Thursday 28 February 2013

فوت شدہ نمازوں کی قضا


فوت شدہ نمازوں کی قضاکا طریقہ

اللہ تعالی نے فرمایا: نماز مومنین پر مقررہ وقت پر فرض ہے ۔حوالہ
إِنَّ الصَّلاَۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوتاً (النساء:۱۰۳)
نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے۔بغیر عذر کے نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنا جائز نہیں ۔حوالہ
إِنَّ الصَّلاَۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوتاً (النساء:۱۰۳) عن أَبي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ يَقُولُ حَدَّثَنَا صَاحِبُ هَذِهِ الدَّارِ وَأَشَارَ إِلَى دَارِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا (بخاري بَاب فَضْلِ الصَّلَاةِ لِوَقْتِهَا ۴۹۶)
مسئلہ: جو شخص نماز کو کسی عذر کی وجہ سے وقت سے مؤخر کردے تو عذر کے ختم ہونے کے بعد اس کی قضاء ضروری ہے۔حوالہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ(بخاري بَاب مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ ۵۶۲)
          فرض کی قضا بھی فرض ہے۔       واجب کی قضا بھی واجب ہے۔حوالہ
 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ(بخاري بَاب مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ ۵۶۲) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى(بخاري بَاب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ ۱۸۱۶)
مسئلہ:سنن اور نوافل کی قضاء نہیں کی جائے گی ، ہاں اگر انہیں شروع کرنے کے بعد فاسد کردیا جائے تو ان کی قضاء ضروری ہےحوالہ
 وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد:۳۳) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَدَرَتْنِي إِلَيْهِ حَفْصَةُ وَكَانَتْ ابْنَةَ أَبِيهَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ قَالَ اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ مَكَانَهُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْقَضَاءِ عَلَيْهِ ۶۶۷)
مسئلہ:اگر فجر کی سنت فرض کے ساتھ چھوٹ جائے تو اس کی فرض کے ساتھ زوال سے پہلے قضاء کی جائے۔حوالہ
 عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي مَسِيرٍ لَهُ فَنَامُوا عَنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ فَاسْتَيْقَظُوا بِحَرِّ الشَّمْسِ فَارْتَفَعُوا قَلِيلًا حَتَّى اسْتَقَلَّتْ الشَّمْسُ ثُمَّ أَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَقَامَ ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ(ابوداود بَاب فِي مَنْ نَامَ عَنْ الصَّلَاةِ أَوْ نَسِيَهَا ۳۷۵)
مسئلہ: صاحب ترتیب کے لیےوقتیہ اور فوت شدہ نمازوں کے درمیان ترتیب واجب ہے۔ فوت شدہ نماز کی قضا کرنے سے پہلے وقتی نماز کی ادائیگی جائز نہیں،اسی طرح فوت شدہ نمازوں کے درمیان بھی  ترتیب ضروری ہے۔ اسی طرح فرائض اور وتر کے درمیان میں بھی ترتیب واجب ہے۔حوالہ
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ إِذَا نَسِىَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلاَّ وَهُوَ مَعَ الإِمَامِ فَلْيُصَلِّ مَعَ الإِمَامِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ فَلْيُصَلِّ الصَّلاَةَ الَّتِى نَسِىَ ثُمَّ لْيُعِدْ صَلاَتَهُ الَّتِى صَلَّى مَعَ الإِمَامِ ».(دارقطني باب الرَّجُلِ يَذْكُرُ صَلاَةً وَهُوَ فِى أُخْرَى . ۱۵۷۸)عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَعَلَ عُمَرُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ يَسُبُّ كُفَّارَهُمْ وَقَالَ مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتْ قَالَ فَنَزَلْنَا بُطْحَانَ فَصَلَّى بَعْدَ مَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ ( بخاري بَاب قَضَاءِ الصَّلَاةِ الْأُولَى فَالْأُولَى ۵۶۳)  عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ تَفُوتُهُ الصَّلَوَاتُ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ ۱۶۴) عَنْ أَبِي سُلَيْمَانَ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي (بخاري بَاب رَحْمَةِ النَّاسِ وَالْبَهَائِمِ ۵۵۴۹)
مسئلہ: اگر فوت شدہ نمازیں وتر کے علاوہ چھ تک نہ پہونچے ہوں تو خود فوت شدہ نماز وں میں نيز فوت شدہ اور وقتی نماز کے درمیان ترتیب ضروری ہے ، لہذا فجر کی نماز ظہر سے پہلے اور ظہر کی نماز عصر سے پہلےقضا كرلی جائے۔حوالہ
 عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ تَفُوتُهُ الصَّلَوَاتُ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ ۱۶۴)
مسئلہ:تین چیزوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔
(۱) جب وتر کو چھوڑ کر فوت شدہ نمازیں چھ ہو جائیں۔حوالہ
 إلا أن تزيد الفوائت على ست صلوات لأن الفوائت قد كثرت فيسقط الترتيب فيما بين الفوائت نفسها كما سقط بينها وبين الوقتية(الهدية:۷۲/۱)
(۲) جب وقت کے تنگ ہونے کی وجہ سے ، وقتیہ نماز کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو۔حوالہ
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (النساء:۱۰۳) عن  أَبي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيّ يَقُولُ أَخْبَرَنَا صَاحِبُ هَذِهِ الدَّارِ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى دَارِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا (بخاري بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى{ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا } ۵۵۱۳)
(۳) اپنے ذمہ فوت شدہ نماز کے ہونے کو بھول جائے اور بھولے سے وقتیہ نماز پڑھ لے۔حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظ(بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَا ۳۱۵/۱۶(عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ (ابن ماجه بَاب طَلَاقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِي ۲۰۳۳) 
مسئلہ:اگر چھٹویں نماز وتر ہو تو فجر کے ادا کرنے سے پہلے وتر کی قضاء کرنا ضروری ہے؛ اس لیے کہ وترواجب ہے اور واجب عمل کے اعتبار سے فرض کی طرح ہے اور فرض نمازوں میں ترتیب واجب ہے اس لیے مذکورہ صورت میں بھی ترتیب کوضروری قرار دیا گیا۔ حوالہ
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ إِذَا نَسِىَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلاَّ وَهُوَ مَعَ الإِمَامِ فَلْيُصَلِّ مَعَ الإِمَامِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ فَلْيُصَلِّ الصَّلاَةَ الَّتِى نَسِىَ ثُمَّ لْيُعِدْ صَلاَتَهُ الَّتِى صَلَّى مَعَ الإِمَامِ ».(دارقطني باب الرَّجُلِ يَذْكُرُ صَلاَةً وَهُوَ فِى أُخْرَى . ۱۵۷۸)عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَعَلَ عُمَرُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ يَسُبُّ كُفَّارَهُمْ وَقَالَ مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتْ قَالَ فَنَزَلْنَا بُطْحَانَ فَصَلَّى بَعْدَ مَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ ( بخاري بَاب قَضَاءِ الصَّلَاةِ الْأُولَى فَالْأُولَى ۵۶۳)  لِأَنَّ الْوَاجِبَ مُلْحَقٌ بِالْفَرْضِ فِي الْعَمَلِ فَيَجِبُ مُرَاعَاةُ التَّرْتِيبِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْفَرْضِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ بَيَانُ وَقْتِ الوتر: ۷۰/۳)  
مسئلہ:اگر فوت شدہ نمازیں چھ یا اس سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ترتیب ساقط ہو جائے تو فوت شدہ نمازیں کم ہو جانے کی وجہ سے ترتیب لوٹ نہ آئے گی ، بایں طور کہ اس کی دس نمازیں چھوٹ گئیں ہوں ، اس میں سے اس نے نوکی قضا کی ہو اور ایک فوت شدہ نماز رہ گئی ہو پھر وقتی نماز پڑھ لے جب کہ فوت شدہ نماز یاد ہو تو جائز ہے،اور  اس کی نماز  ترتیب  ساقط ہوجانے کی وجہ سے صحیح ہوگی۔حوالہ
( قَوْلُهُ وَلَمْ يُعِدْ بِعَوْدِهَا إلَى الْقِلَّةِ ) أَيْ لَمْ يُعِدْ وُجُوبَ التَّرْتِيبِ بِعَوْدِ الْفَوَائِتِ إلَى الْقِلَّةِ بِسَبَبِ الْقَضَاءِ بَعْدَ سُقُوطِهِ بِكَثْرَتِهَا كَمَا إذَا تَرَكَ رَجُلٌ صَلَاةَ شَهْرٍ مَثَلًا ثُمَّ قَضَاهَا إلَّا صَلَاةً ثُمَّ صَلَّى الْوَقْتِيَّةَ ذَاكِرًا لَهَا فَإِنَّهَا صَحِيحَةٌ لِأَنَّ السَّاقِطَ قَدْ تَلَاشَى فَلَا يَحْتَمِلُ الْعَوْدَ كَالْمَاءِ الْقَلِيلِ إذَا تَنَجَّسَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ الْمَاءُ الْجَارِي حَتَّى كَثُرَ وَسَالَ ثُمَّ عَادَ إلَى الْقِلَّةِ لَا يَعُودُ نَجَسًا وَاخْتَارَهُ الْإِمَامُ السَّرَخْسِيُّ وَالْإِمَامُ الْبَزْدَوِيُّ حَيْثُ قَالَا وَمَتَى سَقَطَ التَّرْتِيبُ لَمْ يُعِدْ فِي أَصَحِّ الرِّوَايَتَيْنِ وَصَحَّحَهُ أَيْضًا فِي الْكَافِي وَالْمُحِيطِ وَفِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ وَغَيْرِهِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى (البحر الرائق سقوط الترتيب بين صلاة الفائتة:۴۰۱/۴)
مسئلہ:اگر کوئی شخص فوت شدہ نماز کے یاد ہونے کے باوجود وقتی نماز پڑھ لے ، تو اس کی فرض فاسد ہو جائے گی لیکن یہ فساد موقوف رہے گا۔اگر فوت شدہ نماز کے یاد ہوتے ہوئے اس کے قضاء کرنے سے پہلے پانچ نمازیں پڑھ لے، تو پانچویں ادا کردہ نماز کا وقت  نکل جانے کی وجہ سے فساد ختم ہو جائے گا اور پانچوں نمازیں فرض کی جانب سے ہوجائے گی۔حوالہ
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ تَفُوتُهُ الصَّلَوَاتُ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ: ۱۶۴) عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ أَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةً وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا أَوْ قَدْ اشْتَقْنَا سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا فَأَخْبَرْنَاهُ قَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لَا أَحْفَظُهَا وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ (بخاري بَاب الْأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً وَالْإِقَامَةِ الخ: ۵۹۵) عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ إِذَا نَسِىَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلاَّ وَهُوَ مَعَ الإِمَامِ فَلْيُصَلِّ مَعَ الإِمَامِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ فَلْيُصَلِّ الصَّلاَةَ الَّتِى نَسِىَ ثُمَّ لْيُعِدْ صَلاَتَهُ الَّتِى صَلَّى مَعَ الإِمَامِ ».(دارقطني باب الرَّجُلِ يَذْكُرُ صَلاَةً وَهُوَ فِى أُخْرَى . ۱۵۷۸)مذکورہ احادیث کی بناء پرفقہاء کرام نے فائتہ اور وقتیہ کے درمیان ترتیب کوواجب قرار دیا ہے اور ترکِ واجب کی وجہ سے مذکورہ حکم لگایا گیا ہے۔)
لیکن اگر پانچویں ادا شدہ نماز کا وقت  نکلنے سے پہلے فوت شدہ نماز کی قضاء کرے تو فرض باطل ہوجائے گی اور اس کی یہ تمام نمازیں نفل ہو جائیں گی ، اس کے ذمہ ان پانچوں نمازوں کی قضا ہوگی جنہیں اس نے فوت شدہ نماز کے قضا کرنے سے پہلے پڑھا تها۔حوالہ
 عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ إِذَا نَسِىَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلاَّ وَهُوَ مَعَ الإِمَامِ فَلْيُصَلِّ مَعَ الإِمَامِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ فَلْيُصَلِّ الصَّلاَةَ الَّتِى نَسِىَ ثُمَّ لْيُعِدْ صَلاَتَهُ الَّتِى صَلَّى مَعَ الإِمَامِ ».(دارقطني باب الرَّجُلِ يَذْكُرُ صَلاَةً وَهُوَ فِى أُخْرَى . ۱۵۷۸)
اگر فوت شدہ نمازیں زیادہ ہوجائیں تو قضاء کرتے وقت ہر نماز کے تعیین کی ضرورت ہوگی، اگر اس کیلئے ہر نماز کی تعیین دشوار ہو جائے تو مثلایوں نیت کرے کہ وہ پہلی فوت شدہ ظہر یا آخری فوت شدہ ظہر کی قضا کر رہا ہے۔حوالہ
عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى(بخاري بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ ۱)




جماعت کے ساتھ فرض نمازکو پالینا




مسئلہ: کسی شخص کے تنہا فرض نماز شروع کرنے کے بعد جماعت کھڑی ہو جائے اور اس نے ابھی سجدہ نہ کیا ہو تو ایک سلام کے ذریعہ کھڑے کھڑے اپنی نماز توڑدے اور امام کی اقتدا کرے ۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ (مسلم، بَاب كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ ۱۱۶۰)
مسئلہ: اگر تنہا فجر یا مغرب کی فرض شروع کرے اور سجدہ کرلینے کے بعد جماعت کھڑی ہو جائے تو اپنی نماز توڑ دے اور امام کی اقتدا کرے ۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ (مسلم، بَاب كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ ۱۱۶۰)
 مسئلہ: اگر چار رکعت والی فرض تنہا شروع کرے اور ایک رکعت مکمل کرلینے کے بعد جماعت کھڑی ہو جائے تو اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے اور سلام پھیر دے اور پھر فرض کی نیت سے امام کی اقتدا کرے ، اس کی تنہا پڑھی ہوئی دو رکعتیں نفل ہو جائیں گی۔حوالہ
 وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ(محمد:۳۳) عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ الْعَامِرِيّ قَالَ شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّتَهُ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ صَلَاةَ الصُّبْحِ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قَالَ فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ وَانْحَرَفَ إِذَا هُوَ بِرَجُلَيْنِ فِي أُخْرَى الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّيَا مَعَهُ فَقَالَ عَلَيَّ بِهِمَا فَجِيءَ بِهِمَا تُرْعَدُ فَرَائِصُهُمَا فَقَالَ مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا مَعَنَا فَقَالَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا قَدْ صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا قَالَ فَلَا تَفْعَلَا إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا ثُمَّ أَتَيْتُمَا مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَصَلِّيَا مَعَهُمْ فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي وَحْدَهُ ثُمَّ يُدْرِكُ الْجَمَاعَةَ ۲۰۳)
مسئلہ: اگر چار رکعت والی فرض میں سے تین رکعت پڑھ لینے کے بعد جماعت کھڑی ہو تو چار رکعت پوری کرلے ، پھر ظہر اور عشاء کی نماز ہو تو اس میں نفل کی نیت سے امام کی اقتدا کرے اور اگر عصر کی نماز ہو تو نفل کی نیت سےامام کی اقتدا نہ کرے۔حوالہ
 عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ الْعَامِرِيّ قَالَ شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّتَهُ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ صَلَاةَ الصُّبْحِ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قَالَ فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ وَانْحَرَفَ إِذَا هُوَ بِرَجُلَيْنِ فِي أُخْرَى الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّيَا مَعَهُ فَقَالَ عَلَيَّ بِهِمَا فَجِيءَ بِهِمَا تُرْعَدُ فَرَائِصُهُمَا فَقَالَ مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا مَعَنَا فَقَالَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا قَدْ صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا قَالَ فَلَا تَفْعَلَا إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا ثُمَّ أَتَيْتُمَا مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَصَلِّيَا مَعَهُمْ فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي وَحْدَهُ ثُمَّ يُدْرِكُ الْجَمَاعَةَ ۲۰۳) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ (مسلم، بَاب الْأَوْقَاتِ الَّتِي نُهِيَ عَنْ الصَّلَاةِ فِيهَا ۱۳۶۶)
مسئلہ: اگر چار رکعت والی فرض میں سے دو رکعت پڑھ لے اور تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہونے کے بعد جماعت کھڑی ہوجائے، اور ابھی تک اس نے تیسری رکعت کا  سجدہ نہ کیا ہوتو کھڑے کھڑے ایک سلام سے نماز کو توڑ دے پھر فرض کی نیت سے  امام کی اقتدا کرے۔ حوالہ
 عَنْ طَاوُوسٍ ، أَنَّهُ قَالَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ رَكْعَتَيْنِ مِنَ الْفَرِيضَةِ وَحْدَهُ ، ثُمَّ تُقَامُ الصَّلاَة ، قَالَ : يُصَلِّي مَعَهُمْ وَلاَ يَعْتَدُّ بِهَا…  عَنِ الْحَكَمِ ، قَالُوا : يُسَلِّمُ ثُمَّ يَدْخُلُ مَعَ الإِمَامِ فِي صَلاَتِهِ. (مصنف ابن ابي شيبة الرجل يدخل الْمَسْجِدَ وَهُوَ يَرَى أَنَّهُمْ قَدْ صَلَّوْا الْفَرِيضَةَ ، فَيُصَلِّي: ۷۸/۲)  عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ (مسلم، بَاب كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ ۱۱۶۰)
مسئلہ: اگر جمعہ کے دن جمعہ کی سنت شروع کرنے کے بعد امام خطبہ کے لئے نکل جائے تو دو رکعت مکمل کرے اور سلام پھیردے اور جمعہ کے فرض سے فراغت کے بعد اس سنت کی قضا کرے۔ حوالہ
  وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد:۳۳) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَاتَتْهُ الْأَرْبَعُ قَبْلَ الظُّهْرِ صَلَّاهَا بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ(ابن ماجه بَاب مَنْ فَاتَتْهُ الْأَرْبَعُ قَبْلَ الظُّهْرِ،۱۱۴۸  ) چونکہ جمعہ ظہر کے قائم مقام ہے، اس لیے اس کی سنت کا بھی یہی حکم ہوگا۔
مسئلہ: اگر ظہرکی سنت شروع کرنے کے بعد جماعت کھڑی ہوجائے  تو دو رکعت مکمل کرے اور سلام پھیردے اور امام کی اقتدا کرے اور فرض کے بعد سنت کی قضا کرے۔حوالہ
وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد:۳۳) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ (مسلم، بَاب كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ ۱۱۶۰) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَاتَتْهُ الْأَرْبَعُ قَبْلَ الظُّهْرِ صَلَّاهَا بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِابن ماجه بَاب مَنْ فَاتَتْهُ الْأَرْبَعُ قَبْلَ الظُّهْرِ،(۱۱۴۸)
مسئلہ:اگر جماعت کھڑی ہونے کے بعد مسجد آئے ، تو امام کی اقتدا کرنا چاہئے ، امام سے اعراض کر کے سنت میں مشغول نہ ہونا چاہئے ، سوائےسنتِ فجر کے۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ (مسلم، بَاب كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ ۱۱۶۰) عن عبد الله بن أبي موسى قال :جاء ابن مسعود والامام يصلي الصبح فصلى ركعتين إلى سارية ولم يكن صلى ركعتي الفجر (المعجم الكبير عبد الله بن مسعود الهذلي يكنى أبا عبد الرحمن  ۲۷۷/۹) 
مسئلہ: اگر فجر کی جماعت کھڑی ہونے کے بعد مسجد آئے تو مسجد کے باہر یا مسجد کے کسی کونے میں سنت پڑھے، جب کہ اسے یہ گمان غالب ہو کہ وہ امام کو دوسری رکعت میں پالے گا۔ ۱۱۶۰) حوالہ
 عن عبد الله بن أبي موسى قال :جاء ابن مسعود والامام يصلي الصبح فصلى ركعتين إلى سارية ولم يكن صلى ركعتي الفجر (المعجم الكبير عبد الله بن مسعود الهذلي يكنى أبا عبد الرحمن  ۲۷۷/۹)
عَنْ أَبِي عُثْمَانَ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ :جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ وَالْإِمَامُ فِي صَلَاةِالْغَدَاةِ ، وَلَمْ يَكُنْ صَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ فَصَلَّى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ  عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا الرَّكْعَتَيْنِ خَلْفَ الْإِمَامِ ، ثُمَّ دَخَلَ مَعَهُمْ .(شرح معاني الاثار بَابٌ الرَّجُلُ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ وَالْإِمَامُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ ۱۶۵/۲)
مسئلہ: اگر وقت کے ختم ہونے یا جماعت کے چھوٹنے کا اندیشہ ہو تو فرض پڑھے اور سنت چھوڑدے۔حوالہ
عن أَبي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ يَقُولُ حَدَّثَنَا صَاحِبُ هَذِهِ الدَّارِ وَأَشَارَ إِلَى دَارِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا قَالَ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ قَالَ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي بِهِنَّ وَلَوْ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي (بخاري بَاب فَضْلِ الصَّلَاةِ لِوَقْتِهَا: ۴۹۶) عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ ثُمَّ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (بخاري بَاب وَسَمَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ عَمَلًا: ۶۹۸۰) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِينًا أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ لَشَهِدَ الْعِشَاءَ (بخاري بَاب وُجُوبِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ الخ: ۶۰۸)
مذکورہ احادیث کے علاوہ اور بھی احادیث ہیں جن میں وقت پرنماز پڑھنے اور جماعت کے ساتھ پڑھنے کی اہمیت بتلائی گئی ہے اس لیے مذکورہ حکم بتلایا گیا ہے۔ 
مسئلہ: جس شخص نے اپنے امام کو رکوع میں پالیا اس نے اس رکعت کو پالیا۔ لیکن اگر امام نے اپنا سر مقتدی کے رکوع کرنے سے پہلے ہی اٹھالیا تو اس کی یہ رکعت چھوٹ گئی۔ حوالہ
 عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَاكِعٌ فَرَكَعَ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إِلَى الصَّفِّ فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ(بخاري بَاب إِذَا رَكَعَ دُونَ الصَّفِّ ۷۴۱) عَنْ أَبِى الأَحْوَصِ وَهُبَيْرَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ :مَنْ لَمْ يُدْرِكِ الرَّكْعَةَ فَلاَ يَعْتَدَّ بِالسُّجُودِ.(السنن الكبري للبيهقي باب إِدْرَاكِ الإِمَامَ فِى الرُّكُوعِ. ۲۶۸۲) عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ :إذَا جِئْت وَالإِمَامُ رَاكِعٌ فَوَضَعْتَ يَدَيْك عَلَى رُكْبَتَيْك قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ ، فَقَدْ أَدْرَكْت.(مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ إذَا أَدْرَكْتَ الإمَامَ وَهُوَ رَاكِعٌ ۲۴۳/۱)
مسئلہ: مسجد میں اذان ہو جانے کے بعد بغیر نماز پڑھے وہاں سے نکلنا مکروہ ہے، لیکن اس شخص کیلئے جو کسی دوسری مسجد کا امام یا مؤذن ہو اذان کے بعد مسجد سے نکلنا مکروہ نہیں ہے۔ حوالہ
عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ قَالَ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ الْمَسْجِدِ بَعْدَ مَا أُذِّنَ فِيهِ بِالْعَصْرِ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ أَمَّا هَذَا فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْخُرُوجِ مِنْ الْمَسْجِدِ بَعْدَ الْأَذَانِ ۱۸۸) عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ النَّبِىَّ  صلى الله عليه وسلم  قَالَ :« لاَ يَخْرُجُ أَحَدٌ مِنَ الْمَسْجِدِ بَعْدَ النِّدَاءِ إِلاَّ مُنَافِقٌ. إِلاَّ رَجُلٌ يَخْرُجُ لِحَاجَتِهِ وَهُوَ يُرِيدُ الرَّجْعَةَ إِلَى الْمَسْجِدِ ».(السنن الكبري للبيهقي باب مَا جَاءَ مِنَ التَّشْدِيدِ فِى تَرْكِ الْجَمَاعَةِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ ۵۱۳۶) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَقَدْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ وَعُدِّلَتْ الصُّفُوفُ حَتَّى إِذَا قَامَ فِي مُصَلَّاهُ انْتَظَرْنَا أَنْ يُكَبِّرَ انْصَرَفَ قَالَ عَلَى مَكَانِكُمْ فَمَكَثْنَا عَلَى هَيْئَتِنَا حَتَّى خَرَجَ إِلَيْنَا يَنْطِفُ رَأْسُهُ مَاءً وَقَدْ اغْتَسَلَ (بخاري بَاب هَلْ يَخْرُجُ مِنْ الْمَسْجِدِ لِعِلَّةٍ: ۶۰۳) فَهَذَا الْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ حَدِيثَ الْبَابِ مَخْصُوصٌ بِمَنْ لَيْسَ لَهُ ضَرُورَةٌ فَيُلْتَحَقُ بِالْجُنُبِ الْمُحْدِثِ وَالرَّاعِفِ وَالْحَاقِنِ وَنَحْوِهِمْ وَكَذَا مَنْ يَكُونُ إِمَامًا لِمَسْجِدٍ آخَرَ وَمَنْ فِي مَعْنَاه (تحفة الاحوذي: ۲۳۶/۱)
مسئلہ: اگر ظہر اور عشاء کی جماعت ، اس کے تنہا نماز پڑھ لینے کے بعد کھڑی ہو تو اس کا مسجد سے نکلنا مکروہ ہے ، اس کیلئے بہتر یہ ہے کہ امام کے ساتھ نفل کی نیت سے نماز پڑھ لے۔ حوالہ
 عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ الْعَامِرِيّ قَالَ شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّتَهُ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ صَلَاةَ الصُّبْحِ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قَالَ فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ وَانْحَرَفَ إِذَا هُوَ بِرَجُلَيْنِ فِي أُخْرَى الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّيَا مَعَهُ فَقَالَ عَلَيَّ بِهِمَا فَجِيءَ بِهِمَا تُرْعَدُ فَرَائِصُهُمَا فَقَالَ مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا مَعَنَا فَقَالَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا قَدْ صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا قَالَ فَلَا تَفْعَلَا إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا ثُمَّ أَتَيْتُمَا مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَصَلِّيَا مَعَهُمْ فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي وَحْدَهُ ثُمَّ يُدْرِكُ الْجَمَاعَةَ ۲۰۳)
مسئلہ: اگر انفرادی طور پر فجر ، عصر اور مغرب پڑھ لینے کے بعد ان نمازوں کی جماعت ہو تو اس کا مسجد سے نکل جانا مکروہ نہیں ہے۔ حوالہ
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعَتَيْنِ وَعَنْ لِبْسَتَيْنِ وَعَنْ صَلَاتَيْنِ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ(بخاري بَاب الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ ۵۴۹)




نماز اور روزہ کا فدیہ




مسئلہ: اگر مریض فوت شدہ نمازوں کے قضاء کرنے پر قادر ہو جائے ، خواہ اشارہ سے ہی کیوں نہ ہو اور ان کی قضا کرنے سے پہلے مرجائے ، تو اس پر ضروری ہے کہ وہ اپنے ولی (ذمہ دار، سرپرست) کو فوت شدہ نمازوں کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کرے۔     
اسی طرح اگر بیمار شخص فوت شدہ روزوں کے قضا کرنے پر قادر ہو جائے اور اس کی قضا کرنے سے پہلے مرجائے تو اس کے ذمہ واجب ہے کہ وہ اپنے ولی کو فوت شدہ روزوں کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کرے۔
اسی طرح اگر بیمارشخص فوت شدہ وتر کے قضا کرنے سے پہلے مر جائے ، حالاں کہ وہ اس کی ادائیگی پر قادر تھا تو اس پر ضروری ہے کہ وہ اپنے ولی کو اس کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کرجائے۔ اور ولی ’’ فدیہ ‘‘ میراث کے تہائی حصہ سے دے گا۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا حَقُّ امْرِئٍ مسلم، لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ (بخاري بَاب الْوَصَايَاالخ ۲۵۳۳)وَأَمَّا الْوَصِيَّة بِأَدَاءِ الدَّيْن وَرَدّ الْأَمَانَات فَوَاجِبَة عَلَيْهِ(۳۲۵/۶)عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا مَرِيضٌ بِمَكَّةَ فَقُلْتُ لِي مَالٌ أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ لَا قُلْتُ فَالشَّطْرِ قَالَ لَا قُلْتُ فَالثُّلُثِ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ وَمَهْمَا أَنْفَقْتَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ وَلَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ يَنْتَفِعُ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرُّ بِكَ آخَرُونَ(بخاري بَاب وُجُوبِ النَّفَقَةِ عَلَى الْأَهْلِ وَالْعِيَالِ ۴۹۳۶)



ہر نماز اور ہر روزہ کا فدیہ




ہر نماز کا فدیہ آدھاصاع گیہوں یا اس کی قیمت ہے، یا ایک صاع جو یا اس کی قیمت ہے، اور ايك صاع تقریبا ۳۲۶۴ گرام کا ہوتا ہے۔
ہر دن کے روزے کا فدیہ آدھا صاع گیہوں یا اس کی قیمت یا ایک صاع جو یا اس کی قیمت
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ (البقرة:۱۸۴) عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَرَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ أَوْ قَالَ رَمَضَانَ عَلَى الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ فَعَدَلَ النَّاسُ بِهِ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ (بخاري بَاب صَدَقَةِ الْفِطْرِ عَلَى الْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ ۱۴۱۵)عَنْ عَطَاءٍ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَعَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فَلَا يُطِيقُونَهُ{ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ } قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ هُوَ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْمَرْأَةُ الْكَبِيرَةُ لَا يَسْتَطِيعَانِ أَنْ يَصُومَا فَيُطْعِمَانِ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا(بخاري بَاب { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ الخ ۴۱۴۵)
          ولی کا تمام نمازوں کا فدیہ ایک ہی فقیر کو دینا جائز ہے، اسی طرح روزہ کا فدیہ ایک ہی مسکین کو دینا جائز ہے؛ لیکن کفارہ یمین(قسم کا کفارہ) ایک فقیر کو، گیہوں میں سے آدھے صاع سے زیادہ ایک دن میں دینا جائز نہیں ۔
اگر میت ولی کو فدیہ کے ادائیگی کی وصیت نہ کرے، لیکن اگر ولی اس پر احسان کرے تو اس کی قبولیت کی امید ہے۔حوالہ
 عن عمرة ابنة عبد الرحمن قالت :سألت عائشة رضي الله عنها ، فقلت لها :إن أمي توفيت وعليها رمضان ، أيصلح أن أقضي عنها ؟ فقالت :« لا ، ولكن تصدقي عنها مكان كل يوم على مسكين ، خير من صيامك عنها(مشكل الاثار باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الواجب فيمن مات وعليه صيام هل هو الصيام أو الإطعام عنه ۱۹۸۹)
ولی کا میت کی طرف سے اس کے فوت شدہ روزوں کے بدلے روزہ رکھنا جائز نہیں اس طرح ولی کا میت کی طرف سے اس کے فوت شدہ نمازوں کے بدلے نمازیں پڑھنا صحیح نہیں۔ حوالہ
 عن بن عباس قال لا يصلي أحد عن أحد ولا يصوم أحد عن أحد ولكن يطعم عنه مكان كل يوم مدا من حنطة صوم الولي عن الميت(السنن الكبري للنسائي الجزء الثاني من الصيام صوم الحي عن الميت۱۷۵/۲)
اگر بیمار اپنے مرض الموت میں فوت شدہ نمازوں کے قضاء کرنے پر قادر ہونے سے پہلے مرجائے تو اس کے لئے وصیت ضروری نہیں ہے خواہ وہ فوت شدہ نمازیں زیادہ ہوں یا کم ہوں۔ حوالہ
عَنْ عَلِىِّ بْنِ أَبِى طَالِبٍ عَنِ النَّبِىِّ  صلى الله عليه وسلم  قَالَ  يُصَلِّى الْمَرِيضُ قَائِمًا إِنِ اسْتَطَاعَ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ صَلَّى قَاعِدًا فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَسْجُدَ أَوْمَأَ وَجَعَلَ سُجُودَهُ أَخْفَضَ مِنْ رُكُوعِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّىَ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبِهِ الأَيْمَنِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّىَ عَلَى جَنْبِهِ الأَيْمَنِ صَلَّى مُسْتَلْقِيًا رِجْلَيْهِ مِمَّا يَلِى الْقِبْلَةَ(دار قطني باب صَلاَةِ الْمَرِيضِ وَمَنْ رَعَفَ فِى صَلاَةٍ كَيْفَ يَسْتَخْلِفُ. ۱۷۲۵) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ (بخاري بَاب الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۶۷۴۴)
اگر بیمار اپنے مرض الموت میں فوت شدہ نمازوں کے قضاء کرنے پر قادر ہونے سے پہلے مرجائے تو اس کے لئے وصیت ضروری نہیں ہے خواہ وہ فوت شدہ نمازیں زیادہ ہوں یا کم ہوں۔  اسی طرح اگر مسافر مقیم ہونے سے پہلے مرجائے تو اس کے ذمہ فوت شدہ روزوں کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کرنا لازم نہیں ہے۔ حوالہ
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ(البقرة:۱۸۴)



No comments:

Post a Comment