اصطلاحاتِ فقہ


چند فقہی اصطلاحات


دینِ اسلام میں بعض چیزوں کو کرنے کا انسان کو مکلف بنایا گیا ہے؛ جسے فقہاء کرام کی اصطلاح میں "مامورات"کہا جاتا ہے اوربعض چیزیں ایسی ہیں جن کے کرنے سے روکا گیا ہے، انہیں "منہیات" کہا جاتا ہے، جومامورات کے قبیل سے ہیں ان کے مختلف درجات ہیں؛ اسی طرح "منہیات" کے بھی چند درجے ہیں، ذیل میں ان سب کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:
فرضِ اعتقادی
فرض اعتقادی وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو، اس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو، اس کا حکم یہ ہے کہ اس کا جاننا ضروری ہے اورقلب سے تصدیق کرنا اور اس پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے، اس کا منکر کافر ہے اور بلاعذر ایک بار بھی ترک کرنے والا فاسق ہے:
"تثبت بدلیل لاشبہۃ فیہ، وحکمہ اللزوم علما وتصدیقاً بالقلب، وعملاً بالبدن، یکفر جاحدہ ویفسق تارکہ بلاعذر"۔           
  (نورالانوار:۱۷۰)
فرضِ عملی
فرض عملی وہ ہے جس کا ثبوت دلیلِ قطعی سے تو نہ ہو مگر مجتہد کے پاس کوئی ایسی دلیلِ ظنی ہو جواپنی قوت کے لحاظ سے دلیل قطعی کے قریب قریب ہو، ایسی دلیل سے ثابت ہونے والے عمل کو فقہاء کرام کی اصطلاح میں فرض عملی کہا جاتا ہے۔
"إن المجتھد قد یقوی عندہ الدلیل الظنی حتی یصیر قریباً عندہ من القطعی فما ثبت بہ فرضاً عملیاً لأنہ یعامل معاملۃ الفرض"۔        
  (ردالمختار:۱/۱۷۰)
واجب
واجب وہ مامور بہ ہے جو دلیلِ ظنی سے ثابت ہو؛ یہی وجہ ہے کہ اس سے یقینی علم حاصل نہیں ہوتا ہے اور نہ اس کا منکر کافر ہوتا ہے؛ لیکن اس پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے اور اس کا تارک شرعاً فاسق کہلاتا ہے؛ چنانچہ ملاجیونؒ فرماتے ہیں:
"الواجب وھوماثبت بدلیل فیہ شبہۃ، وحکمہ اللزوم عملاً لاعلماً علی الیقین حتی لایکفر جاحدۃ ویفسق تارکہ"۔            
  (نورالانوار:۱۷۰)
سنتِ مؤکدہ
سنتِ مؤکدہ وہ عمل ہے جو حضور اکرم  نے ہمیشہ کیا ہو، یاآپ  نے اس کام کے کرنے کی تاکید فرمائی ہو؛ مگرجانب ترک بالکل مسدود نہ کی ہو، اس کا ترک اساءت ہے اور کرنا ثواب اور ترک کی عادت بنالینے پر عذاب ہوگا؛ چنانچہ مفتی عمیم الاحسان صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"ومن السنن سنۃ ہدی ھی ماواظب علیہا النبی  مع الترک أحیاناً علی سبیل العبادۃ ویقال لہ السنۃ المؤکدۃ"۔           
(قواعدالفقہ:۳۲۸)
سنتِ غیرمؤکدہ
سنتِ غیرمؤکدہ وہ عمل ہے جو  آپ  نے بطورِ عادت کیا ہو، اس کو سنتِ غیرمؤکدہ کہتے ہیں اور اسی کو اصولی حضرات سنن زوائد بھی کہتے ہیں؛ چنانچہ علامہ شامیؒ فرماتے ہیں:
"فمعنی کون سنۃ الزوائد عادۃ أن النبی  واظب علیہا حتی صارت عادۃ لہ ولم یترکھا إلاأحیاناً..... ولمالم تکن من مکملات الدین وشعائرہ سمیت سنۃ الزوائد بخلاف سنۃ الھدی"۔ 
            (ردالمحتار:۱/۷۶)
ترجمہ:سنت زوائدکو سنن عادی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ؐ نے اس عمل پر مداومت کی ہو،حتح کہ وہ عادت کہ درجے میں ہوگیاہواور اسے کبھی کبھار ہی چھوڑا ہو اور یہ سنن چونکہ سنت ھدی کی طرح دین کے مکملات اوران کے شعائر کے قبیل سے نہیں ہیں اس لیے ان کو سنن زوائد کہتے ہیں۔
مستحب
مستحب وہ فعل ہے جو شریعت میں پسند کیا گیا ہو؛ خواہ حضور  نے ترغیب دی ہو یاکیا ہو یاعلماء کرام نے پسند کیا ہو، اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہ ہو۔
"المستحب مارغب فیہ الشارع ولم یوجبہ"۔    
  (قواعدالفقہ:۴۸۳)
ترجمہ:مستحب وہ عمل ہے جس کی ترغیب شارع نے دی ہو لیکن اسے ضروری قرار نہیں دیا ہو
"إن المستحب مااحبہ العلماء وہذا مااعتاد بہ النبی "۔
   (نورالانوار:۱۷۱)
ترجمہ:مستحب وہ عمل ہے جسے علماء بہتر سمجھتے ہوں اور یہ عمل عموماً وہی ہوتا ہے جس پر آپ کا عمل رہا ہو۔
حرام قطعی
حرام قطعی یہ فرض کا مقابل ہے، یعنی جس کی ممانعت دلیلِ قطعی سے ثابت ہو، جیسا کہ شراب کی حرمت، یہ دلیل قطعی سے ثابت ہے، اس کا ارتکاب کرنا گناہِ کبیرہ ہے اور حرام سے بچنا فرض اورباعثِ ثواب ہے؛ چنانچہ مولانا عبدالحئ فرنگی محلیؒ لکھتے ہیں:
"إن الحرام کشرب الخمر داخل فی الفرض بحسب الترک فإن ترکہ فرض لأن دلیل الحرمۃ قطعی"۔         
   (حاشیہ نورالانوار:۱۶۹)
مکروہِ تحریمی
مکروہِ تحریمی یہ واجب کا مقابل ہے یعنی وہ کام جس کی ممانعت دلیل ظنی سے ثابت ہو اس کے کرنے سے عبادت ناقص ہوجاتی ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اور بار بار اس کا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔
"فالمکروہ تحریماً نسبتہ إلی الحرام کنسبۃ الواجب إلی الفرض فیثبت بمایثبت بہ الواجب یعنی بظنی الثبوت ویاثم بارتکابہ کمایأثم بترک الواجب"۔
(ردالمختار:۱/۳۳۷)
اساءت
اساءت جس کا کرنا باعثِ  ملامت ہے اور اس کا کرنے والا شرعاً مستحق عتاب ہوگا۔
"الاساءۃ مایوجب التضلیل واللوم یستحق فاعلہ بارتکابھا العتاب"۔
(ردالمختار:۱/۳۵۔ قواعد الفقہ:۱۶۹)
مکروہِ تنزیہی
مکروہ تنزیہی جس کا کرنا شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے؛ مگر نہ اس حد تک کہ اس پر عذاب کی وعید فرمائی ہو، وہ فعل شرعاً ناجائز نہیں ہوتا؛ البتہ اس سے بچنا اچھا ہے:
"المکروہ ہوماراجح الترک وإن کان إلی الحل اقرب تکون تنزیہۃ ومعنی القرب إلی الحل إنہ لایستحق فاعلہ العتاب بل یستحق تارکہ ادنی الثواب"۔
(قواعد الفقہ:۵۰۳)
ترجمہ:مکروہ تنزیہی وہ عمل ہےجس کا نہ کرنا راجح ہو اور وہ حلال امور کے قریب قریب ہوتا ہے،مطلب یہ ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والاعتاب کا مستحق نہیں ہوتا ہے؛البتہ نہ انجام دینے والا کچھ نہ کچھ ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔

خلافِ اولیٰ
وہ فعل ہے جس کا نہ کرنا بہتر ہو؛ لیکن اگر کسی نے کرلیا تو کچھ مضائقہ اوراس پر عتاب  بھی نہیں ہے۔
(ردالمختار:۱/۹۱)

No comments:

Post a Comment