Friday 8 March 2013

صدقہ فطر


صدقہ فطرکامقصد



صدقۂ فطر ہر وہ مال ہوتا ہے جسے مسلمان عید کے دن اپنے آپ کو پاک کرنے کی نیت سے اپنے مال میں سے محتاجوں کیلئے نکالتے ہیں، اور اس سے اس کے روزہ میں پیدا شدہ خلل جیسے لغویات یا فحش بات کی تلافی مقصود ہوتی ہے۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ فطر روزہ دار کیلئے لغو بات چیت ،گالی گلوج سے پاکی ہے اور مسکینوں کیلئے کھانا ہے۔
 حوالہ
        قَالَ عَبْدُاللہ بن عَبَّاس رضی اللہ عَنْہ:فَرَضَ رَسُوْلُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زَکَاۃُ الْفِطْرِطُھْرَۃً لِلصَّائِم مِنَ اللَّغْوِ وَ الرَّفَثِ وَطُعْمَۃُ لِلْمَسَاکِیْنِ (ابوداود بَاب زَكَاةِ الْفِطْرِ ۱۳۷۱)۔




صدقہ فطر کن پر واجب ہے؟




جس شخص میں تین شرطیں پائی جائیں اس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے۔
(۱)مسلمان ہو، کافر پر صدقہ فطر واجب نہیں ۔ حوالہ
 عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنْ المسلمین(بخاري بَاب فَرْضِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ ۱۴۰۷)
(۲)آزاد ہو، غلام پر صدقہ فطر واجب نہیں۔ حوالہ
 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  النَّاسَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ فَقَالَ « أَدُّوا صَاعًا مِنْ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَنْ كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ وَصَغِيرٍ وَكَبِيرٍ (دار قطني زكاة الفطر ۲۱۴۱)
(۳)اپنے قرضے اور اصل ضروریات اور اہل و عیال کی ضروریات کے علاوہ نصاب کا مالک ہو لہذا اس شخص پر جو قرض اور حوائج اصلیہ سے زائد نصاب   کا مالک نہ ہو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ۔ حوالہ
 وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى (بخاري بَاب تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى { مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ } ۲۸۵/۹)
مندرجہ ذیل چیزیں حوائج اصلیہ میں داخل ہیں:
(الف) اس کا گھر                         (ب) گھر کے سازوسامان                          (ج) اس کے کپڑے            
(د) اس کی سواری                        (ہ) وہ ساز و سامان جس سے وہ اپنے حصول معاش میں مدد لیتا ہو۔ حوالہ
 الفاضل عن حاجته الأصلية:(من مسكن وثياب وأثاث ـ متاع البيت ـ وفرس وسلاح وخادم، ومن حوائج عياله أيضاً، ومن دينه كذلك (الفقه الاسلامي وادلته  مشروعية صدقة الفطر وحكمها ومن يؤمر بها ۳۷۶/۳)
          مسئلہ:صدقہ فطر واجب ہونے کے لئے نصاب پر سال کا گذرنا شرط نہیں ہے۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  النَّاسَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ فَقَالَ « أَدُّوا صَاعًا مِنْ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَنْ كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ وَصَغِيرٍ وَكَبِيرٍ (دار قطني زكاة الفطر ۲۱۴۱) مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سال گذرنے کی شرط لگائے بغیر صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم فرمایا، اس لیے فقہاءِ کرام صدقہ فطر کے وجوب کے لیے مذکورہ شرط نہیں لگاتے ہیں۔
          مسئلہ:صدقہ فطر کے وجوب کیلئے عید کے دن طلوع فجر کے وقت نصاب کا مالک ہونا شرط ہے حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ قَالَ وَفِطْرُكُمْ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَأَضْحَاكُمْ يَوْمَ تُضَحُّونَ وَكُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ مَنْحَرٌ وَكُلُّ جَمْعٍ مَوْقِفٌ(ابوداود بَاب إِذَا أَخْطَأَ الْقَوْمُ الْهِلَالَ:۱۹۷۹) أَيْ وَقْتُ فِطْرِكُمْ يَوْمَ تُفْطِرُونَ خَصَّ وَقْتَ الْفِطْرِ بِيَوْمِ الْفِطْرِ حَيْثُ أَضَافَهُ إلَى الْيَوْمِ ، وَالْإِضَافَةُ لِلِاخْتِصَاصِ فَيَقْتَضِي اخْتِصَاصَ الْوَقْتِ بِالْفِطْرِ يَظْهَرُ بِالْيَوْمِ وَإِلَّا فَاللَّيَالِي كُلُّهَا فِي حَقِّ الْفِطْرِ سَوَاءٌ فَلَا يَظْهَرُ الِاخْتِصَاصُ وَبِهِ تَبَيَّنَ أَنَّ الْمُرَادَ مِنْ قَوْلِهِ صَدَقَةُ الْفِطْرِ أَيْ صَدَقَةُ يَوْمِ الْفِطْرِ فَكَانَتْ الصَّدَقَةُ مُضَافَةً إلَى يَوْمِ الْفِطْرِ فَكَانَ سَبَبًا لِوُجُوبِهَا (بدائع الصنائع فَصْلٌ وَقْتُ وُجُوبِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ: ۱۳۲/۴)۔
مسئلہ: صدقہ فطر واجب ہونے کیلئے بالغ یا عاقل ہونا شرط نہیں بلکہ اگربچہ اور مجنون بھی نصاب کے مالک ہوں تو ان کے مال سے صدقہ فطر نکالا جائے۔ حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم النَّاسَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ فَقَالَ « أَدُّوا صَاعًا مِنْ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَنْ كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ وَصَغِيرٍ وَكَبِيرٍ (دار قطني زكاة الفطر ۲۱۴۱)




صدقہ فطر کس کی طرف سے نکالا جائے گا؟




درج ذیل افراد کی جانب سےصدقۂ فطر نکالنا ضروری ہے۔
(۱) اپنی جانب سے۔  (۲) اپنے چھوٹے محتاج بچوں کی طرف سے۔(۳) ہاں اگر وہ مالدار ہوں تو صدقہ فطر انہی کے مال سے نکالا جائے،
مسئلہ:شوہر پر ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کی طرف سے صدقہ فطر نکالے، لیکن اگر بیوی پر احسان کرے تو جائز ہے، اسی طرح باپ پر اپنے بڑے باشعور بچوں کی جانب سے صدقہ فطر نکالنا واجب نہیں ، لیکن اگر وہ ان پر احسان کرے تو جائز ہے، ہاں اگر اولاد محتاج و مجنون ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا واجب ہے۔ حوالہ
عن أَبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ يَقُولُ كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا عَنْ كُلِّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ حُرٍّ وَمَمْلُوكٍ مِنْ ثَلَاثَةِ أَصْنَافٍ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ (مسلم، بَاب زَكَاةِ الْفِطْرِ عَلَى الْمسلم،ينَ مِنْ التَّمْرِ وَالشَّعِيرِ ۱۶۴۲)عَنْ أَسْمَاءَ ؛ أَنَّهَا كَانَتْ تُعْطِي صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَمَّنْ تَمُونُ مِنْ أَهْلِهَا ؛ الشَّاهِدِ وَالْغَائِبِ. (مصنف ابن ابي شيبة مَا قَالُوا فِي الْعَبْدِ يَكُونُ غَائِبًا فِي أَرْضٍ لِمَوْلاَهُ ، يُعْطِي عَنْهُ ۱۷۵/۳) وَأَمَّا الْوَلَدُ الْكَبِيرُ الْمَجْنُونُ إذَا كَانَ فَقِيرًا إنْ بَلَغَ مَجْنُونًا فَفِطْرَتُهُ عَلَى أَبِيهِ وَإِنْ بَلَغَ مُفِيقًا ثُمَّ جُنَّ فَلَا فِطْرَةَ عَلَى أَبِيهِ لِأَنَّهُ إذَا بَلَغَ مَجْنُونًا فَقَدْ اسْتَمَرَّتْ الْوِلَايَةُ عَلَيْهِ وَإِذَا أَفَاقَ فَقَدْ انْقَلَبَتْ الْوِلَايَةُ إلَيْهِ (الجوهرة النيرة بَابُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ: ۵/۲)۔




صدقہ فطر کی مقدار




      وہ چیزیں جن کا صدقہ فطر کے حوالہ سے نصوص میں ذکر آیا ہے چار ہیں:
           (۱) گیہوں،               (۲) جَو،               (۳) کھجور،               (۴) مُنَقّٰی۔
مسئلہ: صدقۂ فطر ایک فرد کی طرف سے گیہوں یا آٹا یا اس کے ستو سے آدھا صاع ، یا کھجور یا منقّٰی  یا جومیں سے ایک صاع ہے۔ اور جو شخص دوسرے غلوں سے صدقہ فطر نکالنا چاہے تو یہ بھی جائز ہے ، لیکن اس پر ضروری ہے گیہوں میں سے آدھا اور جَووغیرہ میں سے ایک صاع کے برابر مقدار نکالے۔حوالہ
 عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَرَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ أَوْ قَالَ رَمَضَانَ عَلَى الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ فَعَدَلَ النَّاسُ بِهِ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ (بخاري بَاب صَدَقَةِ الْفِطْرِ عَلَى الْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ ۱۴۱۵) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  النَّاسَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ فَقَالَ « أَدُّوا صَاعًا مِنْ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَنْ كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ وَصَغِيرٍ وَكَبِيرٍ (دار قطني زكاة الفطر ۲۱۴۱) عن أَبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ يَقُولُ كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا عَنْ كُلِّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ حُرٍّ وَمَمْلُوكٍ مِنْ ثَلَاثَةِ أَصْنَافٍ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ (مسلم، بَاب زَكَاةِ الْفِطْرِ عَلَىالمسلمینمِنْ التَّمْرِ وَالشَّعِيرِ ۱۶۴۲) عن أبي سعيد الخدري، قال:لا أخرج أبدا إلا صاعا، إناذكر الإباحة للمرء أن يخرج في صدقة الفطر صاع زبيب (صحيح ابن حبان ذكر الإباحة للمرء أن يخرج في صدقة الفطر صاع زبيب ۳۳۰۷)
مسئلہ: صدقہ فطر کی قیمت کو نقدی کی شکل میں نکالنا بھی جائز ہے ، بلکہ یہ بہتر ہے اس لئے کہ اس میں فقیروں کیلئے زیادہ نفع ہے۔حوالہ
  عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ :لاَ بَأْسَ أَنْ تُعْطِيَ الدَّرَاهِمَ فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ.(مصنف ابن ابي شيبة فِي إِعْطَاءِ الدِّرْهَمِ فِي زَكَاةِ الْفِطْرِ ۱۷۴/۳)۔
مسئلہ: صدقہ فطر ایک فرد کی طرف سے کئی مسکینوں کو دینا جائز ہے اس طرح کئی لوگوں کی طرف سے ایک مسکین کو دینا بھی جائز ہے۔حوالہ

  وَيَجُوزُ أَنْ يُعْطَى مَا يَجِبُ فِي صَدَقَةِ الْفِطْر عَنْ إنْسَانٍ وَاحِدٍ جَمَاعَةً مَسَاكِينَ وَيُعْطَى مَا يَجِبُ عَنْ جَمَاعَةٍ مِسْكِينًا وَاحِدًا ؛ لِأَنَّ الْوَاجِبَ زَكَاةٌ فَجَازَ جَمْعُهَا وَتَفْرِيقُهَا كَزَكَاةِ الْمَالِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ رُكْنُ صدقة الفطر: ۱۳۵/۴)۔
مسئلہ: صدقہ فطر کے مصارف بعینہٖ زکوۃ کے مصارف ہیں جن کے سلسلہ میں آیت کریمہ میں نص وارد ہوئی ہے۔حوالہ

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ۔۔۔۔۔۔الایۃ (التوبة:۶۰) عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ :لاَ بَأْسَ أَنْ تُعْطِيَ الدَّرَاهِمَ فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ.(مصنف ابن ابي شيبة فِي إِعْطَاءِ الدِّرْهَمِ فِي زَكَاةِ الْفِطْرِ ۱۷۴/۳)
 مصارف زکوۃ کی بحث میں اس کا تفصیلی ذکر آئے گا۔ انشاء اللہ۔

No comments:

Post a Comment