بنیادی ماخذ فقہ



بنیادی اصول


قرآن کی شرعی حیثیت


قرآن مجید کو ایسے وقت میں نازل کیا گیا، جب کہ معاشرہ کے اندر بہت سی خرابیاں جنم لےچکی تھیں اور بڑی حد تک اس میں پختگی بھی آگئی تھی، جن کی اصلاح بہت  ضروری تھی، قرآن پاک جن اہم اصلاحی ہدایات ومضامین پر مشتمل ہے، انہیں ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:
(۱)تکمیل شریعت
(۲)نسل انسانی سے نفرت وتعصب کو دور کرکے اسے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا
(۳)مذہبی اختلافات کا خاتمہ
(۴)کتب سابقہ کے برحق ہونے کی تصدیق  اور ان کی غلطیوں کی اصلاح
(۵)تکمیل انسانیت
(۶)گمشدہ توحید کو دوبارہ قائم کرنا
(۷)اللہ تعالیٰ کے ازلی ارادہ کی تکمیل:جس میں  انسانوں کے لیے رہنمائی موجود ہو (اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۲۳۹) اسی کے ساتھ مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ اگر جھگڑا ہوجائے یاکوئی اور معاملہ درپیش ہوتو سب سے پہلے قرآن پاک کی طرف رجوع کیا کرو اور ایسا ہونا بھی چاہیے؛ کیونکہ وہ خدا کا نازل کردہ دستورِحیات ہے، جس سے کسی حال میں صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا ہے؛ چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ"۔
(النساء:۵۹)
ترجمہ:پس اگر کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تو اس امر کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالہ کردیا کرو؛ اگرتم اللہ پر یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔          

یعنی اگرتم میں اور "اولوالامر" میں باہم اختلاف ہوجائے کہ حاکم کا یہ حکم اللہ اور رسول کے حکم کے موافق ہے یامخالف، تواس کو کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی طرف رجوع کرکے طے کرلیا کرو کہ وہ حکم فی الحقیقت اللہ اور رسول کے حکم کے موافق ہے یامخالف اور جوبات محقق ہوجائے اسی کو بالاتفاق مسلم اور معمول بہ سمجھنا چاہیے اور اختلاف کو دورکردینا چاہیے؛ اگرتم کواللہ اور قیامت کے دن پر ایمان ہے؛ کیونکہ جس کو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان ہوگا وہ ضرور اختلاف کی صورت میں اللہ اور رسول کے حکم کی طرف رجوع کرےگا اور ان کے حکم کی مخالفت سے بے حد ڈرےگا، جس سے معلوم ہوگیا کہ جو اللہ اور رسول کے حکم سے بھاگے گا وہ مسلمان نہیں؛ اس لیے اگردومسلمان آپس میں جھگڑیں، ایک نے کہا:چلو شرع کی طرف رجوع کریں، دوسرے نے کہا میں شرع کو نہیں سمجھتا یامجھ کو شرع سے کام نہیں تو اس کو بیشک کافر کہیں گے۔                           
(فوائد عثمانی برترجمہ شیخ الہندؒ، النساء:۵۹)
مذکورہ آیت اور فوائد تفسیری سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب اللہ کی کتنی ضرورت ہے اور اس کی کتنی اہمیت ہے کہ اس کے ذریعہ معاملہ کو حل کرنے کاحکم ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کسی بھی معاملہ میں کتاب اللہ کی طرف رجوع ہونا چاہیے؛ پھرکسی دوسری چیز کی طرف؛ چنانچہ علامہ شہر ستانی (متوفی:۵۴۸ھ) فرماتے ہیں کہ اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ جب کوئی شرعی مسئلہ پیش آئے؛ خواہ وہ حلال سے متعلق ہو یاحرام سے اور اس میں اجتہاد کی ضرورت پڑے تو سب سے پہلے قرآن پاک سے اس کی ابتداء کرنی چاہیے؛ پس اگر اس سے رہنمائی حاصل ہوجائے توپھر دوسری طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔      
(الملل والنحل:۱/۱۳۶)
حضرت عمرفاروقؓ نے قاضی شریح کے نام جوخط لکھا تھا اس میں یہ مذکور ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے توکتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرو اگراس معاملہ کا فیصلہ کتاب اللہ میں مذکور نہ ہو تب دوسری طرف دیکھا کرو۔
حضرت ابن مسعودؓ کا فرمان  ہے:"تم میں سے کسی کے سامنے کوئی مقدمہ درپیش ہوتووہ اس کا کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرے اگراس کا فیصلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو وہ رسول اکرمکی احادیث کے مطابق حکم دے"۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے جب کوئی بات دریافت کی جاتی تھی تو آپ اس کا جواب کتاب اللہ کے مطابق دیتے تھے، ان واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی کتاب کا درجہ سنت سے پہلے (بلکہ تمام ادلۂ شرعیہ پر مقدم) ہے اور عقل وفطرت کا تقاضہ بھی یہی ہے۔           
  (حیات امام ابن القیم:۲۵۸)
 ان تمام امور پر روشنی ڈالنا مقصود نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا یہ موضوع ہے، ذیل میں ہم صرف اس بات کا جائزہ لیں گے کہ قرآن پاک ایک دستورِ حیات ہے اور فقہی احکامات کی تعیین میں اسے اولین ماخذ ہونے کی حیثیت ہے۔
مضامین قرآن
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ درجِ ذیل مضامین کو بیان کیا ہے اور وہ یہ ہیں:
(۱)جزائے ایمان کے مباحث
(۲)عبادات کے مباحث
(۳)حسنات وسیئات کا بیان
(۴)قصص وحکایات کا بیان
(۵)نجاتِ حقیقی اور اس کے حصول کے ذرائع کا بیان
(۶)رسولِ کریم  کے سوانح اور آپ  کی نبوت کے دلائلِ کاملہ کا بیان
(۷)خصائص قرآن کا بیان
(۸)اسلام کی حقیقت اور اس کی صداقت پر دلائل قاطعہ کا بیان
(۹)کفروشرک کے تفصیلی احوال
(۱۰)اور مظاہر قدرت کا بیان۔            
       (اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۲۳۹)
حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے مضامین قرآنی کی بہت ہی جامع تقسیم کی ہے، جوپانچ قسموں پر مشتمل ہے:
(۱)علم الاحکام یعنی عبادات، معاملات اور معاشرتی وسیاسی مسائل؛ نیزعلمی زندگی کے متعلق احکام وہدایات۔
(۲)علم المخاصمہ یعنی یہود ونصاریٰ، مشرکین ومنافقین اور مذاہب باطلہ کی تردید اور اسلام کی تائید اور حقانیت کے ثبوت پر مشتمل آیات۔
(۳)علم التذکیر بایات اللہ یعنی اللہ کی نعمتوں، قدرتوں اور اس کے نوازشات وانعامات، نیزجنت جیسی آرامگاہ میں قیام کا تذکرہ اور مجرموں کی سزاؤں پرمشتمل آیات۔
(۴)علم التذکیر بالموت، یعنی وہ آیات جوموت اور مابعدالموت، حساب کتاب اور نیک اور بُرے اعمال کے بدلے پر مشتمل ہیں۔
(۵)علم التذکیر بایام اللہ، یعنی وہ آیات جو سابقہ امتوں کی معاشرتی ومعاملاتی حالات، انبیاءؑ کی تعلیم سے اعراض وسرکشی پرعذاب خداوندی وغیرہ، یہ سب امت محمدیہ کی عبرت وموعظت کے لیے تفصیل کے ساتھ مذکورہ ہیں۔         
(الفوزالکبیر:۲)
حجیت قرآن
قرآن پاک دوسری سابقہ کتابوں کے مقابلہ میں قیامت تک دین کی اساس کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے، جس کا ہمیں اللہ نے مضبوطی سے تھامنےکا حکم دیا؛ چنانچہ ارشادِ باری ہے:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"۔        
(آل عمران:۱۰۳)
ترجمہ:اورمضبوط پکڑےرہو اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو اس طور پر کہ (تم سب) باہم متفق بھی رہو۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلِہِ"۔
(مشکوٰۃ:۳۱)
ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ رہا ہوں، جب تک تم اس کو تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہو گے:ایک کتاب اللہ دوسری سنتِ رسول۔
مذکورہ آیت اور حدیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن پاک دین وشریعت کی اصل اساس ہے اور یہی تمام ادلہ میں سب سے مقدم اور سب سے محکم ہے، قرن اوّل سے ہی اس سے احکامِ شرعیہ کا استخراج ماخذ اوّل کی حیثیت سے کیا جاتا ہے، آپ  نے حضرت معاذؓ کو جب یمن کی جانب قاضی بناکر بھیجا تھا تو اُس وقت آپ نے اُن سے پوچھا تھا، اے معاذؓ جب تمھیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتو کس چیز سے فیصلہ کروگے؟ تو معاذؓ نے جواباً عرض کیا:کتاب اللہ سے؛ پھرآپ  نے پوچھااگراس مسئلہ کا حل قرآن میں نہ مل سکا تو؟ آپؓ نے فرمایا احادیث سے؛ پھرآپ نے پوچھا اگر اُس میں بھی نہ ملے تو؟ آپؓ نے عرض کیا "اجتہد برائی" اپنی اجتہاد سے اس مسئلہ کا حل نکال لونگا اورساتھ ہی فرمایا"ولاالو" حق کی تلاش میں لاپرواہی اختیار نہ کرونگا۔    
   (ابوداؤد:۲/۵۰۵)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ادلہ اربعہ میں قرآن کو اولین ماخذ کی حیثیت حاصل ہے، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کے ساتھ حدیث بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے آپ  نے معاذؓ کے مزاجِ دین سے واقفیت اور شریعت سے مکمل طور پر مطلع ہونے سے خوشی کا اظہار فرمایا اور خدا کا شکر بجالاتے ہوئے فرمایا:
"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يَرْضٰی رَسُولؑ اللَّهِ"۔
(ابوداؤد، باب اجتہاد الرأی فی القضاء، حدیث نمبر:۳۱۱۹)
ترجمہ:تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی کہ اس سے اس کا رسول راضی ہے۔
زمانۂ رسالت کے بعد بھی دورِخلافت اور عام صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) اور فقہاء کا یہی معمول رہا ہے کہ مسائل کے استخراج میں کتاب اللہ کو مقدم رکھتے تھے؛ پھرسنتِ رسول اللہ کو، اس لیے پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسائل کے استخراج میں اولیت کتاب اللہ کو حاصل ہے؛ پھرسنتِ رسول اللہ کو ہے۔
شیخ محمد خضری بک لکھتے ہیں کہ کتاب اللہ قطعی حجت ہے ،جس کو مضبوطی سے تھامنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا واجب ہے۔
(تاریخ التشریع الاسلامی:۱۹)
قرآن کی حجیت پر مثال کے طور پر صرف ایک آیت اور دوحدیثیں پیش کی گئی ہیں؛ ورنہ اس کے علاوہ بہت سی آیات اور احادیث کتاب اللہ کی حجیت پر دال ہیں، جنھیں بغرضِ اختصار قلم انداز کیا جاتا ہے؛ نیزاس پر تاریخی شواہد بھی موجود ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن حکیم کو قانون کا اولین ماخذ بنایا، نبی کریم  اور صحابہ کرامؓ کے عہد میں قرآن حکیم سے مکمل طور پر استفادہ کیا جاتا رہا، چوروں کے ہاتھ کاٹے گئے، زانیوں کوکوڑے لگائے گئے، شراب پینے والوں پرتعزیرنافذ ہوئی، بدکرداروں کو ملک بدر کیا گیا، نکاح وطلاق نیز وراثت کی تقسیم کے فیصلے قرآن حکیم کے احکام کے مطابق کئے گئے، ان سب سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے یہاں ابتداء ہی سے، قرآن حکیم قانون کا اصلی اور بنیادی ماخذ تھا؛ البتہ اتنی بات قابل تسلیم ہے کہ قرآن حکیم اصولوں کی کتاب ہے اور اس میں جملہ جزئیات کا احاطہ نہیں کیا گیا اور قرآن حکیم کوقانونی ماخذ بنانے کے لیے جن کلیات کی ضرورت تھی، وہ بعد میں مرتب ہوئے اور آج تک مرتب ہورہے ہیں، آج بھی اگر کوئی جدید مسئلہ درپیش ہو اور قرآنِ حکیم کی کسی آیت سے کوئی کلیہ بنایا جاسکے تو وہ ہمارے لیے ویسے ہی قابلِ عمل ہوگا، جیسے امام شافعیؒ یاامام ابوحنیفہؒ کا قائم کردہ کوئی کلیہ قابلِ عمل ہوتا ہو۔
اسی لیے مسلمانوں کے یہاں ایک عام اصول رہا کہ ایسی کوئی بات تسلیم نہیں کی جائیگی جوقرآن حکیم کے احکام یااس کی روح کے خلاف پائی جائے۔                     
(اسلام اور مستشرقین:۲/۱۴)
قرآن کا فقہی اسلوب بیان
قرآن میں جہاں اصلاح، عقیدہ، عبرت وموعظت کی آیتیں ہیں ،وہیں فقہی احکام سے متعلق بے شمار آیات ہیں، کبھی توامر کے صیغے سے فرضیت کا حکم دیا گیا ہے:
"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ"۔  
  (البقرۃ:۴۳)
ترجمہ:اور قائم کرو نماز کو (یعنی مسلمان ہوکر) اور دوزکوٰۃ کو۔
یہاں پر نماز وزکوۃ کو صیغہ امر سے بیان کیا گیا؛ مگرشرعاً یہ دونوں احکام فرض کے قبیل سے ہیں اور کبھی تو ماضی کے لفظ (کتب) سے فرضیت ثابت کی جاتی ہے جیسے:
"كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ"۔
(البقرۃ:۱۷۸)         
تم پر (قانون) قصاص فرض کیا جاتا ہے۔
"كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ"۔    
(البقرۃ:۱۸۳)       
تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔
اورکبھی مضارع کے لفظ سے وجوب کا حکم ثابت ہوتا ہے، جیسے:
"وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ"۔
(البقرۃ:۲۲۸)
ترجمہ:اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو (نکاح سے) روکے رکھیں۔   

اس آیت میں مطلقہ عورتوں کو عدت کے گذارنے کا حکم دیا گیا ہے، جوواجب ہے اور کبھی انجام کار اور نتیجہ کے خراب ہونے کی وعید سناکر حکم دیا جاتا ہے، جیسے:
"وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ"۔
(النساء:۹۳)
ترجمہ:اور جومرد چوری کرے اور جوعورت چوری کرے سوان دونوں کے (داہنے) ہاتھ (گٹے) پر سے کاٹ ڈالو۔ 

کبھی توصراحتاً ممانعت اور نہی کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے:
"وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ"۔    
    (الانعام:۱۵۱)
ترجمہ:اورجس شخص کے قتل کرنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے، ہاں! مگرحق پر ہو۔                         
کبھی فعل مباح سے اور کبھی دوسرے طریقوں سے بھی احکام بیان کئے گئے ہیں جس سے ان احکام کا طرز مختلف معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ بعض احکام میں فرضیت کا درجہ ہے تو بعض میں واجب کا، بعض میں سنن ومستحبات کا، بعض میں مباحات کا اور جن باتوں سے منع کیا گیا اس میں بھی بعض حرام کا درجہ رکھتے ہیں تو بعض مکروہ کا یامحض خلافِ اولیٰ کا۔
(سہ ماہی مجلّہ، الصفا، سبیل السلام حیدرآباد)
کتاب اللہ سے اخذ معانی کے طریقے
قرآن مجید سے احکام درجِ ذیل چار طریقوں سے مستنبط ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں (۱)عبارۃ النص
(۲)اشارۃ النص
(۳)دلالۃ النص
(۴)اقتضاء النص۔
عبارۃ النص
عبارۃ النص سے استدلال کرتے وقت احکام صرف صیغہ لفظ سے ہی معلوم ہوجاتے ہیں؛ کیونکہ اس حکم کے واسطے ہی نص کو نازل کیا گیا تھا؛ نیزاس کا مفہوم غور وفکر کے بغیر اوّلِ وہلہ ہی میں سمجھ میں آجاتا ہے، مثلاً قرآن نے کہا "وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا" (البقرۃ:۲۷۵) اس نص سے خریدوفروخت کی حلت اور سود کی حرمت کسی غور وفکر کے بغیر سمجھ میں آجاتی ہے اور اس نص کا مقصود بھی یہی ہے؛ اسی کو عبارۃ النص کہتے ہیں۔
دلالۃ النص
جو حکم نص کے الفاظ سے ثابت تو نہ ہو لیکن نص کو سنتے ہی ذہن اس حکم کی طرف منتقل ہوجاتا ہو ،وہ دلالۃ النص ہے ،جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے "فَلَاتَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَاتَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا" (الاسراء:۲۳) اس آیت کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی کسی بات پراف کہنا حرام ہے؛ لیکن دلالۃ النص کے طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اف کہنا حرام ہے تو سب وشتم کرنا یاجسمانی اذیت دینا بدرجہ اولی حرام ہوگا؛ کیونکہ یہ تکلیف "اف" کہنے سے بھی بڑھ کر ہے۔
اشارۃ النص
نص جس بات کو بتانے کے  لیے وارد نہ ہوئی ہو؛ لیکن نص کے اصل الفاظ ہی سے جو بات سمجھ میں آجائے وہ اشارۃ النص ہے، مثلاً ارشادِ خداوندی ہے "وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ" (البقرۃ:۲۳۳) اس آیت کا ظاہری مفہوم (عبارۃ) تو یہ ہے کہ ماں کے نفقہ کی ذمہ داری باپ پر ہے؛ لیکن اس میں لفظ ہے "الْمَوْلُوْدِ" اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولاد باپ ہی کی طرف منسوب ہوگی، ماں کی طرف نہیں؛ کیونکہ اس لفظ کے ذریعہ "ولد" کی نسبت باپ کی طرف کی گئی ہے یہی اشارۃ النص ہے۔
اقتضاء النص
نص اور شارع کے کلام کے صحیح ہونے کے لیے بعض اوقات کسی لفظ کو محذوف ماننا ضروری ہوجاتاہے، اس کو"مقتضی" کہتے ہیں اور اس سے ثابت ہونے والے حکم کو "اقتضاء النص" کہتے ہیں مثلاً  آیت قرآنی ہے "حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ" (المائدۃ:۳) اس میں حرمت کی نسبت میتہ اور دم کی طرف کی گئی ہے؛ حالانکہ یہ درست نہیں؛ کیونکہ حرمت کا تعلق منھی عنہ (جس چیز سے منع کیا گیا ہے) اس کی ذات سے نہیں ہوتا؛ بلکہ مکلّف کے فعل سے ہوتا ہے؛ پس آیت کا مفہوم اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک کہ مکلّف سے متعلق کوئی فعل محذوف نہ مانا جائے اور ظاہر ہے کہ وہ فعل "اکل" ہی ہوسکتا ہے؛ لہٰذا آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ مردار کا کھانا اور خون کا پینا حرام ہے اور یہاں پر یہی شارع کی مراد ہے۔          
(مجلّہ فقہ اسلامی:۱۳۵)
قرآن کا تدریجی اندازِ بیان
جب آپ  مبعوث ہوئے تو اس وقت عربوں میں بعض اچھے عادات تھے، جوبقاء کے  لحاظ سے صالح تھے اور ان سے امت کے تکوین پر کوئی نقصان نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف اُن میں بعض عادات ایسے بھی تھے جنھوں نے اُن کے اندر اچھی خاصی جگہ بنالی تھی اور ان کے دل میں گھر کرگئی تھیں، انسان حددرجہ وحشیانہ زندگی کا عادی بن چکا تھا اور اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ ایک دم پاکیزہ زندگی کواختیار کرے؛ اس لیے قرآن پاک نے آہستہ آہستہ انسان کی تہذیبی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے احکامات دیئے، خرابی کو ختم کیا گیا اور یہی فطرت کے مناسب بھی ہے؛ کیونکہ اگر ان خرابیوں کوایک دم روک دیا جاتا توطبیعت پر بڑی گرانی ہوتی اور ان سے رُکنا مشکل ہوجاتا، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں پہلے خرابی کے نقصانات اور منافع کو شمار کرایا جاتا ہے؛ پھرمفاسد کے پیشِ نظر اس حکم سے منع کیا جاتا ہے،مثلاً شراب کی حرمت بیان کرنا مقصود تھا تو قرآن میں سب سے پہلے اس کے گناہ کے کام میں سے ہونے کی صراحت کی گئی اور ساتھ ہی اس کے منافع کا بھی اعتراف کیا گیا؛ لیکن بعد میں یہ صاف صاف کہہ دیا گیا کہ اس میں نفع سے زیادہ نقصان کا پہلو ہے ،جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا"۔          
(البقرۃ:۲۱۹)
ترجمہ: ان دونوں (خمرومیسر) کے استعمال میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کے بعض فائدے بھی ہیں اور وہ گناہ کی باتیں ان کے فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔
دیکھئے یہاں پر بیک وقت اُن دونوں سے رُکنے کا حکم نہیں دیا گیا؛ مگراس انداز سے لوگوں کو ان کا گناہ کے قبیل سے ہونا سمجھ میں آنے لگا اور کچھ نہ کچھ اس کی طرف سے نفرت ہونے لگی تو پھرلوگوں سے کہا گیا:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى"۔   
    (النساء:۴۳)
ترجمہ:اے ایمان والو! تم نماز کے پاس بھی ایسی حالت میں مت جاؤ کہ تم نشہ میں ہو۔
اس نہی میں پہلے حکم کو باطل کرنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ اس کو مزید مؤکد کرنا ہے پھرجب ان لوگوں کے اندر شراب کی طرف سے اچھی طرح بے اطمینانی ہوچکی توصریح طور پر روک دیا گیا کہ شراب نوشی شیطان کے گندے کام میں سے ہے؛ لہٰذاتم اس سے باز آجاؤ؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"۔         
   (المائدۃ:۹۰)
ترجمہ:اے ایمان والو (بات یہی ہے کہ) شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر (یہ سب) گندے شیطانی کام ہیں سوان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔  
جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں کے سامنے شراب کی حرمت واضح طور پر آگئی اور لوگ اس سے اجتناب کرنے لگے۔
(تاریخ التشریع الاسلامی:۱۸،۱۹)
قرآن اصول وکلیات کا مجموعہ
قرآن پاک میں ہرحکم کی تفصیل موجود نہیں ہے، عام طور پر کلیات کے بیان پر اکتفاء کیا گیا ہے اور خدائی کلام کے لیے یہی مناسب تھا؛ کیونکہ ہرحکم کی تفصیلات پیش کرنے سے کتاب نہایت طویل ہوجاتی اور اس سے استفادہ کرنا مشکل ہوجاتا، آپ بھی نمونہ کے طور پر قرآن کے ان آیات کا ملاحظہ کیجئے جن میں اس طرح کے اصول بیان کئے گئے ہیں، مثلاً:
"وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى"۔                
       (الانعام:۱۶۴)
ترجمہ:کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔
"وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى"۔           
(النجم:۳۹)
ترجمہ:انسان کے لیے صرف وہ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ"۔          
         (المائدۃ:۱)
ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے وعدوں کو پورا کرو۔
"وَلَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ"۔                                   
(البقرۃ:۱۸۸)
ترجمہ:اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ پہنچاؤ ان کو حاکموں تک کہ کھاجاؤ لوگوں کے مال میں سے کوئی حصہ ناحق درآنحالیکہ تم جانتے ہو۔
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّاأَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ"۔            
(النساء:۲۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کا ناحق مگر یہ کہ آپس کی مرضی سے تجارت کرو۔

"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ"۔           
  (النساء:۵۸)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔
"وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا"۔                
      (الاسراء:۳۴)
ترجمہ:اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگربہتر طور پر جب تک کہ وہ جوانی کو پہنچے اور عہدکوپورا کرو، بیشک عہد کے متعلق بازپرس ہوگی۔
"الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ"۔            
(البقرۃ:۲۲۹)
ترجمہ:طلاق رجعی ہے دوبار تک اس کے بعد دستور کے موافق رکھ لینا یابھلی طرح سے چھوڑ دینا۔
"وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ..... لَاتُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَامَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ"۔          
    (البقرۃ:۲۳۳)
ترجمہ:اور باپ کے ذمہ ان عورتوں کا حسب دستور کھانا کپڑا ہے، نقصان نہ دیا جائے ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے اور نہ باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے۔
"وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا"۔       
  (الشوریٰ:۴۰)     
ترجمہ:برائی کا بدلہ برائی ہے برابر برابر۔
"وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ"۔    
   (الطلاق:۲)       
ترجمہ:تم اپنے میں سےمعتبر لوگوں کو شاہد بناؤ۔
"وَلَاتَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ"۔      
        (البقرۃ:۲۸۳)
ترجمہ:شہادت کو مت چھپاؤ، جو شخص اس کو چھپاتا ہے اس کا دل گنہگار ہے۔
"وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ"۔              
      (البقرۃ:۲۸۰)
ترجمہ:اگرمقروض تنگ دست ہے تو اس کو آسانی حاصل ہونے تک مہلت دو۔
"يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ"۔           
        (البقرۃ:۱۸۵)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا۔
"وَمَاجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"۔          
              (الحج:۷۸)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ دین کے بارے میں تم پر تنگی نہیں کی ہے۔
"فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ"۔         
      (البقرۃ:۱۷۳)
ترجمہ:پھرجو کوئی بھوک سے بے اختیار ہوجائے نہ فرمانی کرے، نہ زیادتی تواس پر کوئی گناہ نہیں۔
الغرض کتاب اللہ تمام اسلامی قوانین کی اصل بنیاد واساس ہے اور ذریعہ ثبوت کے اعتبار سے اس درجہ قطعی ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کے ہمسر نہیں، اس کتاب میں زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا، چاہے وہ ایمانیات کے قبیل سے ہوں یاعبادات کے شخصی احکام ہوں یامالی معاملات، اجتماعی قوانین ہوں یاتعریزی قوانین، ملکی مسائل ہوں یابین الا قوامی مسائل، امن کے حالات ہوں یاجنگ کے حالات، یہ کتاب ہرحال میں انسانیت کی رہبری کا فریضہانجام دیتی ہے۔
"وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ"۔            
     (النحل:۸۹)
ترجمہ:اور مسلمانوں کے واسطے بڑی ہدایت اور بڑی رحمت اور خوشخبری سنانے والا ہے۔
یہی وہ کتاب ہے جس سے دنیا کو افراط وتفریط سے پاک زندگی کا نقشہ میسر آسکتاہے۔
"إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ"۔            
      (آل عمران:۱۹)
ترجمہ:بلاشبہ دین حق اور مقبول اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔


حدیث کی شرعی حیثیت


کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے، ان دونوں کے علاوہ تیسری اور چوتھی اصل وبنیاد، اجماع امت اور قیاس ہے اور ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہ  کی ذاتِ گرامی ہے، شمس الائمہؒ کہتے ہیں، شریعت کی تین حجتیں (بنیادیں) ہیں، کتاب اللہ، سنت اور اجماع، چوتھی بنیاد قیاس ہے، جو ان تینوں سے نکلی ہوئی ہیں؛ اگرغور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ ان تمام اصولوں کی بنیاد صرف رسول اللہ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا اور آیات کی تلاوت کی ،جوبطریقۂ تواتر ہم تک پہنچا ہے (اصول السرخسی:۱/۲۷۹) اور اجماع امت اور قیاس بھی آپ  کے ارشاد ہی کی وجہ سے معتبر ہیں توجب دین کی بنیاد رسول اللہکی ذاتِ گرامی ٹھہری تو پھر عبادت واطاعت کے معاملہ میں حدیث وقرآن میں فرق کرنا بے بنیاد ہے؛ کیونکہ یہ دونوں اطاعت میں برابر ہیں؛ البتہ حجت دین کے بارے میں دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم قطعی کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسول ہے، حجت قطعی ہے؛ البتہ رسول سے ہم تک پہونچنے میں جودرمیانی وسائط ہیں، ان کی وجہ سے احادیث کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں ہے، جس درجہ کی قطعیت قرآن کو حاصل ہے۔
سنت کی تعریف
لغت میں سنت کا لفظ طریقہ اور عادت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
امام کسائی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے معنی میں دوام کی کیفیت ہے:"یقال سنت الماء اذاوالیت فی صبہ"امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب مطلق طور پر سنت کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے طریقہ محمود مراد ہوتا ہے اور کبھی سنت سے غیرمحمود طریقہ بھی مراد ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ  نے بھی فرمایا ہے:
"من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجر من عمل بہا الی یوم القیامۃ ومن سن سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا ووزر من عمل بہا الی یوم القیامۃ"۔
(السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷۔ البحوث الاسلامیہ:۲/۲۳۴)
ترجمہ:جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تواس کا اجر اورقیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا اجروثواب ملے گا اور جس نے غلط رواج قائم کیا تو اسے اس عمل کا گناہ اور قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ اسے ہوگا۔
لیکن محدثین اور فقہاء جب سنت کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے رسول اللہ  کی طرف منسوب قول وفعل مراد ہوتا ہے؛ چنانچہ محدثین سنت کی یہ تعریف کرتے ہیں "ھی ماصدر عن النبی  قول اوفعل أوتقریر" (مقدمہ شیخ عبدالحق دھلویؒ:۳) مگرفقہاء سنت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں توان کے یہاں قول وفعل اور تقریر کے علاوہ صحابہ کرام کے اقوال اور افعال بھی مراد ہوتے ہیں، امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"والمراد بھا شرعاً ماسنہ رسول اللہ  والصحابۃ بعدہ عندنا"۔
(السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷)
قولِ رسول
قولِ رسول سے مراد ہروہ لفظ ہے جورسول اللہ کی زبان سے بیداری کی حالت میں نبوت کے بعد قرآن کے علاوہ ادا ہوا ہو، اس کی مثال حضور  کا ارشاد ہے:
انماالاعمال بالنیات، البیّعان بالخیار مالم یتفرقا۔
(السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷)
فعلِ رسول
سنت میں افعالِ رسول بھی داخل ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم کو امام ومقتدیٰ بناکر ان کی اتباع کا حکم دیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے "وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ" (نبی) کا اتباع کرو؛ تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔     
     (الاعراف:۱۵۸)
"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔        
(الاحزاب:۲۱)
ترجمہ:تم لوگوں کے لیے رسول اللہ کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔
اس لیے علماء اصول نے سنت قولیہ کے  ساتھ سنت فعلیہ کو بھی بیان کیا ہے؛البتہ سنت قولیہ مقدم ہے اور سنت فعلیہ مؤخر ،یہی وجہ ہے کہ علماء اصول اسے ملحق بالسنۃ کہتے ہیں۔              
    (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷)
تقریرِ رسول
حضور نے کسی چیز کو کرتے ہوئے دیکھا اور اس پر سکوت فرمایا تو یہ اس کے صحیح ہونے پر دلیل ہوگی اور یہ اس بات پر دلالت کرے گا کہ بیان وضاحت کے موقع پر سکوت حقیقۃ بیان ہی ہے، علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے سنت سکوتی کے بارے میں لکھا ہے:
"وصورته أن يسكت النبي  عن إنكار قول قيل بين يديه أوفي عصره وعلم به، أويسكت عن إنكار فعل فعل بين يديه أوفي عصره وعلم به، فإن ذلك يدل على الجواز"۔
(ارشادالفحول:۸۹)
ترجمہ:سنت سکوتی کی صورت یہ ہے کہ نبی کریم  کے سامنے کچھ کہا گیا، یاآپ کے زمانے میں کہا گیا اور آپ  کومعلوم ہوا مگراس پر نکیر کرنے سے آپ خاموش رہے؛ اسی طرح آپ  کے سامنے یاآپکے عہد میں کوئی عمل ہوا اور آپتک اس کی خبر پہنچی مگرآپ  نے اس پر نکیر نہیں کی تو یہ جواز پر محمول ہوگا۔
مثلاً غزوہ بنی قریظہ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے عصر کی نماز کے سلسلے میں اجتہاد کیا تھا جب کہ آپ  کا حکم تھا "لَايُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّافِي بَنِي قُرَيْظَةَ" (بخاری، كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب صَلَاةِ الطَّالِبِ وَالْمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً:۲/۵۹۱) تم میں سے کوئی شحص نماز نہ پڑھے مگربنی قریظہ میں جاکر؛ چنانچہ بعض صحابہ نے اس کو حقیقت پر محمول کیا اور انھوں نے مغرب کی نماز کوموخر کیا اور بنوقریظہ پہنچ کر نماز ادا کی، جب کہ دوسرے بعض صحابہ نے یہ سمجھا کہ اس حکم سے مراد جلدی جانے پر ابھارنا ہے توانھوں نے راستہ ہی میں وقت پر نماز پڑھ لی، جب حضور  کودونوں فریقوں کے اجتہاد کا پتہ چلا توآپ  نے خاموشی اختیار کی اور کسی پر نکیر نہیں کی۔
(السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷)
حدیث کے بغیر چارہ نہیں
امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ کا وہ علم صحیح ہے جوسنت کے طریقے سے حاصل کیا گیا ہو، فقہ وشرائع میں بھی طریق سنت کوپیش نظر رکھنا لازم اور ازبس ضروری ہے اور جولوگ صرف قرآن مجید پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے فہم وبیان میں سنت سے مدد نہیں لیتے وہ گمراہ ہیں، راہِ حق سے دور ہیں اور اس کے کئی وجوہ ہیں۔
۱۔قرآن کریم کی نصوصِ واردہ سے، طاعتِ رسول کا وجوب ثابت ہے اور ظاہر ہے، طاعت ِرسول اسی وقت ممکن ہے، جب اتباعِ رسول کامل ہو اور جس طرح رسول کی زندگی میں ان سے حکم حاصل کرنا ایک دینی امر تھا اسی طرح رسول اللہ کی وفات کے بعد آپ کے مرویات پر عمل کرنا لازمی ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ مخالفت رسول سے ڈراتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْيُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"۔
(النور:۶۳)
ترجمہ: جولوگ امررسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں خائف رہنا چاہیے کہ مبادہ وہ کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں یاعذابِ الیم میں گرفتار نہ ہوجائیں۔
۲۔نیزاس قسم کی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دین کاتفقہ ازروئے سنت ضروری ہے؛ اسی طرح فہم قرآن کے لیے بھی حدیث کی مساعدت لازمی ہے، خود احادیث میں ایسی بہت سے دلیلیں وارد ہیں جوصرف کتاب  اللہ پر اکتفا نہ کرنے اور حدیث سے رہنمائی حاصل کرنے کو واجب قرار دیتی ہیں؛ چنانچہ روایت ہے کہ آنحضرت  نے ارشاد فرمایا:ایک زمانہ ایسا آئےگا کہ تم میں سے کوئی شخص مسہری پر تکیہ لگاکر بیٹھے گا اور میری حدیث بیان کرتے ہوئے کہے گا، ہمارے اور تمہارے درمیان خدا کی کتاب کافی ہے، خبردار! رسول اللہ نے جوکچھ حرام کردیا وہ ایسا ہی ہے جیسے اللہ نے حرام کیا ہے۔      
      (مشکوٰۃ شریف:۲۹)
اس حدیث سے ایک نئی بات یہ معلوم ہوئی کہ احادیث میں بھی مستقل احکام ہیں، احادیث صرف قرآن کی تفسیر وتوضیح نہیں ہے۔
۳۔احکام اسلامیہ کا بہت بڑا حصہ جس پر مسلمانوں کا تقریباً اجماع ہے، وہ یاتوسنت سے ماخوذ ہے یااس کی تشکیل میں سنت کا بہت زیادہ حصہ ہے، مثلاً رضاعت سے حرمت نکاح کا ثبوت یابیوی کے ساتھ اس کی چچی اور ممانی کو جمع کرنے کی حرمت حدیث پر ہی مبنی ہے۔
(السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۵۷)
زکوٰۃ کے تفصیلی احکام بھی حدیث ہی میں پائے جاتے ہیں، مقادیردیات، صلح وجنگ کے احکام، معاہدات، مہادنات، عقدذمہ، وجوب وفاوغیرہ سب کی تفصیل وتشریح اور بیان حدیث ہی میں ملے گی؛ پس جوشخص سنت سے بے نیاز ہوکر فقہ کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اپنے مساعی کو رائیگاں کرتا ہے اور جوشخص یہ گمان کرتا ہے کہ قرآن اور عقل پر اکتفا کرنا کافی ہے وہ سیدھے راستے سے بھٹکتا اور راہِ ضلالت اختیار کرتا ہے۔                      
    (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۸۹)
حدیثِ رسول قرآن کی نظر میں
حدیث رسول کی اسی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىإِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُوحَى"۔        
     (النجم:۳،۴)
ترجمہ:یعنی رسول اپنے جی سے نہیں بولتے، وہ بس اللہ کے پاس سے آئی ہوئی وحی ہوتی ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
"مَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"۔ 
(الحشر:۷)
ترجمہ:جوتمھیں رسول دیں اسے لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ؛ نیز رسول کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا۔
"مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"۔        
(النساء:۸۰)
ترجمہ:جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
"قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ"۔ 
  (آل عمران:۳۱)
ترجمہ:آپ فرمادیجئے کہ اگرتم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہوتوتم لوگ میری اتباع کرو، خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔
نیز جوشخص حکم رسول کو نہ مانے اسے قرآن نے مؤمن قرار نہیں دیا ہے اور قرآن میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ شخص اس دنیا میں مصیبت میں مبتلا رہے گا اور آخرت میں دردناک عذاب چکھے گا، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:
"فَلَاوَرَبِّكَ لَايُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَايَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا"۔ 
(النساء:۶۵)
ترجمہ:پھرقسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جھگڑے واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کراویں؛ پھرآپ کے اُس تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورے طور پر تسلیم کرلیں۔
امام شافعیؒ نے اپنی کتاب الرسالۃ میں آیت قرآنی "وَمَاأَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ" (البقرۃ:۲۳۱)کے بارے میں لکھا ہے کہ "اس آیت میں حکمت سے رسول اللہ  کی حدیث مراد ہے؛ کیونکہ الکتاب کے ساتھ واوِعطف کے بعد حکمت کا ذکر ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر اس احسان کو بیان کیا ہے جو اس نے "الکتاب" قرآن کریم اور حکمت (حدیثِ رسول) کی تعلیم دے کر کیا ہے، اس لیے یہاں الحکمۃ سے حدیثِ رسول ہی مراد ہے، اس کے علاوہ کچھ اور مراد لینا درست نہیں ہے"۔ 
(الرسالۃ:۱/۱۳)
نیز اللہ تعالی ٰنے اپنے رسول کے اوپر قرآن نازل کیا اور قرآنی آیات کی تشریح کی ذمہ داری اپنے رسول پر ڈالی، ارشادِ ربانی ہے:
"وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ"۔       
       (النحل:۴۴)
ترجمہ:اور ہم نے تمہاری طرف الذکر یعنی قرآن نازل کیا؛ تاکہ تم لوگوں کے ساتھ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کو کھول کھول کر بیان کرو۔
ان تمام آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ احادیثِ رسول، اللہ کی وحی کا حصہ اور قرآن کی تفسیر ہیں، ان کے بغیر نہ دین کی صحیح تفہیم ہوسکتی ہے اور نہ دین عملی زندگی میں پوری طرح جاری ہوسکتا ہے؛ اسی لیے حضرت عمران بن حصینؓ سے ایک شخص نے جب سوال کیا اور آپ نے اس کے جواب میں حدیث سنائی تو اس نے کتاب اللہ سے جواب دینے کے لیے کہا تو آپ نے کہا "انک امرءاحمق" تم احمق آدمی ہو، کیا تم قرآن میں یہ پاتے ہو کہ ظہر کی نماز میں چار رکعات فرض ہیں، جس میں بآواز بلند قرآن پڑھا نہیں جاتا؛ اسی طرح انہوں نے مختلف نمازوں کو گنایا اور زکوٰۃ وغیرہ کا ذکر کیا؛ پھرفرمایا:کیا یہ سب تم قرآن میں تفصیل سے پاتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ کتاب اللہ نے ان سب کواجمالاً بیان کیاہے اور سنت ہی اس کی تفصیل کرتی ہے۔    
  (جامع بیان العلم وفضلہ:۳/۶۲)
حدیث خودرسول کی نگاہ میں
خود رسول اللہ  نے اپنے فرمودات پر عمل کرنے اور اس کو بحفاظت تھامے رکھنے کے بارے میں کئی مواقع پرتاکید کی ہے، آپ نے فرمایا:
"فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ"۔ 
(مشکوٰۃ شریف:۳۰)      
تمہارے لیے میری سنت لازم ہے۔
"تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ"۔
(مشکوٰۃ شریف:۲۹)
ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسول  ہے۔
"اَلَاوَاِنِّیْ اَوْتیت الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ"۔               
  (مشکوٰۃ شریف:۲۹)
ترجمہ:یادرکھو! مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے ساتھ اسی جیسی ایک چیز۔
"خُذُوا عَنِّي مَنَاسِككُمْ"۔   
(فتح الباری:۱/۲۹۰)    
    ترجمہ:حج کے ارکان مجھ سے سیکھو۔
حدیث اصحابِ رسول کی نگاہ میں
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک مرتبہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ نے کہا:اللہ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو گودنا کراتی یاکرتی ہیں اور ان پر جو چہرے کے بال اکھڑواتی ہیں اور حسن وزیبائی کے لیے دانتوں کے درمیان دراڑ پیدا کرکے اللہ کی تخلیق میں تغیر کرتے ہیں، اس حدیث کو بنواسد کی ایک عورت نے سنا توحضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا آپ کی یہ روایت مجھ تک پہنچی ہے اور معلوم ہوا کہ آپ فلاں فلاں قسم کی عورتوں پر لعنت کرتے ہیں، حضرت عبداللہ نے کہا میں اس پر کیسے لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ  نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے، عورت نے کہا میں نے بھی قرآن پڑھا ہے؛ لیکن مجھے تواس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی، حضرت عبداللہؓ نے کہا :اگرتو نے غور سے پڑھا ہوتا توضرور نظر آتی، کیا اللہ نے نہیں فرمایا:
مَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
(الحشر:۷)۔        (مشکوٰۃ شریف:۳۸۱)
اسی طرح حضرت عمرفاروقؓ نے حج میں خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے جب حجرِاسود کا بوسہ لیا تو فرمایا:
"وَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ وَأَنَّكَ لَاتَضُرُّ وَلَاتَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَاقَبَّلْتُكَ"۔    
   (مسلم، بَاب اسْتِحْبَابِ تَقْبِيلِ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فِي الطَّوَافِ’حدیث نمبر:۲۲۳۰)
ترجمہ:میں جانتا ہوں کہ توایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان پہونچا سکتا ہے؛ اگرمیں نے اپنے حبیب رسول اللہ کوتیرابوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا توتجھے نہ چومتا۔
حضرت عمرؓ کا یہ ارشاد بتاتا ہے کہ آپ  کا فعل  حجت ہے؛ اسی لیے توحضرت عمرؓ نے آپ  کے فعل سے استدلال کرتے ہوئے حجرِاسود کوبوسہ دیا۔
حدیث عقل کی روشنی میں
عقلی طور سے بھی سنت رسول کی اتباع کا ضروری ہونا معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ امیربادشاہ لکھتے ہیں:سنت رسول حجت ہونا چاہیے، وہ مفید فرضیت ہویاوجوب یاکچھ اور ایسی ضرورت دینیہ میں داخل ہے، جس کا علم بالبداہت ہراُس شخص کو حاصل ہے جوصاحبِ عقل وتمیز ہو؛ یہاں تک کہ عورتیں اور بچے بھی اس باب کو جانتے ہیں کہ جس کی نبوت ثابت ہے وہ اللہ کی طرف سے جوخبر دیتا ہے اس میں وہ سچا ہے اور اس کی اتباع واجب ہے۔    
   (التیسر علی التحریر:۳/۲۲)

حدیث مرسل اور فقہ اسلامی
محدثین کی اصطلاح میں مرسل حدیث اسے کہتے ہیں جس میں صحابیؓ کا نام چھوڑ دیا جائے، جیسا کہ کوئی تابعی کہے، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؛ لیکن اصولیین کی اصطلاح میں مرسل حدیث اسے کہتے ہیں "جس میں کوئی ثقہ عادل راوی خواہ وہ تابعی ہو یاغیرتابعی وہ کہے "قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم"۔
(تدریب الراوی:۱/۱۹۵)
اصولیین کی تصریح کے مطابق حدیث مرسل کی دوقسمیں ہیں:
(۱)مراسیلِ صحابہؓ۔                           
(۲)مراسیلِ غیرصحابہؓ۔
مراسیلِ صحابہ رضی اللہ عنہم
یعنی صحابیؓ کا اپنے ساتھی صحابیؓ سے روایت نقل کرنا اور بغیراُن کے نام کی صراحت کیے کہنا قال رسول اللہ۔
مراسیلِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا حکم
مراسیل صحابہؓ جمہور ائمہ کے نزدیک مقبول ہیں، علامہ نوویؒ لکھتے ہیں کہ جمہور علماء مراسیلِ صحابہؓ کے قبول کرنے پر متفق ہیں؛ کیونکہ صحابہ کرامؓ کو اللہ اور اس کے رسول نے عادل قرار دیا ہے اور ان کی اقتداء کی ترغیب دی ہے۔   
(نووی مع مسلم:۱/۳۰)
آپ  کا ارشاد ہے:
"اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمْ اِقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ"۔
(مشکوٰۃ شریف:۵۵۴)
ترجمہ:میرے صحابہؓ ستاروں کے مانند ہیں، تم ان میں سے جن کی اقتداء کروگے راہ یاب ہوجاؤ گے۔
علامہ ابوحسینؒ نے یہ تصریح کی ہے کہ امام شافعیؒ مراسیلِ صحابہ کو خاص طور پر لائق استدلال شمار کرتے تھے۔
(المعتمد:۱/۲۳۸)
ابن قدامۃؓ کہتے ہیں کہ مراسیلِ صحابہؓ جمہور علماء کے نزدیک مقبول ہیں؛ کیونکہ صحابہؓ صحابی ہی سے روایت کرتے تھے اور تمام صحابہؓ معلوم العدالۃ ہیں اور اگر وہ غیرصحابیؓ سے روایت کرتے تھے توجب تک انہیں اس بات کا یقین نہ ہوجاتا تھا کہ یہ شخص بھی عادل اور ثقہ ہے اس وقت تک ان سے روایت نہیں لیتے تھے اور ان کی شانِ صحابیت سے یہ بات بعید بھی تھی کہ وہ ایسے اشخاص سے روایت لیں جوغیرثقہ اور دینی امور میں غیرذمہ دار ہوں۔          
(روضۃ الناظر مع شرحھا:۱/۳۲۴)
ابنِ صلاح رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ صحابہ مثلاً ابن عباسؓ اور ان جیسے حضرات کی حدیث، حدیثِ متصل کے حکم میں ہے؛ کیونکہ وہ صحابہؓ سے روایت نقل کرتے ہیں اور تمام صحابہ عادل ہیں۔                      
  (مقدمہ ابن صلاح،النوع العاشر معرفۃ المنقطع:۱/۹)
 امام اعظمؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک بھی مراسیلِ صحابہؓ مقبول ہیں۔                
  (فتح القدیر:۲۲/۲۲۳)
مراسیلِ غیرصحابہ
صحابیؓ کے علاوہ کسی اور کی جانب سے ارسال ہو تواس کے معتبر ہونے یانہ ہونے میں علماء کا اختلاف پایا جاتا ہے، ذیل میں اختصار کے ساتھ اسے ذکر کیا جاتا ہے:
الف:مرسل غیرصحابی مطلقاً مقبول ہے، علامہ آمدیؒ کا یہی خیال ہے۔
ب:غیرصحابی  اگرثقہ ہوں توان کے ارسال کو قبول کیا جائے گا؛ ورنہ نہیں، یہ ابن حاجبؒ کا موقف ہے۔
ج:مرسل غیرصحابی اگر "قرون مشھود لہابالخیر" میں ہوتو قبول کیا جائے گا اور اگراس کے بعد کے دور میں ہوا ہوتو قبول نہیں کیا جائے گا، یہ رائے عیسیٰ بن ابان کی ہے۔
د:مرسل غیرصحابی کا بالکل اعتبار نہیں ہے؛ لیکن جمہور علماء کا راجح قول یہ ہے کہ مرسل غیرصحابی سے استدلال کرنے میں توقف کریں گے؛ حتی کہ یہ معلوم ہوجائے کہ ثقہ کا ارسال ہوا ہے یاغیرثقہ کا؟ ثقہ کا ارسال ہوتو قبول کریں گے؛ ورنہ اسے قبول نہیں کریں گے۔           
(تدریب الراوی:۱/۱۹۸)
حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں کہ جب راوی ثقہ اور غیرثقہ دونوں کا ارسال کردیا کرتا ہوتو ایسے مرسل غیرصحابی کو بالاتفاق قبول نہیں کیا جائے گا۔
(نخبۃ الفکر:۶۸)
ائمۂ اربعہ کا مسلک
امام نوویؒ نے یہ لکھا ہے کہ جمہور محدثین اور امام شافعیؒ کے نزدیک مرسل غیرصحابی حدیث ضعیف کے حکم میں ہے۔
(تدریب الراوی:۱/۱۹۸)
امام شافعیؒ کے نزدیک مرسل غیرصحابی کو پانچ امور میں سے کسی ایک کی بنا پر قبول کریں گے:
(۱)اس مرسل کوکوئی دوسرا راوی مسند بیان کرے
(۲)دوسرا راوی اس کومرسل ہی روایت کرے مگردوسرے شیخ سے
(۳)یااس مرسل روایت کی تائید میں کسی صحابیؓ کا قول ہو
(۴)یااکثرعلماء کا قول ہو
(۵)یاوہ ارسال کرتا ہو صرف عادل راوی سے، ان وجوہ میں سے کوئی وجہ جب پائی جائے گی تب توقبول کریں گے؛ ورنہ قبول نہیں کریں گے۔
امام شافعیؒ کے نزدیک اس طرح کے مرسل غیرصحابی کا درجہ مسند جیسا ہے؛ البتہ اگرمسندومرسل کے درمیان تعارض ہوجائے تومسند کومقدم کریں گے۔
(الرسالہ:۴۶۵)
مرسل غیرصحابی غیرمعتبر کیوں؟
یہ بات توطے ہے کہ صحابہؓ عادل ہیں اور دینی معاملہ میں جس قدر انہیں احتیاط تھا وہ بعد کے ادوار میں نہ رہا؛ اسی لیے بعد والوں میں دینی لحاظ سے مختلف خرابیاں پائی جانے لگیں اور ان خرابیوں کے لحاظ سے محدثین کوحدیث کی صحت وضعف کے متعلق زمرہ بندی کی ضرورت پیش آئی، بسااوقات متصل السند حدیث میں بھی غیرثقہ راوی آجاتا ہے اور اس کی وجہ سے حدیث درجہ صحت سے نکل جاتی ہے اور ضعیف احادیث کے زمرہ میں داخل ہوجاتی ہے، جب سند میں مذکور راویوں کی وجہ سے بھی ساری احادیث قبول واعتبار کا درجہ حاصل نہیں کرپاتی توجس سند میں راوی حذف کردیا گیا ہو وہ حدیث کیسے لائق احتجاج بن سکتی ہے؛ لہٰذا مرسل غیرصحابی معتبر اور لائقِ استدلال نہیں ہے۔
(التدریب:۱/۱۹۸)
احناف ، مالکیہ اور حنابلہ کا مسلک
امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ کا مشہور قول یہ ہے کہ مرسل غیرصحابی بھی اگر وہ ثقہ ہو توقابلِ قبول ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ثقہ راوی کا کسی راوی کے ذکر کرنے سے خاموشی اختیار کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس راوی کو ثقہ جانتا ہے؛ گویا اس کا سکوت کرنا اس کی عدالت کی خبر دینا ہے؛ اسی لیے علامہ آمدیؒ کہتے ہیں کہ جب عادل ثقہ کہے:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کذا، تو اس کے اس جملہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسے جب تک اس قول کے حضور  کی طرف سے ہونے کا یقین نہ ہوا ہوتا توایسے جزم ویقین کے ساتھ وہ نقل نہ کرتے۔
  (الاحکام:۲/۱۲۵)
لیکن اگرراوی ثقہ اور غیرثقہ دونوں کا ارسال کردیا کرتا ہے تواحناف میں سے ابوبکر رازی اور مالکیہ میں سے ابوالولید باجی اس کے غیرمعتبر ہونے کے قائل ہیں۔
  (قفوالاثر:۱۵)
شیخ ابوزہرہؓ فرماتے ہیں کہ امام مالکؒ اور امام ابوحنیفہؒ نے جومرسل غیرصحابی کو قبول کیا ہے اس کی وجہ روایت میں تساہل برتنا نہیں ہے؛ کیونکہ انہوں نے ہرشحص کے ارسال کو جائز قرار نہیں دیا ہے؛ بلکہ وہ صرف ایسے ثقات کے ارسال کو قبول فرماتے ہیں ،جن کے بارے میں اُن کو صدق سے متصف ہونے کا علم ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کبھی ان کے قبول کرنے کا سبب اس کی شہرت ہوتی ہے، ارسال تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں زیادہ تھا؛ کیونکہ وہ زمانہ خیرالقرون کا تھا اور مجموعی طور پر آپ کا ارشاد ہے "مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ" (مشکوٰۃ شریف:۳۲) سامنے رہا کرتا تھا، اس لیے حضور  کی طرف غلط بات کے منسوب کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی؛ لیکن جب دین کی گرفت ڈھیلی ہونے لگی اور آپ  کی طرف غلط باتوں کو منسوب کیا جانے لگا توعلماء اس کے سند کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ راوی کو پہچانا جاسکے اور اس کی حالت کے مطابق حدیث کی صحت وسقم کا اندازہ کیا جائے؛ اسی لیے ابن سیرینؓ فرماتے ہیں کہ ہم حدیث کی سند فتنہ کی وجہ سے بیان کرنے لگے۔          
   (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۳۰۴)
اسی لیے امام شعبیؒ جو کبارِ تابعین میں سے ہیں ان کے مراسیل کے بارے میں علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ مراسیلِ شعبی صحیح ہیں؛ کیونکہ وہ صرف ثقہ راوی ہی کا ارسال کرتے ہیں۔
    (تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۹)
اور ابن عدی یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں کہ مراسیلِ ابراہیم نخعیؒ صحیح ہیں۔ 
(نصب الرایہ:۱۔۵۱،۵۲)
اسی طرح حضرت سعید بن مسیب کے مراسیل کو بھی محدثین نے حجت گردانا ہے۔
(نصب الرایہ:۲/۴۲۳)
قاضی شریح کے مراسیل بھی صحیح ہیں؛ کیونکہ وہ بھی ثقہ ہیں اور کبارِ تابعین میں سے ہیں، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے زمانے میں عہدۂ قضا پر فائز تھے۔
(سیرالصحابہؓ:۳/۳۰۲)
حضرت حسن بصریؒ کے مراسیل کے بارے میں ابن مدینیؒ کہتے ہیں کہ وہ ثقات سے روایت کرتے ہیں اور ابوزرعۃ کا کہنا ہے کہ حسن بصری جس حدیث کو قال رسول اللہ   کہہ کر روایت کرتے ہیں اس کی کوئی نہ کوئی اصل مجھے ضرور ملی ہے۔
(المقاصد الحسنۃ:۱۸۳)
مراسیلِ محمدبن سیرین بھی صحیح ہیں۔
(الجوہرالنقی، کتاب الحج:۵/۱۰۹)
مراسیلِ صحابہ کرام کی مثال
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں:"إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ" (مشکوٰۃ شریف:۲۴۵) جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ روایت آپ نے براہِ راست حضور سے سنی ہے؟ توفرمایا نہیں، میں نے یہ اسامۃ بن زید سے سنی ہے؟ اسی طرح حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے "مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا فَلَاصَوْمَ لَهُ" (اتحاف السادہ المتقین:۴/۳۲۰) جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ روایت آپ نے حضورسے براہِ راست سنی ہے؟ تو فرمایا نہیں، میں  اس کوفضل بن عباسؓ سے نقل کرتا ہوں۔
مراسیل  تابعی وتبع تابعین
حضرت عطاؒ، حضرت قتادہؒ، حضرت ابنِ شہاب زہریؒ، حضرت ابی اسحاق الہمدانیؒ، حضرت اسماعیل بن ابی خالدؒ اور حضرت سعید بن جنیدؒ کے مراسیل بھی حجت ہیں؛ کیونکہ یہ حضرات بھی ثقہ راوی کا ہی ارسال کرتے ہیں۔
حدیثِ مرسل کا ایک اور مفہوم
محدثین کے نزدیک مرسل کا ایک عام مفہوم بھی ہے کہ کبھی مرسل سے مطلق انقطاع مراد لیتے ہیں؛ خواہ وہ بصورت معلق ہویامعضل یامنقطع اور صحاحِ ستہ میں لفظِ مرسل اسی معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے، اس عام مفہوم کے اعتبار سے مرسل کی دوقسمیں ہیں
(۱)مرسل ظاہر
(۲)مرسل خفی۔
مرسلِ ظاہر:
وہ روایت ہے جس کا انقطاع واضح ہو اس طور پرکہ راوی ایسے شیخ سے روایت کرتا ہو جوان کا ہمعصر نہ ہو۔
مرسلِ خفی:
ایسے راوی کا شیخ کی طرف روایت منسوب کرنا جس سے اس راوی کی ملاقات توہو؛ لیکن مطلق سماع نہ ہو یاسماع توہو؛ لیکن اس حدیث کا سماع ثابت نہ ہو، وہ تابعین جنہوں نے حضور کا زمانہ پایا؛ لیکن کسی وجہ سے ملاقات نہ کرسکے، مثلاً ابوعثمان نہدیؓ، حضرت قیس بن حازم وغیرہ تویہ حضرات اگر قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں تو اس روایت کو بھی مرسل خفی کہیں گے۔

ضعیف حدیث اور قوت استدلال

فقہ اسلامی کی بنیاد جن چار چیزوں پر ہے ان میں سے ایک اہم ماخذ حدیثِ نبوی  بھی ہے، جس کے بیان ونقل میں انتہائی حزم واحتیاط سے کام لیا گیا ہے، ماضی میں بعض اسباب کے تحت احادیث کووضع کرنے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناپاک سازش کی گئی تھی، جن کے خلاف محدثین نے سخت محاذ آرائی کی؛ اِسی پسِ منظر میں"ائمۂ جرح وتعدیل" کی جماعت کا ظہور ہوا؛ جنھوں نے موضوع اور من گھڑت احادیث کو چھانٹ کر موضوعات کے نام سے الگ کردیا اور راویوں کے حالات کو مدنظررکھتے ہوئے ان کے احوال واعمال کے مطابق احادیث کی تقسیم کردی، ان ہی اقسام میں ایک "ضعیف" حدیث بھی ہے، جو فی الحال موضوعِ بحث ہے، اس کے تحت تعارف، حکم اور اس میں فقہاء کا اختلاف اور دیگرضروری امور کو بیان کیا جائے گا:
حدیثِ ضعیف
حدیثِ ضعیف کی تعریف میں متقدمین اور متأخرین کی الگ الگ رائیں ہیں، متقدمین کی اصطلاح میں"ضعیف" وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو؛ گویا متقدمین کے یہاں حدیث صحیح ہی کی ایک قسم "حدیثِ ضعیف" ہے اور اسے متأخرین کی اصطلاح میں "حدیثِ حسن" کہا جاتا ہے اور متقدمین نے یہ طے کررکھا تھا کہ اس ضعیف حدیث کے خلاف اگرکوئی حدیث صحیح نہ ہو توپھر اس حدیثِ ضعیف (حدیثِ حسن عندالمتأخرین) پر عمل کیا جائے گا اور اسے قیاس پربھی ترجیح دی جائے گی۔                                              
  (اعلاء السنن:۱/۶۰)
لیکن متأخرین کی اصطلاح میں "حدیثِ ضعیف" وہ کہلاتی ہے جس میں حدیث صحیح وحسن کے شرائط نہ پائے جائیں، اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں اور وہ متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو یااس میں شذوذ وعلتِ خفیہ ہوں یہ اسباب کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔
(احکام القرآن للجصاص:۱/۳۸۶)
حدیثِ ضعیف کا ضعف ختم ہوسکتا ہے
اگرحدیث ضعیف ہے تواس کا ضعف مختلف قرائن سے دور ہوسکتا ہے، ان میں سے ایک تعدد طرق ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجرؒ کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔           
(ردالمحتار:۱/۲۵۳)
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہونچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے۔              
(فتح المغیث:۳۵/۳۶)
"الحسن لغيره أصله ضعيف وإنماطرأعليه الحسن بالعاضد الذي عضده"۔
(بدایۃ المجتہد:۱/۴۳)
ترجمہ:حسن لغیرہ دراصل ضعیف ہی ہے اور اس میں حسن دیگر روایات کے اس کی تائید کرنے کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ضعف کسی راوی کے فسق یاکذب بیانی کی وجہ سے نہ ہو؛ کیونکہ تعددِطرق ان کے کذب وفسق کے احتمال کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔                 
(حاشیہ اعلاء السنن:۱/۵۸)
دوسرا قرینہ یہ ہے کہ وہ حدیث ضعیف کسی اصل شرعی ودلیلِ شرعی کے موافق ہو؛ خواہ کوئی نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کا کوئی قاعدہ وضابطہ ہو۔          
   (نزھۃ النظر:۲۹)
اس کے علاوہ بھی کچھ قرائن ہیں جو کہ حدیث ضعیف کوتقویت پہنچاتے ہیں؛ اسی لیے حافظ ابنِ حجرؒ نے نخبہ میں ذکرفرمایا ہے کہ؛ اگرکوئی ایسا قرینہ مل جائے جوحدیث ضعیف کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کو راجح بتائے تواس کو"حسن لغیرہ" کہتے ہیں۔                 
   (اعلاء السنن:۱/۶۲۔ اصول امام احمدبن حنبل:۲۶۹)
ضعیف کی اقسام
زمانہ قدیم میں حدیث کی دوہی قسمیں ہوا کرتی تھیں؛ لیکن سب سے پہلے جس نے احادیث کوتین قسموں میں منقسم کیا وہ حضرت امام ترمذیؒ کی شخصیت ہے، صحیح، حسن، ضعیف، ان ہی کی اس تقسیم کومدنظر رکھتے ہوئے احادیث ضعیف کی پھر چارقسمیں سامنے آتی ہیں:
(۱)وہ ضعیف جس کا ضعف تعددِ طرق اور دیگرقرائن سے دور ہوجاتا ہو
(۲)ضعیف متوسط الضعف
(۳)ضعیف شدید الضعف
(۴)موضوع۔
فقہاء کا اختلاف
قسم اوّل سے توباتفاق احتجاج واستدلال جائز ہے اور قسم سوم وچہارم سے باتفاق استدلال کرنا درست نہیں ہے؛ البتہ قسمِ دوم سے استدلال کی امام احمدؒ وامام اعظمؒ وغیرہ گنجائش دیتے ہیں؛ جب کہ بہت سے علماء اس سے منع کرتے ہیں۔
(المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۳۔ اصول امام احمدبن حنبل:۲۷۱)
حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کے شرائط
حافظ ابن حجرؒ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں:
(۱)اس حدیث کا ضعف ضعفِ شدید نہ ہو یعنی اس کا راوی کا ذب اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فاحش غلطیوں کا مرتکب ہو
(۲)حدیث جس مفہوم پر مشتمل ہو اس کی ایسی بنیاد موجود ہو جومعمول بہ ہو، یعنی اس پر عمل کرنا اپنے اندر غرابت کا کوئی پہلو نہ رکھتا ہو اور اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو
(۳)دورانِ عمل اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے؛ بلکہ ازروئے احتیاط اس پر عمل ہو، یعنی اس طور پر نہ قبول کی جائے کہ واقعتاً یہ حدیث صحیح النسبت ہے؛ بلکہ اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ نفس الامر میں اس کی نسبت آپکی طرف درست ہو۔             
    (اعلاء السنن:۱/۵۸)
ضعیف اور مضعف میں فرق
حدیثِ مضعف کا درجہ حدیثِ ضعیف سے اونچا ہوتا ہے کہ احکامات میں حدیثِ مضعف سے استدلال کیا جاتا ہے اور ضعیف سے فقط فضائل میں ہی استدلال کرنا درست ہے۔
دوسرا فرق:جو"علامہ قسطلانی رحمہ اللہ" نے بیان کیا ہے کہ مضعف وہ حدیث ہے جس کے متن میں یاسند میں ایسا وقتی ضعف آگیا ہو، جس کی تلافی دیگراسناد وروایات سے ہوسکتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ نے بھی ایسی احادیث کو بعض مرتبہ انپے صحیح میں جگہ دی ہے۔           
(اعلام الموقعین:۱/۸۲)
حدیثِ ضعیف اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم
حضرت امام ابوحنیفہؒ وامام احمدؒ حدیث ضعیف کا درجہ حدیث صحیح سے کمتر قرار دیتے ہیں؛ البتہ وہ حدیثِ ضعیف کے بالمقابل فتاویٰ اور اقوالِ صحابہ کوترجیح دیتے ہیں۔         
  (المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۶۔ حیات امام احمد بن حنبلؒ:۳۵۰)
صحابہ کرامؓ سے جوفقہی فتاوے منقول ہیں، ان کی ایک بڑی تعداد ہے جومختلف واقعات وحوادثات سے متعلق ہیں، ان فتاویٰ واقوال میں رنگا رنگ کی غذاء فکری اور طرح طرح کے امراض اجتماعی کی چارہ گری موجود ہے۔    
   (اعلام الموقعین:۱/۸۴)
اگران کے فتاویٰ اوراقوال کا تعارض حدیثِ ضعیف سے ہوجائے توفتاویٰ صحابی کو ترجیح حاصل ہوگی؛ کیونکہ صحابہ کرامؓ درس رسالت کے چراغ ہیں، ان کا ہرقول وعمل سنت کے مطابق ہوا کرتا تھا، ان کے کلام سے کلام رسالت کی بومہکتی ہے اور انھوں نے دین کوپہلو رسالت میں رہ کر جتنا سمجھا اور سیکھا ہے دوسرا ان کی خاک تک نہیں پہونچ سکتا، ان کے اقوال وافعال میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اورحدیث ضعیف کی صحت وعدمِ صحت مشتبہ ہے؛ لہٰذا صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ واقوال کو ضعیف حدیث پر ترجیح حاصل ہوگی۔
حدیثِ ضعیف اور قیاس کا تعارض
جب کہیں حدیث ضعیف اور قیاس میں تضاد نظر آئے توفقہاء کرامؓ کے اس سلسلے میں دونقطہ نظر ہیں۔
حنفیہ وحنابلہ
ان حضرات کا موقف یہ ہے کہ ضعیف حدیث کی موجودگی میں قیاس کوئی معنی نہیں رکھتا؛ بلکہ قیاس کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، حدیث اگرچہ ضعیف ہے؛ لیکن بہرِحال موجود توہے اور اس میں صحت کا بھی پہلو ہے؛ اس لیے قیاس کے مقابلہ میں حدیثِ ضعیف ہی کو ترجیح دی جائے گی (الاحکام لابنِ حزم:۲/۵۴) چنانچہ امام احمد کا قول خود ان کے فرزندِارجمند حضرت عبداللہ نقل کرتے ہیں کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح حاصل ہوگی۔       
            (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۲۔ المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۵)
ایک مرتبہ عبداللہ نے اپنے والد امام احمدؒ سے دریافت کیا کہ کسی جگہ ایک محدث ہیں جودرسِ حدیث دیا کرتے ہیں اور وہ حدیث کی صحت وضعف میں تمیز نہیں کرپاتے اور اسی جگہ ایک صاحب رائے شخص موجود ہو، جواپنی رائے اور قیاس سے مسائل کو حل کرتا ہو اور ایک ایسا شخص جوعلم سے ناواقف حلال وحرام میں تمیز خود سے نہ کرپاتا ہو تووہ مسئلہ کس سے دریافت کرے، محدث سے یاصاحبِ رائے سے؟ امام احمدؒ نے فرمایا محدث سے مسئلہ دریافت کرے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام احمدؒ کا مسلک یہ ہے کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دی جائے گی۔                 
  (الاحکام لابنِ حزم:۲/۵۴)
شوافع اور مالکیہ
امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگرنصِ قرآنی اور حدیثِ صحیح نہ ہوتوپھر حدیثِ ضعیف کونظر انداز کرکے قیاس کرنا واجب ہوگا، ٹھیک اسی طرح مالکیہ میں سے قاضی ابوالفرج اور ابوبکر الابہریؒ کا بھی یہی کہنا ہے کہ حدیثِ ضعیف پر قیاس کوترجیح حاصل ہوگی۔
(بدایہ المجتھد:۱/۲۹)
فقہ حنفی اور حدیثِ ضعیف
احناف کا مذہب چونکہ حدیثِ ضعیف (بقول متقدمین جودرحقیقت حدیثِ حسن ہے) کوقیاس کے مقابلے میں ترجیح دینے کا ہے؛ اسی لیے فقہ حنفی میں بکثرت ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں قیاس کو نظر انداز کرکے حدیث ضعیف پر عمل کیا گیا ہے، مثلاً:
۱۔نمازی حالت صلوٰۃ میں قہقہہ لگادے توقیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے؛ کیونکہ قہقہہ میں خروجِ نجاست کا تحقق  نہیں ہوتا ہے؛ مگراس سلسلہ میں ایک ضعیف حدیث ہے جویہ بتلاتی ہے کہ ایسے شخص کا وضوٹوٹ جاتا ہے؛ لہٰذا قیاس کو ترک کرکے احناف نے یہاں ضعیف حدیث پر عمل کیا اور قہقہہ کوناقض وضو قرار دیا۔    
   (اعلام الموقعین:۱/۸۵)
۲۔دس درہم سے کم کے سرقہ میں بھی قطع ید کا حکم قیاس کے مطابق ہونا چاہیے؛ کیونکہ وہ بھی توشرعاً سرقہ ہے؛ لیکن ایک "ضعیف حدیث" ہے کہ دس درہم سے کم میں ہاتھ کاٹنے کا حکم نہ لگایا جائے؛ چنانچہ حنفیہ نے قیاس کے مقابلہ میں اسی ضعیف حدیث کوحجت مانا ہے۔           
     (اصول امام احمدبن حنبلؒ:۲۸۲)
ضعیف حدیث اور عقائد
جمہور فقہاء کا مذہب یہی ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے، حدیث ضعیف اور خبرِواحد اثبات عقائد کے لیے کافی نہیں ہے، امام احمدؒ نے اگرچہ خبرواحد سے عقائد کے باب میں استدلال کیا ہے لیکن وہ بھی حدیثِ ضعیف کے بارے میں اس بات کے قائل ہیں کہ حدیثِ ضعیف سے عقائد کے باب میں استدلال کرنا درست نہیں ہے؛ چنانچہ سیدشریف احمدجرجانیؒ فرماتے ہیں کہ "حدیثِ ضعیف" سے صفاتِ باری وعقائد میں استدلال کرنا جائز نہیں۔     
(الرسالہ فی فن اصول الحدیث علی الترمذی:۲)
ایک شبہ
یہاں اس شبہ کا ازالہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سابق میں احناف وحنابلہ کا یہ مسلک بیان کیا گیا کہ وہ حدیث ضعیف کومعتبر مانتے ہیں اور فقہ حنفی سے کچھ ایسے مسائل بھی ذکر کئے گئے جن میں محض حدیث ضعیف کی بناء پرقیاس کوچھوڑدیا گیا ہے، بظاہر یہ دعویٰ سابقہ تصریحات کے خلاف ہے؛ لیکن یہ شبہ اس لیے نہیں کیا جاسکتاکیونکہ حدیث ضعیف کی اصطلاح درحقیقت دو ہیں، ایک متاخرین کی اصطلاح ہے، جس کی وضاحت اسی مقالہ کے ابتداء میں کی جاچکی ہے اور دوسری اصطلاح متقدمین کی ہے (اس کی وضاحت بھی ابتداء میں آچکی ہے) کہ وہ حضرات حسن لغیرہ کو بھی ضعیف کے ہی درجہ میں شمار کیا کرتے تھے؛ چنانچہ علامہ ابنِ قیم رقمطراز ہیں:
"وليس المراد بالحديث الضعيف في اصطلاح السلف هوالضعف في اصطلاح المتأخرين؛ بل مايسميه المتأخرون حسنا قد يسميه المتقدمون ضعيفا"۔
(اعلام الموقعین:۱/۸۴)
ترجمہ:سلف کی اصطلاح میں حدیثِ ضعیف سے مراد وہ حدیث نہیں ہے جسے متاخرین حدیث ضعیف کہتے ہیں؛ کیونکہ متقدمین کی اصطلاح میں اس حدیث کو بھی ضعیف کہہ دیا جاتا ہے جسے متاخرین نے حسن کا درجہ دیا ہے۔
اس لیے فضائل کے باب کے علاوہ جہاں کہیں احناف وحنابلہ حدیث ضعیف کو قابلِ حجت شمار کرتے ہیں اس سے مراد متقدمین کی اصطلاح ہیں اور اس سے "حدیث حسن" ہی مراد ہے، متاخرین کی اصطلاح کے مطابق حدیث ضعیف مراد نہیں ہے۔
ضعیف حدیث اور فضائل
علامہ سخاویؒ نے اس تعلق سے کافی طویل بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک حافظ الحدیث امام مسلمؒ اور دیگرمحدثین اور ابنِ حزمؒ کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو؛ البتہ اگرمتقدمین کی اصطلاح کے مطابق ضعیف حدیث ہو کہ اس کے طرق متعدد ہوں جس کی وجہ سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا ہے تواس سے فضائل کے باب میں استدلال کرنا درست ہوگا ابنِ حزم کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث کے مقابلہ میں قیاس اولیٰ ہے؛ کیونکہ حدیثِ ضعیف آپؐ سے ثابت نہیں ہے، رائے میں اگرغلطی ہوگی توشرعاً وہ معاف ہے؛ بلکہ اس پر اجتہاد کا ثواب بھی ملے گا۔
(نووی علی مسلم:۱/۶۰)
دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاویؒ نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکیؒ اور ملا علی قاریؒ نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے۔
       (الفتاویٰ الحدیثیہ :۱۱۰)
ائمہ حدیث میں عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمدوغیرہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۴) شیخ تقی الدین تحریر فرماتے ہیں کہ یہ گنجائش اس لیے ہے کہ اگرایسی حدیث نفس الامر اور واقع میں صحیح ہے تواس پر عمل کرنا اس کا حق تھا اور اگرواقع میں صحیح نہ تھی توبھی فضائل کے باب میں اس پر عمل کرنے کی وجہ سے دین میں کوئی فساد لازم نہیں آئےگا، اس لیے کہ یہ صورت تحلیل وتحریم اور کسی کے حق سے متعلق نہیں ہے اور پھریہ جواز مطلق نہیں ہے؛ بلکہ ماقبل میں ذکرکردہ شرائط کے ساتھ ہے۔
(شرح الکوکب المنیر:۲/۵۷۱)
اس لیے فضائل کے باب میں حدیث ضعیف کا اعتبار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

اجماع امت...فقہ کا تیسرا مآخذ

احکام اسلامی کے استنباط واستخراج کے مصادر چار ہیں:
(۱)قرآن
(۲)سنت
(۳)اجماع
(۴)قیاس۔
احکام کے استنباط میں قرآن وسنت کے بعد اجماع ایک اہم اور عظیم بنیاد ہے، نظام معتزلی، خوارج شیعہ اور غیرمقلدین کے علاوہ پوری امت کا اس پرا تفاق ہے ،اجماع امت کے منتخب اہلِ علم کے اتفاقی فیصلہ کا نام ہے، اس لیے اس میں خطا کا احتمال نہیں رہ جاتا (التقریر والتحبیر:۳/۸۲) ارشادِ نبوی ہے:
"إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ  عَلَى ضَلَالَةٍ وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ"۔
(ترمذی، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، حدیث نمبر:۲۰۹۳، شاملہ، موقع الإسلام)
میری امت کسی گمراہی پر متفق نہیں ہوگی یاآپ نے فرمایا کہ اللہ میری امت کو کسی گمراہی پر متفق نہیں کرےگا (بلکہ اتفاق واجتماعیت کی وجہ سے اللہ کی نصرت وتائید آتی رہے گی)۔
حضور نے یہ بھی فرمایا کہ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے یعنی جماعت کے ساتھ اس کی مدد ونصرت ہوتی ہے، اجماع کی اہمیت اس بات سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ اجماع اسی امت محمدیہ کی خصوصیت ہے۔
اجماع کے لغوی معنی
لغت میں اجماع کے دومعنی ہیں:
(۱)عزم اور پختہ ارادہ کرنا، جب کوئی شحص کسی کام کا عزم اور پختہ ارادہ کرلیتا ہے تواس وقت کہا جاتا ہے:
"اِجْمَعْ فَلَان عَلَی کَذَا"۔
(ارشاد الفحول:۱۰۹) 
ترجمہ:فلاں نے اس کام کا عزم کرلیا۔
باری تعالیٰ کا قول:
"فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ"۔       
   (یونس:۷۱)               
  ترجمہ:تم سب مل کر اپنے کام کا عزم کرلو۔
اسی معنی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے:
"مَنْ لَمْ يُجْمِعْ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ"۔
(ترمذی، كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَا جَاءَ لَاصِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَعْزِمْ مِنْ اللَّيْلِ، حدیث نمبر:۶۶۲)
ترجمہ:جس شخص نے فجر سے پہلے روزے کا عزم اور پختہ ارادہ نہیں کیا اس کا روزہ درست نہیں ہوگا۔
۲۔اجماع کا دوسرا معنی "اتفاق کرنا" ہے ،اسی کا اعتبار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے:
"اِجْمَعَ الْقَوْم عَلَی کَذَا"۔   
(الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۲۸۰۔ ارشاد الفحول:۱۰۹)
قوم نے اس کام پر اتفاق کرلیا، مذکورہ دونوں معنی کے درمیان فرق یہ ہے کہ اجماع بمعنیٰ عزم ایک شخص کی طرف سے متصور ہوجاتا ہے؛ لیکن دوسرے معنی کے لیے کم ازکم دوشخصوں کا ہونا ضروری ہے، اس لغوی معنی کے اعتبار سے بنی نوع انسان کے ہرطبقہ اور ہرقوم میں کسی امر پر اتفاق ہوسکتا ہے؛ خواہ وہ دنیوی ہو یادینی؛ لیکن فقہ اسلامی میں ہرقوم کا اور ہرامر پر اتفاق مراد نہیں ہے؛ بلکہ لغوی معنی کی بہ نسبت اسلامی فقہ اور اس کے دائرے میں اجماع کا مفہوم اور اس کی مراد خاص ہے۔
اجماع کی اصطلاحی تعریف
علامہ آمدیؒ نے اجماع کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
"الاجماع عبارۃ عن اتفاق جملۃ أھل الحل والعقد من امۃ محمد فی عصر من الاعصار علی حکم واقعۃ من الوقائع"۔      
      (الأحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۲۸)
ترجمہ:اجماع نام ہے امت محمدیہ میں سے اہل حل وعقد کا کسی زمانہ میں کسی نئے واقعہ پر اتفاق کرنے کا۔
تعریف کا حاصل یہ ہے کہ اجماع انہی حضرات کا معتبر ہے جومجتہد اور صالح ہوں، شرافت وکرامت اور تقویٰ وتدین کی صفت سے متصف ہوں اور فسق وفجور سے دور ہوں اور اجماع کا محل اصلاً شریعت کے فروعی یعنی عملی احکام ہیں نیزاس سے ان احکام کا بھی ثبوت ہوتا ہے جو ایمان وکفر کا مدار تو نہیں ہوتے ہیں؛ لیکن وہ سنت بدعت میں امتیاز پیدا کرتے ہیں ،جیسے تمام صحابہ کرام کا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی افضلیت پر اتفاق کہ اس کے خلاف رائے بدعت ہے۔              
   (اصول البزدوی:۲۴۲۔ نورالانوار:۲۲۳۔ اصول الفقہ لاسعدی:۲۱۴)
وقوعِ اجماع
عہدِرسالت کے بعد دورِ صحابہؓ کے صدر اوّل میں اجماع کا انعقاد وحصول آسان تھا ،اس لیے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت میں اہل حل وعقد صحابۂ کرام کو مدینہ سے باہر جاکر دوسرے شہروں میں رہنے بسنے سے روک دیا تھا؛ تاکہ امورِ سیاست اور علمی مسائل میں ان سے مشاورت کا موقع ہروقت حاصل رہے؛ لیکن اس کے بعد حضرت عثمانؓ کی خلافت کے آخری دور میں صحابہ کرامؓ مدینہ سے باہر دور دراز مقامات میں پھیل گئے اور ان کی تعلیم وتربیت کے نتیجہ میں حجاز، عراق، شام اور مصروغیرہ ممالک میں بڑے بڑے علماء وفقہاء کی ایک عظیم تعداد پیدا ہوگئی توپھراب مجتہدین کا کسی حکم پر اجماع ممکن العمل نہ رہا؛ کیونکہ عام علمی مشاورت کا امکان منقطع ہوگیا اور ظاہر ہے کہ کسی ایک شہر کے مجتہدین کا کسی حکم پر متفق ہوجانے کو اصطلاح میں اجماع نہیں کہتے؛ بلکہ قابلِ حجت اجماع وہ ہے جو ایک زمانہ کے سارے مجتہدین کا کسی حکم پر متفق ہونا، چاہے وہ جہاں کہیں بھی رہتے بستے ہوں؛ یہی وجہ ہے کہ نظری وعلمی حیثیت سے تواجماع ایک حجت ضرور ہے؛ مگرواقعی عملی اور تاریخی حیثیت سے اجماع کا وقوع اور انعقاد صرف خلافتِ راشدہ کے عصر اوّل تک محدود رہا اور وہ بھی محض معدودے چند مسائل ہیں۔                  
           (چراغ راہ کا اسلامی قانون نمبر:۲۶۵)
حقیقت اجماع
اجماع اصل میں محض رائے ہے؛ جیسا کہ قیاس رائے ہے؛ البتہ اجماع وقیاس کے درمیان فرق یہ ہے کہ قیاس کے تحت جورائے ہوتی ہے وہ انفرادی یازیادہ سے زیادہ چند افراد کی ہوتی ہے اور "اجماع" ایک زمانے کے تمام مجتہدین کی متفقہ رائے کا نام ہے اسی اجتماعیت کی وجہ سے اس کوقیاس پر فوقیت حاصل ہے۔            
  (المدخل:۱۹۳۔ اصول الفقہ عبیداللہ الاسعدی:۲۱۲)
بدعتی اور فاسق مجتہد کا اجماع
اجماع میں تقویٰ اور تدین بھی ضروری ہے؛ کیونکہ ایسے شخص کی رائے اجماع میں قابلِ اعتبار نہ ہوگی جودین کا پابند نہ  ہو یادین کی قطعی اور اصولی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کرتا ہو اور فسق وفجور اور بدعت میں مبتلا ہو؛ کیونکہ ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں لائق مذمت ہے، امام مالکؒ، امام اوزاعیؒ، محمدبن حسنؒ وغیرہ ایسے شخص کو اہل ہویٰ وضلال کہتے ہیں اور اس کے اجماع کو معتبر نہیں مانتے۔
(الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم:۱/۲۳۷۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۸۳)
البتہ علامہ صیرفی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ایسے شخص کا اجماع بھی معتبر ہے؛ یہی قول امام غزالیؒ، علامہ آمدیؒ اوردیگر اصولی حضرات کا ہے؛ کیونکہ فاسق اور اہل بدعت بھی ارباب حل وعقد میں سے ہوتے ہیں اور لفظ "امت" کے مصداق میں شامل ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ تقویٰ وتدین جب ہوگا تولوگوں کو اس کی رائے پر اعتماد ہوگا، جب تقویٰ کی شرط صرف رائے پر اعتماد کی خاطر ہے توظاہر ہے کہ تقویٰ اگرنہ بھی ہوتب بھی استنباط کی صلاحیت وصحت پر فی نفسہ کوئی اثر مرتب نہ ہوگا۔
(ارشاد الفحول:۱۳۱۔ المستصفی من علم الاصول الغزالی:۱/۱۸۳۔ البحرالمحیط:۴/۴۶۷۔ الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۳۲۶)
عامی کی مخالفت یاموافقت کا حکم
جمہور کے نزدیک عوام کے قول کا اجماع میں اعتبار نہ ہوگا چاہے وہ قول موافق ہو یامخالف ؛کیونکہ اس کے لیے اجتہاد اور فکر ونظر کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے اور عامی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے؛ لہٰذا ان کا قول انعقاد اجماع میں مسموع نہ ہوگا۔
(ارشادالفحول:۱۳۳۔ المستصفی من علم الاصول الغزالی:۱/۱۸۳۔ الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۱۵۱)
اجماع میں اکثریت واقلیت کی بحث
اجماع کے انعقاد کے لیے پوری امت کے مجتہدین کا متفق الرائے ہونا ضروری ہے، محض اکثریت کی رائے کواجماع کے لیے جمہور کافی نہیں سمجھتے؛ لیکن ابوبکررازیؒ، ابوالحسن خیاطؒ معتزلی اور ابنِ جریر طبریؒ کا خیال ہے کہ محض ایک دو آدمی مخالفت کریں تواجماع کے انعقاد پر اس سے کوئی اثرمرتب نہیں ہوگا، بعض حضرات کی رائے ہے کہ موافقین کے مقابلہ میں اگرچہ مخالفین کی تعداد کم ہو ؛لیکن حدتواتر تک پہنچی ہوئی ہو تواجماع منعقد نہیں ہوگا؛ اگرتواتر تک نہیں پہنچی ہو تواجماع منعقد ہوجائے گا۔
(فواع الرحموت:۲/۳۲۲۔ المستصفی الغزالی:۱/۱۷۴)
اقلیت واکثریت کی اس بحث میں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مخالفت اگراخلاص واجتہاد کی بناء پر ہوتو وہ اجماع کے انعقاد وعدمِ انعقاد میں ملحوظ ہوگی؛ ورنہ اگراخلاص واجتہاد کے بجائے حب جاہ یاکوئی دوسرا جذبہ مخالفت کے پیچھے کارفرما ہوتو ایسی مخالفت کا بالکل اعتبار نہ ہوگا؛ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اوّل کے انتخاب کے موقعہ پر حضرت سعد بن عبادہؓ نے مخالفت کی تھی؛ لیکن وہ معتبر نہیں مانی گئی اورحضرت ابوبکرصدیقؓ کی خلافت بالاجماع منعقد ہوئی۔     
  (اصول الفقہ الاسلامی:۱/۵۲۱۔ فقہی خدمات وتقاضے:۱۸۵)
کیا اجماع کسی خطہ کے ساتھ مخصوص ہے
چونکہ "لَاتَجْتَمِعُ أُمَّتِیْ" میں جو لفظ امت ہے اس کا عموم پوری امت کو شامل ہے اور اجماع کا دائرہ پوری امت کو محیط ہے، اس لیے نہ تومحض اہلِ مدینہ کا اجماع کافی ہے اور وہ نہ صرف اہلِ حرمین کا اور نہ تنہا اہلِ بصرہ وکوفہ کا اور نہ صرف اہلِ بیت کا۔
(المستصفیٰ للغزالی:۱/۱۵۷)
ڈاکٹروہبہ زحیلی نے یہ لکھا ہے کہ کسی مخصوص خطہ کااجماع معتبر نہ ہوگا؛ کیونکہ یہ پوری امت کا اجماع نہیں ہے اجماع وہی معتبر ہے جوپوری امت کا ہو،علامہ قرافیؒ اور ابن حاجبؒ نے بھی یہی لکھا ہے کہ اجماع کسی بلدہ وخطہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔
(فواتح الرحوت:۲/۲۲۲۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۸۷)
اجماع کے اعتبار کے لیے کیا مجتہدین کی موت ضروری ہے
چونکہ زندگی میں انسان کی رائے بدلتی رہتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اجماع کے بعد کسی مجتہد کی رائے میں تبدیلی ہوجائے، جس کی وجہ سے اتفاق باقی نہ رہ سکے، اس لیے اصولی حضرات نے یہ بحث بھی کی ہے کہ کیا اس احتمال سے کہ کسی مجتہد کی رائے بدل سکتی ہے، اجماع غیرمعتبر ہوگا؟ اس سلسلہ میں اصولی حضرات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ 
(الاحکام آمدی:۱/۳۶۶۔ اصول الفقہ الاسلامی:۱/۵۲۷)
امام اعظم ابوحنیفہؒ، اشاعرہ، معتزلہ اور اکثرشوافع کا مسلک یہ ہے کہ اجماع کرنے والے مجتہدین کی وفات اجماع کے اعتبار کے لیے ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ جس لمحہ میں اتفاق وجود میں آتا ہے، اس لمحہ میں اجماع منعقد ہوجاتا ہے، اتفاق ہوجانے کے بعد مسئلہ نزاع سے خارج ہوجاتا ہے اور سب کے لیے لازم ہوجاتا ہے؛ اس لیے بعد میں رائے کی تبدیلی کا کوئی اثر اجماع کے انعقاد پر نہیں پڑےگا؛ یہاں تک کہ اجماع کے متصلاً بعد اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ کی قدرت ورحمت سے مجتہد بن جائے تواس کی بھی رائے کا اجماع کے لیے اعتبار نہیں ہوگا اور یہی موقف صحیح معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ جن نصوص سے اجماع کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے ان میں اطلاق ہے، مجتہدین کی وفات کی قید نہیں ہے، اس لیے ملامحب اللہ بہاریؒ نے بجا لکھا ہے:
"الانقراض لامدخل لہ فی الاصابۃ ضرورۃ"۔
ترجمہ:وفات کا اجماع کی حجت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
 امام غزالی رحمہ اللہ کی عبارت اس موقع پر کافی وضاحت سے روشنی ڈالتی ہے، فرماتے ہیں:
"الحجۃ فی اتفاقھم لافی موتھم وقد حصل قبل الموت"۔
ترجمہ:اجماع تو ان کے اتفاق سے حجت بن جاتا ہے، موت سے اس کا کیا سروکار ہے۔
(نفائس الاصول فی شرح المحصول:۶/۲۷۸۶۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۸۲)
حجیتِ اجماع
جمہور مسلمین اجماع کی حجیت کے قائل ہیں، اجماع کی حجیت کتاب وسنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَاتَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا"۔ 
  (النساء:۱۱۵)
ترجمہ:جوشخص رسول اللہ  کی مخالفت کرے گا اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہوچکی ہو اور اہلِ ایمان کے راستے کے علاوہ دوسرے راستہ کی پیروی کرے گا توہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھرگیا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے۔
آیت بالا میں باری تعالیٰ نے رسولؐ کی مخالفت اور سبیل مؤمنین کے علاوہ دوسروں کے سبیل کی اتباع پر وعید بیان فرمائی ہے اورجس چیز پر وعید بیان کی جائے وہ حرام ہوتی ہے؛ لہٰذا رسول کی مخالفت اور غیرسبیل مؤمنین کی اتباع دونوں حرام ہوں گی اور جب یہ دونوں حرام ہیں توان کی ضد یعنی رسول کی موافقت اور سبیل مؤمنین کی اتباع واجب ہوگی اور مؤمنین کی سبیل اور اختیار کردہ راستہ کا نام ہی اجماع ہے؛ لہٰذا اجماع کی اتباع کا واجب ہونا ثابت ہوگیا اور جب اجماع کا اتباع واجب ہے تواس کا حجت ہونا بھی ثابت ہوگیا، قاضی ابویعلیؒ (متوفی:۴۵۸ھ) اور علامہ آمدی نے اس آیت سے اجماع کی حجیت کے ثبوت پر بڑی نفیس بحث کی ہے جولائقِ مطالعہ ہے۔
(الاحکام آمدی:۱/۲۸۷۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:۱۶۱۔ ارشادالفحول:۱۱۳)
اور آپ  کا ارشاد ہے:
"عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ"۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۰۹۳)
ترجمہ:حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا کہ:اللہ تعالیٰ میری امت کو (یاراوی نے کہا:کہ محمد  کی اُمت کو) ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔
نیز آپ کا فرمان ہے:
"فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ"۔
(مسندِاحمد، حدیث نمبر۳۶۰۰)
ترجمہ:جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بری ہے۔
ایک اور موقع سے آپ  نے فرمایا:
"مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ"
   (مشکوٰۃ:۳۱)
ترجمہ:جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔
ایک جگہ ارشاد ہے:
"مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةِ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً"۔
(مصنف عبدالرزاق، كتاب الصلاة، باب الأمراء يؤخرون الصلاة، حدیث نمبر:۳۷۷۹)
ترجمہ:جو جماعت سے الگ ہوجائے تواس کی موت جاہلیت کے طرز پر ہوگی۔
یہ تمام احادیث قدرے مشترک اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ امت اجتماعی طور پر خطا سے محفوظ ہے، یعنی پوری امت خطا اور ضلالت پر اتفاق کرے ایسا نہیں ہوسکتا ہے اور جب ایسا ہوتواجماع امت کے ماننے اور اس کے حجتِ شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے ،اختصار کی غرض سے اجماع کی حجیت پر صرف ایک آیت اور چند احادیث پیش کی گئی ہیں؛ ورنہ اور بھی بہت سی روایات ایسی ہیں جن سے اجماع کی حجیت پر روشنی پڑتی ہے۔
اجماع کی بنیاد
اجماع کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد کسی نہ کسی اصل شرعی پر ہو؛ کیونکہ اجماع اور قیاس خود کوئی مستقل دلیل نہیں ہیں، اجماع کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اصل کتاب وسنت یاپھرقیاس میں موجود ہو ،اجماع کی اصل کی ضرورت اس لیے ہے کہ اہل اجماع بنفسِ نفیس احکام کو بیان نہیں کرسکتے؛ کیونکہ انشاء شریعت کا حق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد کو حاصل ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جن مسائل پر صحابہ کرامؓ نے اجماع کیا ہے ان سب میں وہ کسی نہ کسی اصل پر بحث کرتے ہو ئےانہی پر اپنی آراء کی بنیاد رکھتے اور اس طرح اجماع کا انعقاد ہوجاتاہے، میراث جدہ کے بارے میں صحابہ کرامؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی خبر پر اعتماد کیا اور جمع بین المحارم کی حرمت کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت پر اعتماد کیا، اسی طرح حقیقی بھائیوں کی عدم موجودگی میں علاتی بھائیوں کا وراثت میں اعتبار کیا گیا ،اس مسئلہ میں صحابہ کرامؓ نے حضور  کی اس تعبیر پر اعتماد کیا جس میں یہ بیان کیا گیا ہے:
"وَدخولھم فِی عموم الاخوۃ"۔
 اور جمہور علماءکرام کا کتاب وسنت کو اجماع کی اصل قرار دینے پر اتفاق ہے، جیسا کہ سطورِ بالا میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے، ان میں اجماع کی اساس سنت ہے۔     
(اصول الفقہ اسعدی:۲۱۵۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:۱۶۵۔ البحرالمحیط:۴/۴۵۰۔ الکوکب المنیر:۲/۲۲۸)
اجماع کی بنیاد قیاس پر
فقہاء کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ قیاس واجتہاد بھی اجماع کی اصل بن سکتے ہیں یانہیں؟ اس سلسلے میں تین اقوال ملتے ہیں ؛لیکن دلیل کے اعتبار سے وزنی وہ بات معلوم ہوتی ہے جوعلامہ آمدیؒ نے بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اجتہاد وقیاس کو بھی اجماع کی اصل قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی کئی مثالیں صحابہ کرامؓ کی زندگی سے ملتی ہیں، مثلاً صحابہ کرامؓ کا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت پر اتفاق کرنا یہ محض اجتہاد اور رائے کی وجہ  سےتھا؛ حتی کہ بعض صحابہ کرام نے یہ الفاظ تک کہے:
"رضیہ رسول اللہ لدیننا افلا نرضاہ لدنیانا"۔
ترجمہ:اور بعض صحابہ کرامؓ نے یہ جملہ کہا
"ان تولوھا ابابکر تجدوہ قویا فی امراللہ ضعیفاً فی بدنہ"۔  
     (الاحکام آمدی:۱/۲۸۰)
اسی طرح مانعینِ زکاۃ سے قتال کرنے پر ان حضرات کا اجماع ہوا وہ بھی قیاس ورائے کی بناء پر تھا، خنزیر کی چربی کی حرمت پر اجماع اس کے گوشت پر قیاس کے ذریعہ کیا گیا تھا، حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں شراب  پینے والے کی حد اسی (۸۰) کوڑے بالاجماع مقرر کی گئی یہ بھی اجتہاد کی روشنی میں تھا؛ چنانچہ حضرت علیؓ نے کہا تھا کہ اس پر حدقذف جاری کرنی چاہیے؛ کیونکہ شرب خمر کے بعد عام طور پر تہمت زنی کی باتیں سرزد ہوتی ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ اس پر حد جاری کرنی چاہیے اور اقلِ حد اسی کوڑے ہیں، ان کے علاوہ جنایت کا تاوان قریبی رشتہ داروں کا نفقہ اور ائمہ وقضاۃ کی عدالت کے متعلق جواجماع دورِ صحابہ کرامؓ میں کیا گیا یہ سب بطریق اجتہاد وقیاس تھا؛ لہٰذا اجتہاد اور قیاس کو بنیاد بناکر جو اجماع کیا جاتا ہے وہ بھی شرعاً قابلِ حجت ہے اور اس کی اتباع ضروری ہے۔
(الاحکام آمدی:۱/۲۸۰۔ اصول الفقہ اسعدی:۱۶۶۔ نفائس الاصول:۶/۲۸۷۴۔ حیات ابن تیمیہؒ:۶۸۵)
اجماع کی قسمیں
اجماع کی دوصورتیں ہیں "اجماع صریحی اور اجماع سکوتی" اجماعِ صریحی یہ ہے کہ سب کے سب مجتہدین اپنی رائے کا صراحۃ اظہار کرکے اتفاق کریں اور اجماع سکوتی یہ ہے کہ ایک مجتہد اپنی رائے کا اظہار کرے اور بقیہ حضرات انکار نہ کریں ؛بلکہ خاموش رہیں، اجماع صریحی بالاتفاق معتبر ہے؛ لیکن سکوتی معتبر ہے یانہیں اس سلسلہ میں اصولی حضرات کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ لیکن اس بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ اجماعِ سکوتی نہ توہرصورت میں معتبر ہے نہ ہرحالت میں قابلِ رد ؛بلکہ رضا کی علامت کی شکل میں:
"السکوت فی معرض البیان بیان"۔
 کے اصول کے مطابق معتبر ہونا چاہیے اور اگررضا کی علامت نہ ہو یاانکار کی صراحت ہوتوقابل رد ہونا چاہیے۔
(ارشاد الفحول:۱۲۷۔:۱۸۹۔ حیات امام احمد بن حنبلؒ:۳۷۳۔ اصول الفقہ اسعدی:۲۱۵)
اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم
اجماعِ صحابہ بلااختلاف حجت ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ"۔ 
(آل عمران:۱۱۰)
ترجمہ:تم لوگ اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے۔
ایک جگہ اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ"۔
(البقرۃ:۱۴۳)
ترجمہ:اور ہم نے تم کوایسی ہی ایک جماعت بنادی ہے جو (ہرپہلو سے) اعتدال پر ہے؛ تاکہ تم (مخالف) لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو۔
اِن آیات کے اولین مخاطب صحابہ کرامؓ ہیں اور "خیرامت" اور "امت وسط" کا اجماع شرعاً معتبر ہونا ہی چاہیے؛ نیزبہت سی احادیث میں رسول اللہ  نے صحابہ کرامؓ کی تعریف کی ہے مثلاً ایک حدیث میں فرمایا:
"وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي"۔
(مسلم، بَاب بَيَانِ أَنَّ بَقَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَانٌ لِأَصْحَابِهِ وَبَقَاءَ أَصْحَابِهِ أَمَانٌ لِلْأُمَّةِ ،حدیث نمبر:۴۵۹۶)
ترجمہ:اورمیرے صحابہ میری امت کے نگہداشت ہیں۔
ایک حدیث میں ہے:
"أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمْ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ"۔
(کشف الخفاء:۱/۱۴۷)
میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی اقتداء کروگے راہ یاب ہوجاؤ گے۔
ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جوصحابہ کرامؓ کے صدق اور حق پر ہونے کو ظاہر کرتی ہیں؛ پس آنحضور  کا حضراتِ صحابہ کرام کے عادل اور صادق ہونے کی شہادت دینا اس بات کی بین دلیل ہے کہ ان حضرات کا اجماع معتبر ہوگا۔
اہلِ مدینہ کا اجماع
جمہور کے نزدیک صرف اہلِ مدینہ کا اجماع حجت نہیں ہے؛ البتہ امام مالکؒ سے منقول ہے کہ صرف اہلِ مدینہ کا اجماع معتبر ہے امام مالک رحمہ اللہ کی دلیل یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے بارے میں مدنی آقا  نے فرمایا:
"الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا، كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ"۔
(ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ، بَاب مَاجَاءَ فِي فَضْلِ الْمَدِينَةِ،حدیث نمبر:۳۸۵۵۔ كِتَاب الْحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ، بَاب مَاجَاءَ فِي ثَوَابِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ،حدیث نمبر:۷۳۸)
ترجمہ:مدینہ طیبہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے، مدینہ اپنے خبث کو اس طرح دور کردیتا ہے، جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ اور میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
لہٰذا خطاء بھی ایک قسم کا خبث ہے؛ پس جب مدینہ اور اہلِ مدینہ سے خبث منتفی ہے توان سے خطاء بھی منتفی ہوگی اور جب اہلِ مدینہ سے خطاء منتفی ہے توان کا قول صواب اور ان کی متابعت واجب ہوگی؛ لہٰذا اہلِ مدینہ کسی دینی امر پراتفاق کریں گے تووہ سب کے لیے حجت ہوگا اور ان کا اجماع اور اتفاق معتبر ہوگا؛ نیز مدینہ طیبہ دارالھجرت ہے صحابہ کرامؓ کا سب سے بڑا مرکزِ علم ہے، مدفن نبی  ہے ،رسول اکرم کے احوال سے سب سے زیادہ اہلِ مدینہ واقف ہیں؛ پس جب مدینہ طیبہ اس قدر خصوصیات پر مشتمل ہے توحق اہلِ مدینہ کے اجماع سے باہر نہ ہوگا اور ان کے اجماع سے متجاوز نہ ہوگا۔      
    (المستصفی للغزالی:۱/۱۸۷۔ حیات امام مالک:۳۵۷)
دلائل کا تنقیدی جائزہ
مگرواقعہ یہ ہے مذکورہ باتیں مدینہ اور اہلِ مدینہ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں؛لیکن نہ تووہ مدینہ کے علاوہ دوسرے مقامات کی فضیلت کی نفی نہیں کرتی ہیں اور نہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اجماع صرف اہلِ مدینہ کے ساتھ خاص ہے؛ کیونکہ مکۃ المکرمۃ بھی بہت سے فضائل پر مشتمل ہے، مثلاً بیت الحرام، رکنِ یمانی، مقامِ ابراہیم، زمزم، حجرِاسود، صفاومروہ اور دوسرے مناسکِ حج نیزرسول اللہکا مولد ہے؛ مگریہ سب باتیں اس پر دلالت نہیں کرتی ہیں کہ اجماع صرف اہلِ مکہ کے ساتھ خاص ہے ،وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی جگہ کے لوگوں کے اجماع کے معتبر ہونے میں اس جگہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ علم واجتہاد کا اعتبار ہوتا ہے اور علم واجتہاد میں مکہ، مدینہ اور شرق وغرب سب برابر ہیں؛ پس صحیح قول کے مطابق اجماع معتبر ہونے میں صرف علم واجتہاد کا اعتبار ہوگا ،مدنی یاغیرمدنی کا اعتبار نہ ہوگا۔
(البحرالمحیط:۴/۴۸۳۔ الاحکام لابن حزم:۴/۳۰۳۔ ارشادالفحول:۱۲۴۔ الاحکام آمدی:۱/۳۴۹۔ اصول احمدبن حنبل:۳۵۰)
اہلِ بیت کا اجماع
جمہور کے نزدیک اہلِ بیت کا انفرادی اجماع بھی قابلِ حجت نہیں ہے؛ لیکن روافض میں سے فرقہ "زیدیہ"اور "امامیہ"اس بات کا قائل ہے کہ حضور  کے صرف اقرباء کا اجماع معتبر ہے اور وہ حضرات کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور عقل تینوں سے استدلال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"۔
(الاحزاب:۳۳)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کویہ منظور ہے کہ اے گھروالو! تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو (ہرطرح ظاہراً وباطناً) پاک صاف رکھے۔
آیت بالا سے وہ اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ کلمہ حصر (اِنَّمَا) کے ذریعہ اہلِ بیت سے رجس کی نفی فرمائی گئی ہے اور رجس سے مراد خطاء ہے اب مطلب یہ ہوگا کہ خطاء صرف اہلِ بیت سے منتفی ہے اور جس سے خطاء منتفی  ہوتی ہے وہ معصوم عن الخطاء ہوتا ہے؛ لہٰذا اہلِ بیت معصوم عن الخطاء ہوں گے اور معصوم عن الخطاء کا قول صواب اور درست ہوتا ہے اور جوقول صواب ہو وہ قابلِ حجت ہوتا ہے؛ لہٰذا ان کا قول حجت ہوگا؛ نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا دہے۔
"إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَاإِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي"۔
(ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۳۷۱۸)
ترجمہ:میں تم میں دوعظیم چیزیں چھوڑوں گا جب تک تم ان دونوں کو تھامے رکھوگے گمراہ نہ ہوگے ایک "کتاب اللہ" دوم میرے "اہلِ بیت"۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ضلالت سے معصوم ہونا کتاب اللہ اور عترتِ رسول اللہ میں منحصر ہے؛ لہٰذا ان کے علاوہ کوئی اور چیز میں ہدایت نہ ہوگی اور جب ایسا ہے تو ثابت ہوگیا کہ اہلِ بیت کا اتفاق واجماع حجت ہے ۔
اور ان کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اہلِ بیت شرف ونسب کے لحاظ سے دوسروں پرفوقیت رکھتے ہیں اور اسباب تنزیل اور رسول اللہ کے اقول وافعال سے یہ حضرات زیادہ واقف ہیں؛ پس اس کرامت وشرافت اور خصوصیت کی وجہ سے اہلِ بیت اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کا اجماع معتبر ہو۔
دلائل کا تنقیدی جائزہ
لیکن ان دلائل پر اگرغور کیا جائے توواقعہ یہ ہے کہ ان کا مدعی ثابت ہونا محل تامل ہے؛ جہاں تک آیت سے استدلال کی بات ہے تواس کی بنیاد اس پر ہے کہ آیت میں رجس سے مراد خطاء ہے؛ حالانکہ آیت میں رجس سے مراد خطا نہیں ہے؛ بلکہ رجس سے تہمت مراد ہے اور اس سے باری تعالیٰ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ازواجِ مطہرات سے ہم تہمت دور کرنا چاہتے ہیں اور جہاں تک حدیث کی بات ہے تووہ خبرِواحد ہے اور خود روافض کے نزدیک اخبار احاد اس لائق نہیں ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے؛ پس جب اخبار احاد ان کے یہاں عمل کے لائق نہیں ہیں توان سے ان کا استدلال کرنا کیسے صحیح ہوگا؟ اور ان کی دلیل عقلی کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ اجماع میں شرف نسب کا کوئی دخل نہیں ہے، اس میں توعلم واجتہاد کی صلاحیت کا اعتبار ہوتا ہے اور یہ باتیں اہلِ سنت کے علاوہ میں بھی ہوسکتی ہیں اور رہا رسول اکرم  کے ساتھ مخالطت کا معاملہ تو یہ بات اہلِ بیت کے علاوہ دوسرے لوگوں میں بھی پائی جاتی تھی جوسفراور حضر میں آپ  کے ساتھ رہتے تھے؛ لہٰذا اس بنیاد پر بھی صرف اہلِ بیت کا قول حجت نہ ہوگا؛ بلکہ اہلِ بیت کی طرح دوسرے لوگوں کا قول اور اجماع بھی حجت ہوگا اگرصرف اہلِ بیت کا قول حجت ہوتا جیسا کہ روافض کہتے ہیں توجنگ "صفین" کے موقع پر حضرت علیؓ اپنے مخالفین پرنکیرفرماتے اور یہ کہتے کہ صرف میرا قول حجت ہے اور میں معصوم ہوں؛ حالانکہ حضرت علیؓ نے یہ نہیں فرمایا اور نہ مخالفین اپنی مخالفت سے باز آئے، الحاصل یہ قول بھی درست نہیں ہے۔
(المسودۃ فی الفقہ:۳۷۰۔ الاحکام آمدی:۱/۳۵۷۔ ارشاد الفحول:۱۲۴۔ الاحکام للآمدی:۱/۳۴۹۔ اصول احمد بن حنبلؒ:۳۵۰)
کن چیزوں میں اجماع کا اعتبار ہے؟
اجماع کا تعلق خالص دینی اور شرعی امور سے ہے الفاظ کے لغوی معنی کے سلسلے میں اجماع کا اعتبار نہیں، عقلی اور دنیوی امور وتدابیر میں بھی اجماع کا اعتبار نہیں؛ کیونکہ ایک مکلف کے افعال سے ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں۔
(اصول الفقہ للخضری:۲۸۱۔ فواتح الرحموت:۲/۲۴۶)
اجماع کا حکم
اجماع کا حکم یہ ہے کہ اگرکوئی اجماع قطعی کا انکار کرے تووہ کافر ہوجائیگا، بعض اصولیین نے یہ تفریق کی ہے کہ اگرضروریاتِ دین پر اجماع ہوا ہوا اور وہ عوام وخواص کے درمیان متعارف ہوتو ان کا منکر کافر ہوگا؛ لیکن جواجماع اس قبیل سے نہ ہوتو اس کے منکر کوکافر قرار نہیں دیا جائیگا، جیسا کہ بعض مسائل وراثت پر اجماع ہوا ہے اور فخرالاسلام بزدویؒ کا کہنا ہے کہ صحابہؓ کا جس مسئلہ پر اجماع ہوا ہو اس کا کوئی انکار کرے جیسے مانعینِ زکاۃ سے قتال وغیرہ تواس کو کافر شمار کریں گے اور صحابہ کرامؓ کے بعد کے لوگوں کا اجماع کا کوئی منکر ہوتو وہ گمراہ اور ضال ہوگا۔         
  (الموسوعۃ الفقہیۃ:۲/۴۹۔ اصول البزدوی:۲۴۵۔ البحرالمحیط:۴/۵۲۴)
علامہ ابن تیمیہؒ اور اجماع
علامہ ابنِ تیمیہؒ کے نزدیک حجت ہونے کے اعتبار سے کتاب وسنت کے بعد اجماع کا درجہ ہے؛ چنانچہ فرماتے ہیں:فقہاء، صوفیہ اور عامۃ المسلمین کے نزدیک بالاتفاق اجماع حجت ہے؛ البتہ اہلِ بدعت مثلاً معتزلہ اور شیعہ وغیرہ اس کے مخالف ہیں۔
(الرسائل والمسائل:۵/۲۱۔ حیات ابنِ تیمیہؒ:۶۸۷)
اسی لیے علامہ ابنِ تیمیہؒ نے کئی مسائل میں اجماع کا حوالہ دیا ہے، مثلاً وہ ایک جگہ لکھتے ہیں حضرت امیرمعاویہ بن ابی سفیانؓ کا ایمان نقل متواتر سے ثابت ہے اور اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے۔              
    (فتاویٰ ابن تیمیہ:۴/۴۳۳)
ایک جگہ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کی پاک بازی کے متعلق فرماتے ہیں یہ توکتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ اور سلف کے اجماع سے ثابت ہے۔                       
   (فتاویٰ ابن تیمیہ:۴/۴۳۳)
ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں :کئی اہل علم نے اس بات پر علماء کا اجماع ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، حضرت علیؓ سے اعلم تھے۔                        
  (فتاویٰ:۴/۳۸۹)
مذکورہ عبارتوں کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علامہ ابنِ تیمیہؒ دوسرے تمام اہلِ سنت والجماعت کی طرح اپنی تالیفات میں "اجماع" سے استدلال کرتے ہیں اور حق بات یہ ہے کہ جس امر پر صحابہ کرامؓ خصوصاً خلفاءِ راشدین اجماع کرلیں ان کا انکار کرنا زندقہ اور نفاق ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے۔
غیرمقلدین اور اجماع
غیرمقلدین کی ایک گمراہی یہ ہے کہ وہ اجماع کے منکر ہیں، ان کے نزدیک اسلامی عقیدہ کے اصول صرف کتاب وسنت ہیں؛ حتی کہ وہ اجماع صحابہ کے بھی منکر ہیں ان کا یہ عقیدہ بھی شیعوں کے ساتھ توافق اور مسلکی موافقت کا مظہر ہے ،شیعہ،معتزلہ اورغیرمقلدین کے علاوہ کوئی فرقہ ہمارے علم میں ایسا نہیں کہ جس نے اجماع کا انکار کیا ہو وہ اجماع کہ جس کے اصول دین ہونے پر حضراتِ صحابہؓ خلفاء راشدین اور پوری امت کا اتفاق ہے، علامہ ابنِ تیمیہؒ روافض پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"اجماع روافض کے نزدیک حجت نہیں ہے" (منہاج السنۃ:۳/۲۶۶) بہرِحال انکار اجماع روافض کا مذہب ہے اہلِ سنت کا مذہب نہیں؛ غیرمقلدین بھی اس مسئلہ میں شیعوں کے ساتھ ہیں، ان کے عقیدوں کی تفصیل نواب نورالحسن صاحب نے "عرف الجاوی "میں کی ہے؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:"دین اسلام کی اصل صرف دو ہیں:کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور اجماع کوئی چیز نہیں ہے اور فرماتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اجماع کی اس ہیئت کو دلوں سے نکال دیں جو دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے جواجماع کا دعویٰ کرتا ہے تواس کا یہ دعویٰ بہت بڑا ہے؛ کیونکہ وہ اس کوثابت نہیں کرسکتا۔
   (عرف الجاری:۳)
ایک اور جگہ رقمطراز ہیں:
"حق بات یہ ہے کہ اجماع ممنوع ہے"۔              
     (عرف الجاری:۳)
 یہ توتھاغیرمقلدین کا عقیدہ ؛لیکن اس بارے میں سلفیوں کا عقیدہ  غیرمقلدین کے بالکل برخلاف ہے، سلفی حضرات اجماع کوایک دلیلِ شرعی سمجھتے ہیں۔
   (الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی،الاصل الثالث،فی الاجماع،۱/۷۳)
 علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابیں پڑھنے والوں پریہ بات مخفی نہیں ہے۔
اجماع کی چند مثالیں
(۱)رسول اللہ نے صرف دورات تراویح باجماعت پڑھیں، اس کے بعد یہ فرماکر تراویح پڑھنی چھوڑ دی کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تمہارے اوپر فرض نہ کردی جائے (بخاری شریف:۱/۱۵۲) پھر صحابہ کرامؓ کے مابین عملاً وقولاً اختلاف رہا؛ پھرحضرت عمرؓ کے زمانہ میں پورے رمضان مواظبت کے ساتھ بیس رکعات باجماعت تراویح پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا۔  
   (نصب الرایۃ:۲/۱۵۳)
(۲)ایک مجلس کی تین طلاق سے ایک طلاق واقع ہو یاتین ہی واقع ہوں، یہ مسئلہ بھی صحابہ کرامؓ میں مختلف فیہ رہا؛ پھرحضرت عمرؓ کے دور میں اس پر صحابہؓ کا اجماع ہوگیا اور اس کے بعد سے جمہور اس پرمتفق چلے آرہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہیں۔          
  (مسلم شریف:۱/۴۷۸)
(۳)رسول اللہ  سے نمازِ جنازہ کی تکبیرات پانچ بھی منقول ہیں اور سات، نو اور چار بھی؛ اسی لیے صحابہ کرامؓ کے مابین اس میں اختلاف رہا ہے، اس کے بعد حضرت عمرؓ نے صحابہ کو جمع کرکے فرمایا کہ تم صحابہ کی جماعت ہوکر اختلاف کررہے ہوتو تمہارے بعد آنے والوں میں کتنا شدید اختلاف ہوگا؛ پس غور وخوص کرکے چار تکبیرات پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا۔
(بدائع للکاسانی:۲/۳۱۲)
(۴)اگرکوئی شخص متعدد بار چوری کرے اور ایک مرتبہ میں اس کا دایاں ہاتھ اور دوسری مرتبہ میں اس کا بایاں پیرکٹ چکا ہو اور پھرتیسری اور چوتھی بار چوری کرے تواس کے ہاتھ وپیر کاٹ کر سزادیجائے یاقطع کے علاوہ دیگر کوئی سزا دی جائے اس سلسلہ میں اختلاف رہا ہے، اس کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے ایک صورت متعین فرمادی کہ تیسری چوتھی مرتبہ میں قطع نہ ہوگا اور صحابہ کرامؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا؛ پس یہی توارث ہوگیا، اس سے بھی معلوم ہوا کہ اس مسئلہ میں بھی صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے۔
(بدائع للکاسانی:۶/۴۰۔ دارِقطنی:۳/۸۰۔ السنن الکبریٰ:۸/۲۴۵)
(۵)جماع بدون الانزال کے موجب غسل ہونے میں ابتداً صحابہ کرامؓ میں اختلاف تھا؛ چنانچہ انصار وجوب غسل کے قائل نہیں تھے اور مہاجرین وجوبِ غسل کے قائل تھے؛ لیکن جب حضرت عمرؓ نے انصار ومہاجرین دونوں کو جمع کرکے پوری صورت حال ان کے سامنے رکھی اور ان کو وجوبِ غسل پر آمادہ کیا توحضرت عمرؓ کے اس فیصلہ پر سب متفق ہوگئے اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی۔
(طحاوی شریف:۱/۴۷، اشرفی)
(۶)امام طحاویؒ اور امام بیہقیؒ نے علقمہ بن ابی وقاصؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اپنی ایک زمین جوبصرہ میں تھی حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے ہاتھ فروخت کی، کسی نے حضرت طلحہؓ سے کہا کہ آپ کو اس معاملہ میں خسارہ ہوگیا ہے ،یہ سن کر حضرت طلحہؓ نے فرمایا:مجھے اختیار ہے؛ کیونکہ میں نے بغیر دیکھے زمین خریدی ہے، حضرت عثمانؓ سے کہا گیا کہ آپ کو خسارہ ہوگیا؛ انھوں نے فرمایا کہ مجھے اختیار ہے؛ کیونکہ میں اپنی زمین بغیر دیکھے فروخت کی ہے، دونوں حضرات نے جبیربن مطعمؓ کو حکم مقرر کیا، حضرت جبیر بن مطعمؓ نے فیصلہ کیا کہ طلحہ کو خیار رؤیت حاصل ہے، عثمان کو حاصل نہیں ہے، یہ واقعہ صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں پیش آیا؛ مگر کسی نے نکیر نہیں کی ،گویا اس پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا کہ خیار رویت مشتری کوحاصل ہوگا بائع کو حاصل نہ ہوگا۔        
  (ہدایۃ:۳/۳۶)
کیا اجماع کی اطلاع ممکن ہے؟
ابومسلم اصفہانیؒ کا موقف یہ ہے کہ دورِ صحابہ کے بعد کے اجماع کی اطلاع متعذرہے؛ کیونکہ مجتہدین کسی ایک شہر میں نہیں رہے اور نہ ہیں؛ بلکہ شرق سے غرب تک پھیلے ہوئے ہیں، ان سب کی آراء کوحاصل کرنا عقلاً ممکن ہونے کے باوجود واقعاتی طور پر مشکل ہے، امام احمد، علامہ ابن تیمیہ اور آپ کے شاگرد رشید حافظ ابن القیم اور ظاہریہ کا بھی یہی خیال ہے امام احمدؒ نے تویہاں تک فرمایا ہے کہ:
"مَنْ ادَّعَى الْإِجْمَاعَ فَهُوَ كَاذِبٌ، لَعَلَّ النَّاسَ اخْتَلَفُوا، مَايُدْرِيهِ ، وَلَمْ يَنْتَهِ إلَيْهِ؟ فَلْيَقُلْ:لَانَعْلَمُ النَّاسَ اخْتَلَفُوا"۔   
(ارشادالفحول:۱۱۱)
ترجمہ:جوکوئی اجماع کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے ،ممکن ہے کہ لوگوں کااس میں اختلاف ہو اور اس کی اطلاع اس کو نہ ملی ہو، ایسی حالت میں یہ کہنا چاہیے ہمیں لوگوں کے اختلاف کا علم نہیں ہے۔
لیکن اکثر علماء کرام کا مسلک یہ ہے کہ اجماع کی اطلاع ممکن ہے، ہربلدہ وخطہ کا والی اپنے یہاں کے مجتہدین کو جمع کرکے ان کی رائے لے یامراسلات کے ذریعہ ان سے رابطہ قائم کرکے ان کی آراء حاصل کرلے، اس طرح اجماع کی اطلاع مل سکتی ہے، ماضی میں جواجماع ہوئے کتابوں کے ذریعہ ان کی اطلاع تو ہے ہی، اس زمانہ میں ذرائع ابلاغ کی بہتات ہے اور اس کی سہولتیں ہیں ،ان سے فائدہ اٹھایا جائے توحال میں ہونے والے اجماع کی بھی اطلاع بآسانی مل سکتی ہے۔
(فقہ اسلامی— خدمات وتقاضے:۱۹۰۔ البحرالمحیط:۴/۴۲۸۔ الاحکام آمدی:۱/۲۸۵۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۷۵۔ حیات امام ابن القیم:۲۹۲)
قیاس...حقیقت اور ضرورت

قیاس فقہ اسلامی کی ایک اصل ہے، جس کی افادیت واہمیت جمہور امت، ائمہ اربعہ، ان کے متبعین، امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگردِ رشید علامہ ابن القیم تمام ہی کے نزدیک مسلم ہے؛ کیونکہ اسلام ایک زندہ وجاوید مذہب ہے، جس میں جمود وتعطل کی ذرہ برابرگنجائش نہیں ہے، ادھر زندگی میں نت نئے مسائل جب بھی سامنے آتے ہیں توچونکہ نصوص محدود ہیں، وہ براہِ راست زندگی کے سارے مسائل کا احاطہ نہیں کرسکتے، اس لیے قیاس کو اختیار کرنا اسلام کی ابدیت اور اس کے حرکیاتی پہلو کے پیشِ نظر ضروری ہے۔
ڈاکٹرمصطفیٰ احمد زرقاء لکھتے ہیں کہ جزئیات وتفاصیل کے باب میں کتاب وسنت کی نصوص وتصریحات معدود ہیں ،زیادہ تراصول وکلیات ہیں، ادھر زمانہ کو قرار نہیں، حالات میں تغیر ہوتے چلے آرہے ہیں، زمانہ اپنی ہرنئی کروٹ کے ساتھ نت نئے تقاضے لے کر سامنے آتا ہے اور رہتی دنیا تک یہی نقشہ رہے گا؛ لہٰذا ان مسائل ومعاملات سے عہدہ برآہونے اور ان سے متعلق شرعی احکام کی تشخیص وتعیین کے لیے سوائے قیاس کے اور کوئی چارہ کار نہیں، اس بناء پر نئے پیش آمدہ مسائل سے متعلق فروعی احکام کے اثبات کے معاملے میں قیاس فقہ کا ایک ایسا اہم اور وسیع الاثر ماخذ ہے جس سے بکثرت سابقہ پیش آیا کرتا ہے۔ 
          (چراغِ راہ:۲۶۵)
اسی مفہوم کوان الفاظ میں بھی بیان کیا گیا ہے:
"النصوص معدودة، والحوادث غیر متناھیۃ"۔          
   (حاشیہ اعلام الموقعین:۱/۳۱۲)
ترجمہ:نصوص گنتی کے قابل اور چند ہیں اور حوادث ومسائل کا حال یہ ہے کہ ان کی کوئی انتہا نہیں۔
امام الحرمینؒ فرماتے ہیں:
"نصوص الکتاب والسنۃ محصورۃ ومواقع الاجماع معدودۃ متناھیۃ والوقائع لانھایۃ لھا"۔     
  (نفائس الاصول:۷/۳۲۰۴۔ الغیاثی:۴۳۰)
ترجمہ:کتاب وسنت کی نصوص محدود ہیں اور اجماعی مسائل معدودے چند ہیں جب کہ مسائل کاایک غیرمتناہی سلسلہ ہے (اورظاہر ہے کہ اس حالت میں قیاس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں)۔
حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے بالکل بجا فرمایا کہ:
"کوئی شخص بھی قیاس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا، قضاء وافتاء کا کام بغیر اس کے چل ہی نہیں سکتا، جدید پیش آمدہ مسائل کا حل بھی ان کے اشباہ ونظائر پر قیاس کئے بغیر نہیں ہوسکتا"۔
الحاصل یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قیاس ایک ابدی شریعت کا چلتا ساتھی ہے۔
قیاس کی لغوی تعریف
قیاس، قاس یقیس قیساً وقیاساً، قاس یقوس قوساً وقیاساً، ذوات الیاء اور ذوات الواؤ (یعنی جن کے مادہ میں حرف یاء اور حرف واو ہو) دونوں ہی سے ماخوذ ہے، جس کے معنی "تقدیر" یعنی ایک شئی کااندازہ دوسری شئی کے ذریعہ کرنے یا"تسویہ" یعنی ایک چیز کودوسری چیز کے برابر کرنے کے ہیں۔   
            (البحرالمحیط:۵/۶)
اصولی طور پر قیاس کے لغوی معنی کی تعیین میں تین نظریئے ہیں، صاحب مسلم الثبوت ملامحب اللہ بہاریؒ کا کہنا ہے کہ لفظِ قیاس تقدیر کے معنی میں اصل اور تسویہ کے معنی میں منقول ہے (فواتح الرحموت:۲/۲۴۶) دوسرا نظریہ ہے کہ لفظ قیاس تقدیر ومساواۃ ہردو معنی میں مشترک لفظی ہے (مشترک لفظی ایسے لفظ کو کہتے ہیں جس کو یکے بعد دیگر دویازائد معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو، دیکھئے:الموسوعۃ الفقہیہ:۴/۳۱۰) علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا طرزِ تحریر اسی جانب مشیر ہے (ارشاد الفحول:۲۹۵) تیسری رائے محقق ابن الہمام کی ہے کہ قیاس ان معانی کے لیے مشترک معنوی ہے (مشترک معنوی ایسے لفظ کو کہتے ہیں جو اپنے وسیع ترمفہوم کے واسطہ سے کئی معنی کو یکساں طور پر جامع ہو، دیکھئے:الموسوعۃ الفقہیہ:۴/۳۱۰۔ اصول الفقہ لخضری بک:۱۴۴) ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن نے اسی کو اختیار کیا ہے۔                
   (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۴۹)
اصطلاحی تعریف
علامہ آمدی نے الاحکام میں قیاس کی تقریباً تمام مشہور تعریفات کے تذکرہ اور بالترتیب ان کے ضعف پر تنبیہ کے بعد جو مختار تعریف بتلائی ہے وہ اس طرح ہے:
 "فرع واصل کا" حکم منصوص کی علت مستنبطہ میں مساوی ہوجانا، قیاس ہے۔
اس تعریف کے متعلق علامہ آمدی نے کہا:
"وهذه العبارة جامعة مانعة وافية بالغرض عرية عمايعترضها من التشكيكات العارضة لغيرها على ماتقدم"۔        
      (الاحکام فی أصول الاحکام:۳/۲۷۳)
ترجمہ:تعریف مذکور جامع مانع ہے، مفہوم قیاس کی اس کی روشنی میں پورے طور پر وضاحت ہوجاتی ہے اور دیگر تعریفات پرجواعتراضات وارد ہوتے ہیں ان سے یہ محفوظ ہے۔
مگرڈاکٹرعبداللہ الترکی کو اس تعریف کی جامعیت ومانعیت سے انکار ہے، جامع اس لیے نہیں ہے کہ تعریف مذکورہ علتِ منصوصہ کو شامل نہیں ہے؛ کیونکہ تعریف میں علت مستنبطہ کی قید لگی ہوئی ہے اور مانع اس لیے نہیں کہ تعریف مذکور مفہوم الموافقہ وفحوی الخطاب کو بھی عام ہے (اس کی تعریف یہ ہے کہ بیان کردہ حکم کے محض ظاہرالفاظ پر غور کرنے سے یہ پتہ چل جائے کہ مسکوت عنہ کا حکم بھی یہی ہے، اصولِ مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۱۲۸) کیوں کہ ان پر بھی قیاس کی یہ تعریف صادق آتی ہے؛ لہٰذا قیاس کی صحیح ترین تعریف وہی ہوسکتی ہے جس کو کمال الدین ابن الہمامؒ نے "التحریر" میں اختیار کیا ہے
علت کےاندر غیرمنصوص مسئلہ کا منصوص مسئلہ کے مساوی ہوجاناہے۔
(اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۵۰)
لیکن آمدی کی کی گئی تعریف پر جامعیت کے لحاظ سےجو اعتراض کیا گیا ہے اس کی یہ توجیہ ممکن ہے کہ علت مستنبطہ کی تخصیص انہوں نے تعریف میں اس بناء پر کی ہے کہ جب علت منصوص ہوتی ہے توبہت کم لوگ حکم کے متعدی کرنے میں اختلاف کرتے ہیں (دیکھئے، ارشاد الفحول:۲۹۸) اور مانعیت کے لحاظ سے جومفہوم الموافقہ کو لے کر اعتراض کیا گیا ہے تواس تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ مفہوم الموافقہ کا قیاس کے تحت داخل ہوجانا آمدی کے مسلک کے اعتبار سے مضر نہیں؛ کیونکہ اکثر شوافع کے نزدیک مفہوم الموافقہ بھی قیاس ہی ہے اور وہ قیاسِ جلی کے اقسام میں سے ہے(البحرالمحیط:۵/۳۷) اس لیے گو فی نفسہ محقق ابن ہمامؒ کی تعریف مختار اور عمدہ ہوسکتی ہے، مگراس سے آمدی کی تعریف پر زد نہیں پڑتی، اس کی جامعیت ومانعیت اپنی جگہ بدستور باقی ہے۔
قیاس کا موضوع
رویانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسکوت عنہا فروع کے احکام کو عللِ مستنبطہ کے واسطہ سے اصول منصوصہ سے معلوم کرنا قیاس کا موضوع ہے، یعنی منصوص اور صریحی حکم کی علت تلاش کرکے غیرمنصوص مسائل کے احکام دریافت کرنا قیاس کا موضوع ہے۔
(البحرالمحیط:۵/۱۴۔ ارشاد الفحول:۲۹۶)
قیاس کا مدار علت پر ہے حکمت پر نہیں
یہ امرمحتاج بیان نہیں کہ قیاس کا دارومدار علت پر ہوتا ہے حکمت پر نہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ حکمت غیرمنضبط، تغیر پذیر اورمختلف ہوتی رہتی ہے ،اشخاص کے اعتبار سے بھی، ماحول اور اطراف کے اعتبار سے بھی، اس لیے حکم کی بنیاد ایسی بے ثبات چیز پر نہیں رکھی جاسکتی، اس کے برخلاف علت ایک منضبط اور مستحکم شئی ہوا کرتی ہے ماحول کے اثر کوقبول نہیں کرتی، مثلاً حق شفعہ کے مسئلہ میں غور فرمائیے کہ یہاں ایک چیز ہے "شرکت فی العقار" اور ایک چیز ہے "دفع ضرر الجوار" یعنی شفیع کو حق شفعہ ملنا چاہیے؛ کیونکہ اُس کو بیچے جانے والے مکان وجائیداد میں کسی نہ کسی طرح کی شرکت حاصل ہے، شفیع کو حق شفعہ اس بناء پر بھی ملنا چاہیے کہ بجائے اس کے اگر کوئی اجنبی اس مکان کو خریدلے توامکان ہے کہ بُرے پڑوسی سے سابقہ پڑجائے، دونوں ہی وصفوں میں ادنی غور وفکر سے یہ ثابت ہوگا کہ وصف اوّل تومنضبط ہے کہ شفیع کی شرکت بہرحال رہتی ہے؛ مگروصف دوم غیرمنضبط ہے، ہوسکتا ہے کہ خرید نے والا مشتری دین واخلاق میں خود اس شفیع سے اچھا نکلے ؛اس لیے مزاج شریعت وصف اوّل پر ہی بناء قیاس کا متقاضی ہے، مقتضائے یسر بھی یہی ہے ؛کیوں کہ ہرفرد کے لیے حکمت کا صحیح انضباط حرج سے خالی نہیں اسی وجہ سے شریعت نے مثال مذکور  میں بھی حق شفعہ کا دارومدار علت یعنی شرکت فی العقار پر رکھا ہے، دفع ضرر جوار پر نہیں، گوکہ علت کی وضع وتعیین میں فی نفسہ خود حکمت کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔
(اصول الفقہ الأبی زہرہ:۱۸۹،۱۹۷۔ تکملہ فتح الملہم:۱/۵۷)
حجیتِ قیاس
اللہ جل شانہٗ نے آیات بدء وخلق اور آیات احکام ہردو کے ذریعہ قیاس کے حجت ہونے کی جانب رہنمائی فرمائی ہے، ارشادِ خداوندی ہے:
"إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ"۔
(آل عمران:۵۹)
ترجمہ:بے شک حالت عجیبہ عیسی کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشابہ حالت عجیبہ آدم کے ہے کہ ان کو مٹی سے بنایا پھر ان کو حکم دیا کہ ہوجابس وہ ہوگئے۔       

اس آیت  میں عیسیٰ علیہ السلام کی خلق وپیدائش کوآدمؑ کے وجود ونشاۃ پر قیاس کیا گیا، دونوں کے مابین علت جامعہ کمال قدرت خداوندی کے علاوہ دونوں پیغمبروں کا بغیرباپ کے ہونا ہے (مقدمہ اعلاء السنن:۲/۷۹) ایک اور مخصوص پس منظر میں یہ آیات نازل کی گئیں:
"وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌo قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ"۔   
           (یٰسٰین:۷۸،۷۹)
ترجمہ:او راُس نے ہماری شان میں ایک عجیب مضمون بیان کیا اور اپنی اصل کو بھول گیا ،کہتا ہے کہ ہڈیوں کو جب کہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں کون زندہ کردےگا؟ آپ جواب دیجئے کہ اُن کو وہ زندہ کرے گا جس نے اول بار ان کو پیدا کیا اور وہ سب طرح کا پیدا کرنا جانتا ہے۔        
   
ان آیات میں علتِ مشترکہ کمال قدرت کی بناء پر نشاۃ ثانیہ اور بعث بعدالموت کو نشاۃ اولی پر قیاس کرکے ثابت کیا گیا، آیات احکام میں قیاس کا استعمال اس طرح پر ہوا ہے، سورۂ نور کی آیت ۳۱/میں عورتوں کو بتلایا گیا کہ "اباء واجداد سے پردہ ضروری نہیں" بقیہ چچا اور ماموں کو اس فہرست میں شامل کرنے کی ذمہ داری خود بندوں کے سپرد کی گئی، سورۂ احزاب کی آیت ۴۹/میں یہ احکامات دیئے گئے کہ مطلقہ مومنہ غیرمدخول بہا پر کوئی عدت نہیں، اب لامحالہ قیاساً مطلقہ کافرہ غیرمدخول بہا بھی اس حکم میں داخل ہوں گی کہ مبنی اسقاط عدت ایمان نہیں؛ بلکہ عدم مسیس اور مطلقہ کا غیرمدخول بہا ہونا ہے
(مقدمہ اعلاء السنن:۲/۸۰۔۸۳)
ان دلائل کے علاوہ قرآنی تعلیلاتِ احکام بجائے خود ایک مستقل موضوع ہے، جس میں قیاس کے حجت شرعیہ ہونے کے صریح اشارات ہیں، آخراللہ تعالیٰ نے "فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الْأَبْصَارِ" (الحشر:۲) کے امرتکلیفی کے ذریعہ قیاس کی حجت تمام کردی کہ "اے خرد مندو! قیاس وعقل سے بھی توکام لو" (اصول بزدوی:۲۵۰) واضح رہے کہ یہاں اعتبار سے قیاس ہی مراد ہے، تدبروتفکر مراد نہیں، جیسا کہ ابن حزم کاگمان ہے ،وجہ اس کی یہ ہے کہ اعتبار "متعدی بدومفعول" کا متقاضی ہوتا ہے اور اس کا تحقق اسی وقت ممکن ہے جب کہ اعتبار بمعنی قیاس ہو، اعتبار بمعنی "تفکر وتدبر تعدی الی المفعولین" کی مطلق صلاحیت نہیں رکھتا، بالفرض اگرتسلیم کرلیا جائے کہ یہاں اعتبار کے معنی تفکروتدبر ہی کے ہیں، جیسا کہ سیاق وسباق سے واضح ہے توجواب یہ ہے کہ یہاں شئی میں تفکرمحض کے معنی ہرگز مراد نہیں ؛بلکہ اُسے اپنی نظیر سے ملحق کرکے تدبر کرنا مقصود ہے اور قیاس اسی سے عبارت ہے۔   
(مقدمہ اعلاء السنن:۲/۸۰۔۸۳)
سنت سے قیاس کا ثبوت
آپؐ کے قول وعمل ہردو سے قیاس کا حجت ہونا ثابت ہے، ذخیرہ احادیث میں ایسے ارشادات عالیہ افراط کے ساتھ ملیں گے جوکسی نہ کسی اعتبار سے علل واوصاف موثرہ سے مربوط ہیں، آپؐ کی نگاہ میں اس کا ایک عظیم مقصد یہ بھی تھا کہ مجتہدین امت اصل علت سے رہنمائی حاصل کرکے جدید پیش آمدہ مسائل کا شرعی حل دریافت کریں، سورہرۃ (بلی کا جھوٹا)کے بارے میں ارشادِ گرامی ہے:
"إِنَّهَالَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّهَامِنْ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ"۔
(ابوداؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَاب سُؤْرِ الْهِرَّةِ، حدیث نمبر:۶۸)
ترجمہ:کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے؛ کیونکہ وہ اُن جانوروں میں سے ہے جن کی گھروں میں کثرت سے آمدورفت رہتی ہے۔
ایک نکاح میں عورت اور اس کی پھوپھی یاخالہ کو جمع کرنے کی ممانعت میں فرمایا گیا:
"إِنَّكُم إِنْ فَعَلْتُمْ ذَلِکَ قَطَعْتُمْ أَرْحَامَكُمْ"۔
(المعجم الکبیر:۱۱/۳۳۷، حدیث نمبر:۱۱۹۳۱)
ترجمہ:کہ اگرتم ایسا کروگے تورشتہ وتعلقات میں دراڑ کا سبب بنوگے۔
مس ذکر کے عدم ناقض وضو ہونے کو یہ علت بیان کرکے سمجھایا گیا:
"هَلْ هُوَإِلَّامُضْغَةٌ مِنْهُ"۔
(ترمذی، كِتَاب الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ، بَاب مَاجَاءَ فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ، حدیث نمبر:۷۸)
ترجمہ:کہ عضوتناسل دیگر اعضاء بدن کی طرح بدن کا ایک حصہ ہی تو ہے (پھراس کے چھونے سے وضو کیوں ٹوٹے گا)۔
بوس وکنار کے مفسد صوم نہ ہونے کو آپ  نے تشبیہ دی کلی کرنے سے کہ جس طرح مقدمات اکل (منہ میں پانی لینا کلی وغیرہ کی غرض سے) کواکل نہیں کہاجاتا؛ اسی طرح مقدماتِ جماع (بوس وکنار) کے مرتکب کو مجامع نہیں کہا جائے گا۔
(مقدمہ اعلاء السنن:۲/۸۵)
احادیث احکام اس جیسی تعلیلات سے پُر ہیں، اثبات قیاس کے باب میں حدیث معاذؓ شان امام کا درجہ رکھتی ہے، ابوعون کہتے ہیں کہ رسول اللہ  نے معاذ بن جبلؓ کو جب یمن بھیجنے کا ارادہ فرمایا تومعاذؓ کو بلاکر پوچھا کہ بتاؤ معاذ کوئی قضاء درپیش ہوجائے توکس طرح اس سے نمٹوگے؟ عرض کیا یارسول اللہ! کتاب اللہ کی روشنی میں، آپ  نے پوچھا کہ کتاب اللہ میں اس کا حکم نہ ملے تو؟ جواب دیا سنتِ رسول  میں تلاش کرونگا، آپ  نے پھرمعلوم فرمایا کہ سنت میں اس کی صراحت نہ ملے تو کیا کروگے؟ دست بستہ عرض کیا کہ یارسول اللہ مقدور بھراجتہاد کرونگا، اپنے فرستادہ معاذؓ کے اس موفق جواب پر فرطِ مسرت میں آپ  نے ان کے سینہ پر دستِ شفقت رکھا اور حمدوثنا کے ساتھ ان کے طرزِ اجتہاد کی تصویب فرمائی۔ 
  (ترمذی:۱/۲۴۷)
ابن حزم نے اس حدیث کے بارے میں بہت کچھ کہہ ڈالا ہے، مثلاً یہ حدیث حدِ احتجاج سے گری ہوئی ہے، مجہول اور بے نام رواۃ کے واسطہ سے منقول ہے؛ بلکہ قرائن خارجیہ اس کے موضوع ہونے پر دال ہیں؛ لیکن ابن حزم کے ان ہفوات کا علامہ ابن القیم الجوزیہ کی زبانی بس ایک ہی جواب ہے کہ اس حدیث کا دم بھرنے والے کوئی اور نہیں امیرالمؤمنین فی الحدیث حضرت شعبۃ بن الحجاج ہیں، جن کے بارے میں محدثین کا یہ معروف تبصرہ ہے کہ جس روایت کی سند شعبہ سے ہوکر گذرتی ہوتو اس حدیث کا صحیح ہونا ثابت بلادلیل ہے، استدلالی جواب یہ ہے کہ اصحاب معاذ کی جہالت صحت حدیث میں قادح نہیں کہ حضرت معاذؓ کے اصحاب اور ان کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے کوئی جھوٹے اور تہمت زدہ لوگ نہ تھے، اس لیے راوی حدیث حضرت حارث بن عمروکارجال سند کے ناموں کی تصریح نہ کرنا بجائے خود حدیث کی شہرت کی دلیل ہے کہ یہ روایت کوئی ایک دوافراد سے نہیں کہ ان کے ناموں کو گنایا جائے؛ پھرابوبکرخطیبؒ کے مطابق ایک سند میں راوی حدیث کی صراحت عبدالرحمن بن غنم کے نام سے بھی مذکور ہوئی ہے اس لیے جہالت کا حکم لگانا صحیح نہیں (اعلام الموقعین:۱/۱۹۴) جہاں تک حدیث مذکور کی موضوع ہونےپر پر پیش کردہ ابن حزم کے قرائن خارجیہ کا سوال ہے تو نہ وہ فی نفسہ اس قابل ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے اور نہ ہی صحت سند کے ساتھ روایت کے ثبوت نے ان کی جوابدہی کی کوئی گنجائش چھوڑی ہے، تفصیل جسے مقصود ہو وہ مقدمہ اعلاء السنن:۲/۱۵۷ کی طرف مراجعت کرے۔
اجماع سے قیاس کا ثبوت
ابن عقیل حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قیاس سے حجت واستدلال کرنا تواتر معنوی کی حدتک پہنچ چکا ہے، ابن دقیق العیدکا کہنا ہے کہ جمہور امت کے نزدیک عمل بالقیاس ایک ایسی طئے شدہ حقیقت ہے کہ جوزمین کے ہرچپہ میں قرناً بعد قرن مشہور ومعروف رہی ہے (ارشاد الفحول:۳۰۳) مانعینِ زکوٰۃ سے قتال پر اجماع صحابہ ایک معروف بات ہے، احادیث کا ادنی درک رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ اس کی بناء تارکین صلاۃ سے قتال پر تھی، حضرت ابوبکرؓ کی خلافت وامامت کبریٰ پر صحابہؓ کا اجماع ،کیا امامت فی الصلاۃ پر مبنی نہیں تھا؟ انکار ہو تو کیا کتبِ احادیث کے اس ٹکڑے کو:
"رَضِيَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَمْرِ دِينِنَا أَفَلَانَرْضَاهُ لِدُنْيَانًا"۔
(حجیۃ القیاس:۶۶)
ترجمہ:کہ جس شخصیت کا انتخاب رسول اللہ نے ہمارے دین ونماز کے لیے کیا ہے، ہماری دنیا ومعاش کی قیادت کے لیے اس سے موزوں اور کوئی ہوسکتا ہے؟۔
صحابہؓ کے حین حیات حضرت عمرؓ کی حکمت سے معمور بصیرت افروز نگارشات کیا حجیت قیاس کے لیے کافی نہیں، حضرت عمرؓ اپنے ایک مکتوب کے ذریعہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو مقدمات کے فیصلے کرنے کے اصول وطریقہ کار سے متعلق چند نہایت اہم ہدایات دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمہارے قلب میں جب کسی ایسے معاملہ کے متعلق کھٹک ہو جس کا کوئی حکم کتاب وسنت  میں موجود نہ ہوتواس تردد واشکال کے وقت اپنے فکرونظر کو کام میں لاؤ اور واقعہ کی نوعیت کے سارے پہلوؤں کو اچھی طرح سمجھ کر بنظرِغائر جائزہ لوپھر ان کے اشباہ ونظائر کو تلاش کرو،اسکے بعد ان نظائر کوسامنے رکھ کر قیاس کرو اور اس بات کا پورا لحاظ رکھو کہ جوعنداللہ اقرب ہو اور  زیادہ سے زیادہ جوحق کے مشابہ ہو اس پر تمہارا اعتماد قائم ہوسکے۔           
(چراغِ راہ:۲۶۵۔ اعلام الموقعین:۱/۹۲)
ہم اس بحث کو امام شافعی کے شاگردِ رشید اور ان کے دستِ راست امام مزنی رحمہ اللہ کے چند نہایت بلیغ ونادر کلمات پر ختم کرنا چاہتے ہیں وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ عہد نبوی سے لے کر ہمارے اس دور تک تمام فقہاء نے زندگی کے ان سارے معاملات میں قیاس سے کام لیا جن کے لیے دینی احکام کے اثبات واظہار کی ضرورت پڑی اور اس مدت کے تمام علماء کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ حق کی نظیر حق ہوتی ہے اور باطل کی نظیر باطل؛ لہٰذا کسی شحص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ قیاس کا انکار کرے؛ کیونکہ قیاس کا مآل ومفاد اس کے سوا کیا ہے کہ وہ ان امور میں کتاب وسنت کے مشابہ اور اس کے مثل ہے جن سے کتاب وسنت خاموش ہیں اور جب نظیر حق ہوتی ہے تو قیاس جو حق کی نظیر ہے وہ بھی حق ہوگا۔              
     (چراغِ راہ:۲۶۸۔ اعلام الموقعین:۱/۱۹۷)
کچھ قیاس کے مثبتین ومنکرین کے بارے میں
علامہ ابن عبدالبر اپنی مایہ ناز کتاب "جامع  بیان العلم" میں رقمطراز ہیں:جمہور امت اور تمام امصار کے علماء کا مسلک یہی ہے کہ مسائل توحید اور عقائد میں قیاس کودخل نہیں ہے اور احکام میں قیاس سے چھٹکارا بھی نہیں ہے، اصحابِ ظواہر کے سرکردہ داؤد بن علی ظاہری کے علاوہ علامہ قاسانی ،علامہ نہروانی اور ظاہریہ کے امام ثانی فخراندلس ابن حزم اندلسی وغیرہ گروہ منکرین کے بڑے ہی نقادلوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔    
    (ارشاد الفحول:۲۹۸)
چنانچہ ابن حزم "الاحکام" میں لکھتے ہیں:
"ذهب أهل الظاهر إلى إبطال القول بالقياس جملة، وهو قولنا الذي ندين الله به، والقول بالعلل باطل"۔    
(ارشادالفحول،الفصل الثانی فی حجیۃ القیاس،مدخل۲/۹۴۔ احکام فی اصول الاحکام لابن حزم/:۷/۳۷۰،۸/۵۴۶)
یعنی اصحابِ ظواہر کا مذہب قیاس اور علل واسباب کے بطلان کا ہے، ہماری اپنی رائے بھی یہی ہے۔
سرخیل منکرین ابن حزم ظاہری کے انکارِ قیاس کے دلائل کا خلاصہ
انکارِ قیاس کے بارے میں ابن حزمؒ کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ان کے دلائل کا پہلے خلاصہ پیش کردیا جائے، تفصیل کا یہاں موقع نہیں، جسے وقت ہو وہ حضرت مولانا ظفراحمد عثمانی رحمہ اللہ کی "انہاء السکن الی من یطالع اعلاء السنن، جلد دوم" کا مطالعہ کرے یہاں سردست صرف ابوزہرہ کی ذکر کردہ تلخیص پیش کی جاتی ہے۔
ابنِ حزم کے انکارِ قیاس کی بناء اصولی اعتبار سے پانچ دلائل پر موقوف ہے:
(۱)احکام تمام ہی منصوص ہیں، فرق اتنا ہے کہ بعض کی تنصیص بالتخصیص ہوتی ہے کہ فلاں چیز فرض یامستحب ہے، فلاں حرام ہے یامکروہ ہے اور جن کی صراحت علی سبیل التخصیص نہ کی گئی ہو وہ امور نص قرآنی:
"هُوَالَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَافِي الْأَرْضِ جَمِيعًا"۔
(البقرۃ:۲۹)
ترجمہ:وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے فائدہ کے لیے جو کچھ بھی زمین میں موجود ہے۔                 
      
یعنی بالفاظ اصولیین اشیاء میں اصل اباحت ہے، کے عموم میں داخل ہیں؛ لہٰذا قیاس کا کوئی معنی نہیں۔
(۲)قیاس کی حجیت کا قائل ہونا، بالواسطہ شریعت کے کمال کے انکار اور نبی کریم پر فریضہ تبلیغ کی علی وجہ الکمال عدم ادائیگی کی تہمت کے مترادف ہے؛ اس لیے قیاس کو کیوں کرتسلیم کیا جاسکتا ہے۔
(۳)تمام ہی اصولیین کے لیے اصل وفرع کے درمیان علت مشترکہ ضرورت کوقرار دیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ آیا بیان کردہ علت مشترکہ منصوص ہے یاغیرمنصوص، منصوص ہوتو اثبات حکم کا تعلق براہِ راست نص سے ہوگا، قیاس سے نہیں اور اگرعلت مشترکہ شارع کی جانب سے غیرمنصوص اور انسانی استنباط کردہ ہوتو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ شریعت کی نظر میں علت مشترکہ کوئی چیز نہیں اور نہ اس کی کوئی وقعت ہے؛ اسی بناء پرتوشریعت نے علت مشترکہ کی رہنمائی ضروری نہیں سمجھی۔
(۴) نبی کریم کی تعلیم غیرمنصوص احکام کے متعلق یہ ہے:
"ذَرُونِى مَاتَرَكْتُكُمْ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلاَفِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَىْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَااسْتَطَعْتُمْ ، وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَىْءٍ فَدَعُوهُ"۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی، كتاب الحج، باب وُجُوبِ الْحَجِّ مَرَّةً وَاحِدَةً، حدیث نمبر:۸۸۷۷)
ترجمہ:کہ چوں و چرا ٹھیک بات نہیں کہ اُممِ سابقہ کو یہی لعنت لے ڈوبی ہے؛ اس لیے جوچیز بیان کردی جائے اُسے لے لو اور جس سے روک دیا جائے اُس سے رُک جاؤ اور بس!۔
(۵)ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَاتُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ"۔                 
(الحجرات:۱)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے تم سبقت مت کیا کرو ۔  
   
"وَلَاتَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ"۔ 
                                            (الاسرء:۳۶)
ترجمہ:اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اُس پر عمل درآمد مت کیا کرو۔

"مَافَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ"۔                             
(الانعام:۳۸)
ترجمہ:ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔                        
    
ان جیسی تہدید آمیز نصوص کے ہوتے ہوئے قیاس کی جرأت کوحماقت کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔
ابنِ حزم کے دلائل کا تنقیدی جائزہ
ابنِ حزم کے مذکورہ دلائل کا تجزیہ کیا جائے توبنیادی طور پر اس کے پیچھے دوہی نظریے کار فرمانظر آتے ہیں:
(۱)نصوصِ قرآنی اور نصوص نبوی  تمام ہی احکام کو منتہی اور محیط ہے، ابن حزم کی دلیل اوّل، ثانی، رابع اور خامس میں اسی کی جھلک نظر آتی ہے، ان کا دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قیاس کوئی شریعت کی وضع کردہ اصل نہیں؛ بلکہ انسانی ذہنوں کی کارستانی ہے جوشریعت کی نصوصِ کاملہ پر زیادتی کوموجب ومستلزم ہے، تیسری دلیل اسی نظریہ کا شاخسانہ ہے۔
جہاں تک حضرت موصوف کے نظریۂ اوّل کی بات ہے تویہ مسلم ہے، جمہور بھی یہی کہتے ہیں کہ شریعت نے کسی جگہ تشنگی اوراحتیاج غیرکا خانہ نہیں چھوڑا ہے، نصوص وافر مقدار میں موجود ہیں، بات صرف اتنی سی ہے کہ اصحابِ ظواہر لکیر کے فقیر ہوتے ہیں اور جمہور مزاج شریعت کو سمجھتے ہوئے نص کی تہہ تک پہنچتے ہیں اور مدلول میں توسیع کرتے ہیں، ان بزرگان کا کہنا ہے کہ شریعت کے احکام منصوص بھی ہوتے ہیں اور اُن مقاصد شرع کے تابع بھی ہوتے ہیں کہ شریعت، جن کی جملہ نصوص اور عام حالات میں رعایت رکھتی ہے؛ مثلاً قرآن کریم کا ایک حکم ہے کہ "شراب حرام ہے"مگراس حکم میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ ہروہ چیز جس کا ضرر غالب ہو، اس کا استعمال بھی حرام ہے کہ شریعت کے عمومی مزاج کا تقاضا یہی ہے، اس لیے درحقیقت قیاس کوئی الگ چیز نہیں؛ بلکہ اس کا قوام واعتماد نص ہی پر ہے اور اسی میں نص کی کارکردگی مضمر ہے، اس تقریر سے ابن حزم کی بناء ثانی بھی منہدم ہوگئی؛ کیونکہ جیسا کہ بتلایا گیا، قیاس کی حیثیت وحقیقت"اعمالاً للنص" کی ہے "زیادۃ علی النص" کی نہیں اور حق تو یہی ہے کہ تعلیل نصوص ایسی بدیہی المعرفت حقیقت ہے کہ جس کے انکار کا انجام سوائے بچکانہ موشگافیوں کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ انکارِ قیاس کے بطلان پر ظواہر پرستوں کی جگہ یہ خبطگی کیاکچھ کم ہے؟ کہ آدمی کا پیشاب توناپاک ہے کہ اس کی نجاست منصوص ہے اور سور کا پیشاب پاک کہ نص میں اس کے حکم کی تصریح نہیں۔                
   (اصول الفقہ لابی زہرۃ:۱۷۷۔۱۸۰)
آخرمیں اس عنوان کوڈاکٹر مصطفی احمد زرقاء کی چشم کشاتحریر پر ختم کیا جاتا ہے کہ:
"یہ صحیح ہے کہ جونصوص عام ہوتی ہیں ان کے احاطہ میں بہت سی انواع واشکال ہوا کرتی ہیں؛ مگریہ صورت انسان کو قیاس سے مستغنیٰ نہیں کرسکتی، اس لیے کہ عام نص اپنے عموم کے دائرہ میں صرف انہی اکائیوں کو لیتی ہے او رلے سکتی ہے جو اس نص کے مفہوم میں داخل ہیں ؛لیکن نئے پیش آمدہ مسائل اور معاملات کے وہ انواع واقسام جواس نص کے مفہوم میں سرے سےشامل ہی نہ ہوں وہ اس نص کے عموم کے دامن میں کس طرح آسکتے ہیں، ایسی صورت میں یہ نصوص براہِ راست اپنے احکام کے دائرہ میں ان انواع واقسام کو لینے کے بجائے ان کے لیے صرف اشباہ ونظائر کا کام دے سکتی ہیں اوران کے لیے احکام کی قفل کشائی اسی قیاس کے ہاتھوں ہوتی ہے"۔             
   (چراغِ راہ:۲۶۸)
منکرینِ قیاس بھی قیاس سے مستغنی نہیں
ابن حزم اور داؤدظاہری وغیرہ اگرچہ بظاہر قیاس کا انکار کرتے ہیں مگردلچسپ بات یہ ہے کہ جدید حالات سے جب ان حضرات کو سابقہ پڑا تویہ منکرین بھی قیاس سے کام لینے پر مجبور ہوئے اور اس کو انہوں نے دلیل سے موسوم کیا؛ چنانچہ ابوالفداء فرماتے ہیں:داؤد شریعت میں قیاس کو مسترد کرتے تھے؛ مگراس کے بغیر کام نہ چلا اور جب خود قیاس کیا تو اس کا نام دلیل رکھا۔ 
     (چراغِ راہ:۲۶۰)
علامہ ظفر احمدعثمانی اپنی وقیع المرتب تصنیف کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ ابنِ حزم کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ مواقع قیاس پر کتاب وسنت کی عمومی نصوص استصحاب حال، اقل ماقیل فیہ یااجماع کی آڑلے کر اپنے کوقیاس سے مستغنی گرداننے کی سعی بے سود کرتے ہیں۔
(مقدمہ اعلاء السنن:۲/۹۳)
قیاس کا استعمال کب؟
علامہ بدرالدین زرکشیؒ لکھتے ہیں کہ قیاسِ شرعی اصول ِشرع کی ایک ایسی مہتم بالشان اصل ہے جس کے ذریعہ"غیرمنصوص مسائل" کا حل تلاش کیا جاتا ہے (البحرالمحیط:۵/۱۶) امام شافعیؒ اپنی مشہور زمانہ تصنیف الرسالۃ میں رقمطراز ہیں کہ جس مسئلہ کی بابت نص کا لازمی حکم موجود نہ ہو وہاں ہم قیاس واجتہاد کے ذریعہ اُسے معلوم کرتے ہیں اور بات تویہی ہے کہ ہم اُسی حق وصواب کی اتباع کے مکلف ہیں جوتحقیق واجتہاد کے بعد ہمارے نزدیک ثابت ہوجائے (الرسالۃ:۴۷۴) خود حضرت امام ابوحنیفہؒ کا طریقہ اجتہاد یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اولاً میں قرآن کو لیتا ہوں؛ اگراس میں حکم ملے اگراس میں نہ ملے تورسول اللہ  کی سنت پر عمل کرتا ہوں اور ثقہ لوگوں کے ذریعہ سے جوصحیح حدیث نبوی ملے اُس کو لیتا ہوں؛ اگران میں باہم اختلاف ہوتو خود کسی ایک کو ترجیح دیتا ہوں؛ لیکن صحابہ اور غیرصحابہ میں اختلاف ہوتو صحابہ کے قول کوہرگز نہیں چھوڑتا، ہاں جب رائے ابراہیم اور شعبی اور حسن بصری اور ابنِ سیرین اور سعید بن المسیب وغیرہ وغیرہ کی ہوتو جس طرح ان کو اجتہاد کا حق ہے مجھے بھی ہونا چاہیے۔    
    (امام ابوحنیفہؒ کی تدوین قانون اسلامی، از ڈاکٹر حمیداللہ)
کس قدر عادلانہ اورحقیقت پسندانہ طرز اجتہاد ہے اور مخالفین ومعترضین سے کس قدر سادہ اور تشفی بخش تخاطب ہے؛ مگربرا ہوتعصب کا کہ جس کے آگے نہ ہی حق بات کے اعتراف کی توفیق ہوتی ہے اور نہ ہی کسی مسلمان کی مسلمانیت کا احترام۔
قیاس صحیح وقیاس فاسد
اس کلیہ سے ہرگز اتفاق نہیں ہوسکتا کہ ہرقیاس غلط اور بے بنیاد ہوتا ہے، ہاں یہ سچ ہے کہ ہرقیاس سند اعتبار حاصل نہیں کرسکتا، اس لیے لامحالہ قیاس کو دوخانوں میں باٹنا ہوگا، ایک وہ جونص وشریعت کے مطابق اور صحابہ سے ماخوذ احکام شرعیہ کے موافق ہو ،قیاس صحیح اسی کانام ہے، دوسرا وہ جونص وشریعت کے معارض ہو ،قیاس فاسد اسی کو کہتے ہیں (شیخ الاسلام ابن تیمیہ، از سعد صادق محمد:۹۸،۹۹) اورامام غزالی کی فنی اور منطقی الفاظ میں اس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے، حکم کے واسطے اگرعلت جامعہ فرع کو اصل سے الحاق کی متقاضی ہوتوقیاس صحیح ورنہ فاسد (المستصفی:۲/۲۲۸) غور کیا جائے تو مآل کے اعتبار سے دونوں تعبیر میں کوئی فرق نہیں ہے۔
علت کے اعتبار سے قیاس کی تقسیم
علامہ آمدی کہتےہیں کہ جب علت کامبنی قیاس ومناط حکم ہونا متحقق ہوچکا ہے تو اب اس میں نظرواجتہادتین طریقہ پر ہوسکتا ہے:
(۱)تحقیق مناط
(۲)تنقیح مناط
(۳)تخریج مناط۔        
       (الاحکام للامدی:۳/۴۳۵)
مناط دراصل متعلق کو کہا جاتا ہے،محاورہ ہے "نطت الحبل بالوتد" میں نے رسی کو کھونٹے سے باندھا اوراس سے متعلق کیا، علت بھی چوں کہ متعلق حکم ہوا کرتی ہے، اس لیے اُسے بھی مناط حکم کہا جاتا ہے (شرح الکوکب المنیر:۴/۱۹۹) اسی مناط کو دریافت کرنے کے تین طریقے ہیں۔
تحقیقِ مناط
تحقیق مناط یہ ہے کہ حکم تواپنے مدرک شرعی کے ساتھ موجود ہوتا ہے؛ البتہ اس کے محل کی تعین باقی رہ جاتی ہے جیسے فرمانِ خداوندی ہے:
"وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ"۔            
     (الطلاق:۲)
ترجمہ:اور اپنے میں سے دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنالو جو عدل والے ہوں ۔
اب بنی آدم میں عادل بھی ہیں، فاسق بھی ہیں، نظرواجتہاد سے عادل وفاسق کی نشاندہی تحقیق مناط ہے(الموافقات للشاطبی:۴/۴۶۴،۴۶۵) ایسے ہی شریعت کا یہ حکم کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں کہ گھروں میں اس کی آمدورفت کثرت سے ہوتی رہتی ہے؛ اگراس کے باوجود اس کے جھوٹے کوناپاک قرار دے دیا جائے توحرج لازم آئے گا، اب کیا چوہا اور دیگرگھریلو جانور بھی اس زمرہ میں آتے ہیں؟ اس کی تحقیق، تحقیق مناط کہلاتی ہے اور قیاس میں تحقیق مناط کی بڑی ضرورت ہے؛ اسی لیے علامہ شاطبیؒ کہتے ہیں کہ قیاس واجتہاد کی اس قسم کا ارتفاع تسلیم کرلیا جائے تواحکام شرعی سارے کے سارے دھرے اور تصورِ ذہنی کی نذر ہوجائیں گے۔
(الموافقات:۴/۴۶۷)
امام غزالی اور دیگرتمام اصولیین کا بھی یہی تجزیہ ہے؛ یہی وجہ ہے کہ منکرینِ قیاس کو بھی اس کی حجیت تسلیم ہے۔
تنقیح مناط
علامہ شاطبیؒ لکھتے ہیں کہ وصف معتبر کووصف ملغی سے ممتاز کرنا تنقیح مناط کہلاتا ہے۔     
     (الموافقات:۴/۴۶۷)
علامہ بدرالدین زرکشی نے بھی یہی تعبیر اختیار کی ہے (البحرالمحیط:۵/۲۵۵) حاصل اس کا یہ ہے کہ شریعت نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حکم چند ایسے اوصاف میں گھرا ہوا ہے کہ جن میں سے ہروصف پر فی الجملہ علت حکم ہونے کا شبہ کیا جاسکتا ہو، تنقیح مناط یہ ہے کہ ان اوصاف میں سے وصف صالح کی تعیین کردی جائے، عموماً اس کی مثال میں یہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ زمانۂ رسالت میں ایک اعرابی نے ایامِ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی تھی جس کو آپ  نے کفارہ کا حکم دیا تھا؛ یہاں وصف صالح یعنی قصداً جماع کرنے کے علاوہ دیگر کئی غیرصالح اوصاف جمع ہیں، شخص مذکورہ کا اعرابی ہونا، خاص منکوحہ سے صحبت کرنا، معہود رمضان کا سال ودن ہونا وغیرہ وغیرہ ظاہر بات ہے کہ مکلف کا اعرابی ہونایامخصوص رمضان کا دن ہونا وغیرہ اوصاف کفارہ کی علت نہیں بن سکتے، تنقیح مناط پر پتہ چلا کہ علت کفارہ حالت روزہ میں عمداً صحبت کرنا ہے۔   
     (دیکھئے المستصفی:۲/۲۳۰۔ ونفائس الاصول:۷/۳۲۳۰۔ والمسودۃ:۵۰۳۸۷۔ المستصفی:۲/۲۳۳)
تخریجِ مناط
مناط کی جملہ اقسام میں تخریج مناط ہی معرکۃ الاراء سمجھی جاتی ہے، مثبتین اور منکرین کا اصل نزاع اس کی حجیت میں ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں صرف حکم اور محل حکم کی تشریح ہوتی ہے اور مناط حکم اور علت سے کسی طرح کا تعارض نہیں کیا جاتا ہے؛ بلکہ بتقاضائے حکمت مجتہدین وباحثین ہی کوتلاش علت کی ترغیب دی جاتی ہے؛ تاکہ ان کے اذہان کی تشحیذ ہو، انجماد کی کیفیت دور ہو اور فقہی کارواں اپنے منہج اصلی کے ساتھ رواں دواں رہے۔                
  (المستصفی:۲/۲۳۳)
تخریجِ مناط کی مثال
اللہ تعالیٰ نے شراب کی تحریم اور اس سے اجتناب کے احکام تونازل فرمادیئے، مگرعلتِ حرمت کی تصریح نہیں کی، بحث وتمحیص کے بعد علت کا استخراج ہی تخریج مناط کہلاتا ہے؛ چنانچہ مجتہدین کی بڑی جماعت نے اجتہاد کے ذریعہ نشہ اورسکر کو تحریم خمر کی علت قرار دیا ہے، اس کلیہ سے شاید ہی کسی حقیقت پسند کوانکار ہوگا کہ بنیادی طور پر احکامِ خداوندی میں انسانوں کوجان ومال، عقل ونسب اور دین پانچ چیزوں کی بڑی ہی رعایت رکھی گئی ہے (فواتح الرحموت علی ھامش المستصفی:۲/۲۶۲) اس کا بقاء اسی میں ہے کہ قیاس واجتہاد کے ذریعہ اسباب وعلل کی تہہ تک پہنچا جائے؛ ورنہ احکام کا اجراء بے معنی ہوکر رہ جائے گا اور یہ فاسد نتیجہ برآمد ہوگا کہ شراب پینا توحرام ہے کہ اس کی حرمت منصوص ہے بقیہ منشیات ومسکرات بلاجھجک استعمال کی جاسکتی ہیں کہ نص ان سے ساکت ہے۔
مناط کی تینوں اقسام پر سرسری نظر سے یہ بدیہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ تحقیقِ مناط قسم اعلیٰ، تنقیح مناط اوسط اور تخریج مناط ادنی قسم ہے کہ اوّل میں علت متعین ہوتی ہے، ثانی میں تعیین کرنی پڑتی ہے اور ثالث میں تخریج کرنی پڑتی ہے، جس میں خطا کا بھی احتمال ہے۔
قیاس واجتہاد میں فرق
الرسالۃ میں امام شافعیؒ کے ظاہری طرز تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت امامؒ کے نزدیک قیاس واجتہاد مترادفات ہیں (الرسالہ:۴۷۷) مگرجمہور فقہاء کا مسلک یہی ہے کہ قیاس واجتہاد دوالگ الگ چیزیں ہیں، اجتہاد عام ہے، قیاس خاص ہے، اجہتاد کے معنی اور اس کی تعریف یہ ہے  کہ کسی فقیہ کا حکم شرعی ظنی کے حصول کی خاطر اپنی مقدور بھرکوشش صرف کردینا، ظاہر ہے کہ یہ قیاس کے مقدمات سے توہوسکتا ہے، خود قیاس نہیں، دوسرا فرق یہ ہے کہ اجتہاد کا اطلاق عامۃ النصوص اور دیگر تمام ہی طرق ادلۃ میں نظر وبحث پر بھی ہوتا ہے جب کہ قیاس کی حقیقت یہ نہیں ہے۔         
      (البحرالمحیط:۵/۱۱،۱۲)



No comments:

Post a Comment