Thursday 28 February 2013

مریض کی نماز

مریض کی نماز کا حکم


اللہ تبارک تعالی نے فرمایا:اللہ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا ۔ حوالہ
لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساًإِلاَّوُسْعَہَا (البقرة:۲۸۶)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر ان بن حصین رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر اس طرح نہ کرسکو تو بیٹھ کر، اگر اس طرح نہ کرسکو تو پہلو کے بل اشارہ سے پڑھو۔ حوالہ
وَصَلِّ قَائِمًا،فَاِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَقَائِدًا، فَاِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَی الْجَنْبِ تُؤْمِیْٔ اِیْمَائاً۔(بخاري بَاب إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ۱۰۵۰)
نبی کریم  کے اس ارشاد گرامی سے معلوم ہوا کہ نماز ، بیماری کی حالت میں بھی چھوڑنا جائز نہیں ہے
مسئلہ: جو شخص ایسا بیمار ہو کہ نماز کے ارکان مکمل طریقہ سے ادانہ کرسکتا ہو تو جن ارکان کی ادائیگی پر وہ قادر ہو، اس کو ادا کرے۔
مسئلہ: جو مریض کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا ، وہ بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ پڑھ لےاور وہ مریض بھی جس کو سخت تکلیف کی وجہ سے کھڑا ہونا دشوار ہو ، بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز پڑھے۔ٍاسی طرح اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے مرض کے لاحق ہونے یا مرض کے زیادہ ہوجانے یا صحت یا بی حاصل ہونے میں تاخیر کا اندیشہ ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھے۔ اسی طرح اگر رکوع اور سجدہ یاان میں سے کسی ایک سے عاجز ہو جائے تو بیٹھ کر نماز پڑھے اور رکوع اور سجدہ کو اشارہ سے بجالائے۔حوالہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَقَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَرَسٍ فَخُدِشَ أَوْ فَجُحِشَ شِقُّهُ الْأَيْمَنُ فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ نَعُودُهُ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَصَلَّى قَاعِدًا فَصَلَّيْنَا قُعُودًا(بخاري بَاب صَلَاةِ الْقَاعِدِ ۱۰۴۷) عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(بخاري بَاب إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ۱۰۵۰)عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ :أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  عَادَ مَرِيضًا ، فَرَآهُ يُصَلِّى عَلَى وِسَادَةٍ ، فَأَخَذَهَا فَرَمَى بِهَا ، فَأَخَذَ عُودًا لَيُصَلِّىَ عَلَيْهِ فَأَخَذَهُ فَرَمَى بِهِ وَقَالَ :« صَلِّ عَلَى الأَرْضِ إِنِ اسْتَطَعْتَ ، وَإِلاَّ فَأَوْمِئْ إِيمَاءً ، وَاجْعَلْ سُجُودَكَ أَخْفَضَ مِنْ رُكُوعِكَ ».(السنن الكبري للبيهقي باب الإِيمَاءِ بِالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ إِذَا عَجَزَ عَنْهُمَا ۳۸۱۹)۔
مسئلہ:جو رکوع اور سجدہ کو اشارہ سے بجالائیگا تو وه سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارہ سے زیادہ جھکا  کرکرے ۔اگر وہ سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارہ سے زیادہ جھکا ہوا نہ کرے تو اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔ حوالہ
 عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ فَانْتَهَوْا إِلَى مَضِيقٍ وَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَمُطِرُوا السَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَالْبِلَّةُ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ فَأَذَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَقَامَ أَوْ أَقَامَ فَتَقَدَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَصَلَّى بِهِمْ يُومِئُ إِيمَاءً يَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنْ الرُّكُوعِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الدَّابَّةِ فِي الطِّينِ وَالْمَطَرِ۳۷۶)
مسئلہ:کسی چیز کو اس پر سجدہ کرنے کے لئے چہرے تک اٹھانانا جائز ہے۔ حوالہ
 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ :أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  عَادَ مَرِيضًا ، فَرَآهُ يُصَلِّى عَلَى وِسَادَةٍ ، فَأَخَذَهَا فَرَمَى بِهَا ، فَأَخَذَ عُودًا لَيُصَلِّىَ عَلَيْهِ فَأَخَذَهُ فَرَمَى بِهِ وَقَالَ :« صَلِّ عَلَى الأَرْضِ إِنِ اسْتَطَعْتَ ، وَإِلاَّ فَأَوْمِئْ إِيمَاءً ، وَاجْعَلْ سُجُودَكَ أَخْفَضَ مِنْ رُكُوعِكَ ».(السنن الكبري للبيهقي باب الإِيمَاءِ بِالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ إِذَا عَجَزَ عَنْهُمَا ۳۸۱۹) عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ ؛ أَنَّهُ رَأَى سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ إذَا كَانَ مَرِيضًا لاَ يَسْتَطِيعُ الْجُلُوسَ أَوْمَأَ إيمَاءً ، وَلَمْ يَرْفَعْ إلَى رَأْسِهِ شَيْئًا.( مصنف ابن ابي شيبة باب من قَالَ :الْمَرِيضُ يُومِئُ إيمَاءً. ۲۷۳/۱)
مسئلہ:اگر بیمار شخص بیٹھنے سے عاجز آجائے تو وہ پیٹھ کے بل لیٹ کر نماز پڑھےاس طور پر کہ اس کے دونوں پیر قبلہ کے جانب ہو، اپنے گھٹنوں کو اٹھالے اور اپنے سر کو تکیہ پر اٹھائے رکھے تاکہ اس کا چہرے قبلہ کے جانب ہو جائے اور رکوع اورسجدہ کو اشارہ سے ادا کرے۔ حوالہ
 عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ :يُصَلِّي الْمَرِيضُ إذَا لَمْ يَقْدِرْ عَلَى الْجُلُوسِ مُسْتَلْقِيًا ، وَيَجْعَلُ رِجْلَيْهِ مِمَّا يَلِي الْقِبْلَةَ ، وَيَسْتَقْبِلُ بِوَجْهِهِ الْقِبْلَةَ ، يُومِئُ إيمَاءً بِرَأْسِهِ.( مصنف ابن ابي شيبة باب من قَالَ :الْمَرِيضُ يُومِئُ إيمَاءً. ۲۷۳/۱)
مسئلہ:اگر اشارہ سر سے ہو تو وہ رکوع اور سجدہ کے قائم مقام ہوگا۔ہاں !اگر اشارہ آنکھ سے یا پلک یا دل سے ہو تو نماز صحیح نہ ہوگی۔ حوالہ
 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ :أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  عَادَ مَرِيضًا ، فَرَآهُ يُصَلِّى عَلَى وِسَادَةٍ ، فَأَخَذَهَا فَرَمَى بِهَا ، فَأَخَذَ عُودًا لَيُصَلِّىَ عَلَيْهِ فَأَخَذَهُ فَرَمَى بِهِ وَقَالَ :« صَلِّ عَلَى الأَرْضِ إِنِ اسْتَطَعْتَ ، وَإِلاَّ فَأَوْمِئْ إِيمَاءً ، وَاجْعَلْ سُجُودَكَ أَخْفَضَ مِنْ رُكُوعِكَ ».(السنن الكبري للبيهقي باب الإِيمَاءِ بِالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ إِذَا عَجَزَ عَنْهُمَا ۳۸۱۹)
مسئلہ: اگر مریض سر سے اشارہ کرنے سے بھی عاجز ہو جائے  اور یہ کیفیت پانچ نمازوں یا اس سے کم وقت تک رہے تو قادر ہو نے کے بعد قضاء کرے، اور اگر اس سے زیادہ ہو جائے تو وہ نمازیں اس سے ساقط ہو جائیں گی۔حوالہ
عن عمار بن ياسر : أنه أغمي عليه أربع صلوات ثم أفاق فقضاها أخبرنا بذلك أبو معشر  المديني عن بعض أصحابه (موطا محمد  باب صلاة المغمى عليه: ۲۷۸)  عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى عَمَّارٍ أَنَّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ أُغْمِىَ عَلَيْهِ فِى الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فَأَفَاقَ نِصْفَ اللَّيْلِ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ (دار قطني باب الرَّجُلُ يُغْمَى عَلَيْهِ وَقَدْ جَاءَ وَقْتُ الصَّلاَةِ هَلْ يَقْضِى أَمْ لاَ: ۱۸۸/۱)  عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أُغْمِىَ عَلَيْهِ أَكْثَرَ مِنْ يَوْمَيْنِ فَلَمْ يَقْضِهِ. (دار قطني باب الرَّجُلُ يُغْمَى عَلَيْهِ وَقَدْ جَاءَ وَقْتُ الصَّلاَةِ هَلْ يَقْضِى أَمْ لاَ ۱۸۸۳) مذکورہ آثار سے معلوم ہوا کہ پانچ یااس سے کم نمازیں ہوتوقضا کرنی ہوگی؛ ورنہ نہیں؛ اس لیے کہ اس سے زیادہ میں حرج ہے۔   فإن لم يستطع الإيماء برأسه:أخر الصلاة ، ولا يومئ بعينيه ولا بقلبه، ولا بحاجبيه؛ لأنه لا عبرة به، عملاً بالحديثين السابقين عن عمران وجابر، ولأن إقامة البدل عن هيئة الصلاة الواجبة شرعاً بالرأي ممتنع، ولا قياس على الرأس؛ لأنه يتأدى به ركن الصلاة،دون العين والحاجبين والقلب. (الفقه الاسلامي وادلته كيفية صلاة العاجز المريض:۱۶/۲)
مسئلہ:جس پر پاگل پن یا بیہوشی طاری ہو جائے اور بیہوشی اور جنون پانچ نمازوں تک یا اس سے کم تک مسلسل رہے تو افاقہ ہو جانے کے بعد اس کی قضا کرے ، اور اگر اس سے زیادہ ہو جائے تو وہ نمازیں اس سے ساقط ہو جائیں گی۔  حوالہ
 عن عمار بن ياسر : أنه أغمي عليه أربع صلوات ثم أفاق فقضاها أخبرنا بذلك أبو معشر  المديني عن بعض أصحابه (موطا محمد  باب صلاة المغمى عليه: ۲۷۸)  عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى عَمَّارٍ أَنَّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ أُغْمِىَ عَلَيْهِ فِى الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فَأَفَاقَ نِصْفَ اللَّيْلِ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ (دار قطني باب الرَّجُلُ يُغْمَى عَلَيْهِ وَقَدْ جَاءَ وَقْتُ الصَّلاَةِ هَلْ يَقْضِى أَمْ لاَ: ۱۸۸/۱)عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أُغْمِىَ عَلَيْهِ أَكْثَرَ مِنْ يَوْمَيْنِ فَلَمْ يَقْضِهِ.(دار قطني باب الرَّجُلُ يُغْمَى عَلَيْهِ وَقَدْ جَاءَ وَقْتُ الصَّلاَةِ هَلْ يَقْضِى أَمْ لاَ ۱۸۸۳)
          مسئلہ:جو شخص کھڑے ہو کر نمازشروع كرے پھر کھڑا نہ رہ سکے تو اگر بیٹھ سکتا ہو تو بیٹھ کر نمازمكمل كرلے اگر بیٹھ بھی نہ سکتا ہو تو لیٹ کر اشارہ سے نماز مکمل کرلے حوالہ
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(بخاري بَاب إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ۱۰۵۰)


No comments:

Post a Comment