علم الفقه

تعارفِ فقہ
فقہ کی لغوی تعریف
فقہ کے لغوی معنی کسی بات کو جاننے اور سمجھنے کے ہیں، قرآن مجید میں کم سے کم دو موقعوں پر یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہواہے (النساء:۷۸۔  ھود:۹۱) اس مناسبت سے احکامِ شرعیہ کے علم کو بھی فقہ سے تعبیر کیا گیا۔
فقہ کی اصطلاحی تعریف
ابتداءً شریعت کے تمام احکام کے جاننے کو فقہ کہا جاتا تھا؛ خواہ عقائد ہوں یااخلاق اورعبادات ہوں یا معاملات؛ ليكن اب فقہ میں صرف عملی احکام باقی رہ گئے، جو محض اخلاقی حیثیت کے حامل نہیں؛ بلکہ قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لحاظ سے فقہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی:
"اَلْعِلْمُ بِالْأَحْکَامِ الشَّرْعِیَّۃِ عَنْ أَدِلَّتِھَا التَّفْصِیْلِیَّۃِ
(فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت:۱/۱۳)
تفصیلی دلائل سے شرعی احکام کو جاننے کا نام فقہ ہے۔
"شرعی احکام" سے مکلف کے افعال پر شریعت کی جانب سے جو حکم اور صفت مرتب ہوتی ہے وہ مراد ہے، جیسے کسی عمل کا فرض، واجب، مستحب یامباح یا اسی طرح حرام ومکروہ ہونا اور تفصیلی دلائل کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ کس دلیل شرعی پر مبنی ہے، کتاب اللہ پر، سنت رسول پر، اجماع پر، یا قیاس وغیرہ پر؛ اسی طرح حکم اور دلیل کے درمیان ارتباط کو جاننا بھی فقہ میں شامل ہے۔
ضرورت فقہ
انسان کی مکمل زندگی میں عقائد،عبادات،معاملات اور معاشرت وغیرہ سے متعلق شرعی احکام ومسائل ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ،قرآن،حدیث اور صحابہ وغیرہ کے اقوال میں بکھرے پڑے ہیں،اب ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں ہر مسئلہ بلاواسطہ قرآن،حدیث اورآثار صحابہ وغیرہ سے خود ہی تلاش کرلوں گا یہ ایک ناممکن اوربے حد دشوار ہے اس کے ناممکن ہونے کی وجوہات بہت ساری ہیں مثلاً:
(۱)انسان کی اپنی اپنی لامتناہی مصروفیات (۲)شریعت کے تمام احکام عربی زبان میں ہیں اور ہر انسان عربی زبان سے واقف نہیں ہوتا اور ہوتا بھی ہے تو اس کے معانی مختلف ہونے کی وجہ سے صحیح معنی تک اس کا پہنچنا دشورا ہوتا ہے (۳)شریعت کے بعض احکام ایسے  ہیں جو آیات قرآني اور احادیثِ صحیحہ سے صراحۃ ثابت ہیں لیکن بعض احکام ایسے ہیں کہ جن میں کسی قدر ابہام واجمال ہے اور بعض آیات واحادیث ایسی ہیں جو چند معانی کا احتمال رکھتی ہیں اورکچھ احکام ایسے ہیں جو بظاہر قرآن کی کسی دوسری آیت یا کسی دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتی تووہاں اجتہاد واستنباط سے کام لینا پڑتا ہے اور خود زبان نبوت سے اس کی تائید وتصویب بھی ہوتی ہے (ترمذی، باب ماجاء فی القاضی کیف یقضی،حدیث نمبر:۱۲۴۹)اور اجتہاد واستنباط ہرايك كےبس كی بات نہیں؛ ایسے موقع پر عمل کرنے والے کے لیے الجھن اوردشواری یہ پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنا عمل شریعت کے مطابق کیسے بنائے؟ کس پر عمل کرے اورکونسا راستہ اختیار کرے؟اسی الجھن کی وجہ سے خود صحابہ کرام حضور  کی موجودگی میں بلاواسطۂ نبی قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ كچھ خاص صحابہ کرام حضور   کے پاس جاکر قرآنی تعلیمات مستقل طورپر سمجھا کرتے تھے۔
(الاتقان:الفصل فی شرف التفاسیر، النوع الثامن والسبعون:۲/۴۶۸، شاملہ)
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر شخص قرآن وحدیث سے  بغیر کسی واسطے کے کوئی مسئلہ اپنے لیے تجویز نہیں کرتا تھا بلکہ جو عالم صحابہ کرام تھے ان سے مسئلہ معلوم کرکے عمل کیا کرتا تھا اسی طرح ہر زمانہ میں ہوتا رہا۔
بہرحال بعض حضرات ہر زمانے میں ایسے رہے جو قرآن وحدیث کے علوم میں ماہر، فہم وبصیرت میں اعلی، تقویٰ اورطہارت میں فائق اورحافظہ وذکاوت میں اوقع تھے لوگ ان ہی سے مسائل معلوم کرکے عمل کرتے اور اپنی فہم وبصیرت پر بالکل اعتماد نہیں کرتے اور اگر ہر کوئی خود ہی اپنے مسئلہ کوقرآن وحدیث میں تلاش کرنے لگے تو گویا ایسا ہی ہوجائے گا جیسے کہ ہر شخص اپنے مرض کا علاج خود ہی طبی کتابوں میں تلاش کرلے ڈاکٹر س وغیرہ کی اس کو ضرورت ہی  نہیں اگر ایسا ہوا تو کیا ہر مریض اپنے مرض کا علاج ان كتابوںميں تلاش کرپائے گا؟جرگز نهيں؛ بلکل اسی طرح دینی و شرعی مسئلہ کو سمجھیں کہ اس کا حل ہر کوئی نہیں کرسکتا۔
بہرحال جو لوگ قرآن وحدیث کو مکمل طورپر سمجھے ہیں اوراپنی مکمل زندگی کو مسائل کے حل کرنے اورقرآن وحدیث کے مطابق اس کو ڈھالنےمیں وقف کردیا اور ہر مسئلہ کا جواب قرآن و حدیث اور اس کے مطابق اصول کی روشنی میں بتایا ان میں مقبول چار حضرات کے مکاتب فکر ہوئے ہیں جن کے نام یہ ہیں، حضرت امام ابو حنیفہؒ ،حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام مالکؒ اورحضرت امام احمد بن حنبلؒ،ان حضرات کے بعد ان کے شاگرد حضرات ہر ایک کا مسئلہ قرآن و حدیث اور ان حضرات کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق بتلایا کرتے تھے اسی طرح یہی معمول اب تک چلاآیا اور آئندہ بھی چلتا رہے گا (انشاءاللہ)۔
ان چاروں حضرات نے مسائل کے حل کرنے میں جو طرز عمل اختیار فرمایا وہ اس طرح ہے۔
فقہ اسلامی کے مصادر
چونکہ اسلامی نقطۂ نظرسے قانون کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے، اس لیے تمام قوانین کا رشتہ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی سے ہے؛ البتہ بعض احکام کی نسبت صراحتاً اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہے اور بعض احکام قرآن وحدیث سے ثابت ہونے والے اصول وقواعد کی روشنی میں اہلِ علم نے استنباط کیے ہیں، ان کی بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی جاسکتی ہے، فرق یہ ہے کہ پہلا ذریعہ معصوم ہے؛ اگر قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت یقینی ہوتو اس میں غلطی کا احتمال نہیں اور دوسرا ذریعہ معصوم نہیں؛ کیونکہ اس میں انسانی اجتھاد کو دخل ہے اور انسان کی سوچ غلط بھی ہوسکتی ہے، اس طرح فقہ اسلامی کے مصادر کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱)نصوص  (۲)اجتہاد کے دوسرے مسائل۔
منصوص مصادر
فقہ اسلامی کے منصوص مصادر چار ہیں:
(۱)کتاب اللہ.
(۲)سنت رسول اللہ.
(۳)شرائع ماقبل .
(۴)جن مسائل میں اجتھاد کی گنجائش نہ ہو ان میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار۔
کتاب اللہ
کتاب اللہ سے مراد قرآن مجید ہے، جو بے کم وکاست محفوظ ہے اور قیامت تک رہے گا، قرآن مجید میں فقہی احکام سے متعلق آیات کی تعداد لوگوں نے دوڈھائی سوسے لیکر پانچ سو تک لکھی ہے، پانچ سو کی تعداد اس لحاظ سے ہوسکتی ہے کہ قرآن سے ثابت ہونے والے صریح احکام کے علاوہ اصولی احکام کوبھی شامل کرلیا جائے،صریح حکم کی مثال:جیسا کہ اللہ تعالی نے کھانے کی حرام چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
"حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَاأُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَاأَكَلَ السَّبُعُ إِلَّامَا ذَكَّيْتُمْ وَمَاذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ
(المائدہ:۳)
تم پر مردار جانور اور خون اور سور کا گوشت اوروہ جانور حرام کردیا گیا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جسے چوٹ مار کر ہلاک کیا گیا ہو اور جو اوپر سے گر کر مرا ہو اور جسے کسی جانور نے سینگ مار کر ہلاک کیا ہو اور جسے کسی درندے نے کھالیا ہو؛ اِلَّا یہ کہ تم (اس کے مرنے سے پہلے ) اس کو ذبح کرچکے ہو اور وہ (جانور بھی حرام ہے) جسے بتوں کی قربان گاہ پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بات بھی (تمہارے لیے حرام ہے ) کہ تم جوے کے تیروں سے (گوشت وغیرہ) تقسیم کرو، یہ ساری باتیں سخت گناہ کی ہیں۔
سنت رسول
احکامِ شرعیہ کا دوسرا ماخذ سنت رسول ہے، سنت رسول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، آپ   کا عمل نیز وہ قول وفعل ہے جو آپ کے سامنے آیاہو اور آپ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی ہو، سنت کے حجت ہونے پر امت کا اجماع واتفاق ہے؛ کیونکہ قرآن مجید میں کثرت سے مستقل طورپر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، فرمایا گیا کہ رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے، "مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ"  (النساء: ۸۰) نیز اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے:
"وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوْا
(الحشر:۷)
رسول جوکچھ لائے اسے قبول کرو اور جس سے منع کردے اس سے رک جاؤ۔
نیز سنت رسول اصل میں قرآن مجید کی تفسیر وتوضیح ہے، اسی لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: حضور کی سنتیں تین طرح کی ہیں،یاتو قرآن میں جو حکم ہے وہی سنت رسول میں بھی ہے، یاقرآن میں کوئی حکم مجمل ہے اور سنت نے اس کو واضح کردیا ہے، یاقرآن مجید اس سلسلہ میں خاموش ہے اور سنت کے ذریعہ اس صورت کا حکم معلوم ہوتا ہے۔
(الرسالہ:۹۱،۹۲،  باب ماابان اللہ لخلقہ من فرضہ علی رسولہ اتباع اوحی اللہ)
لیکن غور کیا جائے تو یہ صورت بھی قرآن مجید کے بتائے ہوئے اصولوں کے دائرہ میں آتی ہے؛ گویا قرآن نے ایک اصول بیان کردیا اور سنت کے ذریعہ اس کی تطبیق اور عملی صورتگری سامنے آگئی؛ اس لیے امام اوزاعی نے فرمایا کہ بیان وضاحت اور فہم مراد کے اعتبار سے قرآن کو حدیث کی حاجت زیادہ ہے، بمقابلہ اس حاجت کے جو حدیث کو قرآن کی ہے:
"اَلْکِتَابُ أَحْوَجُ اِلٰی السُّنَّۃِ مِنَ السُّنَّۃِ  إِلٰی الْکِتَابِ
(شرح السنۃ، للحسن بربہاری:۱/۳۵)
حقیقت یہ ہے کہ فقہی اعتبارسے احادیث کی بڑی اہمیت ہے، قرآن مجید ایک دستوری کتاب ہے، جس میں اصولی احکام دیئے گئے ہیں اور دین کے حدودِاربعہ کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے، حدیث کے ذریعہ ان قرآنی احکام کی عملی تصویر سامنے آجاتی ہے اوراس طرح اہل ہوس کے لیے قرآن کے معنوں میں الٹ پھیر، تحریف اور من چاہی تاویل کا دروازہ بند ہوجاتا ہے، جہاں حفاظ اورقاریوں کے ذریعہ الفاظِ قرآن کی حفاظت کا غیبی انتظام ہواہے، وہیں معنوی تحریف اور آمیزش سے حفاظت کا سروسامان حدیث کے ذریعہ انجام پایا ہے، اس طرح احادیث قرآن مجید کی معنوی حفاظت کا ذریعہ ہیں؛ قرآنی ایسے حکم کی مثال جس کو عملی شکل حدیث نے دی ہے یہ کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں "أَقِیْمُوْ الصَّلَاۃَ" اور"یُقِیْمُوْنَ الصَّلَاۃَ" کے ذریعہ نماز کا حکم بارہا فرمایا؛ لیکن اس کے ادا کرنے کا طریقہ احادیث میں اللہ کے رسول  نے بتلایا 
آثارِصحابہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دین کو براہِ راست حضرات صحابہ نے حاصل کیا ہے اور انہی کے واسطہ سے یہ دین پوری امت تک پہنچا ہے، صحابہؓ سب کے سب عادل، معتبر، خداترس اور مخلص تھے؛ لہٰذا ان کے اقوال اور آراء کی خاص اہمیت ہے، بعض مسائل تو ایسے ہیں جن میں رائے اور اجتھاد کی گنجائش ہے اور بعض مسائل وہ ہیں جسے کوئی شخص اپنے اجتھاد سے اخذ نہیں کرسکتا؛ بلکہ لازماً ان کی بنیاد قرآن وحدیث ہی پرہوگی، اس دوسرے قسم کے مسائل میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے احناف ومالکیہ کے نزدیک حجت اوردلیل ہے؛ اس لیے کہ ان کی رائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کسی بات پرہی مبنی ہوگی؛ گویا یہ بھی حدیث ہی کے درجہ میں ہے،جیسا کہ جمعہ میں اذانِ ثانیہ کے سلسلہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی رائے کو لیا گیا۔
شرائع ماقبل
تمام پیغمبروں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو دین بھیجا ہے وہ ایک ہی دین ہے، اعتقادی اور اخلاقی احکام میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے؛ اس لیے کہ اس کا سرچشمہ ایک ہی ذات ہے اور اگر عقیدہ واخلاق کی ہدایت میں کوئی فرق پایا جاتا ہوتو یقینی طورپر یہ انسانی تحریفات اور آمیزش کا نتیجہ ہے؛ البتہ "عملی زندگی" کے احکام جو فقہ کا اصل موضوع ہے، مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں؛ کیونکہ انسانی تمدن کے مرحلہ بہ مرحلہ ارتقاء کا تقاضہ یہی تھا، پہلی قسم کے احکام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَاوَصّٰی بِہٖ نُوْحاً وَّالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَاوَصَّیْنَا بِہٖ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسٰی وَعِیْسٰی أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَاتَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ"۔         
(الشوریٰ:۱۳)
اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے نوح (علیہ السلام) کوحکم دیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم وموسی (علیہ السلام) کو (مع ان سب کے اتباع کے) حکم دیا تھا (اور ان کی امم کو یہ کہا تھا) کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔
دوسری قسم کے احکام کے بارے میں ارشاد ہے:
"لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا"۔               
  (المائدہ:۴۸)
تم میں سے ہرایک کے لیے ہم نے ایک(خاص)شریعت اور راہ رکھی ہے۔
اس پس منظرمیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ شریعتوں کے احکام کی کیا حیثیت ہوگی، اس سلسلہ میں اہل علم نے جو گفتگو کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی کتابوں میں جو احکام آئے ہیں وہ چار طرح کے ہیں، اول وہ احکام جن کا قرآن وحدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، بالاتفاق اس امت میں وہ احکام قابل عمل نہیں ہیں، دوسرے وہ احکام جن کا قرآن وحدیث میں ذکر آیا ہے اور یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ یہ حکم سابقہ امت کے لیے تھا، اس امت میں یہ حکم باقی نہیں بلکہ منسوخ ہوچکا ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ امت محمدیہ میں اس حکم پر عمل نہیں کیا جائے گا، تیسرے وہ احکام ہیں جو قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں اور یہ بھی بتادیا گیا کہ یہ احکام اس امت کے لیے بھی ہیں، بالاتفاق اس شریعت میں بھی ان احکام پر عمل کیا جائے گا، چوتھے وہ احکام ہیں جن کو قرآن وحدیث نے پچھلی قوموں کی نسبت سے بیان کیا ہے؛ لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس امت کے لیے یہ حکم باقی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں دونظریہ ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اس امت کے لیے بھی یہ حکم باقی ہے، احناف اسی کے قائل ہیں اور دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس امت کے لیے یہ حکم باقی نہیں۔                       
  (الاحکام للآمدی)
لیکن یہ اختلاف عملی اعتبار سے زیادہ اہم نہیں ہے؛ کیونکہ عملاً شایدہی کسی مسئلہ میں اس کی وجہ سے اختلاف رہاہو، شرائع ماقبل جو منسوخ نہیں ہوئی ہیں وہ کتاب اللہ میں داخل ہیں، ایساحکم جوماقبل شریعتوں میں بھی تھا اور اس کوشریعتِ محمدیہ میں بھی رکھا گیا؛ جیسا کہ روزوں کی فرضیت، کہ پہلی شریعتوں میں بھی روزہ فرض تھا اوراب بھی فرض ہے، شرائع ماقبل کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: (فقہ اسلامی میں سابقہ شریعت کا مقام)۔
غیرمنصوص مصادر
اجماع
جن شرعی دلائل کا ماخذ انسانی اجتھادہے ان میں سب سے قوی اجماع ہے، اجماع سے مراد کسی رائے پر رسول اللہ    کی وفات کے بعد امت کے مجتہدین کا متفق ہوجانا؛ کیونکہ رسول اللہ   نے ارشاد فرمایا کہ: یہ امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوسکتی؛ گویا امت کے افراد کے انفرادی اجتھاد میں تو خطا کا احتمال ہے؛ لیکن اجتماعی حیثیت میں وہ معصوم ہیں اور کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوسکتے۔
اجماعی احکام میں کچھ تو وہ ہیں جن کی بنیاد احادیث پرہے، یعنی ایک حکم خبرواحد سے ثابت ہوا اور بعدکو تمام فقہاء اس پر متفق ہوگئے، اس طرح اس مسئلہ پر اجماع منعقد ہوگیا اور اجماع کی وجہ سے اس حکم نے قطعی اور یقینی حکم کا درجہ حاصل کرلیا اور کچھ احکام وہ ہیں جن کی بنیاد قیاس ومصلحت پرہے اور اس میں اجتھاد اور ایک سے زیادہ نقطۂ نظر کی گنجائش ہے، اس طرح کے احکام میں زیادہ تر اجماع کاانعقاد عہدِصحابہؓ میں ہواہے؛ کیونکہ اس عہدمیں تمام مجتہدین کی آراء سے واقف ہونا آسان تھا، خاص کر سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے اجتماعی غوروفکر اور شورائی اجتھاد کا خاص ذوق عطا فرمایا تھا؛ اس لیے ان کے عہدمیں نسبتاً زیادہ اجماع منعقد ہوئے،جیسا کہ تراویح بیس رکعات باجماعت پڑھنے پر حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں اجماع ہوا ۔
قیاس
غیرمنصوص مصادرمیں سے ایک قیاس بھی ہے، قیاس کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے برابر کرنے کے ہیں، کسی مسئلہ کے سلسلے میں قرآن وحدیث کی صراحت موجود نہ ہو لیکن قرآن وحدیث میں اس سے ملتاجلتا کوئی مسئلہ موجودہو اور اس مسئلہ میں اللہ اوررسول کے حکم کی جو وجہ ہوسکتی ہو وہ اس مسئلہ میں بھی موجود ہو چنانچہ یہاں بھی وہی حکم لگادیا جائے، اس کو قیاس کہتے ہیں، غور کیا جائے تو قیاس قرآن وحدیث کے مقابلہ میں دی جانے والی رائے نہیں ہے؛ بلکہ قیاس کے ذریعہ قرآن وحدیث کے حکم کے دائرہ کو وسیع کیا جاتا ہے۔
جن مسائل کی بابت نص موجودنہ ہو ان میں قیاس پر عمل کیا جائے گا، یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے، شرعی دلیلوں میں قیاس کوچوتھے درجہ پر رکھا گیا ہے؛ لیکن حدیث وقیاس یہ دونوں ایسے مصادر ہیں جن سے بیشتر فقہی احکام متعلق ہیں اور معاملات کے احکام کی بنیاد تو بڑی حدتک قیاس ہی پرہے، اس لحاظ سے یہ نہایت اہم ماخذ ہے، جیسا کہ شراب کی حرمت کی علت نشہ اور سکر کو نکال کر افیون ،گانجہ وغیرہ کونشہ کی وجہ سے حرام قراردیاگیا۔
دوسرے دلائل
ان دونوں کے علاوہ کچھ اور غیرمنصوص مصادرہیں جن سے وقتا فوقتا فقہ اسلامی میں مدد لی جاتی ہے، مثلاً:استحسان ، مصالح مرسلہ، استصحاب ،عرف اورذریعہ ان کی تفصیل ذیلی مضامین میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ 
فقہ اسلامی کا امتیاز
جامعیت وہمہ گیری
فقہ اسلامی کو جو باتیں انسان کے خودساختہ قوانین سے ممتاز کرتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں جامعیت وہمہ گیری پائی جاتی ہے کہ یہ تمام انسانوں کی ضروریات کو پوری طرح حاوی(گھیرے ہوئے) ہے اور ان کی زندگی اور زندگی کے ہرحال کے متعلق مرتب وجامع نظام پیش کرتی ہے، جو انسان کی شخصی زندگی، عائلی زندگی، قبائلی وشہری زندگی اور ظاہری وروحانی زندگی کے ہرپہلو سے اس کی رہبری کرتی ہے، وہ صرف اجتماعی وسیاسی زندگی ہی تک محدود نہیں؛ بلکہ وہ انسان کی انفرادی وشخصی زندگی کے اصول بھی سکھاتی ہے، معاملہ عقائد وعبادات کاہو، اخلاق وتمدن کاہو، سیاست وحکومت کاہو، ملازمت و تجارت کاہو، تعلیم وتربیت کاہو، شادی بیاہ کاہو، سیروتفریح اور غم ومصیبت کاہو، غرض یہ کہ انسانی زندگی سے متعلق جس قسم کا بھی معاملہ ہو فقہ اسلامی اس میں انسان کی بھرپور رہنمائی کرتی ہے۔
عقل وحکمت سے مطابقت
فقہ اسلامی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں معقولیت بھی پائی جاتی ہے، علماء، محققین نے اپنی اپنی تصانیف میں پورے شرح وبسط(تفصیل) کے ساتھ اس کی معقولیت پر گفتگو فرمائی ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، امام رازی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم نے اس پہلوپر سیرحاصل بحث کی ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ شریعت کے احکام عقل کے تقاضوں اور مصلحتوں کے عین مطابق ہیں؛ حتی کہ بعض اہل علم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شریعت تمام تر مصلحت ہی سے عبارت ہے اور ہرحکمِ شرعی کا مقصد یاتو کسی مصلحت کوپاناہے یاکسی نقصان اور مفسدہ کا ازالہ ہے:
"اِنَّ الشَّرِیْعَۃَ کُلَّہَا مَصَالِحٌ اِمَّادَرْأُ مَفَاسِدٍ اَوْجَلْبُ مَصَالِحٍ
(قواعد الاحکام لعزالدین بن عبدالسلام:۱/۹)
اس کے برخلاف انسان کی عقل کوتاہ ونارساہے اور خود اپنے نفع ونقصان کو سمجھنے سے بھی قاصر وعاجز ہے، دوسرے انسان بعض اوقات خواہشات سے اس قدر مغلوب ہوجاتا ہے کہ کسی بات کو نقصان جانتے ہوئے بھی اس کو قبول کرلیتا ہے، اس کی واضح مثال شراب ہے، شراب انسان کے لیے نہایت نقصان دہ اور اس کی صحت کو برباد کردینے والی چیز ہے، اس پر اتفاق ہے، لیکن آج دنیا کے ان تمام ملکوں میں جو انسانی قانون کے زیرسایہ زندگی بسرکررہے ہیں شراب کی اجازت ہے، غیرقانونی جنسی تعلق اور ہم جنسی کے بارے میں تمام میڈیکل ماہرین متفق ہیں کہ یہ صحت کے لیے نہایت مہلک فعل ہے اور نہ صرف اخلاق کے لیے تباہ کن ہے بلکہ طبی نقطۂ نظرسے بھی سماج کے لیے زہرہلاہل سے کم نہیں ہے، اس کے باوجود عوامی دباؤ اور آوارہ خیال لوگوں کی کثرت سے مجبورہوکر بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ان خلافِ فطرت امور کی بھی اجازت دے دی گئی ہے، فقہ اسلامی کہیں بھی عقل اور حکمت ومصلحت سے برسرِپیکار نظر نہیں آتی اور اس کا ایک ایک حکم انسانی مفادومصلحت پر مبنی ہے۔
ابدیت ودوام
کسی بھی قانون کے مفید اور فعال رہنے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ اس میں حالات ومواقع کے لحاظ سے تغیرات کو قبول کرنے کی گنجائش رہے وہیں ایک گونہ ثبات ودوام اور بقاء واستمرار بھی ضروری ہے، جو قانون بالکل بے لچک اور تغیرناآشناہو وہ زمانہ کی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دے سکتا اور جس قانون میں کوئی بقاء واستحکام نہ ہو وہ انصاف قائم کرنے اور لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کے ہراصول میں شکست وریخت کی گنجائش ہوگی اور کسی بھی قانون کو لوگ اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھال سکیں گے۔
اسلام میں ان دونوں پہلوؤں کی رعایت ملحوظ ہے، کچھ احکام وہ ہیں جن کی بابت اصول وقواعد اور شریعت کے مقاصد کی وضاحت پر اکتفاء کیا گیا ہے، ہرعہدمیں جو مسائل پیداہوں ان کو ان اصولوں کی روشنی میں حل کیا جائے گا اور بعض مسائل میں شریعت نے جزوی تفصیلات کو بغیرکسی استثناء اور تخصیص کے متعین کردیا ہے، یہ تحدید اس بات کی علامت ہے کہ یہ قیامت تک قابلِ عمل ہے، اس طرح شریعت میں جو اصولی ہدایات دی گئی ہیں اور جن قواعد ومقاصد کی رہنمائی کی گئی ہے وہ ناقابلِ تبدیل ہیں، اس لیے قرآن نے اشارہ کیا ہے کہ قرآنی ہدایات کے ذریعہ دین پا یۂ کمال کو پہنچ گیا ہے(المائدہ:۳) اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلۂ نبوت کو ختم کردیا گیا ہے (الاحزاب:۴۰) لہٰذا اب خالقِ کائنات کی طرف سے کسی نئی شریعت کے آنے کا امکان باقی نہیں رہا، اب یہ انسانی سماج کے لیے ایسا موزوں قانون ہے کہ قیامت تک اس کی موزونیت اور اس کی افادیت کم نہیں ہوسکتی، کیونکہ فقہ اسلامی کا سرچشمہ وہ نصوص ہیں جوقیامت تک ہرطرح کے تغیرات واصلاح سے ماوراء ہیں اور وضعی قوانین کی اساس انسانی خیالات وجذبات ہیں جو ہرآن وزمان تغیر وتبدیلی سے دوچار ہیں۔
فطرت انسانی سے ہم آہنگی
اللہ خود انسان کا خالق ہے اور اس کی ضروریات وتقاضے سے بھی پوری طرح واقف ہے؛ اس لیے اس نے جو شریعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے انسانیت کو عطاکی وہ پوری طرح فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے، اس لیے قرآن نے اسلام کو دینِ فطرت سے تعبیر کیا ہے۔                       
  (الروم:۳۰)
فطرت سے بغاوت ہمیشہ انسان کے لیے نقصان وخسران اور تباہی وبربادی کا سبب بناہے، انسان کے بنائے ہوئے قانون میں فطرت سے بغاوت کا رجحان قدم قدم پر ملتا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے عورت کی فطرت میں جلدبازی، زودرنجی اور بعجلت قدم اٹھانے کا مزاج رکھا ہے، اس لیے اسلام نے طلاق کا اختیار عورت کے ہاتھ میں نہیں رکھا، بلکہ مردکو طلاق کا اختیار دیا؛ لیکن مغرب نے مردوعورت کومساوی درجہ دیتے ہوئے طلاق کے معاملہ میں بھی دونوں کو یکساں حیثیت دے دی، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ طلاق کی شرح اس معاشرہ میں بہت بڑھ گئی؛ حتی کہ بہت سے ملکوں میں نکاح کے مقابلہ میں طلاق کی شرح بڑھی ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں خاندانی نظام بکھرکر رہ گیا ہے؛ اسی طرح انسانی فطرت ہے کہ سخت اور مناسب سزائیں ہی انسان کو جرم سے باز رکھ سکتی ہیں اور مجرم کے ساتھ حسنِ سلوک دراصل مظلوم کے ساتھ ناانصافی اور سماج کو امن سے محروم کردینے کے مترادف ہے؛ اس لیے اسلام میں قتل کی سزا قتل رکھی گئی ہے اور بعض دیگر جرائم میں بھی سخت سزائیں رکھی گئی ہیں؛ لیکن بعض ممالک میں ہمدردی وانسانیت کے نام پر مجرم کو سہولتیں دی گئیں، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ جرائم پر جسارت روز مرہ بڑھتی جارہی ہے اور جو سزائیں دی جارہی ہیں وہ جرائم کے سدباب کے لیے ناکافی ہیں، اس کے برخلاف شریعتِ اسلامی کے جس حکم کو بھی حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ اس میں قانونِ فطرت کی مطابقت غیرمعمولی حدتک پائی جاتی ہے، جبکہ انسان کے خودساختہ قوانین میں فطرت سے بغاوت اور خواہشات کے غلبہ کا رجحان ہرجگہ نمایاں ہے۔
توازن واعتدال
شریعتِ اسلامی کا ایک وصف اس کا توازن واعتدال بھی ہے، مثلاً مردوعورت انسانی سماج کے دولازمی جزہیں، دنیامیں کچھ ایسے قوانین وضع کئے گئے ہیں جن میں عورت کی حیثیت جانور اور بے جان املاک کی سی قرار دے دی گئی، نہ وہ کسی جائیداد کی مالک ہوسکتی تھی، نہ ہی تصرف کرسکتی تھی، نہ اس کو اپنے مال پر اختیارتھا، نہ اپنی جان پر، یہاں تک کہ اہلِ علم کے درمیان بحث جاری تھی کہ عورتوں میں انسانی روح پائی جاتی ہے یا حیوانی؟ اس کے بالمقابل دوسری طرف کچھ لوگوں نے عورتوں کو تمام ذمہ داریوں میں مردوں کے مساوی قراردے دیا، عورتوں کی جسمانی کمزوری، اس کے ساتھ پیش آنے والے قدرتی حالات وعوارض اور طبیعت ومزاج اور قوتِ فیصلہ پر ان کے اثرات کونظرانداز کردیا، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ بظاہرتو اسے عورت کی حمایت سمجھاگیا لیکن انجام کار اس آزادی نے سماج کو بے حیائی، اخلاقی گراوٹ، ناقابلِ علاج امراض اور خود عورتوں کو ناقابلِ تحمل ذمہ داریوں میں جکڑدیا۔
اسلام نے مردوں اور عورتوں سے متعلق نہایت متوازن قانون دیا ہے، انسانی حقوق میں مردوں اور عورتوںکو مساوی درجہ دیا گیا ہے "وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ" (البقرہ:۲۲۸) لیکن سماجی زندگی میں دونوں کے قُویٰ اور صلاحیت کے لحاظ سے فرق کیا گیا ہے اور بال بچوں کی تربیت کی ذمہ داری عورتوںپر اور کسبِ معاش کی ذمہ داری مردوںپر رکھی گئی ہے، سماجی زندگی کا یہ نہایت زریں اصول ہے، جس میں خاندانی نظام کا بقاء، اخلاقی اقدار کی حفاظت اور عورت کو ناقابلِ برداشت مصائب سے بچانا ہے۔
دولت مندوں اور غریبوں، آجروں اور مزدوروں، عوام اور حکومت کے تعلقات اور مجرموں اور جرم سے متاثر مظلوموں کے درمیان انصاف وغیرہ احکام کو اگر حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو قانونِ شریعت میں جو اعتدال نظر آئے گا گذشتہ اور موجودہ ادوارمیں انسانوں کے بنائے ہوئے کسی قانون میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔
عدل وانصاف
شریعتِ اسلامی کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں انسانیت کے ساتھ مساویانہ سلوک ہے، دین کی بنیادہی دراصل عدل پرہے (النحل:۹۰) اس لیے اسلام کی نگاہ میں رنگ ونسل، جنس اور قبیلہ وخاندان کی بنیادپر کوئی تفریق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللہِ أَتْقَاکُمْ
(الحجرات:۱۳) 
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مردوعورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو خاندانوں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک تم میں سب سے زیادہ معززاللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ تقوی اختیار کرنے والا ہو۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مزید واضح فرمایا: کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے (مسنداحمد، حدیث نمبر:۲۲۳۹۱) اسلام کے تمام قوانین کی اساس اسی اصول پرہے، برخلاف انسانی قوانین کے، انسانوں نے جوبھی قوانین وضع کئے ہیں وہ ایک گروہ کی برتری اور دوسرے طبقہ کی تذلیل وحق تلفی پر مبنی رہا ہے، لیکن اسلام نے دنیا کو ایک ایسے قانون سے روشناس کیا جس کی بنیاد انسانی وحدت مساوات اور ہرطبقہ کے ساتھ ایسے انصاف پر مبنی ہے جوکسی طبقہ کو حقیر اور اچھوت بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
حقیقی نافعیت
شریعتِ اسلامی حقیقی نافعیت اورمال وانجام کی سعادت پر مبنی ہے، انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں حقیقی نفع وضرر سے زیادہ خواہشات وجذبات کی رعایت ہے، شراب صحت انسانی کے لیے مضرہے، نشہ جنون کا ایک درجہ ہے، خنزیرکا گوشت مختلف طبعی بیماریوں اور اخلاقی مفاسد کی جڑہے، عصمت وعفت کے مذہبی تصورکے خلاف برہنگی ہے جواخلاقی اقدار کے بھی منافی ہے اور امن وسکون کی غارت گرہے، اسلام نے ان مضرتوںپر نظررکھی اور ان امور کے بارے میں اس کی مخالفت ناقابلِ تبدیل ہے، مگر وضعی قوانین ان تمام نقصانات کو تسلیم کرنے کے باوجود ہوائے نفسانی اور ہوسِ انسانی کے سامنے سپرانداز(جھکے ہوئے) ہیں۔
تنفیذ کی قوت
کسی بھی قانون کا نفاذ دوطریقوں سے ہوتا ہے، ایک تو سماج کے اندر قبولِ اطاعت کا جذبہ پیدا کرکے اور دوسرے قانون کے خلاف کرنے والوں کے لیے جبروقوت کا استعمال کرکے، کچھ طبیعتیں سلامتی اور شرافت کی حامل ہوتی ہیں، ان میں ازخود قانون پر عمل کرنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے؛ لیکن جن طبیعتوں میں سرکشی اور بغاوت ہوتی ہے یا جو خواہشات سے مغلوب ہوتی ہیں وہ جبروخوف کے بغیر سرِتسلیم خم نہیں کرتیں، انسانی قوانین میں عدالت اور پولیس اور دونوں شعبوں کے ذریعے سزاؤں کا خوف ہی انسان کو جرم سے باز رکھتا ہے، جبکہ شریعتِ اسلامی میں اس سے آگے ایک اور عقیدہ"آخرت کے ثواب وعذاب" کاہے؛ اس لیے قرآن وحدیث میں ہرحکم کے ساتھ اس کے ماننے پر آخرت کا اجر اور نہ ماننے پر آخرت کی سزا کا ذکر موجودہے، یہ ایسا انقلاب انگیز عقیدہ ہے جو طاقتورسے طاقتور انسان کے دل کو ہلاکر رکھ دیتا ہے اور بڑے بڑے مجرموں کو قانون کے سامنے سپرانداز ہونے پر مجبور کرتا ہے، جب کوئی آنکھ دیکھنے والی اور کوئی زبان ٹوکنے والی نہیں ہوتی اس وقت بھی یہ عقیدہ اس کے ہاتھوں کے لیے ہتھکڑی اوراس کے پاؤں کے لیے زنجیر بن جاتا ہے۔
مسلم سماج میں اس گئے گذرے دورمیں بھی اس کی مثالیں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں، مثلاً یہی منشیات کا مسئلہ ہے، آج پوری دنیا اس سے دوچار ہے اور اس کے نقصانات تسلیم شدہ ہیں، امریکہ نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے سنہ۱۹۳۰ء میں نشہ بندی کا ایک قانون بنایا اورشراب کی مضرتوں کو واضح کرنے کے لیے صرف تشہیرپر ۶۵/ ملین ڈالر خرچ کئے، نوہزار ملین صفحات شراب کے نقصانات پر لکھے گئے، ۲۰۰/آدمی قتل کئے گئے، ۵۰/لاکھ کو قیدکی سزا دی گئی، ان لوگوںپر جو جرمانے کئے گئے وہ بے شمار ہیں؛ لیکن اس کے باوجود طاقت سے قانون کو منوایا نہیں جاسکا اور سنہ۱۹۳۳ء میں امریکی حکومت اس بات پر مجبور ہوئی کہ اس قانون کو واپس لے لے؛ لیکن قرآن مجید نے جب شراب کو حرام قراردیا توعرب اس کے بے حد عادی تھے، یہاں تک کہ اسلام سے پہلے ان کی مذہبی تقریبات بھی شراب سے خالی نہیں ہوتی تھیں، لیکن شراب کی حرمت کا حکم آتے ہی لوگوں نے اپنا سرجھکادیا اور مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں شراب بہنے لگی، آج بھی صورتحال یہ ہے کہ جہالت وغفلت کے باوجود مسلمان سماج میں شراب سے جو احتیاط برتی جاتی ہے شایدہی اس کی مثال مل سکے؛ مغربی ممالک میں خاص طورپر اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ دوش بدوش زندگی گذارنے والے مسلمان اور غیرمسلم مئے نوشی کے اعتبارسے ایک دوسرے سے بہت مختلف کردار کے حامل ہوتے ہیں۔
اسی طرح زنا اور غیرقانونی جنسی تعلق کا معاملہ ہے کہ آج بھی اس معاملہ میں مسلم سماج دوسری قوموں سے بدرجہاغنیمت ہے، یہی وجہ ہے کہ ایڈس کی بیماری کی شرح مسلم ملکوں میں سب سے کم ہے، مغربی ملکوں میں شہرشہر بوڑھے لوگوں کے لیے ہاسٹل قائم کردیئے گئے ہیں، لوگ بوڑھے ماںباپ اور بزرگانِ خاندان کو ان ہاسٹلوں میں رکھ کر اپنا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں، لیکن مسلم سماج میں آج بھی ایسی خودغرضی نسبتاً کم پائی جاتی ہے، والدین کا احترام اور بزرگوں کی قدردانی کو لوگ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں، یہ آخرت کے خوف اور آخرت میں جوابدہی کے احساس کے بغیر نہیں ہوسکتا؛ الغرض وضعی قوانین کا نفاذ قانون کی طاقت ہی سے ممکن ہے؛ لیکن قانونِ شریعت کے نفاذمیں عقیدہ وایمان کی طاقت بھی موثر کردار ادا کرتی ہے۔
فقہ پر اعتماد نہ کرنے کا نقصان
اگرفقہ پراعتماد نہ کرکے کوئی شخص اپنے ہرعمل کاتعلق بلا واسطہ قرآن یاحدیث سے کرےگا تو یہ اجماع کے خلاف ہوگا(عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید:۱۳) اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے سامنے مکمل قرآنی علم یامکمل احادیث کا مجموعہ ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سارے علوم وغیرہ کا ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ بعض جگہ قرآنی آیات مجمل ہیں توبعض جگہ قرآنی آیات اور احادیث میں ابہام بھی ہے اورکچھ احادیث ایک ہی عمل کے مختلف طریقے اور مختلف حکم پیش کرتی ہے اور الفاظ قرآن یاحدیث ایک معنی پیش کرتے ہیں اور مرادی معنی اور ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سحری کے وقت کے سلسلہ میں فرمایا:
"وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ"۔
(البقرۃ:۱۸۷)
اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفیددھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکر تم پر واضح (نہ) ہوجائے۔ 
بظاہر اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس وقت تک کھاپی سکتے ہیں جب تک کہ صبح کی روشنی سے سفید اور کالے دھاگے میں امتیاز ہوجائے جیسا کہ بعض صحابہ نے ایسا ہی سمجھا تھا؛ مگرحقیقی معنی یہ نہیں ہیں؛ بلکہ خیط ابیض سے مراد صبح صادق اور خیط اسود سے مراد صبح کاذب ہے۔          
  (بخاری، كِتَاب الصَّوْمِ،بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَكُلُوا وَاشْرَبُوا}، حدیث نمبر:۱۷۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)
اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ جوانسان اللہ پراوریومِ آخرت پرایمان رکھتا ہو اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے پانی سے دوسرے کے کھیت کوسیراب کرے۔                     
  (مسنداحمد، حدیث نمبر:۱۷۰۳۱)
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب باغ میں پانی زیادہ ہوجائے تواسے دوسرے کے باغ میں نہ چھوڑا جائے جیسا کہ بعض حدیث پڑھنے والے یہی معنی سمجھ کر کئی دن اسی پر عمل کرتے رہے؛ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حاملہ لونڈیوں سے صحبت نہ کی جائے؛ اس طرح بلاواسطہ قرآن وحدیث کے سمجھنے میں غلطی ہونے کا قوی امکان ہوسکتا ہے؛ اس کے علاوہ بہت سارے نئے مسائل(خواہ وہ مسائل عبادات کے ہوں یامعاملات کے ہوں یامعاشرت کے ہوں وہ) قرآن وحدیث سے بلاواسطہ (ڈائرکٹ) نہیں سمجھ سکتا؛ بہرحال ہرانسان اپنے کم علمی کے ذریعہ زندگی کے ہرعمل کوشریعت کے مطابق نہیں بناسکتا؛ اس لیے علوم شرعیہ کے ماہرین سے رجوع کرنا ضروری ہوگا؛ اس کے بغیروہ اپنی زندگی کوشریعت کے منشا کے مطابق نہیں بناپائیگا اور بہت ساری خرابیاں وجود میں آتی ہیں جو تفصیلی مضامین میں انشاءاللہ آئیں گی۔




فقہ، لغوی واصطلاحی معنی

فقہ کے لغوی معنی کسی بات کو جاننے اور سمجھنے کے ہیں، قرآن مجید میں کم سے کم دو موقعوں پر یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہواہے (النساء:۷۸۔  ہود:۹۱) اس مناسبت سے احکامِ شرعیہ کے علم کو بھی فقہ سے تعبیر کیا گیا، ابتداءً شریعت کے تمام احکام کے جاننے کو فقہ کہا جاتا تھا؛ خواہ عقائد ہوں یا اخلاق اور عبادات ہوں یا معاملات، قرآن وحدیث میں بھی اس معنی کے لحاظ سے اس لفظ کا ذکر کیا گیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
"وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَارَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ"۔         
  (التوبہ:۱۲۲)
اور مسلمانوں کے لئے یہ بھی مناسب نہیں کہ وہ (ہمیشہ) سب کے سب (جہاد کے لئے) نکل کھڑے ہوں، لہذا ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ (جہاد کے لئے) نکلا کرے، تاکہ (جو لوگ جہاد میں نہ گئے ہوں) وہ دین کی سمجھ حاصل (کرنے کے لئے محنت) کریں، اور ان کی قوم کے لوگ (جو جہاد گئے ہیں) ان کے پاس واپس آئیں تو یہ ان کو آگاہ کریں، تاکہ وہ گناہوں سے بچ سکیں۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" مَنْ يُرِدْ اللہُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔
(بخاری، حدیث نمبر:۶۹)
اللہ تعالیٰ جس کے حق میں بہتری چاہتے ہیں، اس کو دین کا تفقہ عطا فرماتے ہیں۔

















شرعی اصطلاح میں "فقہ" کا لفظ علمِ دین کا فہم حاصل کرنے کے لئے مخصوص ہے۔ (ابن منظور، لسان العرب، 13 : 522)


امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے مفہوم میں اسی وسعت کے لحاظ سے ان الفاظ میں فقہ کی تعریف کی ہے:
"ھُوَمَعْرِفَۃُ النَّفْسِ مَالَہَاوَمَاعَلَیْہَا"۔                  
  (التوضیح:۱/۱۶؛ الزرکشی، المنثور، 1 : 68)
انسان کا اپنے حقوق وفرائض کو جاننا فقہ ہے۔

اس تعریف میں اسی لحاظ سے شریعت کے تمام احکام کو فقہ کے دائرہ میں شامل کیا گیا ہے؛ اسی لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے عقائد پر جوکتاب تالیف فرمائی ہے یا ان کی طرف منسوب کی گئی ہے اس کا نام الفقہ الاکبر ہے، بلکہ اسی نام سے عقائد پر ایک کتاب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بھی منسوب ہے لیکن دستیاب نہیں ہے، بعدمیں عقائد کی توضیح اور اخلاقی تربیت نے مستقل فنون کی حیثیت حاصل کرلی؛ چنانچہ عقائد سے متعلق احکام "علم کلام" کہلایا اور اخلاق سے متعلق مباحث کو "تصوف" کا نام دیا گیا، ان دونوں فنون کے ماہرین کوبھی مستقل حیثیت حاصل ہوگئی اور انہیں متکلمین اور صوفیاء کا لقب دیا گیا، اس طرح اب فقہ میں عملی احکام باقی رہ گئے، جو محض اخلاقی حیثیت کے حامل نہیں بلکہ قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لحاظ سے فقہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی:
"اَلْعِلْمُ بِالْأَحْکَامِ الشَّرْعِیَّۃِ الْعَمَلِیَّۃِ مِنْ أَدِلَّتِہَا التَّفْصِیْلِیَّۃِ بِالْاِسْتِدْلَالِ"۔
(التلویح:۱/۱۸)
فقہ "عملی شرعی احکام" کو ان کے تفصیلی دلائل سے استدلال کے ذریعہ جاننے کا نام ہے۔

اس تعریف میں جو "عملی شرعی احکام" کی قید ہے اس کے ذریعہ علم کلام اور تصوف کو نکالنا مقصود ہے،کیونکہ اعتقادی اورقلبی احکام دماغ اور ضمیرسے ہوتے ہیں، اعضاء وجوارح کے عمل سے ان کا تعلق نہیں ہوتا، عملی احکام میں عبادات بھی شامل ہیں اورمعاملات بھی اور تفصیلی دلائل کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ کس دلیل شرعی پر مبنی ہے، کتاب اللہ پر، سنت رسول پر، اجماع پر، یا قیاس وغیرہ پر، اسی طرح حکم اور دلیل کے درمیان ارتباط کو جاننا بھی فقہ میں شامل ہے اور تعریف میں جواستدلال کا ذکر ہے اس سے مراد اجتھاد اور غوروفکر ہے۔

تعریف کا حاصل یہ ہواکہ مجتہد کا علم ہی اصل میں فقہ ہے، مقلدین کو اگر احکام اور ان کے دلائل کا علم ہوتو یہ فقہ نہیں ہے؛ اسی لیے متقدمین مجتہدہی کو فقیہ کہا کرتے تھے، بعد کے ادوارمیں مقلدین جو مسائل اور ان کے دلائل کا علم رکھتے ان کو بھی فقیہ کہا جانے لگا اور آج کل یہی تعبیر ومراد مروج ہے، اس لیے قاضی محب اللہ بہاری رحمۃ اللہ علیہ نے"الاستدلال" کی قید حذف کردی ہے اور فقہ کی تعریف اس طرح کی ہے:
" اَلْعِلْمُ بِالْأَحْکَامِ الشَّرْعِیَّۃِ عَنْ  أَدِلَّتِھَا التَّفْصِیْلِیَّۃِ"۔ 

                                                                                                            (فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت:
۱/۱۳)
تفصیلی دلائل سے شرعی احکام کو جاننے کا نام فقہ ہے۔


"شرعی احکام" سے مکلف کے افعال پر شریعت کی جانب سے جو حکم اور صفت مرتب ہوتی ہے وہ مراد ہے، جیسے کسی عمل کا فرض، واجب، مستحب یامباح یا اسی طرح حرام ومکروہ ہونا اور تفصیلی دلائل کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ کس دلیل شرعی پر مبنی ہے، کتاب اللہ پر، سنت رسول پر، اجماع پر، یا قیاس وغیرہ پر؛ اسی طرح حکم اور دلیل کے درمیان ارتباط کو جاننا بھی فقہ میں شامل ہے۔


علامہ ابن خلدون نے فقہ کی تعریف میں لکھا ہے:افعال مکلفین کی بابت اس حیثیت سے احکام الہٰی کے جاننے کا نام فقہ ہے کہ وہ واجب ہیں یامحظور، ممنوع وحرام، مستحب اور مباح ہیں یامکروہ۔ (الموسوعۃ الفقہیہ:۱/۱۲)

"شرعی احکام" سے مکلف کے افعال پر شریعت کی جانب سے جو حکم اور صفت مرتب ہوتی ہے وہ مراد ہے، جیسے کسی عمل کا فرض، واجب، مستحب یا مباح یا اسی طرح حرام ومکروہ ہونا، اس تفصیل کی روشنی میں فقہ کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے:
شرعی حکم جاننے کو فقہ اور جاننے والے کو فقیہ کہتے ہیں۔

فقہ کا موضوع
فقہ کا موضوع عاقل وبالغ کا فعل ہے، کیونکہ فقہاء اس سے بحث کرتے ہیں کہ عاقل بالغ پر کون سا فعل فرض ہے، کیا واجب ہے، کیا مستحب ہے اور ان کے لیے کیا کیا چیزیں مباح ہیں، اسی طرح کون سے کام ان کے لیے درست اور صحیح ہیں اور کون سا فعل ان کے لیے نادرست ہے، کون سا حرام اور کون سا مکروہ، اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نابالغ، پاگل اور مخبوط الحواس کا فعل علم فقہ کا موضوع نہیں ہے، باقی بچہ اور پاگل پر کسی ضائع شدہ چیز کا جو ضمان آتا ہے، یا ان کی بیویوں کا ان پر جو نان ونفقہ ضروری ہوتا ہے تو ان کی ادائیگی کے مخاطب فقہ میں ان کے ولی ہوتے ہیں، خود یہ نہیں ہوتے، لہٰذا ان سے متعلق جو مسائل ہوتے ہیں وہ تو بیان کردیئے جاتے ہیں تاکہ ولی ان مسائل پر ان کے تعلق سے عمل کریں، جیسے کوئی جانور کسی کی کوئی چیز نقصان کردے تو ان کے ضمان کے مخاطب ان کے مالک ہوتے ہیں اور جہاںتک بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ ابتدائے عمرسے ہی فرائض کے عادی بن جائیں؛ تاکہ آگے چل کر یہ ان کے لیے بوجھ محسوس نہ ہو، مگر نماز پڑھانے کی ذمہ داری تو بہرحال ولی پرہی ہوتی ہے۔

فقہ کی غرض وغایت
سعادتِ دارین کا حصول اور شرعی احکام کے مطابق عمل کرنے کی قدرت کا حاصل ہونا، واقعہ ہے کہ انسان اس علم کی بدولت جہالت کی پستی سے نکل کر علم کی بلندی پر آجاتا ہے اور صحیح عمل صحیح علم کے بغیر مشکل ہے، جب انسان کو صحیح علم حاصل ہوجاتا ہے تو اس پر عمل کرکے دنیا وآخرت دونوں جگہ کامیابی سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔

فقہ اسلامی کا دائرہ کار
فقہ کی تعریف، موضوع اور اس کی غرض وغایت پر غور کیا جائے تو اس کا دائرہ کاربھی واضح انداز سے سامنے آجاتا ہے۔

فقہ دراصل انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے اور درج ذیل شعبہائے حیات کی بابت اس فن کے ذریعہ رہنمائی ملتی ہے۔
عبادات
یعنی وہ احکام جو خدا اور بندہ کے براہ راست تعلق پر مبنی ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، قربانی، اعتکاف اور نذر عبادات میں شامل ہیں اور عبادات سے متعلق احکام خالصتاً اللہ تعالیٰ کی ہدایت ورہنمائی پر موقوف ہیں؛ اگر شریعت کی رہنمائی نہ ہوتی تو انسان اپنی عقل سے اس کو دریافت نہیں کرپاتا۔
عائلی قانون
یعنی دوآدمیوں کے درمیان غیرمالی بنیادپر تعلقات سے متعلق احکام، اس میں نکاح وطلاق، فسخ وتفریق، عدت وثبوت نسب، نفقہ وحضانت، ولایت، میراث، وصیت وغیرہ کے احکام آجاتے ہیں، قدیم فقہاء اس کے لیے مناکحات کا لفظ استعمال کرتے تھے، موجودہ دورمیں اس کو عربی زبان میں احوال شخصیہ اور اردو زبان میں عائلی قانون اور انگریزی میں پرسنل لا کہا جاتا ہے۔
معاملات
یعنی دواشخاص کے درمیان مالی معاہدہ پر مبنی تعلقات، اس میں خریدوفروخت، شرکت، رہن وکفالت، ھبہ، عاریت، اجارہ وغیرہ کے احکام شامل ہیں، آجکل اسے اردو میں تجارتی قوانین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
مرافعات
مرافعات سے مراد عدالتی قوانین ہیں،یعنی قاضی کا تقرر، شہادت ووکالت کے احکام، مقدمات کو ثابت کرنے کا طریقہ وغیرہ۔
دستوری قانون
یعنی وہ قوانین جو حکومت اور ملک کے شہریوں کے درمیان حقوق وفرائض کو متعین کرتے ہیں۔
عقوبات
جرم وسزا سے متعلق قوانین، اس میں شرعی حدود، قتل وجنایت کی سزاء اور جن جرائم کے بارے میں کوئی سزا متعین نہیں کی گئی ہے ان کی بابت سزا کا تعین، جسے فقہ کی اصطلاح میں تعزیر کہتے ہیں، شامل ہیں۔
بین ملکی قانون
یعنی دوملکوں اور دوقوموں کے درمیان تعلقات ومعاہدات اور حقوق وفرائض سے متعلق قوانین، ان کو فقہاء اسلام سیَر سے تعبیر کرتے ہیں، قانون کی دنیا میں اس موضوع پر سب سے پہلی کتاب امام محمدؒ کی کتاب السیر ہے، مستشرقین کو بھی اس حقیقت کااعتراف ہے۔

اس تفصیل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فقہ اسلامی کا دائرہ کس قدر وسیع ہے اور کس طرح اس نے زندگی کے تمام شعبوں کواپنے اندر سمولیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عہدِنبوی سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے سقوط تک فقہ اسلامی نے ایشیائ، افریقہ اور یوروپ کے قابلِ لحاظ حصہ پر فرمانروائی کی ہے؛ اگر فقہ اسلامی میں ہمہ جہت رہنمائی کی صلاحیت نہیں ہوتی تو ہرگز وہ یہ مقام حاصل نہیں کرپاتی۔

فقہ کی اہمیت
مذکورہ تفصیلات سے فقہ کی اہمیت کا بخوبی علم ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ خود اللہ تعالیٰ نے دین میں تفقہ حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے: (التوبہ:۱۵) حضور  کا ارشادمبارک گذر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیرکا ارادہ کرتا ہے اسے تفقہ سے سرفراز کرتا ہے (بخاری، حدیث نمبر:۶۹)، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس سے تمام لوگوں پر علماء کی فضیلت اورتمام علوم سے تفقہ فی الدین کا افضل ہونا ظاہر ہوتا ہے (فتح الباری، حدیث نمبر:۶۹) اس لیے سلف صالحین کے یہاں حفظِ حدیث کے مقابلہ تفقہ یعنی فہمِ حدیث کی اہمیت زیادہ تھی اور وہ فقہاء کے مرتبہ شناس تھے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
"وَكَذَلِكَ قَالَ الْفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ"۔
(ترمذی، حدیث نمبر:۹۱۱)
فقہاء نے یہی کہا ہے اور وہ معانی حدیث سے زیادہ واقف ہیں۔
امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدث نے ایک موقع پر فرمایا کہ: اے جماعت فقہاء! تم طبیب ہو اور ہم محض عطار،"یَامَعْشَرَ الْفُقَہَاءِ اَنْتُمْ الْأطِبَّاءُ وَنَحْنُ الصَّیَادَلَۃُ" (الفقیہ والمتفقہ:۲/۳۹۰) اس لیے محدثین فقیہ راویوں کی روایت کو قابلِ ترجیح سمجھتے تھے، امام اعمشؒ کہتے تھے کہ جس حدیث کو فقہاء نقل کرتے ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کے راوی صرف محدث ہوں "حَدِیْثٌ یَتَدَاوَلُہٗ الْفُقَہَاءُ خَیْرٌمِنْ حَدِیْثٍ یَتَدَاوَلُہٗ الشُّیُوْخُ" (تدریب الراوی:۱/۷) اسی لیے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ حلال وحرام کا علم فقہاء سے حاصل کرنا چاہئے، "فَإِنَّ عِلْمَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ إِنَّمَا یَتَلَقّٰی مِنَ الْفُقَہَاءِ" (فتح الباری، حدیث نمبر:۴۶۰۸) علامہ ابنِ تیمیہؒ جو فقہ وحدیث دونوں کے رمزشناس ہیں، امام احمدؒ سے نقل کرتے ہیں: حدیث میں تفقہ میرے نزدیک حفظِ حدیث سے زیادہ محبوب ہے اورعلی بن مدینی فرماتے ہیں کہ: متون احادیث میں تفقہ پیدا کرنا اور راویوں کے احوال کو جاننا سب سے اشرف علم ہے (منہاج السنۃ:۴/۱۱۵) اس لیے حضرت شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ: قرآن وحدیث کے بعد اسلام کا مدار فقہ پر ہے۔                      
   (قرۃ العینین:۱۷۱)
فقہ اسلامی کے مصادر
چونکہ اسلامی نقطۂ نظرسے قانون کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے، اس لیے تمام قوانین کا رشتہ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی سے ہے؛ البتہ بعض احکام کی نسبت صراحتاً اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہے اور بعض احکام قرآن وحدیث سے ثابت ہونے والے اصول وقواعد کی روشنی میں اہلِ علم نے استنباط کیے ہیں، ان کی بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی جاسکتی ہے، فرق یہ ہے کہ پہلا ذریعہ معصوم ہے؛ اگر قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت یقینی ہوتو اس میں غلطی کا احتمال نہیں اور دوسرا ذریعہ معصوم نہیں؛ کیونکہ اس میں انسانی اجتھاد کو دخل ہے اور انسان کی سوچ غلط بھی ہوسکتی ہے، اس طرح فقہ اسلامی کے مصادر کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (۱)نصوص  (۲)اجتہاد کے دوسرے مسائل۔
منصوص مصادر
فقہ اسلامی کے منصوص مصادر چار ہیں:
(۱)کتاب اللہ
(۲)سنت رسول اللہ
(۳)شرائع ماقبل
(۴)جن مسائل میں اجتھاد کی گنجائش نہ ہو ان میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار۔
کتاب اللہ
کتاب اللہ سے مراد قرآن مجید ہے، جو بے کم وکاست محفوظ ہے اور قیامت تک رہے گا، قرآن مجید میں فقہی احکام سے متعلق آیات کی تعداد لوگوں نے دوڈھائی سوسے لیکر پانچ سو تک لکھی ہے، پانچ سو کی تعداد اس لحاظ سے ہوسکتی ہے کہ قرآن سے ثابت ہونے والے صریح احکام کے علاوہ اصولی احکام کوبھی شامل کرلیا جائے، ملاجیون نے تفسیرات احمدیہ میں اسی اصول پر آیات کا انتخاب کیا ہے، جن کی تعداد ۴۶۲/ ہے، نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے بھی نیل المرام میں آیات احکام کے استیعاب کی کوشش کی ہے، جن کی تعداد ۲۴۸/ ہوتی ہے، قرآن میں آیات احکام عبادات سے متعلق بھی ہیں اور معاملات سے بھی، نیز دیگر شعبۂ حیات سے بھی، شیخ عبدالوہاب خلاف نے عبادات کے علاوہ دوسرے مسائل سے متعلق آیات کی تعداد اس طرح لکھی ہے:
عائلی قوانین     (۷۰)       
قانون شہریت   (۷۰)      
احکام جرم وسزا (۳۰۱) 
 عدالتی قوانین  (۱۳)
دستوری قوانین  (۱۰)       
اقتصادی قوانین  (۱۰)     
قومی وبین قومی قوانین  (۲۵)
(علم اصول الفقہ للخلاف، صفحہ نمبر:۳۲،۳۱)
فقہی احکام کی اہمیت اور عملی زندگی سے اس کے تعلق کی وجہ سے بہت سے اہل علم نے آیات احکام کی تفسیر کا اہتمام کیا ہے، ان میں اہم کتابیں اس طرح ہیں:
احکام القرآن : امام ابوبکر حصاص رازی،متوفی:۳۷۰ھ
احکام القرآن :  ابوبکر احمد بیہقی،متوفی:۴۵۸ھ
یہ دراصل امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی افادات ہیں جس کوعلامہ بیہقی نے یکجا اور مرتب کیا ہے۔
احکام القرآن :ابوبکر محمد بن عربی،متوفی:۵۴۳ ھ
تفسیرات احمدیہ: ملااحمد جیون، متوفی:۱۱۳۰ ھ
نیل المرام من تفسیر آیات الاحکام:نواب صدیق حسن خان، متوفی:۱۳۰۷ ھ
احکام القرآن: مولانا ظفراحمد عثمانی، مولانا ادریس کاندھلوی اور مفتی شفیع صاحب عثمانی کی مشترکہ کوششوں سے مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی زیرنگرانی مرتب ہوا ہے، جو اپنے موضوع پر بہت مفصل اور جامع مجموعہ ہے۔
روائع البیان فی تفسیر آیات الاحکام من القرآن :شیخ محمدعلی صابونی
تفسیر آیات الاحکام: محمدعلی السائس، عبداللطیف السبکی، محمد ابراہیم محمد کرشون
ان کے علاوہ علامہ ابوعبداللہ محمد قرطبی متوفی:۶۷۰ھ کی الجامع لاحکام القرآن اور مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی متوفی:۱۲۲۵ ھ کی التفسیر المظہری اگرچہ پورے قرآن کی تفسیر ہے، لیکن اس پر فقہی رنگ غالب ہے اور قرآن کے فقہی احکام پر بہت شرح وبسط کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔
سنت رسول
احکامِ شرعیہ کا دوسرا ماخذ سنت رسول ہے، سنت رسول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، آپ  کا عمل نیز وہ قول وفعل ہے جو آپ کے سامنے آیاہو اور آپ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی ہو، سنت کے حجت ہونے پر امت کا اجماع واتفاق ہے؛ کیونکہ قرآن مجید میں کثرت سے مستقل طورپر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، فرمایا گیا کہ رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے، "مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ"(النساء: ۸۰) نیز اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے:
"وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوْا"۔     
   (الحشر:۷)
رسول جوکچھ لائے اسے قبول کرو اور جس سے منع کردے اس سے رک جاؤ۔
نیز سنت رسول اصل میں قرآن مجید کی تفسیر وتوضیح ہے؛ اسی لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں تین طرح کی ہیں، یاتو قرآن میں جو حکم ہے وہی سنت رسول میں بھی ہے، یاقرآن میں کوئی حکم مجمل ہے اور سنت نے اس کو واضح کردیا ہے، یا قرآن مجید اس سلسلہ میں خاموش ہے اور سنت کے ذریعہ اس صورت کا حکم معلوم ہوتا ہے۔
(الرسالہ:۹۱،۹۲،  باب ماابان اللہ لخلقہ من فرضہ علی رسولہ اتباع اوحی اللہ)
لیکن غور کیا جائے تو یہ صورت بھی قرآن مجید کے بتائے ہوئے اصولوں کے دائرہ میں آتی ہے، گویا قرآن نے ایک اصول بیان کردیا اور سنت کے ذریعہ اس کی تطبیق اور عملی صورتگری سامنے آگئی؛ اس لیے امام اوزاعی نے فرمایا کہ بیان وضاحت اور فہم مراد کے اعتبار سے قرآن کو حدیث کی حاجت زیادہ ہے، بمقابلہ اس حاجت کے جو حدیث کو قرآن کی ہے۔
"اَلْکِتَابُ أَحْوَجُ اِلٰی السُّنَّۃِ مِنَ السُّنَّۃِ  إِلٰی الْکِتَابِ"۔
(شرح السنۃ، للحسن بربہاری:۱/۳۵)
حقیقت یہ ہے کہ فقہی اعتبارسے احادیث کی بڑی اہمیت ہے، قرآن مجید ایک دستوری کتاب ہے، جس میں اصولی احکام دیئے گئے ہیں اور دین کے حدودِاربعہ کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے، حدیث کے ذریعہ ان قرآنی احکام کی عملی تصویر سامنے آجاتی ہے اوراس طرح اہل ہوس کے لیے قرآن کے معنوں میں الٹ پھیر، تحریف اور من چاہی تاویل کا دروازہ بند ہوجاتا ہے، جہاں حفاظ اورقاریوں کے ذریعہ الفاظِ قرآن کی حفاظت کا غیبی انتظام ہواہے، وہیں معنوی تحریف اور آمیزش سے حفاظت کا سروسامان حدیث کے ذریعہ انجام پایا ہے، اس طرح احادیث قرآن مجید کی معنوی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔
جو احادیث احکامِ فقہیہ سے متعلق ہیں ان کی تعداد تقریباً سات آٹھ ہزار ہے، کتبِ احادیث میں چونکہ مختلف سندوں سے آنے والی روایتوں کو مختلف حدیث شمار کرلیا جاتا ہے اس لیے ان کی تعداد زیادہ معلوم ہوتی ہے، لیکن مکررات کو چھوڑکر اصل مضمون اور متن کے اعتبارسے احادیثِ احکام کی تعداد سات آٹھ ہزار سے زیادہ نہ ہوگی، جن مصنفین نے ایسی حدیثوں کے جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے ان میں ہمارے علم کے مطابق مولانا ظفراحمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اعلاء السنن سب سے زیادہ جامع ہے، انہوں نے مولانا تھانویؒ کی سرپرستی میں یہ کام انجام دیا اور احادیث احکام کو بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ ایک جگہ جمع کردیا ہے، اس میں احادیث وآثار کی مجموعی تعداد چھ ہزار ایک سو بارہ ہے؛ جبکہ دوسری کتابیں جو اس موضوع پرہیں ان میں اس سے بہت کم تعداد ہیں:
"وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ"۔                
   (یوسف:۷۶)
احادیثِ احکام سے متعلق کتابیں اسی طرح کی ہیں، ایک وہ جس میں مختلف مضامین کی احادیث ہیں؛ لیکن احادیثِ احکام کی بھی ایک بڑی تعداد اس میں شامل ہے، چاہے اس کی ترتیب فقہی ہو یا نہ ہو، فقہی ترتیب پر جو کتابیں ہوں ان کو سنن کہا جاتا ہے؛ ایسی کتابیں جوسنن نہیں ہیں؛ لیکن ان میں احکام سے متعلق حدیثیں بکثرت ہیں وہ بہت ہیں؛ لیکن ان میں مشہور اور اہم کتابیں یہ ہیں:
بخاری شریف : امام محمد بن اسماعیل (متوفی:۲۵۶ ھ)
مسند ابوداؤد : طیالسی امام سلیمان بن داؤد طیالسی (متوفی:۲۰۴ ھ)
مسلم شریف : امام مسلم بن حجاج نیشاپوری (متوفی:۲۶۱ ھ)
المعجم الکبیر : امام ابوقاسم سلیمان بن احمد طبرانی (متوفی:۳۶۰ ھ)
صحیح ابن خزیمہ : امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ (متوفی:۳۱۱ ھ)
المعجم الاوسط : امام ابوقاسم سلیمان بن احمد طبرانی (متوفی:۳۶۰ ھ)
مسند امام احمد بن حنبل : امام احمد بن محمد بن حنبل (متوفی:۲۴۱ ھ)
المعجم الصغیر : امام ابوقاسم سلیمان بن احمد طبرانی (متوفی:۳۶۰ ھ)
مسند بزار : امام ابوبکر احمد بن عمروبن بزار (متوفی:۲۹۲ ھ)
مستدرک حاکم : امام ابوعبداللہ حاکم نیشاپوری (متوفی:۴۰۵ ھ)

جوکتب احادیث فقہی ترتیب پر جمع کی گئی ہیں، ان میں سے اہم کتابیں یہ ہیں:
موطا امام مالک : امام مالک بن انس (متوفی:۱۷۹ ھ)
موطا امام محمد : امام محمد بن حسن شیبانی (متوفی:۱۸۹ ھ)
کتاب الآثار : امام یعقوب ابو یوسف (متوفی:۱۸۲ ھ)
کتاب الآثار : امام محمد بن حسن شیبانی (متوفی:۱۸۹ ھ)
مصنف ابن ابی شیبہ : ابوبکر عبداللہ بن محمد ابی شیبہ کوفی (متوفی:۲۳۵ ھ)
مصنف عبدالرزاق : ابوبکر عبدالرزاق صنعانی (متوفی:۲۱۱ ھ)
سنن ترمذی : امام محمد بن عیسی بن سورہ ترمذی (متوفی:۲۷۹ ھ)
سنن ابوداؤد : ابوداؤد سلیمان سجستانی (متوفی:۲۷۵ ھ)
سنن نسائی : ابوعبدالرحمن احمد بن علی نسائی (متوفی:۲۱۵ ھ)
سنن دارمی : امام عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی (متوفی:۲۵۵ ھ)
سنن ابن ماجہ : امام محمد بن زید بن ماجہ قزوینی (متوفی:۲۷۳ ھ)
سنن دارقطنی : علی بن عمردار قطنی (متوفی:۲۸۵ ھ)
سنن بیہقی : حافظ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی (متوفی:۴۵۸ ھ)

کچھ کتابیں وہ ہیں جن کے مصنفین نے کتب احادیث کی روایات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور ان میں احادیث احکام کا بہت بڑا حصہ آگیا ہے؛ اس سلسلہ میں درج ذیل کتابیں خاص طورسے قابل ذکر ہیں:
جامع الاصول من احادیث الرسول:
یہ کتاب علامہ ابن اثیر کی ہے، جس میں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی اور مؤطا امام مالک کی احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:
یہ حافظ علی بن ابی بکر ہیتمی کی تالیف ہے، جس میں انہوں نے مسنداحمد، مسند ابویعلی موصلی، مسند بزار اور طبرانی کی تینوں معاجم کی ان زائد احادیث کو جمع کیا ہے جو صحاح ستہ میں موجود نہیں ہیں اور ضعیف احادیث کے درجہ اور مقام کو واضح کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے، اس طرح اس میں احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے۔
الجامع الصغیر من احادیث البشیرالنذیر:
یہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف ہے، جس میں انہوں نے (۱۰۱۳۱) حدیثیں سند کو حذف کرکے حروفِ تہجی کی ترتیب سے جمع کی ہیں اور ہرحدیث پر حدیث کے درجہ کی طرف رمزیہ الفاظ کے ذریعہ اشارہ بھی کیا ہے، پھر جو حدیثیں اس میں باقی رہ گئیں ان کو الفتح الکبیر کے نام سے جمع فرمایا، البتہ اس میں درجہ کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے، واقعہ ہے کہ ہرطرح کی حدیثوں کا یہ بہت بڑا ذخیرہ ہے؛ پھراس کی بنیاد پر علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الجامع الکبیر مرتب کی، جس میں قولی احادیث کی ترتیب حروفِ تہجی پر ہے اور فعلی احادیث کی ترتیب صحابہ کے نام پر ہے۔
جمع الفوائد بن جامع الاصول ومجمع الزوائد:
یہ محمد بن سلیمان مغربی کی تالیف ہے، جنہوں نے علامہ ابن اثیر کی جامع الاصول اورعلامہ ہیتمی کی مجمع الزوائد کی احادیث کو جمع کرنے کے علاوہ سنن ابن ماجہ اور سنن دارمی کی ان زائد احادیث کوبھی شامل کرلیا ہے جو صحاح ستہ میں موجود نہیں ہیں، اس کتاب میں حدیث کی چودہ اہم کتابوں کی احادیث یکجا ہوگئی ہیں اور اس طرح یہ کتاب احادیثِ نبوی کا عظیم انسائیکلو پیڈیا بن گئی ہے۔
کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال:
یہ علامہ علاء الدین علی متقی ہندی کی تالیف ہے، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پورے ذخیرۂ احادیث کو موضوعات کی ترتیب پر مرتب فرمایا ہے، یہ کتاب اس وقت احادیث کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جو ۴۶۶۲۴/ احادیث وآثارپرمشتمل ہے۔
بعدکے اہلِ علم نے کتب احادیث سے سندکو حذف کرکے صرف احادیث احکام کو جمع کرنے کی سعی کی ہے، اس سلسلے میں درج ذیل کتب اہم ہیں:
الاحکام                                      :        عبدالغنی مقدسی
عمدۃ الاحکام من سیدالانام              :        عبدالغنی مقدسی
الالمام لاحاد یث الاحکام                 :        ابن دقیق العبد
المنتقی فی الاحکام                         :        عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ حرانی
بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام             :        حافظ ابن حجر عسقلانی
آثارالسنن                           :        علامہ ظہیراحسن شوق نیمومی
اعلاء السنن                       :        مولانا ظفراحمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ
اس کے علاوہ احادیث احکام کا بہت بڑا حصہ ان کتابوں میں بھی آگیا ہے جن میں کسی فقہی کتاب کی مرویات کی تخریج کی گئی ہے، اس سلسلہ میں یہ کتابیں نہایت اہم اور احادیث احکام سے متعلق فنی مباحث کی جامع ہیں: "نصب الرایہ لاحادیث الھدایہ، الدرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ، التلخیص الحبیر، البدرالمنیر فی تخریج الاحادیث والآثار الواقعۃ فی الشرح الکبیر"۔
احادیث احکام کے سلسلے میں دو اور خدمتیں قابل ذکر ہیں: ایک وہ جو مسنداحمد بن حنبل پر کی گئی ہے، مسنداحمد بن حنبل ۲۷۶۳۴/احادیث پر مشتمل ہے، جو زیادہ تر صحیح اور حسن کے درجہ کی ہیں؛ مگر چونکہ اس کی ترتیب صحابہ کے ناموںپر ہے، اس لیے اس سے احادیثِ احکام کا نکالنا بہت دشوار کام تھا، علامہ احمد بن عبدالرحمن البنا نے الفتح الربانی کے نام سے اس کتاب کی مرویات کو فقہی ترتیب پر جمع کیا ہے اور اس کی نہایت عمدہ اور بصیرت افروز شرح بھی کی ہے، اس خدمت نے اہلِ علم کے لیے مسنداحمد سے استفادہ کو آسان کردیا ہے، حدیث کی اہم خدمات میں ایک صحیح ابن حبان بھی ہے، جو کتبِ حدیث کی عام ترتیب سے مختلف ہے، اس لیے اس سے استفادہ دشوار تھا؛ چنانچہ کمال یوسف الحوت نے"الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان" کے نام سے موضوع وار احادیث کو مرتب کیا ہے اور اس طرح فقہی موضوعات پربھی اس کتاب سے استفادہ آسان ہوگیا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ احکامِ شرعیہ میں عبادات اور حدود کا غالب ترین حصہ احادیث ہی پر مبنی ہے، اس لیے فقہ اسلامی کے مصادر میں حدیث کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اس سلسلہ میں محدثین نے جو سعی بے پایاں کی ہے، مذاہب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی "فَجَزَاھُمُ اللہُ خَیْرالْجَزَاء" مزید تفصیل کے لیے دیکھئے "حدیث کی تشریعی حیثیت"  "حدیث رسول اور فقہ اسلامی" اور"ضعیفِ حدیث اور قوت استدلال"۔
آثارِصحابہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دین کو براہ راست حضرات صحابہ نے حاصل کیا ہے اور انہی کے واسطہ سے یہ دین پوری امت تک پہنچا ہے، صحابہ سب کے سب عادل، معتبر، خداترس اور مخلص تھے؛ لہٰذا ان کے اقوال اور آراء کی خاص اہمیت ہے، بعض مسائل تو ایسے ہیں جن میں رائے اور اجتھاد کی گنجائش ہے اور بعض مسائل وہ ہیں جسے کوئی شخص اپنے اجتھاد سے اخذ نہیں کرسکتا، بلکہ لازماً ان کی بنیاد قرآن وحدیث ہی پرہوگی، اس دوسرے قسم کے مسائل میں صحابہ کی رائے احناف ومالکیہ کے نزدیک حجت اور دلیل ہے، اس لیے کہ ان کی رائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کسی بات پرہی مبنی ہوگی، گویا یہ بھی حدیث ہی کے درجہ میں ہے، آثارصحابہ کے نقل کرنے کا زیادہ اہتمام مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق میں کیا گیا ہے اور موجودہ دورمیں اس سلسلہ کی بہت قابلِ قدر خدمت ابوعبداللہ سید بن کسروری نے کی ہے کہ انہوں نے اپنے علم ودانست کے مطابق تمام آثارصحابہ کو "موسوعہ آثارالصحابہ" کے نام سے تین جلدوں میں جمع کردیا ہے، جس میں ۹۱۹۵ آثار ہیں، آثارصحابہ حدیث ہی میں داخل ہیں، آثارصحابہ کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے "فقہ اسلامی میں اقوال صحابہ کا مقام"۔
شرائع ماقبل
تمام پیغمبروں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو دین بھیجا ہے وہ ایک ہی دین ہے، اعتقادی اور اخلاقی احکام میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے؛ اس لیے کہ اس کا سرچشمہ ایک ہی ذات ہے اور اگر عقیدہ واخلاق کی ہدایت میں کوئی فرق پایا جاتا ہوتو یقینی طورپر یہ انسانی تحریفات اور آمیزش کا نتیجہ ہے؛ البتہ "عملی زندگی" کے احکام جو فقہ کا اصل موضوع ہے، مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں؛ کیونکہ انسانی تمدن کے مرحلہ بہ مرحلہ ارتقاء کا تقاضہ یہی تھا، پہلی قسم کے احکام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَاوَصّٰی بِہٖ نُوْحاً وَّالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَاوَصَّیْنَا بِہٖ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسٰی وَعِیْسٰی أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَاتَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ"۔         
(الشوریٰ: ۱۳)
اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم وموسی (علیہمالسلام) کو (مع ان سب کے اتباع کے) حکم دیا تھا (اور ان کی امم کو یہ کہا تھا) کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔
اور دوسری قسم کے احکام کے بارے میں ارشاد ہے:
"لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا"۔               
  (المائدہ:۴۸)
تم میں سے ہرایک کے لیے ہم نے ایک (خاص) شریعت اور راہ رکھی ہے۔
اس پس منظرمیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ شریعتوں کے احکام کی کیا حیثیت ہوگی، اس سلسلہ میں اہل علم نے جو گفتگو کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی کتابوں میں جو احکام آئے ہیں وہ چار طرح کے ہیں، اول وہ احکام جن کا قرآن وحدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، بالاتفاق اس امت میں وہ احکام قابل عمل نہیں ہیں، دوسرے وہ احکام جن کا قرآن وحدیث میں ذکر آیا ہے اور یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ یہ حکم سابقہ امت کے لیے تھا، اس امت میں یہ حکم باقی نہیں بلکہ منسوخ ہوچکا ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ امت محمدیہ میں اس حکم پر عمل نہیں کیا جائے گا، تیسرے وہ احکام ہیں جو قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں اور یہ بھی بتادیا گیا کہ یہ احکام اس امت کے لیے بھی ہیں، بالاتفاق اس شریعت میں بھی ان احکام پر عمل کیا جائے گا، چوتھے وہ احکام ہیں جن کو قرآن وحدیث نے پچھلی قوموں کی نسبت سے بیان کیا ہے؛ لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس امت کے لیے یہ حکم باقی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں دونظریہ ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اس امت کے لیے بھی یہ حکم باقی ہے، احناف اسی کے قائل ہیں اور دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس امت کے لیے یہ حکم باقی نہیں (الاحکام للآمدی) لیکن یہ اختلاف عملی اعتبار سے زیادہ اہم نہیں ہے؛ کیونکہ عملاً شایدہی کسی مسئلہ میں اس کی وجہ سے اختلاف رہاہو، شرائع ماقبل جو منسوخ نہیں ہوئی ہیں وہ کتاب اللہ میں داخل ہیں، شرائع ماقبل کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے "فقہ اسلامی میں سابقہ شریعت کا مقام"۔
غیرمنصوص مصادر
اجماع
جن شرعی دلائل کا ماخذ انسانی اجتھادہے ان میں سب سے قوی اجماع ہے‘ اجماع سے مراد کسی رائے پر رسول اللہ  کی وفات کے بعد امت کے مجتہدین کا متفق ہوجانا کیونکہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا کہ یہ امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوسکتی؛ گویا امت کے افراد کے انفرادی اجتھاد میں تو خطا کا احتمال ہے، لیکن اجتماعی حیثیت میں وہ معصوم ہیں اور کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوسکتے۔
اجماعی احکام میں کچھ تو وہ ہیں جن کی بنیاد احادیث پرہے، یعنی ایک حکم خبرواحد سے ثابت ہوا اور بعدکو تمام فقہاء اس پر متفق ہوگئے، اس طرح اس مسئلہ پر اجماع منعقد ہوگیا اور اجماع کی وجہ سے اس حکم نے قطعی اور یقینی حکم کا درجہ حاصل کرلیا اور کچھ احکام وہ ہیں جن کی بنیاد قیاس ومصلحت پرہے اور اس میں اجتھاد اور ایک سے زیادہ نقطۂ نظر کی گنجائش ہے، اس طرح کے احکام میں زیادہ تر اجماع کاانعقاد عہدِصحابہ میں ہواہے، کیونکہ اس عہدمیں تمام مجتہدین کی آراء سے واقف ہونا آسان تھا، خاص کر سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے اجتماعی غوروفکر اور شورائی اجتھاد کا خاص ذوق عطا فرمایا تھا، اس لیے ان کے عہدمیں نسبتاً زیادہ اجماع منعقد ہوئے۔
اجماعی احکام پر اہم تالیف علامہ ابن منذر متوفی:۳۱۸ ھ کی "کتاب الاجماع" ہے، جس میں ۷۶۵ اجماعی مسائل کا ذکر آیا ہے، اس سلسلہ میں ایک اہم خدمت اس دورمیں سعدی ابوحبیب نے کی ہے اور "موسوعۃ الاجماع" کے نام سے تمام اجماعی احکام کا احاطہ کرنے کی سعی کی ہے، اس کتاب میں ۱۳۰۴ اجماعی مسائل ذکر کئے گئے ہیں، یہ کتابیں ان معترضین کی تردید کرتی ہیں جن کے نزدیک اجماع کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ عملاً اجماعی مسائل کا وجود نہیں، اجماع کے بارے میں مزید تفصیل کے لیے دیکھئے "اجماع امت، فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ"۔
قیاس
غیرمنصوص مصادرمیں سے ایک قیاس بھی ہے، قیاس کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے برابر کرنے کے ہیں، کسی مسئلہ کے سلسلے میں قرآن وحدیث کی صراحت موجود نہ ہو؛ لیکن قرآن وحدیث میں اس سے ملتاجلتا کوئی مسئلہ موجودہو اور اس مسئلہ میں اللہ اوررسول کے حکم کی جو وجہ ہوسکتی ہو وہ اس مسئلہ میں بھی موجود ہو؛ چنانچہ یہاں بھی وہی حکم لگادیا جائے، اس کو قیاس کہتے ہیں، غور کیا جائے تو قیاس قرآن وحدیث کے مقابلہ میں دی جانے والی رائے نہیں ہے؛ بلکہ قیاس کے ذریعہ قرآن وحدیث کے حکم کے دائرہ کو وسیع کیا جاتا ہے۔
جن مسائل کی بابت نص موجودنہ ہو ان میں قیاس پر عمل کیا جائے گا، یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے، شرعی دلیلوں میں قیاس کوچوتھے درجہ پر رکھا گیا ہے؛ لیکن حدیث وقیاس یہ دونوں ایسے مصادر ہیں جن سے بیشتر فقہی احکام متعلق ہیں اور معاملات کے احکام کی بنیاد تو بڑی حدتک قیاس ہی پرہے؛ اس لحاظ سے یہ نہایت اہم ماخذ ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے "قیاس، حقیقت وضرورت"۔
دوسرے دلائل
ان دونوں کے علاوہ کچھ اور غیرمنصوص مصادرہیں جن سے وقتاً فوقتاً فقہ اسلامی میں مدد لی جاتی ہے، مثلاً:
استحسان
نص، اجماع، ضرورت ومصلحت، عرف وعادت اور غیرظاہر لیکن نسبتاً قوی قیاس کے مقابلہ میں ظاہری قیاس کو چھوڑدینے کا نام استحسان ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے "استحسان" اور "فقہ اسلامی"۔
مصالح مرسلہ
کتاب وسنت میں جن مصلحتوں کے معتبر ہونے کی صراحت ہے اور نہ نامعتبر ہونے کی، ان کو مصالح مرسلہ کہتے ہیں؛ اگر یہ شریعت کے مزاج اور عمومی ہدایات سے ہم آہنگ ہوں تو معتبر ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے "مصالح مرسلہ اور فقہ اسلامی"۔
استصحاب
گذشتہ زمانہ میں کسی امرکے ثابت ہونے کی وجہ سے موجودہ یا آئندہ میں بھی اس کو موجودہی مانا جائے تو اس کو اصطلاح میں استصحاب کہتے ہیں، تفصیل کے لیے دیکھئے "استصحاب اور فقہ اسلامی"۔
عرف
لوگ زندگی کے امور اور معاملات میں جس قول، فعل یا ترک فعل کے عادی ہوگئے ہوں ان کو عرف وعادت کہتے ہیں، عرف کا بدلے ہوئے حالات کے پس منظرمیں احکام کی تبدیلی سے گہرا تعلق ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے:"عرف وعادت اور فقہ اسلامی"۔
ذریعہ
ذریعہ کے معنی وسیلہ کے ہیں؛ لہٰذا اگر کوئی امر کسی واجب یا مستحب کا ذریعہ بنتاہو تو وہ ذریعہ مطلوب ہوگا اور اس کو فتح ذریعہ کہتے ہیں اور حرام ومکروہ کا ذریعہ بنتاہو تو وہ مذموم ہوگا، اس کو سدِذریعہ کہتے ہیں، پھر جو جس درجہ کا ذریعہ ہوگا اس نسبت سے اس کا حکم ہوگا، تفصیل کے لیے دیکھئے "سدذرائع اور فقہ اسلامی"۔
فقہ اسلامی کا امتیاز
جامعیت وہمہ گیری
فقہ اسلامی کو جو باتیں انسان کے خودساختہ قوانین سے ممتاز کرتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں جامعیت وہمہ گیری پائی جاتی ہے کہ یہ تمام انسانوں کی ضروریات کو پوری طرح حاوی ہے اور ان کی زندگی اور زندگی کے ہرحال کے متعلق مرتب وجامع نظام پیش کرتی ہے، جو انسان کی شخصی زندگی، عائلی زندگی، قبائلی وشہری زندگی اور ظاہری وروحانی زندگی کے ہرپہلو سے اس کی رہبری کرتی ہے، وہ صرف اجتماعی وسیاسی زندگی ہی تک محدود نہیں؛ بلکہ وہ انسان کی انفرادی وشخصی زندگی کے اصول بھی سکھاتی ہے، معاملہ عقائد وعبادات کاہو، اخلاق وتمدن کاہو، سیاست وحکومت کاہو، ملازمت و تجارت کاہو، تعلیم وتربیت کاہو، شادی بیاہ کاہو، سیروتفریح اور غم ومصیبت کاہو، غرض یہ کہ انسانی زندگی سے متعلق جس قسم کا بھی معاملہ ہو فقہ اسلامی اس میں انسان کی بھرپور رہنمائی کرتی ہے۔
عقل وحکمت سے مطابقت
فقہ اسلامی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں معقولیت بھی پائی جاتی ہے، علماء، محققین نے اپنی اپنی تصانیف میں پورے شرح وبسط کے ساتھ اس کی معقولیت پر گفتگو فرمائی ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، امام رازی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم نے اس پہلوپر سیرحاصل بحث کی ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ شریعت کے احکام عقل کے تقاضوں اور مصلحتوں کے عین مطابق ہیں؛ حتی کہ بعض اہل علم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شریعت تمام تر مصلحت ہی سے عبارت ہے اور ہرحکمِ شرعی کا مقصد یاتو کسی مصلحت کوپاناہے یاکسی نقصان اور مفسدہ کا ازالہ ہے:
"اِنَّ الشَّرِیْعَۃَ کُلَّہَا مَصَالِحٌ اِمَّادَرْأُ مَفَاسِدٍ اَوْجَلْبُ مَصَالِحٍ"۔
(قواعد الاحکام لعزالدین بن عبدالسلام:۱/۹)
اس کے برخلاف انسان کی عقل کوتاہ ونارساہے اور خود اپنے نفع ونقصان کو سمجھنے سے بھی قاصر وعاجز ہے، دوسرے انسان بعض اوقات خواہشات سے اس قدر مغلوب ہوجاتا ہے کہ کسی بات کو نقصان جانتے ہوئے بھی اس کو قبول کرلیتا ہے، اس کی واضح مثال شراب ہے، شراب انسان کے لیے نہایت نقصان دہ اور اس کی صحت کو برباد کردینے والی چیز ہے، اس پر اتفاق ہے، لیکن آج دنیا کے ان تمام ملکوں میں جو انسانی قانون کے زیرسایہ زندگی بسرکررہے ہیں شراب کی اجازت ہے، غیرقانونی جنسی تعلق اور ہم جنسی کے بارے میں تمام میڈیکل ماہرین متفق ہیں کہ یہ صحت کے لیے نہایت مہلک فعل ہے اور نہ صرف اخلاق کے لیے تباہ کن ہے بلکہ طبی نقطۂ نظرسے بھی سماج کے لیے زہرہلاہل سے کم نہیں ہے، اس کے باوجود عوامی دباؤ اور آوارہ خیال لوگوں کی کثرت سے مجبورہوکر بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ان خلافِ فطرت امور کی بھی اجازت دے دی گئی ہے، فقہ اسلامی کہیں بھی عقل اور حکمت ومصلحت سے برسرِپیکار نظر نہیں آتی اور اس کا ایک ایک حکم انسانی مفادومصلحت پر مبنی ہے۔
ابدیت ودوام
کسی بھی قانون کے مفید اور فعال رہنے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ اس میں حالات ومواقع کے لحاظ سے تغیرات کو قبول کرنے کی گنجائش رہے وہیں ایک گونہ ثبات ودوام اور بقاء واستمرار بھی ضروری ہے، جو قانون بالکل بے لچک اور تغیرناآشناہو وہ زمانہ کی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دے سکتا اور جس قانون میں کوئی بقاء واستحکام نہ ہو وہ انصاف قائم کرنے اور لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کے ہراصول میں شکست وریخت کی گنجائش ہوگی اور کسی بھی قانون کو لوگ اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھال سکیں گے۔
اسلام میں ان دونوں پہلوؤں کی رعایت ملحوظ ہے، کچھ احکام وہ ہیں جن کی بابت اصول وقواعد اور شریعت کے مقاصد کی وضاحت پر اکتفاء کیا گیا ہے، ہرعہدمیں جو مسائل پیداہوں ان کو ان اصولوں کی روشنی میں حل کیا جائے گا اور بعض مسائل میں شریعت نے جزوی تفصیلات کو بغیرکسی استثناء اور تخصیص کے متعین کردیا ہے، یہ تحدید اس بات کی علامت ہے کہ یہ قیامت تک قابلِ عمل ہے، اس طرح شریعت میں جو اصولی ہدایات دی گئی ہیں اور جن قواعد ومقاصد کی رہنمائی کی گئی ہے وہ ناقابلِ تبدیل ہیں، اس لیے قرآن نے اشارہ کیا ہے کہ قرآنی ہدایات کے ذریعہ دین پا یۂ کمال کو پہنچ گیا ہے (المائدہ:۳) اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلۂ نبوت کو ختم کردیا گیا ہے (الاحزاب:۴۰) لہٰذا اب خالقِ کائنات کی طرف سے کسی نئی شریعت کے آنے کا امکان باقی نہیں رہا، اب یہ انسانی سماج کے لیے ایسا موزوں قانون ہے کہ قیامت تک اس کی موزونیت اور اس کی افادیت کم نہیں ہوسکتی، کیونکہ فقہ اسلامی کا سرچشمہ وہ نصوص ہیں جوقیامت تک ہرطرح کے تغیرات واصطلاح سے ماوراء ہیں اور وضعی قوانین کی اساس انسانی خیالات وجذبات ہیں جو ہرآن وزمان تغیر وتبدیلی سے دوچار ہیں۔
فطرت انسانی سے ہم آہنگی
اللہ خود انسان کا خالق ہے اور اس کی ضروریات وتقاضے سے بھی پوری طرح واقف ہے؛ اس لیے اس نے جو شریعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے انسانیت کو عطاکی وہ پوری طرح فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے، اس لیے قرآن نے اسلام کو دینِ فطرت سے تعبیر کیا ہے۔                       
  (الروم:۳۰)
فطرت سے بغاوت ہمیشہ انسان کے لیے نقصان وخسران اور تباہی وبربادی کا سبب بناہے، انسان کے بنائے ہوئے قانون میں فطرت سے بغاوت کا رجحان قدم قدم پر ملتا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے عورت کی فطرت میں جلدبازی، زودرنجی اور بعجلت قدم اٹھانے کا مزاج رکھا ہے، اس لیے اسلام نے طلاق کا اختیار عورت کے ہاتھ میں نہیں رکھا، بلکہ مردکو طلاق کا اختیار دیا؛ لیکن مغرب نے مردوعورت کومساوی درجہ دیتے ہوئے طلاق کے معاملہ میں بھی دونوں کو یکساں حیثیت دے دی، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ طلاق کی شرح اس معاشرہ میں بہت بڑھ گئی؛ حتی کہ بہت سے ملکوں میں نکاح کے مقابلہ میں طلاق کی شرح بڑھی ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں خاندانی نظام بکھرکر رہ گیا ہے؛ اسی طرح انسانی فطرت ہے کہ سخت اور مناسب سزائیں ہی انسان کو جرم سے باز رکھ سکتی ہیں اور مجرم کے ساتھ حسنِ سلوک دراصل مظلوم کے ساتھ ناانصافی اور سماج کو امن سے محروم کردینے کے مترادف ہے؛ اس لیے اسلام میں قتل کی سزا قتل رکھی گئی ہے اور بعض دیگر جرائم میں بھی سخت سزائیں رکھی گئی ہیں؛ لیکن بعض ممالک میں ہمدردی وانسانیت کے نام پر مجرم کو سہولتیں دی گئیں، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ جرائم پر جسارت روز مرہ بڑھتی جارہی ہے اور جو سزائیں دی جارہی ہیں وہ جرائم کے سدباب کے لیے ناکافی ہیں، اس کے برخلاف شریعتِ اسلامی کے جس حکم کو بھی حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ اس میں قانونِ فطرت کی مطابقت غیرمعمولی حدتک پائی جاتی ہے، جبکہ انسان کے خودساختہ قوانین میں فطرت سے بغاوت اور خواہشات کے غلبہ کا رجحان ہرجگہ نمایاں ہے۔
توازن واعتدال
شریعتِ اسلامی کا ایک وصف اس کا توازن واعتدال بھی ہے، مثلاً مردوعورت انسانی سماج کے دولازمی جزہیں، دنیامیں کچھ ایسے قوانین وضع کئے گئے ہیں جن میں عورت کی حیثیت جانور اور بے جان املاک کی سی قرار دے دی گئی، نہ وہ کسی جائیداد کی مالک ہوسکتی تھی، نہ ہی تصرف کرسکتی تھی، نہ اس کو اپنے مال پر اختیارتھا، نہ اپنی جان پر، یہاں تک کہ اہلِ علم کے درمیان بحث جاری تھی کہ عورتوں میں انسانی روح پائی جاتی ہے یا حیوانی؟ اس کے بالمقابل دوسری طرف کچھ لوگوں نے عورتوں کو تمام ذمہ داریوں میں مردوں کے مساوی قراردے دیا، عورتوں کی جسمانی کمزوری، اس کے ساتھ پیش آنے والے قدرتی حالات وعوارض اور طبیعت ومزاج اور قوتِ فیصلہ پر ان کے اثرات کونظرانداز کردیا، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ بظاہرتو اسے عورت کی حمایت سمجھاگیا لیکن انجام کار اس آزادی نے سماج کو بے حیائی، اخلاقی انارکی، ناقابلِ علاج امراض اور خود عورتوں کو ناقابلِ تحمل ذمہ داریوں میں جکڑدیا۔
اسلام نے مردوں اور عورتوں سے متعلق نہایت متوازن قانون دیا ہے، انسانی حقوق میں مردوں اور عورتوںکو مساوی درجہ دیا گیا ہے "وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ" (البقرہ:۲۲۸) لیکن سماجی زندگی میں دونوں کے قوی اور صلاحیت کے لحاظ سے فرق کیا گیا ہے اور بال بچوں کی تربیت کی ذمہ داری عورتوںپر اور کسبِ معاش کی ذمہ داری مردوںپر رکھی گئی ہے، سماجی زندگی کا یہ نہایت زریں اصول ہے، جس میں خاندانی نظام کا بقاء، اخلاقی اقدار کی حفاظت اور عورت کو ناقابلِ برداشت مصائب سے بچانا ہے۔
دولت مندوں اور غریبوں، آجروں اور مزدوروں، عوام اور حکومت کے تعلقات اور مجرموں اور جرم سے متاثر مظلوموں کے درمیان انصاف وغیرہ احکام کو اگر حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو قانونِ شریعت میں جو اعتدال نظر آئے گا گذشتہ اور موجودہ ادوارمیں انسانوں کے بنائے ہوئے کسی قانون میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔
عدل وانصاف
شریعتِ اسلامی کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں انسانیت کے ساتھ مساویانہ سلوک ہے، دین کی بنیادہی دراصل عدل پرہے (النحل:۹۰) اس لیے اسلام کی نگاہ میں رنگ ونسل، جنس اور قبیلہ وخاندان کی بنیادپر کوئی تفریق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ"۔                               
(الحجرات:۱۳)
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مردوعورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو خاندانوں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک تم میں سب سے زیادہ معززاللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ تقوی اختیار کرنے والا ہو۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مزید واضح فرمایا: کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے (مسنداحمد، حدیث نمبر:۲۲۳۹۱) اسلام کے تمام قوانین کی اساس اسی اصول پرہے، برخلاف انسانی قوانین کے، انسانوں نے جوبھی قوانین وضع کئے ہیں وہ ایک گروہ کی برتری اور دوسرے طبقہ کی تذلیل وحق تلفی پر مبنی رہا ہے، لیکن اسلام نے دنیا کو ایک ایسے قانون سے روشناس کیا جس کی بنیاد انسانی وحدت مساوات اور ہرطبقہ کے ساتھ ایسے انصاف پر مبنی ہے جوکسی طبقہ کو حقیر اور اچھوت بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
حقیقی نافعیت
شریعتِ اسلامی حقیقی نافعیت اورمال وانجام کی سعادت پر مبنی ہے، انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں حقیقی نفع وضرر سے زیادہ خواہشات وجذبات کی رعایت ہے، شراب صحت انسانی کے لیے مضرہے، نشہ جنون کا ایک درجہ ہے، خنزیرکا گوشت مختلف طبعی بیماریوں اور اخلاقی مفاسد کی جڑہے، عصمت وعفت کے مذہبی تصورکے خلاف برہنگی ہے جواخلاقی اقدار کے بھی منافی ہے اور امن وسکون کی غارت گرہے، اسلام نے ان مضرتوںپر نظررکھی اور ان امور کے بارے میں اس کی مخالفت ناقابلِ تبدیل ہے، مگر وضعی قوانین ان تمام نقصانات کو تسلیم کرنے کے باوجود ہوائے نفسانی اور ہوسِ انسانی کے سامنے سپرانداز ہے۔
تنفیذ کی قوت
کسی بھی قانون کا نفاذ دوطریقوں سے ہوتا ہے، ایک تو سماج کے اندر قبولِ اطاعت کا جذبہ پیدا کرکے اور دوسرے قانون کے خلاف کرنے والوں کے لیے جبروقوت کا استعمال کرکے، کچھ طبیعتیں سلامتی اور شرافت کی حامل ہوتی ہیں، ان میں ازخود قانون پر عمل کرنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے؛ لیکن جن طبیعتوں میں سرکشی اور بغاوت ہوتی ہے یا جو خواہشات سے مغلوب ہوتی ہیں وہ جبروخوف کے بغیر سرِتسلیم خم نہیں کرتیں، انسانی قوانین میں عدالت اور پولیس اور دونوں شعبوں کے ذریعے سزاؤں کا خوف ہی انسان کو جرم سے باز رکھتا ہے، جبکہ شریعتِ اسلامی میں اس سے آگے ایک اور عقیدہ"آخرت کے ثواب وعذاب" کاہے؛ اس لیے قرآن وحدیث میں ہرحکم کے ساتھ اس کے ماننے پر آخرت کا اجر اور نہ ماننے پر آخرت کی سزا کا ذکر موجودہے، یہ ایسا انقلاب انگیز عقیدہ ہے جو طاقتورسے طاقتور انسان کے دل کو ہلاکر رکھ دیتا ہے اور بڑے بڑے مجرموں کو قانون کے سامنے سپرانداز ہونے پر مجبور کرتا ہے، جب کوئی آنکھ دیکھنے والی اور کوئی زبان ٹوکنے والی نہیں ہوتی اس وقت بھی یہ عقیدہ اس کے ہاتھوں کے لیے ہتھکڑی اوراس کے پاؤں کے لیے زنجیر بن جاتا ہے۔
مسلم سماج میں اس گئے گذرے دورمیں بھی اس کی مثالیں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں، مثلاً یہی منشیات کا مسئلہ ہے، آج پوری دنیا اس سے دوچار ہے اور اس کے نقصانات تسلیم شدہ ہیں، امریکہ نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے۱۹۳۰ء میں نشہ بندی کا ایک قانون بنایا اورشراب کی مضرتوں کو واضح کرنے کے لیے صرف تشہیرپر ۶۵/ ملین ڈالر خرچ کئے، نوہزار ملین صفحات شراب کے نقصانات پر لکھے گئے، ۲۰۰/آدمی قتل کئے گئے، ۵۰/لاکھ کو قیدکی سزا دی گئی، ان لوگوںپر جو جرمانے کئے گئے وہ بے شمار ہیں؛ لیکن اس کے باوجود طاقت سے قانون کو منوایا نہیں جاسکا اور سنہ۱۹۳۳ء میں امریکی حکومت اس بات پر مجبور ہوئی کہ اس قانون کو واپس لے لے؛ لیکن قرآن مجید نے جب شراب کو حرام قراردیا توعرب اس کے بے حد عادی تھے، یہاں تک کہ اسلام سے پہلے ان کی مذہبی تقریبات بھی شراب سے خالی نہیں ہوتی تھیں، لیکن شراب کی حرمت کا حکم آتے ہی لوگوں نے اپنا سرجھکادیا اور مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں شراب بہنے لگی، آج بھی صورتحال یہ ہے کہ جہالت وغفلت کے باوجود مسلمان سماج میں شراب سے جو احتیاط برتی جاتی ہے شایدہی اس کی مثال مل سکے؛ مغربی ممالک میں خاص طورپر اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ دوش بدوش زندگی گذارنے والے مسلمان اور غیرمسلم مئے نوشی کے اعتبارسے ایک دوسرے سے بہت مختلف کردار کے حامل ہوتے ہیں۔
اسی طرح زنا اور غیرقانونی جنسی تعلق کا معاملہ ہے کہ آج بھی اس معاملہ میں مسلم سماج دوسری قوموں سے بدرجہاغنیمت ہے، یہی وجہ ہے کہ ایڈس کی بیماری کی شرح مسلم ملکوں میں سب سے کم ہے، مغربی ملکوں میں شہرشہر بوڑھے لوگوں کے لیے ہاسٹل قائم کردیئے گئے ہیں، لوگ بوڑھے ماںباپ اور بزرگانِ خاندان کو ان ہاسٹلوں میں رکھ کر اپنا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں، لیکن مسلم سماج میں آج بھی ایسی خودغرضی نسبتاً کم پائی جاتی ہے، والدین کا احترام اور بزرگوں کی قدردانی کو لوگ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں، یہ آخرت کے خوف اور آخرت میں جوابدہی کے احساس کے بغیر نہیں ہوسکتا؛ الغرض وضعی قوانین کا نفاذ قانون کی طاقت ہی سے ممکن ہے؛ لیکن قانونِ شریعت کے نفاذمیں عقیدہ وایمان کی طاقت بھی موثر کردار ادا کرتی ہے۔



تدوین فقہ کے مراحل

عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
(۱)قرآن وحدیث کی بنیاد براہِ راست فرمانِ باری پر ہے، فرق یہ ہے کہ قرآن مجید میں الفاظ ومعانی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور حدیث میں الفاظ اور تعبیر رسول اللہ  کی طرف سے ہے؛ پس قرآن وحدیث کا سرچشمہ ذاتِ خداوندی ہے اور واسطہ رسول اللہ  کا ہے، اس لیے اس کے ذریعہ جوعلم حاصل ہوگا وہ معصوم ہوگا، یعنی غلطیوں اور خطاؤں سے محفوظ اور اجتہاد کے ذریعہ جواحکام اخذ کیے جاتے ہیں، ان میں خطاء کا احتمال موجود ہوتا ہے اور جب محفوظ طریقہ علم موجود ہوتوغیر محفوظ اور غلطی کا احتمال رکھنے والے ذریعہ علم کی ضرورت نہیں رہتی؛ اسی لیے عہدِ نبوی میں احکامِ فقہیہ کا مدار کتاب وسنت پرتھا۔
(۲)پھرچونکہ مکی زندگی میں آپ کے مخاطب زیادہ ترکفار ومشرکین تھے اور ابھی سب سے اہم مسئلہ ان کے دلوں میں ایمان کا پودا لگانے کا تھا؛ اس لیے زیادہ توجہ اعتقادی اور اخلاقی اصلاح کی طرف تھی، مکہ میں نبوت کے بعد آپ کا قیام بارہ سال پانچ مہینہ، تیرہ دن رہا ہے، قرآنِ مجید کی ایک سوچودہ سورتوں میں سے زیادہ ترسورتیں مکہ ہی میں نازل ہوئیں؛ کیونکہ بیس سورتوں کے مدنی ہونے پراتفاق ہے اور بارہ کے مکی یامدنی ہونے کی بابت اختلاف ہے، باقی بیاسی سورتیں بالاتفاق مکی ہیں۔
مکی زندگی میں قرآن کا خاص موضوع دعوتِ ایمان اور اصلاحِ عقیدہ تھا، ہاں بعض اُصولی احکام اور بعض متفق علیہ برائیوں کی مذمت سے متعلق ہدایاتِ زندگی میں بھی دی گئیں، جیسے قتل ناحق کی ممانعت (الانعام:۱۵۱) لڑکیوں کوزندہ درگور کرنے کی مذمت (التکویر:۹۷۸)، زناکی حرمت (المؤمنون:۵،۷)، یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کی ممانعت اور ناپ تول کودرست رکھنے کی ہدایات (الانعام:۸)، غیراللہ پرجانور یانذر کی ممانعت (الانعام:۱۳۶)، ان ہی جانوروں کا گوشت کھانے کی اجازت جن پرذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو (الانعام:۱۱۸)، عبادات میں بالاتفاق "نماز" مکی زندگی میں فرض ہوچکی تھی اور زکوٰۃ کے بارے میں اختلاف ہے؛ لیکن زکوٰۃ کا ذکر مکی آیات میں بھی ملتا ہے؛ ممکن ہے کہ مکہ میں اجمالی حکم دیا گیا ہو اور مدنی زندگی میں اس کی تنفیذ عمل میں آئی ہو، عملی زندگی سے متعلق احکام عام طور پر مدنی زندگی میں ہی دیئے گئے ہیں۔
(۳)قرآنِ مجید میں جوفقہی احکام آئے ہیں، ان میں بعض اپنے منشاء ومراد کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں، جیسے: نماز، روزہ، زکوٰۃ، وغیرہ کا فرض ہونا، زنا، قتل، تہمت تراشی کی حرمت، میراث کے احکام، نکاح میں محرم اور غیرمحرم رشتہ داروں کی تعیین، یہ عقیدہ کے درجہ میں ہیں اور ان کا انکار موجب کفر ہےــــــ اوربعض میں ایک سے زیادہ معنوں کا احتمال اور اختلافِ رائے کی گنجائش ہے؛ لہٰذا ان مسائل میں استنباط میں اختلافِ رائے کی وجہ سے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی جاسکتی۔
قرآن کا طرزِ بیان فقہی اور قانونی کتابوں جیسا نہیں ہے کہ ایک موضوع سے متعلق تمام مسائل ایک ہی جگہ ذکر کردیئے گئے ہوں؛ بلکہ قرآن میں حسب ضرورت ایک موضوع سے متعلق احکام مختلف مقامات پر آیا کرتے ہیں اور فقہی احکام کے ساتھ ترغیبات وترہیبات اور ان احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں پربھی روشنی ڈالی جاتی ہے؛ تاکہ انسان کواس کے تقاضے پرعمل کرنے کی رغبت ہو؛ کیونکہ قرآن مجیدکا اصل مقصد ہدایت ہے۔
(۴)حدیث نبوی کے سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ رسول اللہ  کی دوحیثیتیں تھیں، ایک بشری اور دوسرے نبوی؛ چنانچہ آپ کی بشریٰ حیثیت کوقرآن نے پوری تاکید سے بیان کیا ہے:
"قُلْ إِنَّمَاأَنَابَشَرٌ مِثْلُكُمْ"۔                      
(الکہف:۱۱۰)
اس حیثیت سے آپ  نے جوبات فرمائی ہو، اس کی حیثیت حکم شرعی کی نہیں ہوگی؛ جیسا کہ آپ نے ابتداءً اہلِ مدینہ کوکھجور میں "تابیر" یعنی کھجور کے مادہ درخت میں نردرخت کے ایک خاص حصہ کوڈالنے سے منع فرمایا تھا؛ لیکن جب اس کی وجہ سے پیداوار گھٹ گئی توآپ  نے اپنی ہدایت کوواپس لے لیا اور فرمایا:
"أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ"۔
(مسلم،كِتَاب الْفَضَائِلِ،بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَاقَالَهُ شَرْعًا دُونَ مَاذَكَرَهُ مِنْ مَعَايِشِ الدُّنْيَا،حدیث نمبر:۴۳۵۸، شاملہ، موقع الإسلام)
لیکن یہ فرق کرنا بہت دشوار ہے کہ آپ کے کون سے احکام بشری حیثیت سے تھے، اس لیے جب تک اس پرکوئی واضح دلیل موجود نہ ہو، آپ کے تمام فرمودات اور معمولات کی حیثیت شرعی ہی ہوگی۔
(۵)آپ کے بعض افعالِ طبعی نوعیت کے ہیں، مثلاً: آپ کے استراحت کا انداز، کسی غذا کا آپ کو پسند آنا اور کسی غذا کا آپ کوپسند نہ آنا، چلنے، بیٹھنے، گفتگو کرنے، ہنسنےاور مسکرانے کی مبارک ادائیں، ان میں جن اُمور کوباختیار عمل میں لایا جاسکتا ہو، وہ بھی مستحب کے درجہ میں ہوں گے اور جوباتیں آدمی کے ارادہ واختیار سے باہر ہیں، ان سے شرعی حکم متعلق نہیں ہوگا؛ کیونکہ حکم شرعی کا تعلق ارادہ واختیار اور قوت واستطاعت سے ہے۔
(۶)بعض افعال آپ نے بطورِ وقتی تدبیر کے کیے ہیں، جیسے میدانِ جنگ میں جگہ کاانتخاب، راستہ کا انتخاب، فوجوں کی صف بندی، وغیرہ، یہ احکام بحیثیت امیر آپ کی طرف سے تھے اور اُس وقت جوصحابہ موجود تھے، ان پراس کی اطاعت فرض تھی، آئندہ ان اُمور کے سلسلہ میں مناسب حال تدبیر کا اختیار کرنا درست ہوگا۔
(۷)جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ اس عہد میں احکامِ شرعیہ کا اصل ماخذ توقرآن وحدیث ہی تھا؛ لیکن آپ سے اجتہاد کرنا بھی ثابت ہے، ایک خاتون آپ کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا، ان کے ذمہ نذر کے روزے باقی تھے، کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھ لوں؟ آپ  نے فرمایا اگرتمہاری ماں پرکسی کا قرض باقی ہوتا توکیااسے ادا کرتیں؟ انھوں نے کہا: ہاں! آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا قرض زیادہ قابل ادائیگی ہے:
"فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى"۔
(بخاری، كِتَاب الصَّوْمِ،بَاب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ،حدیث نمبر:۱۸۱۷، شاملہ، موقع الإسلام۔ السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر:۸۴۸۴، شاملہ،موقع وزارة الأوقاف المصرية)
دیکھئے! یہاں حضور  نے اجتہاد وقیاس سے کام لیا ہے؛ البتہ اگرآپ سے اجتہاد میں لغزش ہوجاتی تواللہ تعالیٰ کی طرف سے متنبہ کردیا جاتا؛ چنانچہ غزوۂ بدر کے قیدیوں کے سلسلہ میں آپ  نے فدیہ لے کررہا کردینے کا فیصلہ فرمایا، اس فیصلہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی (الانعام:۶۷،۶۸) اسی طرح غزوۂ تبوک کے موقع سے آپ نے پیچھے رہ جانے والے منافقین کی معذرت اپنے اجتہاد سے قبول کی اور اس پراللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہوئی۔                   
  (التوبۃ:۴۳)
پس آپ نے اجتہاد بھی فرمایا ہے، فرق یہ ہے کہ اگرآپ سے اجتہاد میں کوئی لغزش ہوجاتی توآپ  کواس پرتنبیہ فرمادیا جاتا؛ اس لیے آپ  کا اجتہاد بھی نص کے حکم میں ہے۔
(۸)آپ کے عہد میں صحابہؓ نے بھی اجتہاد کیا ہے، آپ  کی عدم موجودگی میں توکیا ہی ہے؛ کیونکہ خود آپ  نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کواجازت دی تھی کہ اگرقرآن وحدیث میں حکم نہ ملے تواجہتاد سے کام لو اور صحابہؓ نے آپ کے ارشاد پرعمل بھی کیا، مثلاً حضرت علیؓ کے پاس یمن میں ایک لڑکے کے سلسلہ میں تین دعویدار پہنچے، حضرت علیؓ نے پہلے توہرایک کوراضی کرنے کی کوشش کی کہ وہ دوسرے کے حق میں دستبردار ہوجائے؛ لیکن جب کوئی اس پرآمادہ نہ ہوا توقرعہ اندازی کرکے جس کے حق میں قرعہ نکلا اس کولڑکا حوالہ کردیا اور باقی دونوں سے کہا کہ وہ دونوں کوایک ایک تہائی دیت ادا کرے:
"وممن حكم باجتهاده"۔ 
(الفقيه والمتفقه للخطيب البغدادي:۲/۷۸،شاملہ،موقع جامع الحديث)
رسول اللہ کی عدم موجودگی میں صحابہؓ کے اجتہاد کے اور بھی متعدد واقعات موجود ہیں۔
(۹)بعض اوقات حضور  کی موجودگی میں بھی صحابہؓ نے اجتہاد فرمایا ہے، اس کی واضح مثال آپ  کی موجودگی میں غزوہ بنوقریظہ کے موقع سے بنو قریظہ کے معاملہ میں حضرت سعد بن معاذؓ کا فیصلہ کرنا ہے؛ اسی طرح امام احمدؓ نے حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ سے نقل کیا ہے کہ آپکی خدمت میں ایک مقدمہ آیا، آپ نے حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کواس کا فیصلہ کرنے کا حکم فرمایا؛ انھوں نے معذرت بھی کرنی چاہی؛ لیکن آپ  نے حکم دیا اور فرمایا کہ اگرصحیح فیصلہ کروگے تودس نیکیاں ملیں گی اور اگرکوشش کے بعد غلطی ہوجائے، تب بھی ایک نیکی ضرور ہی حاصل ہوگی۔                    
(مسنداحمد، حدیث نمبر:۱۷۷۹۱)
(۱۰)عرب چونکہ اصل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُمت تھے، اس لیے بہت سی روایات ورواجات، صالح، منصفانہ اور شریفانہ بھی پائے جاتے تھے، جیسے: قصاص، دیت، قسامت، مقدمات کے ثابت کرنے کا طریقہ، نکاح میں حرام رشتے وغیرہ؛ لیکن بہت سے طریقے غیرشریفانہ اور غیرمنصفانہ تھے، شریعتِ اسلامی نے عام طور پرپہلی قسم کے احکام کوباقی رکھا اور دوسری قسم کے احکام کی اصلاح فرمائی؛ یہاں اختصار کے ساتھ کچھ اصلاحی ہدایات وترمیمات کا ذکر کیا جاتا ہے:
زمانۂ جاہلیت منہ میں ایک طریقہ "نکاح شغار" کا تھا، دومرد ایک دوسرے سے اپنی محرم خاتون کا نکاح کرتے تھے اور ایک نکاح کودوسرے کے لیے مہر ٹھہراتے تھے، رسول اللہنے اس سے منع فرمایا؛ اسی کونکاحِ شغار کہا جاتا تھا۔ 
  (بخاری:۵۱۱۲۔ مسلم:۳۴۶۵)
والد کی وفات کے بعد لڑکا سوتیلی ماں سے اپنا نکاح کرلیتا تھا؛ اگروہ خود نکاح نہ کرتا تواسے یہ حق ہوتا کہ کسی اور سے نکاح کردے اور مہروصول کرلے یااسے نکاح کرنے سے روک دے؛ یہاں تک کہ اس کی موت ہوجائے اور یہ اس کے مال کا وارث ہوجائے (احکام القرآن للجصاص:۱/۱۰۶،۲۰۲) قرآن نے اس طریقہ کی مذمت فرمائی اور اس سے منع کردیا۔                 
(النساء:۱۹،۳۲)
نکاح میں دوبہنوں کوجمع کیا جاتا تھا اور غیرمحدود تعداد ازدواج کی اجازت تھی؛ یہاں تک کہ جب غیلان ثقفی مسلمان ہوئے توان کی دس بیویاں تھیں، قرآن نے دوبہنوں کوجمع کرنے اور چار سے زیادہ نکاح کرنے کومنع فرمادیا۔
زمانۂ جاہلیت میں منھ بولے بیٹے اور بیٹی کوبھی اپنی اولاد کا درجہ دیا جاتا تھا، نکاح کے معاملہ میں بھی اور میراث کے معاملہ میں بھی، اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی: "وَمَاجَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ"         
  (الأحزاب:۴)
زمانۂ جاہلیت میں عورت کے مہرپرولی قبضہ کرلیتا تھا، قرآن مجید نے کہا کہ عورت کا مہرعورت کودیا جائے "وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً"
(النساء:۶)
طلاق کی کوئی تعداد متعین نہ تھی، جتنی چاہتے طلاق دیتے جاتے اور عورت کونکاح سے آزاد بھی نہ ہونے دیتے
(فتح القدیر:۳/۱۳) قرآن نے طلاق کوتین تک محدود کردیا۔                 
(البقرۃ:۲۳)
"ایلاء" سال دوسال کا بھی ہوا کرتا تھا، جوظاہر ہے کہ عورت کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ بات تھی، قرآن مجید نے چار ماہ کی مدت مقرر کردی کہ اگرقسم کھاکر اس سے زیادہ بیوی سے بے تعلق رہے توطلاق واقع ہوجائے گی۔    
  (احکام القرآن للجصاص:۱/۳۷۰)
ظہار یعنی بیوی کومحرم کے کسی عضو حرام سے تشبیہ دینے کوطلاق تصور کیا جاتا تھا (احکام القرآن للجصاص:۳/۴۱۷) قرآن نے اسے طلاق توقرار نہیں دیا؛ لیکن اس پرکفارہ واجب قرار دیا۔         
  (المجادلہ:۴۔۲)
عدت سال بھرہوا کرتی تھی، قرآن نے وضع حمل اور غیرحاملہ کے لیے وفات کی صورت میں چار ماہ دس دن اور طلاق کی صورت میں جوان عورت کے لیے تین حیض اور دوسروں کے لیے تین ماہ قرار دی۔
اسلام سے پہلے وارث اور غیروارث دونوں کے لیے جتنے مال کی چاہے وصیت کرسکتے تھے، اسلام نے وارث کے لیے وصیت کوغیرمعتبر قرار دیا اور وصیت کی مقدار ایک تہائی تک محدود کردیا۔          
(بیان القرآن، سورۃ البقرۃ: ۱۸۲۔۱۸۰)
میراث کا قانون بڑا ظالمانہ تھا، صرف ان مردوں کوجوجنگ میں لڑنے کے قابل ہوتے، انھیں میراث دی جاتی تھی اور نابالغوں کے لیے میراث میں حصہ نہیں تھا، اسلام نے عورتوں اور نابالغ بچوں کوحق میراث عطا کیا۔
عرب سود کودرست سمجھتے تھے، اسلام نے نہایت سختی کے ساتھ اس کومنع کردیا۔
مال رہن کا قرض دینے والا مالک ہوجاتاتھا؛ اگرمقروض نے وقت پرقرض ادا نہیں کیا، اسلام نے اس بات کی تواجازت دی کہ اگرمقروض قرض ادا نہیں کرے توبعض صورتوں میں مال کوفروخت کرکے اپنا قرض وصول کرلے اور باقی پیسہ واپس کردے؛ لیکن یہ درست نہیں کہ پورے مال رہن کا مالک ہوجائے۔                               
(دیکھئے، احکام القرآن للجصاص:۱/۵۱۰)
زمانۂ جاہلیت میں ایک طریقہ یہ تھا کہ خریدوفروحت کے درمیان اگربیچی جانے والی شئی کوچھوڑدیا، یااس پرکنکری پھینک دی تواس کے ذمہ اس کا خریدنا لازم ہوگیا، جس کومنابذہ، ملامسہ، بیع حصاۃ کہا کرتے تھے، رسول اللہ  نے اس طریقہ پرخریدوفروخت کومنع فرمایا (بخاری، حدیث نمبر:۲۱۴۷) بیع ملامسہ وغیرہ کی بعض اور تعریفیں بھی کی گئی ہیں جسے بیع کے لفظ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
لوگ کسی سامان کی قیمت کوبڑھانے کے لیے مصنوعی طور پربولی لگادیتے تھے، اس کو"نجش" کہتے ہیں، آپ نے اس کوبھی منع فرمایا۔
قتل اور جسمانی تعدی میں لوگ صرف قاتل اور ظالم ہی سے بدلہ نہیں لیتے تھے؛ بلکہ اس کے متعلقین اور پورے قبیلہ کومجرم کا درجہ دیتے تھے، قرآن نے اس کومنع کیا اور صرف مجرم کوسزاوار ٹھہرایا۔
حج میں قریش مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے اور اسے اپنے لیے باعثِ ہتک سمجھتے تھے، قرآن مجید نے سبھوں کوعرفات جانے کا حکم دیا (البقرۃ:۱۹۹) بلکہ وقوفِ عرفہ کوحج کارکنِ اعظم قرار دیا گیا۔
پس زمانۂ جاہلیت کے بہت سے احکام میں شریعتِ اسلامی نے اصلاح کی اور جورواجات عدل وانصاف کے تقاضوں کے خلاف تھے، ان کوکالعدم قرار دے دیا۔
دوسرا مرحلہــــــ  خلافتِ راشدہ
یہ عہد ۱۱/ہجری سے شروع ہوکر ۴۰/ہجری پرختم ہوتا ہے۔
(۱)اس عہد میں احکامِ شریعت کے اخذ واستنباط کا سرچشمہ قرآن مجید اور حدیثِ نبوی کے علاوہ اجماعِ اُمت اور قیاس تھا؛ چنانچہ حضرت عمرؓ نے قاضی شریح کوجوخط لکھا، اس میں حسب ذیل نصیحت فرمائی:
"جب کتاب اللہ میں کوئی حکم پاؤ تواس کے مطابق فیصلہ کرو، کسی اور طرف توجہ نہ کرو؛ اگرکوئی ایسا معاملہ سامنے آئے کہ کتاب اللہ میں اس کا حکم نہ ہو، تورسول اللہ کی سنت کے مطابق فیصلہ کرو؛ اگرکتاب اللہ میں نہ ملے اور نہ سنتِ رسول میں، توجس بات پرلوگوں کااجماع ہو اس کے مطابق فیصلہ کرو، نہ کتاب اللہ میں ہو، نہ سنتِ رسول میں اور نہ تم سے پہلوں نے اس سلسلہ میں کوئی رائے ظاہر کی ہو، تواگرتم اجتہاد کرنا چاہو تواجتہاد کے لیے آگے بڑھو اور اس سے پیچھے ہٹنا چاہو، توپیچھے ہٹ جاؤ اور اس کومیں تمہارے حق میں بہتر ہی سمجھتا ہوں"۔
(جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر، باب اجتہاد الرأی علی الأصول من عدم النصوص، الخ)
(۲)حضرت ابوبکرؓ بھی اس بات کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ جن مسائل کے بارے میں قرآن وحدیث کی کوئی نص موجود نہ ہو، ان میں اہم شخصیتوں کوجمع کیا جائے اور ان سے مشورہ کیا جائے اور اگروہ کسی بات پرمتفق ہوجائیں تواس کے مطابق فیصلہ کیا جائے (سنن دارمی:۱/۵۳، باب الفتیا ومافیھا من الشدۃ) چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پرجواتفاق ہوا، وہ آپ ہی کی پہل پر؛ اسی طرح بعض مسائل پراجماع منعقد ہونے میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی سعی کودخل رہا ہے، جیسے مانعین زکوٰۃ سے جہاد، رسول اللہ کی متروکات میں میراث کا جاری نہ ہونا، رسول اللہ کا آپ کی جائے وفات پردفن کیا جانا، قرآن مجید کی جمع وترتیب، وغیرہ۔
(۳)چونکہ رسول اللہ  کے بعد غیرمنصوص مسائل میں اجہتاد کے سوا چارہ نہیں تھا؛ اس لیے صحابہ کے درمیان اختلافِ رائے بھی پیدا ہوا، بعض مواقع پرکوشش کی گئی کہ لوگوں کوایک رائے پرجمع کیا جائے؛ لیکن اس کے باوجود نقاطِ نظر کا اختلاف باقی رہا، صحابہ کا مزاج یہ تھا کہ وہ اس طرح کے اختلافات کومذموم نہیں سمجھتے تھے اور پورے احترام اور فراخ قلبی کے ساتھ دوسرے کواختلاف کا حق دیتے تھے، اس کی چند مثالیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں:
حضرت عمر اور عبداللہ بن مسعودؓ کے نزدیک بیوہ حاملہ عورت کی عدت ولادت تک تھی اور غیرحاملہ کی چار مہینے دس روز، حضرت علی اور عبداللہ بن عباسؓ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ولادت اور چارماہ دس دنوں میں سے جومدت طویل ہو وہ عدتِ وفات ہوگی۔
حضرت عمر اور عبداللہ بن مسعودؓ کے نزدیک مطلقہ عورت کی عدت تیسرے حیض کے غسل کے بعد پوری ہوتی تھی اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نزدیک تیسرا حیض شروع ہوتے ہی عدت پوری ہوجاتی تھی، حضرت ابوبکر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ باپ کی طرح دادا بھی سگے بھائیوں کومیراث سے محروم کردے گا، حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کواس سے اختلاف تھا۔
ایک بڑا اختلاف عراق وشام کی فتوحات کے وقت پیدا ہوا، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مالِ غنیمت کے عام اُصول کے مطابق اسے مجاہدین پرتقسیم کردیا جائے اور حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ وغیرہ کی رائے تھی کہ اسے بیت المال کی ملکیت میں رکھا جائے؛ تاکہ تمام مسلمانوں کواس سے نفع پہنچے اور طویل بحث ومباحثہ کے بعد اسی پرفیصلہ ہوا۔
حضرت عثمانِ غنیؓ کا فتویٰ یہ تھا کہ خلع حاصل کرنے والی عورت پرعدت واجب نہیں، صرف فراغتِ رحمکوجاننے کے لیے ایک حیض گذارنا ضروری ہوگا، دوسرے صحابہ مکمل عدت گذارنے کوواجب قرار دیتے تھے۔
اس طرح کے بیسیوں اختلاف عہدِ صحابہ میں موجود تھے، کتبِ فقہ اور خاص کرشروحِ حدیث ان کی تفصیلات سے بھری پڑی ہیں اور موجودہ دور کے معروف صاحب علم ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے صحابہ کی موسوعات کوجمع کرنے کا کام شروع کیا ہے، اس سے مختلف صحابہ کی فقہ اور ان کا فقہی ذوق اور منہج استنباط واضح طور پرسامنے آتا ہے۔
(۴)حضرت عمرؓ نے لوگوں کوبعض اختلافی مسائل میں ایک رائے پرجمع کرنے کی خاص طور پرکوشش فرمائی؛ چنانچہ بعض مسائل پراتفاق رائے ہوگیا اور جن میں اتفاق نہیں ہوسکا، ان میں بھی کم سے کم جمہور ایک نقطہ نظر پرآگئے، ان میں سے چند مسائل یہ ہیں:
اس وقت تک شراب نوشی کی کوئی سزا متعین نہیں تھی، حضرت عمرؓ نےاس سلسلہ میں اکابر صحابہؓ سے مشورہ کیا، حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص شراب پیتا ہے تونشہ میں مبتلا ہوتا ہے؛ پھرنشہ کی حالت میں ہذیان گوئی شروع کرتا ہے اور اسمیں لوگوں پربہتان تراشی بھی کرگزرتا ہے؛ اس لیے جوسزا تہمت اندازی (قذف) کی ہے، یعنی اسی (۸۰) کوڑے، وہی سزا شراب نوشی پربھی دے دی جانی چاہئے؛ چنانچہ اسی پرفیصلہ ہوا (مؤطا امام مالک، حدیث نمبر:۷۰۹)بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے بھی اسی (۸۰) کوڑے کا مشورہ دیا تھا۔
اگرکوئی شخص لفظ بتہ کے ذریعہ طلاق دے، تواس میں ایک طلاق کا معنی بھی ہوسکتا ہے اور تین طلاق کا بھی؛ چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ طلاق دینے والے کی نیت کے مطابق فیصلہ کیا جاتا تھا، حضرت عمرؓ کا احساس یہ تھا کہ بعض لوگ اس گنجائش سے غلط فائدہ اُٹھاتے ہیں اور غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ میری نیت ایک طلاق کی تھی، اس لیے انھوں نے اس کے تین طلاق ہونے کا فیصلہ فرمایا۔
رسول اللہ  سے نمازِ تراویح کی رکعات کی تعداد صحیح طور پرثابت نہیں ہے؛ کیونکہ آپ نے اس نماز کے واجب ہوجانے کے اندیشے سے دوتین شب کے علاوہ صحابہؓ کے سامنے یہ نماز ادا نہیں فرمائی، مختلف لوگ تنہا تنہا پڑھ لیتے تھے، حضرت عمرؓ نے ایک جماعت بنادی، ان پرحضرت ابی بن کعبؓ کوامام مقرر کیا اور تراویح کی بیس رکعتیں مقرر فرمادیں، جوآج تک متوارثاً چلا آرہا ہے۔
(۵)صحابہ اور خاص کرحضرت عمرؓ نے بعض فیصلے شریعت کی مصلحت اور اس کے عمومی مقاصد کوسامنے رکھ کربھی کئے ہیں، جیسے: حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں "مولفۃ القلوب" جوزکوٰۃ کی ایک اہم مد ہے، کوروک دیا تھا؛ کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تھی اور اسلام کی شوکت قائم ہوگئی تھی؛ لہٰذا ان کے خیال میں اب اس مد کی ضرورت باقی نہیں تھی۔
حضرت عمرؓ کے دور میں ایک شدید قحط پڑا کہ لوگ اضطرار کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے، اس زمانہ میں حضرت عمرؓ نے چوری کی سزا موقوف فرمادی؛ اسی طرح حضرت حاطب بن بلتعہ کے غلاموں نے قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کی اُونٹنی چوری کرلی، آپؓ نے ان غلاموں کے ہاتھ نہیں کاٹے، حضرت عمرؓ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اس وقت لوگ حالتِ اضطرار میں ہیں اور اضطراری حالت میں چوری کرنے سے حدجاری نہیں ہوگی؛ کیونکہ انسان اختیاری افعال کے بارے میں جواب دہ ہے، نہ کہ اضطراری افعال کے بارے میں۔
حضور  نے بھٹکی ہوئی اُونٹنی کوپکڑنے سے منع فرمایا؛ کیونکہ وہ خود اپنی حفاظت کرسکتی ہے؛ یہاں تک کہ اُس کا مالک اُس کوپالے، حضرت ابوبکر وعمرؓ کے دور میں اسی پرعمل رہا؛ لیکن حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے زمانہ میں ایسی اُونٹنی کوپکڑلینے اور بیچ کراس کی قیمت کومحفوظ رکھنے کا حکم دیا تآنکہ اس کا مالک آجائے
(شرح الزرقانی علی المؤطا لمالک:۳/۱۲۹) کیونکہ اخلاقی انحطاط کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ بدقماش لوگ ایسی اونٹنی کوپکڑلیں؛ گویا منشا اونٹنی کی حفاظت تھا، طریقہ کار، زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بدل گیا۔
اسی طرح اگرکوئی شخصی مرضِ وفات میں اپنی بیوی کوطلاق بائن دے دے، توشریعت کے عمومی اُصول کا تقاضا تویہی تھا کہ مطلقہ کواس مرد سے میراث نہ ملے؛ لیکن چونکہ اس کوبعض غیرمنصف مزاج لوگ بیوی کومیراث سے محروم کرنے کا ذریعہ بناسکتے تھے، اس لیے صحابہ نے ظلم کے سدباب کی غرض سے ایسی مطلقہ کوبھی مستحق میراث قرار دیا، حضرت عثمان غنیؓ کا خیال تویہ تھا کہ اگرعدت ختم ہونے کے بعد شوہر کی موت ہو، تب بھی عورت وارث ہوگی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ عدت کے اندر شوہر کی وفات کی صورت میں عورت کومیراث ملے گی۔
اسی طرح امن وامان اور حفاظتِ جان کی مصلحت کے پیشِ نظر حضرت علیؓ کے مشورہ پرحضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگرایک شخص کے قتل میں ایک جماعت شریک ہوتوتمام شرکاء قتل کئے جائیں گے۔
(۶)صحابہ فروعی مسائل میں اختلاف رائے کوبرا نہیں سمجھتے تھے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے؛ اگرکوئی شخص سوال کرنے آئے توایک دوسرے کے پاس تحقیق مسئلہ کے لیے بھیجتے تھے اور اپنی رائے پرشدت نہ اختیار کرتے تھے، حضرت عمرؓ سے ایک صاحب ملے اور حضرت علیؓ اور زید بن ثابتؓ کا فیصلہ انھیں سنایا، حضرت عمرؓ نے سن کر کہا: کہ اگرمیں فیصلہ کرتا تواس کے برخلاف اس طرح کرتا، ان صاحب نے کہا کہ آپ کوتواس کا حق اور اختیار حاصل ہے؛ پھرآپ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ فرمادیں، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگرمیرے پاس اللہ، رسول کا حکم ہوتا تومیں اس کونافذ کردیتا؛ لیکن میری بھی رائے ہے اور رائے میں سب شریک ہیں؛ چنانچہ انھوں نے حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ کے فیصلہ کوبرقرار رکھا:
"والرأی مشترک فلم ینقص ماقال علی وزید"۔           
(اعلام الموقعین:۱/۵۴)
(۷)فقہاءِ صحابہ کے درمیان اختلافِ رائے کے مختلف اسباب ہیں:
(الف)قرآن وحدیث کے کسی لفظ میں ایک سے زیادہ معنوں کا احتمال، جیسے قرآن نے تین "قرؤ" کوعدت قرار دیا ہے "قرأ" کے معنی حیض کے بھی ہیں اور طہر کے بھی؛ چنانچہ حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم نے اس سے حیض کا معنی مراد لیا اور حضرت عائشہ، حضرت زید بن ثابتؓ نے طہر کا۔
(ب)بعض احادیث ایک صحابی تک پہنچی اور دوسرےتک نہیں پہنچی، جیسے جدہ کی میراث کے سلسلہ میں حضرت ابوبکرؓ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ آپ نے اسے چھٹا حصہ دیا ہے، حضرت مغیرہ بن شعبہ اور محمدبن مسلم نے شہادت دی کہ حضورنے دادی کوچھٹا حصہ دیا ہے؛ چنانچہ اسی پرفیصلہ ہوا۔
(ج)بعض دفعہ حضور  کے کسی عمل کا مقصد ومنشاء متعین کرنے میں اختلافِ رائے ہوتا تھا، جیسے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ طواف میں رمل کا عمل آپ نے مشرکین کی تردید کے لیے فرمایا، جو کہتے تھے کہ مدینہ کے بخار نے مسلمانوں کوکمزور کرکے رکھ دیا ہے، یہ آپ کی مستقل سنت نہیں، دوسرے صحابہ اس کومستقل قرار دیتے تھے، یاحج میں منی سے مکہ لوٹتے ہوئے وادی ابطح میں توقف، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عائشہؓ اسے سنت نہیں سمجھتے تھے اور اس کوحضورکا ایک طبعی فعل قرار دیتے تھے کہ اس کا مقصد آرام کرنا تھا؛ لیکن دوسرے صحابہؓ اسے سنت قرار دیتے تھے۔
جن مسائل میں کوئی نص موجود نہ ہوتی اور اجتہاد سے کام لیا جاتا، ان میں نقطہ نظر کا اختلاف پیدا ہوتا، مثلاً اگرکوئی مرد کسی عورت سے عدت کے درمیان نکاح کرلے، توحضرت عمرؓ بطورِ سرزنش اس عورت کوہمیشہ کے لیے اس مرد پرحرام قرار دیتے تھے اور حضرت علیؓ کی رائے یہ تھی کہ دونوں میں تفریق کردی جائے اور سرزنش کی جائے؛ لیکن اس کی وجہ سے ان دونوں مرد وعورت کے درمیان دائمی حرمت پیدا نہیں ہوگی؛ اسی طرح حضرت ابوبکرؓکا طریقہ یہ تھا کہ بیت المال میں جوکچھ آتا، اسے تمام مسلمانوں پرمساوی تقسیم فرماتے اور حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ میں برابر تقسیم کرنے کے بجائے لوگوں کے درجہ ومقام اور اسلام کے لیے ان کی خدمات کوسامنے رکھ کرتقسیم کرنا شروع کیا۔
(۸)غور کیا جائے! توصحابہ کے درمیان اختلاف رائے کا ایک سبب ذوق اور طریقہ استنباط کا فرق بھی تھا، بعض صحابہ کا مزاج حدیث کے ظاہری الفاظ پرقناعت کا تھا، جیسے حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت ابوذرغفاریؓ وغیرہ بعض صحابہؓ حدیث کے مقصد ومنشاء پرنظررکھتے تھے اور قرآن مجید اور دین کے عمومی مزاج ومذاق کی کسوٹی پراسے پرکھنے کی کوشش کرتے تھے، حضرت عمرؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت علیؓ وغیرہ اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے، چند مثالوں سے اس کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے:
حضرت فاطمہؓ بنت قیس نے روایت کیا کہ مطلقہ بائنہ عدت میں نہ نفقہ کی حق دار ہے، نہ رہائش کی، حضرت عمرؓ نے سنا تواس کوقبول کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ میں ایک عورت کی بات پرنہ معلوم کہ اس نے یادرکھا یابھول گئی، کتاب اللہ اور سنتِ رسول کونہیں چھوڑ سکتاــــــ حضرت عمرؓ کوخیال تھا کہ یہ فاطمہ بنت قیس کا وہم ہوسکتا ہے؛ کیونکہ قرآن (الطلاق:۱) میں مطلقہ کے لیے رہائش فراہم کرنے کی ہدایت موجود ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے روایت کیا کہ مردہ کواس کے لوگوں کے اس پررونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، حضرت عائشہؓ نے اس پرنکیر فرمائی اور کہا کہ یہ قرآن کے حکم "وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى" (فاطر:۱۸) یعنی"ایک شخص پردوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں ہوگا" کے خلاف ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کیا کہ جنازہ کواُٹھانے والے پروضوواجب ہے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے سوال کیا کہ کیا سوکھی ہوئی لکڑیوں کوچھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ پھرتوگرم پانی سے غسل کیا جائے تواس سے بھی وضوواجب ہوجائے گا؟ اس طرح کی بہت سی مثالیں صحابہ کے درمیان باہمی مناقشات کی پائی جاتی ہیں، جن سے ظاہر ہے کہ مسائل شرعیہ کواخذ کرنے کے سلسلہ میں دونوں طرح کا ذوق پایا جاتا تھا اور یہی ذوق بعد کوفقہاء مجتہدین تک منتقل ہوا اور اس کی وجہ سے الگ الگ دبستانِ فقہ وجود میں آئے۔
(۹)اس عہد میں سب سے اہم کام حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں سرکاری طور پر قرآن مجید کی جمع وتدوین کا اور حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں قرأت قریش پرمصحفِ قرآنی کی کتابت اور اس کی اشاعت کا ہوا، حضرت عمرؓ کے دل میں جمع احادیث کا داعیہ بھی پیدا ہوا؛ لیکن انھوں نے کافی غوروفکر اور تقریباً ایک ماہ استخارہ کرنے کے بعد اس کا ارادہ ترک کردیا کہ کہیں یہ قرآن مجید کی طرف سے بے توجہی اور بے التفاتی کا سبب نہ بن جائے۔                  
  (تاریخ التشریع الاسلامی لخضری بک:۱۷۱)
(۱۰)یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ صحابہ سب کے سب فقیہ ومجتہد تھے؛ بلکہ ایک محدود تعداد ہی اس جانب متوجہ تھی؛ کیونکہ استعداد وصلاحیت کے فرق کے علاوہ دین کے بہت سے کام اور وقت کے بہت سے تقاضے تھے اور سب کے لیے افرادِ کار کی ضرورت تھی، علامہ ابن قیمؒ نے ان صحابہ کا ذکر کیا ہے، جن سے فتاویٰ منقول ہیں، مردوخواتین کولےکر ان کی تعداد ۱۳۰/ہوتی ہے؛ پھران کے تین گروہ کئے ہیں، ایک وہ جن سے بہت زیادہ فتاویٰ منقول ہیں، ان کی تعداد سات ہے، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ، خلیفہ مامون کے پڑپوتے ابوبکر محمد نے صرف حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے فتاویٰ کوجمع کیا توان کی بیس جلدیں ہوئیں۔
بیس صحابہؓ متوسطین میں شمار کئے گئے ہیں، جن سے بہت زیادہ نہیں؛ لیکن مناسب تعداد میں فتاویٰ منقول ہیں اور بقول ابنِ قیمؒ ان کے فتاویٰ کوایک چھوٹے جزء میں جمع کیا جاسکتا ہے، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ وغیرہ اسی گروہ میں ہیں، بقیہ صحابہ وہ ہیں جن سے ایک دومسئلہ میں فتویٰ دینا منقول ہے، ان کی تعداد (۱۲۵) ہے؛ اسی گروہ میں حضرت حسن وحسین، سیدۃالنساء حضرت فاطمہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت اُم حبیبہؓ، حضرت میمونہؓ، حضرت بلالؓ، حضرت عباد اور حضرت اُمِ ایمن ؓ وغیرہ ہیں۔                         
   (دیکھئے اعلام الموقعین:۱/۱۲۔۱۴)
تیسرا مرحلہـــــ  اصاغرصحابہؓ اور اکابر تابعین
یہ مرحلہ حضرت معاویہؓ کی امارت سے شروع ہوتا ہے اور بنواُمیہ کی حکومت کے خاتمہ کے قریبی زمانہ تک کا احاطہ کرتا ہے، اس عہد میں بھی بنیادی طور پراجتہادواستنباط کا وہی منہج رہا جوصحابہ نے اختیار کیا تھاــــ  اس عہد کی چند خصوصیات قابل ذکر ہیں:
(۱)فقہاء صحابہ کسی ایک شہر میں مقیم نہیں رہے؛ بلکہ مختلف شہروں میں مختلف صحابہؓ کا ورود ہوا، وہاں لوگوں نے ان سے استفادہ کیا اور اس شہر میں ان کی آراء اور فتاویٰ کوقبولیت حاصل ہوئی، مدینہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ، مکہ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور ان کے تلامذہ مجاہد بن جبیرؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، طاؤس بن کیسانؒ، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور ان کے شاگردانِ باتوفیق، علقمہ، نخعیؒ، اسود بن یزیدؒ اور ابراہیم نخعیؒ، بصرہ میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ، حضرت حسن بصریؒ، حضرت انس بن مالکؓ اور ان کے شاگرد محمدبن سیرینؒ، شام میں حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ اور ان صحابہؓ سے استفادہ کرنے والے تابعین، ابوادریس خولانیؒ؛ اسی طرح مصر میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ اور ان کے بعد یزید بن حبیبؒ وغیرہ کے فتاویٰ کوبقول حاصل ہوا۔
(اعلام الموقعین:۱/۲۱، اور اس کے بعد، فصل:الائمۃ الذین نشر والدین والفقہ)
(۲)صحابہ اور فقہاءِ تابعین کے مختلف شہروں میں مقیم ہونے کی وجہ سے فقہی مسائل میں اختلافاف کی بھی کثرت ہوئی؛ کیونکہ ایک توخلافتِ راشدہ میں خاص کر حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت تک اہل علم یکجا تھے یاایک دوسرے سے قریب واقع تھے، اس کی وجہ سے بہت سے مسائل میں اتفاق رائے ہوجاتا تھا، اب عالم اسلام کا دائرہ وسیع ہوجانے، دراز شہروں میں مقیم ہونے اور ذرائع ابلاغ کے مفقود ہونے کی وجہ سے اجتماعی اجتہاد کی جگہ انفرادی اجتہاد کا غلبہ تھا، دوسرے مختلف شہورں کے خالات، رواجات، کاروباری طریقے اور لوگوں کے فکری وعملی رحجانات بھی مختلف تھے، اس اختلاف کا اثر مختلف شہروں میں بسنے والے فقہاء کے نقطہ نظر پربھی پڑتا تھا؛ اس لیے بمقابلہ گذشتہ ادوار کے، اس دور میں اختلافِ رائے کی کثرت ملتی ہے۔
(۳)یوں تواکابرِ صحابہ میں بھی دونوں طرح کے فقہاء پائے جاتے تھے، ایک وہ جن کی نگاہ حدیث کے ظاہری الفاظ پر ہوتی تھی، دوسرے وہ جومعانی حدیث کے غواص تھے اور احکامِ شرعیہ میں شریعت کی مصالح اور لوگوں کے احوال کوبھی پیشِ نظر رکھتے تھے، تابعین کے عہد میں یہ دونوں طریقہ اجتہاد اور ان کے طرزِ استنباط کا تفاوت زیادہ نمایاں ہوگیا، جولوگ ظاہر حدیث پرقانع تھے وہ "اصحاب الحدیث" کہلائے اور جونصوص اور ان کے مقاصد ومصالح کوسامنے رکھ کررائے قائم کرتے تھے وہ "اصحاب الرائے" کہلائے، اصحاب الحدیث کا مرکز مدینہ تھا اور اصحاب الرحائے کا عراق اور خاص طور پرعراق کا شہرکوفہ، گومدینہ میں بعض ایسے اہل علم موجود تھے، جواصحاب الرائے کے طریقہ استنباط سے متاثر تھے، جیسے امام مالکؒ کے استاذ ربیعہ بن عبدالرحمنؒ، جواصحاب الرائے کے طرزِ استنباط میں ماہر ہونے سے "ربیعۃ الرای" کہلائے اور "رائی" ان کے نام کا جزوٹھہرا؛ اسی طرح کوفہ میں امام عامرشراحیل شعبیؒ جوامام ابوحنیفہؒ کے اساتذہ میں ہیں؛ لیکن ان کا منہج اصحاب الحدیث کا تھا۔
اصحاب الرائی اور اصحاب الحدیث کے درمیان دواُمور میں نمایاں فرق تھا، ایک یہ کہ اصحاب الحدیث کسی حدیث کوقبول اور رد کرنے میں محض سند کی تحقیق کوکافی سمجھتے تھے اور خارجی وسائل سے کام نہیں لیتے تھے، اصحاب الرائے اُصولِ روایت کے ساتھ اُصولِ درایت کوبھی ملحوظ رکھتے تھے، وہ حدیث کوسند کے علاوہ اس طور پر بھی پرکھتے تھے کہ وہ قرآن کے مضمون سے ہم آہنگ ہے یااس سے متعارض؟ دین کے مسلمہ اُصول اور مقاصد کے موافق ہے یانہیں؟ دوسری مشہور حدیثوں سے متاعرض تونہیں ہے؟ صحابہ کا اس حدیث پرعمل تھا یانہیں؟ اور نہیں تھاتواس کے اسباب کیا ہوسکتے ہیںـــــــ حقیقت یہ ہے کہ اصحاب الرائی کا منہج زیادہ درست بھی تھا اور دشوار بھی؛ دوسرا فرق یہ تھا کہ اصحاب الحدیث ان مسائل سے آگے نہیں بڑھتے تھے جوحدیث میں مذکور ہوں؛ یہاں تک کہ بعض اوقات کوئی مسئلہ پیش آجاتا اور ان سے اس سلسلہ میں رائے دریافت کی جاتی؛ اگرحدیث میں اس کا ذکر نہیں ہوتا تووہ جواب دینے سے انکار کرجاتے اور لوگ ان رہنمائی سے محروم رہتے، ایک صاحب سالم بن عبداللہ بن عمرؓ کے پاس آئے اور ایک مسئلہ دریافت کیا؛ انھوں نے نے کہا کہ میں نے اس سلسلہ میں کوئی حدیث نہیں سنی، استفسار کرنے والے نے کہا کہ آپ اپنی رائے بتائیں؛ انھوں نے انکار کیا، اس نے دوبارہ استفسار کیا اور کہا کہ میں آپ کی رائے پرراضی ہوں، سالم نے کہا کہ اگراپنی رائے بتاؤں توہوسکتا ہے کہ تم چلے جاؤ اس کے بعد میری رائے بدل جائے اور میں تم کونہ پاؤں۔                  
  (تاریخ الفقہ الاسلامی، للشیخ محمد علی السایس:۷۷)
یہ واقعہ ایک طرف ان کے احتیاط کی دلیل ہے؛ لیکن سوال ہے کہ کیا ایسی احتیاط سے اُمت کی رہنمائی کا حق ادا ہوسکتا ہے؟ اصحاب الرائی نہ صرف یہ کہ جن مسائل میں نص موجود نہ ہوتی، ان میں مصالح شریعت کوسامنے رکھتے ہوئے اجتہاد کرتے؛ بلکہ جومسائل ابھی وجود میں نہیں آئے؛ لیکن ان کے واقع ہونے کا امکان ہے، ان کے بارے میں بھی پیشگی تیاری کے طور پرغور کرتے اور اپنی رائے کا اظہار کرتے، اسی کو "فقہ تقدیری" کہتے ہیں، اصحاب حدیث اصحاب الرائی کے اس طرزِ عمل پرطعنہ دیتے تھے؛ لیکن آج اسی فقہ تقدیری کا نتیجہ ہے کہ نئے مسائل کوحل کرنے میں قدیم ترین فقہی ذخیرہ سے مدد مل رہی ہے۔
اس وضاحت سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اصحاب الرائی کا کام بمقابلہ اصحاب الحدیث کے زیادہ دُشوار تھا؛ اسی لیے متقدمین کے یہاں "اصحاب الرائی" میں سے ہونا ایک قابل تعریف بات تھی اور مدح سمجھی جاتی تھی، بعد کوجن لوگوں نے اس حقیقت کونہیں سمجھا؛ انھوں نے رائے سے مراد ایسی رائے کوسمجھا جوقرآن وحدیث کے مقابلہ خودرائی پرمبنی ہو، یہ کھلی ہوئی غلط فہمی اور ناسمجھی ہے۔
حجاز کا اصحاب الحدیث کا مرکز بننا اور عراق کا اصحاب الرائی کا مرکز بننا کوئی اتفاقی امر نہیں تھا، اس کے چند بنیادی اسباب تھے، اوّل یہ کہ حجاز عرب تہذیب کا مرکز تھا، عرب اپنی سادہ زندگی کے لیے مشہور رہے ہیں، ان کی تہذیب میں بھی یہی سادگی رچی بسی تھی، عراق ہمیشہ سے دُنیا کی عظیم تہذیبوں کا مرکز رہا ہے اور زندگی میں تکلفات وتعیشات اس تہذیب کا جزوتھا؛ پھرمسلمانوں کے زیرنگین آنے کے بعد یہ علاقہ عربی اور عجمی تہذیب کا سنگم بن گیا تھا؛ اس لیے بمقابلہ حجاز کے یہاں مسائل زیادہ پیدا ہوتے تھے اور دین کے عمومی مقاصد ومصالح کوسامنے رکھ کراجتہاد سے کام لینا پڑتا تھا؛ یہاں کے فقہاء اگرعلمائے اصحاب حدیث کی طرح منصوص مسائل کے آگے سوچنے کوتیار ہی نہ ہوتے توآخر اُمت کی رہنمائی کا فرض کیوں کرادا ہوتا؟۔
دوسرے دبستانِ حجاز پرحضرت عبداللہ بن عمرؓ وغیرہ صحابہ کی چھاپ تھی، جن کا ذوق ظاہر نص پرقناعت کرنے کا تھااور عراق کے استاذ اول حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جیسے فقہاء تھے، جن پراصحاب الرائی کے طریقہ اجتہاد کا غلبہ تھا، اس لیے دونوں جگہ بعد کے علماء پران صحابہ کے اندرازِ فکر کی چھاپ گھری ہوتی چلی گئی۔
تیسرے اکثرفرقِ باطلہ کا مرکز عراق ہی تھا، یہ لوگ اپنی فکر کی اشاعت کے لیے حدیثیں وضع کیا کرتے تھے، اس لیے علماءِ عراق تحقیق حدیث میں اُصول روایت کے ساتھ ساتھ اُصولِ درایت سے کام لیتے تھے، اس کے برخلاف علماء حجاز کووضع حدیث کے اس فنتہ سے نسبتاً کم سابقہ تھا۔
(۴)اسی دور میں فرقِ باطلہ کا ظہور ہوا اور سیاسی اختلاف نے آہستہ آہستہ مذہبی رنگ اختیار کرلیا، ایک طرف شیعانِ علی تھے جو اہل بیت کوہی خلافت کا مستحق جانتے تھے اور چند صحابہ کوچھوڑ کر تمام ہی صحابہ کی تکفیر کیا کرتے تھے، دوسری طرف ناصبیہ تھے، جواہل بیت پربنواُمیہ کے ظلم وجورکوسند جواز عطا کرتے تھے اور حضرت علیؓ اور اہلِ بیت کوبرا بھلا کہنے سے بھی نہیں چوکتے تھے؛ تاہم ناصبیہ کی تعداد بہت کم تھی اور انھیں کبھی کسی طبقہ میں قبول حاصل نہیں ہوا، تیسرا گروہ خوارج کا تھا، جوحضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ، حضرت معاویہؓ اور بعد کے تمام صحابہ کوقرار دیتا تھا، شیعہ اور خوارج کا مرکز عراق اور مشرق کا علاقہ تھا؛ حالانکہ اس اختلاف کی بنیاد سیاسی تھی؛ لیکن چونکہ لوگوں کے ذہن پرمذہب کی گرفت بہت مضبوط تھی، اس لیے جلد ہی اس اختلاف نے عقیدہ کی صورت اختیار کرلی اور اس کوتقویت پہنچانے کے لیے لوگوں نے روایتیں گھڑنی شروع کردیں؛ پس اسی دور سے وضع حدیث کا فتنہ بھی شروع ہوا۔
(۵)عہد صحابہ میں اکثرلوگ وہ تھے؛ جنھوں نے حضور  کے عمل کواپنی آنکھوں سے دیکھا تھا؛ اس لیے روایت حدیث کی ضرورت کم پیش آتی تھی، اب چونکہ زیادہ ترصحابہ رخصت ہوچکے تھے اور دوسری طرف فرقِ باطلہ کے نمائندوں نے اپنی طرف سے حدیثیں گھڑنی شروع کردی تھیں، اس لیے روایتِ حدیث کے سلسلہ میں بمقابلہ گذشتہ دورکے اضافہ ہوگیا۔
(۶)البتہ اس دور میں حدیث یافقہ کی باضابطہ تدوین عمل میں نہ آئی، حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے اس سلسلہمیں کوشش توکی اور گورنرمدینہ ابوبکر محمدبن عمروبن حزم کواس کام کی طرف متوجہ کیا؛ لیکن اس سے پہلے کہ ابن حزم اس خواب کوشرمندہ تعبیر کرتے، خود حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی وفات ہوگئی۔
(۷)اس دور کے اہم فقہاء وارباب افتاء کے نام اس طرح ہیں:
مدینہ:اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت ابوہریرہؓ، سعید بن مسیبؓ، عروہ بن زبیر، ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، امام زین العابدین علی بن حسین، عبداللہ بن مسعود، سالم بن عبداللہ بن عمر، سلیمان بن یسار، قاسم بن محمدبن ابوبکر، نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر، محمدبن مسلم ابن شہاب زہری، امام ابوجعفر محمدباقر، ابوالزناد عبداللہ بن ذکوان، یحییٰ بن سعید انصاری، ربیعۃ الرائے رضی اللہ عنہم اجمعین۔
مکہ:حضرت عبداللہ بن عباس، امام مجاہد، عکرمہ، عطاء بن ابی رباح۔
کوفہ:علقمہ، نخعی، مسروق، عبیدۃ بن عمروسلمانی، اسود بن یزید نخعی، قاضی شریح، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر، عامر بن شراحیل شعبی رحمہم اللہ۔
بصرہ:حضرت انس بن مالک انصاریؓ، ابوالعالیہ، رفیع بن مہران، حسن بن ابی الحسن یسار، ابوالثعثاء، جابر بن زید، محمدبن سیرین، قتادہ رحمہم اللہ۔
شام: عبدالرحمن بن غانم، ابوادریس خولانی، مکحول، قبیصہ بن ذویب، رجاء بن حیوٰہ، حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہم اللہ۔
مصر:حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ، مرثد بن عبداللہ بن البزی، یزید بن ابی حبیب رحمہم اللہ۔
یمنل:طاؤس بن کیسان، وہب بن منبہ صنعانی، یحییٰ بن ابی کثیر۔
چوتھا مرحلہـــــــ  اوائل دوسری صدی تانصف چوتھی صدی
تدوین فقہ کا چوتھا مرحلہ جوعباسی دور کی ابتداء سے شروع ہوکر چوتھی صدی ہجری کے وسط تک محیط ہے، نہایت اہم ہے اور اسے نہ صرف فقہ اسلامی بلکہ تمام ہی اسلامی وعربی علوم وفنون کا سنہرا دور کہہ سکتے ہیں، فقہ اور فقہ سے متعلق جوعلوم ہیں ان کے علاوہ اسی عہد میں تفسیر قرآن کے فن کوکمال حاصل ہوا اور تفسیر طبری جیسی عظیم الشان تفسیر وجود میں آئی، جوآج تک کتبِ تفسیر کا نہایت اہم مرجع ہے؛ اسی عہد میں عربی زبان کے قواعد مرتب ہوئے؛ اسی دور میں عباسی خلفاء کی خواہش پریونانی علوم، منطق اور فلسفہ وغیرہ عربی زبان میں منتقل کیا گیا اور اس کوبنیاد بناکر مسلمان محققین نے بڑے بڑے سائنسی کارنامے انجام دیئے اور علم وتحقیق کی دنیا میں اپنی فتح مندی کے علم نصب کئے اور فقہ کے لیے تویہ دور نہایت ہی اہم ہے۔
اس دور کی چند اہم خصوصیات اس طرح ہیں:
(۱)یوں تورسول اللہکے عہدِ مبارک ہی سے حدیث کی جمع وکتابت کا کام شروع ہوچکا تھا؛ لیکن کتابی انداز پراس کی ترتیب عمل میں نہیں آئی تھی؛ بلکہ مختلف لوگوں نے اپنی اپنی یادداشتیں لکھ رکھی تھیں، سب سے پہلے احادیث کوباضابطہ طور پرجمع کرنے کا خیال حضرت عمررضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کوآیا؛ لیکن حضرت عمرؓ نے اسے مناسب نہ سمجھا اور حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی اس کام کی تکمیل سے پہلے ہی وفات ہوگئی، اب عباسی دور میں باضابطہ حدیث کی تدوین کا کام شروع ہوا۔
یہ تدوین تین مرحلوں میں انجام پائی، پہلے مرحلہ میں حضور کی احادیث اور صحابہؓ کے فتاویٰ اور فیصلے؛ بلکہ کہیں کہیں تابعین کے فتاویٰ بھی ملے جلے جمع کئے گئے، امام ابویوسفؒ اور امام محمد رحمہ اللہ کی کتاب الآثار اور امام مالک رحمہ اللہ کی مؤطا میں آج بھی اس طریقہ ترتیب کوملاحظہ کیا جاسکتا ہے؛ پھردوسری صدی ہجری کے آخر میں مسانید کا طریقہ مروج ہوا کہ راوی پنی تمام مرویات کوصحابہؓ کے ناموں کی ترتیب سے جمع کرتا اور حدیث کے مضامین وموضوعات سے قطع نظر ایک صحابی کی تمام مرویات ایک جگہ ذکر کی جاتیں، اس سلسلہ کی سب سے ممتاز کتاب "مسندامام احمد بن حنبل" ہے؛ لیکن ان میں صحیح ومستند اور ضعیف ونامعتبر دونوں طرح کی روایتیں مذکور ہوتیں؛ چنانچہ تیسری صدی ہجری میں دواُمور کی رعایت کے ساتھ کتب حدیث مرتب کی گئیں، ایک یہ کہ ان کی ترتیب مضمون کے اعتبار سے ہو اور فقہی ابواب کی ترتیب پرروایتیں جمع کی جائیں، دوسرے یہ کہ نقل حدیث میں صحیح وضعیف کا فرق ملحوظ رکھا جائے اور اپنے گمان کے مطابق صحیح روایتیں نقل کی جائیں، صحاحِ ستہ؛ اسی دور کی یادگاریں ہیں، جن کوکتبِ حدیث میں خاص طور پرقبولِ عام اور شہرت ودوام حاصل ہوا۔
اس وقت جوکتبِ حدیث موجود ہیں، ان میں امام ابویوسف رحمہ اللہ کی کتاب الآثار، امام مالک رحمہ اللہ کی مؤطا اور امام محمد رحمہ اللہ کی مؤطا اور کتاب الآثار سب سے قدیم کتابیں ہیں، باقی بہت سی کتابیں وہ ہیں کہ ان کے مصنفین کی نسبت سے تاریخ کی کتابوں میں ان کا ذکر ملتا ہے؛ لیکن اب دستیاب نہیں ہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مسندگوایک قدیم ترین مسند ہے؛ لیکن یہ ان کے تلامذہ کی جمع کی ہوئی ہے نہ کہ خود امام صاحب رحمہ اللہ کی۔
(۲)چونکہ تدوین حدیث کے شانہ بشانہ بلکہ اس سے پہلے ہی گمراہ فرقوں اور خداناترس افراد واشخاص کی طرف سے وضع حدیث کا قبیح سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا اس لیے کچھ عالی ہمت، اہل علم نے روایت کی تحقیق کواپناموضوع بنایا اور کسی رعایت اور لحاظ کے بغیر مشکوک ونامعتبر راویوں کے احوال سے لوگوں کوباخبر کرنے کی اہم ترین ذمہ داری اپنے سرلی، یہ فن "جرح وتعدیل" کہلاتا ہے؛ اسی دور میں اس فن کی بنیاد پڑی، اس فن کے سب سے بڑے امام یحییٰ بن سعید القطانؒ (متوفی:۸۹) اسی عہد کے تھے؛ اسی طرح امام عبدالرحمن بن مہدیؒ (متوفی:۱۹۸ھ)، یحییٰ بن معینؒ (متوفی:۲۳۰ھ) اور امام احمد بن حنبلؒ (متوفی:۲۴۱ھ) جواس فن کے اوّلین معماروں میں ہیں؛ اسی خوش نصیب عہد کی یادگار ہیں۔
(۳)مسائل فقہیہ کے استنباط اور اجتہاد میں قرآن مجید کی مختلف قرأتوں کابھی بڑا دخل ہے؛ چنانچہ اس عہد میں قرأت کے فن نے بھی بڑا عروج حاصل کیا اور قراءِ سبعہ نافع رحمہ اللہ (متوفی:۱۶۷ھ)، عبداللہ بن کثیرؒ (متوفی:۱۲۰ھ)، ابوعمروبن علاءؒ (متوفی:۱۵۴ھ)، عبداللہ بن عامرؒ (متوفی:۱۱۸ھ)، ابوبکر عاصمؒ (متوفی:۱۲۸ھ) جن کے تلامذہ میں حفص بن سلیمانؒ ہیں، حمزہ بن حبیب زیارتؒ (متوفی:۱۴۵ھ) اور ابوالحسن کسائی رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۹ھ) اسی عہد کے قراء ہیںــــــ قراء سبعہ پرجن تین قراء کا اضافہ کیا گیا ہے اور ان کوقراءِ عشرہ کہا جاتا ہے، ان کا تعلق بھی اسی عہد سے ہے۔
(۴)اُصولِ فقہ کی باضابطہ تدوین بھی اسی عہد میں ہوئی، کہا جاتا ہے کہ اس موضوع پرامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی تالیف "کتاب الرائی" کے نام سے تھی؛ لیکن اب اس کا کوئی وجود نہیں، امام محمد رحمہ اللہ کی طرف بھی اُصول کی ایک کتاب اسی نام سے منسوب کی جاتی ہے، یہ بھی دستیاب نہیں؛ لیکن ماضی قریب میں ابوالحسین بصری معتزلی کی کتاب"المعتمد فی اُصول الفقہ" طبع ہوئی ہے، اس کتاب میں امام ابویوسف رحمہ اللہ کی کتاب کا حوالہ موجود ہے؛ اس لیے حقیقت یہی ہے کہ اس فن کے موسس اوّل امام ابوحنیفہؒ اور ان کے تلامذہ ہیں، اس وقت اس موضوع پرجوقدیم ترین کتاب پائی جاتی ہے، وہ امام شافعی رحمہ اللہ کی "الرسالہ" ہے۔
یہ نہایت اہم کتاب ہے اور ابتدائی دور کی تالیف ہونے کے لحاظ سے نہایت جامع، واضح اور مدلل تالیف ہے، جس میں قرآن مجید کے بیان کے اُصول، سنت کی اہمیت اور قرآن سے اس کا ربط، ناسخ ومنسوخ، علل حدیث، خبرواحد کی حجیت، اجماع، قیاس، اجتہاد، استحسان اور فقہی اختلافِ رائے کی حیثیت پرگفتگو کی گئی ہے، امام شافعیؒ نے اس کتاب میں استحسان پربہت شدید تنقید کی ہے او ران کا یہی لب ولہجہ "کتاب الام" میں بھی پایا جاتا ہے؛ لیکن یہ تنقید زیادہ ترغلط فہمیـــــــ  اوراگراس تنقید کا نشانہ حنفیہ ہوں توـــــــ  حنفیہ کے نقطۂ نظر سے ناواقفیت پرمبنی ہے۔
(۵)اس دور میں فقہی اصطلاحات کا ظہور ہوا اور احکام میں فرض، واجب، سنت، مباح اور مستحب جیسی اصطلاحات نے رواج پایا، تابعین کے عہد میں عام طور پر ایسی اصطلاحات قائم نہیں تھیں؛ بلکہ شریعت میں جن باتوں کا حکم دیا گیا، لوگ بلاتفریق اس پرعمل کرتے تھے اور جن باتوں سے منع کیا گیا، بلاکسی فرق کے ان سے اجتناب کرتے تھے۔
(۶)بمقابلہ پچھلے ادوار کے اس عہد میں اجتہاد واستنباط کی کثرت ہوئی، اس کے دوبنیادی اسباب تھے، ایک عباسی حکومت کا علمی ذوق، عباسیوں نے جہاں بغداد جیسا متمدن شہرآباد کیا اور عقلی علوم کوعربی زبان کا جامہ پہنایا، وہیں اسلامی علوم سے بھی ان کواعتناء تھا اور خود خلفاء علمی ذوق کے حامل ہوا کرتے تھے؛ بلکہ بعض دفعہ کسی رائے سے تاثراور غلو کی وجہ سے نقصان بھی ہوتا تھا؛ چنانچہ بعض عباسی خلفاء کے معتزلہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے "خلق قرآن کا فتنہ" پیدا ہوا جس کی خوں آشام داستانیں اب بھی تاریخ میں محفوظ ہیں، عباسی خلفاء کوفقہ سے بھی تعلق تھا؛ یہی وجہ ہے کہ منصور اور پھرخلیفہ ہارون رشید نے امام مالک رحمہ اللہ کی مؤطا کوملکی دستور کی حیثیت دینی چاہی؛ لیکن یہ امام مالک رحمہ اللہ کا اخلاص تھا کہ انھوں نے اس سے منع فرمادیا، بعض عباسی خلفاء نے امام مالک رحمہ اللہ سے یہ شکایت بھی کی کہ ان کی کتاب میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور بنو ہاشم کے صحابہ کی مرویات کووہ اہمیت نہیں دی گئی ہے، جودوسرے صحابہ کی مرویات کو دی گئی ہے، امام مالکؒ نے اس پرمعذرت کی کہ مجھے حضرت عبداللہ بن عباسؓ وغیرہ کے تلامذہ سے استفادہ کا موقع نہیں ملا۔
یہ ان کے علمی ذوق ہی کی بات تھی کہ ہارون رشید قاضی ابویوسف سے حکومت کے مالیاتی قوانین کے موضوع پرتالیف کا طلب گار ہوتا ہے اور اسی خواہش کے نتیجہ میں ان کی معروف مقبول تالیف "کتاب الخراج" وجود میں آتی ہے اور یہ بھی خلفاء کی علم پروری ہی ہے کہ ان کے عہد میں بغداد ہرفن کے علماء وماہرین کا مرکز وملجا بن جاتا ہے، اس حوصلہ افزائی اور علمی پذیرائی نے علماء کواپنے اپنے فن کوپایہ کمال تک پہنچانے کا حوصلہ دیا۔
دوسرا سبب عالم اسلام کی وسعت تھی، اب مسلمانوں کی حکومت یوروپ میں اسپین سے لے کرایشیاء میں مشرق بعید چین تک تھی، مختلف قوموں، مختلف تہذیبیں، مختلف لسانی گروہ اور محتلف صلاحیتوں کے لوگ عالم اسلام کے سایہ میں تھے اور ان میں بڑی تعداد نومسلموں کی تھی؛ اس لیے لوگوں کی طرف سے سوالات کی کثرت تھی اور اس نسبت سے فقہی اجتہادات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع ترہوتا گیا؛ اسی عہد میں بڑے بلند پایہ، عالی ہمت اور اپنی ذہانت وفطانت کے اعتبار سے محیرالعقول علماء وفقہاء پیدا ہوئے؛ کیونکہ اس عہد میں اسی درجہ کے اہلِ علم کی ضرورت تھی؛ پھران میں سے بعض بلند پایہ فقہاء نے مستقل دبستانِ فقہ کی بنیاد رکھی اور ان سے علمی تاثر کی وجہ سے اہلِ علم کی ایک تعداد ان کے ساتھ ہوگئی اور اس نے ان کے علوم کی اشاعت وتدوین اور تائید وتقویت کے ذریعہ مستقل فقہی مدارس کووجود بخشا، ان شخصیتوں میں سب سے ممتاز شخصیتیں ائمہ اربعہ کی ہیں۔
(۷)لیکن فقہ کی باضابطہ تدوین کا شرف سب سے پہلے جس شخصیت کوحاصل ہوا، وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ذات والا صفات ہے؛ اسی لیے امام شافعیؒ نے فرمایا:
"مَنْ أَرَادَ الْفِقْهَ فَهُوَعِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ"۔                          
   (الانتقاء لابن عبدالبر:۲۱۰)
اس کا اعتراف تمام ہی منصف مزاج علماء نے کیا ہے، حافظ جلال الدین سیوطیؒ، شافعیؒ فرماتے ہیں:
"إنہ اوّل من دون علم الشریعۃ ورتبہا ابوابا ثم تبعہ مالک ابن انس فی ترتیب الموطا ولم یسبق أباحنیفۃ احد"۔         
   (تبیض الصحیفہ:۳۶)
ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ پہلے شخص ہیں؛ جنھوں نے علم شریعت کی تدوین کی اور اسے باب وار مرتب کیا؛ پھرمؤطا کی ترتیب میں امام مالکؒ نے انھیں کی پیروی کی، امام ابوحنیفہؒ سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا۔
علامہ ابن حجرمکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"إِنَّهُ أَوَّلُ من دون عِلْم الْفِقْهَ وَرَتَّبَهُ أَبْوَابًا وَكُتُبًا عَلَى نَحْوِ مَاھُوَعَلَيْهِ الْيَوْمَ، وَتَبِعَهُ مَالِكٌ فِي مُؤَطائہ"۔                      
    (الخیرات الحسان:۲۸)
ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ پہلے شخص ہیں؛ جنھوں نے علم فقہ کومدون کیا اور کتاب اور باب پر اس کومرتب فرمایا، جیسا کہ آج موجود ہے اور امام مالک نے اپنی مؤطا میں انھیں کی اتباع کی ہے۔
پھراہم بات یہ ہے کہ امام صاحبؒ نے دوسرے فقہاء کی طرح انفرادی طور پر اپنی آراء مرتب نہیں کی؛ بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح شورائی انداز اختیار کیا؛ چنانچہ علامہ موفق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"فوضع ابوحنیفۃ مذھبہ شوریٰ بینہم لم یستمد بنفسہ دونہم"۔
(مناقب ابوحنیفہ:۲/۱۳۳)
ترجمہ:امام ابوحنیفہ نے اپنا مذہب شورائی رکھا، وہ شرکاءِ شوریٰ کوچھوڑکر تنہا اپنی رائے مسلط نہیں کرتے۔
اس کا نتیجہ تھا کہ بعض اوقات ایک مسئلہ پرایک ماہ یااس سے زیادہ بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا؛ چنانچہ موفق رحمہ اللہ ہی رقم طراز ہیں:
"کان یلقی مسئلۃ مسئلۃ یقلبہم ویسمع ماعندھم ویقول ماعندہ ویناظرہم شہراً اواکثر من ذالک حتی یستقر احدا لأقوال فیہا"۔
(مناقب ابوحنیفہ:۲/۱۳۳)
ترجمہ:امام صاحب ایک ایک مسئلہ پیش کرتے، ان کے خیالات کا جائزہ لیتے اور ان کی بھی باتیں سنتے، اپنے خیالات پیش کرتے اور بعض اوقات ایک ماہ یااس سے زیادہ تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رکھتے؛ یہاں تک کہ کوئی ایک قول متعین ہوجاتا۔
اس مجلس تدوین میں جومسائل مرتب ہوئے اور جوزیرِبحث آئے ان کی تعداد کیا تھی؟ اس سلسلہ میں تذکرہ نگاروں کے مختلف بیانات ملتے ہیں، مسانید امام ابوحنیفہؒ کے جامع علامہ خوارزمی نے تراسی ہزار کی تعداد لکھی ہے، جس میں اڑتیس ہزار کا تعلق عبادات سے تھا اور باقی کا معاملات سے۔                     
(مناقب الامام اعظم لملاعلی قاری:۴۷۳)
بعض حضرات نے ۶/لاکھ اور بعضوں نے ۱۲/لاکھ سے بھی زیادہ بتائی ہے، مشہورمحقق مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اس تعداد میں ان مسائل کوبھی شامل کرلیا گیا ہے، جوامام کے مقرر کئے ہوئے اُصول وکلیات کی روشنی میں مستنبط کئے گئے تھے۔                       
   (دیکھئے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی سیاسی زندگی:۲۳۵)
پس اگرتراسی ہزار مسائل ہی اس مجلس تدوین کے مستنبط کئے ہوئے مانے جائیں تویہ کیا کم ہے؟ عام طور پریہ بات نقل کی جاتی  ہے کہ اس مجلس میں اپنے عہد کے چالیس ممتاز علماء شامل تھے؛ لیکن ان کے سنین وفات اور امام صاحبؒ سے وابستگی کے زمانہ کودیکھتے ہوئے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ سارے لوگ شروع سے آخر تک اس کام میں شریک نہیں رہے؛ بلکہ مختلف ارکان نے مختلف ادوار میں کارِتدوین میں ہاتھ بٹایا اور ان میں بعض وہ تھے جنھوں نے آخری زمانہ میں اس کام میں شرکت کی، عام طور پر شرکاء مجلس کا نام ایک جگہ نہیں ملتا ہے، مفتی عزیز الرحمن اور ڈاکٹرمحمدمیاں صدیقی نے ان ناموں کواکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے اور ڈاکٹرمحمدطفیل ہاشمی نے ان ہی کے حوالہ سے اسے نقل کیا ہے، نام اس طرح ہیں:
امام ابویوسفؒ (متوفی:۱۸۲ھ)                                
محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۹ھ)
حسن بن زیادؒ (متوفی:۲۰۴ھ)                                   
زفربن ہذیلؒ (متوفی:۱۵۸ھ)
مالک بن مغولؒ (متوفی:۱۵۹ھ)                                
داؤد طائی رحمہ اللہ (متوفی:۱۶۰ھ)
مندل بن علیؒ (متوفی:۱۶۸ھ)                                   
نصر بن عبدالکریمؒ (متوفی:۱۶۹ھ)
عمروبن میمونؒ (متوفی:۱۷۱ھ)                                
حبان بن علیؒ (متوفی:۱۷۲ھ)
ابوعصمہ (متوفی:۱۷۳ھ)                                           
زہیر بن معاویہؒ (متوفی:۱۷۳ھ)
قاسم بن معن رحمہ اللہ (متوفی:۱۷۵ھ)                          
حماد بن ابی حنیفہؒ (متوفی:۱۷۶ھ)
ہیاج بن بطامؒ (متوفی:۱۷۷ھ)                                    
شریک بن عبداللہؒ (متوفی:۱۷۸ھ)
عافیہ بن یزیدؒ (متوفی:۱۸۱ھ)                                            
عبداللہ بن مبارکؒ (متوفی:۱۸۱ھ)
نوح بن دراجؒ (متوفی:۱۸۲ھ)                                   
ہشیم بن بشیر سلمیؒ (متوفی:۱۸۳ھ)
ابوسعید یحییٰ بن زکریاؒ (متوفی:۱۸۴ھ)                                
فضیل بن عیاضؒ (متوفی:۱۸۷ھ)
اسد بن عمروؒ (متوفی:۱۸۸ھ)                                             
علی بن مسہرؒ (متوفی:۱۸۹ھ)
یوسف بن خالدؒ (متوفی:۱۸۹ھ)                                 
عبداللہ بن ادریسؒ (متوفی:۱۹۲ھ)
فضل بن موسیٰؒ (متوفی:۱۹۲ھ)                                
حفص بن غیاثؒ (متوفی:۱۹۴ھ)
وکیع بن جراحؒ (متوفی:۱۹۷ھ)                                 
یحییٰ بن سعید القطانؒ (متوفی:۱۹۸ھ)
شعیب بن اسحاقؒ (متوفی:۱۹۸ھ)                               
ابوحفص بن عبدالرحمنؒ (متوفی:۱۹۹ھ)
ابومطیع بلخیؒ (متوفی:۱۹۹ھ)                                            
خالد بن سلیمانؒ (متوفی:۱۹۹ھ)
عبدالحمیدؒ (متوفی:۲۰۳ھ)                                        
ابوعاصم النبیلؒ (متوفی:۲۱۲ھ)
مکی بن ابراہیمؒ (متوفی:۲۱۵ھ)                                 
حماد بن دلیلؒ (متوفی:۲۱۵ھ)
ہشام بن یوسفؒ(متوفی:۱۹۷ھ)

(۸)اس دور میں فقہاء اپنی قوتِ اجتہاد اور لیاقتِ استنباط میں نہایت اعلیٰ درجہ کے حامل تھے، اللہ تعالیٰ کے یہاں یہ بات مقدر نہیں تھی کہ ان کے مذہب کوبقاء واستحکام حاصل ہوسکے؛ چنانچہ کم ہی عرصہ میں یہ مذاہب ناپید ہوگئے؛ البتہ ان کی چیدہ چیدہ آراء، کتابوں اب بھی موجود ہیں، ان میں سے چار شخصیتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
امام اوزاعیؒ:
ان کا پورا نام ابوعمرعبدالرحمن بن محمدؒ ہے، یمن کے قبیلہ ذی الکاع کی ایک شاخ اوزاع تھی؛ اسی نسبت سے اوزاعی کہلائے، ۸۸ھ میں شام میں پیدا ہوئے سنہ۱۵۷ھ میں وفات پائی، حدیث کے بڑے عالم تھے، اصحاب  حدیث کے گروہ سے تعلق تھا اور قیاس سے اجتناب کرتے تھے، شام اور اندلس کے علاقہ میں ان کے مذہب کوقبولیت حاصل ہوئی؛ لیکن جلد ہی ان کے متبعین ناپید ہوگئے۔              
   (دیکھئے، تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۱/۱۷۰،۱۷۲)
سفیان ثوریؒ:
ابوعبداللہ سفیان بن سعید ثوریؒ سنہ۹۷ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۶۱ھ میں بصرہ میں وفات پائی، فقہ اور حدیث دونوں پرنظر تھی، عام طور پر ان کی آراء سے قریب ہوتی ہیں، ابتداء امام صاحب سے چشمک تھی؛ پھربعد کوغلط فہمی دور ہوگئی اور امام ابوحنیفہؒ کے قدرداں ہوگئے۔
لیث بن سعدؒ:
یہ مصرمیں پیدا ہوئے اور وہیں سنہ۱۷۵ھ میں وفات پائی، کہا جاتا ہے کہ تفقہ میں ان کا درجہ امام مالکؒ اور شافعیؒ سے کم نہیں تھا، خود امام شافعیؒ ان کوامام مالکؒ سے زیادہ فقیہ قرار دیتے تھے؛ لیکن ان کے مذہب کوزیادہ رواج حاصل نہیں ہوسکا اور جلد ہی ختم ہوگیا۔
داؤد ظاہریؒ:
ان کا پورا نام ابوسلیمان داؤد بن علی اصفہانی ہے سنہ۲۰۰ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور سنہ۲۷۰ھ میں وفات پائی، ابتدامیں فقہ شافعیؒ کے متبع تھے، بعد میں پھراپنے مسلک کی بنیاد رکھی، ظاہر نص پرعمل کرنے میں غلو تھا اور اسی غلو کی وجہ سے بعض آراء حد معقولیت سے گذرجاتی ہیں، داؤد ظاہریؒ نے بہت سی کتابیں بھی تالیف کی ہیں، اس مکتب فکر کی نمائندہ شخصیت علامہ ابن حزمؒ اندلسی (متوفی:۴۵۶ھ) ہیں؛ جنہوں نے اپنی معروف کتاب "المحلیٰ" لکھ کر اصحاب ظواہر کی فکر کی آراء کومحفوظ کردیا ہے، ابن حزمؒ ہی کی کتاب "الاحکام فی اصول الاحکام" بھی ہے، جس میں اصحاب ظواہر کے اُصولِ فقہ مدون ہیں، پانچویں صدی ہجری تک یہ مذہب پایا جاتا تھا (تاریخ التشریع الاسلامی لحضرمی:۱۸۰) ابنِ خلدون نے لکھا ہے کہ آٹھویں صدی ہجری تک بھی یہ مذہب باقی تھا؛ پھراس کا نام ونشان مٹ گیا، موجودہ دور میں سلفیت کواسی دبستانِ فقہ کا حیاء قرار دیا جاسکتا ہے۔
ابن جریر طبریؒ:
ابوجعفر محمدبن جریر طبریؒ سنہ۲۲۴ھ میں طبرستان یں پیدا ہوئے سنہ۳۱۰ھ میں وفات پائی؛ انھوں نے فقہ حنفی، فقہ مالکی اور فقہ شافعی تینوں کوحاصل کیا؛ لیکن کسی کی تقلید نہیں کی اور خود اجتہاد کیا، تفسیرطبری اور تاریخ طبری ان کی معروف کتابیں ہیں، جوبعد کے اہلِ علم کے لیے اولین مرجع کا درجہ رکھتی ہیں؛ اسی طرح فقہی اختلافات پر "کتاب اختلافات الفقہاء" چھپ چکی ہے، ختم ہوجانے والے مذاہب میں اسی کوزیادہ دنوں تک زندگی حاصل رہی اور پانچویں صدی کے نصف تک بہت سے لوگ اس فقہ پرعمل تھے۔         
   (دیکھئے، تذکرۃ الححفاظ:۲/۲۵۱۔ کتاب الفہرست، لابن ندیم:۳۲۶۔ تاریخ التشریع الاسلامی:۱۸۳)
پانچواں مرحلہــــــ سقوطِ بغداد تک (۶۵۶ھ)
فقہ کی تدوین وترتیب کا چوتھا مرحلہ چوتھی صدی ہجری کے اوائل سے شروع ہوتا ہے اور ۶۵۶ھ میں سقوطِ بغداد پرختم ہوتا ہے، جب چنگیزخان کے پوتے ہلاکوخان نے عالمِ اسلامی کے دارالخلافہ بغداد پرغلبہ حاصل کیا، آخری عباسی خلیفہ کونہایت بے دردی سے قتل کردیا اور ایسی خوں آشامی اور ہلاکت خیزی کا ثبوت دیا کہ انسانیت سوزی اور قتل وغارت گری کی تاریخ میں کم ہی اس کی مثال مل سکے گی۔
اس عہد کی خصوصیات اس طرح ہیں:
(۱)اسی عہد میں شخصی تقلید کا رواج ہوا اور لوگ تمام احکام میں ایک متعین مجتہد کی پیروی کرنے لگے، تقلید کی اس صورت کومختلف اسباب کی وجہ سے تقویت پہنچی، جن کا تذکرہ مناسب محسوس ہوتا ہے:
(الف)بہت سے ایسے لوگ دعویٔ اجتہاد کرنے لگے جوحقیقت میں اس منصب کے اہل نہیں تھے اور وہ اجتہاد کوقرآن وحدیث سے انحراف کاچور دروازہ بنانے لگے، اس لیے دین کے تحفظ اور دفع فساد کے لیے اس زمانہ کے بالغ نظر اور محتاط علماء نے ضروری سمجھا کہ موجودہ حالات میں باب اجتہاد کوبند کردیا جائے اور اُمت کوان آوارہ خیالوں کے فتنہ سے بچایا جائے۔
(ب)ائمہ مجتہدین کی سعی ومحنت سے فقہ اسلامی کی ترتیب وتدوین پایہ کمال کوپہنچ چکی تھی اور ان کی مساعی کی وجہ سے لوگوں کے لیے ہرطرح کے مسائل کا حل موجود تھا؛ اس لیے گذشتہ ادوار میں جس درجہ اجتہاد واستنباط کی ضرورت تھی اب اتنی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی اور یہ اللہ تعالیٰ کا قدرتی نظام ہے کہ جب کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے تواس طرف لوگوں کی توجہ بھی کم ہوجاتی ہے۔
(ج)بعض مجتہدین کومن جانب اللہ لائق تلامذہ اور لائق ماہرین ومتبعین ہاتھ آئے اور انھوں نے اس مجتہد کی آراء وافکار کونہایت بہتر طور پرمرتب کردیا، اس کی وجہ سے لوگوں میں ان کے اجتہادات کے تئیں قبولِ عام کا رحجان پیدا ہوگیا اور اس طرح ایک مستقل دبستانِ فقہ کی تشکیل عمل میں آگئی، جن فقہاء کوایسے لائق شاگرد میسر نہیں آئے، ان کی فقہ باضابطہ طور پرمدون نہیں ہوپائی اور آہستہ آہستہ علمی زندگی سے اس کا رشتہ کٹ گیا، اس کی واضح مثال امام اوزاعیؒ اور لیث بن سعدؒ ہیں، جن کوان کے معاصرین تفقہ کے اعتبار سے بعض ائمہ متبوعین سے بھی فائق قرار دیتے تھے؛ لیکن آج کتابوں میں چند مسائل سے متعلق ان کی آراء مل جاتی ہیں اور بس۔
(د)صحابہ اور تابعین کے عہد میں کسی کوقاضی بنایا جاتا تواسے ہدایت دی جاتی کہ وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول کواصل بنائے اور اگرکتاب وسنت میں حکم نہ ملے تواجتہاد سے کام لے، اس سلسلہ میں وہ خط جوحضرت عمرؓ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کولکھا تھا حدیث وفقہ اور قضاء سے متعلق اکثرکتابوں میں نقل کیا گیا ہے، بعد کے ادوار میں یوں ہوا کہ بعض قضاۃ حق اجتہاد کوجوروزیادتی اور کسی فریق کے حق میں طرف داری کا ذریعہ بنانے لگے، اس پس منظر میں حکومتیں جب کسی کوقاضی مقرر کرتیں توان کوپابند کردیتیں کہ فلاں مذہب کے مطابق فیصلہ کیا کریں؛ تاکہ فیصلوں میں یکسانیت رہے اور جانب داری کی گنجائش باقی نہ رہے؛ چنانچہ عباسی خلفاء عام طور پرفقہ حنفی پرقاضی مقرر کیا کرتے؛ اسی طرح ترکوں نے بھی عہدۂ قضاء کواحناف کے لیے مخصوص رکھا؛ صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے مصر میں اور سلطان محمود سبکتگین رحمہ اللہ اور نظام الملک طوسی نے مشرقی علاقہ کی عدالتوں کوفقہ شافعی کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دیا، یہ بھی تقلیدِ شخصی کی ترویج کا ایک اہم سبب بنا۔
(ہ)تقلید پرانحصار کا ایک سبب علمی انحطاط بھی تھا، اللہ تعالیٰ کا نظام یہ ہے کہ ہرعہد میں اس عہد کی ضرورت کے مطابق افراد پیدا ہوتے ہیں اور ضرورت جوں جوں کم ہوتی جاتی ہے؛ اس طرح کے افراد بھی کم ہوتے جاتے ہیں؛ یہی دیکھئے کہ روایتِ حدیث کے دور میں کیسے قوی الحفظ محدثین پائے جاتے تھے؛ جنھیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں حدیثیں یاد ہوتی تھیں اور سندومتن صفحہ ذہن پراس طرح نقش ہوجاتا تھا کہ گویا وہ پتھر پرکندہ کردیئے گئے ہیں؛ لیکن تدوین حدیث کا کام مکمل ہونے کے بعد پھراس صلاحیت کے لوگ پیدا نہیں ہوسکے، مزانۂ جاہلیت میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہیں تھا، تولوگوں کوشاعروں کی پوری پوری دیوان نوکِ زبان ہوتی تھیں اور اس طرح جاہلیت کاادب محفوظ ہوسکا، بعد کے ادوار میں ایسی مثالیں شاذ ونادر ہی مل سکیں؛ اسی طرح جب تک شریعتِ اسلامی کے ایک مکمل نظامِ حیات کی ترتیب وتدوین اور زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق مسائل کے حل کی ضرورت تھی اور اس ضرورت کوپوری کرنے کے لیے مجتہدانہ بصیرت مطلوب تھی، اجتہادی صلاحیتوں کے لوگ پیدا ہوتے رہے، جب اس کی ضرورت کم ہوگئی تواس نسبت سے ایسے افراد کی پیدائش بھی کم ہوگئی۔
(۲)تقلید کے رواج نے جوایک منفی اثرپیدا کیا وہ فقہی تعصب وتنگ نظری اور جدل ومناظرہ کی کیفیت کا پیدا ہوجانا ہے؛ گذشتہ ادوار میں بھی فقہی مسائل میں اختلافِ رائے پایا جاتا تھا؛ لیکن ایک دوسرے سے تعصب کی کیفیت نہیں تھی اور نہ اس کےلیے معرکہ جدل برپا ہوتا تھا، اس دور میں بدترین قسم کی تنگ نظری وجود میں آئی، لوگ اپنے امام کی تعریف میں مبالغہ کی آخری حدود کوبھی پار کرجاتے تھے اور مخالف نقطہ نظر کے حامل امام ذی احترام کی شان میں گستاخی اوربدکلامی سے بھی باز نہیں رہتے تھے؛ یہاں تک کہ ان مذموم مقاصد کے لیے بعض خداناترس لوگوں نے روایتیں بھی گھڑنی شروع کردیں۔
چونکہ عوام میں فقہ حنفی اور فقہ شافعی کوزیادہ رسوخ حاصل تھا؛ اس لیے معرکے بھی انھیں دونوں مکاتب فکر کے درمیان نسبتاً گرم ہوتے تھے اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے بعض اوقات بہت ہی پست حرکات کی جاتی تھیں، سلطان محمود سبکتگین اصل میں حنفی تھا اور کچھ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا، ایک شافعی عالم نے اس کومتاثر کرنے کے لیے اس کے سامنے بے ترتیبی کے ساتھ جیسے تیسے وضو کیا، پھرجلدی جلدی نماز پڑھی اور سلام پھیرنے سے پہلے قصداً وضوتوڑنے کا ارتکاب کیا اور بادشاہ سے کہا کہ یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی نماز ہے؛ پھراچھی طرح وضو کیا اور بہتر طریقہ پرنماز ادا کی اور بادشاہ سے کہا کہ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کی نماز ہے؛ چنانچہ سلطان محمود نے اس واقعہ سے متاثر ہوکر شافعیت کواختیار کرلیا اور نقل کرنے والوں کے بہ قول اس حرکت کا ارتکاب کرنے والا کوئی عامی نہیں تھا؛ بلکہ یہ تھے ممتاز شافعی فقیہ قفال شاشی۔
(تاریخ الفقہ الاسلامی، محمدعلی سائس:۱۳۲)
اب یہ فقہی تعصبات ہی کا حصہ ہے کہ ہمارے کتابوں میں یہ بحث ملتی ہے کہ حنفی شافعی اور شافعی حنفی کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے یانہیں؟ رسول اللہ  نے توفاجر کے پیچھے بھی نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی اور صحابہ نے توحجاج بن یوسف کے پیچھے بھی نماز ادا فرمائی؛ لیکن متأخرین کے ہاں یہ ایک سوال بن گیا، احکامِ نماز میں جواختلافِ رائے مثلاً احناف اور شوافع کے درمیان پایا جاتا ہے، یہ صحابہ کے درمیان بھی تھا اور تابعین وائمہ مجتہدین کے زمانہ میں بھی تھا؛ لیکن وہ بے تکلف ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کرتے رہے اور یہ بات ان کے یہاں چنداں قابل اعتناء نہیں تھی۔
اسی طرح احناف کے یہاں یہ بحث ملتی ہے کہ شوافع سے نکاح دُرست ہے یانہیں؟ اور "انا مؤمن انشاء اللہ"(انشاء اللہ میں مؤمن ہوں) کہنے کی وجہ سے کیا ان کومسلمان سمجھا جائے گا؟ یہاں تک کہ بعض لوگوں نے لکھ دیا کہ ان کے ساتھ اہل کتاب کا سامعاملہ کیا جائےــــــ  یہ کس قدر تعصب انگیز اور مزاجِ دین کے مغائر باتیں ہیں؟سلفِ صالحین کے زمانہ میں مناظرہ ایک طرح کا تبادلہ خیال ہوتا تھا، جس میں ایک دوسرے کا پورا احترام ملحوظ رکھا جاتا اور جوبات صحیح نظر آتی تھی اسے لوگ قبول کرتے تھے؛ لیکن اس دور میں مناظرہ کے نام پرمجادلہ اور باہمی سب وشتم کا سلسلہ شروع ہوا، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بادشاہوں اور رئیسوں کے دربار اور بڑی بڑی مسجدیں مناظرہ کا اکھاڑہ بن گئی تھیں اور بہت سے جاہل فرماں روا، جیسے مرغوں اور جانوروں کا مقابلہ کراتے اور تماشہ دیکھتے تھے؛ اسی طرح علماء سے مناظرہ کراکر ان سے لطف لیا جاتا تھا؛ اسی لیے اس عہد کے بہت سے حنفی اور شافعی علماء کے حالات میں خاص طور سے اس کا ذکر ملے گا کہ یہ مذہب مخالف کے فلاں عالم سے مناظرہ کرتے تھے اور یہ کہ مناظرہ میں ان کوبڑا کمال حاصل تھا۔
(۳)اس عہد میں مقلد علماء نے دواہم کام کئے، ایک تواپنے دبستانِ فقہ کی آراء کے لیے دلائل کی تلاش اور استنباط؛ کیونکہ اصحاب مذہب سے بہت سے مسائل میں صرف ان کی رائے ملتی تھی اور اس رائے پردلیل منقول نہیں تھی؛ لہٰذا کچھ توعلمی اور تحقیقی ضرورت اور کچھ مناظروں کی گرم بازاری اور فریق مخالف کی جواب دہی کے پس منظر میں نصوص اور عقل وقیاس سے مذہب کی آراء پردلیل فراہم کی گئیں؛ دوسرا کام ایک ہی مذہب فقہی کی حدود میں مختلف آراء کے درمیان ترجیح کا ہوا، یہ ترجیح کی ضرورت دوموقعوں پرپیش آتی ہے، ایک اس وقت جب امام سے مختلف راویوں نے الگ الگ رائے نقل کی ہو، اس صورت میں راوی کے استناد واعتبار کے لحاظ سے ترجیح دی جاتی ہے کہ کونسی نقل زیادہ دُرست ہے؟ اسی بناء پرحنفیہ کے یہاں ظاہر روایت کونوادر پر، مالکیہ کے ہاں ابن قاسم کی روایت کوابن وھب، ابن ماجشون اور اسد ابن فرات کی روایت پراور شوافع کے یہاں ربیع ابن سلیمان کی روایت کومزنی کی روایت پرمقدم رکھا جاتا ہے، دوسرے اُس وقت جب امام سے ایک سے زیادہ اقوال صحیح ومستند طریقہ پرثابت ہوں؛ ایسی صورت میں امام کے اصول استنباط اور کتاب وسنت اور قیاس سے موافقت اور ہم آہنگی کی بنیاد پربعض اقوال کوترجیح دی جاتی ہے؛ اس لیے ان میں اختلاف رائے کا پیدا ہونا فطری ہے؛ اسی لیے ایک ہی مذہب کے مختلف مصنفین کے نزدیک اقوال وآراء کی ترجیح میں خاصا اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
اس دور کا ایک قابل ذکر کام ائمہ مجتہدین کے اقوال کی تشریح وتوضیح بھی ہے، یعنی مجمل احکام کی توضیح، بعض مطلق اقوال سے متعلق شرائط وقیود کا بیان اور آراء کی تنقیحـــــ  اس طرح اس عہد میں ائمہ متبوعین کے مذاہب کی تنظیم وتدوین اور توضیح وتائید کا بڑا اہم کام انجام پایا ہے۔
(۴)اس دور کا تذکرہ نامکمل ہوگا؛ اگراس دور کے اہم فقہاء اور اہلِ علم کا ذکر نہ کیا جائے؛ اس لیے اختصار کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
حنفیہ
امام ابوالحسن عبداللہ بن حسن کرخی (۲۶۰۔۳۴۰)
ابوبکر جصاص رازی (م۳۷۰ھ)
ابوجعفر محمدبن عبداللہ بلخی ھندوانی (م۳۶۲ھ)              
ابواللیث نصربن محمدسمرقندی، امام الھدیٰ (م۳۷۳ھ)
ابوعبداللہ یوسف بن محمدجرجانی (م۳۹۸ھ)                   
ابوالحسن احمد قدوری (م۴۲۷ھ)
ابوزیدعبداللہ دبوسی، سمرقندی (م۴۰۰ھ)             
ابوعبداللہ حسین صیمری (م۴۳۶ھ)
ابوبکر خواہر زادہ بخاری (م۴۳۳ھ)                    
شمس الائمہ عبدالعزیز حلوانی (م۴۱۸ھ)
شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی صاحب المبسوط (م۴۸۳ھ)    
ابوعبداللہ محمدبن علی دامغانی (م۴۰۰ھ۔ ۴۷۸ھ)
علی بن محمدبزدوی(م۴۸۳ھ)                            
شمس الائمہ بکربن محمدزربخری (۴۲۷۔ ۵۱۲ھ)
ابواسحاق ابراہیم بن اسماعیل صفار (۵۷۴ھ)                  
طاہربن احمد بخاری (م۵۴۲ھ)
ظہیرالدین عبدالرشید والوالجی (م۵۴۰ھ)              
ملک العلماء ابوبکر ابن مسعود کاسانی (م۵۸۷ھ)
فخرالدین حسن اوز جندی قاضی خان (م۵۹۲ھ)               
علی ابن ابی بکرمرغینانی صاحب ہدایہ (م۵۹۳ھ)
بکربن علاقشیری (م۳۱۴ھ)                              
ابوبکر بن عبداللہ المعیطی (م۳۶۷ھ)
یوسف بن عمربن عبدالبر (م۳۸۰ھ)                     
ابومحمدعبداللہ بن اُبی زید قیروانی (م۳۸۶ھ)
ابوبکرمحمدبن عبداللہ أبھری (م۳۹۵ھ)                          
قاضی عبدالوھاب بغدادی (م۴۲۲ھ)
ابوالقاسم عبدالرحمن حضرمی (م۴۴۰ھ)               
ابوالولید سلیمان باجی (م۴۹۴ھ)
ابوالحسن علی لخمی (م۴۹۸ھ)                                     
ابوالولید محمدبن رشد قرطبی (م۵۲۵ھ)
ابوعبداللہ محمدتمیمی (م۵۲۶ھ)                           
ابوبکر محمدبن عربی صاحب احکام القرآن (م۵۳۶ھ)
ابوالفضل قاضی عیاضی (م۵۴۱ھ)                     
محمد بن احمد بن محمد بن ارشد صاحب ہدایۃ المجتہد (م۵۹۵ھ)

یہ اُوپرذکر کئے گئے ابنِ رشد صاحب کتاب المقدمات کے پوتے ہیں، اس لیے "ابن رشد الحفید" کہلاتے ہیں۔
عبداللہ بن نجم سعدی (م۶۱۰ھ)
شوافع
ابواسحاق ابراہیم مروزی (م۲۴۰ھ)                     
ابوعلی حسین، المعروف بابن ابی ہریرہ (م۳۴۵ھ)
قاضی ابوحامد مروزی (۳۶۲ھ)                         
محمد بن اسماعیل قفال کبیرشاشی (م۳۶۵ھ)
ابوالقاسم عبدالعزیزدارکی (۳۷۵ھ)                      
ابوالقاسم عبدالواحد یعمری (۳۸۶ھ)
ابوعلی حسین سنجی (۴۰۳ھ)                                      
ابوحامد ابن محمداسفرائنی (م۴۰۸ھ)
عبداللہ ابن احمدقفال صغیر (م۴۱۷ھ)                            
ابواسحاق ابراہیم اسفرائنی (م۴۱۸ھ)
ابوالطیب طاہرطبری (م۴۵۰ھ)                           
ابوالحسن علی ماوردی (۳۵۰ھ)
ابوعاصم محمدمروزی (م۴۵۸ھ)                        
ابواسحاق ابراہیم شیرازی (م۴۷۶ھ)
ابونصر محمدبن صباغ (م۴۷۷ھ)                        
امام الحرمین ابوالمعالی عبدالملک جوینی (م۴۸۷ھ)
حجۃ الاسلام ابوحامد محمدعزالی (۴۵۰۔۵۰۵ھ)              
ابوالقاسم عبدالکریم رافعی (م۶۲۳ھ)
محی الدین ابوزکریا نووی (م۶۳۱ھ)

چھٹا مرحلہــــــ سقوطِ بغداد تااختتام تیرہوی صدی
یہ عہد بھی بنیادی طور پر پہلے ہی عہد کے مماثل ہے، جس میں مختلف مسالک کے اہل علم نے اپنے مذہب فقہی کی خدمت کی، مختلف مذاہب سے متعلق متون اور متون پرمبنی شروح وحدیث کی ترتیب عمل میں آئی، فتاویٰ مرتب ہوئے، فتاویٰ سے مراد دوطرح کی تحریریں ہیں، ایک متاخرین کے اجتہادات، دوسرے مستفتیوں کے سوالات کے جوابات اسی طرح علمی اعتبار سے اس دور کی خصوصیات کوتین نکتوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
اوّل:یہ کہ گذشتہ ادوار میں علماء کے درمیان باہمی ارتباط اور افادۂ واستفادہ کا دائرہ بہت وسیع تھا، خاص کرحج کا موسم ایک ایسی بڑی درسگاہ کی شکل اختیار کرلیتا تھا، جس میں پوری دنیا کے اہلِ علم ایک دوسرے سے کسب فیض کرتے تھے اور ان کی آراء اور علوم سے فائدہ اُٹھاتے تھے؛ لیکن مذہبی تصلب اور مسلمان آبادیوں کی مختلف مملکتوں میں تقسیم وغیرہ کی وجہ سے اب افادہ واستفادہ کا یہ عالمی مزاج محدود ہوگیا اور ایک ملک اور ایک علاقہ کے علماء ایک دوسرے سے استفادہ پراکتفاء کرنے لگے۔
دوسرے:متقدمین کی کتابوں میں طرزِ گفتگو مجتہدانہ ہوا کرتا ہے، متأخرین کے یہاں زیادہ سے زیادہ جزئیات کوجمع کرنے کا اہتمام پیدا ہوا، اس دور میں متقدمین کی کتابوں سے اہلِ علم کا رشتہ کمزور ہوگیا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جزئیات کی کثرت سے آدمی مسائل کا حافظ ہوسکتا ہے؛ لیکن اس میں تفقہ کی شان پیدا نہیں ہوسکتی۔
تیسرے:متقدمین کے یہاں طریقہ تالیف سادہ، سلیس اور واضح ہوا کرتا تھا، عبارت سہل ہوا کرتی تھی اور اصل توجہ فن اور مضمون پرہوتی تھی؛ لیکن متاخرین کے یہاں الفاظ کی کفایت اور مختصر نویسی کمال ٹھہرا؛ یہاں تک کہ عبارتیں چیستاں بن گئی؛ پھرکئی کئی مصنفین نے اس کی عقدہ کشائی میں اپنازورِ قلم صرف کیا، حاشیے، شرحیں؛ پھران شرحوں پرحواشی اور کبھی ان شروح پرشروح، نتیجہ یہ ہوا کہ فن سے توجہ ہٹ گئی اور غیرمتعلق اُمور پرمحنتیں صرف ہونے لگیں، اس اختصار نویسی کا نمونہ علامہ نسفی کی "کنزالدقائق" زکریا انصاری کی "منہج الطلاب" اور مالکیہ میں "مختصرخلیل" میں دیکھی جاسکتی ہے، خاص کرمالکیہ کے یہاں مسائل کی تعبیر میں اور بی زیادہ اغلاق پایا جاتا ہے۔
اِس صورتِ حال نے فقہی ارتقاء کے راستے روک  دیئے اور زیادہ ترمتون کی مختصرات اور پھران مختصرات پرشروح وحواشی کاکام ہوتا رہا؛ ہیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی گراں قدر تالیفات بھی اسی عہد کی یادگار ہیں؛ خاص کردسویں صدی ہجری کے اوائل تک متعدد صاحب نظر اہل علم پیدا ہوئے، جن میں سے چند کاذکر کیا جاتا ہے:
حنفیہ
ابوالبرکات عبداللہ بن احمدنسفی (م۷۱۰ھ)                      
ابومحمد عثمان فخرالدین زیلعی (م۷۴۳ھ)
محمد بن عبدالواحدکمال الدین ابن ھمام (م۷۶۱ھ)                        
محمد بن احمد بدرالدین عینی (م۷۶۲۔ ۸۵۵ھ)
زین العابدین ابن نجیم مصری (م۹۶۹ھ)                         
شمس الدین محمدبن امیرالحاج حلبی (م۸۷۹ھ)
حافظ سیف الدین قطلوبغا (م۷۹۸۔۸۸۱ھ)              
عمربن ابراہیم ابن نجیم، صاحب النہرالفائق (م۱۰۰۵ھ)
مالکیہ
ابوضیاء خلیل کردی (م۷۷۶ھ)                                    
ابوالحسن نورالدین اجھوری (م۹۶۷۔۱۰۶۶ھ)
محمدبن عبداللہ قریشی (م۱۱۱ھ)                                  
نورالدین عدوی (م۱۱۲ھ)
شوافع
علامہ تقی الدین سبکی (م۶۸۳۔۷۵۲ھ)                          
شیخ الاسلام زکریا انصاری(م۸۲۶۔۹۲۶ھ)
شہاب الدین ابن حجر ہیثمی (م۹۰۹۔۹۹۵ھ)
حنابلہ
علامہ تقی الدین احمد بن تیمیہ (م۶۶۱۔۷۲۸ھ)                          
شمس الدین ابن قیم جوزی (م۶۹۱۔۷۵۱ھ)

فقہ اسلامیــــــ عہدِ جدید میں
فقہ اسلامی کے ارتقاء کے سلسلہ میں جدید دور کا نقطہ آغاز تیرہویں صدی ہجری کے اواخر کوقرار دیا جاسکتا ہے، جب خلافتِ عثمانیہکے حکم پر "مجلۃ الاحکام العدلیۃ" کی ترتیب عمل میں آئی، اس عہد میں فقہ اسلامی کی خدمت کا ایک رحجان پیدا ہوا ہے اور اس سلسلہ میں جوکاوشیں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں، وہ یہ ہیں:
(۱)مسلکی تعصب جوخلافتِ عباسیہ کے سقوط کے بعد سے بہت شدت اختیار کرگیا تھا اور فقہی مسائل مناظرہ ومجادلہ کا موضوع بن چکے تھے، الحمد للہ اب اس صورتِ حال میں بہتری آئی ہے، اب اہلِ علم مختلف ائمہ اور مجتہدین کی آراء کوپورے احترام اور انصاف کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، عوامی مجلسوں میں تمام ہی سلفِ صالحین کے موعظت آمیز واقعات نقل کئے جاتے ہیں، کتابوں میں مخالف دلائل کابھی انصاف کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے، حرمین شریفین میں چار علاحدہ مصلی کی صورت ختم ہوجانے کے بعد سے ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کرنے کا مزاج عام ہوا ہے، ان موضوعات پرمناظروں کی گرم بازاری ختم ہوئی ہے اور نئے مسائل پرغور کرنے کے لیے مختلف مسالک کے علماء ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے اور پورے جذبہ مسامحت کے ساتھ تمام نقاطِ نظر کوسنتے ہیں، یہ بہت ہی مثبت تبدیلی ہے، جوخاص کرگذشتہ نصف صدی میں اُبھرکرسامنے آئی ہے۔
(۲)دوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جہاں احناف وشوافع اور شوافع ومالکیہ کی بے معنی آتش جنگ بجھ چکی ہے، وہیں اس دور میں "ظاہریت" اپنے اسی مزاج ومذاق کے ساتھ جوابن حزم وغیرہ کی تحریروں سے ظاہر ہے، نئے لباس اور نئے پیکر میں ظہور پذیر ہوئی ہے، یہ حضرات اپنے آپ کواہلِ حدیث، سلفی، محمدی، اثری، مختلف ناموں سے موسوم کرتے ہیں؛ انھوں نے نماز سے متعلق چار، پانچ مسائل، طلاق سے متعلق ایک مسئلہ اور طریقہ مصافحہ کواپنی تمام علمی کاوشوں اور محنتوں کا محور بنارکھا ہے اور اپنے گمان میں اسے تبلیغ دین تصور کرتے ہیں؛ اس فرقہ نے اُمت کے سوادِ اعظم اور سلفِ صالحین پرطعن وتشنیع اور فروعی مسائل پرمناظرہ ومجادلہ؛ نیزدوسرے مسلمانوں کی تکفیر وتفسیق کا اس سے زیادہ بدترین طریقہ اختیار کررکھا ہے، جوکسی زمانہ میں تنگ نظر مقلد عوام ایک دوسرے کے خلاف کیا کرتے تھے، فھداھم اللہ ووفقہم بالحق۔
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ برصغیر میں یہ غلو پسند فرقہ اپنی نسبت شیخ محمدبن عبدالوھاب نجدیؒ اور عرب علماء سے کرتا ہے؛ حالانکہ شیخ نجدیؒ نے خود اپنے آپ کوحنبلی قرار دیا ہے اور عام عرب علماء ومحققین ایسی تنگ نظری اور تعصب میں مبتلا نہیں ہیں جواس فرقہ کا امتیاز ہے، خود ہندوستان میں اس مکتبِ فکرکے بزرگوں نواب صدیق حسن خانؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، مولانا عبداللہ غزنویؒ وغیرہ کے یہاں اس طرح کا غلو نہیں ملتا، برصغیر میں غیرمقلدین کی جونئی نسل نشوونما پارہی ہے افسوس کہ ان کی اکثریت اس وقت اُمت میں تفریق وانتشار کی نقیب وترجمان بنی ہوئی ہے۔
(۳)سترھویں صدی کے انقلاب کے بعد سے جدید مسائل کی ایجاد، عالمی تعلقات میں قربت اور مختلف ممالک کے درمیان باہمی ارتباط میں اضافہ، تہذیبی اقدار میں تبدیلی اور سیاسی ومعاشی نظام میں آنے والے تغیرات کے پسِ منظر میں جس تیزی سے نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، بحمدللہ علماء اور ارباب افتاء کی توجہ ان مسائل کے حل کی طرف مبذول ہوئی ہے، اس سے دوہرا فائدہ ہوا، ایک توشریعت اسلامی کواس وقت جس خدمت کی ضرورت ہے، اہلِ علم کی صلاحیتیں اس خدمت میں صرف ہورہی ہے، دوسرے گذشتہ دوتین صدیوں سے کسی نئے علمی کام کے بجائے تفصیل کا اختصار اور اختصار کی تفصیل؛ نیزغیراہم مسائل کی تحقیق اور فریق مخالف کے نقطہ نظر کوکمزور ثابت کرنے پرجوکاوشیں ہورہی تھیں، صحیح میدانِ عمل مہیا ہونے کی وجہ سے اب اس رویہ کی اصلاح ہوئی ہے۔
(۴)اس دور میں جوعلمی کارنامے انجام پائے ہیں یاپارہے ہیں، ان کوہم چار حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
اوّل فقہی مضامین کو دفعہ وار جدید قانونی کتابوں کے انداز پرمرتب کرنا کہ اس سے لوگوں کے لیے استفادہ آسان ہوجاتا ہے اور عدالتوں کے لیے یہ باب ممکن ہوتی ہے کہ وہ اس قانون کواپنے لیے نشانِ راہ بنائے، اس کی ابتداء "مجلۃ الاحکام" سے ہوئی حکومتِ عثمانیہ ترکی نے اس ضرورت کومحسوس کرتے ہوئے، وزیرانصاف کی صدارت میں اکابر فقہاء کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور انھیں حکم دیا کہ فقہ حنفی کے مطابق نکاح، تجارت اور تمام معاملات کے احکام کودفعہ وارمرتبہ کریں، ۱۲۸۵ھ مطابق ۱۸۶۹ء میں یہ کام شروع ہوا اور سات سال کی محنت کے بعد ۱۲۹۳ھ مطابق ۱۸۷۶ء میں پایہ تکمیل کوپہنچا؛ پھرشعبان ۱۲۹۳ھ کوحکومت کے حکم سے اس کی تنفیذ عمل میں آئی، اس مجموعہ کے شروع میں فقہ، اس کی اقسام اور نوے قواعد پرمشتمل مقدمہ ہے، یہ مجموعہ سولہ مرکزی عنوانات اور اس کے تحت مختلف ابواب پرمشتمل ہے، ہرباب کے شروع میں اس باب سے متعلق فقہی اصطلاحات نقل کی گئی ہیں، کل دفعات (۱۸۵۱) ہیں، یہ مجموعہ فقہ حنفی کے راجح اقوال پرمبنی ہے؛ البتہ بعض مسائل میں احوالِ زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے ضعیف اقوال کوبھی قبول کیا گیا ہے۔
اس کے بعد مختلف مسلم ممالک میں حکومت کی زیرنگرانی احوالِ شخصیہ سے متعلق مجموعہ قوانین کی ترتیب عمل میں آئی، یہ مجموعے کسی ایک فقہ پرمبنی نہیں تھے؛ بلکہ ان میں مختلف مذاہب سے استفادہ کیا گیا تھا؛ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مختلف ممالک میں یوروپ کے اثرسے قانونِ شریعت میں ناقابلِ قبول تبدیلیاں کردی گئی ہیں، جیسے تعدادِ ازدواج کا مسئلہ، احکامِ طلاق، میراث میں مردوعورت کے درمیان فرق، وغیرہ؛ اسی طرح مجموعہ قوانین کی ترتیب کی بہت ہی قابل قدر انفرادی کوششیں بھی عمل میں آئی ہیں، اس سلسلہ میں فقیہ محمدقدری پاشاہ کی "مرشدالحیران لمعرفۃ احوال الانسان" فقہ حنفی کے مطابق احوالِ شخصیہ، وقف اور معاملات سے متعلق احکام پرمشتمل ہے اور جس کی دفعات (۱۰۴۵) ہیں، شیخ ابوزہرہ کی "الاحوال الشخصیۃ" (جس میں کسی ایک مذہب کی پابندی نہیں کی گئی) اور شیخ احمد بن عبداللہ قاری کی "مجلۃ الاحکام الشرعیۃ علی مذھب الامام احمد بن حنبل شیبانی" (جومجلۃ الاحکام کے طرز پرفقہ حنبلی کے نقطہ نظرسے معاملات کے احکامات کا مجموعہ ہے، ۲۳۸۴ دفعات پرمشتمل ہے) نیز جرم وسزا کے اسلامی قانون سے متعلق ڈاکٹر عبدالقادر عودہ شہید کی "التشریع الجنائی الاسلامی" (۲/حصے، ۹۸۴ دفعات)خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، عالم عرب میں اس طرح کی اور بھی بہت سی کوششیں ہوئی ہیں، جس نے عام لوگوں کے لیے استفادہ کوآسان کردیا ہے۔
برصغیر میں اس سلسلہ میں جوکوشش ہوئی ہیں ان میں ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب کی مجموعہ قوانین اسلام اور ہندوستان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے زیرنگرانی پرسنل لاء سے متعلق مجموعہ قوانین (جوغالباً ۶/جلدوں پرمشتمل ہے) نہایت اہم ہے، یہ دونوں مجموعے بنیادی طور پرفقہ حنفی کے لحاظ سے مرتب کئے گئے ہیں؛ البتہ بعض مسائل میں دوسرے دبستانِ فقہ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے؛ اسی سلسلہ کی ایک اہم کوشش اسلام کے عدالتی قوانین سے متعلق حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی اسلامی عدالت ہے جو ۷۴۰/دفعات پرمشتمل ہے اور اُردو زبان میں اس موضوع پرمنفرد کتاب ہے، اس کا عربی ترجمہ بھی بیروت سے شائع ہوچکا ہے۔
(۵)اس دور میں قدیم کتابوں کی خدمت میں بھی بعض نئے پہلو اختیار کئے گئے ہیں، جیسے مضامین کی فقہ بندی، تفصیلی فہرست سازی، تعلیق وتحقیق اور ایک اہم سلسلہ حروفِ تہجی کی ترتیب پرمضامین فہرست سازی کا بھی شروع ہوا ہے، جوکتاب سے مراجعت کرنے والوں کے لیے بہت ہی سہولت بخش ہے، چنانچہ احمد مہدی نے"ردالمحتار" کی، محمداشقر نے "المغنی لابن قدامہ" کی اور محمدمنتصرکتانی نے "المحلی لابن حزم" کی ابجدی فہرست بنائی ہے؛ اسی طرح فقہ مالکی میں "الشرح الصغیر للدردبر" ابجدی فہرست کے ضمیمہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے، ان فہارس نے طویل کتابوں سے استفادہ اور مطلوبہ مضامین کے حصول کوآسان کردیا ہے، خاص کرجن کتابوں کوکمپیوٹر میں فہارس کے ساتھ محفوظ کردیا گیا ہے، ان سے استفادہ مزید سہل ہوگیا ہے۔
موجودہ دور میں مختلف علوم کی انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنے کا رحجان عالمی سطح پراور ہرزبان میں بڑھ رہا ہے، بحمدللہ فقہ اسلامی میں بھی اس سلسلہ میں متعدد کوششیں کی گئی ہیں؛ چنانچہ جب مشہور اسلامی مؤلف اور داعی ڈاکٹر مصطفی سباعی دمشق یونیورسٹی میں "کلیۃ الشریعۃ" کے صدر شعبہ بنے توفقہ اسلامی کی "دائرۃ المعارف" کی ترتیب کا منصوبہ پیش کیا اور ۱۹۵۶ھ میں حکومتِ شام نے اسے منظور کرلیا، اس مقصد کے لیے ڈاکٹرمصطفی سباعی، ڈاکٹر احمد سمان، ڈاکٹرمصطفی زرقاء، ڈاکٹرمعروف دوالیبی اور ڈاکٹریوسف العش جیسے ممتاز اصحاب تحقیق پرمشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی اور کام چار مراحل پرتقسیم کیا گیا، جن میں پہلا مرحلہ موسوعہ میں آنے والے فقہی موضوعات کی تعیین وترتیب تھی، افسوس کہ طویل عرصہ گذرجانے کے باوجود اس کا پہلا مرحلہ ہی تشنہ تکمیل ہے۔
۱۹۵۸ء میں جب مصر وشام کا اتحاد ہوا تومشترکہ طور پرمصر اور شام نے مل کراس موسوعہ کی ترتیب کا ذمہ لیا؛ لیکن یہ اتحاد جلد ہی ۱۹۶۱ء میں ٹوٹ گیا؛ چنانچہ ۱۹۶۲ء میں حکومتِ مصر نے ازسرنو اس کی منصوبہ سازی کی اور ایک مضحکہ خیز بات یہ ہوئی کہ جمال عبدالناصر جیسے دین بیزار شخص کی طرف منسوب کرکے اس کا نام "موسوعۃ جمال عبدالناصر فی الفقہ الاسلامی" رکھ دیا گیا، موسوعۃ کے لیے مقررہ یہ کمیٹی کام کررہی ہے اور اب تک اس کی پندرہ سولہ جلدیں منظرعام پرآچکی ہیں، اس موسوعۃ میں حنفیہ، مالکیہ، شوافع، حنابلہ اور ظاہریہ کے علاوہ امامیہ، زیدیہ اور اباضیہ فرقوں کے نقطہ نظر کوبھی ضروری دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اُصولِ فقہ اور قواعدِ فقہ کوبھی شامل رکھا گیا ہے۔
اسی طرح کی ایک اور کوشش "جمعیۃ الدراسات الاسلامیۃ قاھرہ" نے شیخ محمدابوزہرہ کی صدارت میں شروع کی تھی، جس میں مذکورہ آٹھوں مذاہب کا نقطہ نظر جمع کرنا پیش نظر ہے؛ لیکن غالباً یہ کوشش منظر عام پر نہیں آسکی ہے۔
اس سلسلہ کی سب سے کامبیاب اور نتیجہ خیز کوشش وزارتِ اوقاف کویت کی طرف سے ہوئی ہے، جس نے ۱۹۶۶ء میں "الموسوعۃ الفقہیہ" کے منصوبہ کومنظوری دی اور اس مقصد کے لیے فقہی موسوعہ کا تصور پیش کرنے والی پہلی شخصیت ڈاکٹر زرقاء کی حدمات حاصل کیں، اس موسوعہ میں بھی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری، زیدی، اثناء عشری اور اباضی نقاط نظر کوتفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، یہ عظیم الشان کام پینتالیس جلدوں میں مکمل ہوچکا ہے اور واقعہ ہے کہ اس موضوع پرایک تاریخی علمی کام ہوا ہے، جویقیناً فقہ اسلامی کی نشاۃ ثانیہ کا حصہ ہے، مقامِ مسرت ہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے اس موسوعہ کواُردو کا جامہ پہنایا ہے، تادمِ تحریر چالیس جلدوں کا ترجمہ مکمل ہوچکا ہے اور اس وقت نظرِثانی اور مراجعت کے آخری مراحل میں ہے، دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت کوآسان فرمائے اور اُردو دنیا کواس عظیم علمی ذخیرہ کے ذریعہ شاد کام کرے۔
انسائیکلوپیڈیائی کاوشوں میں ڈاکٹر رواس قلعہ جی کوہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انھوں نے عہدِ صحابہ اور عہدِ تابعین کے ان فقہاء کی آراء کویکجا، منضبط اور مرتب کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جن کے اقوال مختلف کتابوں میں بکھرے ہوئے تھے اور سلف کا ایک بہت بڑا علمی اور فقہی ورثہ لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہوتا جارہا تھا، ڈاکٹر رواس نے الف بائی ترتیب سے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عائشہ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حسن بصریؒ اور ابراہیم نخعیؒ وغیرہ کی فقہ کوجمع کیا ہے اور اس طرح اہلِ علم کی نئی نسل کوابتدائی دور کے فقہاء کے اجتہادات سے مربوط کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، فجزاہم اللہ خیرالجزاء۔
(۷)اس عہد میں ایک بہتررحجان نئے مسائل پراجتماعی غور وفکرکا بھی پیدا ہوا ہے، جس میں مختلف فقہی مذاہب کے اہلِ علم سے استفادہ کیا جائے اور اس دور کی مشکلات کوحل کیا جائے؛ چنانچہ رابطہ عالم اسلامی کی مؤتمر منعقدہ مکہ مکرمہ ۱۳۸۴ھ میں "مجمع الفقہ الاسلامی" کے سلسلہ میں ڈاکٹرمصطفی زرقاء نے نہایت اہم تجویز پیش کی، یہ تجویز قبول کی گئی، مجمع کی تشکیل عمل میں آئی چنانچہ اب تک اس کے دسیوں اجلاس ہوچکے ہیں اور کئی درجن مسائل زیربحث آچکے ہیں، ان ہی خطوط پرزیادہ وسعت کے ساتھ ۱۹۸۳ء میں جدہ (O.I.C) کے تحت فقہ اکیڈمی کی تشکیل ہوئی، جواس وقت عالمی سطح پرسب سے زیادہ باوقار اور فعال اکیڈمی سمجھی جاتی ہے ۲۰۰۴ء تک اس اکیڈمی کے ۱۴/سیمینار ہوچکے تھے اور اس میں ۱۳۳/مسائل زیربحث آچکے تھے، ان دونوں اکیڈیمیوں کے سمیناروں کی تجاویز کا اُردو ترجمہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا سے شائع ہوچکا ہے؛ اسی طرح یوروپ میں "یوروپی افتاء کونسل" قائم ہے، جس کا مرکز برطانیہ ہے اور جس کےعالم اسلام میں اور بھی کئی ادارے ہیں جوخاص کرمسلمانوں کودرپیش جدید فقہی مسائل کواجتماعی غوروفکر اور تبادلہ خیال کے ذریعہ حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ہندوستان کے علماء نے بھی اس سمت میں کوششیں کی ہیں، دارالعلوم ندوۃ العلماء نے مجلس تحقیقاتِ شرعیہ اور جمعیۃ علماءِ ہند نے "ادارۃ المباحث الفقہیۃ" کواسی مقصد کے تحت قائم کیا تھا، پاکستان میں مولانا مفتی محمدشفیع صاحبؒ اور مولانا محمدیوسف بنوریؒ وغیرہ نے "مجلس تحقیق مسائل حاضرہ" کی بنیاد رکھی تھی، ان مجالس نے وقتا فوقتا اجتماعات منعقد کئے ہیں اور متعدد مسائل پرتبادلہ خیال کیا گیا ہے؛ لیکن مسائل کی رفتار کے اعتبار سے کام آگے نہیں بڑھ سکا؛ کیونکہ ان اداروں کی حیثیت ضمنی تھی اور جن تنظیموں اور اداروں کے تحت یہ رکھا گیا تھا، ان کے کام کا دائرہ خود بہت وسیع ہے۔
اسی پس منطر میں ۱۹۸۹ء میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلامی قاسمیؒ نے اسلامک فقہ اکیڈمی کی بنیاد رکھی، اکیڈیمی نے اب تک ۱۵سیمینار کئے ہیں اور ان سیمیناروں میں پچاس سے زیادہ مسائل زیربحث آئے ہیں، ان سیمیناروں میں پیش کئے جانے والے مقالات کی ۲۰/سے زیادہ ضخیم جلدیں طبع ہوکر منظرعام پرآچکی ہیں، اس کے علاوہ فقہی تحقیق اور نئی نسل کوصحیح خطوط پرتربیت کے سلسلہ میں اکیڈیمی نے نہایت اہم اور ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔
(۸)اس عہد سے پہلے عام طور پرفقہی ذخیرہ عربی زبان ہی میں ہوا کرتا تھا، یاچند کتابیں فارسی زبان میں لکھی گئی تھیں؛ لیکن موجودہ عہد میں فقہ کے عربی ذخیرہ کواُردو اور دوسری زبانوں میں منتقل کرنے کا ذوق پیدا ہوا اور مختلف علاقائی اور عالمی زبانوں میں فقہ کے موضوع پریاتوترجمے کئے گئے، یامستقل طور پرکتابیں لکھی گئیں، ان زبانوں میں اُردوزبان کواوّلیت کا شرف حاصل ہے اوریہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت اُردوزبان میں علوم اسلامی اور فقہ کا جتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے، عربی زبان کے سوا کسی اور زبان میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے؛ بلکہ بعض کتابیں توایسی ہیں کہ عربی وانگریزی میں بھی ان کے ترجمے ہوئے اور انھیں قبول عام وخاص حاصل ہوا، ان میں اُصولِ فقہ، تاریخ فقہ، قواعدِ فقہ، فقہ کے تمام ابواب کوجامع اور فقہ کے کسی ایک باب نیز فقہ حنفی، فقہ شافعی اور فقہ سلفی سے متعلق ہرطرح کی کتابیں  موجود ہیں۔
اورظاہر ہے کہ بہت سی کتابیں نایاب ہوجانے، یاان تک رسائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ بھی گئی ہوں گی؛ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس موضوع پراُردوزبان میں کم وبیش ڈیڑھ ہزار تالیفات موجود ہیں اور یقیناً یہ اُردو زبان کی بڑی سعادت اور اس کے لیے تمغہ افتخار ہے، سنہ۲۰۰۰ء تک کے جائزہ کے مطابق ۱۲۴۷/ کتابیں موجود ہیں۔


فقہ ظاہری اور اس کے مؤسسین

کتاب وسنت کے الفاظ میں ظاہری مفہوم ہی اصل ہیں، فقہاء اصولین نے الفاظ کے تحت یہ صراحت کی ہے کہ لفظ کواس کے حقیقی معنی سے الگ کرکے استعمال کرنا خلافِ اصل ہے؛ البتہ قرائن کی بنیاد پرلفظ کے ظاہری مفہوم سے انحراف کیا جاسکتا ہے؛ لفظ کا معنی کبھی لغت، کبھی شریعت اور کبھی عرف سے معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ حقیقت کی تعریف یہ کی جاتی ہے:
"اللفظ المستعمل فيما وضع له، فيشمل هذا الوضع اللغوي، والشرعي، والعرفي، والاصطلاحي"۔
امام شافعیؒ نے اس بات پربہت زور دیا ہے کہ لفظ کے حقیقی اور ظاہری معنی ہی کا اعتبار کیا جائے اس پرلعان کے ایک واقعہ سے بھی استدلال کیا ہے، جس میں قرائن زنا کی تصدیق کرتے تھے؛ لیکن آپ نے عورت کے ظاہری انکار اور لعان کی وجہ سے صرف بچہ کے نسب کی نفی فرمائی زنا کی سزا جاری نہیں کی۔                       
(الرسالہ:۱۵۵)
عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں ظاہریت
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں، صحابہ کرامؓ میں سے بعض کے نزدیک حدیث کے اخذورد کا معیار ظاہری مفہوم ومعانی ہی قرار پایا ہے اور جمہور صحابہؓ کے اجماع، حدیث کے نسخ اور میزانِ عقل پردرست نہ ہونے کے باوجود وہ اپنے مسلک اور رائے پرآخری وقت تک ثابت قدم رہے، مثلاً: حضرت ابوہریرہؓ جنہوں نے آگ میں پکی ہوئی چیزوں سے وضو ٹوٹنے والی حدیث روایت کی ہے، ان کا عمل اور فتویٰ اسی پرتھا، عام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کواس سے اختلاف تھا اور وہ اسے منسوخ سمجھتے تھے؛ کیونکہ آپ کا آخری عمل اس کے خلاف تھا۔ 
(عن جابر)
تاہم حضرت ابوہریرہؓ نے اپنے مسلک اور فتویٰ میں کوئی تبدیلی کرنا ضروری نہیں سمجھا اور اپنی رائے پرشدت سے جمے رہے، جب حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پوچھا کہ اگرکوئی گرم پانی سے وضوء کرے تووضوء ہوگا یانہیں؟ انہوں نے انتہائی دکھ سے جواب دیا: بھتیجے! میں حضوراکرم  کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم میزانِ عقل پرپرکھنے کی کوشش کررہے ہو۔     
  (شرح معانی الآثار:۱/۶۸)
ظاہر ہے کہ ان کوحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ استدلال اور اندازِفکر پسند نہیں آیا، اس لیے کہ وہ ظاہری مفہوم ومعانی سے احتراز کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے، صحابہؓ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا شمار بھی ان حضرات میں ہوتا ہے جوالفاظ کے ظاہری مفہوم کا اعتبار کرتے تھے؛ چنانچہ احادیث کی بڑی تعداد پرانھوں نے ظاہری مفاہیم ہی پرعمل کیا ہے اور فتوے دئے ہیں، حضوراکرم  کی ایک حدیث میں ہے کہ میت پراس کے خاندان کے لوگوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
(موسوعۃ ابن عمربردایت موطاء امام مالکؒ:۶۸۱)
اس حدیث کی روشنی میں وہ میت کے لوگوں کے اس پررونے کی وجہ سے میت پرعذاب کے قائل تھے۔
(موسوعۃ ابن عمربردایت موطاء امام مالکؒ:۶۸۱)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس سے اختلاف تھا اور وہ اس حدیث سے اس کے ظاہری معنی مراد لینے کے بجائے توجیہ کرتی تھیں، عورتوں کومسجد میں ادائیگی نماز کے لیے جانا ابتداءِ اسلام میں ایک عام سی بات تھی، اس سلسلے میں حضوراکرم  کی حدیث موجود ہے کہ آپ نے خواتین کومسجد جانے سے روکنے کومنع فرمایا تھا۔               
  (نیل الاوطار)
ان روایات کی وجہ سے ابن عمرؓ کا فتویٰ تھا کہ عورتوں کوروکا کرتے، حضرت  عمرؓ ان سے متفق نہ تھے؛ چنانچہ اپنے بیٹے سے اس لیے نالاں تھے کہ انہوں نے اپنی ازواج کومسجد جانے سے روک رکھا تھا۔         
        (موسوعہ فقہ ابن عمر)
حقیقت یہ ہے کہ احادیث کا ظاہری مفہوم تووہی ہے جوابن عمرؓکا مسلک ہے؛ لیکن دوسری روایات سے عورتوں کے مسجد میں جانے کا استحباب معلوم ہوتا ہے، ان روایات سے خود حضرت عمرفاروقؓ جیسے فقیہ بھی واقف تھے؛ لیکن حالات کی تبدیلی، اخلاقی پستی اور تزئین وآرائش کے بڑھتے ہوئے رحجان سے جب فتنہ کا خدشہ ہونے لگا توخود حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ کومسجد جانے سے روکا (ملاحظہ ہو، نیل الاوطار:۲/۱۳۱) حالات کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت ابنِ عمرؓ اپنی رائے تبدیل کرتے؛ لیکن آخر عمرتک ظاہر حدیث پرہی انہوں نے عمل کیا، حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے کثرتِ دولت اور ادخار کی اس شدت سے مخالفت کی کہ بعض ناخوشگوار واقعات سے ان کودوچار ہونا پڑا۔
حضرت ابوذرغفاریؓ کا زہد اور قناعت الی اللہ کی کیفیت سے اسلامی تاریخ کا کون قاری ناواقف ہوگا؛ لیکن دولت کے ساتھ اگرشرعی واجبات ادا کئے جائیں تواس میں کوئی قباحت نہیں؛ چنانچہ آپ  نے حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت طلحہؓ جیسے اصحاب ثروت کے لیے برکت کی دعا بھی فرمائی ہے اور ان حضرات کی دولت سے اسلام کوبڑے نازک مواقع پرفائدہ پہونچا ہے۔
ظاہریت اور ائمہ مجتہدین
کتاب وسنت اجماع اور قیاس بطور ادلۂ شرع کے تمام مجتہدین کے نزدیک معتبر اور حجت ہے؛ لیکن طریقِ اجتہاد اور استنباط میں امتیازی خصوصیات بھی ہرایک کی جداگانہ ہیں، اس کے باوجود بھی ہرایک کے یہاں ظاہری مفہوم کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اس طرح ظاہریت کا رنگـــــ  کہا جاسکتا ہے کہـــــ  کچھ نہ کچھ چاروں مکاتب فقہ میں موجود ہے۔
نواقضِ وضوء کے سلسلہ میں احناف نے اپنے عام اصول سے انحراف کرتے ہوئے خلافِ قیاس نماز میں قہقہ کی صورت میں ابوالعالیہ کی ایک مرسل روایت کی بنیاد پروضوٹوٹ جانے کا حکم لگایا ہے۔             
    (ہدایہ:۱/۱۲)
اصولی طور پرقہقہ کونقاضِ وضو نہیں ہونا چاہئے؛ اسی لیے جمہور نے اس مسئلہ میں احناف سے اختلاف کیا ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھا جائے، ہدایۃ المجتہد:۱/۴۰، ابن رشد)
حضرت امام شافعیؒ کے یہاں بھی ظاہری الفاظ پرکثرت سے عمل کیا گیا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ اشْتَرَى مُصَرَّاةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ إِذَاحَلَبَهَا إِنْ شَاءَ رَدَّهَا وَرَدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ"۔
(ترمذی،كِتَاب الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْمُصَرَّاةِ،حدیث نمبر:۱۱۷۲،شاملہ، موقع لإسلام)
جس نے ایسے جانور کوخریدلیا کہ جس کے مالک نے جانور کے دودھ کودوہنے میں ناغہ کرکے دودھ تھن میں جمع کردیا ہوتاکہ خریدار تھنوں میں زیادہ دودھ دیکھ کرخرید کرلے تواس کواختیار ہے کہ چاہے توجانور رکھ لے یاواپس کردے؛ لیکن واپسی کی صورت میں ایک صاع کھجور بھی واپس کرے؛ چنانچہ امام شافعیؒ خریدار پرواپسی کی صورت میں ظاہر حدیث پرعمل کرتے ہوئے ایک صاع کھجور کا واپس کرنا واجب قرار دیتے ہیں جب کہ احناف اور مالکیہ نے دیگراحادیث درایت اور قیاس کی بناء پرکھجور کی واپسی کوزیادہ سے زیادہ اخلاقی حکم قرار دیا ہے؛ اس لیے کہ حدیث کے سند کے اعتبار سے صحیح ہونے کے باوجود قیاس اس کے خلاف ہے کہ خریدار اپنے قبضہ میں نکالے ہوئے دودھ کی قیمت یامعاوضہ ادا کرے، جب کہ ان ایام میں چارہ وغیرہ کا نظم بھی اسی کے ذمہ تھا؛ اگروہ جانور ہلاک ہوجاتا تواسی کی چیز ضائع ہوتی اور اصول ہے کہ جونقصان کا ضامن ہوگا وہی اس کے نفع کا بھی حقدار ہوگا، الخراج بالضمان۔
حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ کتے کا جھوٹا دھویا جائے گا؛ گواس کی تعداد میں اختلاف ہے، یہ بات بھی متفقہ ہے کہ کتے کے ذریعہ شکار، نگرانی وغیرہ امور کی اجازت شریعت میں ہے؛ لیکن اس میں اختلاف ہے کہ خود کتا پاک ہے یاناپاک، امام مالکؒ کا مسلک یہ ہے کہ کتا پاک ہے اور دلیل اس کے ذریعہ شکار کا جائز ہونا ہے، جس کوکتے کالعاب ضرور لگے گا؛ البتہ تعبدی طور پر اس کا جھوٹا سات مرتبہ دھونا ضروری ہوگا، جمہور محدثین وفقہاء کا اس بات پراتفاق ہے کہ اونٹ کے گوشت کے کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، جب کہ امام احمد بن حنبلؒ اونٹ کا گوشت کھانے کوناقضِ وضو سمجھتے ہیں اور استدلال حضرت جابر بن عمرؓ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جس میں حضوراکرم  نے اونٹ کے گوشت سے وضو کا حکم فرمایا تھا۔ 
   (نیل الاوطار:۱/۲۰۰، بیروت)
عام محدثین اور فقہاء کی نظر میں یہ حدیث بھی منسوخ ہے؛ کیونکہ آگ میں پکی ہوئی چیزوں سے وضو ٹوٹنے والی روایت باتفاق صحابہؓ ومحدثین منسوخ ہے؛ اس طرح فقہ کے ان چاروں دبستانوں میں کسی نہ کسی درجہ میں ظاہریت موجود ہے۔
ظاہری مکتبِ فکر کے دواہم نمائندے
امام داؤد ظاہری رحمہ اللہ (۲۰۰ھ): پورا نام ابوسلیمان داؤد بن خلف ہے، بغداد کے رہنے والے ہیں اور اصفہانی نسبت ہے، ان کوظاہری مکتبِ فکر کا بانی ومؤسس کہنا زیادہ مناسب ہے، اس لیے کہ ان سے پہلے اس فکر کوباقاعدہ کسی نے اختیار نہیں کیا، جزوی مسائل میں بعض صحابہ اور مجتہدین کے تفردات کے علاوہ اس کی نظیرنہیں ملتی۔
بغداد میں پیدا ہوئے اور مروجہ علوم مقامی علماء سے حاصل کیا، ابتداء میں جن علماء سے کسب فیض کیا وہ شوافع تھے؛ چنانچہ امام شافعی کے فضائل ومناقب میں ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے۔                  
(ابنِ حزم:۲۶۳)
بعد میں دوسرے مراکز علم نیشاپور وغیرہ کے اسفار کئے اور محدثین وفقہاء سے اسلامی علوم حاصل کئے، علم کی زیادتی کے ساتھ فکر میں جولانی پیدا ہوئی اور شافعی فقہ سے دست کش اور اپنے افکار ونظریات کی ترویج واشاعت میں مشغول ہوگئے اور اپنے نظریہ میں اتنا غلو کیا کہ جمہورِامت سے معاندانہ طریقِ کار اختیار کرلیا، ان کے معاصرین میں سے ایک کی رائے ہے کہ ان کی عقل ان کے علم سے زیادہ تھی (ابن حزم:۲۶۳) ذاتی طور پر داؤد ظاہری کی زندگی انتہائی سادہ اور ظاہری نمود وریا سے پاک تھی، زہدوتقویٰ اور خشیتِ الی اللہ کی کیفیت ان پرہمیشہ غالب رہتی تھی، علمی تبحر کے ساتھ ساتھ فنِ حدیث میں بھی ثقہ سمجھے جاتے تھے؛ لیکن مشہور محدثین نے ان سے حدیث کی روایت نہیں کی ہے، اس کی وجہ غالباً ان کا اپنے افکار میں انتہائی غلوکرنا، خاص کرقیاس کا انکار اور قرآن کومخلوق کہنا معلوم ہوتا ہے۔
(ابنِ حزم:۲۶۶)
ان کا نقطۂ نظریہ ہے کہ موجودہ قرآن مخلوق ہے اور جولوحِ محفوظ میں ہے غیرمخلوق ہے، جس کوسوائے فرشتوں کے کوئی نہیں چھوتا
شریعت کے مآخذ
مآخذ فقہ ان کے نزدیک تین ہیں: (۱)کتاب (۲)سنت (۳)اجماع اور ہرایک کے لیے طرزِ استنباط الگ الگ ہے، مثلاً: کتاب وسنت میں اصول یہ ہے کہ کسی بھی مسئلہ کے لیے اصل کتاب اللہ ہے؛ اگروہاں موجود نہ ہوتوسنتِ رسول  ہے؛ لیکن کوئی بھی روایت یاآیت ایسی نہیں جس میں اس حکم کی علت مقرر کی جائے اور اس کوحکم کا مدار بنایا جائے؛ اس لیے قیاس کا علی الاطلاق انکار کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ قرآن وحدیث میں کوئی لفظ مجاز پرمحمول نہیں ہے۔         
     (الفقہ والمتفقہ:۱/۶۵، خطیب بغدادیؒ)
اجماع کا مفہوم انتہائی محدود ہے اور ابنِ حزم کے نزدیک اجماع کے مفہوم سے قریب تربلکہ یکساں ہے اس لیے ابن حزم کے حالات میں اس کی تفصیل آئے گی، ان کا یہ تین بنیادی نظریہ ہے، جس کی وجہ سے ہمیشہ معاصر علماء ومجتہدین سے ان کی چشمک رہی اور تنقید کا نشانہ بنتے رہے اور حقیقت تویہ ہے کہ ظاہریت کی اس فکر کواگرقبولیتِ عامہ حاصل ہوجائے توبعید نہیں کہ پھرخوارج جیسی کوئی جماعت ظہور پذیر ہو، داؤد ظاہری کی وفات کے بعدان کے افکار کواندلس میں قبولیت حاصل ہوئی، جن حضرات نے ترویج واشاعت کا فریضہ انجام دیا ان میں اہم لوگ بقی بن مخلد (۲۰۰/۲۷۶)، ابن وضاح (متوفی:۳۸۶ھ)، قاسم بن اصبغ (۳۴۰ھ)، منذر بن سعید البلوطی (متوفی:۳۵۵ھ) ہیں، ان حضرات کے افکار ونظریات اور تفردات پراس مقالہ میں گفتگو مشکل ہے، تفصیل کے لیے خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد کا مطالعہ مفید ہوگا۔
ابنِ حزم (۳۸۴/۴۵۶) ظاہری مکتب فکر کی ترویج وترقی اور باقاعدہ اس کوایک فکرونظریہ کا مقام جس شخصیت کے ذریعہ حاصل ہوا وہ ابن حزم کی ذات ہے، نام علی بن احمد بن سعید بن حزم ہے ابومحمد کنیت ہے، ان کے جدامجد"خلف" سب سے پہلے اندلس میں اقامت گزیں ہوئے، یہ اصلاً فارس النسل ہیں؛ وہاں انہوں نے اپنی لیاقت، ذہانت وفطانت سے حکومت میں اعلیٰ مناصب حاصل کئے، ابن حزم کی ولادت اس دور کے مدینۃ العلم قرطبہ میں ہوئی؛ انہوں نے دولت واقتدار اور خدم وحشم کے درمیان آنکھیں کھولیں، ان کے والد حکومت کی وزارت میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے، اس لیے انتہائی ناز ونعم میں پرورش ہوئی، ابتدائی علم بقول ان کے گھر کی عورتوں سے حاصل کیا؛ پھربلوغ کے بعد فقہاء ومحدثین سے کسبِ فیض کی جانب متوجہ ہوئے؛ چونکہ اندلس میں فقہ مالکی کازور تھا اس لیے فقہ مالکی کی کتابیں پڑھیں اور مالکی مسلک کی پیروی کرتے رہے، کچھ دنوں بعد فقہ شافعی کواختیار کیا اور فقہ مالکی کی طرح فقہ شافعی پربھی زیادہ دنوں قائم نہ رہ سکےاور ظاہری نقطۂ نظر کواپنے فکروعمل کا میدان بنایا، ان کا خیال ہے کہ دومکاتب فقہ کوحکومت کے تعاون کی وجہ سے پھیلنے پھولنے کا موقع ملا، ایک فقہ حنفی جوحضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کی بدولت پھیل سکا، جودولتِ عباسیہ میں قاضی القضاۃ کے عہدۂ جلیلہ پرفائز تھے، دوسرے فقہ مالکی جسے اندلس کی حکومت کا مذہب ہونے کی وجہ سے قبولِ عام حاصل ہوا۔
ابن حزم ذاتی طور پرخوش حال اور معاش کے مسئلہ سے بے فکر تھے، لوگوں نے لکھا ہے کہ ابنِ حزم جیسا جامع علم رکھنے والاعالم دنیا نے بہت کم دیکھا ہے، بیک وقت محدث، فقیہ، مفسر، ادیب، شاعر، طبیب، نقاداورمناظر تھے، مخالفین پرسخت تنقید کرنے میں ان کی شدت غضب کودیکھ کرکہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مخالف کے لیے شمشیرِبرہنہ تھے، کسی نے کہا ہے کہ حجاج بن یوسف کی تلوار اور ابن حزم کی زبان دونوں سگی بہنیں ہیں۔                
  (ابن حزم)
اس تشدد کے باوجود مخالف کے علم وفضل کا اعتراف بھی کرتے تھے؛ چنانچہ ابوالولید حاجی مالکی سے ان کا مناظرہ ہوا کرتا تھا اور وہ ان کے نظریات کے سخت مخالف تھے؛ لیکن ان کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"لولمیکن لاصحاب المذھب المالکی، بعدالوھاب الاالولیدلکفاہم"۔
(المحلی:۱/۹)
ابن حزم کے افکار ونظریات کوسمجھنے کے لیے ان کےاصولِ استنباط سے واقفیت ضروری ہے؛ اس لیے ان کے اصول سے ابتدا۱ کی جاتی ہے۔
فقہ ظاہری پرایک نظر
مصادر شرع ابن حزم کے یہاں چار ہیں:
(۱)کتاب
(۲)سنت
(۳)اجماع
(۴)دلیل۔
خبرِواحد سے قرآن کا نسخ
مصدر تشریع میں کتاب وسنت کوایک دوسرے پرکوئی ترجیح حاصل نہیں ہے، دونوں مقام ومرتبہ میں مساوی درجہ کے ہیں۔
(ابنِ حزم:۳۱۵)
دلیل قرآن کی آیت:
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ"
(النساء:۵۹) ہے،
جب اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول  کی اطاعت کا حکم ہے توپھرتفریق اور فوقیت کیسے ہوسکتی ہے؛ نیزیہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی ہربات وحی کے مطابق ہے "وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىإِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُوحَى" (النجم:۳،۴) لازمی طور پرخبرِمتواتر اور خبرِاحاد بھی یکساں حیثیت کے حامل ہوں گے اور قرآنِ پاک کا نسخ سنت سے اور سنت کا نسخ قرآن سے ہوگا، اس لیے کہ دونوں وحی ہیں، اسی اصول سے ابن حزم کا مسلک واضح ہوتا ہے کہ قرآن کی طرح حدیث بھی قطعی ہے؛ لہٰذا قرآن کے عام کی تخصیص خبرِواحد سے جائز ہوگی، اس مسئلہ میں شوافع بھی ان کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں، فرق یہ ہے کہ عام اور خبرِواحد دونوں ہی ان کے نزدیک ظنی ہیں اور ابنِ حزم کے یہاں قرآن کی طرح حدیث بھی علم یقین کا فائدہ دیتی ہے۔
کتاب وسنت کے اوامر ونواہی
ابنِ حزمؒ کا اصول یہ ہے کہ اوامرونواہی اگرتخصیص سے خالی ہوں تواس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی فی الفور تعمیر واجب ہوتخصیص کی صورت میں استحباب یااباحت مراد لی جاسکتی ہے، مثلاً:
حدیث نکاح کی بابت فرمایا گیا ہے کہ جونوجوان نکاح کی گنجائش رکھتے ہوں وہ نکاح کرلیں، ابنِ حزم کہتے ہیں کہ اگرکوئی شخص زنا میں ملوث ہونے کا خطرہ نہ بھی محسوس کرے اور اداءِ نفقہ پرقادر ہوتونکاح کرنا فرض ہے۔
مذکورہ مسائل اس اصول اور نقطۂ نظر کے اردگرد پھرتے نظر آتے ہیں کہ نصوص میں اصل اس کا ظاہری مفہوم ومعانی ہی ہے، علامہ ابنِ حزم نے اپنی کتاب "الاحکام فی اصولِ الاحکام" میں باقاعدہ ایک باب باندھا ہے "حمل الاوامر والاخبار علی ظواھرھا" اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جولوگ "لفظ" کواس کے اصل معنی سے الگ کرکے استعمال کرتے ہیں، وہ غلط روش پر ہیں؛ انہوں نے خوارج کی ظاہریت کے الزام کاجواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ خوارج نے بعض آیت یاروایت کوظاہری مفہوم کا لباس پہنایا، اس لیے گمراہ ہوگئے؛ اگروہ تمام الفاظ میں یہی اصول کارفرمارکھتے توگمراہ نہ ہوتے، جن فقہاء نے علل اور دوسرے اصول کی بنیاد پرظاہری مفاہیم سے عدول کیا ان کے بارے میں ان کی رائے ازحدسخت ہے، وہ ان کے نزدیک اللہ کی اس وعید میں داخل ہیں کہ:
"فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ"۔ 
(البقرۃ:۱۸۱)
ترجمہ:پھرجوشحص اِس وصیت کوسننے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی کرے گا، تواس کا گناہ ان لوگوں پرہوگا جواس میں تبدیلی کریں گے، یقین رکھو کہ اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔
(توضیح القرآن، مفتی محمدتقی عثمانی۔ ابنِ حزم:۳۵۱،۳۵۲)
نیز فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول  نے قرآن پاک کی کسی  آیت میں تاویل نہیں کی تودوسرے کوکیا حق پہونچتا ہے کہ وہ تاویل کریں، دلیل میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ حضورِاکرم  قرآن کی کسی آیت میں تاویل نہیں فرماتے تھے؛ یہاں تک کہ جبرئیل علیہ السلام اس کی خبردیتے، جب صاحب وحی بغیر وحی کے اس اقدام کواختیار نہیں فرماتے تھے توکسی اور کے لیے یہ بات کیسے جائز ہوسکتی ہے؛ لہٰذا جس نے بھی اس کے خلاف کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی صراحتاً مخالفت کی اور یہ بھی حرام ہے کہ انسان علم کے بغیر بات کرے۔
      (ابنِ حزم:۳۵۱،۳۵۲)
خبرِواحد کا اعتبار اعتقادات میں
محدثین کے نزدیک بنیادی طور پرحدیث کی دوقسم ہے، متواتر اور آحاد، متواتر وہ روایت ہے، جسے ایک جماعت نے دوسری جماعت سے نقل کیا ہو اور ہردور میں اس کی یہ کیفیت برقرار رہی ہو، اس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے، جمہور فقہاء ومحدثین کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن کا ثبوت تواتر سے ہے، دوسری قسم خبرِآحاد ہے، جس کے راوی پورے سلسلۂ سند میں ایک، دو رہے ہوں اور حدتواتر تک نہ پہونچتے ہوں، اس خبر سے جمہور علماء کے نزدیک علمِ ظنی غیریقینی حاصل ہوتا ہے؛ البتہ اصطلاحات کافرق پایا جاتا ہے، جیسا کہ گذرا، ابنِ حزم خبرِواحد کوکبھی متواتر کا حکم دیتے ہیں؛ چنانچہ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ خبرِواحد سے علم یقینی اور بدیہی حاصل ہوتا ہے، دلیل یہ ہے کہ رسول اللہؐ نے سربراہانِ مملکت کے پاس قاصدروانہ فرمائے توایک جماعت کا آپؐ نے انتخاب نہیں فرمایا؛ بلکہ ہرایک کے پاس صرف ایک صحابی رضی اللہ عنہ کوروانہ فرمایا؛ اگرایک فرد کی خبریقینی اور قابل اعتبار نہیں تھی توپھرآپ ایک جماعت کوبھیجتے؛ لہٰذا ایک عادل اور ثقہ کی روایت قابل قبول ہوگی اور علمِ یقینی کا فائدہ دیگی اور جس طرح خبرِواحد سے عمل واجب ہے، اعتقاد بھی واجب ہوگا۔ 
      (ابن حزم:۳۰۶)
اجماع
اجماع کا مفہوم ابنِ حزم اور اہلِ ظاہر کے نزدیک یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں منصوص احکام پرصحابہؓ نے اجماع کیا ہو وہی اجماع معتبر اور قابلِ عمل ہے، صحابہؓ کے بعد کا اجماع غیرمعتبر ہے؛ بلکہ اجماع کا وقوع ہی نہیں ہوتا، صحابہؓ نے حضوراکرم  کوپانچ اوقات میں نماز پڑھتے دیکھا، ان کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے۔
      (کتاب الدرۃ فیما یجب اعتقادہ:۱۷۵)
جمہور کے نزدیک اجماع کا مفہوم یہ ہے کہ کسی غیرمنصوص مسئلہ میں  کسی دور کے علماء امت کا کسی ایک صورت پراتفاق ہوجائے؛ پس ظاہریہ نے جس اجماع کوحجت تسلیم کیا ہے، اس کا مقصد سوائے اس کے کیا ہوگا کہ مسنون اعمال مزید موکد ہوں۔
قیاس کی نفی
قیاس اصطلاحِ فقہاء میں غیرمنصوص مسئلہ میں علت کے اشتراک واتحاد کی وجہ سے منصوص کا حکم بیان کرنا ظاہری مکتبِ فکر اورخاص کر ابنِ حزم اس بات کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں کہ قیاس کوبطورِ ادلۂ شرع کے قبول کیا جائے، فرماتے ہیں:
"وَلاَيَحِلُّ الْقَوْلُ بِالْقِيَاسِ فِي الدِّينِ، وَلاَبِالرَّأْيِ لإِنَّ أَمْرَ اللَّهِ تَعَالَى عِنْدَ التَّنَازُعِ بِالرَّدِّ إلَى كِتَابِهِ وَإِلَى رَسُولِهِ "۔                          
(المحلی:۱/۱۰۰)
لہٰذا جس نے بھی اس کی مخالفت کی، یعنی قیاس کوبطورِ دلیل کے اختیار کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول  کی مخالفت کی، ابنِ حزم نے قائلین قیاس پرسخت تنقید کی ہے، کہ دین مکمل ہوچکا ہے، اس لیے کتاب وسنت کے علاوہ مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں؛ انہوں نے قیاس کے خلاف عقلی دلیل بھی پیش کی ہے اور اپنے خیال کے مطابق اجماع صحابہ سے بھی استدلال کیا ہے (کتاب الدرۃ:۴۱۸) اصحاب ظواہر کا قیاس سے انکار ایک فطری بات ہے، ان کے نزدیک نصوص کے احکام کسی علت پرمبنی نہیں ہیں؛ پس جب نصوص معلول نہ ہوں توقیاس کے لیے گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔
تقلید
تقلید کے لغوی معنی گلے میں کسی چیز کا ڈالنا ہے، اصطلاح میں: "هُوَالْعَمَلُ بِقَوْلِ الْغَيْرِ مِنْ غَيْرِ حُجَّةٍ"(ارشادالفحول:۲۶۵) فقہاء ومحدثین کی ایک بڑی جماعت اس کے جواز کی قائل ہے؛ بلکہ عام آدمی پرواجب ہے جزوی اختلاف کے ساتھ ائمہ کے نزدیک جائز ہے حرام نہیں ہے، ظاہریہ کامسلک ہے کہ تقلید مطلقاً حرام ہے اور کسی بھی درجہ میں جائز نہیں؛ ہرانسان پراپنی وسعت کے مطابق اجتہاد واجب ہے؛ البتہ عامی کے لیے اس کی گنجائش ہے کہ وہ اہلِ علم علماء سے تحقیق کرے؛ اگروہ اللہ اور اس کے رسول  کا حکم بتائیں توعمل کرے اور اگراپنے قیاس ورائے یادوسرے کے قیاس ورائے سے حکم بتائے توعمل کرنا جائز نہیں۔ 
(المحلی:۱/۸۵)
صحابی، تابعی، محدث، فقیہ، زندہ یامتوفی کسی کی بھی تقلید جائز نہی ں اور اس پر انہیں آیات سے استدلال کیا ہے جوعموماً آج بھی تقلید کے منکرین پیش کرتے ہیں۔
اشیاء میں اصل اباحت
ابن حزم کے اس اصل کا مفہوم جمہور کے نزدیک استصحاب کے مفہوم سے قریب ترہے، فرق یہ ہے کہ فقہاء نے اسے دلیلِ عقلی کے طور پرتسلیم کیا ہے اور ظاہریہ نے اسے منصوص سمجھا ہے، اس اصل کا مفہوم یہ ہے کہ کسی امرکے سلسلسہ میں اگرفرضیت کی دلیل قائم ہوتوفرض اگرحرمت کی دلیل پائی جائے توحرام اور یہ دونوں مفقود ہوں تواباحت کا حکم ہوگا، اس پرابنِ حزم نے "وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ" (البقرۃ:۳۶) سے استدلال کیا ہےکہ خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کودنیا میں نازل فرمایا اور اشیاء کی حرمت بتلاکر "وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ" سے حلت کے عموم کوواضح فرمادیا، اس لیے اشیاء میں بذریعہ نص اصلاً اباحت ثابت ہے؛ لہٰذا جب تک کوئی نص اس کے مخالف نہ ہو اس کی اباحت علیٰ حالہ باقی رہے گی۔
دلیل
ظاہری مکتب فقہ میں مصادر شرع میں چوتھی اصل "دلیل" ہے، اجماع اور نصوص سے جومفہوم پیدا ہوتا ہے اسے "دلیل" کہا جاتا ہے۔
دلیل کی مثال ظاہریہ، یہ دیتے ہیں کہ ایک نص جس نے دومقدمات قائم کئے اور نتیجہ نہیں پیش کیا؛ یہی نتیجہ ظاہریہ کے نزدیک دلیل ہے، ابوزہرہ نے لکھا ہے کہ ابنِ حزم نے اس کی سات قسمیں کی ہیں، بغرِضِ اختصار صرف ایک مثال لکھی جاتی ہے:
حدیث میں آیا ہے:
"كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ"۔
(مسلم، كِتَاب الْأَشْرِبَةِ،بَاب بَيَانِ أَنَّ كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَأَنَّ كُلَّ خَمْرٍ حَرَامٌ،حدیث نمبر:۳۷۳۵،شاملہ، موقع الإسلام)
نتیجہ ظاہر ہے کہ "كُلُّ مُسْكِرٍ" اس کوظاہری دلیل کہتے ہیں؛ بعض اہلِ علم نے ظاہریہ پریہ نقد کیا ہے کہ دلیل کوبحیثیت مصدر تشریع اختیار کرنا حقیقت میں قیاس ہی کوتسلیم کرنا ہے، ابنِ حزم اس تقلید پراس قدر چراغ پا ہوئے کہ انہوں نے ناقدین کوجاہل تک کہہ ڈالا؛ گرچہ انہوں نے دلیل کومصادر شرع میں شمار کیا ہے؛ لیکن ظاہریہ کے نزدیک اس کی نظیر خال خال نظر آتی ہے۔
ابنِ حزم اور داؤدِ ظاہری
یہ دونوں بزرگ گوایک ہی مکتبِ فکرکے نمائندے ہیں؛ لیکن ان کے مابین بھی بعض بنیادی مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے، یہ بات بھی نہیں کہ ابنِ حزم داؤدِ ظاہری کی تقلید کرتے ہیں؛ بلکہ افکار ونظریات، معیار اجتہاد اور اصول کے استخراج واستنباط میں یکساں اصول کے حامل ہونے کے باوجود دونوں میں بہت سے مسائل میں اختلاف بھی واقع ہوا ہے، مثلاً داؤدِ ظاہری قرآن کومخلوق سمجھتے ہیں اورابنِ حزم غیرمخلوق، ہاں اتنی بات درست ہے کہ داؤدِ ظاہری نے جس مکتبِ فکرکی داغ بیل ڈالی تھی، ابنِ حزم نے اس کومزید تناور اورمستحکم کیا ہے۔




امام ابنِ تیمیہؒ اور ان کا فقہی مسلک

ساتویں صدی ہجری کازمانہ انتہائی پرآشوب زمانہ تھا، ایک طرف تاتاریوں کی دہشت گردی وبدامنی اور ان کے وحشیانہ مظالم کے باعث ملک کا سیاسی نظام متأثر تھا تودوسری طرف باطل نظریات، مشرکانہ عقائد بدعات وخرافات اور علمی جمود نے فکری، اعتقادی، علمی اور دینی حقائق پرپردہ ڈال دیا تھا، جس کے نتیجہ میں جہاں سکون وطمانیت مفقود تھا، وہیں جان ومال، عزت وآبرو کے تحفظ کا تصور بھی ختم ہوچکا تھا، اس وقت ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جس کی قیادت وسیادت پرآشوب فضا کوخوشگوار ماحول میں تبدیل کرسکے، باطل عقائد کومحوکرکے اسلامی ذوق ومزاج کورواج دے سکے اور شرک وبدعات پرقابوپانے کے لیے امربالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کوانجام دے سکے؛ چنانچہ اللہ نے ایسا حق گواور بے باک قائد اور دردمند مصلح؛ نیز مجدد ومجتہد شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی شکل میں پیدا فرمایا۔
نام احمد تقی الدین ابوالعباس، والد ماجد:شیخ شہاب الدین ابوالمحاسن عبدالحلیم، جدامجد، شیخ مجدالدین ابوالبرکات عبدالسلام ابن ابومحمد (ابن تیمیہ (ابوزہرہ):۱۷) ۱۰/ربیع الاوّل ۶۶۱ھ کوشہرحران میں جوفلسفہ کا گہوارہ اور صابی مذہب کا قدیم علمی مرکزرہا ہے پیدا ہوئے۔
(ابن تیمیہ (ابوزہرہ):۱۷)
آپ حران کے علمی خاندان جوپہلے سے اپنی علمی قابلیت وصلاحیت اور خاندانی شرافت وبزرگی کی بناء پرمشہور ومعروف تھا اور جسے لوگ استرہ ابنِ تیمیہ کے نام سے جانتے تھے، چشم وچراغ تھے، والد ماجد شہاب الدین عبدالحلیم ایک جلیل القدرعالم، محدث کبیر اور کامیاب مدرس تھے؛ یہی وجہ ہے کہ جامع اموی میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا؛ جہاں بڑے بڑے علماء، اصحاب فن، محدثین، محققین اور فقہاء کا ایک بڑا طبقہ موجود تھا، ایسے باکمال ارباب علم کی موجودگی میں منصبِ درس پرفائز ہوکردورانِ درس کسی دوسری کتابوں سے مدد لیے بغیر صرف قوتِ حافظہ پراعتماد کرتے ہوئے درس دینا ان کی وسعتِ علم پرشہادتِ عادلہ ہے، جدامجد مجددالدین ابوالبرکات کا بھی اجلۂ علماء میں شمار ہوتا تھا؛ یہاں تک کہ بعض اہلِ علم انہیں مجتہد مطلق بھی کہتے تھے۔
ابن تیمیہ کوتمام علوم وفنون میں یکساں کمال اور قدرت حاصل تھی، منطق وفلسفہ ہویاکلام، تفسیر وحدیث ہویازبان وادب، نحو وصرف ہویاتصوف؛ مگرخصوصیت کے ساتھ فقہ اور اصولِ اجتہاد سے خاص دلچسپی اور لگاؤ تھااور ان کی زندگی کے اکثر حصے انہیں علمی فقہی اور اجتہادی مشاغل میں گذرے ہیں، ان کے طرزِ استنباط، طریقہ استدلال اور استخراجِ احکام کی قوت وصلاحیت، اہلِ علم کے درمیان ان کوخاص امتیاز عطا کرتی ہے؛ گوآپ مسلکاً  حنبلی تھے اوراکثر مسائل فقہیہ میں اسی مذہب کی پیروی وتقلید بھی کی ہے؛ مگربعض مواقع پرائمہ اربعہ ہی نہیں بلکہ خود امام احمد ابن حنبلؒ کے مذہب سے ہٹ کراپنے اصولِ اجہتاد کی روشنی میں فتویٰ دیا ہے۔
آپ کے نزدیک احکامِ شرعیہ کے مصادپانچ ہیں:
(۱)کتاب وسنت، اصل الاصول ہے جس کو نصوص کا نام دیا گیا ہے
(۲)فتاویٰ صحابہ، جس میں کسی کا اختلاف نہ ہو
(۳)صحابہ کے وہ فتاویٰ جوسنت کے موافق ہوں
(۴)حدیثِ مرسل اور حدیثِ ضعیف جس کے موضوع ہونے پرکوئی دلیل موجود نہ ہو
(۵)قیاس۔
مگران بنیادی مصادر کے علاوہ کچھ اور ذیلی مصادر استصحاب، مصالحِ مرسلہ اور سدذرائع وغیرہ بھی آپ کے نزدیک معتبر ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ کتاب اللہ حجت اولین اوربرہان قاطع ہے اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سنت کی حجیت خود قرآن کریم سے ثابت ہے:
"وَمَاكَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَامُؤْمِنَةٍ إِذَاقَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا"۔
ترجمہ:اور جب اللہ اور اُس کےرسول کسی بات کاحتمی فیصلہ کردیں تو نہ کسی مؤمن مرد کےلئے یہ گنجائش ہے نہ کسی مؤمن عورت کے لئے کہ اُن کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے،اور جس کسی نے اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا۔                  
    (الأحزاب:۳۶)
"وَمَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"۔  
ترجمہ:اور رسول تمہیں جوکچھ دیں،وہ لےلو،اور جس چیز سے منع کریں،اُس سے رُک جاؤ۔     
   (الحشر:۷)
اس بات پربھی اتفاق ہے کہ سنت شارحِ کتاب ہے اور تشریح طلب احکام کا بیان اور اس کے مجمل کی تفسیر وتوضیح ہے (ابنِ تیمیہ:۴۵۵) پس اس حیثیت سے کہ سنت مفسر قرآن ہے، استنباطِ قرآن میں دونوں کا درجہ ایک ہے؛ اسی لیے علامہ ابن تیمیہؒ نے کتاب وسنت کوالگ الگ بیان کرنے کے بجائے ایک ہی ساتھ ذکر کیا ہے؛ مگریہ بات قابل غور ہے کہ احادیثِ احاد کے سلسلہ میں ابنِ تیمیہ کانقطۂ نظر کیا تھا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ائمہ اربعہ کے نقطہ نظر پربھی ایک نظر ڈال لی جائے۔
اگرخبرِواحد کتاب اللہ کے موافق نہ ہو؛ بلکہ اس کے متعارض ہو یااس کے عام کوخاص کردیتی ہو تواس صورت میں اس خبرِواحد کوکتاب اللہ کے مقابلے میں ردکردیتے ہیں، شوافع اور حنابلہ ظاہر قرآن کے سنت کے خلاف ہونے کی صورت میں اس کوبجائے ردکرنے کے ظاہر قرآن کے عام کوسنت سے خاص کردیتے ہیں؛ کیونکہ وہ قرآن کا بیان، شارح اور اس کی تفسیر ہے، ان میں بعض فقہاء نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سنت قرآن پرحکم کی حیثیت رکھتی ہے؛ کیونکہ وہ اس کی تفسیر اور بیان ہے؛ اسی کے ذریعہ اجمال کی تفصیل ہوتی ہے، ناسخ ومنسوخ کا علم ہوتا ہے، مطلق کومقید کیا جاتا ہے؛ غرض امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک استنباط واستخراج میں قرآن وحدیث کا ایک ہی درجہ ہے اور ابنِ تیمیہ بھی اسی کے حامی ہیں؛ اسی لیے انہوں نے اصل اوّل نصوص کوقرار دیا ہے اور کوئی تفریق روا نہیں رکھی ہے، ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے اجماع کی یہ تعریف کی ہے:
"مَعْنَى الْإِجْمَاعِ أَنْ تَجْتَمِعَ عُلَمَاءُ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حُكْمٍ مِنْ الْأَحْكَامِ، وَإِذَاثَبَتَ إجْمَاعُ الْأُمَّةِ عَلَى حُكْمٍ مِنْ الْأَحْكَامِ لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ أَنْ يَخْرُجَ عَنْ إجْمَاعِهِمْ، فَإِنَّ الْأُمَّةَ لَاتَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْ الْمَسَائِلِ يَظُنُّ بَعْضُ النَّاسِ فِيهَا إجْمَاعًا، وَلَايَكُونُ الْأَمْرُ كَذَلِكَ، بَلْ يَكُونُ الْقَوْلُ الْآخَرُ أَرْجَحَ"۔                       
  (فتاویٰ ابن تیمیہ:۱/۴۰۶)
ترجمہ:اجماع سے مراد علماء کا احکامِ اسلامی میں سے کسی ایک حکم پرمتفق ہوجانا ہے اور جب امت کسی حکم پرمتفق ہوجائے توکسی کے لیے جائز نہیں کہ اجماع سے اختلاف کرے؛ کیونکہ امتِ مسلمہ کسی گمراہی پرمجتمع نہیں ہوسکتی؛ لیکن بعض لوگ بہت سے مسائل میں یہ گمان کرتے ہیں کہ اس میں اجماع ہوچکا ہے؛ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے؛ بلکہ بعض اوقات دوسرا قول راجح ہوتا ہے۔
گویا ابن تیمیہ کواجماع کے حجت ہونے سے اتفاق ہے؛ البتہ بعض لوگ غیراجماعی مسائل میں بھی بے تکلف اجماع کا دعویٰ کربیٹھتے ہیں، ابن تیمیہ کوان سے اختلاف ہے، ابن تیمیہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ گواجماع فی نفسہٖ حجت ہے؛ لیکن عملاً عہد صحابہؓ ہی میں اجماع منعقد ہوا ہے، اس کے بعد اجماع کا انعقاد عملاً نہیں ہوپایا ہے۔
ادلہ شرعیہ میں قیاس کوبھی شمار کیا گیا ہے اور استنباط واستخراج میں اس کوایک اہم اصل مانا گیا ہے؛ چونکہ بعض لوگوں نے سرے سے قیاس کا انکار کیا ہے اور بعض نے غلو سے کام لیا ہے، اس لیے ابنِ تیمیہ کا رویہ قیاس کے بارے میں مثبت اور محتاط ہے، ابنِ تیمیہ کا خیال ہے کہ قیاس نام ہے کسی وصفِ جامع کی بنیاد پرغیرمنصوص پرامرمنصوص کے حکم لگانے کا، ابنِ تیمیہ کے نزدیک وہی قیاس معتبر اور صحیح ہے جوشریعت کے مطابق ہو، اس لیے کہ شریعت کا کوئی حکم خلافِ قیاس نہیں؛ بلکہ کتاب وسنت کے جتنے بھی احکام ہیں وہ تمام موافقِ قیاس ہیں اور جوچیزیں مخالفِ قیاس ہوتی ہیں وہ قیاس فاسد ہے، یہ اور بات ہے کہ لوگوں کواس فساد کا علم نہ ہو۔
نص کومخالفِ قیاس کہنے والے زیادہ ترفقہاء احناف ہیں، ان کے اور ابن تیمیہ کے درمیان جواختلاف ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ احناف مقیس اور مقیس علیہ کے درمیان علت کومشترک مانتے ہیں؛ گویا ان کے یہاں اصل مؤثر علت ہوتی ہےجہاں علت پائی جائے گی، حکم پایا جائے گا، جہاں علت مفقود ہوگی حکم مفقود ہوگا؛ مگرابن تیمیہ اور ابنِ قیم وغیرہ جس وصف کوحکم میں مؤثر مانتے ہیں وہ حکمت ہے، یعنی ایسا وصف مناسب جوشارع کے اغراضِ عامہ سے توافق رکھتا ہو اور اغراضِ عامہ کیا ہیں، مصلحت کا حصول اور مضرت سے حفاظت۔                    
    (حیات احمد بن حنبل، ترجمہ رئیس جعفری:۴۱۲)


فقہ کا تعارف اور اس کی عظمت


فقہ لغت میں سمجھ بوجھ کو کہتے ہیں ، چاہے سمجھنا واضح اور آسان بات کا ہو یا مشکل اور دقیق معنوں کا ، خواہ ان باتوں کا سمجھنا دینی امور سے متعلق ہو یا دنیوی امور سے، بہرحال ان سب پر فقہ کی لغوی تعریف صادق آتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی حکایت نقل فرمائی ہے:
"قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ"۔          
  (ھود:۹۱)
ترجمہ:قوم نے کہا:اے شعیب آپ کی بہت سی باتوں کو ہم سمجھ نہیں پاتے۔
اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے:
"وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ"۔  
   (الاسراء:۴۴)
ترجمہ:دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان نہ کرتی ہو مگر تم ان کی تعریف کو نہیں سمجھ پاتے۔
اور حدیث میں اللہ کے رسول  نے ارشاد فرمایا:
"مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔
(بخاری، كِتَاب الْعِلْمِ،باب العلم قبل القول والعمل، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:اللہ جس کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرتے ہیں اسے دین میں تفقہ اور سمجھ داری عطا کرتے ہیں۔
قرآن وحدیث سے معلوم ہوا کہ فقہ مطلق فہم اور سمجھ کو کہتے ہیں۔             
(الموسوعۃ الفقہیہ)
فقہ کی اصطلاحی تعریف
علمائے اصول نے فقہ کی مختلف تعریفیں کی ہیں، عہدصحابہ وتابعین میں جب فقہ کا لفظ بولا جاتا تھا تواس سے ہرقسم کے دینی احکام کا فہم مراد ہوتا تھا، جس میں ایمان وعقائد، عبادات واخلاق، معاملات اور حدود ،فرائض سب داخل سمجھے جاتے تھے؛ اسی لیے حضرت امام ابوحنیفہؒ سے فقہ کی تعریف یوں منقول ہے:
"اَلْفِقْہُ ھُوَمَعْرِفَۃٌ النَّفْسِ مَالَھَا وَمَاعَلَیْھَا"۔
(البحرالمحیط:۱/۱۹۔ تاریخ الفقہ الاسلامی:۹۔ المدخل:۱۰)
ترجمہ:یعنی جس سے انسان اپنے نفع ونقصان اور حقوق وفرائض کو جان لے وہ فقہ ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہؒ سے اسی بناء پر عقائد پر لکھی جانے والی کتاب کا نام "الفقہ الاکبر" رکھا جو آج کل متداول اور درس نظامی میں داخل نصاب ہے لیکن بعد کے ادوار میں عقائد کو فقہ کے مفہوم سے خارج کردیا گیا۔
عقائد کو علم توحید، علم کلام اور علم عقائد سے موسوم کیا گیا اور فقہ کی تعریف اس طرح کی گئی:
"الفقہ علم بالاحکام الفرعیۃ العملیۃ بالادلۃ التفصیلۃ"۔  
   (البحرالرائق:۱/۶)
ترجمہ:احکام فرعیہ شرعیہ عملیہ کو تفصیلی دلائل سے جاننے کا نام فقہ ہے۔
علامہ ابن خلدون نے فقہ کی تعریف میں لکھا ہے:افعال مکلفین کی بابت اس حیثیت سے احکام الہٰی کے جاننے کا نام فقہ ہے کہ وہ واجب ہیں یامحظور، ممنوع وحرام، مستحب اور مباح ہیں یامکروہ۔                  
  (الموسوعۃ الفقہیہ:۱/۱۲)
علم فقہ کا موضوع
مکلّف آدمی کا فعل ہے جس کے احکام سے اس علم میں بحث ہوتی ہے، مثلاً انسان کے کسی فعل کا صحیح، فاسد، فرض وواجب، سنت ومستحب، یاحلال وحرام ہونا وغیرہ۔   
                          (مقدمہ ابن خلدون:۲/۳۴۱)
فقہ کی غرض وغایت
سعادت دارین کی کامیابی اور علم فقہ کے ذریعہ شرعی احکام کے مطابق عمل کرنے کی قدرت۔
(شامی، بیروت:۱/۱۲۰)
علم فقہ اور اس کی عظمت
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
"وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا"۔    
              (البقرۃ:۹۶۲)
ترجمہ:جس کو حکمت دی گئی پس اس کو خیرکثیر دیا گیا۔
اِس آیت کی تشریح میں مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ اس سے علم فقہ مراد ہے۔   
(شامی:۱/۱۲۱)
اور حضور اکرم  کا ارشاد ہے:
"من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین"    
(درمختار:۱/۶)
ترجمہ:اللہ جس بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے تفقہ فی الدین یعنی دین میں تفقہ اور صحیح سمجھ عطا فرماتے ہیں۔
نیزآپنے ارشاد فرمایا:
"فَقِيهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ"۔
(ابن ماجہ، بَاب فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ، حدیث نمبر:۲۱۸، شاملہ)
ترجمہ:کہ ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے بھاری ہوتا ہے۔
کیونکہ عابد کی عبادت بلا بصیرت ہوتی ہے، اس لیے شیطان کو اسے گمراہی کے گڑھے میں ڈھکیلنا اور شکوک وشبہات کے جال میں پھانسنا بہت آسان ہوتا ہے؛ جب کہ فقیہ اس کی سازشوں اور چالوں سے واقف ہوتا ہے اور وہ اس کے دامِ فریب میں عام طور پر نہیں آتا ہے، صاحب الاشباہ والنظائر نے فقہ کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
"الفقۃ أشرف العلوم قدراً وأعظمھا أجرا وأتمھا عائدۃ وأعمھا فائدۃ وأعلاھا مرتبہ یملا العیون نوراً والقلوب سروراً والصدور انشراحاً"۔
(الاشباہ والنظائر کا مقدمہ:۱/۲۰)
ترجمہ:علم فقہ تمام علوم میں قدرومنزلت کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے اور اجر کے اعتبار سے بھی اس کا مرتبہ اونچا ہے، علم فقہ اپنے مقام ورتبہ کے اعتبار سے بھی بہت بلند ہے اور وہ آنکھوں کو نور اور جلا بخشتا ہے، دل کو سکون اور فرحت بخشتا ہے اور اس سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے۔
اور صاحب درمختار نے علم فقہ کی عظمت کا یوں تذکرہ کیا ہے۔
"وخیرعلوم علم فقہ ؛لانہ یکون الی العلوم توسلاً ؛فان فقیھا واحداً متورعاً علی الف ذی زھد تفضل واعتلیٰ ،تفقہ فان الفقہ افضل قائد الی البر والتقوی وأعدل قاصد وکن مستفیدا کل یوم زیادۃ من الفقہ واسبح فی بحور الفوائد"۔                  
(مقدمہ درمختار:۱/۶)
تمام علوم میں قدرومنزلت اور مقام ورتبہ کے اعتبار سے سب سے بہتر علم فقہ ہے، اس لیے کہ علم فقہ تمام علوم تک پہونچنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے، اسی وجہ سے ایک متقی فقیہ ہزار عابدوں پر بھاری ہوتا ہے، علم فقہ کو حاصل کرنا چاہیے، اس لیے کہ علم فقہ نیکی اور تقویٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ہردن علم فقہ سے مستفید ہوتے رہنا چاہیے، اس کے سمندر میں غوطہ زنی کرنا چاہیے۔



فقہ اسلامی کی تدوین ایک جائزہ



ہرعلم وفن کی تدوین اور اس کے ارتقاء بتدریج پایہ کمال کو پہونچتا ہے ،فقہ اسلامی پر بھی تدوین کے کئی مراحل گذرچکے ہیں۔
فقہ اسلامی کا پہلا دوراور اس کی خصوصیات
آپ  کی رسالت ونبوت سنہ۶۱۰ء سے شروع ہوتی ہے اور وفات سنہ۱۰ھ مطابق سنہ۶۳۲ء میں ہوئی ،اس دور میں فقہ اسلامی کا سرچشمہ قرآن تھا، آپ  کے ارشادات اور آپکی مکی ومدنی زندگی کے حالات وواقعات قرآن کریم کی تشریح کی حیثیت رکھتے تھے،الغرض دورِنبوت میں فقہ اسلامی کا تمام ترمدار وحی پر تھا، چاہے وحی متلو قرآن کریم ہو یاغیرمتلو احادیث مبارکہ۔
(مقدمہ درمختار:۱/۶)
آپ  کے دور میں موجودہ زمانہ کی طرح فقہ اسلامی مدون نہیں ہوا تھا، جس طرح بعد میں فقہاء کرام نے ہرمسئلہ کی تحقیق وتفتیش کرکے اس کے ارکان وشرائط اور آداب وسنن کی وضاحت کردی ،یہ تحدید زمانۂ نبوت میں نہیں ملتی ہے، آپ  سے جو عمل جس طور پر صادر ہوتا، صحابہ کرام بعینہ بغیر کمی وبیشی کے اپنالیتے، مثال کے طور پر آپ کو جس طرح وضو کرتے اور نماز پڑھتے دیکھا صحابہ نے اسے اپنالیا،انہوں نے اس بات کی تحقیق وجستجو نہیں کی کہ وضو میں کتنے ارکان اور کیا کیا ہیں؟ نماز میں کون فرض ہے؟ کون واجب اور کون سنت ہے؟۔                     
(تاریخ الفقہ الاسلامی:۴۱)
آپ نے اپنے دورمیں قرآن کریم کے علاوہ دیگر چیزو ں کو لکھنے سے منع فرمادیا تھا (حجۃ اللہ البالغہ:۱/۱۴۰) حتی کہ احادیثِ مبارکہ کو تحریر کرنے سے بھی روک دیا تھا؛ تاکہ قرآن کریم کا غیرقرآن سے اختلاط نہ ہوجائے اور سابقہ امتوں کی طرح آسمانی کتابوں کا صلحاء اور علماء کے اقوال سے اختلاط ہوکر ان کی روحانیت اور اعجازی شان فنا نہ ہوجائے اور نہ محرف ہوجائے؛ چونکہ دورِ نبوت میں کاغذات اور پریس وغیرہ کی موجودہ سہولت نہ تھی ؛بلکہ ہڈیوں چمڑوں اور پتوں کو تحریر کے کام میں لاتے تھے ،اس لیے قوی اندیشہ تھا کہ قرآن غیرقرآن سے خلط ملط ہوکر ضائع نہ ہوجائے؛ اگرچہ انفرادی طور پر جمع قرآن کے علاوہ جمع حدیث کے تعلق سے بھی کام ہوا۔
(مسلم:۲/۲۱۴)
آپ کی ممانعت کی وجہ سے حدیث وفقہ کی باضابطہ تدوین کا آغاز آپ  کے دور میں نہ ہوسکا۔
فقہ اسلامی کا دوسرا دور اور اس کی خصوصیات
یہ خلفاءِراشدین اور کبارِ صحابہ کرامؓ کا دور ہے ،نبی کریم  کی وفات کے بعد سنہ ۱۱ھ سے خلفاء راشدین اور دیگر کبار صحابہ کا دور شروع ہوتا ہے اور یہ دور سنہ۴۰ھ میں اختتام کو پہونچتا ہے، آپ کی وفات کے بعد فتوحات اسلامی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا، بالخصوص حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں توہرروز کوئی نہ کوئی علاقہ مملکتِ اسلامیہ میں داخل ہو، صحابہ کرام "بلغوا عنی ولو آیہ" (ابوداؤد:۲/۵۱۳) کے تحت اسلام کا پیغام پہونچانے کے لیے چہاردانگِ عالم میں پھیل گئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا دوسری اقوام سے اختلاط بڑھتا گیا، بعض عجمی اقوام دامن اسلام میں آئیں اور نئے نئے مسائل وواقعات درپیش ہونے لگے ،صحابہ کرامؓ کو ان حوادث اورواقعات کا حکم شرعی معلوم کرنے اور جاننے کی فکر لاحق ہوئی؛ چنانچہ خلفاءراشدین اور کبارِ صحابہ جو فتویٰ دینے کی اہلیت رکھتے تھے ،قرآن وحدیث کی طرف رجوع ہوئے اور قرآن وحدیث کے قواعد وجزئیات کو سامنے رکھ کراحکام شرعی بیان کرنا شروع کیا، جو حکم قرآن وحدیث میں مذکور نہ ہوتا تو آپس میں مشورہ کرتے اور اجتہاد واستنباط سے کام لیتے، اس شورائی اور اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ بہت سے مسائل حل ہوئے۔                         
  (ترمذی:۲/۹۵)
فقہاء صحابہ
علامہ ابن خلدون نے تحریر کیا ہے کہ صحابہ سب کے سب صاحب فتویٰ نہ تھے اور نہ ہی ان سب سے دین کا علم حاصل کیا جاتا تھا؛ بلکہ دین کے خصوصی معلمین حاملین قرآن تھے، جو قرآن کے ناسخ ومنسوخ ،مشابہ ومحکم اور اس کے سارے دلائل سے پوری طرح واقف تھے؛ انھوں نے یاتونبی اکرمسے براہِ راست تعلیم وتربیت حاصل کی تھی یاان جلیل القدر صحابہ سے اکتساب فیض کیا تھا جنھوں نے براہِ راست نبی اکرم  سے فیض پایا تھا، ان حضرات کو اس زمانہ میں قراء کہا جاتا تھا، صحابہ کرامؓ میں ایک سو تیس افراد فقہ وفتاویٰ کی رونق تھے، جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی، ان میں سے سات صحابہ کرامؓ اپنی فقہی خدمات اور کثرت فتاویٰ کی وجہ سے مکثرین کہلاتے ہیں؛ کیونکہ ان حضرات کے فتاویٰ کثرت سے منقول ہیں، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
(۱)حضرت عمر بن خطابؓ
(۲)حضرت علی بن طالبؓ
(۳)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ
(۴)ام المؤمنین حضرت عائشہؓ
(۵)حضرت زید بن ثابتؓ
(۶)حضرت عبداللہ بن عباسؓ
(۷)حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔         
          (تاریخ الفقہ الاسلامی:۶۴)
جو صحابہ فقہ وفتاویٰ میں متوسط تھے اُن کی تعداد تیرہ تھی:
(۱)حضرت ابوبکر صدیقؓ
(۲)حضرت اُم سلمہؓ
(۳)حضرت انس بن مالکؓ
(۴)حضرت ابوسعید خدریؓ
(۵)حضرت ابوہریرہؓ
(۶)حضرت عثمانؓ
(۷)حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ
(۸)حضرت عبداللہ بن زبیرؓ
(۹)حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ
(۱۰)حضرت سعد بن ابی وقاصؓ
(۱۱)حضرت سلمان فارسیؓ
(۱۲)حضرت جابر بن عبداللہؓ
(۱۳)حضرت معاذ بن جبلؓ،
ان حضرات کے علاوہ جو صحابہؓ ہیں انہیں مقلین کہا جاتا ہے، یعنی ان حضرات سے صرف ایک یادوفتاویٰ منقول ہیں۔          
  (مقدمہ ابن خلدون:۴۴۶)
فقہ اسلامی کا تیسرا دور
یہ دورپہلی صدی کے نصف آخر سے چوتھی صدی کے نصف اوّل تک ہے۔
اس دور کی چند خصوصیات درجِ ذیل ہیں:
الف..... اس دور میں داخلی سیاسی کشمکش میں شدت پیدا ہوگئی، شیعہ اور خوارج کے گروہ مضبوط ہوئے جن کی بنیاد عہد عثمانی اور عہد علوی ہی میں پڑچکی تھی، انہوں نے باہم تکفیر وتفسیق کا بازار گرم کررکھا تھا دوسری طرف مملکت اسلامیہ کا دائرہ چین کی سرحدوں سے اندلس تک پھیل گیا، صحابہؓ اس عہد میں فتوحات کے ساتھ دوسرے ممالک میں پھیلتے چلے گئے۔  
   (اعلام الموقعین:۱/۱۲۶)
ب..... یہ دور چونکہ زمانۂ نبوت سے قریب تھا، جس کی وجہ سے اس دور کے لوگوں میں دینی مزاج راسخ اور پختہ تھا، وہ ہربات کے لیے سند کے طلب گار ہوتے تھے، اس لیے کہ بعض فرقوں نے احادیث گھڑنا اور آپ کی طرف منسوب کرنا شروع کردیا؛ چنانچہ اسی دور میں وضع حدیث کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔
ج..... اس دور میں سب سے بڑا کام تدوین حدیث کا ہوا اور اس دور میں حدیث کے مشہور ائمہ کرام کی قیادت کو جمہور نے تسلیم کیا، اسی دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ احادیث کا ذخیرہ اور صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ اور اقوال ضائع نہ ہوجائیں، ادھرقرآن کا غیرقرآن سے اختلاط کا خوف بھی  نہ تھا؛ کیونکہ قرآن کریم سینوں اور اوراق میں محفوظ ہوچکا تھا، حفاظ کرام ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے تھے، کوئی ایسا گھر نہ تھا جہاں قرآن کریم کا نسخہ موجود نہ ہو؛ لہٰذا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے تدوین حدیث کی طرف توجہ فرمائی اور حاملین علوم حدیث کو اس کی تدوین کا حکم دیا؛ چنانچہ آپ کے حکم پر إبنِ شہاب زہریؒ نے اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے یہ کام انجام دیا۔                            
(تاریخ الفقہ الاسلامی:۸۳)
د..... اس عہد کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ صحابہؓ چونکہ مختلف علاقوں میں پھیل گئے اس لیے ہرعلاقہ کے فقہی مسالک پر ان کا اثر  ہوا؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ مکہ میں رہے تو امام شافعیؒ کی فقہ پر ان کے گہرے اثرات پڑے اور آپ  نےزیادہ تر انہی کی روایات پر اپنی فقہ کی بنیاد رکھی، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ قیام پذیر تھے اور آپ کے علوم کے حامل حضرت ابراہیم نخعیؒ تھے تو امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کا غالب ترین حصہ انہی سے ماخوذ ہے، اسی طرح جن علاقوں میں صحابہ پہونچے وہاں ان کا منہج فکر زیادہ مشہور ہوا۔
ھ..... یہ دور سابقہ ادوار سے اس اعتبار سے بھی امتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ اس دور میں فقہی نقطۂ نگاہ سے علماء دوگروہ میں منقسم ہوگئے اور دومدرسہ فکر وجود میں آئے، ایک حجاز، وہاں کے فقہاء اہل حجاز اور اصحاب حدیث سے مشہور ہوئے، دوسرا عراق میں اوریہاں کے فقہاء اہل عراق اور اصحاب الرائے سے مشہور ہوئے۔           
   (فیض الباری:۱/۱۴۔ تاریخ الفقہ الاسلامی:۹۴)
دونوں مدرسوں کا نہج اور طرزِتعلیم کسی قدر مختلف اور جداگانہ تھا، مدرسہ حجاز کی بنیاد کتاب وسنت کے ظاہر اور الفاظ پر تھی اور یہاں کے علماء رائے اور قیاس سے حتی الامکان اجتناب کرتے، مدرسہ عراق کے علماء اور اساتذہ نصوص کے الفاظ کے ساتھ معانی میں بھی غواصی کرتے، شریعت کے اصل منشاء کو پیش نظر رکھتے اور روایت ودرایت کو ساتھ لیکر چلتے۔
(مقدمہ الموسوعۃ الفقہیۃ:۱/۲۷)
و..... اس دور میں باب وار فقہی احکام کی ترتیب کے مطابق جمع حدیث کا آغاز ہوا ؛چنانچہ بہت سے آئمہ نے أحادیث کو فقہی ترتیب کے مطابق ایک مکمل کتابی اور فنی صورت میں مرتب کیا، مدینہ میں امام مالکؒ نے، کوفہ میں امام ابوحنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ نے، بصرہ میں حماد بن سلمہ اور شام میں عبدالرحمٰن بن اوزاعیؒ نے، مکہ میں عبدالعزیز ابن جریجؒ نے اور خراسان میں عبداللہ بن مبارکؒ نے احادیث کی تدوین شروع کی۔                      
    (مقدمہ الموسوعۃ الفقہیۃ:۱/۲۸)
پھراسی دور کے اواخر میں احادیث کے بڑے بڑے مجموعے صحیح اور مستند طریقہ سے مرتب ہوئے، بعض میں صرف احادیث صحیحہ کے جمع کرنے کا التزام کیا گیا اور ضعیف وغیر مستند احادیث کو اس میں جگہ دینے سے اجتناب کیا گیا اور اس سلسلہ کی مشہور کتابوں میں صحاحِ ستہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں، جسے امت نے صحیح ترین مجموعہ تسلیم کیا ہے اور وہ یہ ہیں .
(۱)بخاری
(۲)مسلم
(۳)ابوداؤد
(۴)ترمذی
(۵)ابن ماجہ
(۶)نسائی۔
پھراس دور میں صحیح اور غیرصحیح مستند ،قوی اور ضعیف حدیث کے درمیان امتیاز کے لیے فن اسماءرجال مرتب ہوا اور اس فن پر بڑی بڑی کتابوں کی تصنیف ہوئی۔          
  (فیض الباری:۱/۱۴)
ز..... اس عہد میں قواعد فقہ اور فن اصول فقہ کا بھی وجود ہوا اور اس کی باقاعدہ تدوین وترتیب عمل میں آئی۔
(تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۰۲)
ح..... فقہی اصطلاحات کا ظہور بھی اسی دور میں ہوا، یعنی جائز وناجائز، حلال وحرام، مکروہ ومستحب، فرض، واجب وغیرہ کی درجہ بندی گوعملاً یہ درجات پہلے بھی پائے جاتے تھے۔
(چراغِ راہ:۳۶۵)
ط..... اس دور میں چار بڑے مکاتب فقہ وجود میں آئے اورہرمکتب فکر کے لحاظ سے فقہی کتب کی تدوین وترتیب کا سلسلہ شروع ہوا۔  
(تاریخ التشریع الاسلامی:۱۶۶)
یہ تو طئے ہےکہ اسلام ایک ہمہ گیر وسیع اور دائمی نظام حیات ہے اور اس نے اپنی اس امتیازی شان ہمہ گیری اور دائمی حیثیت کی بقاء کے واسطے اپنے اندر ایک ایسی لچک اور گنجائش رکھی ہے کہ ہردور میں اور ہرجگہ انسانی ضرورت کا ساتھ دے سکے اور کسی منزل پر اپنے پیروکی رہبری سے قاصر نہ رہے؛ چنانچہ علماء ربانین نے اس ضرورت کا احساس کیا اور اس کے لیے سب سے پہلے سراج الامت حضرت امام ابوحنیفہؒ متوفی:سنہ۱۵۰ھ آمادہ ہوئے۔   
(فیض الباری:۱/۱۴)
فقہ حنفی
ائمہ اربعہ جن کے مذاہب اس وقت دنیا میں رائج ہیں، ان میں امام ابوحنیفہؒ اپنے علم وفضل اور سن وسال میں سب سے مقدم تھے اور بالواسطہ یابلاواسطہ تمام ائمہ آپ کے فیض یافتہ تھے۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ایک طرف تابعی ہونے کا شرف حاصل ہے، جو بقیہ ائمہ میں سے کسی کو حاصل نہیں، دوسری طرف آپ عمر میں ان میں سب سے بڑے ہیں، ملاعلی قاریؒ امام ابوحنیفہؒ کے فضائل مناقب میں تحریر فرماتے ہیں:
"الحاصل ان التابعی افضل الامۃ بعد الصحابۃ ونعتقد أن الامام الاعظم والھمام الاقدم ابوحنیفہؒ افضل المجتھدین واکمل الفقھاء فی علوم الدین ثم الامام مالک فانہ من اتباع الدین ثم الامام الشافعیؒ لکونہ تلمیذ الامام مالک بل تلمیذ الامام محمدؒ ثم الامام احمد بن حنبلؒ فافہ کتلمیذ الشافعیؒ۔
(مقدمہ فتاویٰ دارالعلوم:۱/۶۳)
ترجمہ:حاصل یہ ہے کہ تابعین کا درجہ صحابہ کرامؓ کے بعد امت میں سب سے بڑھا ہوا ہے، اسی وجہ سے ہمارا اعتقاد ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا مرتبہ ائمہ مجتہدین میں سب سے اونچا ہے اور فقہاء علوم دینیہ میں آپ سب سے بلند واکمل ہیں، آپ کے بعد امام مالکؒ کا درجہ ہے، جو تبع تابعین کی صف میں ہیں؛ پھرامام شافعیؒ کا اس لیے کہ آپ امام مالکؒ؛ بلکہ امام محمدؒ کے شاگرد ہیں؛ پھرامام احمدؒ کا جو امام شافعیؒ کے شاگرد کے درجہ میں ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تلامذہ جو فقہ کی تدوین میں شریک تھے
امام ابوحنیفہؒ نے جس طریقہ سے فقہ کی تدوین کا ارادہ کیا وہ نہایت وسیع اور پُرخطر کام تھا، اس لیے انہوں نے اتنے بڑے کام کواپنی ذاتی رائے اور معلومات پر منحصر کرنا نہیں چاہا، اس غرض سے امام صاحبؒ نے اپنے شاگردوں میں سے چند نامور اشخاص کا انتخاب کیا، جن میں سے اکثر خاص خاص فنون میں ماہر تھے، مثلاً یحییٰ بن ابی زائدہ، حفص بن غیاث، قاضی ابویوسف، داؤدالطائی، ابن حبان مندل،آپ کو حدیث اور آثار میں نہایت کمال تھا، امام صاحب نے ان لوگوں پر مشتمل ایک مجلس مرتب کی اور باقاعدہ طور پر فقہ کی تدوین شروع ہوئی، امام طحاویؒ نے بسند متصل اسد بن فرات سے روایت کی ہے کہ ابوحنیفہؒ کے تلامذہ جنھو ں نے فقہ کی تدوین  میں حصہ لیا تھا ان کی مجموعی تعداد  چالیس تھی، جن میں یہ لوگ زیادہ ممتاز تھے:ابویوسفؒ، زفرؒ، داؤدطائیؒ، اسد بن عمرؒ، یوسف بن خالد التیمیؒ، یحییٰ بن ابی زائدہؒ ۔امام طحاویؒ نے یہ بھی روایت کی ہے کہ لکھنے کی خدمت یحییٰ سے متعلق تھی، امام طحاویؒ نے جن لوگوں کے نام گنائے ہیں ان کے سوا عافیہ، ازی، ابوعلی ، علی بن مسہر،قاسم بن معن، ابن مندل اس مجلس کے منبر رہےتھے۔              
  (شرح فقہ اکبر:۱۴۶)
طریقۂ تدوین
تدوین کا طریقہ یہ تھا کہ کسی خاص باب کا کوئی مسئلہ پیش کیا جاتا تھا ؛اگر اس کے جواب میں سب لوگ متفق الرائے ہوتے تھے تواسی وقت قلمبند کرلیا جاتا؛ ورنہ نہایت آزادی سے بحثیں شروع ہوتیں، کبھی کبھی بہت دیرتک بحث قائم رہتی، امام صاحب غور وتحمل کے ساتھ سب کے دلائل سنتے اور بالآخر ایسا جچاتلا فیصلہ کرتے کہ سب کو تسلیم کرنا پڑتا، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ امام صاحب کے فیصلہ کے بعد بھی آپ کے شاگردان اپنی اپنی آراء پر قائم رہتے اس وقت ان سب کے مختلف اقوال قلم بند کرلیے جاتے۔     
(سیرۃ النعمان:۱۲۹)
جب کوئی نیا مسئلہ سامنے آتا تو اسے مجلس میں پیش کیا جاتا اس پر اصول شرع کی روشنی میں غور وخوض ہوتا کبھی اس کی تحقیق میں مہینوں لگ جاتے امام ابوحنیفہ اپنی رائے کو اپنے شاگردوں پر مسلط نہیں کرتے اور نہ بغیر تحقیق ومناقشہ کے اپنی آراء لکھواتے؛ بلکہ جدید مسائل کے بارے میں پوری تحقیق کی جاتی ،مسائل کے مختلف پہلوؤں پر گہری نظر ڈالی جاتی ؛پھر بحث ومباحثہ میں تلامذہ کو پوری آزادی رائے دیتے؛ اگرمجلس کا کوئی رکن حاضر نہیں ہوتا تو انتظار کیا جاتا، بیان کیا جاتا ہے کہ"امام عافیہ" آپ کے اس مجلس کے ایک رکن تھے، جب وہ موجود ہوتے اور بحث ومباحثہ میں حصہ لیکر اتفاق کرلیتے تو اس مسئلہ کو لکھ لیا جاتا اگر وہ شریک نہیں ہوتے تو امام صاحب فرماتے "لاترفعوھا حتی یحضر عافیہ" عافیہ کے آنے تک اس مسئلہ کو آخری شکل نہ دو؛ پھر جب وہ حاضر ہوتے اور اس مسئلہ میں اتفاق کرلیتے تو امام صاحب اسے قلمبند کرلینے کا حکم دیتے اور اگر اختلاف کرتے تو اسے مجموعہ میں شامل نہیں کیا جاتا۔
(سیرۃ النعمان:۱۳۰)
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا منہج استنباط
مسائل کی تحقیق وتخریج میں امام ابوحنیفہؒ کا طریقہ اجتہاد کیا تھا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے خود امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا ہے میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں؛ اگراس میں مسئلہ نہیں ملتا ہے تو سنت رسول کی طرف رجوع ہوتا ہوں اور اگر اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ملتا ہے تو پھر اقوال صحابہؓ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور جس صحابی کا قول کتاب وسنت سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے اسے اختیار کرلیتا ہوں؛ لیکن اقوال صحابہؓ کے دائرہ سے قدم باہر نہیں نکالتا؛ لیکن جب صحابہؓ کے بعد معاملہ ابراہیمؒ، شعبیؒ، ابن سیرینؒ، حسنؒ، عطاءؒ اور سعید ابن مسیبؒ وغیرہ تک جاتا ہے تو یہ وہ لوگ تھے جو اجتہاد کرتے تھے اور میں بھی ان کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔   
(مقدمہ فتاویٰ تاتارخانیہ:۱/۱۳۔ المدخل:۱۳۹)
علامہ مکی نے مناقب میں امام ابوحنیفہؒ کے طریقہ اجتہاد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ حسب ضرورت قیاس سے کام لیتے تھے، اس سے کام نہ چلتا تو استحسان کو اپناتے اور اس سے بات نہ بنتی تو تعامل مسلمین کو دلیل بناتے۔
(مناقب للمکی:۷۵)
غرض امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک مصادر فقہ اور اصولِ استنباط سات تھے:
(۱)کتاب اللہ
(۲)سنتِ رسول
(۳)اقوالِ صحابہؓ 
(۴)اجماعِ امت
(۵)قیاس
(۶)استحسان
(۷)عرف  یعنی تعاملِ ناس۔
فقہ مالکی
فقہ مالکی:یہ فقہ امام دارالہجرۃ مالک بن انس کی طرف منسوب ہے، فقہ مالکی اہل سنت والجماعت کا دوسرا بڑا فقہی مسلک ہے اس کی نشوونما "مدینۃ الرسول" میں ہوئی ،جو مہبط وحی ،مسکن رسول اور ہزاروں جلیل القدر صحابہ کا ماوٰی وملجا تھا اور یہاں سے پورے حجاز میں اس کی اشاعت ہوئی؛ پھربصرہ، مصر، افریقہ، اندلس وغیرہ میں اس کو غلبہ حاصل ہوا ،امام مالک کے اصول میں سے سب سے اہم چیز علامہ ابن خلدون کے بقول اہلِ مدینہ کا تعامل تھا۔                       
  (مناقب للمکی:۷۵)
امام مالک تقریباً پچاس سال درس وافتاء میں مشغول رہے، طلبہ اور عوام جو مسائل آپ سے پوچھتے تھے آپ کے شاگرد ان مسائل کے جوابات یاد کرلیتے یالکھ لیتے تھے، آپ کی وفات کے بعد آپ کے شاگردوں نے آپ کے جوابات اور فقہی اقوال وآراء کومدون کیا، یہ مجموعہ فقہ مالکیؒ کے نام سے مشہور ہوا۔
امام مالک رحمہ اللہ کا طریقہ اجتہاد
امام مالکؒ کا طریقہ اجتہاد اور منہج استنباط یہ تھا کہ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو آپ سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف مراجعت فرماتے اور اگر اس مسئلہ کی کتاب اللہ میں کوئی صراحت نہیں ملتی تو پھرآپ سنتِ رسول کی طرف متوجہ ہوتے؛ اگر اس میں بھی کوئی حکم شرعی نہیں ملتا تو پھر اقوالِ صحابہؓ، تعامل مدینہ، قیاس، اجتہاد، استحسان اور سدذرائع کی طرف متوجہ ہوتے۔    
   (المدخل:۱۵۶)
فقہ شافعی
یہ فقہ امام محمدبن ادریس شافعی کی طرف منسوب ہے، اس کی نشوونما مکہ مکرمہ میں ہوئی اور پھر اطراف واکناف عالم میں پھیل گئی اور امام شافعیؒ نے اوّلاً مالک بن انس کی خدمت میں رہ کر ان کے مناہج استنباط اور اصول استنباط وطرق اجتہاد سے خوب آگاہی حاصل کی؛ پھرامام اعظم کے معتمد شاگردِرشید امام محمد بن الحسن الشیبانی کی صحبت میں رہ کر فقہ حنفی کے مناہج اور اس کے اصول وکلیات کو اپنے سینہ میں محفوظ کیا اور پھر دونوں مکاتب فقہ کا نچوڑ وماحصل فقہ شافعی کی صورت میں مدون کرکے ایک نئی راہ قائم کی، آپ کی فقہ دوحصوں پرمشتمل ہے .
(۱)فقہ شافعی قدیم
(۲)فقہ شافعی جدید۔
فقہ شافعی قدیم فقہ شافعی کا وہ حصہ ہے جسے امام شافعی نے عراق میں آکر مرتب کیا تھا، اس میں عراقی رنگ کا غلبہ ہے، فقہ شافعی جدید یہ وہ حصہ ہے جسے آپ نے مصر میں آکر مرتب کیا تھا، اس میں حجازی رنگ کا غلبہ ہے، فقہ شافعی میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی فقہی آراء اور ان کے مناہج فکر سے بہت فائدہ اٹھایا گیا ہے۔                 
    (کشف الظنون:۲/۱۲۸۵)
امام شافعی رحمہ اللہ کا منہج استنباط
ائمہ اربعہ میں سے امام شافعیؒ وہ خوش بخت انسان ہیں جنھیں اپنے مناہج فکر اور اصول استنباط واستخراج کو خود مدون کرنے کا موقع ملا ہے، امام صاحب کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے، وہ بالترتیب سات ادلہ کو پیش نظر رکھ کر مسائل مستنبط کرتے تھے
(۱)اولا کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتے اور اسے اپنے مسائل کی بنیاد بناتے (۲)اگرکتاب اللہ میں حکم نہیں ملتا تو سنت رسول کی طرف متوجہ ہوتے
(۳)اگرسنت رسول میں کوئی حکم نہیں ملتا تو پھراجماع امت کا سہارا لیتے (۴)اگران تینوں میں حکم نہیں ملتا ہے تو پہلے کتاب اللہ کی روشنی میں قیاس کرتے (۵)پھرسنت رسول  کی روشنی میں قیاس کرتے
(۶)اجماع کی روشنی میں قیاس کرتے
(۷)اور آخر میں مختلف فیہ احکام پر قیاس کرتے۔              
  (المدخل:۱۴۹)
فقہ حنبلی
فقہ حنبلی امام احمدبن حنبلؒ کی طرف منسوب ہے، امام احمدبن حنبلؒ بلند پایہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ شافعی کے سربراہ امام شافعیؒ سے فقہ میں کمال پیدا کیا اور ان کی خدمت میں رہ کر ان کے اصول اور مصادر فقہ سے پوری طرح واقفیت حاصل کی اور پھر حدیث وفقہ کے امتزاج سے ایک نئے فقہی مسلک کی بنیاد ڈالی، جو فقہ حنبلی کے نام سے موسوم ہوئی، آپ کی فقہ بہت سادہ اور زیادہ ترنصوص کے ظاہر تک محدود ہے؛ کیونکہ آپ عقل ودرایت سے کام لینے کے زیادہ قائل نہ تھے، آپ کی فقہ کی بنیاد دراصل احادیث وآثار پر ہے، قیاس واجتہاد کو اس میں بہت کم دخل ہے ،اس لیے بعض بعض مسائل میں امام صاحب کے سات سات اقوال بھی ملتے ہیں۔
(فقہ شافعی اور اس کی خصوصیات سہ ماہی بحث ونظر شمارہ:۱۴)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا طریقہ اجتہاد
وہ اصول استنباط اورمناہج استخراج جن پر امام احمد بن حنبلؒ نے اپنے فقہ وفتاویٰ کی بنیاد رکھی ہے، علامہ ابن قیم حنبلی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق چار ہیں:
(۱)نصوص:امام صاحب جب کسی مسئلہ میں قرآن وحدیث کی نص پاتے تو اس کے مطابق فیصلہ فرماتے اور اس کے خلاف جواقوال وفتاویٰ ہوتے ان کا اعتبار نہیں کرتے۔
(۲)فتاویٰ صحابہؓ:اگر کسی مسئلہ میں نص نہیں ملتی اور اس مسئلہ میں کسی صحابی کا فتویٰ ہوتا، اس کو اختیار کرتے اور صحابہؓ کے اقوال کے دائرہ سے باہر نہیں نکلتے۔
(۳)اگر کسی مسئلہ میں مرفوع اور صحیح حدیث نہیں ملتی تو حدیث مرسل اور ضعیف کو اپنے فتویٰ کی بنیاد بنالیتے۔
(۴)ضرورۃ ہی قیاس سے کام لیتے۔         
(المدخل:۱۶۶)
دیگر فقہی مکاتب
ائمہ اربعہ کے فقہی مکاتب ان کے طریقہ کار اور اصول فقہ کی تدوین کے ساتھ اسی دور میں بعض دیگر ائمہ مجتہدین کے فقہی  مکاتب بھی وجود میں آئے ، مثلاً امام ابوسعید، حسن بن یسار بصری، امام اوزاعی، امام سفیان بن سعید ثوری، امام لیث بن سعد، امام سفیان بن عیینہ، امام داؤد بن علی اصبھانی ظاہری، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ؛ لیکن ان حضران کا مسلک مدون نہ ہوسکا، اس لیے امت مسلمہ کی اکثریت مذاہب اربعہ کی مقلد ہوئی اور قبول عام انہی ائمہ اربعہ کے مسائل مستخرج کو حاصل ہوا۔ 
   (اعلام الموقعین:۱/۱۳۵۔۴۰)
فقہ اسلامی کا چوتھا دور
یہ دورتقلید شخصی کا دور ہے اور امت کا سواداعظم تقلید شخصی کا پابند ہے اور امت کے علماء نے ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ میں سے کسی ایک کی تقلید کو امت کے لیے لازم اور ضروری قرار دیا ہے؛ چنانچہ اس دور میں بڑے بڑے علماء نے ان ائمہ کی تقلید کو اپنے لیے ضروری تصور کیا اور اس پر عمل کیا اور آج تک پوری امت سوائے چند حضرات کے تقلید شخصی کے وجوب کے قائل ہیں۔           
    (المدخل:۱۷۱۔۱۸۲)
فقہ اسلامی کا پانچواں دور
چوتھی صدی کے نصف آخر سے عصر حاضر تک ہے، اس دور کی چند خصوصیات درجِ ذیل ہیں:
الف:اس دور کے اہم امور میں سے یہ ہے کہ فقہی کتابوں کی طباعت شروع ہوئی اگر اس زمانہ میں کتابوں کی طباعت نہ ہوتی تو آج اتنی کتابیں میسر نہ ہوتیں۔                                                       
(تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۸۷)
ب:فقہ کے قواعد اور اصطلاحات کتابی شکل میں جمع کئے گئے۔              
    (تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۸۷)
ج:اسی عہد میں شخصی اور عائلی مسائل کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا۔                
  (تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۸۷)
د:اسی عہد میں فقہی تطبیقات کی تدوین اور کتب فتاویٰ کی تالیف ہوئی گو اس کا آغاز پہلے ہی ہوچکا تھا؛ مگراس دور میں اس کی کثرت ہوگئی اس لیے جو حضرات سرکاری مفتی کی حیثیت سے کام کرتے تھے یابلند پایہ علماء جن سے عوام الناس استفادہ کرتے تھے وہ اپنے فتاویٰ کو کتابی صورت میں جمع کرتے تھے ان میں سے اکثر کتب فتاویٰ ابواب فقہی پر مرتب کی گئی ہیں۔       
  (تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۹۵)
ہ:اس عہد میں کتبِ فتاویٰ کی اہم کتابیں تصنیف کی گئیں، مثلاً فتاویٰ تاتارخانیہ، فتاویٰ خانیہ، فتاویٰ حامدیہ، فتاویٰ ہندیہ وغیرہ۔
(چراغِ راہ:۳۷۲، اسلامی قانون نمبر)
و:اسی عہد میں مجلۃ الاحکام الشرعیہ کی اشاعت بحیثیت قانون مدنی ازروئے فقہ احناف ہوئی۔
ز:اسی عہد میں قانون سازی کا حلقہ بے حد وسیع ہوگیا؛ چنانچہ تمام بلاداسلامیہ میں مختلف موضوعات کے متعلق قوانین وضع ہوئے، مثلاً تجارتی قوانین، جائیداد کے قوانین، اصولی قوانین، جسے قانون اجراء اور قانونِ مرافعہ جس کو ہمارے یہاں قانونِ محکمات حقوق کہا جاتا ہے، مملکتِ عثمانیہ اور ممالکِ اسلامیہ جیسے شام، فلسطین اور عراق میں اس زور شور سے قوانین وضع ہوئے کہ قریب قریب فقہ کے تمام ابواب کے احکام میں کم وبیش قانونی تعدیل یانسخ کا عمل نظر آتا ہے۔             
   (چراغِ راہ:۳۷۲، اسلامی قانون نمبر)

No comments:

Post a Comment