عیدین کی مشروعیت
امام ابوداؤد اپنی سنن میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے یہاں دو دن ایسے تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کیسے دو دن ہیں ، تو انہوں نے کہا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں ان دو دنوں میں کھیل کرتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ نے تمہیں ان دنوں کے بدلہ میں دو بہتردن اضحی اور فطر کے دن دیئے ہیں۔حوالہ
(ابوداود: بَاب صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ۹۵۹)
عیدین کی نماز واجب ہے ، یہ دو جہری رکعتیں ہیں جنہیں سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد پڑھا جاتا ہے ۔حوالہ
عَنْ جُنْدُبٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِنَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَالشَّمْسُ عَلَى قِيدِ رُمْحَيْنِ وَالْأَضْحَى عَلَى قِيدِ رُمْحٍ (التلخيص الحبير كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ ۱۹۶/۲)
ان میں چند تکبیریں ہوتی ہیں جنہیں تکبیرات زوائد کہا جاتا ہے ، تین تکبیر ثناء کے بعد پہلی رکعت میں اور تین رکوع سے پہلے دوسری رکعت میں اور نماز کے بعد خطبہ دیا جائیگا ۔ حوالہ
عن علقمة و الأسود بن يزيد :أن ابن مسعود كان يكبر في العيدين تسعا أربعا قبل القراءة ثم يكبر فيركع وفي الثانية يقرأ فإذا فرغ كبر أربعا ثم ركع (المعجم الكبير عبد الله بن مسعود الهذلي ۳۰۴/۹)
عیدین کی نماز کس پرواجب ہے
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الكوثر:۲) عن الزهري وقتادة قالا صلاة الأضحى مثل صلاة الفطر ركعتان ركعتان (مصنف عبد الرزاق باب الصلاة قبل خروج الامام وبعد الخطبة ۲۷۲/۳)تجب صلاة العيدين على من تجب عليه الجمعة بشرائطها المتقدمة سوى الخطبة، فإنها سنة بعدها، ودليلهم على الوجوب:مواظبة النبي صلّى الله عليه وسلم عليها۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ،صلاۃ العیدین:۲/۵۱۴۔)
عیدین کی نماز صحت مند، آزاد ، مقیم، بینا، عام آدمی پر اگر وہ چلنے پر قادر ہو تو واجب ہوتی ہے۔حوالہ
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الكوثر:۲ ) مذکورہ آیت میں عید کی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور امر کا صیغہ استعمال کیا گیا اور امروجوب کے لیے ہوا کرتا ہے؛ اس لیے عیدین کی نماز کوواجب قرار دیا گیا۔ تجب صلاة العيدين على من تجب عليه الجمعة بشرائطها المتقدمة سوى الخطبة، فإنها سنة بعدها، ودليلهم على الوجوب:مواظبة النبي صلّى الله عليه وسلم عليها۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ،صلاۃ العیدین:۲/۵۱۴۔)
عیدین کی نماز عورت ، مریض، غلام، مسافر ، اندھے اور خوف زدہ شخص پر واجب نہیں ہوتی۔ اسی طرح عیدین کی نماز ایسے شخص پر جو چلنے کی قدرت نہ رکھتا ہو واجب نہیں ہوتی اور جس پر عیدین کی نماز واجب نہیں اگر وہ اسے لوگوں کے ساتھ پڑھ لے تو اس کی نماز جائز ہوگی۔ حوالہ
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مسلم، فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً عَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَوْ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ مَرِيضٌ (ابوداود بَاب الْجُمُعَةِ لِلْمَمْلُوكِ وَالْمَرْأَةِ ۹۰۱)۔ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ قَالُوا وَمَا الْعُذْرُ قَالَ خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى(ابوداود بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ۴۶۴) عن الزهري قال ليس على المسافر صلاة الاضحى ولا صلاة الفطر الا أن يكون في مصر أو قرية فيشهد معهم الصلاة (مصنف عبد الرزاق باب صلاة العيدين في القري الصغار ۳۰۲/۳) عن أَبِى الزِّنَادِ قَالَ :كَانَ مَنْ أَدْرَكْتُ مِنْ فُقَهَائِنَا الَّذِينَ يُنْتَهَى إِلَى قَوْلِهِمْ فَذَكَرَ الْفُقَهَاءَ السَّبْعَةَ مِنَ التَّابِعِينَ فِى مَشْيَخَةٍ جُلَّةٍ سِوَاهُمْ مِنْ نُظَرَائِهِمْ أَهْلُ فَقْهٍ وَفَضْلٍ وَرُبَّمَا اخْتَلَفُوا فِى الشَّىْءِ فَأَخَذْنَا بِقَوْلِ أَكْثَرِهِمْ وَأَفْضَلِهِمْ رَأْيًا فَذَكَرَ مِنْ أَقَاوِيلِهِمْ أَشْيَاءَ ثُمَّ قَالَ :وَكَانُوا يَقُولُونَ إِنْ شَهِدَتِ امْرَأَةٌ الْجُمُعَةَ أَوْ شَيْئًا مِنَ الأَعْيَادِ أَجْزَأَ عَنْهَا قَالُوا :وَالْغِلْمَانُ وَالْمَمَالِيكُ وَالْمُسَافِرُونَ وَالْمَرْضَى كَذَلِكَ لاَ جُمُعَةَ عَلَيْهِمْ وَلاَ عِيدَ فَمَنْ شَهِدَ مِنْهُمْ جُمُعَةً أَوْ عِيدًا أَجْزَأَ ذَلِكَ عَنْهُ.(السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ لاَ جُمُعَةَ عَلَيْهِ إِذَا شَهِدَهَا صَلاَّهَا رَكْعَتَيْنِ ۵۸۶۰) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قُلْتُ لِعَمْرَةَ أَوَمُنِعْنَ قَالَتْ نَعَمْ(بخاري بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالْغَلَسِ ۸۲۲)۔
نماز عیدین کے صحیح ہونے کی شرطیں
عیدین کی نماز اسی وقت صحیح ہوتی ہے جب کہ اس میں مندرجہ ذیل شرطیں پائی جائیں۔
عَنْ أَبِى عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ قَالَ عَلِىٌّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ لاَ جُمُعَةَ وَلاَ تَشْرِيقَ إِلاَّ فِى مِصْرٍ جَامِعٍ. (السنن الكبري للبيهقي باب الْعَدَدِ الَّذِينَ إِذَا كَانُوا فِى قَرْيَةٍ وَجَبَتْ عَلَيْهِمُ الْجُمُعَةُ ۵۸۲۳)
عن شَيْبَانَ حَدَّثَنِى مَوْلًى لآلِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ:أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِؓ عَنِ الْقُرَى الَّتِى بَيْنَ مَكَّةَ والْمَدِينَةِ مَا تَرَى فِى الْجُمُعَةِ؟ قَالَ:نَعَمْ إِذَا كَانَ عَلَيْهِمْ أَمِيرٌ فَلْيُجَمِّعْ( السنن الکبری للبیھقی،باب العدد الذین اذا کانوا فی،جز:۵۸۲۱۔)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَذِنَ النَّبِيُّﷺ الْجُمُعَةَ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ وَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَجْمَعَ بِمَكَّةَ فَكَتَبَ إلَى مُصْعَبِ بْنِ عُمَيْرٍ "أَمَّا بَعْدُ فَانْظُرْ الْيَوْمَ الَّذِي تَجْهَرُ فِيهِ الْيَهُودُ بِالزَّبُورِ فَاجْمَعُوا نِسَاءَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ فَإِذَا مَالَ النَّهَارُ عَنْ شَطْرِهِ عِنْدَ الزَّوَالِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَتَقَرَّبُوا إلَى اللَّهِ بِرَكْعَتَيْنِ التلخیص الحبیر، کتاب الجمعۃ، حدیث نمبر:۶۲۵۔ قلت:وفی الحدیث دلالۃ علی ان شرط الجمعۃ ان تؤدی علی سبیل الاشتہار،لما فیہ ان النبی ﷺ اذن الجمعۃ قبل ان یھاجر،ولم یستطع ان یجمع بمکۃ ولایخفی ان مکۃ موضع صالح للجمعۃ حتما، لکونہا مصرا، ولم یکن النبی ﷺ عاجزا عن الوقت، ولاعن الخطبۃ، والجماعۃ، لأجل کونہ مختفیا فی بیت، فانہ کان یقیم سائر الصلوات بالجماعۃ کذلک، ولکنہ لم یستطع ان یؤد ی الجمعۃ علی سبیل الاشتہار، والاذن العام، لمافیہ من مخافۃ اذی الکفار، وھجومھم علی المسلمین،ففیہ دلیل قول الحنیفۃ باشتراط الاذن العام للجمعۃ۔
(اعلاء السنن، باب وقت الجمعہ بعد الزوال:۸/۵۸۔)
(۴) جماعت کا ہونا، عیدین کی جماعت میں امام کے ساتھ کوئی ایک شخص ہو تو منعقد ہو جاتی ہے۔ حوالہ
عن بن جريج قال قلت لعطاء أواجبة صلاة يوم الفطر على الناس أجمعين قال لا إلا في الجماعة قال ما الجمعة بأن يوتى أوجب بذلك منها الا في الجماعة فكيف في الفطر قال عطاء لا يتمان أربعا في جماعة ولا غيرها(مصنف عبد الرزاق باب وجوب صلاة )، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مسلم، فِي جَمَاعَةٍ (ابوداود بَاب الْجُمُعَةِ لِلْمَمْلُوكِ وَالْمَرْأَةِ ۹۰۱)، عیدین کی نماز جماعت ہی کے ساتھ ادا کی جاتی ہے جس طرح جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہے اور عید کی نماز کے شرائط تقریباً وہی ہیں جوجمعہ کے ہیں اس لیے جس طرح جمعہ میں جماعت کا ہونا شرط قرار دیا گیا؛ اسی طرح عیدین میں بھی شرط قرار دیا گیا ہے۔ قال الحنفية : كل ما هو شرط وجوب الجمعة وجوازها فهو شرط وجوب صلاة العيدين، وجوازها، من الإمام والجماعة، والمصر، والوقت، إلا الخطبة فإنها سنة بعد الصلاة، ولو تركها جازت صلاة العيد… وأما الجماعة: فلأنها ما أديت إلا بجماعة. (الفقه الاسلامي وادلته شرائط وجوبها وجوازها: ۵۱۵/۲)۔
(۵) وقت کا ہونا۔ عیدین کی نماز کا وقت سورج کے نیز ے کی مقدار بلند ہونے سے شروع ہوتا ہے اور سورج کے زوال پر ختم ہوجاتا ہے۔ حوالہ
عَنْ جُنْدُبٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِنَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَالشَّمْسُ عَلَى قِيدِ رُمْحَيْنِ وَالْأَضْحَى عَلَى قِيدِ رُمْحٍ (التلخيص الحبير كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ ۱۹۶/۲) عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُمُومَتِي مِنْ الْأَنْصَارِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا أُغْمِيَ عَلَيْنَا هِلَالُ شَوَّالٍ فَأَصْبَحْنَا صِيَامًا فَجَاءَ رَكْبٌ مِنْ آخِرِ النَّهَارِ فَشَهِدُوا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ رَأَوْا الْهِلَالَ بِالْأَمْسِ فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُفْطِرُوا وَأَنْ يَخْرُجُوا إِلَى عِيدِهِمْ مِنْ الْغَدِ (ابن ماجه بَاب مَا جَاءَ فِي الشَّهَادَةِ عَلَى رُؤْيَةِ الْهِلَالِ ۱۶۴۳)مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عید کی نماز کا وقت زوال سے پہلے پہلے تک ہے اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد چاند کی اطلاع ملنے پرعید کی نماز نہیں پڑھائی بلکہ دوسرے دن عید کی نماز پڑھائی ہے۔
عیدین کی نماز بغیر خطبہ کے صحیح ہوجاتی ہے ، لیکن اس طرح کرنا مکروہ ہے۔اگر خطبہ کو نماز پر مقدم کریں تو عید کی نماز صحیح ہوگی، لیکن اس طرح کرنا مکروہ ہے۔ حوالہ
عن أَبي سَعِيدٍ الْخُدْرِىّ يَقُولُ :كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَخْرُجُ يَوْمَ الْعِيدَيْنِ فَيُصَلِّى فَيَبْدَأُ بِالرَّكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ يُسَلِّمُ فَيَقُومُ قَائِمًا يَسْتَقْبِلُ النَّاسَ بِوَجْهِهِ فَيُكَلِّمُهُمْ وَيَأْمُرُهُمْ بِالصَّدَقَةِ فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يَضْرِبَ عَلَى النَّاسِ بَعْثًا ذَكَرَهُ وَإِلاَّ انْصَرَفَ.(السنن الكبري للبيهقي باب يَخْطُبُ قَائِمًا مُقَابِلَ النَّاسِ ۶۴۲۵)۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسولﷺعیدین میں خطبہ دیا کرتے تھے اور نماز کے بعد دیا کرتے تھے؛ لہٰذا جوخطبہ کو ترک کردیگا یانماز سے پہلے خطبہ دیگا تویہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوگا؛ اس لیے اسے مکروہ قرار دیا گیا۔
عید الفطر کے دن کی مستحب چیزیں
مندرجہ ذیل چیزیں عید الفطر کے دن مستحب ہیں۔
عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ وَغَدَا وَابْتَكَرَ وَدَنَا مِنْ الْإِمَامِ وَلَمْ يَلْغُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا(نسائي فَضْلُ غُسْلِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ ۱۳۶۴)مذکورہ حدیث میں چند اعمال شمار کئے گئے، جس میں صبح سویرے بیدار ہونا بھی ہے اور ان اعمال کے تحقق پرثواب مرتب کیا گیا ہے؛ اس لیے مذکورہ عمل کومستحب قرار دیا گیا ہے۔
عن نافع قال ما رأيت بن عمر اغتسل للعيد قط كان يبيت في المسجد ليلة الفطر ثم يغدو منه إذا صلى الصبح ولا يأتي منزله (مصنف عبد الرزاق باب الاغتسال في يوم العيد ۳۰۹/۳)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمسلمينَ فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ(ابن ماجه بَاب مَا جَاءَ فِي الزِّينَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ۱۰۸۸)
عَنْ جَدِّهِ الْفَاكِهِ بْنِ سَعْدٍ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ النَّحْرِ وَيَوْمَ عَرَفَةَ وَكَانَ الْفَاكِهُ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالْغُسْلِ فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ (ابن ماجه بَاب مَا جَاءَ فِي الِاغْتِسَالِ فِي الْعِيدَيْنِ ۱۳۰۶)
عن ابن عباس قال :« كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس يوم العيد بردة حمراء)المعجم الاوسط للطبراني باب الميم من اسمه :محمد ۷۸۲۴) عن جَعْفَر بْن مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ :أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَلْبَسُ بُرْدَ حِبَرَةٍ فِى كُلِّ عَيْدٍ.(السنن الكبري للبيهقي باب الزِّينَةِ لِلْعِيدِ ۶۳۵۶)
عن جعفر بن محمد عن أبيه أن عليا كان يغتسل يوم الفطر ويوم الاضحى قبل أن يغدو، عن نافع عن بن عمر مثله وزاد ويتطيب (مصنف عبد الرزاق باب الاغتسال في يوم العيد ۳۰۹/۳)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ (بخاري بَاب الْأَكْلِ يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ الْخُرُوجِ ۹۰۰)
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنْ المسلمین وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ فَيَبْدَأُ بِالصَّلَاةِ فَإِذَا صَلَّى صَلَاتَهُ وَسَلَّمَ قَامَ فَأَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ وَهُمْ جُلُوسٌ فِي مُصَلَّاهُمْ فَإِنْ كَانَ لَهُ حَاجَةٌ بِبَعْثٍ ذَكَرَهُ لِلنَّاسِ أَوْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ بِغَيْرِ ذَلِكَ أَمَرَهُمْ بِهَا وَكَانَ يَقُولُ تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا وَكَانَ أَكْثَرَ مَنْ يَتَصَدَّقُ النِّسَاءُ ثُمَّ يَنْصَرِفُ۔(مسلم، كِتَاب صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ:۱۴۷۲)
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الْأَنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ قَالَتْ وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَمَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ فِي يَوْمِ عِيدٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا۔(بخاری، بَاب سُنَّةِ الْعِيدَيْنِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ:۸۹۹)
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ مِنْ السُّنَّةِ أَنْ تَخْرُجَ إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا وَأَنْ تَأْكُلَ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَشْيِ يَوْمَ الْعِيدِ ۴۸۷) عن سَالِم بْن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُكَبِّرُ يَوْمَ الْفِطْرِ مِنْ حِينِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ حَتَّى يَأْتِىَ الْمُصَلَّى (دارقطني العيدين ۱۷۳۳)
(۱۲) عیدین کی نماز سے پہلے گھر میں نفل پڑھنا مکروہ ہے۔ اسی طرح عیدین کی نماز سے پہلے عیدگاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے۔ اسی طرح عیدین کی نماز کے بعد عیدگاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے،البتہ گھر میں نفل پڑھنا مکروہ نہیں ۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا (مسلم، بَاب تَرْكِ الصَّلَاةِ قَبْلَ الْعِيدِ وَبَعْدَهَا فِي الْمُصَلَّى ۱۴۷۶) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَلِّي قَبْلَ الْعِيدِ شَيْئًا فَإِذَا رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ (ابن ماجه بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِيدِ وَبَعْدَهَا ۱۲۸۳)
نماز عیدین کا طریقہ
جب عید کی نماز ادا کرنے کا ارادہ کرے تو امام کے ساتھ کھڑا ہو جائے ،نماز عید اور امام کی متابعت کی نیت کرے اور تکبیرتحریمہ کہے، پھر ثناء پڑھے، پھر امام کے ساتھ تین تکبیریں (زائد) کہے ، ہر مرتبہ میں اپنے ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھائے۔حوالہ
عَنْ بَكْرِ بْنِ سُوَادَةَ :أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ فِى الْجَنَازَةِ وَالْعِيدَيْنِ(السنن الكبري للبيهقي باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِى تَكْبِيرِ الْعِيدِ ۶۴۱۰)
پھر خاموش رہے ، اور امام آہستہ سے اعوذ باللہ ۔۔۔ الخ بسم اللہ ۔۔۔الخ کہے، پھر جہراً سورہ فاتحہ پڑھے پھر اس کے ساتھ دوسری سورۃ ملالے ، امام کا پہلی رکعت میں سورۂ اعلی پڑھنا مستحب ہے ، پھر امام کے ساتھ رکوع و سجدہ کرے ، جیسا کہ روزانہ کی نمازوں میں رکوع وسجدہ کیاجاتا ہے ، جب امام کے ساتھ دوسری رکعت کیلئے کھڑا ہو تو خاموش کھڑا ہو جائے ، اور امام آہستہ سے بسم اللہ ۔۔۔الخ پڑھے پھر جہراً سورۂ فاتحہ پڑھے اوردوسری سورت پڑھے، امام کا دوسری رکعت میں سورہ غاشیہ کا پڑھنا مستحب ہے۔ حوالہ
عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَفِي الْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ (مسلم، بَاب مَا يُقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْجُمُعَةِ ۱۴۵۲) ۔
پھر جب امام قرأت سے فارغ ہو جائے تو تیں تکبیریں کہے اور مقتدی بھی اس کے ساتھ تکبیریں کہے ، ہر مرتبہ میں اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے۔ حوالہ
أ ن بن مسعود کان یکبر فی العیدین تسعا تسعا أربعا قبل القراء ۃ ثم کبر فرکع وفی الثانیۃ یقرأ فإذا فرغ کبر أربعا ثم رکع (مصنف عبدالرزاق، باب التکبیر فی الصلاۃ یوم العید، حدیث نمبر:۵۶۸۶) عَنْ بَكْرِ بْنِ سُوَادَةَ :أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ فِى الْجَنَازَةِ وَالْعِيدَيْنِ (السنن الكبري للبيهقي باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِى تَكْبِيرِ الْعِيدِ ۶۴۱۰)
پھر رکوع سجدہ کرے، اور روزانہ کی نمازوں کی طرح نماز کو مکمل کرے، جب امام نماز سے فارغ ہو جائے تو دو خطبہ دے ۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ شَهِدْتُ صَلَاةَ الْفِطْرِ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ فَكُلُّهُمْ يُصَلِّيهَا قَبْلَ الْخُطْبَةِ (مسلم، كِتَاب صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ ۱۴۶۴)
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيُذَكِّرُ النَّاسَ (مسلم، بَاب ذِكْرِ الْخُطْبَتَيْنِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَمَا فِيهِمَا مِنْ الْجَلْسَةِ ۱۴۲۶)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْعِيدِ ، فِي الأُولَى سَبْعَ تَكْبِيرَاتٍ بِتَكْبِيرَةِ الافْتِتَاحِ ، وَفِي الآخِرَةِ سِتًّا بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ ، كُلُّهُنَّ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ. (مصنف ابن ابي شيبة فِي التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ وَاخْتِلاَفِهِمْ فِيهِ ۱۷۳/۲)
عن علقمة و الأسود بن يزيد :أن ابن مسعود كان يكبر في العيدين تسعا أربعا قبل القراءة ثم يكبر فيركع وفي الثانية يقرأ فإذا فرغ كبر أربعا ثم ركع (المعجم الکبیر،باب عبداللہ بن مسعود ، حدیث نمبر:۹۵۱۷، جلدنمبر:۹/۳۰۴۔)
عَنْ عُمُومَةٍ لَهُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَكْبًا جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْهَدُونَ أَنَّهُمْ رَأَوْا الْهِلَالَ بِالْأَمْسِ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يُفْطِرُوا وَإِذَا أَصْبَحُوا أَنْ يَغْدُوا إِلَى مُصَلَّاهُمْ (ابوداود بَاب إِذَا لَمْ يَخْرُجْ الْإِمَامُ لِلْعِيدِ مِنْ يَوْمِهِ يَخْرُجُ مِنْ الْغَدِ ۹۷۷)
جس کی امام کے ساتھ عیدین کی نماز فوت ہو جائے تو وہ اس کی قضاء نہ کرے ، اس لئے کہ وہ بغیر جماعت کے صحیح نہیں ہوتی۔ حوالہ
قَالَ يَحْيَى :يُقَالَ :لاَ جُمُعَةَ ، وَلاَ أَضْحَى ، وَلاَ فِطْرَ إِلاَّ لِمَنْ حَضَرَ مَعَ الإِمَام. (مصنف ابن ابي شيبة فِي الْقَوْمِ يَكُونُونَ فِي السَّوَادِ ، فَتَحْضُرُ الْجُمُعَةُ ، أَوِ الْعِيدُ ۱۹۱/۲)
عید الاضحی کے احکام
عید الاضحی کے احکام عید الفطر کے احکام کی طرح ہیں۔
اور عیدالاضحی کی نماز بھی عیدالفطرکی نماز کی طرح ہے مگر عید الاضحی میں کھانے کو نماز سے مؤخر کیا جائے۔ حوالہ
عن سليمان بن موسى أن في الاضحى عندهم ما في الفطر (مصنف عبد الرزاق باب التكبير في الصلاة يوم العيد ۲۹۵/۳) عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ وَلَا يَطْعَمُ يَوْمَ الْأَضْحَى حَتَّى يُصَلِّيَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَكْلِ يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ الْخُرُوجِ۴۹۷)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّهُ كَانَ يَغْدُو يَوْمَ الْعِيدِ ، وَيُكَبِّرُ ، وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ حَتَّى يَبْلُغَ الإِمَامُ. (مصنف ابن ابي شيبة فِي التَّكْبِيرِ إِذَا خَرَجَ إِلَى الْعِيدِ ۱۶۴/۲)
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيُذَكِّرُ النَّاسَ (مسلم، بَاب ذِكْرِ الْخُطْبَتَيْنِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَمَا فِيهِمَا مِنْ الْجَلْسَةِ ۱۴۲۶)
لِأَنَّ الصَّلَاةَ مُوَقَّتَةٌ بِوَقْتِ الْأُضْحِيَّةِ، فَتَتَقَيَّدُ بِأَيَّامِهَا (نصب الراية بَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ ۲۲۲/۲)
تکبیر تشریق عرفہ کے دن (نویں ذی الحجہ)کی فجر سے تیرھویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر اس شخص پر ایک مرتبہ جہراً پڑھنا واجب ہے جو فرض پڑھے خواہ جماعت کے ساتھ پڑھے یا تن تنہا پڑھے خواہ وہ مسافر ہو یا مقیم ، مذکر ہو یا مؤنث ، گاؤں والا ہو یا شہروالا۔حوالہ
وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ (البقرة:۲۰۳) ،مذکورہ آیت ایامِ تشریق کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے اور اس میں جمع کے صیغہ کے ذریعہ حکم دیا گیا جس میں مرد عورت سبھی شامل ہیں۔عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُكَبِّرُ فِى صَلاَةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ حِينَ يُسَلِّمُ مِنَ الْمَكْتُوبَاتِ . (دارقطني العيدين ۱۷۵۴)۔
No comments:
Post a Comment