Thursday 28 February 2013

مسافر کی نماز


مسافر کی امامت اور اقتدا کا حکم


مسافر کا مقیم کی اقتداء کرنا یا اس کے برعکس صورت
مسئلہ: مسافر کا مقیم کی اقتداء کرنا جائز ہے؛ اور وہ اپنے امام کی متابعت میں چار رکعت نماز مکمل کرے گا؛ اور مقیم کا مسافر کی اقتداء کرنا جائز ہے۔
مسئلہ: اگر مسافر مقیم لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ سلام کے بعد یوں کہے : اپنی نماز کو مکمل کرلو اس لئے کہ میں مسافر ہوں۔قصر کرتا رہے گا۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ وَأَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ وَعُمَرُ بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ وَعُثْمَانُ صَدْرًا مِنْ خِلَافَتِهِ ثُمَّ إِنَّ عُثْمَانَ صَلَّى بَعْدُ أَرْبَعًا فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ صَلَّى أَرْبَعًا وَإِذَا صَلَّاهَا وَحْدَهُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ(مسلم: باب قصر الصلوۃ بمنی )عَنْ أَبِي نَضْرَةَ  أَنَّ فَتًى سَأَلَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ عَنْ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ فَعَدَلَ إِلَى مَجْلِسِ الْعُوقَةِ فَقَالَ إِنَّ هَذَا الْفَتَى سَأَلَنِي عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ فَاحْفَظُوا عَنِّي مَا سَافَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَفَرًا إِلَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى يَرْجِعَ وَإِنَّهُ أَقَامَ بِمَكَّةَ زَمَانَ الْفَتْحِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ لَيْلَةً يُصَلِّي بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ قَالَ أَبِي و حَدَّثَنَاه يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ فِيهِ إِلَّا الْمَغْرِبَ ثُمَّ يَقُولُ يَا أَهْلَ مَكَّةَ قُومُوا فَصَلُّوا رَكْعَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ فَإِنَّا سَفْرٌ (مسند احمد حديث عمران بن حصين رضي الله عنه ۱۹۸۷۸)
بہتر یہ ہے کہ یہ بات نماز شروع کرنے سے پہلے اور نماز سے فراغت کے بعد بھی کہے۔
مسئلہ: جب مقیم مسافر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی نماز مکمل کرنے کے لئے کھڑا ہوگا تو وہ قرأت نہیں کرے گا، بلکہ بغیر قرأت کے لاحق کی طرح اپنی نماز مکمل کرے گا۔
مسئلہ: اگر چار رکعت والی نماز سفر میں چھوٹ جائے تو دو رکعت ہی قضاء کی جائے گی ، خواہ اسے سفر میں قضا کرے یا حضر میں ۔قصر کرتا رہے گا۔ حوالہ
من فاتته صلاة في السفر قضاها في الحضر ركعتين، كما فاتته في السفر، ومن فاتته صلاة في الحضر قضاها في السفر أربعاً؛ لأنه بعدما تقرر لا يتغير؛ ولأن القضاء بحسب الأداء.(الفقه الاسلامي وادلته قضاء الصلاة الفائتة في السفر ۵۰۰/۲)



مسافر کی نماز کا حکم




اللہ تعالی نے فرمایا: جب تم سفر کرو تو تمہارے لئے نماز کے قصر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حوالہ
وَاِذَاضَرَبْتُمْ فِیْ الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوْامِنَ الصَّلَوٰۃْ۔(النساء:۱۰۱)
بخاری، و مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  وہ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ لوٹنے تک دو دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔ حوالہ
(بخاري بَاب مَا جَاءَ فِي التَّقْصِيرِ وَكَمْ يُقِيمُ حَتَّى يَقْصُرَ۱۰۱۹)
کتنی دور کا سفر کرنے سے قصر ضروری ہے؟
سفر کی وہ تھوڑی مقدار جس میں نماز کی قصر کرنا ضروری ہے اور جس کی وجہ سے رمضان میں افطار کی اجازت ہے ، وہ درمیانی چال (پیدل چلنے یا اونٹ پر چلنے) کے اعتبار سے سال کے سب سے چھوٹے دنوں سے تین دن کی مسافت ہے،
مسئلہ:جس شخص نے تین دن کی مسافت کو مثال کے طور پر تیز رفتار سواری ٹرین یا ہوائی جہاز کے ذریعہ ایک گھنٹے میں طے کر لیا اس کیلئے بھی قصر کرنا ضروری ہے،
مسئلہ: مسافر کیلئے قصر کرنا ضروری ہے، سفر میں جس نے اپنی نماز مکمل پڑھی اس نے گناہ کا ارتکاب کیا، مسافرظہر ، عصراورعشاء کی فرض میں قصر کرے گا۔ ان اوقات کی فرض بجائے چار کے دو پڑھے گا، فجر اور مغرب میں قصر نہیں کیا جائے گا۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي الْحَضَرِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي السَّفَرِ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَهَا شَيْئًا وَالْمَغْرِبَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ سَوَاءً ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ لَا تَنْقُصُ فِي الْحَضَرِ وَلَا فِي السَّفَرِ هِيَ وِتْرُ النَّهَارِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ
(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ ۵۰۷)



سفر کی نیت کے صحیح ہونے کی شرطیں




سفر کی نیت کے صحیح ہونے کیلئے تین شرطیں ضروری ہیں۔
(۱) سفر کی نیت کرنے والا بالغ ہو ،لہذااگر وہ بچہ ہو تو اس پر قصر ضروری نہیں ہے۔ حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ(بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَا ۳۱۵/۱۶)
(۲) سفر کی نیت کرنے والا سفر میں مستقل ہو (یعنی کسی کے تابع نہ ہو)
چنانچہ اگر کوئی شخص اپنے سفر میں آزاد نہ ہو بلکہ کسی ایسے شخص کا  تابع ہو، جس نے سفر کی نيت نہ کی ہو ،تو قصر ضروری نہیں ہے۔
لہذا سفر کے سلسلہ میں بیوی کی نیت اگر شوہر نے نیت نہ کی ہو تو معتبر نہیں ہوگی ، اس لئے کہ بیوی شوہر کے تابع ہوتی ہے، اسی طرح اگر آقا نے سفر کی نیت نہ کی ہو تو خادم کی نیت معتبر نہیں ہوگی، اس لئے کہ خادم آقا کے تابع ہوتا ہے، اسی طرح اگر لشکر کے امیر نے سفر کی نیت نہ کی ہو تو سفر کے سلسلہ میں سپاہی کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا اس لئے کہ سپاہی کمانڈر کے تابع ہوتا ہے۔
 حوالہ
وَالْمُعْتَبَرُ فِي النِّيَّةِ هُوَ نِيَّةُ الْأَصْلِ دُونَ التَّابِعِ حَتَّى يَصِيرَ الْعَبْدُ مُسَافِرًا بِنِيَّةِ مَوْلَاهُ ، وَالزَّوْجَةُ بَنِيَّةِ الزَّوْجِ ، وَكُلُّ مَنْ لَزِمَهُ طَاعَةُ غَيْرِهِ كَالسُّلْطَانِ وَأَمِيرِ الْجَيْشِ ؛ لِأَنَّ حُكْمَ التَّبَعِ حُكْمُ الْأَصْلِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ بَيَانُ مَا يَصِيرُ بِهِ الْمُقِيمُ مُسَافِرًا: ۴۰۳/۱)
(۳) سفر کی مسافت پیدل چلنے کے اعتبار سے تین دن سے کم نہ ہو۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ (بخاري بَاب فِي كَمْ يَقْصُرُ الصَّلَاةَ: ۱۰۲۴) عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ قَالَ أَتَيْتُ عَائِشَةَ أَسْأَلُهَا عَنْ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَقَالَتْ عَلَيْكَ بِابْنِ أَبِي طَالِبٍ فَسَلْهُ فَإِنَّهُ كَانَ يُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ فَقَالَ جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ لِلْمُسَافِرِ وَيَوْمًا وَلَيْلَةً لِلْمُقِيمِ (مسلم بَاب التَّوْقِيتِ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ: ۴۱۴)مذکورہ دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ مطلق سفر سے سفرِ شرعی نہیں ہوا کرتا؛ بلکہ تین دن کی مسافت ہی سے سفرشرعی ہوا کرتا ہے؛ اسی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے موزے پرمسح کے متعلق تین دن کی سہولت دی ہے اور تین دن کا سفر ہوتوعورت کے لیے محرم يا شوہرکوساتھ رکھنے کا حکم دیا ہے اور زمانہ نبوت میں جواسفار ہوا کرتے تھے وہ صبح سے لیکر زوال تک ہوا کرتے تھے، فقہاء کرام نے اس کا اعتبار کرتے ہوئے معتدل چال اور استراحت عادیہ کا لحاظ رکھتے ہوئے روزانہ ایک مرحلہ کا طئے کرنا مقرر فرمایا اس طرح تین دن کے تین مرحلے کوسفر شرعی قرار دیا ہے۔




قصر کی شروعات کب ہوگی؟




مسئلہ: سفر کرنے والا جب تک کہ گاؤں سے نکل کر اس کی آبادی سے آگے نہ بڑھ جائے اس کے لئے قصر جائز نہیں ، اسی طرح جب تک کہ شہر سے نکل کر فناء شہر سے آگے نہ بڑھ جائے قصر کرنا جائز  نہیں ہوگا۔
لہذا محض سفر کی نیت سے اس وقت تک قصر جائز نہیں ، جب تک شہر یا گاؤں سے نکل نہ جائے ، اور اسی طرح اپنے گھر سے تو نکل پڑے، لیکن فنائے شہر (یعنی عیدگاہ، قبرستان وغیرہ) یا گاؤں کی آبادی سے آگے نہ بڑھ جائے۔
عن حماد ، قال :سألت إبراهيم :في كم يقصر المسافر الصلاة ؟ فقال :« إذا خرجت من الكوفة إلى المدائن فاقصر حين تخرج من البيوت »(الاثار لابي يوسف في الأضحى ۳۶۹) علي بن ربيعة الاسدي قال :خرجنا مع  علي ونحن ننظر إلى الكوفة ، فصلى ركعتين ، ثم رجع فصلى ركعتين ، وهو ينظر إلى القرية  فقلنا له :ألا تصلي أربعا ؟ قال :حتى ندخلها (مصنف عبد الرزاق باب المسافر متى يقصر إذا خرج مسافرا ۵۲۸/۲)
مسئلہ:قصر ہر سفر کیلئے جائز ہے ، خواہ سفر عبادت کیلئے ہو یا جہاد کیلئے یا کسی مباح کام کیلئے جیسے تجارت کیلئے یا کسی ایسے کام کیلئے جو گناہ کا باعث ہو جیسے چوری کرنا۔حوالہ
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ فَرَضَ اللَّهُ الصَّلَاةَ حِينَ فَرَضَهَا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ وَزِيدَ فِي صَلَاةِ الْحَضَرِ(بخاري بَاب كَيْفَ فُرِضَتْ الصَّلَاةُ فِي الْإِسْرَاءِ ۳۳۷)فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ(البقرة:۱۸۴)عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ قَالَ أَتَيْتُ عَائِشَةَ أَسْأَلُهَا عَنْ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَقَالَ جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ لِلْمُسَافِرِ وَيَوْمًا وَلَيْلَةً لِلْمُقِيمِ(مسلم، بَاب التَّوْقِيتِ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ ۴۱۴)وَلَنَا إطْلَاقُ النُّصُوصِ :أَيْ نُصُوصِ الرُّخْصَةِ (فتح القدير باب صلاة المسافر ۱۹۲/۳)
مسئلہ:اگر مسافر چاروں رکعت پوری کرلے اور پہلی دو رکعتوں کے بعد بیٹھ جائے تو اس کی نماز صحیح ہوگی اور  اخیر کی دو رکعتیں نفل شمار ہوں گی ، لیکن سلام پھیر نے کو اپنی جگہ سے مؤخر کرنے کی وجہ سے یہ نماز مکروہ ہوگی۔حوالہ
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ فَرَضَ اللَّهُ الصَّلَاةَ حِينَ فَرَضَهَا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ وَزِيدَ فِي صَلَاةِ الْحَضَرِ(بخاري بَاب كَيْفَ فُرِضَتْ الصَّلَاةُ فِي الْإِسْرَاءِ ۳۳۷)عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فَرَضَ اللَّهُ الصَّلَاةَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا وَفِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَفِي الْخَوْفِ رَكْعَةً(مسلم بَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا: ۱۱۰۹)  عَنْ إبْرَاهِيمَ ؛ فِي الرَّجُلِ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيرى أَنَّهُمْ صَلَّوْا ، فَافْتَرَضَ الصَّلاَة فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ فَأُقِيمَتِ الصَّلاَة ، قَالَ : يَدْخُلُ مَعَ الإِمَامِ فِي صَلاَتِهِ ، فَإِذَا صَلَّى مَعَ الإِمَامِ رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ يُسَلِّم ، ثُمَّ يَجْعَلُ الرَّكْعَتَيْنِ الأُخْرَيَيْنِ مَعَ الإِمَامِ تَطَوُّعًا.  (مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ يُتِمُّ مَعَ الإِمَامِ مَا بَقِيَ ، وَيَجْعَلُ الْبَاقِيَ تَطَوُّعًا: ۷۸/۲) مذکورہ اثر سے معلوم ہوا کہ زائد رکعتیں نفل ہوجائیں گی۔  ( وَإِنْ صَلَّى أَرْبَعًا وَقَعَدَ فِي الثَّانِيَةِ قَدْرَ التَّشَهُّدِ أَجْزَأَتْهُ الْأُولَيَانِ عَنْ الْفَرْضِ وَالْأُخْرَيَاتُ لَهُ نَافِلَةٌ ) اعْتِبَارًا بِالْفَجْرِ ، وَيَصِيرُ مُسِيئًا لِتَأْخِيرِ السَّلَامِ(الهداية باب صلاة المسافر ۸۰/۱)
مسئلہ:اگر مسافر چاروں رکعت پوری کرلے اور پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد کی مقدار نہ بیٹھے تو اس کی نماز صحیح نہ ہوگی اس لئے کہ قصر ہمارے نزدیک یقینی اور عزیمت(ضروری) ہے ،رخصت کے قبیل سے نہیں ہے۔حوالہ
 عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ{ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمْ الَّذِينَ كَفَرُوا }فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ فَقَالَ عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ(مسلم، بَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا ۱۱۰۸)عن رِفاعۃ بنِ رافِع أن رسول اللہ بینما ہوجالِس… ثم اجلس فاطمئن جالسا ثم قم فإذا فعلت ذلک فقد تمت صلاتک ترمذی، باب ماجاء فی وصف الصلاۃ، حدیث نمبر:۲۷۸۔ وإن لم يقعد في الثانية قدرها بطلت لا ختلاط النافلة بها قبل إكمال أركانها (الهداية باب صلاة المسافر ۸۰/۱)




قصر کی مدت




مسئلہ: مسافر اپنے شہر یا گاؤں واپس آنے تک قصر کرتا رہے گا۔حوالہ
 علي بن ربيعة الاسدي قال :خرجنا مع  علي  ونحن ننظر إلى الكوفة ، فصلى ركعتين ، ثم رجع فصلى ركعتين ، وهو ينظر إلى القرية  فقلنا له :ألا تصلي أربعا ؟ قال :حتى ندخلها (مصنف عبد الرزاق باب المسافر متى يقصر إذا خرج مسافرا ۵۲۸/۲)
مسئلہ:مسافر اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ کسی گاؤں یا شہر میں اقامت کی نیت کرے تو قصر ساقط ہو جائے گا، اور اگر پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کرے تو مسلسل قصر کرتا رہے گا۔اسی طرح اگر اقامت کی نیت نہ کرے اور بغیر اقامت کی نیت کے سالوں سال یوں ہی رہے تب بھی قصر ہی کرتا رہے گا۔حوالہ
عن ابن عمران من نوى الاقامة خمسة عشر يوما اتم الصلوة قال ولم يرو عن احد من السلف خلافه(الجوهر النقي ۱۴۹/۳)عن  أَنَس يَقُولُ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَكَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ قُلْتُ أَقَمْتُمْ بِمَكَّةَ شَيْئًا قَالَ أَقَمْنَا بِهَا عَشْرًا(بخاري بَاب مَا جَاءَ فِي التَّقْصِيرِ وَكَمْ يُقِيمُ حَتَّى يَقْصُرَ ۱۰۱۹)
عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ :أَقَامَ بِوَاسِطٍ سَنَتَيْنِ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ ، إِلاَّ أَنْ يُصَلِّيَ مَعَ قَوْمٍ فَيُصَلِّيَ بِصَلاَتِهِم(مصنف ابن ابي شيبة إذا دخل الْمُسَافِرُ فِي صَلاَةِ الْمُقِيمِ ۳۸۲/۱)




وطن کے اقسام اور اس کے احکام




وطن کی دو قسمیں ہیں: (۱) وطن اصلی (۲)وطن اقامت
(۱) وطن اصلی:یہ وہ جگہ ہے جس کو اس نے وطن بنالیا ہے ، خواہ اس نے وہاں شادی کی ہو یا شادی نہ کی ہو۔
 حوالہ
الوطن الأصلي هو مولد الرجل والبلد الذي هو فيه۔(التعريفات:۸۴/۱)
(۲) وطن اقامت:یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں اس نے پندرہ دن یا اس زیادہ اقامت کی نیت کی ہو۔ حوالہ
  ووطن الإقامة:موضع ينوي أن ستقر فيه خمسة عشر يوماً أو أكثر من غير أن يتخذه مسكناً.(التعريفات:۸۴/۱)
مسئلہ: وطن اصلی وطن اصلی سے باطل ہوجاتا ہے۔ لہذااگر کوئی اپنے پہلے وطن اصلی کو چھوڑ کر دوسرے شہر منتقل ہو جائے اور اسے اپنا وطن بنالے، پھر کسی کام وغیرہ وجہ سے اپنے پہلے وطن کو جائے تو وہاں قصر کرے گا، اس لئے کہ اب وہ اس کا وطن باقی نہیں رہا دوسری جگہ کو اپنا وطن بنا لینے کی وجہ سے۔حوالہ
عن  أَنَس يَقُولُ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَكَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ قُلْتُ أَقَمْتُمْ بِمَكَّةَ شَيْئًا قَالَ أَقَمْنَا بِهَا عَشْرًا(بخاري بَاب مَا جَاءَ فِي التَّقْصِيرِ وَكَمْ يُقِيمُ حَتَّى يَقْصُرَ ۱۰۱۹) وَمَنْ كَانَ لَهُ وَطَنٌ فَانْتَقَلَ عَنْهُ وَاسْتَوْطَنَ غَيْرَهُ ثُمَّ سَافَرَ وَدَخَلَ وَطَنَهُ الْأَوَّلَ قَصَرَ ) ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَبْقَ وَطَنًا لَهُ ؛ أَلَا تَرَى أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ بَعْدَ الْهِجْرَةِ عَدَّ نَفْسَهُ بِمَكَّةَ مِنْ الْمُسَافِرِينَ ؛(الهداية:باب صلاة المسافر ۸۰/۱)
مسئلہ: وطن اقامت دوسرے وطن اقامت سے باطل ہو جاتا ہے۔ اور وطن اقامت وہاں سے دوسری جگہ کا سفر کرنے سے بھی باطل ہوجاتا ہے اور وطن اقامت ، وطن اصلی  کی طرف لوٹ جانے سےبھی باطل ہو جاتا ہےحوالہ
 وَوَطَنُ الْإِقَامَةِ يَبْطُلُ بِمِثْلِهِ وَبِالسَّفَرِ وَبِالْأَصْلِيِّ (الهداية:باب صلاة المسافر ۸۰/۱)

http://islamicbookslibrary.wordpress.com/2012/02/27/musafat-e-safar-ka-shumar-kahan-say-hoga-by-shaykh-mufti-shoaibullah-khan-miftahi/

No comments:

Post a Comment