارہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے؛ مگرایک شخص جب عمداً روزہ توڑکر آیا اور اس نے غلام آزاد کرنے اور روزہ رکھنے سے اپنی معذوری ظاہر کی توحضورؐ نے اپنے پاس سے ان کو برائے صدقہ کھجور عنایت فرمایا، تب انہوں نے کہا کہ یارسول اللہؐ مدینہ کے ان دوپہاڑیوں کے درمیان ہمارےگھرانے سے زیادہ اور کون محتاج ومسکین ہے، یہ سن کر حضور  نے فرمایا:
"اذهب وأطعمه أهلك"۔
(الذخیرۃ، الباب السادس فی سبب الکفارۃ:۲/۵۱۷، ڈیجیٹل لائبریری)
ترجمہ:جاؤ اپنے اہلِ وعیال کو کھلادو۔
یہ اجازت عام اصول کے خلاف ہے؛ مگررسول اللہ  نے ان کو استثنائی حکم دیا ہے۔
میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ یہ سب ازقبیلِ استحسان ہی تھا؛ کیونکہ جناب رسول اللہ  مستقل شارع تھے، ان کا قول وعمل توخود اپنی جگہ نص اور حجت شرعیہ ہے، زیادہ سے زیادہ اسے استحسان شارع کہا جاسکتا ہے؛ تاہم اسے ائمہ مجتہدین کی اصطلاح استحسان سے کوئی تعلق نہیں؛ بلکہ میں ان مثالوں کی روشنی میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ائمہ مجتہدین کی اصطلاح میں جسے استحسان کہا جاتا ہے، اس طریق استدلال کا وجود شارع علیہ السلام سے بھی ثابت ہے۔                                 
   (فقہ امام مالکؒ:۳۸۱)
حضرات صحابہ سے استحسان پر عمل کے نظائر
حضرات صحابہؓ سے بھی استحسان پر عمل کرنا ثابت ہے، ذیل میں اس کی کچھ مثالیں ذکر کی جاتی ہیں، مثلاً:
(۱)عورت کا انتقال ہوجائے اور اس کے ورثا یہ ہوں:شوہر ،ماں، دواخیافی بھائی اور دو سگے بھائی کہ اس صورت میں شوہر، ماں اور اخیافی بھائی تو ورثاء ہیں جواصحاب فرائض کہے جاتے ہیں، یعنی شریعت میں ان کے حصص مقرر ومتعین ہیں؛ لیکن میت کے سگے بھائی عصبات کے قبیل سے ہیں اور علم میراث کا یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ اصحاب فرائض سے جوبچ کررہ جاتا ہے وہ عصبات کو ملتا ہے؛ لہٰذا اس صورت میں قیاس کی رو سے اخیافی بھائیوں کو توترکہ ملے گا، مگر میت کے سگے بھائیوں کو کچھ بھی نہیں مل سکے گا؛ کیونکہ شوہر کو نصف حصہ ملے گا، ماں کو چھٹا اور اخیافی بھائیوں کو ثلث ملے گا، اس کے بعد کچھ بچتا ہی نہیں کہ میت کے سگے بھائیوں کو عصبات میں سے ہونے کی وجہ سے ملے؛ پس یہ عجیب وغریب پیچیدگی واقع ہوگئی کہ میت کے سگے بھائی تومحروم ہوجائیں اور اخیافی بھائی ترکہ پالیں، بعض صحابہ نے اسی کے مطابق فتویٰ دیا ہے اور حنفی وحنبلی اجتہادات میں بھی یہی ہے؛ لیکن حضرت عمرؓ اور دوسرے صحابہؓ کے نزدیک ازروئے استحسان اس کا حکم دوسرا ہے، یہ حضرات میت کے سارے بھائیوں کو خواہ اخیافی ہوں یاسگے، سب کو ثلث میں شریک قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ یہ سارے بھائی ایک ماں کی اولاد تو ہیں؛ اگرچہ ان کے باپ الگ الگ ہیں، حضرت عمرؓ نے استحسان کا یہ طریقہ انصاف قائم کرنے اورحرج کے دفع کرنے کی خاطر اختیار کیا ہے اور فقہ مالکی اور فقہ شافعی میں بھی اس صورتِ حال کا یہی حکم ہے۔
یہ صورتِ حال فرضی نہیں ہے؛ بلکہ روایتوں میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ فی الواقع یہی نوعیت پیش آگئی؛ چنانچہ جب واقعہ حضرت عمرؓ کے سامنے پیش ہوا تواولاً حضرت عمرؓ نے اسی رائے کا اظہار فرمایا کہ ماں کی جانب سے میت کے اخیافی بھائیوں کا حصہ ثلث ہوگا؛ کیونکہ وہ اصحابِ فرائض میں سے ہیں ،یہ سن کر میت کے سگے بھائیوں نے جوعصبات میں سے تھے اور حصہ پانے سے محروم ہوجارہے تھے، حضرت عمرؓ سے کہا کہ ہٹائیے ہمارے باپ کو اور سمجھ لیجئے کہ ہمارا باپ کوئی گدھا تھا؛ لیکن کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہم چاروں ایک ہی ماں کی اولاد ہیں، یہ سن کر حضرت عمرؓ اپنی پہلی رائے سے رجوع فرمائے اور میت کے چاروں بھائیوں کو ثلث میں شریک قرار دینے کا فیصلہ فرمایا۔                                 
   (البحرالمحیط:۶/۸۹۔ الاحکام للآمدی:۴/۲۱۴)
(۲)قرآن کی نص صریح مصارفِ زکوٰۃ میں سے ایک مصرف مولفۃ القلوب کو بھی قرار دیتی ہے یعنی نومسلموں کی تالیف قلب یاکافروں کے فسادوشر سے بچنے کے لیے انہیں بھی زکوٰۃکی رقم دی جاسکتی ہے، عہدِ صدیقی رضی اللہ عنہ میں عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس حسبِ دستور اپنے حصے کا مطالبہ کرنے آئے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق حکم نامہ لکھ دیا ،یہی لوگ پھرحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے اس حکم نامہ کو مؤکد کرنے کے لیے گئے توحضرت عمرؓ نے اس پر دستخط نہیں کیا اور انہیں کچھ دینےسے انکار کردیا اور فرمایا:
"ھذا الشی کان النبی  یعطیکموہ تالیفا لکم علی الاسلام والآن قداعزاللہ الاسلام واغنی عنکم فان بقیتم علی الاسلام والابیننا وبینکم السیف"۔
ترجمہ:یہ وہ چیز تھی جوجناب رسول اللہ  تم کو اسلام پر جمانے کے لیے دیا کرتے تھے اب اللہ نے اسلام کو غلبہ وشوکت دیکر تمہارا محتاج نہیں رکھا، اب اگر اسلام پر ثابت قدم رہے تو فبہا؛ ورنہ تلوار ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کن ہوگی۔
اور یہی استحسان ہے۔               
    (فقہ اسلامی اصول خدمات اور تقاضے:۲۳۶،۲۳۷)
(۳)سرقہ اور زنا کی سزا ایک حکم کلی کی شکل میں قرآن پاک میں موجود ہے، ایک مرتبہ یمن کے باشندوں نے مقام حرہ میں قیام کیا اور ان کے ساتھ رفقاء سفر میں سے ایک شادی شدہ عورت بھی تھی، وہ لوگ ا س کے ساتھ بدکاری کرتے رہے؛ پھراسے چھوڑ کر چل پڑے ،یہ عورت حضرت عمرؓ کے پاس آئی اور اپنا واقعہ سناتے ہوئے یہ کہا کہ میں مسکینہ اور محتاج تھی، ہمارے رفقاءِ سفر ہمارا خیال نہیں کرتے تھے اور میرے پاس اپنے نفس کے سواء کچھ نہیں تھا، میں اپنی عزت کوان سے مادی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے کھوتی رہی، حضرت عمرؓ اس کے رفقاء کو بلاکر تحقیقِ حال کیا اور جب لوگوں نے اس عورت کی محتاجی اور مسکینی کی تصدیق کردی توحضرت عمرؓ نے اسے زنا کی آئینی سزا سے بری فرمادیا۔                
  (چراغِ راہ:۲۷۵)
(۴)حاطبِ بن ابی بلتعہؓ صحابی رسول کے ایک غلام نے قبیلۂ مزینہ کے ایک شخص کا اونٹ چراکر ذبح کردیا، معاملہ حضرت عمرؓ کی عدالت میں پہونچا اور ضابطہ کے تحت قطع ید کا فیصلہ ان کے حق میں کیا؛ لیکن فوراً اس فیصلہ سے عدول کرتے ہوئے حاطب بن ابی بلتعہؓ سے دریافت کیا کہ میرا خیال ہے کہ تم ان غلاموں کو بھوکا رکھتے ہو جس سے مجبور ہوکر یہ لوگ وہ کام کرگزرے ،جسے اللہ نے حرام کررکھا ہے، یہ فرماکر حضرت عمرؓ اونٹ کے مالک کو اس کی قیمت لینے پر راضی کرلیا، ان دونوں واقعہ میں ایک حکم کلی سے ہٹ کر حضرت عمرؓ نے ایک استثنائی فیصلہ فرمایا ہے اور یہی فیصلہ ان مخصوص احوال وظروف کے اعتبار سے حسن اور مقاصد شریعت کے عین مطابق اور جرم وسزا میں توازن واعتدال کا مقتضا تھا۔             
  (قرطبی:۸/۱۸۱۔ المغنی:۲/۶۶۶)
استحسان کی مثالیں فقہاء کے عبارتوں میں
فقہاء کی عبارتوں میں بھی استحسان کی مثالیں جابجا ملتی ہیں، اس کی چند مثالیں درجِ ذیل ہیں:
۱۔ازروئے قیاس پھاڑ کھانے والے پرندوں کا جھوٹا ناپاک ہونا چاہیے؛ کیونکہ پھاڑ کھانے والے چوپایوں کا جھوٹا ناپاک ہے توجس طرح درندے چوپایوں کا جھوٹا ناپاک ہے اسی طرح پھاڑ کھانے والے پرندوں کا جھوٹا بھی ناپاک ہونا چاہیے؛ مگراستحساناً ایسے پرندوں کا جھوٹا پاک مگر مکروہ قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ درندے نجس العین نہیں ہیں ان میں نجاست محض گوشت کے حرام ہونے کی وجہ سے ہے؛ لہٰذا پانی کی نجاست کا حکم بھی اسی جگہ لگایا جائے گا جہاں پانی سے (ان کے گوشت سے پیدا شدہ) لعاب اور رطوبت کا امتزاج پایا جائے اور پھاڑ کھانے والے پرندوں میں یہ امتزاج نہیں پایا جاتا ہے، اس لیے کہ وہ اپنی چونچ سے پانی لیکر حلق میں ڈالتے ہیں اور ان کی چونچ ایک پاک ہڈی ہے ان کے پانی میں پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا ہے؛ البتہ کراہت اس معنی کرباقی رہے گی کہ عموماً ایسے جانوروں کی چونچ میں خارجی نجاست لگی رہتی ہے ،اس مسئلہ میں قیاس کی دلیل اگرچہ ظاہر نظر میں بہت مضبوط ہے؛ لیکن وہ استحسان کو ترجیح حاصل ہے۔
۲۔سواری پر چلتے ہوئے نمازِ جنازہ کے متعلق اگرقیاس پر نظر رکھی جائے تومعلوم ہوگا کہ نمازِ جنازہ سواری پر جائز ہونی چاہیے ؛اس لیے کہ وہ اصل نماز نہیں؛ بلکہ دعا ہے اور دعا ہرحالت میں جائز ہے، اس کے لیے سواری یاپیدل کو کوئی قید نہیں ہے، اس کے برخلاف استحسان کا تقاضا یہ ہے کہ سواری کی حالت میں نمازِ جنازہ نہ ہو؛ اس لیے کہ نمازِ جنازہ میں تکبیر تحریمہ وغیرہ پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی حیثیت نماز کی سی ہے؛ لہٰذا اس پر فرض نماز کے احکامات جاری کرنے چاہئیں اور بلاعذر سواری پر نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت نہ ہونی چاہیے، اس مسئلہ میں بھی استحسان قیاس کے مقابلہ میں قوی ہے؛ لہٰذا استحسان ہی کو ترجیح دی گئی ہے۔
۳۔اگرکسی شخص پر زکوٰۃ واجب تھی پھر اس نے زکوٰۃ کی نیت کئے بغیر سارا مال صدقہ کردیا تویہاں قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ زکوٰۃ ادا نہ سمجھی جائے اور اس پر ادائیگی کا فرض بدستور باقی رہے؛ کیونکہ صدقہ نفل اور فرض دونوں طرح سے کیا جاتا ہے، ان میں امتیاز کے لیے فرض کی نیت متعین طور پر کرنا ضروری ہے جویہاں نہیں پایا گیا، جب کہ استحسان کا تقاضا یہ ہے کہ سارا مال صدقہ کردینے کی وجہ سے اس سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم ساقط ہوجائے ؛اس لیے کہ تعین کی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں کوئی چیز متعین کئے بغیر متعین نہ ہوسکے؛ یہاں ایسا نہیں ہے؛ بلکہ کل مال کا ایک حصہ ہی یہاں واجب تھا جویقینی طور پر صدقہ کردیا گیا، اب کچھ بچا ہی نہیں کہ اسے متعین کیا جاسکے ؛اس لیے بلاتعین کے بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔           
   (اقضیہ عمر بن خطاب لعبد العزیز الہلودی:۱۱۰)
۴۔استحسان ہی کے قبیل سے قرض کا مسئلہ ہے  کہ اسے ربا میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہونا چاہیے؛ کیونکہ قرض میں ایک وقت معینہ پر روپیہ کا روپیہ سے تبادلہ ہوتا ہےاور مستقرض اس کے ذریعہ فائدہ اٹھاتا ہے اور یہ بھی تو ربا ہے؛ لیکن استحسان کی وجہ سے اسے مباح قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ قرض دینے میں باہمی رواداری اورہمدردی کا اظہار ہوتا ہے ؛ اس لیے یہاں پر بھی قیاس کو ترک کرکے استحسان پر عمل کیا گیا ہے۔
۵۔اسی طرح قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ لوگوں کے موضع ستر کو نہیں دیکھنا چاہیے؛ خواہ علاج ہی کی ضرورت کیوں نہ ہو؛ کیونکہ یہ شریعت کا عام قاعدہ ہے کہ موضع ستر کا دیکھنا اور چھوناحرام ہے؛ لیکن علاج کی غرض سے اس کو استحساناً جائز قرار دیا گیا ہے۔
(فقہ اسلامی اصول خدمات اور تقاضے:۲۲۸، ۲۲۹)
خلاصہ یہ ہے کہ استحسان ادلۂ اربعہ سے بالکلیہ الگ کوئی خاص دلیل نہیں ہے؛ بلکہ انہی میں سے بعض کوبعض پر ترجیح اور بعض کوبعض سے مستثنیٰ اور دلائل میں باہمی تطبیق اور سبھوں کے مناسب محامل کوتجویز کرتے ہوئے حکم مرجوح وقبیح سے بچ کر حکم راجح واحسن کو اختیار کرنے کی کوشش کرنے کا نام استحسان ہے؛ اس طرح استحسان کا ثمرہ دراصل اتباع حسن اور اجتناب عن القبح نکلتا ہے، جس کے مستحسن ہونے؛ بلکہ مامور بہ ہونے سے انکار کرنا مشکل ہے۔             
  (اصولِ فقہ لابی زہرہ:۲۱۳)
عرف وعادت
انسانوں کے خود ساختہ آئین کا توانحصار ہی بڑی حد تک ججوں کے فیصلوں کے نظائراور شخصی اجتہادات کے علاوہ بڑی حد تک کسی قوم کے مخصوص رواج اور قومی تعامل ہی پر ہوتا ہے۔
اسلامی شریعت چونکہ خدا کی نازل کردہ ہے، اس لیے اس کی اساس قرآن وحدیث پر ہے، باقی دوسرے مصادر ضمنی اور ذیلی حیثیت رکھتے ہیں؛ لیکن یہ حقیقتِ واقعہ ہے کہ اسلام کے نزول کا مقصد ہی چونکہ انسانی معاشرہ کی اصلاح اور غلط عرف ورواج کو مٹاکر اس کی جگہ پر عرفِ صحیح قائم کرنا ہے، اس لیے اسلام نے محض کسی چیز کے رواج پڑنے کو شریعت کے لیے اساس نہیں بنایا؛ لیکن وہ عادتیں اور ایسے عرف جواچھے تھے ان کو جوں کاتوں برقرار بھی رکھا اورجہاں کسی جزوی اصلاح وترمیم کی ضرورت تھی، وہاں اصلاح وترمیم بھی کی، اس لحاظ سے بعض معاصر فقہاء کا یہ کہنا کہ "عرف"کوئی مستقل شرعی دلیل نہیں ہے؛ بلکہ وہ مصلحت اور دفعِ مشقت وغیرہ سے متعلق شرعی اصول ہی کا ایک حصہ ہے، کچھ زیادہ بے جابات نہیں ہے، شیخ عبدالوہاب خلاف رحمہ اللہ لکھتے ہیں ہیں کہ:
"إن العرف عندالتحقیق لیس دلیلاً شرعیاً مستقلاً، وھوفی الغالب مراعاۃ المصلحۃ"۔   
(علم اصول الفقہ:۹۱)
ترجمہ:تحقیقی نظر سے دیکھا جائے تو عرف کوئی مستقل شرعی دلیل نہیں ہے، عموماً وہ مصلحت کی رعایت ہی کا دوسرا نام ہے۔
اس کے باوجود اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ عرف کی رعایت شرعی نصوص کی تفسیراور مطلق کی تقیید اور عام کی تخصیص تک کے لیے کی جاتی ہے اور عرف کی بناء پر کبھی قیاس کو بھی ترک کردیا جاتا ہے:
"وھویراعی فی تفسیر النصوص فیخصص بہ العام ویقید بہ المطلق وقدیترک القیاس بالعرف ولھذا صح عقدا الإستضاع بجریان العرف بہ وان کان قیاساً لایصح لأنہ عقد فی معدوم"۔  
(علم اصول الفقہ:۹۱)
ترجمہ:عرف کا لحاظ نصوص کی تفسیر، عام کی تخصیص، مطلق کی تقیید سب میں کیا جاتا ہے اور کبھی قیاس کو بھی عرف کے بناء پر ترک کردیا جاتا ہے؛ چنانچہ عقد استصناع کے جائز ہونے کا حکم عرف قائم ہوجانے کی بناء پر ہی دیا گیا ہے؛ ورنہ قیاس کا تقاضا یہ تھا کہ معدوم کی بیع کرنے کی بناء پر وہ جائز نہ ہو۔
عرف کے لغوی معنی
مادۂ عرف اصل میں ۲/أمر پر دلالت کرتا ہے:
"تتابع الشيء متصلًا بعضه ببعض ، والسكون والطمأنينة"
۱۔کسی شئی کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا اس طور پر کہ ان میں سے بعض، بعض کے ساتھ متصل ہو:
۲۔ سکون وطمانیت۔
(مجلہ مجمع الفقہ الاسلامی،۵/۲۶۳۵،شاملہ)
عادت کے لغوی معنی
عادت:ہروہ کام جس کے لوگ خوگر اور عادی ہوجائیں ؛حتی کہ وہ کام بغیر مشقت کے انجام دیا جانے لگے، یاعادت اس حالت کا نام ہے جو ایک ہی نہج (طرز) پر بار بار ہو، جیسے حیض کی عادت۔             
  (المعجم الوسیط:۲/۵۳۵)
عرف وعادت کی تعریف
عرف کی تعریف میں علماء اصول اس طرح کے الفاظ لکھا کرتے ہیں:
۱۔عرف وعادت وہ ہے جو ذہنوں میں راسخ ہوجائے اور جسے فطرتِ سلیمہ قبول کرلے، دوسرے لفظوں میں اسی مفہوم کو یوں ادا کیا جاسکتا ہے کہ "قول" یا"عمل" کے اندر کسی قوم یاطبقہ کا ایسا تعامل عرف کہلاتا ہے جس کی عقلِ سلیم تائید کرے اور جسے فطرتِ سلیمہ قبول کرتی ہو۔         
  (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۱۴۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۱)
تقریباً اسی طرح کی باتیں دیگر مصنفین رحمہ اللہ مثلاً ابنِ نجیم اور شیخ ابوزہرہ  وغیرہنے کی ہے، بعض معاصر علماء نے"عرف" کی تعریف جامع انداز سے یوں بیان کی ہے:
"العرف ماتعارفہ جمہور الناس وساروا علیہ سواء کان قولاً اوفعلاً اوترکاً"۔
(المدخل للشبی:۲۶۰)
ترجمہ:عرف وہ امر ہے جولوگوں میں عام ہوجائے اور لوگ اس پر عمل پیرا ہوجائیں؛ خواہ وہ قول کے قبیل سے ہو یافعل وترک کے قبیل سے ہو۔
عرف وعادت کے درمیان فرق
عرف وعادت کے درمیان کوئی فرق ہے؟ یادونوں ایک ہی چیز ہے ،اس بارے میں علماء کا اختلاف پایا جاتا ہے؛ چنانچہ:
الف:بعض علماء نے عرف وعادت کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کی ہے کہ "عادت" کا تعلق انفرادی طریقۂ کار یاایسے عمل سے ہوتا ہے جوبار بار کرنے کی وجہ سے کسی شخص کی فطرتِ ثانیہ بن گئی ہو، جب کہ "عرف" کا اطلاق اجتماعی عادت اور پوری قوم یاطبقہ کے درمیان پائے جانے والے عمل اور رواج پر ہوتا ہے۔
ب:اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عرف کا تعلق قول سے ہے، جب کہ عادت کا تعلق فعل سے ہے۔
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۳۔ کشف الاسرار:۲/۴۱۵)
ج:بعض حضرات کا کہنا ہے کہ "عادت" درحقیقت عرف سے عام ہے؛ کیونکہ عادت کا اطلاق عادتِ اجتماعیہ (یعنی عرف) پر اور عادتِ فردیہ دونوں پر ہوتا ہے، جب کہ عرف کا اطلاق صرف عادتِ اجتماعیہ پر ہوتا ہے؛ لہٰذا عرف خاص اور عادت عام ہے؛ کیونکہ ہرعرف عادت ہے؛ لیکن ہرعادت عرف نہیں ہے۔               
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۳)
د:اور بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ عرف وعادت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، دونوں مترادف الفاظ ہیں ،علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں کہ عرف وعادت اگرچہ مفہوم کے اعتبار سے مختلف ہیں؛ لیکن مصداق کے لحاظ سے ایک ہی ہیں؛یہی وجہ ہے کہ بہت سی کتابوں میں جب عرف کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ عادت کو بیان کردیا جاتا ہے۔
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۳۔ مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۱۴)
عرف اور اجماع کے مابین فرق
بعض علماء نے عرف اور اجماع کے درمیان چند فروق بیان کئے ہیں، جن کا خلاصہ درجِ ذیل ہے:
۱۔ایسا قول یافعل جوعوام وخواص میں پایا جاتا ہو، اس کو اکثر لوگوں کے قبول کرلینے کا نام عرف ہے، جب کہ اجماع کسی ایک زمانہ کے مجتہدین کرام کا کسی مسئلہ پر متفق ہونے کو کہتے ہیں۔            
   (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۴)
۲۔عرف میں بعض لوگوں کی مخالفت سے کوئی نقص نہیں آتا، جب کہ اجماع کے تحقق کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام مجتہدین کرام کا اتفاق ہو، کسی کی مخالفت نہ ہو۔          
  (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۴)
۳۔اجماع سے ثابت ہونے والا حکم ناقابلِ تنسیخ ہوتا ہے ،اس کی حیثیت نص سے ثابت شدہ احکام کے درجے میں ہے، جب کہ عرف کی بناء پر جوحکم ثابت ہوتا ہے ،اس میں تبدیلی عرف کی وجہ سے پھرحکم کے بدل جانے کا امکان پایا جاتا ہے۔
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۴)
۴۔عرف کبھی فاسد ہوتا ہے، مثلاً اگرلوگوں کا عرف کسی حرام امر پر ہوجائے جونص شرعی سے متصادم ہو
(جیسے سود کھانے اور شراب پینے کا عرف) برخلاف اجماع کے کہ وہ کبھی نص سے متصادم نہیں ہوتا ہے۔
عرفِ صحیح وعرفِ فاسد
اولاً عرف کی دوقسمیں ہیں:           عرفِ صحیح۔          عرفِ فاسد۔
۱۔عرفِ صحیح:
وہ عرف ہے جو نصوص شارع کے معارض نہ ہو، یاشریعت فی الجملہ اس کے معتبر ہونے کی شہادت دے رہی ہو۔
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۶۔ اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۱۶)
اس عرف کو اختیار کرنا اور لینا معتبر ہے؛ چونکہ یہ اصولِ شرعی میں سے ایک اصل ہے۔
۲۔عرف فاسد:
وہ عرف ہے جس سے لوگ متعارف ہوں (یعنی اس کا وہ عرف رہا ہو اور اس پر تعامل بھی رہا ہو) لیکن وہ شریعت کے مخالف ہو اور قواعد شرع سے متصادم ہو۔             
  (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۶۔ اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۱۶)
عرفِ فاسد کا کوئی اعتبار نہیں اور یہ متروک العمل ہے۔
عرف کے اقسام
جوعرف شرعاً معتبر ہے، (یعنی عرفِ صحیح) اور وہ احکام پر اثرانداز ہوتا ہے، اس کی دوقسمیں ہیں:
(۱)عرفِ عام۔    (۲)عرفِ خاص۔
۱۔عرفِ عام:
جس عرف پر لوگوں کا تعامل ہوچکا ہو اور لوگ اس سے متعارف ہوں اور وہ اتناعام ہوگیا ہو کہ کسی خاص قوم اور خطہ کے ساتھ مخصوص نہ رہا ہو، مثلاً حمام میں اجرت دیکر غسل کرنا، یہ عمل اتنا عموم اختیار کرگیا ہے کہ یہ کسی خاص قوم یاکسی خاص علاقہ میں محدود نہ رہا، ہرجگہ لوگ اس پر عمل پیرا ہوگئے؛ حالانکہ اس میں ٹھہرنے کی مدت، پانی کے استعمال کی مقدار اور اجرت کی کوئی تعیین نہیں ہوتی ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ناجائز قرار دیا جائے لیکن ان سب چیزوں کی تعیین رواج کے حوالہ کردی گئی اور عرف ورواج کے مطابق اس عمل کو جائز قرار دیا گیا۔
(مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۱۴۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۵۔ اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۱۷۔ الاشباہ والنظائر:۱/۲۹۶)
اسی طرح عرفِ عام عقد استصناع کے جواز کا ہے، استصناع کا مطلب ہے کسی چیز کے بنانے اور تیار کرنے کا آرڈر کسی کمپنی یافرد کو دینا، عقد بیع کے صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ مبیع فی الحال موجود ہو؛ لیکن استصناع کے اندر مبیع فی الحال موجود نہیں ہوتی ہے؛ لہٰذا شرطِ مذکور کے مفقود ہونے کی وجہ سے اس عقد کو صحیح  نہیں ہونا چاہیے؛ لیکن عرف اور تعامل یہ رہا ہے کہ لوگ ہرزمانہ میں عقد استصناع کا معاملہ کرتے رہے ہیں، اس لیے فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔
(الاشباہ والنظائر:۱/۱۲۲)
۲۔عرفِ خاص:
وہ عرف ہے جو کسی خاص شہر یاملک یالوگوں کی ایک جماعت کا عرف ہو اور انہی کے یہاں وہ متعارف ورائج ہو، مثلاً بخاریٰ کا عرف یامصر وقاہرہ کا عرف یاتاجروں اور کاشتکاروں کا عرف وغیرہ وغیرہ، عرف کی اس قسم میں عرفِ عام کے مقابلہ میں قوت کم ہے؛ لیکن اس کے باوجود یہ فتاویٰ اور احکام پر اثرانداز ہوتا ہے؛ مگراس کا اثر اس وقت ظاہر ہوگا جب کہ نص موجود نہ ہو۔
(اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۱۷۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۶۔ الاشباہ والنظائر:۱/۲۹۶۔ مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۱۴)
عرفِ عام وخاص کی تعریف کا حاصل یہ ہے کہ عرفِ عام میں یہ قید ہوتی ہے کہ ایک زمانہ کے تمام لوگوں کا تعامل کسی عمل پر ہو اور علماء کی طرف سے اس پر نکیر نہ کی گئی ہو؛ لیکن عرفِ خاص کے اندر تمام لوگوں کا تعامل نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ کسی مخصوص شہر کے لوگوں کا تعامل ہوتا ہے اور وہاں کے علماء نے اس پر نکیر بھی نہ کیا ہو، اوّل کی مثال عقد استصناع ہے اور ثانی کی مثال عقد کے اندر غالب نقد بلد کا اعتبار ہے۔                    
    (الاشباہ والنظائر،القاعدۃ السادسۃ،العادۃ محکمۃ:۱/۱۵)
عرفِ عام وعرفِ خاص میں حکم کے اعتبار سے فرق
۱۔پہلا فرق یہ ہے کہ عرفِ عام سے حکم عام ثابت ہوگا یعنی ایسا عرف جو تمام بلاد والوں کا ہو، تو اس کے ذریعہ جوحکم ثابت ہوگا وہ تمام بلاد والے پر اس کی پابندی لازم ہوگی؛ لیکن عرفِ خاص کے ذریعہ حکمِ خاص ثابت ہوگا اور اس حکم کے پابند صرف وہی شہر والے ہوں گے، جس شہر والے کا یہ عرف ہے۔                                  
(مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۳۲)
۲۔اگرعرفِ عام نصِ قطعی "قرآن وحدیث" کے خلاف واقع ہوجائے توعرفِ عام کے اعتبار سے نص میں تغیر کرنا ہرگز جائز نہیں ہے؛ لیکن اگرقیاس کے خلاف عرفِ عام آجائے تواس صورت میں عرفِ عام کے لحاظ سے قیاس میں تبدیلی کرنی جائز ہے؛ لیکن عرفِ خاص سے قیاس میں تغیروتبدل کرنے میں اختلاف ہے، راجح قول یہ ہے کہ تبدیلی جائز ہے۔
۳۔اگرعرفِ عام یاخاص علماء متقدمین کی رائے کے خلاف واقع ہوتو اس صورت میں عرف پر عمل کرکے ثابت شدہ مسئلہ میں تغیر کرنا جائز ہے۔                       
(الاشباہ والنظائر،تعارض العرف مع الشرع:۱/۱۲۰،دورالاجتھاد،۱/۱۳ )
۴۔عرفِ عام اگر نص شرعی کے معارض ہوتو اس کے ذریعہ اثر کی تخصیص بھی درست ہے، جیسے عقد استصناع اور اگرعرفِ خاص نص شرعی کے معارض ہوتو اس کے ذریعہ اثر کی تخصیص کرنے اور نہ کرنے میں اختلاف ہے اصح یہ ہے کہ اثر کی تخصیص درست نہیں ہے۔        
(رسائل ابنِ عابدین:۲/۱۳۳)اصل سے مقابلہ کرلیا جائے
عرف کے معتبر ہونے کی شرطیں
عرف کے معتبر ہونے کے لیے فقہاء کرام نے درجِ ذیل شرطیں لگائی ہیں:
۱۔"عرف" عام ہو اور لوگ اس کا ہمیشہ لحاظ کرتے ہوں، ایسا تعامل جسے کبھی اختیار کیا جائے اور کبھی ترک کردیا جاتا ہو وہ"عرف" شرعاً معتبر قرار نہیں پائے گا۔             
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۹)
۲۔"عرف" کا انشاء تصرف کے ساتھ یااس سے پہلے پایا جانا ضروری ہے ،مثلاً دوآدمیوں کے درمیان اگر کوئی معاملہ طے پائے اور ان میں نزاع کی شکل پیدا ہوجائے تو نزاع کے حل کے لیے اس "عرف" کا اعتبار ہوگا جومعاملہ کے شروع ہونے کے ساتھ یااس سے پہلے لوگوں میں موجود تھا، ایسا عرف جوبعد میں قائم ہو اس کو پہلے سے طے ہونے والے معاملہ میں فیصل نہیں مانا جائے گا؛ چنانچہ فقہاء کرامؒ لکھتے ہیں کہ:
"لاعبرۃ بالعرف الطاری والعرف الذی یحمل علیہ الالفاظ انما ھوالمقارن السابق دون المتأخر"۔        
   (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۸)
ترجمہ:بعد میں ظاہر ہونے والے عرف کا اعتبار نہیں ہے؛ اسی طرح فقہاء کہتے ہیں کہ وہ عرف جس پر الفاظ کو محمول کیا جائے، اس کا عقد کے ساتھ یاپہلے ہونا ضروری ہے، بعد میں قائم ہونے والے عرف کا اعتبار نہیں ہوگا۔
مثال کے طور پر مہر کی ادائیگی میں تقدیم وتاخیر کا اگرذکر عقد نکاح کے وقت نہ کیا جائے تو"عرف" کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا؛ لیکن اگرلوگوں کا تعامل بدل جائے اور نکاح کے وقت جوعرف تھا وہ باقی نہ رہے تو نئے "عرف" کا اطلاق اس معاملہ پر نہیں ہوگا۔
اسی طرح اگرکسی علاقہ میں "گوشت" سے صرف گائے کا گوشت مراد لیا جاتا ہو اور کسی شخص نے گوشت نہ کھانے کی قسم کھالی ہو تواس کی قسم اسی وقت ٹوٹے گی جب وہ گائے کا گوشت کھائے گا؛ کسی اور چیز کاگوشت کھانے سے وہ حانث نہیں ہوگا۔
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۸)
۳۔تصریح عرف کے خلاف نہ ہو، مثال کے طور پر رواج توصرف آدھا مہر ادا کرنے کا ہو؛ لیکن نکاح کے وقت عورت نے یہ شرط لگادی ہو کہ وہ پورا مہرمعجّل لے گی اور شوہر نے اسے قبول بھی کرلیا ہوتو اب "عرف" کا اعتبار نہیں ہوگا؛ بلکہ صراحتاً عقد میں جوبات طے ہوئی ہے، اسی کا اعتبار ہوگا؛ کیونکہ "عرف" کا سہارا لینے کی ضرورت تووہاں پیش آتی ہے ،جہاں کسی معاملہ میں عاقدین کا مقصد معلوم نہ ہو، تب سکوت اس بات کا قرینہ ہوا کرتا ہے کہ معاملہ "عرف" کے مطابق ہوا ہوگا؛ لیکن جب تصریح عرف کے خلاف ہوتو پھر:
"لاعبرۃ للدلالۃ فی مقابل التصریح"۔
ترجمہ:صراحت کے مقابلہ میں دلالت کا اعتبار نہیں ہے۔
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۳۰)
۴۔"عرف" کسی شرعی نص کے منافی اور اس کو معطل کرنے کا باعث نہ ہو؛ کیونکہ ایسا عرف جوشرعی نصوص شریعت کے مقاصد اور ا سکی روح کے خلاف ہو وہ "عرف فاسد" کہلاتا ہے اور شریعت میں اعتبار صرف "عرف صالح" کا ہے، مثال کےطور پر اگرشراب نوشی، قماربازی، سودی کا روبار، رقص وسرور کہیں کا عرف بن جائے، ضیافت میں حرام چیزوں کے پیش کرنے یامنگیتر کے ساتھ عقد سے پہلے ہی بے تکلف سیروتفریح کا رواج ہوجائے تونہ صرف یہ کہ اس طرح کے عرف کا شریعت میں اعتبار نہیں؛ بلکہ اس طرح کی چیزوں کی روک تھام اور معاشرہ کی ان امور میں اصلاح شریعت کا اولین مقصد ہوگا؛ ورنہ توتمام ترتکلیفی احکام ہی فوت ہوجائیں گے اور شریعت کا عملی زندگی سے یکسرخاتمہ ہوکر رہ جائے گا۔        
    (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۸)
۵۔صاحب فروق نے ذکر کیا ہے کہ "عادت" کے استعمال کا مکرر ہونا ضروری ہے اس حد تک کہ جب وہ لفظ بولا جائے توبغیر کسی قرینہ کے وہی معنی سمجھ میں آئے جومعنی اس کی طرف منقول ہے اور فہم کسی اور معنی کے بجائے اس معنی کی طرف سبقت کرے؛ اسی لیے "کلب معلَّم" اسی کو کہا جاتا ہے جب کہ مالک کتے کوتین مرتبہ شکار پر چھوڑے اور تینوں مرتبہ شکار کوپکڑکر مالک کے لیے چھوڑ دے خود نہ کھائے، اسی طرح جب اسے شکار پر چھوڑا جائے اور کسی وجہ سے اسے راستے سے واپس بلانا ہو اور وہ بلائے تو واپس بھی آجائے تواب اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ شکار کو نہ کھانے کی کتے کی عادت ہوگئی ہے اور اب یہ کتا "کلبِ معلم" کہلائیگا۔
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۸)
۶۔چھٹی شرط یہ ہے کہ عادت مطرد ہو یاغالب ہو، یعنی لوگوں کا کسی عمل کو بار بار (پے درپے، مسلسل) کرنے کی عادت بن جائے، یاغالب معنی پر محمول کرنے کی عادت ہو، جیسے اگر کسی نے دراہم یادنانیر کے بدلے فروخت کیا اور متبایعان کسی ایسے شہر میں رہتے ہیں، جہاں مختلف نقود رائج ہوں اور ہرایک کی مالیت بھی الگ الگ ہوں اور رواج میں بھی اختلاف ہو، کسی کا زیادہ کسی کا کم رواج ہو تو بیع غالب نقد بلد کی طرف لوٹے گی یعنی جس سکے کا رواج زیادہ ہو وہی مشتری کو ادا کرنا پڑے گا۔
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۸)
عرف کی حجیت قرآن سے
ذیل میں اسی عرف کے متعلق تھوڑی تفصیل ذکر کی جاتی ہے:
"عرف" کے دلیل شرعی ہونے پر استدلال عام طور پر قرآن کریم کی اس آیت سے کیا جاتا ہے:
"خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ"۔     
   (الاعراف:۱۹۹)
ترجمہ:سرسری برتاؤ کو قبول کرلیا کیجئے اور نیک کام کی تعلیم کردیا کیجئے اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجایا کیجئے۔   
   
آیت بالا میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی  کو عرف یعنی امربالمعروف کا حکم دیا اور عرف اس چیز کو کہتے ہیں جس کو لوگ معروف اور اچھا سمجھیں اور ان کے دلوں اور نفوس کو وہ امور اچھا لگے؛ لہٰذا عرف پر عمل کرنا امر کا مقتضی ہے؛ لیکن بعض علماء نے نے لکھا ہے کہ اس آیت میں عرف اپنے لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے، یعنی وہ أمر مستحسن جوپسندیدہ ہو، نہ کہ فقہی اصطلاح کی رو سے جوعرف کا مفہوم ہے وہ اس آیت میں مراد ہے؛ مگریہ کہا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں اگرچہ اصطلاحی معنی والا عرف مراد نہیں ہے؛ مگرمصطلحہ عرف کے اسلام میں معتبر ہونے کے لزوم پر دلالت کرنے سے آیت خالی بھی نہیں ہے؛ کیونکہ اعمال اور معاملات میں لوگوں کا عرف وہی قابلِ اعتبار ہوتا ہے جو ان کے نزدیک مستحسن ہو اور جن سے ان کی عقل مانوس ہوچکی ہو۔
(مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۱۵۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۴۰)
عرف کی حجیت حدیث سے
"عرف" کے دلیل شرعی ہونے پر عبداللہ بن مسعودؓ کی اس روایت کا بھی ذکر کیا جاتا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
"مارآہ المسلمون حسناً فھوعند اللہ حسن"۔       
(نصب الرایہ، باب الاجارۃ الفاسدۃ:۴/۱۳۳)
ترجمہ:مسلمان جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔
لیکن محدثین کے نزدیک اس کا  حدیث رسول اللہ  ہونا ثابت نہیں ہے؛ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اثراگرچہ  عبداللہ بن مسعود پر موقوف ہے؛ لیکن اس طرح کی بات چونکہ محض ظن  وتخمین یاقیاس سے نہیں کہی جاسکتی، اس لیے یوں سمجھا جائے گا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے یہ بات حضور اکرم  سے سن کر ہی فرمائی ہوگی؛ بہرحال"عرف" کے دلیل شرعی اور حجت ہونے کی سب سے بڑی حجت یہی ہے کہ خود حضور اکرم  نے بہت سے احکام عربوں کے "عرف" پر مبنی رکھے ہیں، جن میں خرید وفروخت کے طریقوں سے لیکر نکاح میں کفاءت تک کے لحاظ کا مسئلہ ہے۔
عرف کے سلسلے میں جمہور علماء کی رائے
حنفیہ اور مالکیہ میں سے بہت سے حضرات کی رائے یہ ہے کہ عرف ان اصولوں میں سے ایک اصل ہے جس سے احکام میں استیناد  کیا جاتا ہے یعنی جن پر احکام کی بنیاد رکھی جاتی ہے، جب کہ وہاں کوئی نص موجود نہ ہو، حنفیہ میں سے علامہ ابن نجیمؒ فرماتے ہیں:
"وَاعْلَمْ أَنَّ اعْتِبَارَ الْعَادَةِ وَالْعُرْفِ يُرْجَعُ إلَيْهِ فِي الْفِقْهِ فِي مَسَائِلَ كَثِيرَةٍ حَتَّى جَعَلُوا ذَلِكَ أَصْلًا"۔            
    (الاشباہ والنظائر:۱/۲۹۵)
ترجمہ:جاننا چاہیے کہ عرف وعادت کا اعتبار ہوتا ہے، اس کی طرف فقہ میں بہت سے مسائل کے اندر رجوع کیا جاتا ہے یہاں تک کہ علماء نے اس کو ایک اصل (شرعی) قرار دیا ہے۔
اور علامہ سرخسیؒ سے مبسوط میں نقل کیا گیا ہے کہ:
"الثابت بالعرف کالثابت بالنص"۔
ترجمہ:عرف سے ثابت ہونے والے (حکم کی حیثیت) نص سے ثابت ہونے والے (حکم) کے مانند ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکم جوعرف سے ثابت ہو وہ حکم ایسی دلیل سے ثابت ہے، جونص کے مانند قابل اعتماد ہے، جہاں کوئی نص موجود نہ ہو اور فقہاء کی زبان پر یہ قول مشہور ہے کہ:
"الْمَعْرُوف عرفاً کَالْمَشْرُوْطِ شَرْطًا"۔
یعنی جوچیز عرف کی بنیاد پر معروف ومشہور ہوجائے تووہ عرف اس شرط کے مانند ہے جس کی شرط لگائی گئی ہو۔
علامہ ابنِ نجیمؒ نے اس قاعدہ کو ذکر کرکے اس پر بہت سے فروع اور امثلہ کو متفرع کیا ہے۔
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۳۱)
فقہ مالکی بھی فقہ حنفی کی طرح عرف کو تسلیم کرتا ہے اور اصول فقہ میں اُسے ایک اصل مانتا ہے، جہاں کوئی نص قطعی موجود نہ ہو؛ بلکہ فقہ مالکی عرف کے احترام میں مذہب حنفی سے زیادہ غلو کرتا ہے ،اس لیے کہ مصالح مرسلہ فقہ مالکی کے اہم ستون ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عرف کی رعایت کرنا جس میں کوئی فساد نہیں ہے، مصلحت کی قسموں میں سے ایک قسم ہے، اس کا ترک کرنا فقیہ کے لیے درست نہیں؛ بلکہ اس کا لینا واجب ہے۔       
        ( امام مالک لابی زہرہ:۴۴۴)
حنابلہ بھی دیگر اصحاب مذاہب کی طرح اپنے فتاویٰ اور احکام کے اندر عرف کا لحاظ کرتے ہیں اور حنابلہ چونکہ معاملات کے باب میں توسع سے کام لیتے ہیں اور وہ الفاظ پر اکتفا نہیں کرتے؛ بلکہ مفہوم اور مقاصد کو معتبر قرار دیتے ہیں، اس لیے حنابلہ خاص طور پر معاملات کے باب میں عرف کا لحاظ کرتے ہیں؛ اسی طرح عقود کے صیغوں اور معاملات ونکاح کے شرطوں میں لوگوں کے عرف اور تعامل کا بہت زیادہ خیال کرتے ہیں اور عقود ومعاملات میں جوشرائط عرفاً لوگوں کو معلوم ہوں لیکن عقد کرتے وقت اس کی شرط نہیں لگائی تووہ بغیر ذکر کئے ہوئے بھی شرط کی حیثیت سے عندالحنابلہ شرعاً معتبر ہوگی؛ یہی وجہ ہے کہ حنابلہ عرف کو نطق اور تکلم کے قائم مقام مانتےہیں۔
علامہ ابن القیمؒ اعلام الموقعین کے اندر لکھتے ہیں کہ:
"وقد أجرى العرف مجرى النطق في أكثر من مائة موضع منها نقد البلد في المعاملات"۔
ترجمہ:سوسے زائد مقام میں عرف کونطق کے قائم مقام کیا گیا ہے، ان میں سے ایک معاملات کے اندر نقدِ بلد ہے۔
ان تصریحات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حنابلہ بھی عرف کو اصول شرع میں سے ایک اصل مانتے ہیں جہاں کوئی نص شرعی موجود نہ ہو۔        
     (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۳۳)
شافعیہ بھی جب نص نہ ہو عرف کا لحاظ کرتے ہیں؛ چنانچہ ابنِ حجرؓلکھتےہیں کہ جب عرف نص کے مخالف نہ ہوتوعرف پر عمل کرنا چاہیے اور یہ اس لیے کہ علامہ قرطبیؒ نے ابوسفیان کی بیوی کے سلسلے میں نبی کریم  کا قول نقل کیا ہے "ابوسفیان کے مال میں سے اتنا لوجتنا عرف عام میں تمہارے بچہ اور تمہارے لیے کفایت کرے" یہ بات ایک حیثیت سے اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ شافعیہ کبھی عرف کو لیتے ہیں؛ لیکن یہ شرط لگاتے ہیں کہ اس کے لیے نص شرعی ہو۔ 
   ( امام مالک لابی زہرہ:۴۴۵)
عرف وعادت سے متعلق فقہی قواعد
فقہاء نے "عرف وعادت" کے شریعت میں اعتبار کو اصول کی حیثیت سے مان کر جوقواعد وضع کئے ہیں ان کی تعبیر مختلف انداز سے کی جاتی ہے اور پھراس کی روشنی میں مختلف مسائل کا شرعی حکم متعین کیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں فقہاء کی تعبیرات حسبِ ذیل قواعد کی شکل اختیار کرگئی ہیں:
۱۔"اَلْعَادَۃُ مُحَکَّمَۃٌ"۔                 
یعنی عرف وعادت کی حیثیت شرعی احکام اور حقوق والتزام میں فیصلہ کن ہوتی ہے اور "عرف" کے مطابق فیصلہ کرنا بھی لازم ہوتا ہے۔
۲۔"اَلْحَقِیْقَۃُ تَتْرک بِدَلَالَۃِ الْعَادَۃِ"۔
یعنی معاملات اور شرعی احکام میں لفظ کے لغوی مفہوم کو "عرف" کی بناء پر چھوڑدیا جاتا ہے اور عرف کولفظ کے حقیقی معنی پرترجیح ہوتی ہے۔
۳۔"اِسْتِعْمَال النَّاس حجَّۃ یجب العمل بھا"۔
یعنی لوگوں کا تعامل اور عرف غیرمنصوص أمور میں شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔
۴۔"المعروف عرفاً کالمشروطِ شَرْعًا"۔
عقود ومعاملات اور وہ باتیں جوعرفاً لوگوں کو معلوم ہوں وہ بغیر ذکر کئے ہوئے بھی شرط کی حیثیت سے معتبر ہوں گی، بشرطیکہ وہ شرعی نصوص کے مغائر نہ ہوں۔
۵۔"التَّعْیین بِالْعُرْفِ کَالْتَعْیین بِالنَّصِّ"۔
یعنی وہ امور جہاں کوئی شرعی نص نہ ہو، ان میں"عرف" کی حیثیت شرعی نص جیسی ہی ہوتی ہے؛ چنانچہ عقود ومعاملات کی تمام ترشروط کی تعیین "عرف" کی روشنی میں ہی کی جائے گی۔
۶۔"الثَّابِتُ بِالْعُرْفِ کَالثَّابِتُ بِالنَّصِ"۔
اس کا بھی حاصل یہی ہے کہ جہاں کوئی شرعی نص نہ ہو وہاں "عرف" کو وہی حیثیت حاصل ہوگی جوشرعی نص کو ہوا کرتی ہے اور عرف پر ہی عمل کیا جائے گا۔
۷۔"لَاینْکر تغیرالاَحْکَامِ بِتَغْیییر الازمان"۔
ترجمہ:زمانہ اور عرف وعادت کے بدل جانے سے احکام میں بھی تبدیلی ہوجایا کرتی ہے، یہ ایک حقیقت ہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
(الاشباہ والنظائر:۱/۸۹شاملہ)
 (مجلة مجمع الفقه الاسلامي التابع لمنظمة المؤتمر الاسلامي بجدة، منزلة العرف في التشريع الإسلامي،۵/۲۸۳۳)
(الموسوعة الفقهية الكويتية،۳۰/۵۶،شاملہ)
غرض یہ کہ شرعی نصوص میں عام کی تخصیص، مطلق کی تقیید اور نص کے معنی ومفہوم کی تعیین وتحدید کے علاوہ فقہاء بہت سے احکام ومعاملات کی بنیاد عرف پر رکھتے ہیں، مثلاً مال کب محرز سمجھا جائے گا اور سرقہ کا تحقق کب ہوگا؟ خریدوفروخت میں معاملہ کب مکمل سمجھا جائے گا اور تفرق کا معیار کیا ہے؟ اسی طرح قسموں اور نذر وغیرہ میں استعمال ہونے والے الفاظ کو کس معنی پر محمو ل کیا جائے گا؟ یہ سب ایسے امور ہیں جن کا فیصلہ "عرف" ہی کی روشنی میں کیا جائے گا۔
عرف کی تبدیلی کا احکام پر اثر
عرف اور زمانہ کی تبدیلی کا اثر چونکہ احکام کی تبدیلی کی شکل میں بھی ظاہر ہوتا ہے، اس لیے فقہاء اس بات پر خاص طور پر زور دیتے ہیں کہ شرعی احکام بیان کرنے والوں کو عرف وعادت زمانہ اور ماحول کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، علامہ ابن القیمؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب "اعلام الموقعین" میں ایک مستقل باب ہی اس عنون سے قائم کیاہے:
"تَغَيُّر الفَتْوَى واختلافِها بحسْب تَغيُّر الأزْمنة والأمكنة والأحوال والنِّيات والعَوائد"۔
(اعلام الموقعین:۳/۵)
ترجمہ:زمان ومکان، حالات، نیتوں اور عادتوں میں اختلاف کا اثر فتویٰ پر پڑتا ہے۔
پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
"هذا فصل عظيم النفع جدا وقع بسبب الجهل به غلط عظيم على الشريعة أوجب من الحرج والمشقة وتكليف مالاسبيل إليه"۔          
  (اعلام الموقعین:۳/۵)
ترجمہ:یہ بڑا ہی عظیم اور مفید باب ہے اور اس ناواقفیت کی وجہ سے شریعت کے بارےمیں بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ حرج ومشقت کا سبب بنی اور ایسی مشقت میں لوگوں کو ڈالدیا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔
ان تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانہ اور عرف کی تبدیلی کا اثر احکام پر بھی پڑتا ہے، ذیل میں اس کی کچھ مثالیں دی جاتی ہیں:
۱۔قرآن کریم کی تعلیم، اذان، امامت، یہ سب عبادتیں ہیں جس کی ادائیگی آدمی آخرت کے اجروثواب کے لیے کیا کرتا ہے؛ لہٰذا اصل کی رو سے ان فرائض کی ادائیگی پر اجرت لینا جائز نہیں ہونا چاہیے؛ چنانچہ فقہاء یہی فتویٰ دیا کرتے تھے؛ لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے بیت المال کا دروازہ دینی کام کرنے والوں کے لیے بند کردیا گیا ہے اور امامت اور تعلیم قرآن کے فرائض انجام دینے والوں کواگر اپنی معاش کے لیے زراعت، تجارت، صناعت وغیرہ میں مشغول ہوجانا پڑا تواس سے دین کا زیاں ہوگا اور دینی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے کوئی نہیں ملے گا؛ چنانچہ متاخرین نے یہ فتویٰ دیا کہ امامت اور تعلیم قرآن وغیرہ کی اجرت لینا جائز ہے۔
(مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۵،۱۲۶)
۲۔دھوبی اور درزی وغیرہ کوجوکپڑے ڈرائی کلن یاسلائی کے لیے دیئے جاتے ہیں؛ چونکہ وہ اجیرمشترک  ہیں اس لیے وہ اُن کے ہاتھوں میں امانت کی حیثیت رکھتے ہیں، امانت اگربغیر تعدی کے ہلاک ہوجائے تواس کا تاوان نہیں ہوا کرتا، لیکن پیشہ وروں کی طرف سے اہمال اور بے احتیاطی رونما ہونے لگی اور وہ بکثرت اس طرح کے دعوے کرنے لگے کہ مال ضائع ہوگیا ہے، جس میں مالکین کی کھلی حق تلفی تھی؛ چنانچہ فقہاء نے اس صورتِ حال کے پیشِ نظر تاوان واجب ہونے کا فتویٰ دیا؛ تاکہ لوگوں کے مال کی حفاظت کی جاسکے؛ چنانچہ شرعی حکم یہ ہے کہ اگرکوئی عمومی قسم کی مصیبت اور حادثہ رونما نہ ہو جیسے زلزلہ یاعمومی آتش زدگی وغیرہ تواجیر مشترک ضائع شدہ مال کا تاوان اداکرے گا۔            
(مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶۔اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۱۸)
۳۔امام ابوحنیفہؒ کے زمانہ میں چونکہ حق گوئی اور صداقت تھی اور دروغ گوئی کا زیادہ چلن نہیں ہوا تھا؛ کیونکہ وہ خیرالقرون کا زمانہ تھا، اس لیے گواہوں کی ظاہری عدالت کو وہ کافی قرار دیا کرتے تھے؛ گواہوں کے ثقہ ہونے کی شہادت کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے؛ لیکن امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ نے جب اس بارے میں لوگوں کی بے احتیاطی دیکھی تو انہوں نے شاہدوں کے ثقہ ہونے کے لیے تزکیہ وشہادت ضروری سمجھی؟ کیونکہ عملی طور پر قضا سے وابستگی کی بناء پر ان لوگوں کی بے احتیاطی اور دروغ گوئی کا زیادہ تجربہ تھا؛ چنانچہ حالات کی تبدیلی نے انہیں اس بات پر مجبور کیاکہ وہ فتویٰ میں تبدیلی کریں۔         
(مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶۔اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۱۸)
۴۔امام ابوحنیفہؒ بادشاہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے جبر کو "اکراہ" قرار نہیں دیتے تھے؛ کیونکہ ان کے زمانہ میں قوت کا مظاہرہ صرف بادشاہ کی طرف سے ہوا کرتا تھا؛ لیکن بعد میں جب ڈاکہ زنی اور جبر واکراہ کے واقعات کی عام لوگوں کی طرف سے زیادتی ہوگئی توامام صاحبؒ کے دونوں شاگردوں امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ نے یہ بات تسلیم کی کہ اکراہ کا معاملہ سلطان کے علاوہ دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے؛ چنانچہ انہوں نے اس کے مطابق فتویٰ دیا۔ 
(مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶۔اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۱۸)
۵۔صحیح روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم  کے زمانہ میں عورتیں عام طور پر مساجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے جایا کرتی تھیں؛ لیکن جب معاشرہ میں خرابی پیدا ہوئی توخود صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں ہی ان کو مسجد میں نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا۔                 
  (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶)
عرف پر مبنی بعض اہم فروعات کا ذکر
"عرف" پر مبنی تمام احکام کا احاطہ تویہاں ممکن نہیں ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ "عرف" کے بدلنے سے احکام میں تبدیلی بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے ؛تاہم بطورِ مثال چند ایسے احکام کوذکر کیا جاسکتا ہے، جس سے مزید اندازہ کیا جاسکے کہ فقہی اور شرعی احکام میں عرف کا اثر کہاں تک ہوتا ہے؟:
۱۔شادی بیاہ کے موقع پر عورت کو جومال واسباب جہیز کے طور پر دیا جاتا ہے، وہ شوہر کی ملکیت ہوگی یابیوی کی؟ اور شادی کا رشتہ اگرکسی وجہ سے برقرار نہ رہ سکا تواس پر کس کا حق تسلیم کیا جائے گا؟ اس بارے میں "عرف" ہی کا لحاظ کیا جائے گا؟ شوہر کا دعویٰ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو؛ لیکن فیصلہ "عرف" کوسامنے رکھ کر کیا جائے گا۔           
   (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۳۴)
۲۔مکان کی خریدی کے بعد ،اس کی چھت سے اوپر کا حصہ "حق علو" یعنی حق تعلّی کے بارے میں بائع اور مشتری کے درمیان نزاع کا فیصلہ بھی "عرف" ہی کی بنا پر کیا جائے گا؛ خواہ حقوق ومرافق کا ذکر عقد میں نہ کیا گیا ہو۔
(مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۳۲)
۳۔ضرورت کی مختلف چیزیں جو ابھی وجود میں نہ آئی ہوں اور عقد کے وقت عملاً معدوم ہوں ،آرڈر دے کر تیار کرانا اور کسی شخص یاکارخانہ سے ایسے مال کا سودا کرنا، جن کا تیار کرنا تواس کارخانہ کا کام ہو؛ لیکن مال ابھی تیار شدہ نہ ہو اور جسے فقہاء کی اصطلاح میں "استصناع" کہا جاتا ہے "عرف" ہی کی بناء پراس کے جواز کا حکم دیا گیا ہے؛ ورنہ ہرشخص جانتا ہے کہ ایک ایسی چیز کی بیع جوابھی وجود میں نہ آئی ہو شرعاً درست نہیں ہونی چاہیے۔                     
(اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۱۷)
۴۔تربوز، بیگن، انگور اور اس طرح کے دوسرےپھل اور ترکاریاں جن میں سے بعض تودرخت پہ ہوں اور بعض ابھی ظاہر ہی نہ ہوئے ہوں، ان کی خریدوفروخت کی فقہائے مالکیہ اور احناف میں شمس الائمہ حلوانی نے اجازت دی ہے؛ کیونکہ "عرف" میں یہ لوگوں کی ضرورت اور ان کے تعامل کا ایک حصہ ہے، جب کہ شوافع، حنابلہ اور اکثر احناف نے اس طرح کے معاملہ کو ناجائز قرار دیا ہے۔
(مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۳۹)
متاخرین میں سے علامہ شامیؒ نے بھی عرف وعادت کے پیشِ نظر اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔
(مجموعہ رسائل ابنِ عابدین:۲/۱۳۹)
۵۔گھڑی، ریڈیو، فریج اور واشنگ مشین اور اسی طرح کی بہت سی اشیاء کی خریداری کے وقت عام طور پر اسے کمپنیاں پانچ سال دوسال، ایک سال یااسی طرح کی کسی متعین مدت تک کے لیے ایک کفالت نامہ دیتی ہیں کہ اگر اس عرصہ میں وہ چیز خراب ہوگئی تواس کی اصلاح ومرمت کی ذمہ داری کمپنی پر ہوگی؛ چنانچہ اس وقت صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ ایک ہی مال تیار کرنے والی مختلف کمپینوں کے تیار کردہ مال میں زبردست تفاوت ہوا کرتا ہے، اس لیے لوگ عام طور پر اس کمپنی کا مال لینے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں جواس طرح کا کفالت نامہ دے اور عموماً بل کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے:
"البضاعۃ مکفولہ لمدۃ خمس سنوات"۔(5year warranty)
اب اصل قاعدہ کا تقاضا تو یہ تھا کہ چونکہ بیع اور شرط دونوں ہی پائی گئی، جس کی صراحت کے ساتھ ممانعت کی گئی ہے۔
"أَنَّهُ نَهَى عَنْ بَيْعٍ وَشَرْطٍ، الْبَيْعُ بَاطِلٌ، وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ"۔ 
(نصب الرایہ:۴/۱۷)
ترجمہ:حضور  نے بیع اور شرط کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہے، ایسی صورت میں بیع بھی باطل اور شرط بھی باطل ہوگی۔
لیکن فقہاء نے اس طرح کے معاملہ کی "عرف" کی بناء پر اجازت دی ہے اور علامہ ابن عابدین شامیؒ نے حدیث کی توجیہہ یہ کی ہے کہ اس سے مقصود ایسی شرط ہے جونزاع کا باعث بنے اور اس زمانے کے "عرف" نے اس کا فیصلہ کردیا ہے کہ اوپر ذکر کی ہوئی شرط نزاع کا باعث نہیں بنتی؛ بلکہ بیع وشراء کے مقصد کی مزید تکمیل کا ذریعہ بنتی ہے ،اس لیے فتویٰ "عرف" کے مطابق دیا جائے گا اور حدیث میں ذکر کردہ بیع وشرط کی ممانعت پر اس کے قیاس کو ترک کردیا جائے گا۔        
    (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۴۱)
۶۔وقفہ نامہ کے الفاظ کو ہرزمانہ کے عرف پر ہی محمول کیا جائے گا اور اس سلسلہ میں پیدا ہونے والے نزاع کا فیصلہ "عرف" کی روشنی ہی میں کیا جائے گا۔            
   (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶)
۷۔وقف کو اصل کی رو سے مؤبد ہونا چاہیے؛ لیکن امام محمدؒ نے منقولہ جائیداد کے وقف کی بھی اجازت دی ہے؛ کیونکہ عرفاً یہ چیز انہوں نے رائج دیکھی۔
۸۔خود شریعت نے بعض حالتوں میں دیت قاتل کے بجائے اس کے عاقلہ پر واجب کی ہے، جودرحقیقت عربوں کے عرف پر ہی مبنی ہے؛ ورنہ دیت کا وجوب اصولاً قاتل پر ہی ہونا چاہیے۔
۹۔کفاءت کا لحاظ اور اس میں پیشہ وغیرہ کی رعایت بھی عرف پر ہی مبنی ہے؛ ورنہ شریعت کی تعلیم کی رو سے انسانوں کے تمام طبقات میں مساوات پائی جاتی ہے؛ البتہ شادی کی مصلحت اور نکاح کی پائیداری کے مقصد کے پیشِ نظر کفاءت کا لحاظ رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے؛ کیونکہ عربوں کے عرف کے مطابق بعض پیشوں کوذلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اس سے وابستہ لوگوں کے ساتھ استحقار کا معاملہ کیا جاتا تھا، جس کو نظرانداز کرنے سے نکاح کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔
۱۰۔عقدِ نکاح میں اگرمہر کے معجل یامؤجل ہونے کی وضاحت نہ ہو توفقہاء کی تصریح کے مطابق اس کا فیصلہ"عرف وعادت"  ہی کی روشنی میں کیا جائے گا۔
۱۱۔بیع کی قیمت اور اجیر کی اجرت کی صراحت نہ کی گئی ہوتو اس کے بارے میں فیصلہ بھی "عرف" کو سامنے رکھ کر ہی کیا جائے گا۔
۱۲۔کرایہ پر لی ہوئی چیز سے کس درجہ انتفاع کی مستاجر کو اجازت ہے اور اجرت پرلی ہوئی چیز کے استعمال سے تلف ہوجانے کی صورت میں تعدی کب شمار کی جائے گی اور اسےنقصان کی تلافی کا ذمہ دار کب قرار دیا جائے گا؟ اس کا فیصلہ بھی عرف وعادت ہی کی روشی میں کیا جائے گا۔
۱۴۔وہ چیزیں جوامانت کے طور پر رکھی ہوئی ہوں، ان کی حفاظت کا کیا معیار ہے؟ اور ودیعت رکھنے والے شخص کوکب اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کا قصور وار ٹھہرایا جائے گا، اس کا فیصلہ بھی عرف وعادت ہی کوپیشِ نظر رکھ کر کیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ ہرچیز کی حفاظت کا طریقہ اور معیار ہرجگہ یکساں نہیں ہوا کرتا۔
۱۵۔کسی شخص کو اگر ہمہ وقتی اجیر رکھا جائے توکون کون سے کام کی ذمہ داری اس کے سرہوگی اور کس طرح کے کام کی انجام دہی سے اس کو مستثنیٰ رکھا جائے گا ،اس کا فیصلہ بھی "عرف" ہی کی بناء پر کیا جائے گا۔
۱۶۔عام طور پر ٹیلرنگ سنٹر، یابیگ سازی وغیرہ کے کارخانوں میں یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سیکھنے والا شخص بھی مال کی تیاری میں اپنے استاد اور کاریگر کا بھرپور معاون بن جاتا ہے، ایسی صورت میں استاد کو سکھانے کی اجرت کس حد تک لینے اور شاگرد کے تیار کردہ مال کی منفعت میں کس حد تک اسے شریک کرنے کی گنجائش ہوگی، اس کا فیصلہ  بھی "عرف"کی روشنی میں ہی کیا جائے گا۔
حالات وزمانہ اور عرف وعادت کی تبدیلی کی بناء پر جن مسائل میں فقہاء نے اپنے پیش رو مجتہدینؒ سے اختلاف کیا ہے اور ان سے مختلف فتویٰ دیا ہے اور اس کے بارے میں وہ عموماً لکھا کرتے ہیں:
"ہذا اختلاف عصر وأوان لااختلاف حجۃ وبرھان"۔
(مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶)
یہ زمانہ اور حالات کے اختلاف کا نتیجہ ہے،دلیل وحجت کا اختلاف نہیں ہے۔


استصحاب

جن مصادر ومآخذ سے فقہی احکام کے استنباط میں فقہاء کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے ان میں سے استصحاب بھی ہے، ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین استصحاب کا استعمال کسی نہ کسی درجہ میں ضرور کرتے ہیں، اختلاف جوکچھ ہے وہ صرف اس کی تفصیلات میں ہے؛ ورنہ اصولی حد تک یہ بھی فقہ کے ضمنی مآخذ میں سے ہے، اس اصل سے مسائل مستنبط کرنے میں سرِفہرست حنابلہ پھرشافعیہ پھرمالکیہ ہیں، احناف کا نمبرسب سے آخیر میں ہے، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کی بنیاد "ادلہ شرعیہ" میں وسعت پیدا کرنے یانہ کرنے پر ہے جولوگ قیاس اور استحسان کے مفہوم میں وسعت پید کرلیتے ہیں اور نص کی عدم موجودگی میں عرف سے بھی مسائل مستنبط کرتے ہیں یا "مصالح مرسلہ" سے استنباط کے قائل ہیں، ان کے یہاں استصحاب سے مستنبط مسائل کی تعداد بہت کم ہے ؛مثلاً احناف، مالکیہ، حنابلہ اور شوافع چونکہ ضرورت شدیدہ پر ہی قیاس کا اعتبار کرتے ہیں اس لیے انہوں نے استصحاب سے خوب کام لیا ہے۔
(حیاتِ امام احمد بن حنبل لابی زہرہ:۳۹۵)
استصحاب کی تعریف
استصحاب باب استفعال کا مصدر ہےاس کے معنی ہیں ساتھی بنانا، کسی کو ساتھ رہنے کی دعوت دینا۔        
  (المعجم الوسیط مادہ:ص ح ب)
مصباح المنیر میں ہے کہ ہروہ چیز جودوسرے کا لازم بن جائے ،اسے استصحاب کہتے ہیں۔
(المصباح المنیر، مادہ:ص ج ب)
اصولِ فقہ کی اصطلاح میں کسی حکم کو حسبِ حال بحال رکھنے کواستصحاب کہا جاتا ہے، متعدد فقہاء نے مختلف الفاظ میں اس کی تعریف کی ہے؛ چنانچہ اصولِ فقہ کی شہرہ آفاق کتاب "کشف الاسرار" میں ہے:
"هُوَالْحُكْمُ بِثُبُوتِ أَمْرٍ فِي الزمان الثاني بناء على أنه كان ثابتا في الزمان الأول"۔
(کشف الاسرار:۳/۶۶۶)
ترجمہ:حال میں کسی چیز کے ثبوت کا حکم محض اس بنا پر لگانا کہ وہ چیز ماضی میں موجود تھی۔
علامہ قرافی اس طرح رقمطراز ہیں:
"ومعناہ ان ماثبت فی الزمان الماضی فاصل بقاء فی الزمن المستقبل"۔
(البحر المحیط فی اصول الفقہ،استصحاب الحال،۴/۳۲۷،انوارالبروق فی انواع الفروق،الفرق بین قاعدۃ الانشا والخبر۱/۸۶)
ترجمہ:یعنی جوچیز زمانہ ماضی میں ثابت ہو اس کو مستقبل میں باقی رکھنا ہی اصل (ضابطہ) ہے۔
 اس  کی تائید ذیل کے قاعدہ سےبھی ہوتی ہے:
"الأصل بقاء ماكان على ماكان حتى يوجد المزيل"۔  
   (الموسوعۃ الفقہیہ:۳/۳۳۳)
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس بات پر زمانہ ماضی سے عمل درآمد ہوتا چلا آرہا ہو وہ زمانہ حال اور استقبال میں بھی اپنی حالت پر قائم رہے گی، چاہے وہ حکم وجودی ہو یاعدمی، عقلی ہو یاشرعی۔  
(ارشادالفحول:۳۵۳)
ان تمام تعریفات کا حاصل یہی ہے کہ کسی چیز کا وجود یاعدم زمانہ ماضی میں ثابت تھا تواب زمانہ حال اور مستقبل میں اس چیز کواپنی حالت پر ہی برقرار کھا جائیگا، جب تک کہ اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہوجائے، مثلاً ایک شخص نے کوئی چیز خریدی یااسے وہ چیز ہدیہ میں ملی یاکوئی اور طریقے سے وہ اس چیز کا مالک بن گیا، تواب فی الحال اور مستقبل میں وہ چیز استصحاب کی وجہ سے اسی کی ملکیت متصور ہوگی، جب تک کہ کوئی ایسی دلیل واضح ہوکر سامنے نہ آجائے جواس کی ملکیت کے ختم ہوجانے کو یقینی بنادے، محض اس احتمال سے کہ اس نے اس چیز کو فروخت کردیا ہوگا، یاکسی کو ہبہ کردیا ہوگا، اس کی ملکیت ختم نہیں ہوگی؛ البتہ اس بات پر بینہ قائم ہوجائے کہ اس نے اس چیز کو فروخت کردیا ہے، یاہبہ کردیا ہے تواس یقین کی وجہ سے یہ چیز اس کی ملکیت سے نکل جائیگی اور استصحاب پر عمل نہیں ہوگا۔                
  (نفائس الاصول:۹/۴۲۰۶)
اسی طرح کسی شخص کے متعلق مشاہدہ سے معلوم تھا کہ وہ گذشتہ زمانہ  میں باحیات تھا ،چند سال یاچند ماہ گذرنے کے بعد محض فوت ہونے کا احتمال اس بات کے لیے کافی نہیں کہ اس کومردہ تصور کیا جائے؛ بلکہ جب تک کوئی واضح دلیل سامنے نہ آجائے اس کوباحیات ہی سمجھا جائے گا؛ اسی طرح ایک چیز شرعاً حلال ہے تومستقبل میں بھی اس کوحلال ہی تصور کیا جائیگا ،ہاں اگر کوئی دلیل قائم ہوجائے جواس کی حلت ختم ہونے کویقینی بنادے توپھر اس کی حلت حرمت میں تبدیل ہوجائیگی۔ 
  (نفائس الاصول:۹/۴۲۰۶)
استصحاب اور ائمہ اربعہ
حاصل یہ کہ استصحاب کوئی مستقل دلیل نہیں؛ بلکہ اس میں شئی کی بقاء کوہی دلیل تصور کیا جاتا ہے؛ اسی وجہ سے امام ابویوسفؒ نے استصحاب کوعدم الدلیل سے موسوم کیا ہے اور علامہ خوارزمیؒ فرماتے ہیں:"ھوآخرمدار للفتوی" یعنی استصحاب فتویٰ کی آخری جائے گردش ہے (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۲) البتہ اس کی قوت استنباط اورحیثیت کے بارے میں فقہاء کرام کی آراء مختلف ہیں، فقہائے احناف نے چونکہ غیرمنصوص مسائل میں قیاس اور استحسان سے خوب استفادہ کیا ہے؛ اس لیے استصحاب کو آخری اور سب سے کمزور درجہ کی دلیل قرار دیا ہے؛ اسی طرح مالکیہ نے بھی دلائلِ شرعیہ میں "مصالح مرسلہ" کا اضافہ کرکے استنباط کے میدان کووسیع کرلیا ہے؛ چنانچہ مالکی فقہاء نے بھی مسائل کے استنباط میں استصحاب سے بہت کم مدد لی ہے؛ علامہ قرافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مالکی فقہاء نے استصحاب کواس وقت حجت مانا ہے جب تک اس کے خلاف دلیل قائم نہ ہو، مثلاً مفقود الخبر کی حیات وموت کا حکم اس وقت تک نہیں لگایا جاسکتا جب تک کہ قاضی شرعی اس کی موت کا حکم نہ لگادے، اس وقت تک لوگوں میں اس کی طبعی زندگی ثابت مانی جائے گی؛ لہٰذا بغیراقامت دلیل کے وفات کا حکم نہیں لگایا جائیگا۔       
   (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۷)
فقہاء حنابلہ نے بنیادی دلائل شرعیہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ اور اجماع کے بعد قیاس سے استفادہ کرنے میں احتیاط سے کام لیا ہے اور سخت ضرورت کے وقت ہی قیاس کو دلائلِ شرعیہ کی فہرست میں جگہ دی ہے؛ کیونکہ مذہب حنبلی "اثری" ہے یعنی نقل پر اس کا مدار ہے اور اس میں اتباع سلف صالح پر زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے؛ اسی لیے حدیث و خبر سے موافقت رکھنے والی دلیلِ مثبت پر جہاں یہ زور دیتے ہیں وہاں استصحاب کو باطل کرنے والی مغیر احوال دلیل کے قبول کرنے میں بھی اتنی ہی سختی روا رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فقہ حنبلی میں ایسے احکام بہت زیادہ ہیں جواستصحاب پر مبنی ہیں؛ کیونکہ ان کے اصول کے مطابق استصحاب کوبدلنے کے لیے کسی نص کا ہونا ضروری ہے ،اس زریں اصول کا نتیجہ یہ ہے کہ اس مسلک میں قیود کی کمی اور اطلاقات میں وسعت ہے۔  
   (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶)
نیزحنابلہ کی طرح شوافع نے بھی استصحاب کو خاص اہمیت دی ہے اور ان سے غیرمنصوص مسائل کے حل کرنے میں بھرپور استفادہ کیا ہے؛ بہرحال استصحاب کی بنیاد اگرچہ گمان وظن پر ہے؛ پھربھی ائمہ اربعہ نےبعض تفصیلات میں اختلاف کے باوجود کسی حد تک استصحاب کو مستدل تسلیم کیا ہے (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۴۱) البتہ بعض ایسے گروہ ہیں جواستدلال بالرائے سے انتہائی کم کام لیتے ہیں اور استصحاب پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں، جیسے ظاہریہ  کہ استدلال بالرائے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے استصحاب پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔
(اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۴۱)
استصحاب کی اقسام
اصولِ فقہ کی کتابوں میں استصحاب کی متعدد قسمیں مذکور ہیں ،شیخ ابوزہرہ نے استصحاب کی چار قسمیں بیان کی ہیں:
النوع الاوّل:"
استصحاب البراء ۃ الاصلیۃ" حقیقی سبکدوشی کا اپنے حال پر باقی رہنا مثلاً:
الف:انسان کا تکالیف شرعیہ سے بری رہنا، جب تک کہ مکلف ہونے پر کوئی دلیل قائم نہ ہوجائے، انسان پیدا ہونے کے بعد اصلاً بری رہتا ہے یعنی اس کے ذمہ میں تکالیف شرعیہ نہیں رہتی ہیں تواس کی یہ حالت باقی رہے گی؛ مگرجب بالغ ہوجاتا ہے تووہ احکام شرعیہ کا مکلف ہوجاتا ہے۔
ب:اسی طرح مردوعورت ایک دوسرے کے حقوق سے دست بردار رہتے ہیں، یعنی کسی عورت پر مرد کے حقوق عائد نہیں ہوتے اور نہ ہی مرد پرعورت کے حقوق عائد ولازم ہوتے ہیں؛ لیکن ان دونوں  کاجب عقدِ نکاح ہوجاتا ہے توان پر ایک دوسرے کے حقوق عائد ہوجاتے ہیں؛ گویا بلوغت ومناکحت سے پہلے استصحاب براءت تھا جوبعد میں ختم ہوگیا۔
(اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۲۔ اعلام الموقعین:۱/۳۱۷۔ ارشادالفحول:۳۵۲)
النوع الثانی:"استصحاب مادل الشرع أوالعقل علی وجودہ" یعنی شریعت یاعقل انسانی جس چیز کے وجود کا تقاضا کرے ،اس کو اپنے حال پر باقی رکھنا مثلاً:
الف:ایک آدمی نے دوسرے سےکچھ روپئے بطورِ قرض لیے توجب تک قرض کی ادائیگی پر کوئی دلیل قائم نہ ہوجائے یایہ نہ معلوم ہوجائے کہ قرض دینے والے نے اسے معاف کردیا ہے، اس وقت تک قرض لینے والے پر ادائیگی کی ذمہ داری باقی رہے گی، یعنی یہ ذمہ داری استصحابِ حال کی وجہ سے باقی رہے گی۔
ب:اسی طرح خریدار پر ثمن کی ادائیگی اس وقت تک باقی سمجھی جائیگی جب تک کہ ادائیگی ثمن پر کوئی دلیل قائم نہ ہوجائے۔
(اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶)
ج:اسی طرح نکاح کے بعد شوہر پر مہردینا واجب ہوجاتا ہے، یہ وجوب اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ ادائیگی مہر پر کوئی دلیل نہ قائم ہوجائے یایہ نہ معلوم ہوجائے کہ بیوی نےاپنا حق مہرمعاف کردیا ہے۔        
  (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶)
النوع الثالث:"
"استصحاب الحکم" یعنی حکم کا اپنی حالت پر باقی رہنا، جوچیزیں اصل کے اعتبار سے مباح ہیں وہ مباح ہی رہیں گی، جب تک کہ اس کے خلاف کوئی حرام کرنے والی دلیل نہ مل جائے، مثلاً قاعدہ ہے:
"الاصل فی الاشیاء کلھا الاباحۃ ماعدا الابضاع"۔
ترجمہ:یعنی سارے چیزوں میں اصل اباحت ہے مگر شرمگاہیں۔
تو شرمگاہوں کی حرمت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک کہ اس کو حلال کرنے والی کوئی چیز نہ پائی جائے۔
(اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶۔ اعلام الموقعین:۱/۳۱۷۔ ارشادالفحول:۳۵۲)
النوع الرابع:
"استصحاب الوصف" یعنی کسی صفت کا اپنے حال پر باقی رہنا مثلاً:
الف:مفقود شخص کا زندہ رہنا ایک وصف ہے ،یہ وصف اس کے ساتھ اس وقت تک باقی سمجھا جائیگاجب کہ اس کے خلاف اس کی موت پر کوئی خارجی دلیل قائم نہ ہوجائے؛ چونکہ وہ شخص قبل ازواقعہ بقیدِ حیات تھا، اس لیے مستقبل میں بھی باحیات متصور ہوگا۔
ب:اسی طرح پانی کا وصفِ طہارت اپنی حالت پر باقی رہے گا؛ جب تک کہ اس کے نجس ہونے پر دلیل قائم نہ ہوجائے، جیسے رنگ وبو وغیرہ بدل جائے۔
ج:اسی طرح کسی شحص نے وضو کرلیا تومتوضی ہونے کی صفت اس کے ساتھ قائم ہوگئی؛ لہٰذا جب تک نقض وضو پر کوئی واضح دلیل قائم نہ ہوجائے وضو برقرار رہیگا، یانقض کا غالب گمان نہ ہوجائے وہ شخص متوضی ہی شمار ہوگا۔
اسی طرح عورت کی شادی کے بعد اس کے ساتھ "شادی شدہ" ہونے کی صفت قائم ہوجاتی ہے تو جب تک نکاح کے ختم ہونے پر کوئی واضح دلیل سامنے نہ آجائے اس کے ساتھ یہ صفت قائم رہے گی اور اس سے کسی دوسرے کا نکاح کرنا درست نہیں ہوگا۔
(اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶۔ اعلام الموقعین:۱/۳۱۸۔ ارشادالفحول:۳۵۳)
استصحاب اجماع
استصحاب کی ایک اور قسم فقہاء بیان کرتے ہیں اور یہ اصولین کے یہاں محلِ نزاع بنی ہوئی ہے، وہ استصحاب حکم الاجماع بعد الاختلاف ہے؛ چنانچہ علامہ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب اعلام الموقعین میں اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں مخصوص شرائط واوصاف کے ساتھ تمام علماء کرام کا اجماع ہوتو کسی شرط یاوصف میں تغیر کے بعد بھی وہ اجماعی حکم باقی رہے گا یانہیں؟ اس کو یوں بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ جب کوئی نزاعی صورت پیدا ہوجائے توحکمِ اجماع پر استصحاب کیا جائیگا (نفائس الاصول:۹/۴۲۰۶۔ اعلام الموقعین:۱/۳۱۸۔ ارشادالفحول:۳۵۳) مثالوں سے اس کی وضاحت اور ہوجاتی ہے:
الف:نماز کا وقت جارہا ہے وضو کے لیے ایک شخص کو کہیں پانی نہیں ملتا توتمام فقہاء کرام کا اس امرپر اجماع ہے کہ ایسا شخص تیمم کرسکتا ہے اور اس تیمم سے نماز جائز ہوگی، اب اگر قبل اس کے کہ پانی پر نظر پڑے اس نے نماز پوری کرلی تونماز صحیح ہوگئی اگرچہ نماز پڑھ لینے کے بعد پانی مل ہی کیوں نہ گیا ہو اور اگر نماز سے پہلے پانی مل گیا توپھر نماز بغیر وضو کے درست نہیں ہوسکتی، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اثناء صلوٰۃ میں یعنی نماز پڑھنے کے دوران میں اس نے پانی دیکھ لیا توکیا یہ نماز باطل ہوجائیگی؟ اور کیا وضو کرکے پھرسے نماز پڑھی جائیگی؟ استصحاب اجماع کے قائلین کا کہنا ہے کہ نماز ہوجائے گی اس کو پوری کرکے پھر سے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
(اعلام الموقعین:۱/۳۱۹۔ حیات امام احمدبن حنبلؒ:۴۰۰)
استصحاب کی اس قسم میں علماء اصولین مختلف ہیں؛ بلکہ خود حنابلہ جواس سے استنباط کرنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں ان کے یہاں بھی اختلاف ہے، ان میں سے بعض تواجماعی استصحاب کو حجت مانتے ہیں، جن میں سرِفہرست ابن شاقلا (ابراہیم بن احمد حنبلیؒ)، ابن حامد وغیرہ ہیں، جب کہ قاضی ابویعلی ابن عقیل (ابوالوفاء)، ابن زاغونی (ابوالحسن بن عبداللہ)، حلوانی (ابومحمدعبدالرحمن) اور ابوالخطاب وغیرہ اسے حجت نہیں مانتے؛ کیونکہ کسی خاص صفت پر اجماع کا انعقاد کسی دوسرے حال یاصفت پر اجماع کو مستلزم نہیں ہوسکتا، جب کہ یہاں پانی دیکھے بغیر صحت صلوٰۃ پر اجماع ہے، اس کا اقتضا یہ نہیں کہ پانی دیکھنے کی صورت میں بھی یہ اجماع قائم رہے؛ کیونکہ استصحاب کی شرط یہ ہے کہ جوحالت حکم کے وقت تھی اس پر قائم رہے؛ لیکن اگرصفت بدل جائے توحال بھی بدل جائیگا اور موجبِ حکم میں بھی تغیر ہوجائیگا؛ لہٰذا اب صورتِ حال کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ اس پر دوسرا حکم جاری کیا جائے؛ کیونکہ استصحابِ حال کسی دوسری دلیل کے مقابلے صلاحیت نہیں رکھتا، مثلاً صحابہ کرام نے لونڈی کے ام ولد بننے سے پہلے اس کی بیع کے جواز پر اجماع کرلیا، توام ولد کی بیع کے منع پر خود دلیل قائم ہوگئی؛ کیونکہ استصحاب کے مطابق حکم لگانے کا معارضہ دوسری دلیل اجماعِ صحابہ سے ہوگیا؛ لہٰذا اسے مسترد کردیا جائے گا۔
(ارشاد الفحول:۳۵۴۔ حیات احمد بن حنبل:۴۰۱)
استحصاب کا حکم
مذکورہ بالااقسام میں سے (آخری قسم کو چھوڑ کر) استصحاب کی پہلی تین قسمیں تمام فقہاء کے نزدیک مسلم ہیں؛ اگرچہ اس اصل پر جزئیات کو منطبق کرنے میں اختلاف پایا جاتا ہے (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶) البتہ چوتھی قسم "استصحاب الوصف" میں اختلاف ہے، حنابلہ اور شوافع علی الاطلاق اس سے احکام مستنبط کرتے ہیں؛ خواہ وصف حادث ہو یاغیرحادث، نفیاً واثباتاً دونوں طرح اس سے احکام متفرع کرتے ہیں یعنی استصحابِ وصف کو علت دافعہ اور ثابتہ دونوں مانتے ہیں، مثلاً:
استصحاب وصف کی نبیاد پر مفقود شخص کو زندہ مان کر جس طرح اس کے اموال کواس کی ملکیت میں باقی رکھتے ہیں اور اس  کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے؛ اسی طرح اس کو دوسرے مورث کی وارثت بھی دلاتے ہیں، اس کا حصہ محفوظ رکھا جاتا ہے اور اگر کسی غیروارث نے اس کے حق میں وصیت کی ہوتو اس وصیت کو بھی نافذ کرکے موصی کے ترکہ سے اس کا حصہ محفوظ رکھواتے ہیں؛ تاکہ جب اس کا پتہ چل جائے تواس کو اس کا حق حوالے کردیا جائے؛ چنانچہ شیخ ابوزہرہؒ فرماتے ہیں:
"اماالشافعیۃ والحنابلۃ فانھم یاخذون باستصحاب الوصف دفعاً واثباتاً ففی مسئلۃ المفقود یحکمون بحیاتہ مدۃ فقدہ حتی یحکم بموتہ وفی مدۃ الفقد اموالہ علی ملکیہ ویئول الیہ کل مال یثبت لہ بمیراث أووصیۃ فی مدۃ الفقد"۔
ترجمہ:رہی بات شوافع اور حنابلہ کی توانہوں نے استصحاب الوصف کواختیار فرمایا ہے، نفیاً بھی اثباتاً بھی؛ چنانچہ مفقود الخبر کے مسئلے میں اس شخص کے زندہ ہونے کا حکم لگاتے ہیں، مدتِ فقد میں یہاں تک کہ اس کی موت کا (شرعی) حکم لگ جائے اور مدتِ فقد میں اس کے اموال کو اس کی ملک میں برقرار رکھتے ہیں اور مدتِ فقد میں ہراس مال کواس کے طرف پھیرتے ہیں جو اس کے لیے میراث یاوصیت سے ثابت ہوا ہے۔
لیکن احناف او رمالکیہ استصحاب الوصف کو صرف علت دافعہ اور نافیہ مانتے ہیں علت ثابتہ نہیں مانتے مثلاً مذکورہ بالا مسئلہ میں مفقود کواستصحاب کی وجہ سے زندہ تصور کرتے ہیں اور زندہ تصور کرنے کی وجہ سے اس کا مال اس کی ملکیت میں باقی رہتاہے، دوسرا کوئی شخص اس کا وارث نہیں بنتا، یعنی دوسرے کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی ہے اور دوسرے کے مال میں یہ مردہ سمجھا جاتا ہے اور وہ کسی دوسرے کا وارث نہیں ہوتا (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۷۔ ارشاد الفحول:۳۵۲)یعنی مفقود کے وصف حیاۃ کا اعتبار اس کے مال میں صرف غیروں کی ملکیت کی نفی کے لیے ہوتا ہے، اس کو زندہ ماننے کی وجہ سے اگرکوئی نیاحق اس سے متعلق ہورہا ہوتو اس جگہ اس کے اس وصف کا اعتبار نہیں کرتے ہیں اس لیے کہ یہ علتِ ثابتہ نہیں ہے۔        
  (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۷۔ شریفیہ شرح سراجیہ:۱۵۱)
"اماالحنفیۃ والمالکیۃ فقد اثبتوا الاستصحاب باالنسبۃ لاستصحاب الوصف وجعلوہ صالحاً للدفع وغیرصالح للاثبات ای انہ لایأتی بحقوق جدیدۃ بالنسبۃ لصاحب الصفۃ"۔   
(الاشباہ والنظائر،حدالاستصحاب وحجیتہ ومافرع علیہ،۱/۹۵)
ترجمہ:رہے احناف اور مالکیہ توانہوں نے استحصاب کو استصحاب الوصف کی بنسبت ثابت مانا ہے اور اس کو (دوسروں کے حق) دفع کرنے کے لائق مانا ہے اور دوسروں میں اثبات حق کے لائق نہیں مانا ہے؛یعنی وہ وصف صاحب وصف کے لیے کوئی نیا حق نہیں لاتا ہے۔
اگرمفقود کے کسی رشتہ دار کا انتقال ہوجائے جس سے مفقود کو زندہ ہونے کی صورت میں وراثت مل سکتی ہوتو ایسی صورت میں احناف اور مالکیہ کے نزدیک جب تک مفقود کی موت کا یقینی علم نہ ہو جائے یااحناف کے نزدیک اس کی عمر کے نوے سال اور مالکیہ کے نزدیک مفقود ہونے کے بعد اس کی عمر کے چار سال نہ گذر جائیں اس وقت تک مفقود کا حصہ وراثت موقوف رکھا جائیگا، قاضی بذاتِ خود یاکسی قائم مقام کے ذریعہ اس کی حفاظت کرائے گا (بحث ونظر،شمارہ نمبر:۴/۴۴)واضح رہے کہ استصحاب کے بنا پر جواختلاف پیدا ہوتا ہے اس کا زیادہ ترامور قضاء سے متعلق ہے ،قاضی حضرات دعاوی کے ثبوت اور نفی میں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔     
    (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۷)
استصحاب کی مثالیں
شک ناقض ِ وضو نہیں
ایک شخص نے وضوکیا ،اب یہ شخص باوضو رہے گا اور اس وضو سے اس وقت تک نماز پڑھ سکتا ہے جب تک یقینی طور پر یاغلبہ ظن کے ساتھ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے، وضو کرنے کے بعد اب اگر اس کے ٹوٹنے میں محض شک ہوجائے توایسی صورت میں استصحاب حال کی بنا پر وہ شخص باوضو مانا جائے گا، شک کے باوجود اس وضو سے نماز پڑھ سکتا ہے؛ کیونکہ حالِ ثابت کی بقا ہی اصل ہے ،جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہوجائے اور چونکہ یہاں کوئی یقینی دلیل موجود نہیں ،اس لیے وہ باوضو ہی کہلائے گا۔
(اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۸۔ اعلام الموقعین:۱/۳۱۷)
ذبائح کی اصل تحریم ہے
کوئی شکار قبل اس کے کہ اس پر قابو پایا جائے، پانی میں ڈوب گیا، احناف اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ اسے نہیں کھایا جاسکتا؛ اگرچہ اس کے بدن پر تیر کے نشانات ہی کیوں نہ ہوں، اس لیے کہ نہیں معلوم اس کی موت پانی میں ڈوب کرہوئی ہے یاتیر سے؟ اگرڈوب کر ہوئی ہے تو حرام اور اگر محض تیر سے ہوئی ہے توحلال ہے اور چونکہ ذبائح میں اصل تحریم ہے؛ لہٰذا جب تک شکار کو باقاعدہ ذبح نہیں کیا جائے یایقینی طور پر تیر سے جان نکلنے کا علم نہ ہوجائے، اس کو حلال نہیں قرار دیا جاسکتا اور یہاں چونکہ حلال ہونے کا ثبوت نہیں ہے اس لیے اصل تحریم قائم رہے گی۔         
   (اعلام الموقعین:۱/۳۱۷۔ الاشباہ والنظائر:۱/۲۱۰۔ البحرالمحیط:۶/۲۵)
پانی کی اصل طاہر اور مطہر ہے
فقہاء کے نزدیک پانی کی اصل طاہر اور مطہر ہے جب تک کہ اس کے اوصاف متغیر نہ ہوجائیں؛ لہٰذا جب تک وہ ایسی صورت میں منتقل نہ ہوجائے کہ حکم بدل جائے یہ اصل اس کے ساتھ برقرار رہے گا؛ گویاکہ اس کا طاہر ومطہر ہونااس وقت تک زائل نہیں ہوگا جب تک کہ رنگ وبو کا تغیر اس کی نجاست کی دلیل نہ بن جائے یااس میں کوئی نجس چیز واقع نہ ہوجائے۔  
(اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۴۰)
انگور کا رس اور نبیذِتمر اصلاً حلال ہے
یہی حال شیرۂ انگور کا ہے کہ وہ حلال ہے؛ لہٰذا اس کی حلت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک کہ اس کی صفت متغیر نہ ہوجائے، مثلاً اس میں نشہ پیدا ہوجائے تواس کا حکم بدل جائے گا؛ یہی حال نبیذِتمر کا ہے کہ وہ بذاتِ خود حلال ہے تووہ حلال ہی رہے گی، جب تک کہ اس میں نشہ کا پایا جانا یقینی نہ ہوجائے۔                
   (اعلام الموقعین:۱/۳۱۷۔ اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۸)
شک کی صورت میں طلاقِ رجعی مانی جائیگی
ایک شخص نے اپنی بیوی کوطلاق دیدی؛ لیکن اسے شک ہے کہ ایک طلاق دی یاتین؟ امام مالکؒ کے سوا امام احمد سمیت دوسرے اکثرفقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اس صورت میں ایک ہی طلاقِ رجعی واقع ہوگی؛ کیونکہ جب شادی ہوئی تھی تووہ ہرمانع شرعی سے خالی تھی؛ لہٰذا اس کی حلت اپنی جگہ پر ثابت ہے اور اس کو اپنی حالت پر باقی قرار دیا جائیگا اور یہ کیفیت صرف شک سے زائل نہیں ہوسکتی؛ لہٰذا ایک طلاقِ رجعی ویقینی مانی جائیگی اور وہی ثابت ہوگی۔             
(الاشباہ والنظائر:۱/۲۲۵)
استصحاب پر مبنی قواعد
شیخ عبدالوہاب خلاف نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ فقہاء نے استصحاب سے متعدد فقہی قواعد مستنبط کئے ہیں۔
۱۔          "الاصل  بقاء ماکان علی ماکان"۔   
  (الاشباہ والنظائر:۱/۲۲۰)
۲۔          "الاصل فی الاشیاء الاباحۃ"۔
(الاشباہ والنظائر:۱/۲۳۱۔ اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۴۰)
۳۔          "ماثبت بالیقین لایزول بالشک"۔    
(اصول الفقہ للخلاف:۹۲)
۴۔          "الاصل فی الانسان البرأۃ"۔
(الفقہ الاسلامی وادلتہ حرمت المیت،۸/۵۵۰،الاشباہ والنظائر،قاعدۃ:الاصل براءۃالذمۃ،۱/۵۹)
یہ سارے قواعد اپنے مفاہم ومقاصد کے اعتبار سے استصحاب سے قریب تر ہیں، ان فقہی قواعد کا استصحاب سے مستنبط ہونا یاان کے مفہوم میں یگانگت کا پایا جانا استصحاب کی اصولی حیثیت واہمیت میں مزید اضافہ کرتا ہے؛ اسی لیے فقہاء نے اس کو خاص اہمیت دی ہے اور خصوصاً حنابلہ اور شوافع نے اس سے بہت سے مسائل مستنبط کیے ہیں۔

سد ذرائع

اسلام ایک کامل ومکمل مذہب ہے جس کا اعلان فخر الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ تعالیٰ نے حجۃ الوداع کے موقع پر کرادیا تھا:
"الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا"۔
(المائدہ:۳)
یعنی بالفاظِ دیگر یہ اعلان کروادیا گیا کہ اب دین اسلام میں کسی قسم کا کوئی نقص اور عیب نہیں ہے؛ بلکہ قیامت تک کے درپیش مسائل وحوادث کا اسی میں حل موجود ہے؛ بشرطیکہ بصیرت وگہرائی سے کتاب وسنت کا مطالعہ کیا جائے، اسی بصیرت وگہرائی کے ساتھ نئے نئے حوادث کے احکام معلوم کرنے کے لیے فقہاء نے چند اصول وضوابط مقرر کئے ہیں، جن کی روشنی میں ہرحادثہ کا حکم معلوم کیا جاسکتا ہے اور اسے اصطلاح میں اصول فقہ کا نام دیا ہے، اصولِ فقہ کے بعض بنیادی مآخذ ہیں اور بعض ضمنی مآخذ کی حیثیت رکھتی ہیں، ان ہی ضمنی مآخذ میں سے "سدذرائع" بھی ہے، جن کا تمام فقہاء نے فی الجملہ اعتبار کیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے "سدذرائع" کی لغوی واصطلاحی تعریف ذکر کردی جائے؛ تاکہ اگلے مباحث کے سمجھنے میں آسانی ہو۔
سد ذرائع کی تحقیق
سد لغت میں بند کرنے کو کہتے ہیں اور ذریعہ لغت میں کسی چیز تک پہونچانے والے وسیلہ کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں ذرائع ان اشیاء کو کہا جاتا ہے جن کا ظاہر اور جن کی ذات تومباح ہو لیکن وہ شئی کسی ممنوع فعل تک پہونچانے کا سبب بنتی ہو (الموسوعۃ الفقہیہ:۲۴/۲۷۶) اور شیخ ابوزہرہ نے اپنی معرکۃ الاراء تصنیف "اصول الفقہ" میں ذرائع کی تعریف ان الفاظ میں کی:
"والذرائع فی لغۃ الشرع مایکون طریقاً للمحرم أوللمحل"۔
(اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۲۸)
ترجمہ:یعنی ذرائع شریعت کی زبان میں ایسا راستہ ہے جوکسی حرام یاحلال فعل تک پہونچانے کا سبب ہو۔
اس  سے یہ معلوم ہوگیا کہ "سدذرائع" کا مفہوم یہ ہے کہ ان ذرائع ا وروسائل پر روک لگایا جائے اور ان سے منع کیا جائے جوکسی حرام اور مکروہ فعل کا سبب بنے۔
سدذرائع کا مطلب
سدذرائع کا مطلب یہ ہے کہ انسان کواس ذریعہ سے روکا جائے جوکسی حرام چیز تک پہونچانے کا سبب بنے؛ اگرچہ وہ ذریعہ فی نفسہ جائز اور مباح ہو؛ لیکن اس کے مفضی الی الحرام ہونے کی وجہ سے اس میں حرمت آجائے گی، ہاں اگر اس میں یہ بات نہ ہو تو پھر اس کا یہ حکم نہیں ہوگا؛ بلکہ وہ اپنی اصل یعنی جواز پر باقی رہے گا اور اس سے اس کو روکا نہیں جائےگا، ذرائع دوطرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جوحرام فعل کا ذریعہ بنے، دوسرے وہ جوکسی واجب ومستحب فعل کا ذریعہ بنے؛ لیکن چونکہ یہاں مقصود "سدذرائع" کوبیان کرنا ہے اس لیے صرف ان ذرائع کو اور ان کے حکم کو بیان کیا جائیگا جوحرام فعل کا ذریعہ اور وسیلہ بنے۔
سدذرائع اسی امت کی خصوصیت
حضرت آدم علیہ السلام سے آخرالزماں حضرت محمدرسول اللہ  تک جتنے انبیاء ورسل آئے سب کی شریعت میں معاصی وفواحش حرام تھے لیکن معاصی وفواحش کے ذرائع حرام نہ تھے؛ لیکن شریعت محمدی کی خصوصیت ہے کہ اس میں جہاں معاصی وفواحش کوحرام کیا گیا وہیں ان تک پہونچانے والے ذرائع واسباب کو ممنوع قرار دیا گیا اور ذرائع پر بھی وہی حکم لگایا گیا جواصل کا حکم تھا۔
حکمت
اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے اس شریعت اور اس کے متبعین کی ایک جماعت کوقیامت تک باقی رکھنے کی ذمہ داری لی ہے اور ظاہر ہے اس مقصد میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب کہ معاصی وفواحش سے ان کی حفاظت ہو اور تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اس کی تکمیل بغیران ذرائع واسباب پر روک لگائے نہیں ہوسکتی۔         
  (احکام القرآن:۳/۴۷۸، مفتی شفیع صاحبؒ)
علامہ ابن قیم اس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:
"اگرمعاصی اور محرمات سے اللہ تعالیٰ روک دیتا اور ان ذرائع پر روک نہ لگاتا تواس کا صاف مطلب یہ ہوتا کہ ایک طرف معاصی سے توروکا گیا؛ لیکن دوسری طرف معاصی پر آمادہ کرنے والی چیزوں کو بحال رکھا اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے بار بار معاصی کا ارتکاب ہوتا، جواللہ تعالیٰ کی حکمتِ کاملہ اور اس کے ہمہ گیر علم کے سراسر منافی تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصل کو حرام قرار دینے کے ساتھ اس کے ذرائع کو بھی حرام کردیا"۔            
   (اعلام الموقعین:۳/۱۲۳)
اسی لیے جب شراب حرام کی گئی تواسی پر بس نہیں کیا گیا؛ بلکہ اس کی بیع وشراء کو بھی حرام قرار دیا گیا؛ کیونکہ یہ شرب خمر کا ذریعہ بن سکتا ہے؛ اسی طرح جب شرک کو ظلمِ عظیم اور اس کے عدم معافی کا اعلان کیا گیا توان تمام ذرائع کو بھی حرام قرار دیا گیا جواس کو شرک تک پہونچانے والے تھے، مثلاً تصویر کشی، اسی طرح طلوع وغروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنےسےمنع کیا گیا؛تاکہ پرستش آفتاب کا شبہ نہ ہو۔                       
  (احکام القرآن:۱/۴۷۸،۴۷۹)
احکامِ شرعیہ کے اقسام
انسان کو شرعاً جن امور کا مکلف بنایا گیا ہے، ان میں سے بعض مقاصد کے قبیل سے ہیں اور بعض وسائل وذرائع کا درجہ رکھتی ہیں "مقاصد" کا مطلب یہ ہے کہ خود مصالح یامفاسد پر مبنی ہوں، یعنی ان کی ذات میں مصالح یامفاسد ہوں وہ کسی غیر کا نتیجہ نہ ہوں اور "وسائل" سے مراد یہ ہے کہ مقاصد تک رسائی اور پہونچنے کا ذریعہ بنیں اور شرعاً یہ ذرائع تحلیل وتحریم میں اپنے مقاصد کے تابع ہوتے ہیں اور حکم کے اعتبار سے ان کا درجہ مقاصد سے کمتر ہوتا ہے، چنانچہ علامہ قرافی کا کہنا ہے:
"الْوَسِيلَةِ إلَى أَفْضَلِ الْمَقَاصِدِ أَفْضَلَ الْوَسَائِلِ وَإِلَى أَقْبَحِ الْمَقَاصِدِ أَقْبَحَ الْوَسَائِلِ وَإِلَى مَاھُوَمُتَوَسِّطُ مُتَوَسِّطَاةٍ"۔     
       (انوارالبروق فی انواع الفروق،الفرق الثامن:۳/۴۶)
ترجمہ:یعنی مقاصد اگراعلیٰ درجہ کے ہوں تووسائل کا بھی حکم اعلیٰ ہوگا اور اگرمقاصد غلط ہوں تووسائل کا حکم بھی غلط ہی ہوگا اور اگر مقاصد درمیانی درجہ کے ہوں تووسائل بھی مقاصد کی طرح متوسط ہوں گے۔
بہرحال بات طے ہے کہ مقاصد تک پہونچنے کے کچھ ذرائع ہوتے ہیں، اصلاً حکم تومقاصد پر لگایا جاتا ہے؛ لیکن جوان تک پہونچنے کا ذریعہ بنتے ہیں ان کا حکم بھی مقاصد ہی جیسا ہوتا ہے؛ اگرمقاصد میں حسن ہے توان کے ذرائع میں بھی حسن پایا جائے گا اور اگر مقاصد میں قبح ہی قبح ہے توان کے ذرائع میں بھی قبح پایا جائے گا اور اس حسن وقبح کی نوعیت وکمیت کا تعین دراصل مقاصد سے ان ذرائع کے تعلق کی بناء پر کیا جائے گا، ذرائع کا مقاصد سے جتنا گہرا ربط وتعلق ہوگا اسی کے بقدر ذرائع میں حسن وقبح ہوگا اور جتنا کمزور تعلق ہوگا اتنا ہی ان میں کم حسن وقبح پایا جائے گا۔
وسائل کی اقسام
جب وسائل واسباب کا احکام شرعیہ کے قبیل سے ہونا معلوم ہوگیا توان کی مزید کچھ تفصیل پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے، اسباب ووسائل کی اولاً دوقسمیں ہیں کہ ایک سبب قریب ہے اور دوسرا سبب بعید اور یہ بات طے ہے کہ سبب بعید سے احتراز واجتناب ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ انسان کے ہرکسب وفعل میں اس بات کا ضرور احتمال ہوتا ہے کہ وہ خیر کا ذریعہ ہے اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ شرکا ذریعہ ہے، اب اگربعید سے بعید ترچیزوں کا انسان اعتبار کرنے لگے توانسان کا جینا دوبھر ہوجائیگا اور بہت بڑا حرج لازم آئے گا؛ اسی لیے شرعاً سبب بعید معتبر نہیں ہے اور اس مقالہ میں اس پر گفتگو بھی نہیں ہے؛ جہاں تک سبب قریب کی بات ہے توشریعت نے اس کا اعتبار کیا ہے گویا مقاصد تک پہونچنے کے لیے جوسبب قریب ہوں وہ شرعاً معتبر ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ آدمی کا کوئی قول وعمل یاخود اس کی ذات کسی خیرکا سبب بنے تواس کو شرعاً خیر ہی شمار کیا گیا ہے اور اگر ان میں سے کوئی شرکا سبب بنے تواس کو شرقرار دیا گیا ہے۔
اسباب قریبہ کے اقسام
مقاصد کے لیے جوسبب قریب ہوا کرتا ہے اس کی دوصورتیں ہیں، ایک یہ کہ وہ کسی گناہ ومعصیت کا سبب ومحرک بنے، اس طور پر کہ اگر یہ محرک وباعث نہ ہوتا توفاعل اس گناہ کا اقدام نہ کرتا اور اس سے محفوظ رہتا، جیسے کفار کے بتوں کو برا بھلا کہنا معبود حقیقی کے برا بھلا کہنے کا سبب ہے؛ کیونکہ اگربتوں کو برا بھلا نہ کہا جاتا توکفار بھی حق تعالیٰ کو برا بھلا نہ کہتے؛ گویا بتوں کو برا کہنا باعث اور محرک بنا کفار کا حق تعالیٰ کو گالیاں دینے کا اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ وسیلہ اور محرک وباعث تونہ بنے ؛البتہ ارتکاب معصیت کے لیے ممدومعاون ثابت ہو اور فاعل کو مطلوب تک پہونچانے میں سہولت فراہم کرے جیسے شراب پینے کا جوشخص ارادہ رکھتا ہے اسے شراب پیش کرنا، اسی طرح ناحق قتل کرنے والے شخص کے ہاتھ میں تلوار دے دینا؛ یہاں شراب پیش کرنا اور تلوار دے دینا شرب خمر اور قتل ناحق کا محرک وباعث نہیں ہے؛ مگریہ بہرحال معین علی المعصیت ہے۔

اسباب قریبہ کے احکام
سبب قریب کی پہلی صورت تونص قرآنی سے حرام ہے؛ البتہ دوسری صورت میں تھوڑی تفصیل ہے اور وہ یہ کہ اگروہ سبب ووسیلہ اس طرح پایا جائے کہ اس میں تبدیلی اور الٹ پھیر کے بغیر ہی وہ معصیت کا ذریعہ بن گیا ہو تویہ ذریعہ مکروہِ تحریمی ہوگا؛ لیکن اگر اس میں تغیروتبدیلی کے بعد گناہ سرزد ہوا ہوتو مکروہِ تنزیہی ہوگا؛ چنانچہ فتنہ وفساد برپا کرنے والوں سے اسلحہ کا فروخت کرنا باتفاق فقہاء مکروہِ تحریمی ہے؛ چونکہ ان اسلحہ میں کسی تبدیلی کے بغیر فساد برپا کیا جاتا ہے؛ گویامفسدین کے ہاتھوں اسلحہ بیچنا فساد کے لیے معین ہے اور فساد اسی اسلحہ سے برپا ہوگا؛ لہٰذا ان کے ہاتھوں اسلحہ فروخت کرنا مکروہِ تحریمی ہے؛ البتہ ان لوگوں کے ہاتھوں لوہا فروخت کرنا مکروہِ تنزیہی ہوگا؛ کیونکہ اگروہ ان سے ہتھیار بنائیں گے تولوہا میں ترمیم کرنی ہوگی۔     
     (احکام القرآن:۳/۴۷۸،۴۷۹)
سدذرائع میں اعتدال
یہ بات بھی مخفی نہیں کہ اسباب وذرائع کا ایک لامتناہی اور غیرمنقطع سلسلہ ہے، اس میں اگر میانہ روی سے کام نہ لیا جائے توحرج کا باعث ہوگا جو "وَمَاجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ" (الحج:۷۸) کے منافی ہوگا؛  کیونکہ اگراسباب معاصی اور اس کے ذرائع پر بالعموم روک لگادی جائے توعام مباحات کے مقابلہ میں نہی کا دائرہ زیادہ وسیع ہوجائے گا، جس سے مکلفین پر زمین باوجود کشادگی کے تنگ ہوجائے گی کہ ہرذریعہ ووسیلہ میں حکم ممانعت ہی کا نظر آئے گا جوایک حرج عظیم ہے اور اگرتمام اسباب وذرائع معاصی کو فی الجملہ مباح قرار دیا جائے تومعاصی سے اجتناب دشوار اور دوبھر ہوجائے گا جوزمین میں ایک بہت بڑا فساد اور فتنۂ عظیم ہوگا؛ حالانکہ اس امت کوتمام امور میں اعتدال اور توسط پر پیدا کیا گیا (اورقرآن مجید میں بھی امت وسط کے تحفہ سے نوازا گیا) لہٰذا شریعت مصطفویہ نے سدذرائع کے سلسلہ میں درمیانی راستے کو اختیار کیا ہے۔                          
   (احکام القرآن:۳/۴۷۸)
احناف ومالکیہ کا مسلک
سدذرائع کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کا مطمح نظر یہ ہے کہ وہ عمل شعائراسلام اور مقاصد شرعیہ میں سے ہے یانہیں ،اگروہ شعائر اور مقاصد شرعیہ میں سے ہوتو سرے سے اس کے ترک کا حکم نہیں لگاتے؛؛ بلکہ اس سے منکرات کے ازالہ اور اس کی اصلاح کی تدابیر اختیار کرنے کو واجب قرار دیتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات فاعل کے منکرات پر روکنے کی قدرت نہ ہونے کی صورت میں شرکت کی اجازت دیتے ہیں، جیسا کہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وَلَاتُتْرَكُ السُّنَّةُ لِمَعْصِيَةٍ تُوجَدُ مِنْ الْغَيْرِ"۔      
   (بدائع الصنائع:۵/۱۲۸)
ترجمہ:معصیت کی وجہ سے (جودوسری جانب سے آئے) کسی سنت کو ترک نہیں کیا جائے گا۔
اورجیسا کہ نوحہ کرنے والی عورتوں کی وجہ سے جنازہ میں شرکت ترک نہیں کی جائے گی؛ اگروہ منع پر قادر ہوتو منع کرے؛ ورنہ صبرکرے ،یہ تغییرغیرمقتدیٰ کے لیے ہے؛ اگروہ شخص مقتدیٰ ہوتوشریک نہ ہو۔    
  (بدائع الصنائع:۵/۱۲۸)
لیکن اگروہ عمل شعائر اسلام یامقاصدِ شرعیہ میں سے نہ ہو خواہ وہ فعل مباحات یامستحبات کے قبیل سے ہو، جب اس کے ساتھ کوئی منکرشامل ہوجائے یاوہ کسی نہ کسی منکر کی طرف عام طور پر لے جاتا ہو تواحناف وموالک اس کو ممنوع اور مکروہ قرار دیتے ہیں اور اس کے ترک کا حکم دیتے ہیں؛ اگرچہ بعض مواقع پر وہ منکر سے خالی ہو، یہ حکم محض سدّاً للذرائع ہوتا ہے، اس لیے کہ اگرچہ وہ خود عامل کے حق میں منکرسے خالی ہے؛ لیکن وہ دوسروں کے مبتلائے معصیت ہونے کا ذریعہ بنتا ہے اور جوچیز معصیت کا ذریعہ بنے تووہ بھی معصیت ہوتی ہے؛ جیسا کہ علامہ زاہدیؒ لکھتے ہیں کہ "نماز کے بعد جوسجدہ کیا جاتا ہے وہ مکروہ ہے؛ کیونکہ نا واقف حضرات اسے سنت اور واجب سمجھ بیٹھتے ہیں اور جو مباح کام اس عقیدہ تک پہونچائے وہ خود مکروہ ہوتا ہے"۔              (کبیری:۵۷۳)
اسی قبیل سے امام ابوحنیفہؒ کا اشعار ھدی کے بارے میں کراہت کا قول ہے؛ حالانکہ اشعار ہدی آپ سے منقول ہے، اس کے باوجود امام ابوحنیفہؒ نے اسے مکروہ محض اس لیے کہا کہ لوگ اس میں افراط سے کام لے رہے تھے؛ حالانکہ اشعار نہ توشعائر کے قبیل سے تھا اور نہ ہی مقاصدِ شرعیہ میں داخل تھا؛ لہٰذا امام ابوحنیفہؒ نے اس کو "سدّاً للذرائع"منع کردیا۔
(احکام القرآن:۳/۲۵۳۔۲۵۶)
فقہ مالکی کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام مالکؒ نے دیگر ائمہ کے مقابلہ میں "سدذرائع" سے زیادہ کام لیا ہے اور فقہ کے مختلف ابواب میں ان سے مدد لی ہے۔
شوافع کا مسلک
جن حضرات نے ذرائع کو ساقط الاعتبار مانا ہے ان میں سرِفہرست امام شافعیؒ ہیں (الموافقات:۴/۵۵۶) لیکن فقہ شافعی کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی بعض شرائط کے ساتھ سدذرائع کا اعتبار فقہ کے مختلف ابواب میں کیا ہے؛ البتہ دیگرائمہ کے مقابلہ میں شوافع نے اس سے کم استفادہ کیا ہے۔
سدذرائع اور حنابلہ
فقہاء حنابلہ میں سب سے زیادہ سدذرائع پر علامہ ابن القیمؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "اعلام الموقعین" میں گفتگوکی ہے ،انھوں نے اس کے اثبات پر ننانوے دلائل ذکر کئے ہیں، ان کے نزدیک "سدذرائع" ربع دین ہے (اعلام الموقعین:۳/۱۴۳) الغرض حنابلہ بھی سدذرائع کومعتبر قرار دیتے ہیں۔
قرآن میں سد ذرائع کے نظائر
سدذرائع کے نظائر خود کتاب اللہ میں بھی ہیں، میں اس کی صرف دومثالیں پیش کرونگا:
۱۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
"وَلَاتَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ"۔      
  (الانعام:۱۰۸)
ترجمہ:اوردشنام مت دو ان کو جن کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں (یعنی ان کے معبودوں کو) کیونکہ پھر وہ براہِ جہل حد سے گزرکر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔

آیتِ بالا میں اللہ جل شانہ نے مشرکین کے معبودوں کو برا کہنے سے منع کیا، جب کہ اُن کو برا کہنا اللہ کی حمیت اور ان معبودانِ باطلہ کی اہانت کے لیے ہی ہوا کرتا تھا؛ لیکن یہ عمل خود اللہ کو برا کہنے کا باعث اور ذریعہ بنتا؛ اس لیے منع کردیا گیا، اس آیت سے ایک مباح اور جائز عمل (معبودانِ باطلہ کو برا بھلا کہنا) سے روکا گیا ہے؛ کیونکہ یہ عمل ایک حرام فعل (معبودِ حقیقی کو برا بھلا کہنا) کومستلزم تھا اور یہی توسدذریعہ ہے۔
۲۔نیزارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَاتَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا"۔                  (البقرۃ:۱۰۴)
ترجمہ:اے ایمان والو! تم(لفظ) راعنا مت کہا کرو اور انظرنا کہا کرو۔      
  
درج بالا آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے صحابہ کو "راعنا" کہنے سے منع کیا، جب کہ اس کا مفہوم بالکل صحیح تھا (کہ ہماری قوت وتحمل کا لحاظ کرکے ہمیں مکلف بنائیے) اور صحابہؓ کی نیت بھی اچھی تھی؛ لیکن اسی لفظ میں منافقین اور یہود"ع" کے کسرہ کو کھینچ کر پڑھتے اور وہ لفظ "رَاعِنَا" کے بجائے "رَاعینا" بن جاتا اور جس کے معنی چرواہے کے ہوتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد آپکی اہانت ہوا کرتا تھا توآیت کے ذریعہ لفظ "راعنا" کے استعمال کرنے سے خود صحابہؓ کوروک دیا گیا؛ تاکہ منافقین اور یہود کو اس لفظ سے شرارت کا موقع نہ مل سکے اور یہی تو"سدذریعہ" ہے۔
احادیث میں سد ذرائع کے نظائر
سدذرائع کے نظائر احادیث میں بھی ملتے ہیں:
۱۔ایک مرتبہ آپ  نے ارشاد فرمایا کہ میدانِ جنگ میں کسی چور کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں (مشکوٰۃ شریف:۲/۳۱۴۔ ابوداؤد:۲/۶۹۵) حالانکہ چورکی سزا "قطع ید" ہی ہے؛ لیکن میدانِ جنگ میں اگرچور کا ہاتھ کاٹا جائے تواس بات کا امکان ہے کہ وہ کافروں سے مل جائے اور مسلمانوں کی مخبری کرکے انہیں غیرمعمولی نقصان پہونچائے اور کافروں کی تقویت کا ذریعہ بن جائے ،اس لیے آپ  نے وہاں حدود کے نافذ کرنے سے منع فرمایا۔
۲۔نیزآپ نے جنگ کے موقع سے کافروں کے ہاتھ اسلحہ فروخت کرنے سے منع فرمایا (سنن الکبریٰ للبیہقی:۵/۳۲۷) حالانکہ یہ عمل فی نفسہٖ مباح اور جائز ہے؛ لیکن جنگ کے موقع سے فروخت کرنے سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہونچے گا؛ کیونکہ وہ ہتھیار مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوں گے اور ظاہرہے کہ یہ ممنوع ہے، آپ کا اس موقع سے کافروں کے ہاتھ ہتھیار فروخت کرنے سے منع کرنا؛ یہی تو "سدذریعہ" ہے۔
اجماع میں سد ذرائع کے نظائر
اجماع میں بھی سدذرائع کے نظائر پائے جاتے ہیں، مثلاً قرآن پاک کا نزول سات قرأتوں پر ہوا تھا۔        
  (ترمذی شریف:۲/۱۲۲)
لیکن جب حضرت عثمان غنیؓ کے زمانہ میں ناواقفیت کی بنا پر بعض عجمی حضرات کے مابین اس تعلق سے اختلاف ہونے لگا تولغتِ قریش کے مطابق قرآن کے جمع وترتیب پر صحابہ کرامؓ کا اتفاق ہوا، تاکہ آگے چل کر قرآن اختلاف کا ذریعہ نہ بن جائے یہ اجماع بھی محض سد ذریعہ کے طور پر تھا۔ 
                 (اصول مذہب امام احمد بن حنبل:۴۶۲، ۴۶۳)

مصالح مرسلہ

فقہ میں چونکہ مصالح مرسلہ کی بھی رعایت کی گئی ہے اور اس کی بناء پر مسائل کی ایک معتدبہ مقدار فقہ کے مختلف ابواب میں پائے جاتے ہیں، اس لیے مصالح مرسلہ کی حقیقت، فقہاء کے یہاں اس کا درجۂ اعتبار اور دیگر ضروری تفصیلات ذیل کے سطور میں پیش کی جاتی ہیں۔
مصالحِ مرسلہ کی تعریف
کسی منفعت کی تحصیل یاتکمیل یاکسی مضرت وتنگی کا ازالہ یاتخفیف کی وہ صورت جوشارع کے مقصود کی رعایت وحفاظت پر مبنی ہو اور اس کی تصریح وتشخیص یااس کے کسی نوع کی صراحت شریعت نے نہ کی ہو، اسے اصطلاح میں مصالح مرسلہ کہا جاتا ہے اور اسے "مرسلہ" "الاستدلال المرسل" اور الاستصلاح بھی کہا جاتا ہے۔                
   (ارشاد الفحول:۲۸۵۔ البحرالمحیط:۶/۷۶)
مصالح مرسلہ کے معتبر ہونے کے شرائط
فقہاء نے مصالح مرسلہ پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں:
۱۔وہ مصلحت ایسی ہوجوشریعت کے مقاصد کے مناسب ہو اور دلائلِ قطعیہ کے مخالفت نہ ہو اور نہ ہی کسی اصل کے منافی ہو؛ بلکہ شارع کی مراد کے موافق اور اس سے متفق ہو۔
۲۔مصلحت بذاتِ خود معقول ہو، عقول سے بالاتر نہ ہو، عقل سلیم ان کو قبول کرتی ہو۔
۳۔مصلحت کی رعایت کا مقصد کسی ضرر کو دفع کرنا ہو، محض نفسانی خواہشات کی پیروی نہ ہو۔        
   (المدخل:۲۰۱)
امام غزالیؒ کی تحریروں سے بھی مصالح مرسلہ کے معتبر ہونے کی یہی شرائط معلوم ہوتے ہیں،وہ لکھتے ہیں کہ مصلحت ایسی ہو جوضرورت کے قبیل سے ہو، حاجات وتحسینات کے قبیل سے نہ ہو۔
مصلحت محض احتمال وظن پر مبنی نہ ہو، اس مصلحت کے ذریعہ ضرر عامہ کو دفع کرنا مقصود ہو، اس میں کسی خاص شخصیت کومدنظر نہ رکھا گیا ہو (المستصفیٰ:۱/۲۸۶) یہی نظریہ حنابلہ کا بھی ہے۔          
   (اصول امام احمد بن حنبلؒ:۴۳۰)
مالکیہؒ کا موقف بھی تقریباً یہی ہے کہ جس مصلحت کی رعایت کرنے میں صلاح وخیر ہو، حرج ومشقت نہ ہو، اس کے ذریعہ عیش وعشرت کی تحصیل کا قصد نہ ہوتووہ مصالح مرسلہ شرعاً معتبر ہے۔          
    (مالک لأبی زہرہ:۴۲۶)
شیخ ابوزہرہؒ نے حنفیہ کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ جومصلحت شریعت سے ثابت شدہ اصول کے قریب ہو اس کا اعتبار ہوگا؛ ورنہ اعتبار نہ ہوگا (اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۲۶)غور کیا جائے تویہ بات بھی ماقبل میں ذکر کردہ شرائط کے مغائر نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ فقہاء کے یہاں مصالح مرسلہ کے معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ:
۱۔وہ مصلحت مقاصد شریعت کے مطابق ہو۔
۲۔وہ امرتعبدی اور عقل انسانی سے بالاتر نہ ہو۔
شریعت کے حدود
اسلامی قانون کے ماہراور اس کی گہرائی میں غوطہ زن رہنے والے فقہاء نے شریعت کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے ان کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں:
(۱)حفظِ جان
(۲)حفظِ نفس
(۳)حفظِ عقل
(۴)حفظِ نسل
(۵)حفظِ مال۔
وسعتِ نظر سے اگرجائزہ لیا جائے تواحکامِ شرعیہ ان ہی پانچ مقاصد کے اردگرد رواں دواں نظر آتے ہیں، نماز، روزہ، حج، صدق کی تاکید، کذب سے ممانعت، توحید ورسالت کے احکام، عقیدہ موت ومابعدالموت؛ اسی طرح سینکڑوں احکام ہیں، جن کا منشاء ومقصود "دین" کی حفاظت ہے؛ گویا عبادات کی مشروعیت حفظِ دین کی خاطر ہے؛ نہ اس کے بغیر دین کی تشکیل ہوسکتی ہے نہ دین کی عمارت قائم رہ سکتی ہے، قصاص ودیت کے قوانین، ظلم وجور کی ممانعت، نفقہ وحضانت کے احکام، انسان کی عزت وآبرو کی پاس داری، قذف وبہتان کی سزاوغیرہ "حفظِ نفس" کے لیے سنگِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں، نکاح کی اجازت ہی نہیں؛ بلکہ فضیلت، رہبانیت، وتجرد کی ممانعت، زنا ودواعیٔ زناکی حرمت اور اس کے کرنے پر عبرتناک سزائیں اور ثبوتِ نسب میں حددرجہ احتیاط کا پہلو، یہ سب "نسل کی حفاظت" کے لیے معین ومددگار ہیں، مالی معاملات کی اجازت، چوری ڈکیتی اور رہزنی پر حدود کا قائم ہونا، سود کی حرمت، غرور وخطر سے حفاظت وغیرہ کا تعلق "تحفظ مالی" کے قبیل سے ہیں، احکامات دینیہ میں غوروتدبر کی اجازت، اجتہاد کے دروازے کو کھلا رکھنا، نشہ کی حرکت اس پر حدود کا جاری ہونا "حفظِ عقل" کی خاطر ہیں۔           
   (نفائس الاصول:۹/۴۲۷۳)
یہ وہ امور ہیں جن پر ہرزمانہ کی شریعتیں متفق رہی ہیں؛ بلکہ غیردینی قوانین میں بھی اپنے احترام اور اپنے حفظ وبقاء کے واجب ہونے کی بناء پر یہ امورِ خمسہ ملحوظ رہے ہیں۔
چنانچہ امام غزالیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ کسی ملت میں بھی ان امور کی  ضرورت سے صرفِ نظر نہیں کیا گیا ہے(المستصفی:۱/۲۷۸) تمام ملتیں ان کی حفاظت پر شانہ بشانہ ہیں؛ بلکہ تمام اہلِ عقل نے ان کوتسلیم کیا ہے؛ کیونکہ ان امور کی حفاظت سے انسانی سوسائٹی کا توازن قائم رہتا ہے (اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۲۵)مثلاً خنزیر نہ صرف حرام؛ بلکہ نجس العین ہے، خوردونوش ہی نہیں اس کی خریدوفروخت بھی حرام ہے، اس کے بالوں سے بھی استفادہ مناسب نہیں، جس پانی سے وہ پی لے وہ خود بھی ناپاک اور ناقابلِ انتفاع ہے؛ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ایک بھوکا زندگی اور موت کے لمحات سے دوچار ہے، غذا کا ایک لقمہ اس کے تارِحیات کو بظاہر بچاسکتا ہے اور سوائے اس جانور کے گوشت کے کوئی اور چیز نہیں ہے توحفظِ دین اس کی متقاضی ہے کہ لحمِ حرام سے اس کی جان بچانی جائز نہ ہو؛ لیکن حفظ نفس اس گوشت کے ذریعہ جان بچانے کی التجاء کررہا ہے، شریعت نے یہاں "حفظِ جان" کو "حفظِ دین" پر ترجیح دیا ہے اور مضطر کے لیے خنزیر کا گوشت کھاکر جان بچانے کی گنجائش رکھی ہے (المستصفی:۱/۲۸۹) چنانچہ قرآن اعلان کرتا ہے:
"إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَاأُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَاعَادٍ فَلَاإِثْمَ عَلَيْهِ"۔                  
         (البقرۃ:۱۷۳)
ترجمہ:اللہ نے تم پر صرف حرام کیا ہے مردار کو اور خون اور خنزیرکے گوشت کو اور ایسے جانور کوجوغیراللہ کے نامزد کردیا ہو؛ پھربھی جوشخص بے تاب ہوجائے بشرطیکہ نہ طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔
مصلحت کے اقسام
فقہاء نے ان پانچوں طرح کے احکام کے تین درجات مقرر کئے ہیں، ضروریات، حاجیات اور تحسینات، ضروریات وہ ہیں جن پر دین، جان، نسل اور عقل ومال کا تحفظ موقوف ہے، جیسے حفاظتِ دین کے لیے ایمان اور نماز وغیرہ، حفاظتِ جان کے لیے خوردونوش کی اباحت اور قتل نفس پر قصاص ودیت کوواجب قرار دیا جانا، حفظِ نسل کے لیے نکاح  کی اباحت اور زنا کی حرمت اور حفظِ مال کے لیے بہت سے مالی معاملات کی اباحت اور چوری وغیرہ کی ممانعت اورجن امور پر ان پانچوں مقاصد کا حصول موقوف تونہ ہو؛ لیکن اگران کی اجازت نہ دی جائے توان مقاصد کے حصول میں تنگی اور دشواری پیدا ہوجائے توایسے مواقع پر دفع حرج کے لیے تنگی کو دور کرنے کی غرض سے جواحکام دئے جاتے ہیں وہ حاجیات ہیں، جیسے حالت سفر میں روزہ کا افطار، شکار کی اباحت، قرض وغیرہ جیسے معاملات کی اجازت جن کو شریعت کے عام اصولوں کے تحت جائز نہ ہونا چاہیے۔
 اور وہ امور کہ اگران کی اجازت نہ دی جاتی توکوئی قابلِ لحاظ تنگی بھی پیدا نہ ہوتی "تحسینیات" ہیں ،جن کو "تکمیلیات"اور کمالیات بھی کہا جاتا ہے، مکارمِ اخلاق، محاسن عادات، آدابِ معاشرت وغیرہ "تحسینی امور" کی فہرست میں داخل ہے۔                     
   (المستصفی:۱/۳۰۲۔ الموافقات:۲/۲۲۸)
ترجیح کا طریقہ
جومصالح خمسہ سطورِ بالا میں بیان کئے گئے ہیں ان میں اگرترجیح کی ضرورت پڑجائے توپہلے "دین" پھر"جان"پھر "عقل" اس کے بعد نسل اور سب کے آخر میں مال کواہمیت حاصل ہے؛ اگران میں بھی ترجیح کی ضرورت پیش آجائے توپہلے ضروریات؛ پھرحاجیات؛ اس کے بعد تحسینات کا درجہ ہوگا۔            
       (فقہ اسلامی اصول وخدمات وتقاضے:۲۴۴)
مصالح مرسلہ کے قابل حجت ہونے کے دلائل
فقہ کی کتابوں میں مصالح مرسلہ کے معتبر ہونے کے جودلائل بیان کئے جاتے ہیں ،ان کا خلاصہ درجِ ذیل ہے:
۱۔احکاماتِ شرعیہ مبنی برمصلحت ہے اور ممنوعات کی بنیاد مفاسد پر ہیں؛ اسی لیے مصالح قابلِ قبول ہیں اور مفاسد قابلِ رد ہیں، بقول علامہ قرافی:
"فَإِنَّ أَوَامِرَالشَّرْعِ تَتْبَعُ الْمَصَالِحَ الْخَالِصَةَ أَوْالرَّاجِحَةَ وَنَوَاهِيَهُ تَتْبَعُ الْمَفَاسِدَ الْخَالِصَةَ أَوْ الرَّاجِحَةَ"۔
(کتاب الفروق،الفرق الخامس والثمانون بین قاعدۃ المندوب:۲/۲۲۶)
ترجمہ:کہ شریعت کے احکام خالص یاغالب مصلحتوں کے اور ممنوعات خالص یاغالب مفاسد کے تابع ہیں۔
۲۔دورِ صحابہ میں بہت سے ایسے فیصلے نافذ کئے گئے جومحض مبنی برمصلحت تھے، نہ اس سلسلہ میں نص تھی نہ ممانعت؛ البتہ مصلحت احکامِ شرعیہ سے ہم آہنگ تھی، مثلاً:
الف:قرآن کریم کومصحف کی شکل میں جمع کرنے کا کام صحابہ کرامؓ ہی نے کیا ہے؛ حالانکہ حضور  کے پاکیزہ دور میں یہ کام نہ ہوا تھا، جنگ ردت کے بعد مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے حضرتِ عمرؓ کے مشورے سے یہ کام وجود میں آیا۔
ب:شربِ خمر کی حد ۸۰/کوڑے متعین کئے گئے؛ کیونکہ اس کے نیتجے میں فحش کلامی، بے حیائی اور قذف جیسے جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں، ان کے سد باب کے لیے اس طرح کا اقدام کیا گیا۔
ج:خلفاءِ راشدین نے اس پر اتفاق کیا کہ کاریگر کے پاس سے اگرکوئی چیز ضائع ہوجائے تواس پر تاوان ہوگا؛ کیونکہ ایسا نہ کرنے سے بہت ممکن تھا کہ کاریگر تحفظ کے سلسلہ میں غفلت سے کام لیتا اور اس طرح لوگوں کے املاک ضائع ہوتے رہتے۔
د:حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کے قتل میں قاتلوں کی ایک جماعت کو سزا دی یعنی قصاص میں سب کو قتل کردیا؛ کیونکہ قتل وسازش میں وہ سب برابر کے شریک تھے؛ اگرچہ اس سلسلہ میں کوئی نص نہ تھی ؛مگرمصلحت اس کی متقاضی تھی (حیات امام احمدبن حنبلؒ:۴۰۴) اس کے علاوہ بھی بہت سے احکامات صحابہ کرامؓ نے مصلحت کی بناء پر صادر فرمائے۔
۳۔اس طرح کی نظیریں تابعین کے دور میں بھی ملتی ہیں، جن کے دور کورسول اللہ  نے خیرالقرون قرار دیا تھا، اس کی سب سے واضح مثال کتبِ حدیث کی تدوین وترتیب اور حدیث کی صحت وضعف کی تحقیق کے لیے "فنِ جرح وتعدیل" کی ایجاد ہیں، اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہدِ خلافت میں خراساں کے راستے میں بیت المال کے اخراجات سے مسافروں کی سہولت کی خاطر مسافر خانوں کی تعمیر فرمائی، منی میں پختہ مکانات کی تعمیر پر پابندی عائد کردی تاکہ حجاج کے لیے تنگی کا باعث نہ ہو۔
(طبقات ابنِ سعد،ابو جعفر محمد،۵/۳۴۵)
اور اس طرح کے اقدام اور ان پر اہلِ علم واصحاب افتاء اور ارباب اجتہاد کا سکوت ہی نہیں؛ بلکہ اس کوقبول کرنا مصالح مرسلہ کے احکام شریعت میں ایک اہم اصل ہونے پر دال ہیں؛ اسی وجہ سے الفاظ وتعبیر کے اختلاف کے باوجود اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے؛ چنانچہ علامہ ابوزہرہ رقمطراز ہیں:
"یتفق جمہور الفقہاء علی ان المصلحۃ معتبرۃ فی الفقہ الاسلامی وان کان کل مصالح یحب الاخذ بہا مادامت لیست شھوۃ ولاھوی ولامعارضۃ فیھا للنصوص تکون لمقاصد الشارع"۔     
     (اصول فقہ الفقہ لأبی زہرہ:۲۲۴)
ترجمہ:جمہور فقہاء نے فقہ اسلامی میں مصالح کا اعتبار کیا ہے، فقہ اسلامی میں ہرایسی مصلحت کوقبول کیا جائیگا جوشہوات اور بے راہ روی سے خالی ہو اور اس کا نصوصِ شرعیہ سے تعارض نہ ہو اور وہ شارع کے مقاصد کے مطابق بھی ہو۔
مصالح مرسلہ اور ائمہ کا اختلاف
مذکورہ عبارت سے تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ مصالح مرسلہ کو تمام فقہاء نے تسلیم کیا ہے؛ لیکن ان کے حدود کیا ہیں؟ اور کس حیثیت سے فقہاء نے اس کو حجت مانا ہے، اس میں تھوڑا اختلاف نظر آتا ہے، جس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے:
احناف کا مسلک
احناف اگرچہ صراحتا"استصلاح یامصالح مرسلہ"کی اصطلاح کو استعمال نہیں کرتے ہیں؛ مگرفقہ حنفی کے استحسان اور اس کی تفصیلات پر غور کیا جائے تویہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ احناف اسی اصطلاح کے ذریعہ سے"مصالحِ مرسلہ" یااستصلاح کے مقصد کوپورا کرتے ہیں، یہ وہی استحسان ہےجس کوعدل واصلاح کے لیے شریعت کے مقاصد عامہ اور برائیوں اور مضرتوں کے علاج سے متعلق شریعت کے اسلوبوں سے استمداد کرتے ہوئے احناف نے اختیار کیا ہے۔               
    (چراغِ راہ:۲۸۲)
چنانچہ امام سرخسی استحسان پرروشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
"استحسان قیاس کو ترک کرنے اور ایسی چیز کے قبول کرنے کوکہتے ہیں جولوگوں کی ضرویات کے اور ان کے حال کے مناسب ہوں، بعض لوگوں نے کہا کہ استحسان ان احکام میں سہولت کی جستجو کا نام ہے جن میں عام وخاص مبتلا ہوں حاصل یہ ہے کہ استحسان دشواری کوترک کرکے آسانی کواختیار کرنے کا نام ہے اور یہ دین میں ایک اصل ہے"۔         
      (مبسوط للسرخسی:۱۰/۱۴۵)
کیونکہ ارشادِ باری ہے:
"يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَايُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ"۔
(البقرۃ:۱۸۵)
ترجمہ:اللہ تم سے آسانی کو چاہتے ہیں دشواری نہیں چاہتے۔
احناف کی فقہی آراء خصوصاً استحسان پر مبنی آراء کا تجزیہ کیا جائے توان کے یہاں بھی مصالح کی رعایت مختلف ابواب فقہ میں ملتی ہیں۔
(الف)مثلاً مالِ غنیمت میں بنوہاشم کا خصوصی سہام باقی نہ رہے توابوعصمہ کی روایت کے مطابق بنوہاشم کوبھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔                
  (البحرالرائق:۲/۲۶۶)
(ب)کوئی شخص یہ کہے کہ میرا تمام مال صدقہ ہے توصرف اموالِ زکوٰۃ ہی صدقہ میں جائیں گے؛ تاکہ اس کوخوددست درازی کے مراحل سے دوچار نہ ہونا پڑے۔             
   (مبسوط للسرخسی:۱۲/۹۳)
(ج)زندیق کی توبہ قبول نہ ہوگی۔   
(شامی:۶/۳۸۴)
(د)کاریگر جومختلف لوگوں کے سامان تیار کرتا ہے ضائع ہوجانے پر ضامن ہوگا۔            
  (بدائع الصنائع:۴/۲۱۱)
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی متعدد مسائل کودوسرے فقہاء نے مصالحِ مرسلہ کی فہرست میں جگہ دی ہے، جبکہ احناف نے انہیں استحسان کے ذیل میں شمار کیا ہے۔
شافعیہ
استحسان واستصلاح ومصالح مرسلہ کے سب سے بڑے ناقد امام شافعیؒ ہیں؛ لیکن کوئی بھی فقہ جوحالات وماحول کے متغیر اور تیز ہواؤں میں سینہ سپر رہنا چاہتی ہو، اس کواس سے مفر نہیں ہے۔        
  (البحرالمحیط:۶/۷۷)
چنانچہ مشاہدہ ہے کہ امام شافعیؒ کے بعد خود ان کے متبعین نے بتدریج مصالح مرسلہ کو فقہ اسلامی کی ایک اصل قرار دیا ہے اور اس بات کوخود امام شافعیؒ کی طرف منسوب کیا ہے؛ چنانچہ علامہ زنجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ذهب الشافعي رض إلى أن التمسك بالمصالح المستندة إلى كلي الشرع وان لم تكن مستندة إلى الجزئيات الخاصة المعينة جائز"۔
(تخریج الفروع علی الاصول،کتاب الجراح،مسئلہ۶،۱/۳۲۰)
ترجمہ:امام شافعیؒ کی رائے ہے کہ اگرمخصوص ومقرر جزئیات کے بجائے شریعت کی کلیات ، مقاصد واصول سے ہم آہنگ ہوں توان کو بھی قبول کرلینا جائز ہے۔
ابنِ برہان کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ بات امام شافعیؒ کی طرف منسوب ہے۔ 
(البحرالمحیط:۶/۷۷)
امام حرمین کہتے ہیں کہ شافعیہ نے بھی مصالح کو معتبر مانا ہے جب کہ وہ شرعی اصول سے ہم آہنگ ہوں۔
(اصول امام احمد بن حنبلؒ:۴۱۹)
امام غزالی رحمہ اللہ بھی تمام شرائط صحت کے ساتھ اسے معتبر قرار دیتے ہیں۔       
(اصول امام احمدبن حنبلؒ:۴۱۸)
گویاشوافع وحنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ مصالح کی ان کی شرائط کے ساتھ اجازت ہیں۔
مالکیہ
مصالحِ مرسلہ اور استصلاح کی اصطلاح قائم کرنے والے فقہاء مالکیہ ہی ہیں؛ انہوں نے ہی اس سے ایک زمانہ میں بہت کام لیا ہے (تاریخ التشریع الاسلامی:۱۴۷) چنانچہ مالکیہ نے مصالح مرسلہ کواحکاماتِ شرعیہ کا ایک مستقل ماخذ اور اصل قرار دیا ہے (مالک لأبی زہرہ:۲۲۵) مصالح مرسلہ کے سلسلہ میں مالکیہ کے فتاویٰ سامنے رکھے جائیں تواندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے اور امت کی دقتوں اور پریشانیوں کوحل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
۱۔مثلاً افضل شخص کی موجودگی میں کمترشخص کے ہاتھ پر فتن کے سدباب کے لیے بیعت کرلینا اور اس کی امارت کو تسلیم کرنا۔
۲۔بیت المال خالی ہوجائے اور فوجی ضروریات کے لیے کچھ مال باقی نہ رہے توحسب ضرورت اہل استطاعت لوگوں پر مناسب ٹیکس عائد کرنا جائز ہے؛ تاکہ بیت المال حسبِ عادت جاری رہے اور ملکی ضروریات پورے ہوں۔
۳۔اگرکسی علاقہ میں سوائے مالِ حرام کے دوسرا کوئی معاشی اور کسبی نظام نہ رہے اور حلال طریقہ سے اشیاء دستیاب نہ ہوں اور وہاں سے نقل مکانی بھی ممکن نہ ہوتو اس کے لیے حفظِ جان کے بقدر ایسی شدید ضرورت کی صورت میں استفادہ اور اس کوذریعہ معاش بنانا جائز ہے؛ لیکن اس میں حد سے تجاوز نہ ہو۔                          
   (اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۲۶)
حنابلہ
یہ مالکی اجتہاد کا ہم نوا ہے، یعنی مصالح مرسلہ کو بجائے خود ایک اصل اور مستقل بالذات مصدر قانون تسلیم کرتا ہے، اسی وجہ سے حنابلہ کے یہاں قدم قدم پر مصالح کا اعتبار ہوتا ہے؛ چنانچہ ابوزہرہ کا قول ہے:
"لِأَنَّہُ یریٰ أَنَّہُ دَاخل فِیْ بَابِ الْقِیَاسِ الصحیح"۔      
      (اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۲۶)
امام احمدبن حنبلؒ مصالح مرسلہ کوقیاس صحیح کے قبیل سے مانتے ہیں لیکن حنابلہؒ کہتے ہیں کہ مصالح کا اعتبار اس وقت ہوگا جب کہ اس کے خلاف کوئی نص نہ ہو اور اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو۔              
     (اصول امام احمد بن حنبلؒ:۴۳۴)
۱۔مثلاً مخنث کوشہر بدر کردینا اگرپھربھی اندیشہ ہوتو اس کوقید کرلینا؛ تاکہ لوگ اس کے فتنے میں مبتلا نہ ہوں۔
۲۔صحابہؓ کوبرا بھلا کہنے والوں کے لیے توبہ کا وجوب اور سلطان کو معاف کرنے کی گنجائش نہ ہونا۔
۳۔رمضان کے ایام میں شرابی پر حد کے علاوہ مزید شدت برتنا۔
۴۔کاشتکاروں اور کاریگروں کو ضروریات کے پیشِ نظر کام کرنے پر مجبور کرنا۔
۵۔بعض خاص حالات میں گراں فروش تاجروں پر اشیاء کی قیمت کو متعین ولازم کردینا۔    
   (اصول امام احمد بن حنبل:۴۳۱)
یہ تمام مصالح کی خاطر ہیں اور نص ان کے خلاف نہیں ہے اور اس کی ضرورت بھی شدید ہے، شریعت کی سرسبزی وشادابی مہیا کرنے والا معتدل اور حکیمانہ اسلوب ہے جن پر فقہائے حنابلہ ومالکیہ چلے ہیں اور جو اجتہاد حنفی کے بکثرت مواقع سے اتفاق رکھتا ہے اوربعد میں فقہائے شوافع بھی اس کے ہم آواز ہوگئے؛ لہٰذا تمام قریب قریب مصالح مرسلہ کی قبولیت میں شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔
مصالح اور نصوص کا تعارض
اگرمخصوص حالات کی وجہ سے مصالح مرسلہ اور شرعی نصوص کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوجائے اور نص شرعی کا کوئی ایسا حکم ہو جومصالح مرسلہ کے عین خلاف ہوتو:
۱۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نص شرعی کے مقابلہ میں مصالح کو ترک کردیا جائے گا؛ لیکن جب اضطرار کی ایسی حالت رونما ہوجائے کہ دوبرائیوں میں سے کسی ایک کاارتکاب کئے بغیر چارۂ کار نہ ہو تواس ضرر کو اختیار کیا جائیگا جونسبتاً اس سے کمترہو جیسے کفر واسلام کا معرکہ جاری ہو اور کافر چند قیدی مسلمان کوڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہوں، اب ایسی صورت میں نص قرآنی کی روشنی میں یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان بھائی کے خون سے اپنے ہاتھ سرخ کرے؛ لیکن دوسری طرف اگرمسلمان کی فوج ہاتھ روک لیتی ہے توصاف نظر آتا ہے کہ دشمن غالب آجائیں گے توایسی صورت میں فقط جائز ہی نہیں؛ بلکہ واجب ہوتا ہے کہ ان مسلمانوں کو نظرانداز کرکے وہ حملہ کرتے رہیں اور نیت کافروں کے مارنے کی ہو؛ کیونکہ عظیم ترضرر کے دفعیہ کے خاطر ایسا کرنا جائز ہے۔
(المستصفی:۱/۳۰۳)
۲۔اگرنص قطعی نہ ہو؛ بلکہ ظنی ہو توفقہاء کے تین نقاط منظرِعام پر آتے ہیں:
الف:شوافع کاخیال ہے کہ صرف اضطرار ہی کی صورت میں مصلحت کی بنا پر نص سے کسی خاص جزئیہ اور واقعہ کا استثناء کیا جاسکتا ہے۔
(المستصفی:۱/۲۹۴)
ب:حنابلہ کا نظریہ یہ ہےکہ مصلحت اس صورت میں بھی ناقابلِ قبول ہے؛ اس لیے کہ ان کے نزدیک حدیثِ ضعیف اور آثارِ صحابہ کو بھی قیاس پر ترجیح حاصل ہے۔               
   (اعلام الموقعین:۱/۸۴)
ج:احناف اور مالکیہ کہ یہاں ایسی صورت میں مصلحت کی بناء پر نہ صرف نص کے عمومی حکم میں استثنائی صورتیں پیدا کی جاسکتی ہیں؛ بلکہ اگرنص کا ذریعہ ثبوت ظنی ہو، مثلاً حدیث خبرِواحد ہوتواس کوبھی ترک کیا جاسکتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ مصالح مرسلہ کی وجہ سے منصوص احکام سے استثناء یاثبوت کے اعتبار سے مشکوک اور معنی کے اعتبار سے مجمل ومبہم احادیث کو ترک کردینا نص سے پہلو تہی نہیں ہے؛ بلکہ شریعت کے اساس، مقاصد اور اس کے مسلمہ قواعد کو ایسی نصوص پر ترجیح دینا ہے۔                
    (مالک لأبی زہرہ:۳۹۸)
مصالحِ مرسلہ پر مبنی احکام میں تبدیلی کا امکان
مصالح پر مبنی اجتہادات میں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ وہ زمانہ کے تغیرات کے سبب تبدیل پذیر ہوا کرتے ہیں، جیسے استئجار علی تعلیم القرآن اوردین کی نشرواشاعت پر متقدمین فقہاء نے عدم جواز کا فتویٰ دیا تھا؛ مگربعد کے مجتہدین نے مصالح کے پیشِ نظر جواز کا فیصلہ کیا؛ چنانچہ حالات سے تغیرپذیر اجتہادی واقتصادی مسائل کے بارے میں علامہ ابن عابدین شامیؒ تحریر فرماتے ہیں:"بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں ایک مجتہد نے اپنے زمانے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس کی مصلحت کو نظر انداز نہ کرتے ہوئے کوئی فتویٰ دیا؛ مگرحالات نے کچھ کروٹ لی اور ماحول اس کے بالکل منافی ہوگیا اب اگراس حکم کوباقی رکھا جاتا ہے تولوگ مشقت اور ضررِ شدید کے شکار ہوں گے؛ کیونکہ نہ وہ اہلِ زماں رہے اور نہ ہی وہ عرف ومصلحت رہی جن کی بناء پر حکم کا اجراء ہوا تھا، اب اگر ان ہی احکام کوباقی رکھا جائے توشریعت کے قواعد اور اس کی عام ہدایت کی خلاف ورزی ہوگی جن کی رو سے نظامِ زندگی بہتر بنانے کے لیے اس میں سہولت اور اس سے دفع ضرر کا حکم دیا گیا ہے۔
اس لیے کتبِ فقہیہ کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس فقیہ نے جوفتویٰ اپنے زمانے کی مصلحت کے پیشِ نظر دیا تھا بعد میں پھراسی مسلک پر چلنے والے دوسرے فقہاء نے مصلحت وحکمت اور زمانہ وحالات کے تغیر کے سبب اس کے خلاف فتویٰ دیا؛ کیونکہ اگروہ مجتہد اس زمانے میں ہوتے یاان حالات سے ان کو واسطہ پڑتا تواپنے ہی مسلک وقواعد کے مطابق یہی احکامات مرتب کرتے، جیسے "استئجار علی الطاعات" کا مسئلہ ہے کہ زمانہ قدیم میں اہلِ علم کے وظائف بیت المال سے مقرر ہوا کرتے تھے اس وجہ سے اس وقت عدم جواز کا فتویٰ تھا؛ مگر جیسے ہی حالات نے رُخ موڑا اور بیت المال کی طرف سے وہ انتظام نہ رہا تودین کی بقا کی ضرورت پیش آئی تواسی مکتبِ فکر کے بعد والے فقہاء نے اس مصلحت کو تسلیم کیا اور "استئجار علی الطاعت" کو جائز قرار دیا؛ حتی کہ بعد میں احنافؒ بھی اس کے قائل ہوگئے؛ حالانکہ یہ فتویٰ امام ابوحنیفہؒ کے فتویٰ کے بالکل خلاف ہے۔              
  (رسالۃ نشرالعرف:۱۲۵)
مصلحت وقیاس میں فرق
قیاس کسی اصل کوبنیاد بناتے ہوئے کیا جاتا ہے اور قیاس میں اسی کے ہم مثل قواعد کی روشنی میں بہت سی فروعات نکالی جاسکتی ہیں؛ مگرجوحکم کسی مصلحت کی بنیاد پر دیا گیا ہوتواس حکم میں اتنی سکت وقوت باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنے بل بوتے پر دوسرے مسائل وفروعات کو انجام دیں۔          
  (الموسوعۃ الفقہیۃ:۳/۳۲۵)
مصالح مرسلہ پر دال قواعد
سابقہ تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ "مصالح مرسلہ" کی بنیاد مصلحت پر ہوتی ہے اور فقہاء نےاس سے فقہ کے مختلف ابواب میں کام لیا ہے ،مصالح مرسلہ پر دال قواعد کوبھی فقہاء نے اپنی اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، جن میں علامہ ابنِ نجیم مصریؒ اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی الاشباہ والنظائر سرِفہرست ہیں اور وہ قواعد درجِ ذیل ہیں:
الف:"الضرر یزال"۔ 
(الاشباہ والنظائر لابنِ نجیم:۱/۲۷۳) 
  ترجمہ:ضرر کو دور کیا جاتا ہے۔
ب:"دَفع المضرۃ اولی من جلب المنفعۃ"۔              
(قواعد الفقہ:۸۱)
ترجمہ:منفعت کی تحصیل کے مقابلہ میں دفع مضرت اولیٰ ہے۔
ج:"الضرورات تبیح المحذورات"۔  
(الاشباہ والنظائر لابن نجیم:۱/۲۷۴)
ترجمہ:مواقع ضرورت پر ممنوع چیزیں بھی مباح ہوجاتی ہے۔

No comments:

Post a Comment