Thursday 28 February 2013

مسنون نمازیں


یہ وہ نمازیں ہیں جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا تقرب حاصل کرنے کیلئے فرائض پر زیادہ کر کے پڑھتے تھے، بعض اوقات ان سنتوں کی پابندی کرتے تھے اور کبھی چھوڑ دیتے تھے وہ نمازیں جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پابندی کیا کرتے تھے انہیں سنت مؤکدہ کہا جاتا ہے ، اور وہ نمازیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار پڑھا کرتے تھے ان کو غیر مؤکدہ یا مستحب کہا جاتا ہے ۔


(۱)فجر کی فرض سے پہلے دورکعت۔حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَعُ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ(بخاری، اب الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ ۱۱۱۰)
(۱) ظہر کی فرض سے پہلے ایک سلام سے چار رکعت۔حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَعُ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ(بخاری، باب الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ ۱۱۱۰)
(۳) ظہر کی فرض کے بعد دو رکعت۔حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ(ترمذي اب مَا جَاءَ فِيمَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْ السُّنَّةِ۳۷۹)
(۴) مغرب کی فرض کے بعد دو رکعت۔حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ(ترمذي اب مَا جَاءَ فِيمَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْ السُّنَّةِ۳۷۹)
(۵) عشاء کی فرض کے بعد دو رکعت۔حوالہ
           عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ(ترمذي اب مَا جَاءَ فِيمَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْ السُّنَّةِ۳۷۹)
(۶) جمعہ کی فرض سے پہلے ایک سلام سے چار رکعت۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ   يَرْكَعُ قَبْلَ الْجُمُعَةِ أَرْبَعًا لَا يَفْصِلُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ (ابن ماجہ، باب مَاجَاءَ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ الْجُمُعَةِ،حدیث نمبر:۱۱۱۹)۔ 
(۷) جمعہ کی فرض کے بعد ایک سلام سے چار رکعت ۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَاصَلَّى أَحَدُكُمْ الْجُمُعَةَ فَلْيُصَلِّ بَعْدَهَا أَرْبَعًا (مسلم، بَاب الصَّلَاةِ بَعْدَ الْجُمُعَةِ، حدیث نمبر:۱۴۵۷)۔



سنت غیر مؤکدہ




(۱) عصر کی فرض سے پہلے چار رکعت۔حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَعَنْ النَّبِيِّ   قَالَ رَحِمَ اللَّهُ امْرَأً صَلَّى قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَرْبَعِ قَبْلَ الْعَصْرِ، حدیث نمبر:۳۹۵)۔
(۲) مغرب کے بعد چھ رکعت۔حوالہ
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَكَعَاتٍ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيمَا بَيْنَهُنَّ بِسُوءٍ عُدِلْنَ لَهُ بِعِبَادَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّطَوُّعِ وَسِتِّ رَكَعَاتٍ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، حدیث نمبر:۳۹۹)۔
(۳) عشاء کے فرض سے پہلے چار رکعت۔حوالہ
 وعن سعيد بن جبير رحمه الله : كانوا يستحبون أربع ركعات قبل العشاء الآخرة(مختصر قيام الليل لمحمد بن نصر المروزي ۸۵/۱،موقع جامع الحديث)
(۴) عشاء کے بعد چار رکعت۔حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ سَأَلْتُهَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ مَاصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ قَطُّ فَدَخَلَ عَلَيَّ إِلَّاصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ أَوْسِتَّ رَكَعَاتٍ (ابوداؤد، بَاب الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعِشَاءِ،حدیث نمبر:۱۱۰۸)۔

مسئلہ: سنت اورنفل نمازیں فرض ہی کی طرح پڑھی جائیں گی، لیکن سنت اورنفل کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورۃ ملائی جائیگی۔حوالہ
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ   أَنْ أُنَادِيَ أَنَّهُ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَمَا زَادَ (ابوداؤد، باب من ترک القرأۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب، حدیث نمبر:۶۹۷)۔
مسئلہ:  اگر دو رکعت سے زیادہ نفل پڑھے، اورآخیر ہی میں بیٹھے تو اس کی نفل کراہت کے ساتھ جائز ہے ۔
مسئلہ:  دن میں ایک سلام سے چار رکعت سے زیادہ نمازیں پڑھنا مکروہ ہے اور رات میں ایک سلام سے آٹھ رکعت سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے۔حوالہ
 عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ قَالَفَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ وِتْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَدُلُّكَ عَلَى أَعْلَمِ النَّاسِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأْتِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَأَتَيْتُهَاقَالَ قُلْتُ حَدِّثِينِي عَنْ وِتْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ يُوتِرُ بِثَمَانِ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَةً أُخْرَى لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ وَالتَّاسِعَةِ وَلَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي التَّاسِعَةِ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ)ابوداود بَاب فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ ۱۱۴۴)
 امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک بہتر یہ ہے کہ رات میں دو دو اور دن میں چار چار رکعت پڑھی جائیں ، قیام اور قرأت کا لمبا کرنا رکعتوں کی کثرت سے بہتر ہے۔حوالہ
 عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ فَقَالَ كَيْفَ صَلَاةُ اللَّيْلِ فَقَالَ مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا خَشِيتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ تُوتِرُ لَكَ مَا قَدْ صَلَّيْتَ(بخاري اب الْحِلَقِ وَالْجُلُوسِ فِي الْمَسْجِدِ ۴۵۳) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْءٍ قُلْنَا وَمَا هَمَمْتَ قَالَ هَمَمْتُ أَنْ أَقْعُدَ وَأَذَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(بخاري باب طُولِ الْقِيَامِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ ۱۰۶۷) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ الْخَثْعَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ طُولُ الْقِيَامِ(ابوداود باب افْتِتَاحِ صَلَاةِ اللَّيْلِ بِرَكْعَتَيْنِ۱۱۲۹)




مستحب نمازیں اور شب بیداری




مسجد میں جانے والے کا بیٹھنے سے پہلے دورکعت پڑھنا مستحب ہے اور اس نماز کو تحیۃ المسجد کہا جاتا ہے ، اور اگر بیٹھنے کے بعد دورکعت پڑھ لے تب بھی کوئی حرج نہیں۔حوالہ
 عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَادَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ۔
(بخاری، بَاب إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ، حدیث نمبر:۴۲۵)
اور اگر مسجدمیں داخل ہونے کے بعد فرض نماز یا کوئی دوسری نماز پڑھے اور اس نماز سے تحیۃ المسجد کی نیت نہ کرے تو بھی یہ نماز تحیۃ المسجد کی طرف سے کفایت کرے گی۔حوالہ
 وفي شرح المنية عن مختصر البحر:ودخوله المسجد بنية الفرض والاقتداء ينوب عن تحية المسجد وانما يومر بتحية المسجداذا دخله بغير صلاة  (بحوالة اعلاء السنن ۴۱/۷)
          وضو کرنے کے بعد اعضاء کا پانی سوکھنے سے پہلے دو رکعت مستحب ہے ، اس نماز کو تحیۃ الوضو کہا جاتا ہے ۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الْإِسْلَامِ فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ قَالَ مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طَهُورًا فِي سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ (بخاری، باب فضل الطھور باللیل والنھار،حدیث نمبر:۱۰۸۱۔)




نماز تہجد




نماز تہجد کی حدیث میں بہت زیادہ فضیلت آئی ہے اور تمام نفلوں میں تہجد کا ثواب زیادہ ملتا ہے یہ نماز آدھی رات میں اُٹھ کر پڑھی جاتی ہے ، لیکن اس کے لئے سونا شرط نہیں ہے اور چاررکعت سے بارہ رکعت تک ثابت ہے اور اگر چار نہ ہو تو دو رکعت ہی پڑھ لیا کریں وہ بھی تہجد میں داخل ہوگی ۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْمَفْرُوضَةِ صَلَاةٌ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ (مسند احمد مسند ابي هريرة۸۴۸۸)عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْهَا الْوِتْرُ وَرَكْعَتَا الْفَجْرِ(بخاري باب كَيْفَ كَانَ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۱۰۷۲) عَنْ عَائِشَة عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ يَنَامُ أَوَّلَ اللَّيْلِ… ثُمَّ صَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ(مسلم، اب صَلَاةِ اللَّيْلِ وَعَدَدِ رَكَعَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اللَّيْلِ ۱۲۲۳)




نماز اشراق




حدیث پاک میں نماز اشراق کی فضیلت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک مرتبہ جہاد کے لئے لشکر بھیجا جو بہت ہی جلد واپس لوٹ آیا اور ساتھ ہی بہت سارا مال غنیمت لے کر آیا، لوگوں کو بڑا تعجب ہوا کہ اتنی ذراسی مدت میں ایسی بڑی کامیابی اور مال و دولت کے ساتھ واپس آگیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں تمہیں اس سے بھی کم وقت میں اس مال سے بہت زیادہ غنیمت اور دولت کمانے والی جماعت بتاؤں ، یہ وہ لوگ ہیں، جو صبح کی جماعت میں شریک ہوں اور آفتاب نکلنے تک اسی جگہ بیٹھے رہیں، پھر اس آفتاب کے نکلنے کے بعد (جب مکروه وقت جو تقریبا بیس منٹ رہتا ہے نکل جائے) تو دو رکعت (اشراق کی نماز) پڑھیں؛ یہ لوگ ہیں جو بہت تھوڑے  وقت میں بہت زیادہ دولت کمانے والے ہیں۔نیز ان کو ایک حج اور عمرہ کا ثواب بھی ملتا ہے۔حوالہ
(ترمذی، شریف:باب ذِكْرِ مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ الْجُلُوسِ فِي الْمَسْجِدِ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حديث نمبر:۵۳۵/۱۰۸،ج /۱)




نماز چاشت




 حدیث پاک میں نماز چاشت کی فضیلت
جب سورج خوب روشن ہو جائے اورتقریباً دس گیارہ بجے کا وقت ہو جائے تو چاشت کی نماز پڑھنا بہت زیادہ فضیلت کی چیز ہے ، جو شخص چاشت کی نماز پڑھتا ہے ، اس کے لئے اللہ تعالی جنت میں گھر بناتا ہے اور چاشت کی نماز ، نماز تہجد کی طرح دو رکعت سے بارہ رکعت تک ثابت ہے ۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو السَّهْمِيِّ ، يَرْفَعْهُ إِلَى أَبِي ذَرٍّ ، وَهُوَ يَرْفَعْهُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ :مَنْ صَلَّى الضُّحَى سَجْدَتَيْنِ لَمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِينَ ، وَمَنْ صَلَّى أَرْبَعًا كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِينَ ، وَمَنْ صَلَّى سِتًّا كُفِيَ ذَلِكَ الْيَوْمِ ، وَمَنْ صَلَّى ثَمَانِيًا كَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْعَابِدِينَ ، وَمَنْ صَلَّى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ،(السنن الصغري للبيهقي باب صلاة الضحى ۸۳۷)




صلٰوۃ التسبیح




حدیث شریف میں صلوٰۃ التسبیح کی فضیلت
صلٰوۃ التسبیح کا حدیث شریف میں بڑا ثواب منقول ہے ، اس کے پڑھنے سے بے انتہاء ثواب ملتا ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو یہ نماز سکھلائی تھی اور فرمایا تھا اس کے پڑھنے سے تمہارے تمام گناہ اگلے پچھلے نئے پرانے چھوٹے بڑے غلطی سے کئے ہوئے اور جان بوجھ کر کئے ہوئے چھپ کر کئے ہوئے اور کھلم کھلا کئے ہوئے سبھی گناہ اللہ تعالی معاف کردیں گے اور فرمایا کہ اگر ہو سکے تو یہ نماز روزآنہ پڑھ لیا کرو اور اگر نہ ہوسکے تو ہر ہفتہ میں ایک بار پڑھ لیا کرو اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو مہینہ میں ایک بار پڑھ لیا کرو اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں ایک دفعہ پڑھ لیا کرو اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کم از کم زندگی بھر میں ایک بار تو ضرور پڑھ لیا کرو ۔ حوالہ
(سنن ابی داؤد ، باب صلاة التسبيح، حدیث نمبر:۱۱۰۵)
بند
صلوٰۃ التسبیح پڑھنے کے دو طریقے ہیں:
(۱)چار رکعت کی نیت باندھ کر ثناء ،أعوذباللہ، بسم اللہ اور قرأت کے بعد رکوع سے پہلے پندرہ مرتبہ سبحان اللہ والحمد اللہ ولا الا اللہ واللہ اکبر پڑھ کر رکوع کرے اور رکوع میں تین مرتبہ سبحان ربی العظیم کہنے کے بعد پھر یہی تسبیح دس مرتبہ پڑھے ، پھر رکوع سے اٹھے اور سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کے بعد قومہ میں دس بار پڑھے ، پھر سجدہ کرے ، اس میں تسبیح کے بعد دس مرتبہ پڑھے، پھرسجدہ سے سر اٹھا کر اللہ اکبر کہہ کر بیٹھے اور دس مرتبہ پڑھ کر پھردوسرے سجدہ میں دس مرتبہ پڑھ کربغیر بیٹھے اللہ اکبر کہہ کر دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے ؛ پھردس مرتبہ تسبیح پڑھے تو اس طرح ایک رکعت میں ۷۵/مرتبہ ہوگئے اور اسی طرح دوسری رکعت پڑھ کر جب التحیات کے لئے بیٹھے تو اولا دس مرتبہ پڑھ کر ، پھر التحیات پڑھے اس طرح چاروں رکعتیں پوری کرلیا کرے ۔ یہ کل۳۰۰ مرتبہ ہوگئے۔    
(۲) نیت باندھ کر ثناء کے بعد پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے، پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ اور قرأت کے بعد رکوع سے پہلے دس مرتبہ ، پھر رکوع میں دس مرتبہ ،پھر رکوع سے کھڑے ہو کر دس مرتبہ ، پھر سجدہ میں دس مرتبہ ، پھر سجدہ سے اٹھ کر دس مرتبہ پھر دوسرے سجدے میں دس مرتبہ پڑھ کر بغیر بیٹھے اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہو جائے ، تو یہ ایک رکعت میں ۷۵ مرتبہ ہوگئے اور اس طرح چار رکعت پوری کرے تو کل تین سو مرتبہ ہو جائیں گے ، یہ طریقہ عام لوگوں کے لئے آسان ہے
۔

(بخاري بَاب صَلَاةِ التَّسْبِيحِ ۱۱۰۵)

اس نماز میں پانچ امور قابل لحاظ ہیں:
(۱) یہ نماز مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت پڑھنا جائز ہے۔حوالہ
 عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ أَوْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ(ترمذي باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا ۹۵۱)
 (۲) ان رکعتوں کے لئے قرآن کریم کی کوئی سورت متعین نہیں ہے جو سورۃ بھی یاد ہو پڑھ سکتا ہے ۔حوالہ
 عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أُمِرْنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَا تَيَسَّرَ(ابوداود باب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ۶۹۵)
(۳) ان تسبیحوں کو زبان سے ہرگز نہ گنے ، کیوں کہ اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ، ہاں البتہ ہاتھ کی انگلیوں کو ہر تسبیح کے ساتھ اپنی جگہ رکھ كر دبا دیا جائے اور اس طرح یادرکھا کرے تو جائز ہے۔حوالہ
 عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ كَانَ أَحَدُنَا يُكَلِّمُ الرَّجُلَ إِلَى جَنْبِهِ فِي الصَّلَاةِ فَنَزَلَتْ{ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ }فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ وَنُهِينَا عَنْ الْكَلَامِ(بخاري بَاب النَّهْيِ عَنْ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ ۸۱۲)
(۴) اگر کسی رکن میں تسبیح پڑھنا بھول جائے تو بعد کے کسی بھی رکن میں اس کو پوری کرسکتا ہے ۔حوالہ
 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ{ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي } (بخاري باب مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ ۵۶۲)
(۵) اگر سجدہ سہو لازم آجائے تو سجدہ سہو میں یہ تسبیح پڑھنے کی ضرورت نہیں۔حوالہ
عن مُعَاوِيَةَ … فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ نَسِيَ شَيْئًا مِنْ صَلَاتِهِ فَلْيَسْجُدْ مِثْلَ هَاتَيْنِ السَّجْدَتَيْنِ)نسائي باب مَا يَفْعَلُ مَنْ نَسِيَ شَيْئًا مِنْ صَلَاتِهِ ۱۲۴۳) 




نماز استخارہ




استخارہ کے معنی اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی کو طلب کرنے کے ہیں اور استخارہ کر کے جو کام کیا جائے اس میں اللہ تعالی ضرور کامیابی عطا فرمائے گا ، پریشانی نہیں اٹھانی پڑگی۔ جب کوئی کام پیش آجائے شادی یا سفر یا کوئی اور کام کرنے کا ارادہ ہو تو ضرور استخارہ کرلینا چاہئے انشاء اللہ خیر ہی خیر ہوگی۔حوالہ
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا كَالسُّورَةِ مِنْ الْقُرْآنِ إِذَا هَمَّ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ (بخاري بَاب الدُّعَاءِ عِنْدَ الِاسْتِخَارَةِ: ۵۹۰۳)قَالَ اِبْن أَبِي جَمْرَة : هُوَ عَامّ أُرِيدَ بِهِ الْخُصُوص ، فَإِنَّ الْوَاجِب وَالْمُسْتَحَبّ لَا يُسْتَخَار فِي فِعْلهمَا وَالْحَرَام وَالْمَكْرُوه لَا يُسْتَخَار فِي تَرْكهمَا ، فَانْحَصَرَ الْأَمْر فِي الْمُبَاح وَفِي الْمُسْتَحَبّ إِذَا تَعَارَضَ مِنْهُ أَمْرَانِ أَيّهمَا يَبْدَأ بِهِ وَيَقْتَصِر عَلَيْهِ . قُلْت : وَتَدْخُل الِاسْتِخَارَة فِيمَا عَدَا ذَلِكَ فِي الْوَاجِب وَالْمُسْتَحَبّ الْمُخَيَّر ، وَفِيمَا كَانَ زَمَنه مُوَسَّعًا وَيَتَنَاوَل الْعُمُوم الْعَظِيم مِنْ الْأُمُور وَالْحَقِير ، فَرُبَّ حَقِير يَتَرَتَّب عَلَيْهِ الْأَمْر الْعَظِيم . (فتح الباري بَاب الدُّعَاءِ عِنْدَ الِاسْتِخَارَةِ: ۱۷۱/۱۸)
استخارہ کا طریقہ:استخارہ کی نیت یعنی دو رکعت نفل استخارہ کی نیت کرتا ہوں اور زبان سے کہنا لازم نہیں ، صرف دل میں نیت کرلینا بھی کافی ہے ، اس طرح نیت کر کے سونے سے قبل دو رکعت نفل پڑھ کر خوب دل لگا کر یہ دعاء تین مرتبہ پڑھے ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمَ فَاِنَّکَ تَقْدِرُوَلاَ أَقْدِرُ فَاِنَّکَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ، اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَاالْأَمْرُ خَیْرٌلِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَۃُ أَمْرِیْ فَاَقْدِرْہُ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرُ شَرٌّ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَۃُ أَمْرِیْ وَاٰجِلْہُ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَأَصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاَقْدِرْ لِیْ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِیی بِہٖ۔حوالہ
(ترمذی:۱/۱۹۰)
اور ھذا الأمر پر پہنچے تو اس کام كو دھیان میں لائے جس کے لیے استخارہ کیا ہے پھر دعا سے فارغ ہونے کے بعدقبلہ کی طرف منہ کر کے باوضو سو جائے جب سوکر اٹھے تو اس وقت جس بات کی طرف دلی رجحان پختہ ہو جائے اس کو اختیار کرنا بہتر ہے اور استخارہ کا یہی مقصد ہے اور اگر دل میں خلجان اور تردد باقی رہے تو پھر دوسری رات اسی طرح کرے انشاء اللہ سات روز کے اندر اندر اس کام کی برائی بھلائی معلوم ہو جائے گی۔حوالہ
(شامی کراچی:۲/۲۶)
استخارہ کی نماز مستحب ہے اور وہ دو رکعت ہے:حوالہ
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ يَقُولُ إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ الخ۔
(بخاري، باب مَا جَاءَ فِي التَّطَوُّعِ مَثْنَى مَثْنَى:۱۰۹۶)



نماز حاجت




جب کسی کو دینی یا دنیوی کوئی ضرورت پیش آجائے تو بہت اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالی کی خوب حمد و ثناء کرے، پھر اول وآخر درود شریف پڑھ کر ان الفاظ کے ساتھ دعا کرے:
لاَاِلٰہَ اِلاَّاللہ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمِ، سُبْحَانَ اللہ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، أَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتُ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرِّوَالسَّلاَمَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لاَ تَدَعْ لَنَاذَنْبًااِلاَّغَفَرْتَہْ، وَلاَ ھَمَّااِلاَّفَرَّجْتَہْ وَلاَحَاجَۃً ھِیَ لَکَ رِضًااِلاَّ قَضَیْتَہٗ یَاأَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ انشاء اللہ حاجت پوری ہو جائے گی۔حوالہ
(ترمذی، شریف:ص/۱۰۹،ج/۲)
صلوۃ الحاجت (ضرورت طلب کرنے کی نماز) مستحب ہے اور وہ دورکعت ہے ۔حوالہ
 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى اللَّهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَى أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأْ فَلْيُحْسِنْ الْوُضُوءَ ثُمَّ لِيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي صَلَاةِ الْحَاجَةِ ۴۴۱)




نمازوں کا نقشہ


نماز

سنت مؤکدہ فرض سے پہلے

سنت غیر مؤکدہ فرض سےپہلے

فرض نمازیں

سنت مؤکدہ فرض کےبعد

واجب

نفل

کیفیت

فجر

۲

۔

۲

۔

۔

۔



ظہر

۴

۔

۴

۲

۔

۲

سفر میں فرض دورکعت ہوگی

عصر

۔

۴

۴

۔

۔



سفر میں فرض دورکعت ہوگی

مغرب

۔

۔

۳

۲

۔

۲



عشاء

۔

۴

۴

۲

۳

۲

سفر میں فرض دورکعت ہوگی

جمعہ

۴

۔

۲

۴

۔

۲

نماز سے پہلےخطبہ ہوگا

عیدین

۔

۔



۔

۲

۔

نماز کےبعدخطبہ ہوگا



کن راتوں میں جاگنا مستحب ہے


رمضان کے آخری عشرے کی راتوں کا جاگنا مستحب ہے۔حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ(بخاري باب الْعَمَلِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ۱۸۸۴)
عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں کا جاگنا مستحب ہے۔حوالہ
 عن معاذ بن جبل من أحيى الليالي الأربع وجبت له الجنة ليلة التروية وليلة عرفة وليلة النحر وليلة الفطر(مسند الفردوس ۳۹۴/۱)
ذی الحجہ كےپہلےعشره کی دس راتوں کا جاگنا مستحب ہے۔حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ: ۶۸۹)
پندرھویں شعبان کی رات کا جاگنا مستحب ہے۔حوالہ
 عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ(ابن ماجة باب مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ۱۳۷۸)
ان راتوں میں بیداری کے لئے مجمع کی شکل میں اکھٹے ہونا مکروہ ہے اگر یہ اکھٹے ہونا بلاوے کے ذریعہ ہو، اگر یہ اکھٹے ہونا بغیر بلاوے کے ہو تو کوئی حرج نہیں۔حوالہ
 عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً قَالَ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ مِنْ حَصِيرٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى فِيهَا لَيَالِيَ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَلَمَّا عَلِمَ بِهِمْ جَعَلَ يَقْعُدُ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ قَدْ عَرَفْتُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلَاةِ صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ(بخاري بَاب صَلَاةِ اللَّيْلِ  ۶۸۹) مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ مسجد میں نماز کے لیے اکھٹے ہونا صرف فرائض کے لیے ہے نوافل کے لیے نہیں اور نماز عبادات میں سب سے اہم عبادت ہے، جب اس کے لیے مذکورہ حکم ہے تواس کے علاوہ جتنے عبادات ہونگے ان سب کے نوافل كا یہی حکم ہوگا اور چونکہ ان راتوں میں اکٹھے ہونے کا ثبوت زمانہ نبوت اور خیرالقرون میں بھی نہیں ہے، اس لیے فقہاءِ کرام نے اسے مکروہ قرار دیا۔ ويكره الاجتماع على إحياء ليلة من هذه الليالي في المساجد وغيرها؛ لأنه لم يفعله النبي صلّى الله عليه وسلم ولا الصحابة (الفقه الاسلامي وادلته النوافل عند الحنفية: ۲۳۰/۲)


بیٹھ کر نماز


مسئلہ:کھڑے ہونے پر قادر ہونے کے باوجود بیٹھ کر فرض نماز پڑھنا صحیح نہیں ۔ حوالہ
 عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(بخاري بَاب إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ۱۰۵۰)
مسئلہ:کھڑے ہونے پر قادر ہونے کے باوجود بیٹھ کر واجب پڑھنا صحیح نہیں۔ حوالہ
 عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(بخاري بَاب إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ۱۰۵۰)
مسئلہ:کھڑے ہونے پر قادر ہونےکےباوجود نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا صحیح ہے۔ حوالہ
 عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَقَالَ مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ(بخاري باب صَلَاةِ الْقَاعِدِ بِالْإِيمَاءِ ۱۰۴۹)
جو شخص بغیر عذر کے بیٹھ کر نماز پڑھے اسے کھڑے ہونے والے کے مقابلہ میں آدھا ثواب ملےگا۔ حوالہ
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَقَالَ مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ(بخاري باب صَلَاةِ الْقَاعِدِ بِالْإِيمَاءِ ۱۰۴۹)
مسئلہ:جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھے وہ تشہد میں بیٹھنے کی طرح بیٹھے۔ حوالہ
عَنْ عِيسَى بْنِ أَبِي عَزَّةَ ، قَالَ :كَانَ الشَّعْبِيُّ يُصَلِّي وَهُوَ جَالِسٌ ، وَيَقْعُدُ كَمَا تَقْعُدُونَ أَنْتُمْ فِي الصَّلاَة.(مصنف ابن ابي شيبة  الرجل يصلي وَهُوَ جَالِسٌ. ۵۲۷/۲)
مسئلہ:اگر نفل کھڑے ہو کر شروع کی جائے تو بغیر کراہت کے بیٹھ کر مکمل کرنا جائز ہے۔ حوالہ
وَقَالَ الْحَسَنُ إِنْ شَاءَ الْمَرِيضُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ قَائِمًا وَرَكْعَتَيْنِ قَاعِدًا(بخاري بَاب إِذَا صَلَّى قَاعِدًا ثُمَّ صَحَّ أَوْ وَجَدَ خِفَّةً تَمَّمَ مَا بَقِيَ ۲۷۴/۴)

جانور پر نماز


مسئلہ:جانورکی پشت پر فرض صحیح نہیں ہوتی۔حوالہ
عن جَابِر بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ الْمَكْتُوبَةَ نَزَلَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ(بخاري بَاب يَنْزِلُ لِلْمَكْتُوبَةِ ۱۰۳۵)
مسئلہ:جانور کی پشت پر واجب صحیح نہیں ہوتی ۔حوالہ
 عَنْ { ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ وَيُوتِرُ بِالْأَرْضِ ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ كَذَلِكَ (شرح معاني الاثار بَابُ الْوِتْرِ هَلْ يُصَلَّى فِي السَّفَرِ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَمْ لَا ۲۵۹/۲)
چنانچہ نماز وتر، نذر کی نماز اور اس نفل کی قضاء جسے شروع کرنے کے بعد فاسد کیا گیا ہو، جانور پر جائز نہیں ۔حوالہ
 عَنْ { ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ وَيُوتِرُ بِالْأَرْضِ ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ كَذَلِكَ (شرح معاني الاثار بَابُ الْوِتْرِ هَلْ يُصَلَّى فِي السَّفَرِ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَمْ لَا ۲۵۹/۲) عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :كَانُوا يُصَلُّونَ عَلَى رَوَاحِلِهِمْ وَدَوَابِّهِمْ ، حَيْثُ مَا كَانَتْ وُجُوهُهُمْ ، إِلاَّ الْمَكْتُوبَةَ وَالْوِتْرَ ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَهُمَا عَلَى الأَرْضِ.(مصنف ابن ابي شيبة مَنْ كَرِهَ الْوِتْرَ عَلَى الرَّاحِلَةِ.۳۰۳/۲)
مسئلہ:اگر نمازی کے لئے کوئی عذر ہو جیسے زمین پر اترنے کی صورت میں دشمن کا خوف ہو، یا کسی درندہ کا خوف ہو یا کسی جانور کے حملہ کرنے کا اندیشہ ہو، یا اس جگہ کیچڑ ہو، ایسی صورت میں خواہ نماز فرض ہو یا واجب جانور پر صحیح ہے اسی طرح اگر کوئی ایسا شخص نہ ہو جو اسے جانور پر سوار کرائے اور وہ خود سے سوار نہ ہو سکتا ہو ۔حوالہ
 عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ قَالَ كُنْتُ أَسِيرُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ فَقَالَ سَعِيدٌ فَلَمَّا خَشِيتُ الصُّبْحَ نَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ ثُمَّ لَحِقْتُهُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَيْنَ كُنْتَ فَقُلْتُ خَشِيتُ الصُّبْحَ فَنَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِسْوَةٌ حَسَنَةٌ فَقُلْتُ بَلَى وَاللَّهِ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ عَلَى الْبَعِيرِ(بخاري بَاب الْوِتْرِ عَلَى الدَّابَّةِ ۹۴۴)۔
مسئلہ:سنن مؤکدہ جانور پر بھی جائز ہے۔حوالہ
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَقَالَ مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ (بخاري بَاب صَلَاةِ الْقَاعِدِ بِالْإِيمَاءِ: ۱۰۴۹)
 سوائے فجر کی سنت کے کہ اس میں اترے گا اس لئے کہ یہ دوسرے سنن کے مقابلہ میں مؤکدہ ہے۔حوالہ
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمْ يَكُنْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ)بخاري بَاب تَعَاهُدِ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ وَمَنْ سَمَّاهُمَا تَطَوُّعًا ۱۰۹۳) عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا(مسلم، بَاب اسْتِحْبَابِ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ وَالْحَثِّ عَلَيْهِمَا وَتَخْفِيفِهِمَا ۱۱۹۳)
اگر شہر کے باہر جانور پرنفل نماز پڑھے تو اشارہ سے نماز پڑھے ، خواہ جس جہت میں بھی جانور چل پڑے۔حوالہ
عَنْ عَامِر بْنَ رَبِيعَةَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الرَّاحِلَةِ يُسَبِّحُ يُومِئُ بِرَأْسِهِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ(بخاري بَاب يَنْزِلُ لِلْمَكْتُوبَةِ ۱۰۳۴)عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ وَذَكَرُوا الْأَنْصَارِيَّ يَقُولُ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ يُصَلِّي النَّوَافِلَ فِي كُلِّ وَجْهٍ وَلَكِنَّهُ يَخْفِضُ السَّجْدَتَيْنِ مِنْ الرَّكْعَةِ وَيُومِئُ إِيمَاء(مسند احمد مسند جابر بن عبد الله رضي الله عنه ۱۵۱۱۳)


کشتی میں نماز


مسئلہ:امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بغیر کسی عذر کے چلتی کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنا صحیح ہے۔حوالہ
 عَنْ أَنَسٍ :أَنَّهُ كَانَ إِذَا رَكِبَ السَّفِينَةَ فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ وَالسَّفِينَةُ مَحْبُوسَةٌ صَلَّى قَائِمًا وَإِذَا كَانَتْ تَسِيرُ صَلَّى قَاعِدًا فِى جَمَاعَةٍ.(السنن الكبري للبيهقي باب الْقِيَامِ فِى الْفَرِيضَةِ وَإِنْ كَانَ فِى السَّفِينَةِ مَعَ الَقُدْرَةِ۵۷۰۲)
مسئلہ:امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک بغیر عذر کے چلتی کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔حوالہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  جَعْفَرَ بْنَ أَبِى طَالِبٍ إِلَى الْحَبَشَةِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أُصَلِّى فِى السَّفِينَةِ قَالَ « صَلِّ فِيهَا قَائِمًا إِلاَّ أَنْ تَخَافَ الْغَرَقَ »(دارقطني باب صِفَةِ الصَّلاَةِ فِى السَّفَرِ وَالْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ وَصِفَةِ الصَّلاَةِ فِى السَّفِينَةِ۱۴۹۰)
مسئلہ:کشتی میں اس شخص کے لئے اشارہ سے نماز پڑھنا صحیح نہیں جو رکوع اور سجدہ پر قادر ہو۔حوالہ
 عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(بخاري بَاب إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ۱۰۵۰)
مسئلہ:اگر کشتی ساحل سے بندھی ہوئی ہو تو اس میں کھڑے ہونے کی قدرت کے باوجود بیٹھ کر نماز جائز نہیں-
مسئلہ:اگر وہ کشتی سے نہ نکل سکتا ہو تو خواہ کشتی بندھی ہوئی ہو یا چل رہی ہو اس میں نماز پڑھنا جائز ہے۔حوالہ
 عَنْ أَنَسٍ :أَنَّهُ كَانَ إِذَا رَكِبَ السَّفِينَةَ فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ وَالسَّفِينَةُ مَحْبُوسَةٌ صَلَّى قَائِمًا وَإِذَا كَانَتْ تَسِيرُ صَلَّى قَاعِدًا فِى جَمَاعَةٍ.(السنن الكبري للبيهقي باب الْقِيَامِ فِى الْفَرِيضَةِ وَإِنْ كَانَ فِى السَّفِينَةِ مَعَ الَقُدْرَةِ۵۷۰۲)عَنْ مُغِيرَةَ ، قَالَ :سَأَلْتُ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الصَّلاَة فِي السَّفِينَةِ ؟ فَقَالَ :إِنَ اسْتَطَاعَ أَنْ يَخْرُجَ فَلْيَخْرُجْ ، وَإِلاَّ فَلِيُصَلِّ قَائِمًا ، فَإِنَ اسْتَطَاعَ ، وَإِلاَّ فَلْيُصَلِّ قَاعِدًا وَيَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ كُلَّمَا تَحَرَّفَتْ(مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ :صَلِّ فِيهَا قَائِمًا.۲۶۷/۲)


ٹرین اور ہوائی جہاز پر نماز


مسئلہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق بغیر کسی عذر کے چلتی ٹرین اور اڑتے ہوئے جہاز میں بیٹھ کر فرض اور واجب پڑھنا صحیح ہے۔حوالہ
 عَنْ أَنَسٍ :أَنَّهُ كَانَ إِذَا رَكِبَ السَّفِينَةَ فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ وَالسَّفِينَةُ مَحْبُوسَةٌ صَلَّى قَائِمًا وَإِذَا كَانَتْ تَسِيرُ صَلَّى قَاعِدًا فِى جَمَاعَةٍ.(السنن الكبري للبيهقي باب الْقِيَامِ فِى الْفَرِيضَةِ وَإِنْ كَانَ فِى السَّفِينَةِ مَعَ الَقُدْرَةِ۵۷۰۲)
اور اکثرا ئمہ کے نزدیک فرض اور واجب چلتی ٹرین اور اڑتے ہوئے جہاز میں بغیر کسی عذر کے بیٹھ کر پڑھنا صحیح نہیں ، ہاں اگر اسے سر چکرانے کا عذر ہو تو صحیح ہے۔ اسی طرح اگر ٹرین اس طرح تیز چل رہی ہو کہ کھڑے رہنا دشوار ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھنا صحیح ہے ۔حوالہ
  عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ الْمَكْتُوبَةَ نَزَلَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ (بخاري بَاب يَنْزِلُ لِلْمَكْتُوبَةِ ۱۰۳۵) عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(بخاري بَاب إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ۱۰۵۰)
مسئلہ:اگر کوئی شخص دوسیٹوں کے درمیان نماز پڑھے اوربھيڑ کی بنا پر  ٹرین کے فرش پر سجدہ کرنا ممکن نہ ہونے کیوجہ سے سیٹ پر سجدہ کرلے تو یہ نماز صحیح ہوگی جیسا کہ جمعہ وغیرہ کی نماز میں بھی بھیڑ اور مجمع کثیر کی وجہ سے اس طرح کرنے سے نماز ہوجاتی ہے۔حوالہ
 عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : إذَا لَمْ يَسْتَطِعَ الرَّجُلُ أَنْ يَسْجُدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، فَلْيَسْجُدْ عَلَى ظَهْرِ أَخِيهِ. (مصنف ابن ابي شيبة في الرجل يَسْجُدُ عَلَى ظَهْرِ الرَّجُلِ: ۲۶۵/۱)
مسئلہ:اگر ٹرین کھڑی ہوئی ہو تو اس میں تمام ائمہ کے یہاں بغیر کسی عذر کے بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔حوالہ
 عَنْ أَنَسٍ :أَنَّهُ كَانَ إِذَا رَكِبَ السَّفِينَةَ فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ وَالسَّفِينَةُ مَحْبُوسَةٌ صَلَّى قَائِمًا وَإِذَا كَانَتْ تَسِيرُ صَلَّى قَاعِدًا فِى جَمَاعَةٍ.(السنن الكبري للبيهقي باب الْقِيَامِ فِى الْفَرِيضَةِ وَإِنْ كَانَ فِى السَّفِينَةِ مَعَ الَقُدْرَةِ۵۷۰۲) ثم إن مشايخنا كانوا يعدُّون القِطَار كالسريرِ المستقرِ على الأرض، فلا تجوز الصلاة فيه إلا قائمًا، وقيل: إنه كالسفينة، فتجوز قائمًا وقاعدًا وهو المختار عندي. وأما السفينة إذا كانت بشطِّ البحر، ففيه تفصيل مذكورٌ في الكتب. (فيض الباري: ۱۴۳/۲) اگر قبلہ رخ کر کے نماز شروع کرے پھر ٹرین یا ہوائی جہاز دوسرے رخ ہو جائے اگر پھر جانا ممکن ہو تو قبلہ کے جانب پھر جائے۔اگر قبلہ کے جانب پھر نہ سکے یا ٹرین یا ہوائی جہاز کا پھر جانا معلوم نہ ہوسکے تو نماز جائز ہے۔ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا  (البقرة: ۲۸۶) مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ انسان کواس کی قدرت سے زیادہ مکلف نہیں بناتے ہیں اور چلتی ٹرین یاہوائی جہاز میں نماز پڑھنے والا اس سے زیادہ کی قدرت نہیں رکھتا؛ اس لیے مذکورہ صورت میں نماز ہوجائے گی۔  عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :يَسْتَقْبِلُ الْقِبْلَةَ كُلَّمَا تَحَرَّفَتْ. (مصنف ابن ابي شيبة؛ مَنْ قَالَ :يَدُورُونَ مَعَ الْقِبْلَةِ حَيْثُ دَارَتْ. ۲۶۷/۲)

نماز تراویح


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَأَخَّرَ۔حوالہ
(بخاري بَاب تَطَوُّعُ قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ الْإِيمَانِ ۳۶)

ترجمہ:جو شخص رمضان میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ تراویح کا اہتمام کرے اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
مسئلہ:نماز تراویح مردوں اور عورتوں پر سنت مؤکدہ ہے۔حوالہ
 عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ وَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّى فَصَلَّوْا مَعَهُ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ فَلَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ( بخاري بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ۱۸۷۳)  عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ :أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ.(مصنف ابن ابي شيبة كم يصلي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ ۳۹۴/۲)
مسئلہ:نماز تراویح محلہ والوں کے لئے جماعت کے ساتھ سنت کفایہ ہے۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَانِي لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ فَقَالَ عُمَرُ نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ وَالَّتِي تَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنْ الَّتِي تَقُومُونَ يَعْنِي آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ(موطا مالك بَاب مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ ۲۳۱)عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَفَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ(مسند احمد  حديث العرباض بن سارية عن النبي صلى الله عليه و سلم ۱۷۱۸۴ )
نماز تراویح بیس رکعت ہیں۔حوالہ
 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ :كَانَ النَّبِىُّ  صلى الله عليه وسلم  يُصَلِّى فِى شَهْرِ رَمَضَانَ فِى غَيْرِ جَمَاعَةٍ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ(السنن الكبري للبيهقي  باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ ۴۷۹۹)
مسئلہ:تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے لے کر طلوع فجر تک ہے۔
وتر کو تراویح پر مقدم کرنا صحیح ہے ؛لیکن وتر پر تراویح کو مقدم کرنا مستحب ہے ۔
مسئلہ:تراویح کو تہائی رات اور اس طرح آدھی رات تک مؤخر کرنا مستحب ہے۔ تراویح کو آدھی رات کے بعد تک مؤخر کرنا مکروہ نہیں ہے۔حوالہ
 وَقْتُ التَّرَاوِيحِ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إلَى آخِرِ اللَّيْلِ لِأَنَّهَا تَبَعٌ لِلْعِشَاءِ دُونَ الْوِتْرِ وَالْمُسْتَحَبُّ فِعْلُهَا إلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ وَقِيلَ بَعْدَ الْعِشَاءِ قَبْلَ الْوَتْرِ وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْمَشَايِخِ لِأَنَّهَا إنَّمَا عُرِفَتْ بِفِعْلِ الصَّحَابَةِ فَكَانَ وَقْتُهَا مَا صَلَّوْهَا فِيهِ وَهُوَ صَلَّوْهَا بَعْدَ الْعِشَاءِ قَبْلَ الْوِتْرِ فَإِنْ صَلَّاهَا قَبْلَ الْعِشَاءِ وَبَعْدَ الْوِتْرِ لَا يَكُونُ مِنْ التَّرَاوِيحِ وَلِهَذَا عَمَلُ النَّاسِ إلَى الْيَوْمِ عَلَى هَذَا لِأَنَّهُ وُجِدَتْ فِيهِ الْأَقْوَالُ كُلُّهَا فَيَنْبَغِي لِلْمُصَنِّفِ اخْتِيَارُ هَذَا لَا ذَاكَ تَتَبَّع(مجمع الانهر فَصْلٌ  التَّرَاوِيحُ ۴۲۸/۱) عن السائب بن يزيد أن عمر جمع الناس في رمضان على أبي بن كعب وعلى تميم الداري على إحدى وعشرين ركعة يقرؤون بالمئين وينصرفون عند فروع الفجر (مصنف عبد الرزاق باب قيام رمضان ۲۶۰/۴)
مسئلہ:ہر چاررکعت کے بعد آرام کرنے کے لئے چار رکعت کے بقدر بیٹھنا مستحب ہے۔ اس طرح پانچویں ترویحہ اور وتر کے درمیان بیٹھنا مسنون ہے۔حوالہ
عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ :كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ يُرَوِّحُنَا فِى رَمَضَانَ ، يَعْنِى بَيْنَ التَّرْوِيحَتَيْنِ قَدْرَ مَا يَذْهَبُ الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ إِلَى سَلْعٍ(السنن الكبري للبيهقي باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ. ۴۸۰۶)
مسئلہ:نماز تراویح میں مکمل قرآن مہینہ میں ایک مرتبہ پڑھنا مسنون ہے۔ لوگوں کی سستی کی وجہ سے تکمیل قرآن کو نہیں چھوڑا جائے گا۔حوالہ
(عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنَ أَبِى مَالِكٍ الْقُرَظِىَّ قَالَ:خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ   ذَاتَ لَيْلَةٍ فِى رَمَضَانَ، فَرَأَى نَاسًا فِى نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ يُصَلُّونَ فَقَالَ:مَايَصْنَعُ هَؤُلاَءِ؟ قَالَ قَائِلٌ:يَارَسُولَ اللَّهِ هَؤُلاَءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ، وَأُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ يَقْرَأُ وَهُمْ مَعَهُ يُصَلُّونَ بِصَلاَتِهِ، قَالَ:قَدْ أَحْسَنُوا، أَوْ قَدْ أَصَابُوا، وَلَمْ يَكْرَهْ ذَلِكَ لَهُم السنن الكبري للبيهقي، باب مَنْ زَعَمَ أَنَّهَا بِالْجَمَاعَةِ أَفْضَلُ لِمَنْ لاَ يَكُونُ حَافِظًا لِلْقُرْآنِ،حدیث نمبر:۴۷۹۴۔ ففيه مايدل علي ان اجتماعهم لقيام رمضان كان لختم القرآن فحسب،فان قوله:(هولاء ناس ليس معهم القرآن)ليس معناه انهم لايقدرون علي قراءة قدر ماتجوز به الصلاة،فان ذلك بعيد عن الصحابةالكائنين بالمدينةجدا،بل معناه ليس معهم القرآن كله اعلاءالسنن، كيفية قراءةالقرآن في التراويح:۷/۷۴)۔
مسئلہ:كسی بهی تشہد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود چھوڑا نہیں جائے گا اگر چہ لوگ اکتا جائیں، اسی طرح ثناء اور رکوع سجدوں کی تسبیحات بھی چھوڑی نہیں جائیں گی اگرچہ لوگ اکتا جائیں ۔حوالہ
 عن ابی مسعود الانصاری قال اتانارسول اللہ   ونحن فی مجلس سعد بن عبادہ فقال لہ بشیر بن سعد أمرنا اللہ تعالیٰ أن نصلی علیک یارسول اللہ فکیف نصلی علیک قال فسکت رسول اللہ    حتی تمنینا أنہ لم یسألہ ثم قال رسول اللہ    قولوا اللہم صلی عل محمد وعل آل محمد کماصلیت علی آل إبراہیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کمابارکت علی آل إبراہیم فی العالمین إنک حمید مجید والسلام کماقد علمتم (مسلم، باب الصلاۃ علی النبی   بعد التشھد، حدیث نمبر:۶۱۳) عن أَنَس بْن مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا … فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي (بخاري بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى { فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنْ النِّسَاءِ }: ۴۶۷۵)۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ سنتوں کوچھوڑ دینا گویا اللہ کے رسول کے طریقوں کواور تعلیمات کوچھوڑ دینا ہے اس لیے ہرسنت پرعمل کریں اور مذکورہ چیزیں سب سنن میں سے ہیں اس کونہ چھوڑیں۔
مسئلہ:درود کے بعد کی دعا سے اگر لوگ اکتا جائیں تو چھوڑ دی جائے گی، لیکن بہتر یہ ہے کہ سنت کی بجا آوری کیلئے مختصر سی دعا کی جائے۔حوالہ
 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا نَقُولُ فِي الصَّلَاةِ..... ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنْ الثَّنَاءِ مَا شَاءَ (بخاری، باب الدعاء فی الصلاۃ، حدیث نمبر:۵۸۵۳) عن أَنَس بْن مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا … فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي (بخاري بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى { فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنْ النِّسَاءِ }: ۴۶۷۵) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ سنتوں کوچھوڑ دینا گویا اللہ کے رسول کے طریقوں کواور تعلیمات کوچھوڑ دینا ہے اس لیے ہرسنت پرعمل کریں اور مذکورہ دعا سنن میں سے ہے اس کونہ چھوڑیں۔
مسئلہ: تراویح کی قضاء نہیں کی جائے گی، نہ اجتماعی طور پر اور نہ ہی انفرادی طور پر اس لیے کہ یہ سنت ہے اور سنت کی قضا نہیں ہوا کرتی۔حوالہ
 عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ بَيْتِي فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّيْتَ صَلَاةً لَمْ تَكُنْ تُصَلِّيهَا فَقَالَ قَدِمَ عَلَيَّ مَالٌ فَشَغَلَنِي عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ كُنْتُ أَرْكَعُهُمَا بَعْدَ الظُّهْرِ فَصَلَّيْتُهُمَا الْآنَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَنَقْضِيهِمَا إِذَا فَاتَتَا قَالَ لَا (مسند احمد حديث أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: ۲۶۷۲۰)

1 comment:

  1. (۱) مفتی عبدا لرؤف سکھراوی صاحب کی کتاب صلاة التسبیح میں ایک چھوٹی صلاة التسبیح ہے جس میں سبحان اللہ ، الحمد للہ، اللہ اکبر، پڑھنا ہوتاہے وہ کس طرح ادا کی جائے؟
    (۲) کیا صلاة التسبیح کو مصائب دور کرنے یا حاجت کے لیے پڑھ سکتے ہیں؟
    (۳) صلاة التسبیح کے دوسرے طریقے میں تسبیح ثناء سے پہلے پڑھنی ہے اس طریقے سے ۷۵ تسبیح دوسرے سجدے میں پوری ہوجاتی ہے ، پہلی رکعت میں ،دوسری رکعت میں تشہد میں پڑھنی ہے یا نہیں؟ دوسری رکعت کا طریقہ بتائیں۔
    Published on: Aug 4, 2015 جواب # 59764
    بسم الله الرحمن الرحيم
    Fatwa ID: 1257-1213/L=10/1436-U

    (۱) (۲) صلاة التسبیح کا حدیث میں بڑا ثواب منقول ہے، اس کے پڑھنے سے بے انتہا ثواب ملتا ہے، حضرت صلی اللہ عیلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس کو یہ نماز سکھائی تھی، اور فرمایا تھا کہ اس کے پڑھنے سے تمھارے تمام گناہ اگلے پچھلے نئے پرانے چھوٹے بڑے غلطی سے کیے ہوئیے اور جان بوجھ کر کیے ہوئے، چھپ کر کئے ہوئے اور کھلم کھلا کئے ہوئے سبھی گناہ اللہ تعالیٰ معاف کردیں گے۔ اور فرمایا کہ اگر ہوسکے تو یہ نماز روزانہ پڑھ لیا کرو اور اگر نہ ہوسکے تو ہرہفتہ میں ایک بار پڑھ لیا کرو، یہ نہ ہوسکے تو مہینہ میں ایک بار پڑھ لیا کرو، یہ بھی نہ ہوسکے تو سال بھر میں ایک دفعہ پڑھ لیا کرو، اور ا گر یہ بھی نہ ہوسکے تو کم ازکم زندگی بھر میں ایک بار ضرور پڑھ لو۔ اگر کوئی مصائب دور کرنے یا حاجت کے لیے پڑھے تو امید ہے کہ اس کو مقصد میں کامیابی ملے۔
    (۳) صلاة التسبیح کے جو طریقے ہیں وہ لکھے جاتے ہیں آپ غور سے اس کا مطالعہ کرلیں، پہلا طریقہ:
    طریقہ نمبر: ۱۔ چار رکعت کی نیت باندھ کر ثنا اعوذ باللہ بسم اللہ اور قرأت کے بعد رکوع سے پہلے پندرہ مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ پڑھ کر رکوع کرے اور رکوع میں تین مرتبہ سبحان ربی العظیم کہنے کے بعد پھر یہی تسبیح دس مرتبہ پڑھے پھر رکوع سے اٹھے اور سمع اللہ حمدہ اور ربنا لک الحمد کے بعد قومہ میں دس بار پڑھے پھر سجدہ میں جاکر سبحان ربی الاعلی تین بار پڑھنے کے بعد دس مرتبہ وہی تسبیح پڑھے پھر سجدہ سے اٹھ کر دس بار وہی تسبیح پڑھے پھر سجدہٴ ثانیہ میں اسی طرح دس مرتبہ پڑھے۔ پھر سجدہ سے سراٹھاکر اللہ اکبر کہہ کر بیٹھے اور دس مرتبہ پڑھ کر بغیر اللہ اکبر کہے دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے، تو اس طرح ایک رکعت میں ۷۵/ مرتبہ ہوگئے اور اسی طرح دوسری رکعت پڑھ کر جب التحیات کے لیے بیٹھے، تو اولاً دس مرتبہ پڑھے پھر التحیات پڑھے اسی طرح چاروں رکعتیں پوری کرلیا کریں، یہ کل ۳۰۰ مرتبہ ہوگئے۔
    طریقہ نمبر:۲۔ نیت باندھ کر ثنا کے بعد پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے، پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ اور قرأت کے بعد رکوع سے پہلے دس مرتبہ، پھر رکوع میں دس مرتبہ، پھر رکوع سے کھڑے ہوکر دس مرتبہ، پھر سجدہ میں دس مرتبہ پھر سجدہ سے اٹھ کر دس مرتبہ پھر سجدہٴ ثانیہ میں دس مرتبہ پڑھ کر بغیر بیٹھے اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہوجائے تو ایک رکعت ۷۵/ مرتبہ ہوگئے، اسی طرح چاروں رکعت پوری کرے کل ۳۰۰ مرتبہ ہوجائیں گے، یہ طریقہ عام لوگوں کے لیے آسان ہے۔

    واللہ تعالیٰ اعلم

    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند
    http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Salah-Prayer/59764

    ReplyDelete